خطبہ ٴ غدیر کے اغراض و مقاصد کا جائزہ

غدیر کی تقریر کی خاص اھمیت، مخصوص کیفیت اور تقریر کرنے والے اور سننے والوں[1] کے جداگانہ شرائط کے پیش نظر ،اور ان باتوں کے باوجود کہ غدیر کے مخاطبوں کی اساس و بنیاد پر ھی ساری دنیا کے قیامت تک آنے والے مسلمانوںکی زندگی استوار هو گی لہٰذا پیغمبر اکرم(ص) نے اس خطبہ میںجن بنیادی اوراعتقادی مسائل کو مسلمانوں کیلئے دائمی راہ و روش اور پشت پناھی کے طورپر معین فرمایا تھا ان کی جمع بندی کرنا ضروری ھے ۔ 

ان نتائج کے ماتحت جو خطبہ غدیر کے مطالب سے ماخوذھیں یہ معلوم هو جا ئیگا کہ امت کو گمراہ کرنے والے اور خداوند عالم کے دین میں تحریف کرنے والے خداوند متعال اور اسکے پیغمبر کے سامنے کس طرح کھڑے هوگئے اور لوگوں کوجنت کے راہ مستقیم سے منحرف کردیا جو تمام انبیاء علیھم السلام اور پیغمبر اکرم(ص) کی مسلسل تیئس سالہ کاوشوںاور زحمتوں کا نتیجہ تھا اور جس سے استفادہ اور ثمرحاصل کرنے کا وقت آن پہنچا تھا ،اس سے ہٹاکر مسلمانوں کو بڑی تیزی کے ساتھ جہنم کے راستہ پر گامزن کردیا اور پیغمبر اکرم(ص) کے بیان کردہ بنیادی عقائدوغیرہ کے مقابلہ میں مسلمانوں کےلئے ایک طولانی انحراف کے ستونوں کو مستحکم کردیا واضح ر ھے کہ جو بھی مطالب خطبہ کے متن سے اخذ کئے گئے ھیں اور بعض مقامات پر تھوڑی وضاحت و تشریح کے ساتھ ذکرهوئے ھیں ۔خطبہ کی اصل عبارت کواس کتاب کے چھٹے اور ساتویں حصہ نیز چو تھے حصہ کے تیسرے جزء میں خطبہ کی مو ضوعی تقسیم کے اندر ملاحظہ کیا جاسکتاھے ۔ 

خطبہ ٴ غدیر کے مطالب کی جمع بندی 

خطبہٴ غدیر میں گفتگو کا محور

جب پیغمبر اکرم(ص) پر خداوند عالم کی جا نب سے ”حجة الوداع “کا حکم نا زل هوا تو خطاب الٰھی اس طرح تھا کہ حج اور ولایت[2] کے علا وہ تمام الٰھی پیغام لوگوں تک پهونچ چکے ھیں ۔حج کے اعمال بھی اس طو لانی سفر میں مکمل طور پر بیان هو ئے اور غدیر کےلئے صرف ایک موضوع ”ولایت “ باقی رہ گیا تھا ۔ 

پیغمبر اکرم(ص) کا خطبہ ٴ غدیر میں ایک اساسی اور بنیادی مقصد تھا جس کا نچوڑ (خلاصہ ) اس جملہ میں کیا جا سکتا ھے : 

”اپنے بعد قیا مت تک بارہ اماموں کی امامت اور ولایت کا اعلان “ 

پور ی دقت کے ساتھ پورے خطبہ میں یہ نکتہ مکمل طور پر واضح و روشن ھے کہ رسول اسلام(ص) نے اپنی گفتگو کا محور بارہ اماموںکی ولایت کو قرار دیا اور اپنی گفتگو کے اختتام تک اسی مو ضوع پر گفتگو فر ماتے رھے اور اگر درمیان میں کچھ دو سرے مطالب بھی بیان فر مائے تو بھی ان کا اسی اصل مطلب سے بلا واسطہ تعلق ھے ۔ 

پھلی دقت نظر میں یہ ادعا کیا جا سکتا ھے کہ آنحضرت (ص) کا کلام اس گفتگو میں ان تین باتوں پر مشتمل تھا :خطبہ میں کچھ مطالب صاف طور پر ولایت اور اما مت کے سلسلہ میں بیان هو ئے ھیں ۔ 

اور کچھ مطالب موضوع ولایت کے لئے تمھید ی طور پر بیا ن هو ئے ھیں ،کچھ مطالب امامت کے متعلق، ائمہ کی ولایت کی حدود،ان کے فضائل ،ان کے معا شرتی پروگرام ،نیز ان کے دشمنوں کے متعلق اور گمراہ اور منحرف هو جانے والے افراد کے سلسلہ میں بیان فر مائے ۔

خطبہ ٴغدیر میں بیان هونے والے مو ضوعات اور کلمات کی تعداد 

ھم تین اھم پھلوؤں کی تعداد کے اعتبار سے پورے خطبہ کا جا ئزہ لیتے ھیں: 

پھلے آنحضرت (ص) کے پیش نظر موضوعات کے اعتبار سے اور ھر مو ضوع سے متعلق جملوں کی تعداد مندرجہ ذیل ھے : 

۱۔ خدا وند عالم کے صفات :۱۱۰ جملے ۔ 

۲۔پیغمبر اکرم(ص) کا مقام :۱۰ جملے ۔ 

۳۔ولایت امیر المو منین علیہ السلام :۵۰ جملے ۔ 

۴۔ولایت ائمہ علیھم السلام :۱۰جملے ۔ 

۵۔فضائل امیر المو منین علیہ السلام :۲۰ جملے ۔ 

۶۔حضرت مھدی علیہ السلام کی حکومت :۲۰ جملے ۔ 

۷۔اھل بیت علیھم السلام کے شیعہ اور ان کے دشمن :۲۵جملے ۔ 

۸۔ائمہ علیھم السلام کے ساتھ بیعت :۱۰ جملے ۔ 

۹۔قرآن اور اس کی تفسیر ۱۲جملے ۔ 

۱۰۔حلال و حرام، واجبات اور محرمات :۲۰جملے ۔ 

دو سرے :ان اسماء اور کلمات کی تعداد جو خطبہ میں استعمال هو ئے ھیں جن سے خطبہ کی اھمیت کا اندازہ هوتاھے : 

۱۔امیر المو منین علیہ السلام کا اسم مبارک ”علی علیہ السلام “کے عنوان سے چالیس مرتبہ آیا ھے ۔ 

۲۔کلمہ ٴ ” ائمہ علیھم السلام “ دس مرتبہ آیا ھے ۔ 

۳۔امام زمانہ علیہ السلام کا اسم مبارک ”مھدی علیہ السلام “کے عنوان سے چار مرتبہ ذکر هوا ھے 

البتہ اکثر خطبہ ائمہ علیھم السلام کے سلسلہ میں ھے جو ضمیر یا اشارہ یا عطف کے ذریعہ بیان هوا ھے اسی طرح بہت سے مطالب حضرت بقیة اللہ الاعظم کے سلسلہ میں آئے ھیں ۔مذکورہ مطالب سے مراد پیغمبر اکرم(ص) کا ان اسماء مبارک کو صاف طور پر بیان کرنا ھے جو ان کی فوق العادہ اھمیت کو بیان کرنا ھے 

تیسرے :قرآن کریم کی ان آیات کی تعداد جو شاھد کے عنوان سے یا تفسیر کےلئے خطبہ میں بیان هو ئی ھیں ۔خطبہ میں بعض مقامات پر قرآن کریم کی بہت سی آیات کو استشھاد کے طور پر پیش کرنا اس کے برجستہ نکات ھیں ۔خطبہ ٴ غدیر میں شاھد یا تفسیر کے عنوان سے بیان هو نے والی آیات کی تعداد ۵۰ ھے جو اسلام کی اس بڑی سند کو جلو ہ نما کر تی ھیں ۔ 

اھل بیت علیھم السلام کی شان میں ۲۵ آیات اور اھل بیت علیھم السلام کے دشمنوں کے سلسلہ میں ۱۵ آیات خطبہ کے اھم نکات میں سے ھے ۔ 

قرآن کی کریم کی دس سے زیادہ آیات واقعہٴ غدیر کے ایام میں نازل هو ئی ھیں اور اس کا آشکار نمو نہ یہ آیات:یَاَیُّھَاالرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَااُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ ربِّکَ>،اور ھیں ۔ 

یہ خطبہ کے اھم مقامات کی مختصر سی تعداد ھے ۔خطبہ کا دقیق طور پرمطالعہ کرنے کے بعد جاذب نظر اور دقیق تعداد کو اخذ کیا جا سکتا ھے ۔ 

[1] اس سلسلہ میں ضروری وضاحت پھلے حصہ کے دوسرے جزء میں گذر چکی ھے ۔ 

[2] اس سلسلہ میں اسی کتاب کے دوسرے حصہ کے پھلے جزء میں رجوع کیا جا ئے ۔

 

تبصرے
Loading...