جوانی روایات کی روشنی میں

قَال الصادق علیہ السلام” اجتھدتُ فی العبادۃ وانا شابٌ فقال لی ابی  یا بنّی دون ما اراک  تصنع  فانّ اللہ عزّو جل اذا احبّ عبدا رضی منہ بالیسیرِ”[1]

میں  جوانی میں عبادت کے سلسلے میں  کوشاں رہتا تھا کی  میرے والد نے مجھ سے فرمایا: آپ اتنی زیادہ عبادت انجام نہ دیں، کیونکہ  جب خدا اپنے بندے  کو چاہتا ہے تو اس کی قلیل عبادت سے بھی راضی ہوجاتا ہے۔

جوانی انسان کی بہار اور اس کی روح کی فصل ہے جس طرح درختوں کی شاخیں اور ٹہنیاں موسم بہار میں نکھرتی ہیں، جس طرح درخت  نور  کی جانب رشد کرتے ہیں اسی طرح انسان کی روح بھی جب نور کو دیکھتی ہے تو اس کی سمت بڑھنے کی کوشش کرتی ہےجوانی کو غنیمت شمار کرنے کی وجہ یہ ہے کہ جوانی روحی اور معنوی صلاحیتوں کے باآور ہونے کا وقت ہے  یہ ایسی صلاحیتیں ہیں کہ اگر بار آور ہوجائیں تو ان کے نتیجہ میں انسان کی بقیہ عمر بڑھاپے تک انہی کے سایہ میں پروان چڑھتی ہے ۔

ایک نوجوان کی ضروریات کو پورا کرنا بھی اسی چیز میں پوشیدہ ہے  کیونکہ اگر اس کی روح بیمار رہے اور وہ صرف اپنے جسم کی بدولت امور انجام دے تو ایسی صورت میں ایک نوجوان کے اندر جو نشاط پیدا ہونا چاہئے وہ  بھی پیدا نہیں ہوسکتا  کیونکہ روح ایک ایسی خصوصیت ہے جس کی جگہ کو کوئی چیز بھی نہیں لے سکتی۔

ایک نوجوان کے کاندھوں پہ صرف  اسی صورت میں زمہ داریاں  کا بوجھ ڈالا جا سکتا ہے جب اس کی روح  میں تکامل پایا جائے ، وہ نوجوان جو تمام  ذرائع کے باوجود فساد اور گمراہی  کا راستہ اختیار کرتے ہیں اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کی روح آلودہ ہے۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا”تم میں سے کوئی بھی  جوانی پر اعتراض نہ کرے  کیونکہ انسان کی فضیلت کا معیار عمر کا زیادہ ہونا یا  بڑھاپا نہیں  بلکہ اس کے برخلاف انسان کی عظمت اس کے معنوی کمال اور فضیلت میں پوشیدہ ہے۔[2]   

[1] کافی ،ج۲ ص۸۷

[2] بحارالانوار،ج۲،ص۱۲۱

 

تبصرے
Loading...