تیرے قدموں کے نشاں دل میں ہیں

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

تیرے قدموں کے نشاں دل میں ہیں

نذر حافی

nazarhaffi@yahoo.com

میں ایک شہید پرور قوم سے تعلق رکھتاہوں، میرے سینے میں فلسطین سے لے کر کشمیر تک ہرمظلوم کی ہمدردی ٹھاٹھیں مار رہی ہے، میری ڈائری میں ملت اسلامیہ کے بڑے بڑے نامی گرامی شہیدوں کی تاریخِ شہادت اور مقاِ م شہادت سمیت بہت کچھ لکھا ہواہے۔

میں اگر شہادت کے موضوع پر لکھنا شروع کردوں تو احسان دانش اور جوش جیسے منظرنگاروں کے کان کتر ڈالوں اور اگر میں شہید کی عظمت کے بارے میں اپنی زبان کھول دوں تو دنیا، خطابتِ اجتہادی، سخنِ ترابی اورولولہ عابدی کو بھول جائے ۔۔۔ میں اگر منطقِ شہادت جھاڑنے بیٹھ جاوں تو دنیا مقالاتِ افلاطون کو فراموش کردے اور اگر شہید کے فلسفہ حیات کو چھیڑدوں تو محمد حسین آزاد اپنی “آبِ حیات” کو بھول جائیں۔۔۔

یہ اعزا ز مجھے اس لئے حاصل ہے کہ میں ایک شہید پرور قوم سے تعلق رکھتاہوں۔۔۔ مجھے یہ فخر حاصل ہے کہ میراپسندیدہ نعرہ صرف اور صرف یہ ہے کہ”شہید کی جوموت ہے وہ قوم کی حیات ہے”

البتہ آپ کی اطلاع کے لئے عرض کردوں کہ مجھے یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ میری ڈائری کے کسی ورق پر بھی اور میری یاداشت کے کسی صفحے پر بھی اس شہید کا نام موجود نہیں جسے پاکستان میں ملت جعفریہ کا پہلا شہید ہونے کا شرف حاصل ہے۔ مجھے اس شہید کے مقامِ شہادت اور تاریخِ شہادت تک کی خبر نہیں، میرے پاس اس شہید کے لئے کوئی لفظ کوئی اشک اور کوئی آہ نہیں۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ ایک عام شخص تھا اور ہمارے ہاں عام شخص کے خون اور پانی میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔

زیادہ پرانی بات نہیں ۱۹۸۰کی دہائی تھی، ملک پر مارشل لاء کا بھوت سوار تھا۔ حکومتی اداروں پر قابض دیو جمہوری قدروں کو اپنے بوٹوں تلے روندنے کے بعد کسی اگلے شکار کی تلاش میں تھے کہ ۲۰جنوری۱۹۸۰ء کو اسلام آباد کی لال مسجد سے حاکم وقت نے زکوٰۃ آرڈیننس کے نام پر ایک شریعت شکن حکم نامہ جاری کیا۔ جس سے اسلامی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ ۲۰جنوری سے لیکر ۵جولائی۱۹۸۰ء تک علماء کے وفود آمرِ وقت سے ملاقاتیں کرتے رہے۔ دانشور مشورے بھیجتے رہے، سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے قصرِ شاہی کی طرف تار اور پیغامات ارسال کرتے رہے لیکن طاغوت کی شہ پر آمرِوقت اپنی ضد پر ڈٹا رہا۔ اسے معلوم تھا کہ خزانے اس کے ہاتھ میں ہیں، میڈیا اس کی گرفت میں ہے، لوٹے اور لٹیرے اس کے ساتھ ہیں، درباری مولوی اور سرکاری مفتی اس کے سامنے دم ہلا رہے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پہیہ گردش کر رہا ہے۔

بالآخر ۴جولائی ۱۹۸۰ءکا سویرا طلوع ہوا۔ اس روز وطن کی مٹی کے رنگ کی وردی پہن کر شریعت اور اسلام پر حملہ کرنے والوں کے چھکے چھوٹ گئے۔ اسلام آباد سے لیکر وائٹ ہاوس تک ہر چمچہ دھک سے رہ گیا۔ سرکاری اور درباری دبک کر سب اپنے اپنے بلوں میں گھس گئے اور پہیہ جام ہو گیا۔ اس روز ملک بھر سے علامہ مفتی جعفر حسین (رح) کی آواز پر ہزاروں فرزندان اسلام، اسلام آباد میں جمع ہو گئے تھے اور کیونکر جمع نہ ہوتے یہ جوان آمریت کے خلاف بوڑھے مجاہد اسلام کی آواز تھی۔ یہ ایک متشدد آمر کے خلاف مخلص عالم دین کی آواز تھی۔ یہ ایک مکار حاکم کے خلاف مظلوم اسلام کی آواز تھی۔ یہ طاقت کے کالے قانون کے خلاف اسلام کے اجالے کی آواز تھی۔ یہ یورپ کی مستیوں میں مست جرنیلوں کے خلاف خشک نان جویں کھانے والے درویش کی آواز تھی۔ اس آواز کا بلند ہونا تھا کہ فدائیان اسلام نے اپنے رہنما کے گرد جمع ہوکر زکوٰۃ وعشر کے نفاذ کے اعلان کو آمر کے منہ پر دے مارا۔ ۵ جولائی کی شام کو کنونشن جب تمام ہوا تو احساسِ کمتری میں مبتلا انتظامی اداروں کے کہنے پر پولیس کے روپ میں کرائے کے قاتلوں نے ہزاروں فرزندانِ اسلام پر گولی چلا دی۔ ۵جولائی کو شام ۵ بجے کے قریب ضلع سرگودھا کا ایک نوجوان “محمد حسین شاد” سر پر گولی لگنے سے شہید ہو گیا۔ اس شہید کے خون کی برکت نے لوگوں کے سینوں کو سنگینوں کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنا دیا۔ یہ بظاہر ایک شخص کا قتل تھا لیکن یہ پوری ملت کی وحدت اور یکجہتی کا باعث بن گیا۔ محمد حسین شاد کی لاش کے گرنے کے بعدگھنٹوں آنسوگیس، پتھر لاٹھیاں اور گولیاں چلتی رہیں، متعدد افراد زخمی ہو گئے، خون کی موجوں نے پولیس اور فوج کے طوفان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ بالاخرطاغوتی حکومت کی تنخواہ دار عسکری طاقت نے خالی ہاتھ اور تہی دست لوگوں کے حوصلے کےسامنے سر خم کر دیا اور نظام مصطفی کے حقیقی داعی نے بےسروسامانی کے عالم میں سیکریٹریٹ پر قبضہ کر کے فراعنۂ وقت پر یہ ثابت کردیا کہ تم طاقت سے فقط بدنوں پر حکومت کرتے ہو اور ہم صبر سے دلوں پر حکومت کرتے ہیں۔

محترم قارئین! محمد حسین شاد اگرچہ ایک عام شخص تھا لیکن اس کے رہبر کے نزدیک اس کا خون اتنا محترم اور مقدس تھا کہ محمد حسین شاد کو پاکستان میں ملت جعفریہ کا پہلا شہید تسلیم کیاگیا نیزمحمد حسین شاد کی شہادت کے بعد کئی سالوں تک جب عزاداری کے جلوس محمد حسین شاد کے مقامِ شہادت کے پاس سے گزرتے تھے تو وہاں پر کچھ دیر جلوس کو روک کر محمد حسین شاد کے لئے فاتحہ پڑھی جاتی تھی اور ماتم داری کی جاتی تھی۔ راقم الحروف خود بھی اس امرکاگواہ ہے کہ محرم الحرام میں امام بارگاہ جی سکس ٹو اسلام آباد کے نزدیک محمد حسین شاد کے مقامِ شہادت کے پاس موصوف کی یاد منانا مومنین کے درمیان مرسوم تھا اور نئی نسل کو وہیں پر محمد حسین شاد کی آگاہی حاصل ہوا کرتی تھی لیکن اب محمد حسین شاد کا نام بھی کہیں نہیں لیا جاتا۔

پاکستان کے سیکرٹریٹ پر ملت جعفریہ کے قبضے کا ورق محمد حسین شاد کے خون سے تربتر ہے۔ قبضہ ہونے کے بعد ۵جولائی کی یہ شب پہلے سے کئی گنا زیادہ گھمبیرمسائل لے کر فلک پر نمودار ہوئی۔ مظاہرین کے گرد لشکر یزید نے خاردار تاروں کا حصار کر کے ان کا پانی تک بند کر دیا۔ یہ شب ایک مرتبہ پھر شب عاشور کے زخم تازہ کر گئی۔ آج پھر محبان حسین (ع) یزید وقت کی فوجوں کے حصار میں تھے۔ جیسے جیسے رات ڈھل رہی تھی گویا روزِعاشور قریب تر ہوتا جا رہا تھا۔ یزید کے لشکری، مظاہرین پر رائفلیں تانے فائر کھولنے کے حکم کے منتظر بیٹھے تھے اور دوسری طرف جی سکس ٹو کی امام بارگاہ میں”شاد” کی لاش ایک نئے احتجاج کا مقدمہ فراہم کر رہی تھی۔ بظاہر “شاد” کی شہادت ایک عام شخص کی شہادت تھی لیکن اس کے تصور سے ہی حکمرانوں کے بدن میں خوف کے مارے چیونٹیاں دوڑ رہی تھیں، چنانچہ ایک طرف تو مظاہرین کی ناکہ بندی کی گئی اور دوسری طرف اس لاش کو دفنانے کی فکر حکمرانوں کو کھائے جارہی تھی۔ حکومت کی طرف سےلاش کو دفنانے کے حوالے سے جی سکس ٹو میں آئی ایس او کے مسئول سے بات کی جس نے انہیں جواب دیا کہ میں مفتی جعفر حسین صاحب سے پوچھتا ہوں۔ اگر انہوں نے اجازت دی تو ہم اس برادر کی لاش کو دفنائیں گے چنانچہ مفتی صاحب نے اجازت دے دی۔

۶جولائی کو تین بجے صبح “شاد” کی نماز جنازہ ادا کی گئی۔ حکومت نے جنازہ لے جانے کے لیے ایک ہیلی کاپٹر کا انتظام کیا اور میت کے ہمراہ ۲۰ ہزار روپے بھی شہید کے ورثاء کے لیے بھیجے لیکن شہید کے وارثوں نے روپے سرکاری چمچوں کو واپس تھما دئیے۔ اب دوسری طرف سیکریڑیٹ میں ۶جولائی کو کاروبار حکومت بند رہا۔ ہزاروں بھوکے، پیاسے اور نہتے مظاہرین کے گرد پولیس اور فوج موت کے بادلوں کی طرح منڈلا رہی تھی لیکن حکومت جانتی تھی کہ ہزاروں کا یہ مجمع بھوکا اور پیاسا ہے تو ان کا رہبر بھی بھوکا اور پیاسا ہے۔ اگر یہ لوگ فوج اور پولیس کے گھیراو میں ہیں تو ان کا قائد بھی پولیس اور فوج کے حصار میں موجود ہے۔ چنانچہ بدمست حکمرانوں کے دماغ سے طاقت کا نشہ اُتر گیا۔ مطلق العنان اختیارات کے مالک حکمران نے ـ کہ جس کا حکم پاکستان کے چپے چپے پر چلتا تھا ـ اس ڈکٹیٹر نے پرانے کپڑے پہننے والے، روکھی سوکھی روٹی کھانے والے اور انتہائی سادہ مزاج عالم دین کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے۔

مفتی جعفر حسین (رح) نے مذاکرات کی میز پر وقت کے خون آشام آمر کو اپنے سامنے بٹھا کر طاغوت عالم کو یہ بتا دیا کہ میرے پاس بنگلے نہیں ہیں، کوٹھیاں نہیں ہیں، باڈی گارڈ نہیں ہیں، اسمبلیوں میں میرے نمائندے نہیں ہیں، دنیاء سیاست میں میرا کوئی ووٹ بنک نہیں ہے۔ کسی صوبے کسی اسمبلی میں میری کوئی نشست نہیں ہے لیکن میں آمر وقت کے غرور کو اپنے اصولوں کی ٹھوکروں سے چکنا چور کر رہا ہوں اور پھر دنیا نے دیکھا کہ جب یہ بوڑھا مجاہد ایوانِ اقتدار میں ایک معاہدے پر دستخط کر کے باہر نکلا توسیرتِ امام حسن (ع) پر کاربند ، خلوص و وفا کے اس پیکر کے چہرے پر کامیابی کا نور جلوہ گر تھا جبکہ امیر شام کے چیلوں کے چہروں پر شکست کی تاریکی سیاہی بن کر پھیلی ہوئی تھی۔

ادھر مظاہرین کو مولانا مفتی جعفر حسین (رح) نے منتشر ہونے کا حکم دیا ادھر امریکہ سے ضیاءالحق کو تارآگیا کہ مبارک ہو کہ آپ کی حکومت بچ گئی۔ اگر اس مبارکباد کا یقین نہ آئے تو بریگیڈئر {ر}احمد ارشاد کی کتاب “حساس ادارے” کا مطالعہ کر لیجئے۔ آج جب حکمران اسلام کو ماڈرن بنانے کی باتیں کرتے ہیں، حدود آرڈینس کو مروڑ کر شریعت کی دھجیاں اڑاتے ہیں، کتابوں سے دو قومی نظریے کو حذف کرتے ہیں ، اسلامیات میں سے جہاد اور غیرتِ اسلامی پر موجودہ سورتیں اور آیات نکالنے کا حکم دیتے ہیں، دہشت گرد نہتے مسافروں کو گاڑیوں میں سے اتار کر قتل کردیتے ہیں۔۔۔ تو مجھے مفتی جعفرحسین کی (رح) کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے جنہوں نے اپنے وقت میں اسلام کا دفاع کیا، جنہوں نے حکمرانوں کو دندان شکن جواب دیا، دوقومی نظریئے کی حفاظت کی؛ آج دہشت گردوں کونکیل ڈالنے کے لئے بھی مفتی جعفر حسین رحمۃاللہ علیہ کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ جو محمد حسین شاد کی طرح کے مظلوموں کے خون کواحترام اور تقدس بخشے۔ جوگلی کوچوں میں بہائے جانے والے خون کے سامنے اپنی دانش اور بصیرت کے ساتھ بند باندھے۔

افسوس صد افسوس! ناں میری ڈائری میں مفتی جعفر حسین (رح) اور محمد حسین شاد کا ذکرہے اورناں میرے ملک میں ان کا سراغ۔ ناں کوئی ان کی برسی مناتا ہے اور ناں کوئی انہیں یاد کرتا ہے ۔۔۔ لیکن ۔۔۔ میں پھر بھی فخر سے کہتا ہوں کہ میں ایک شہید پرور قوم سے تعلق رکھتاہوں۔۔۔ کیا یہ فخر کا مقام ہے یا شرم کا۔۔۔?!؟

 

تبصرے
Loading...