تقوی کے تین مراتب ہیں

(۱) تقوی بدن،جسم کو نجاسات سے دور رکھنا تقوی بدنی ہے۔ 

(۲) تقوی نفس،نفس کو شیطانی وسوسوں اور صفات رذیلہ و خبیثہ سے دور رکھنا تقوی نفس ہے۔ 

(۳) تقوی قلب،دل کو حضرت حق تعالی کے لیئے علاوہ ہر چیز سے پاک و صاف کرنا تقوی قلب ہے جس جگہ یہ تینوں اقسام موجود ہوں وہ اللہ تعالی کی خاص عنائیت اورلطف کا مستحق ہے۔( عنوان الکلام ص۱۲۵) 

قران میں تقوی کی اہمیت۔

الف،قرآن مجید میں تقوی کو بہت اہمیت دی گئی ہے ایمان کا مرحلہ اسلام سے بلند ہے اور تقوی کا مرحلہ ایمان سے بھی بلند تر ہے جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے۔ 

اتقو اللہ ان کنتم مومنین۔(۲) 

اگر تم مومن ہو تو تقوی اختیار کرو۔ 

اسی طرح ارشاد رب العزت ہے۔ 

یا ایھا الذین امنو ا اتقو للہ(۳) 

صاحبان ایمان اللہ کے لیئے تقوی اختیار کریں۔ 

ب، انبیاء علیہم السلام کی دعوت کا اساس

تقوی انبیاء علیہم السلام کی دعوت میں بنیادی مقام رکھتا ہے انبیا علیہم السلام خدا اور اس کی وحدانیت کی دعوت دینے کے بعد سب سے پہلے تقوی کا فرماتے تھے جیسا کہ اللہ تعالی قرآن مجید میں حضرت محمد مصطفی (ص) کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے۔ 

قل افلا تتقون(۱) 

(اے محمد ) ان سے کہ دیجئے کہ آپ تقوی کیوں نہیں اختیار کرتے۔ 

اسی طرح باقی انبیاء نے اپنی تبلیغ میں توحید کے بعد تقوی کو بہت اہمیت دی ہے۔(۲) 

تقوی و آئمہ علیہ السلام

آئمہ علیہم السلام کا کردار وہ گفتار، تقوی پر مشتمل تھا یہی وجہ ہے کہ جب ہماری نگاہ نہج البلاغہ پر پڑتی ہے تو اس کتاب مین تقوی ہی محور کلام ہے حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام تقوی کو تمام اخلاقی مسائل کا سردار سمجھتے ہیں جیسا کہ ارشاد فرماتے ہیں۔ 

التقی رئیس الاخلاق۔ 

مومنون ۲۳ ۸۷ 

ملاحظہ فرمائیں (۱)حضرت نوح،شعراء ۱۰۶،(۲) حضرت ھود،شعراء،۱۲۴(۳) حضرت صالح شعراء ۱۴۲(۴) حضرت لوط،(۵) حضرت شعیب، ۱۷۷ (۶)حضرت الیاس،صافات ۱۲۴(۷) حضرت ابراہیم،عنکبوت ۱۶(۸) حضرت موسی،اعراف ۱۲۸(۹) حضرت عیسی،ال عمران ۵ وغیرہ۔۰۰۰ 

تقوی اخلاق کا سردار ہے۔(۱) 

حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب کی نظر میں وہی شخص حقیقی متقی ہے جس کے تمام اعمال ایک طشت میں رکھ کر پوری دنیا کو دکھائے جائیں،اور اس میں ایک عمل بھی ایسا نہ ہو جس کی وجہ سے اسے شرمندگی اٹھانی پڑے۔(۲) 

حضرت امام باقر علیہ السلام اپنے سچے شیعوں کی علامت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں۔ 

فواللہ ما شیعتنا الا من اتقی اللہ وطاعہ۔(۳) 

خدا کی قسم ہمارا شیعہ وہی ہے جو تقوی اختیار کرے اور اللہ کی اطاعت کرتا ہو۔ 

تقوی کی علامتیں

قرآن مجید میں تقوی اختیار کرنے والوں کی بہت سی علامتیں بیان ہوئی ہیں ان تمام کا احصی انتہائی مشکل ہونے کے ساتھ ساتھ اختصار کا منافی ہے ان میں ایک علامت عزت وتکریم ہے جیسا کہ خداوندمتعال ارشاد فرماتا ہے۔ 

ان اکرمکم عنداللہ اتقاکم۔(۴) 

نہج البلاغہ حکمت ۴۰۲۔ ۰۰۰ منہج الصادقین ج ۱ ص ۱۲۳۰۰۰ سفینة البحار،ج ۱،ص۷۳۳۔ 

سورہ حجرات آیت ۱۳، 

بے شک اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہو۔ اس کے علاوہ بھی اللہ تعالی نے قرآن مجید میں تقوی کی علامتیں ذکر فرمائیں ہیں۔ (۳) 

متقین کی صفات

قرآن مجید نے متقین کی بہت سی صفات بیان کی ہیں ہم انشاء اللہ تفسیر کے ضمن میں ان پر اچھی طرح روشنی ڈالیں گے۔(۲) 

ملاحظہ فرمائیں 

(۱)تائید و نصرت الہی،بقرہ ۱۹۴،(۲) سختیوں سے نجات (۳)۲،رزق حلال میں اضافہ طلاق ۳،(۴)اصلاح عمل،احزاب ۷۰،(۵)گناہوں سے معافی،احزاب ۷۱،(۶)محبت الہی توبہ ۷،(۷)کاموں میں آسانی،لیل ۵،۷، (۸)حفاظت ال عمران ۱۲۰،(۹)قبولی اعمال مائدہ ۲۸،(۱۰)دینوی و اخروی بشارت یونس۶۴،(۱۱)جہنم سے نجات مریم ۷۲،(۱۲)اخروی بہشت ال عمران ۱۹۸،(۱۳)زمین وآسمان کی برکت اعراف ۹۶،(۱۴)فلاح ال عمران ۲۰۰، (۱۵)خدا سے ملاقات بقرہ ۲۲۳،(۱۶)اقتدار عدن اعراف ۱۲۸،(۱۷)علم و دانش بقرہ ۲۸۲،(۱۸) خدا سے دوستی جاثیہ ۱۹، 

(۱)ملاحظہ فرمائیں 

(۱)غیب پر ایمان بقرہ ۲،۳ (۲) ادائیگی نماز بقرہ ۳(۳) اتفاق بقرہ ۳(۴) حضرت کی نبوت پر ایمان بقرہ۴(۵)سابقہ انبیاء پر ایمان بقرہ ۴(۶) آخرت پر ایمان بقرہ ۴(۷) خط ہدایت بقرہ ۵(۸) فلاح بقرہ ۵(۹) عہد کی وفا بقرہ ۱۷۷(۱۰) مصائب میں صبر بقرہ ۱۷۷(۱۱) راست گوئی بقرہ ۱۷۷(۱۲) وقار وبرد باری فتح ۲۶(۱۳) تعلیم دعا ال عمران ۱۶(۱۴) عبادت وقنوت ال عمران ۱۷(۱۵) سہر خیزی اور گناہوں سے معافی ال عمران ۱۷(۱۶) غصہ پینے والے ال عمران ۱۳۴(۱۷) درگزر ال عمران ۱۳۴( ۱۸) جب گناہ کر بیٹھیں تو استغفار کرتے ہیں ال عمران ۱۳۵(۱۹) گناہوں پر اصرار نہیں کرتے ال عمران ۱۳۵۔۰۰۰ 

تفسیر آیات 

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ الم (۱) 

سہارا اللہ کے نام کا جو سب کو فیض پہنچانے والا بڑا مہربان ہے ا۔ل۔م 

۔ ا۔ ل۔م کے متعلق مفسر ین نے تقریبا ۳۵ معانی بیان کیے ہیں ان میں چند ایک درج ذیل ہیں۔ 

(۱) حروف قرآن 

(۲) معجزہ خداوندی 

(۳) قسم 

(۴)خدا اور اس کے رسول کے درمیان اسرار ورموز 

(۵)سورہ کا خلاصہ 

(۶) اسم اعظم 

(۷)ہر سورہ کا نام 

(۸)مخالفین کی خاموشی۔ 

قرآن مجید کی ۲۹ سورتوں کے آغاز میں یہ حروف مقطعات موجود ہیں جب کہ ۲۴مقامات پر ان کے بعد قرآن اور معجزہ کے متعلق گفتگو کی گئی ہے۔جیسا کہ مندرجہ ذیل آیات میں ہے 

،الم۔ذلک الکتاب لا ریب فیہ۔ 

الم تلک ایت الکتاب الحکیم۔ 

الر،کتب احکمت ایة۔ 

المص،کتب انزل الیک۔ 

طس،تلک ایات القرآن و کتاب مبین۔ 

بہر حال انہیں حروف سے یہ با عظمت کتاب مرتب ہوئی ہے جیسا کہ حضرت امام علی ابن موسی رضا علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں۔ 

ان اللہ تبارک و تعالی انزل ھذا القرآن بھذہ الحروف التی تیدو ا لھا جمیع العرب ثم قال قل التی اجتمعت الانس والجن علی ان یاتوابمثل ھذا القرآن۔ 

خداوند عالم نے قرآن مجیدانہیں حروف کے ساتھ نازل فرمایا ہے جنہیں اھل عرب بولتے ہیں پھر فرمایا ان سے کہیں کہ اگر جن و انس اس کی مثل لانے کے لیئے جمع ہو جائیں تب بھی اس کی مثل نہیں لا سکتے۔(۱) 

انہیں حروف مقطعات کی تفسیر بیان کرتے ہوئے حضرت امام زین العابدین علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں۔ 

کذب قریش والیھود بالقرآن و قالواھذا سحر مبین تقولہ قتال اللہ،الم ذلک الکتاب ای یا محمد 

توحید صدوق ص۱۶۲، بحوالہ تفسیر نمونہ۰۰۰ 

ھذا الکتاب الذی انزلتہ الیک الحروف المقطعہ التی منھا،ا، ل،م،وھوا بلغتکم فاتوابمثلہ ان کنتم صادیقین۔ 

قریش اور یہودیوں نے یہ کہ کر قرآن مجید کی طرف غلط نسبت دی ہے کہ یہ جادو،اور خود ساختہ ہے اور اسے خدا سے منسوب کر دیا گیا ہے۔خدا نے انہیں خبردارکرتے ہوئے ارشاد فرمایا۔ 

الم ذلک الکتاب۔ 

یعنی اے محمد جو کتاب ہم نے آپ پر نازل کی ہے اور وہ انہی حروف پر مشتمل ہے جو آپ لوگ استعمال کرتے ہیں اگر تم سچے ہو تو اس کی مثل پیش کرو۔(۱) 

یہ حروف بتاتے ہیں کہ قرآن مجید ایک با عظمت کتاب ہے اور ان حروف نے عرب و عجم کے تمام سخنرانوں کو حیرت میں ڈال دیا ہے حالانکہ یہ انہیں حروف کا مجموعہ ہے جو ان لوگوں کے اختیار میں ہیں۔ اس کے باوجود علماء ومحقق اسے سمجھنے سے عاجز ہیں کیونکہ خدائی ترکیب نے اسے درجہ اعجاز تک پہنچا دیا ہے جس طرح اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کو بے جان مٹی سے خلق کیا جب اس میں روح پھونکی تو آدم علیہ السلام وجود میں آئے اسی طرح قرآن مجید انہی الفاظ سے مرتب ہو اجب اسے خدائی ترکیب نصیب ہوئی تو ایسا معجزہ بنا کہ کوئی اس کا مثل نہیں لا سکتا (۲) 

تفسیر برہان ج ۱ ص ۵۴ بحوالہ تفسیر نمونہ۔۰۰۰ قرآن ناطق ج ۲ ص ۳۰

لہذا یہ بہت بڑا معجزہ ہے اور یہ ایسے اسرار و رموز ہیں جسے حضرت نبی اکرم (ص) اور ان کے بعد ان کے حقیقی وارث ہی جانتے ہیں۔(۱)

روح معانی ج ۱ ص ۱۰۰۔ ۰۰۰

ذَلِکَ الْکِتَابُ لاَرَیْبَ فِیہِ ہُدًی لِلْمُتَّقِینَ (۲) 

یہ وہ با عظمت کتاب ہے جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے اور یہ تقوی چاہنے والوں کی راہنما ہے۔

تبصرے
Loading...