بیعت کی حقیقت اور انتخاب اور بیعت میں فرق

”حقیقت بیعت“ بیعت کرنے والے اور جس کی بیعت کی جارھی ھے دونوں کی طرف سے ایک معاھدہ ھے، جس کے معنی یہ ھيں کہ بیعت کرنے والا بیعت لینے والے کی اطاعت، پیروی ، حمایت اور دفاع کرے گا، اور اس میں ذکرشدہ شرائط کے لحاظ سے بیعت کے مختلف درجے ھیں۔

قرآن کریم اور احادیث ِنبوی کے پیشِ نظر یہ نتیجہ نکلتا ھے کہ بیعت ، بیعت کرنے والے کی طرف سے ایک ”عقد لازم “[1]ھے اور اس کے مطابق عمل کرنا واجب ھوتا ھے، لہٰذا وہ قانونِ عام (سورہ مائدہ  پھلی آیت ) کے تحت قرار پاتا ھے، اس بنا پر بیعت کرنے والا اس کو فسخ نھیں کرسکتا، لیکن صاحب بیعت اگر مصلحت دیکھے تو اپنی طرف سے بیعت اٹھا سکتا ھے اور اس کو فسخ کرسکتا ھے، اس صورت میں بیعت کرنے والا اطاعت اور پیروی سے آزاد ھوجاتا ھے۔[2]

بعض لوگوں نے بیعت کو ”انتخاب“ (اور الیکشن) کے مشابہ قرار دیا ھے حالانکہ انتخابات کا مسئلہ اس کے بالکل برعکس ھے یعنی انتخاب کے معنی یہ ھیں کہ انتخاب ھونے والے شخص کو ایک ذمہ داری اور عھدہ دیا جاتا ھے یا دوسرے الفاظ میں اس کو مختلف امور انجام دینے کے لئے وکیل بنایا جاتا ھے، اگرچہ انتخاب کرنے والے کی بھی کچھ ذمہ داریاں ھوتی ھیں (تمام وکالتوں کی طرح) جبکہ بیعت میں ایسا نھیں ھے۔

یا یوں کہئے کہ انتخاب کسی کو عھدہ یا منصب دینے کا نام ھے، جیسا کہ ھم نے عرض کیا کہ وکیل بنانے کی طرح ھے، جبکہ بیعت ”اطاعت کا عھد“ کرنے کا نام ھے۔

اگرچہ یہ بھی ممکن ھے کہ یہ دونوں بعض چیزوں میں ایک دوسرے کے مشابہ ھوں، لیکن اس مشابہت کا مطلب یہ نھیں ھے کہ یہ دونوں ایک ھيں، لہٰذا بیعت کرنے والا بیعت کو فسخ نھیں کرسکتا، حالانکہ انتخابات کے سلسلہ میں ایسا ھوتا ھے کہ انتخاب کرنے والے اسے عھدہ سے معزول کرسکتے ھيں۔[3]

اب یھاں پر یہ سوال پیدا ھوتا ھے کہ کیا کسی نبی یا امام کی مشروعیت میں بیعت کا کوئی کردار ھے یا نھیں؟ پیغمبر اکرم (ص)اور ائمہ معصومین علیھم السلام چونکہ خداوندعالم کی طرف سے منسوب ھوتے ھیں اور ان کو کسی بھی بیعت کی ضرورت نھیں ھوتی، یعنی خداوندعالم کی طرف سے منصوب نبی یا امام معصوم علیھم السلام کی اطاعت خدا کی طرف سے واجب ھوتی ھے، چاھے کسی نے بیعت کی ھو یا بیعت نہ کی ھو۔

دوسرے الفاظ میں: مقام نبوت اور امامت کا لازمہ ،اطاعت کا واجب ھوناھے، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ھوتا ھے:

[4]

 ”اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو، رسول اور صاحبان امر کی اطاعت کروجو تمھیں میں سے ھیں“۔

لیکن یھاں یہ سوال پیدا ھوتا ھے کہ اگر اس طرح ھے تو پھر پیغمبر اکرم (ص)نے اپنے اصحاب یا نئے مسلمان ھونے والے افراد سے بیعت کیوںلی؟ جس کے دو نمونے تو خود قرآن مجید میں موجود ھیں، (بیعت رضوان ، جیسا کہ سورہ فتح ، آیت نمبر ۱۸ میں اشارہ ملتا ھے، اور اھل مکہ سے بیعت لی جیسا کہ سورہ ممتحنہ میں اشارہ ھوا ھے)

اس سوال کے جواب میں ھم یہ عرض کرتے ھیں کہ اس طرح کی بیعت ایک طرح سے وفاداری کے عھد و پیمان جیسی ھوتی ھے جو خاص مواقع پر انجام پاتی ھے، خصوصاً بعض سخت مقامات اور حوادث میں اس سے فائدہ اٹھایا جاتا ھے، تاکہ اس کی وجہ سے مختلف لوگوں میں ایک نئی روح پیدا ھوجائے۔

لیکن خلفاء کے سلسلہ میں لی جا نے والی بیعت کا مطلب ان کی خلافت کا قبول کرنا ھوتا تھا، اگرچہ ھمارے عقیدہ کے مطابق خلافت رسول (ص)کوئی ایسا منصب نھیں ھے کہ جس کو بیعت کے ذریعہ حل کیا جاسکتا ھو، بلکہ خلیفہ خداوندعالم کی طرف سے پیغمبر اکرم (ص)یا پھلے والے امام کے ذریعہ معین ھوتا ھے۔

اسی دلیل کی بنا پر جن لوگوں نے حضرت علی علیہ السلام یا امام حسن علیہ السلام یا امام حسین علیہ السلام سے بیعت کی ھے وہ بھی وفاداری کے اعلان اور پیغمبر اکرم (ص)سے کی گئی بیعتوں کی طرح تھی۔

نهج البلاغہ کے بعض کلمات سے اچھی طرح یہ معلوم ھوتا ھے کہ بیعت صرف ایک بار ھوتی ھے، اس میں تجدید نظر نھیں کی جاسکتی، جیسا کہ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں:

”لِاٴَنّھا بیعةٌ وَاحِدةٌ، لا یُثنٰی فِیھَا النَّظر ولا یستاٴنفُ فِیھَا الخَیَار، الخَارجُ منھَا طَاعِن ،والمرويّ فِیھَا مَداھِن!“[5]

” چونکہ یہ بیعت ایک مرتبہ ھوتی ھے جس کے بعد نہ کسی کو نظرِ ثانی کا حق ھوتا ھے اور نہ دوبارہ اختیار کرنے کا ، اس سے باھر نکل جانے والا اسلامی نظام پر معترض شمار کیا جاتا ھے اور اس میں غور وفکرکرنے والا منافق کھا جاتا ھے“۔

امام علیہ السلام کے کلام سے یہ استفادہ ھوتا ھے کہ امام علیہ السلام نے ان لوگوں کے مقابلہ میں جو پیغمبر اکرم (ص)کی طرف سے منصوصخلافت کا عقیدہ نھیں رکھتے تھے اور بھانہ بازی کیا کرتے تھے ،بیعت کے مسئلہ سے ( جو خود ان کے نزدیک مسلّم تھا) استدلال کیا ھے، تاکہ امام علیہ السلام کی نافرمانی نہ کریں، اور معاویہ یا اس جیسے دوسرے لوگوں کو یہ بتانا چاہتے ھیں کہ جس طرح (بیعت کے ذریعہ) تم تینوں خلفا کی خلافت کے قائل ھو تو اسی طرح میری خلافت کے بھی قائل رھو، اور میرے سامنے تسلیم ھوجاؤ،(بلکہ میری خلافت تو ان سے زیادہ حق رکھتی ھے کیونکہ میری بیعت وسیع پیمانے پر ھوئی ھے اور تمام ھی لوگوں کی رغبت و رضاسے ھوئی ھے۔)

اس بنا پر حضرت علی علیہ السلام کا بیعت کے ذریعہ استدلال کرنا خدا و رسول کی طرف سے منصوب ھونے کے منافی نھیں ھے۔

اسی وجہ سے امام علی علیہ السلام نهج البلاغہ میں حدیث ثقلین کی طرف اشارہ فرماتے ھیں [6]جو آپ کی امامت پر بہترین دلیل ھے، اور دوسری جگہ وصیت اور وراثت کے مسئلہ کی طرف اشارہ فرماتے ھیں،[7] (غور کیجئے )

 ضمناً ان روایات سے یہ بات اچھی طرح معلوم ھوجاتی ھے کہ اگر کسی سے زبردستی بیعت لی جائے یا لوگوں سے غفلت کی حالت میں بیعت لی جائے تو اس کی کوئی اھمیت نھیں ھوتی، بلکہ غور و فکر کے بعد اپنے اختیار و آزادی سے کی جانے والی بیعت کی اھمیت ھوتی ھے، (غور کیجئے )

اس نکتہ پر توجہ کرنا ضروری ھے کہ ولی فقیہ کی نیابت ایک ایسا مقام ھے جو ائمہ معصوم علیھم السلام کی طرف سے معین ھوتا ھے، اس میں کسی بھی طرح کی بیعت کی ضرورت نھیں ھوتی، البتہ ”ولی فقیہ“ کی اطاعت و پیروی سے استحکام آتا ھے تاکہ اس مقام سے استفادہ کرتے ھوئے دینی خدمات انجام دے سکے، لیکن اس کے یہ معنی نھیں ھیں کہ یہ عھدہ لوگوں کی پیروی اور اطاعت کرنے پر موقوف ھے، اس کے علاوہ لوگوں کا پیروی کرنا بیعت کے مسئلہ سے الگ ھے بلکہ ولایت فقیہ کے سلسلہ میں حکم الٰھی پر عمل کرنا ھے۔ (غور کیجئے )[8]

[1] اسلام میں دو طرح کے معاملات ھوتے ھیں ایک ایسا معاملہ جس کو فسخ کیا جاسکتا ھے، اس کو ”عقد جائز“ کھا جاتا ھے، اور دوسرا وہ جس کو فسخ نھیں کیا جاسکتا، اس کو ”عقد لازم“ کھا جاتا ھے۔ (مترجم)

[2] ھم واقعہ کربلا میں پڑھتے ھیں کہ امام حسین علیہ السلام نے شب عاشور ایک خطبہ دیا اور اپنے اصحاب اور ناصروں کا شکریہ ادا کرتے ھوئے ان سے اپنی بیعت کواٹھا لیا اور کھا :جھاں چاھو چلے جاوٴ(،لیکن اصحاب نے وفاداری کا ثبوت پیش کیا) امام علیہ السلام نے فرمایا: ”فانطلِقُوا فی حل لیس علیکم منّي زمام(کامل ابن اثیر ، جلد ۴، صفحہ ۵۷)

[3] تفسیر نمونہ ، جلد ۲۲، صفحہ ۷۱۔

[4] سورہ نساء ، آیت  ۵۹۔

[5] نهج البلاغہ ، مکتوب نمبر۷، صفحہ۴۸۹۔

[6] نهج البلاغہ ، خطبہ نمبر۸۷۔

[7] نهج البلاغہ ،خطبہ نمبر ۲۔

[8] تفسیر نمونہ ، جلد ۲۲، صفحہ ۷۲۔

تبصرے
Loading...