اے محرم!

اے محرم! تو خلق خدا کا وہ خونی غم و غصہ ہے جو شہیدوں کے سرخ اور پاک گلے سے برآمد ہوا اور ان تما ستم زدہ انسانوں کے کے گلے میں گریہ و بکاء کی صورت میں اترا وہی جو کربلا میں ایک نصف روز کے دوران پھٹ پڑا خونِ دیدہ و دل میں، جو ستم کے کینہ پرور خنجر نے تپتی زمین پر گرایا وہی جو سیاہی اور ظلمات کے زمانوں میں چمک اٹھا سن لو ۔۔۔ اے محرم! 

تو برسوں کا گِرَہ دار اور لپٹا ہوا غصہ ہے، تو آتشفشان ہے تو دشمن کے ظلم کا گواہ ہے تو پاک و مطہر ہستیوں کے جذبے کا نشانہ ہے تو ستر آیتوں، ستر سورتوں اور زندگی کے ستر رازوں کا امین ہے تو زمانے کی سرخ فریاد ہے، عصیان و انقلاب کا موج ہے تو وہ موج ہے جو گرتے پڑتے پہچنچی ہے زمانوں کے ساحل پر۔۔۔ اے محرم!

تو فجر ہے، تو نصر ہے تو لوگوں کے لئے لیلۃالقدر ہے، تو بجلی تو برق ہے تو طوفان ہے طفّ [کرب و بلا] کا ، کوہستانی تھنڈر کی گھن گرج! 

اَلا ۔۔۔ اے محرم! تو عشق و خون اور حماسہ، تو جہاد و شہادت کی دانشگاہ، تو ہے “ثار” و یاروں کے “ایثار” کا مظہر … اَلا اے محرم!

کاروان شہداء کی ہجرت کے ہنگام و ہنگامے میں تو وہ روح بخش اور مہمان نواز راہ باں ہے جو احرار کے راہ نما کے قدموں پر ارغوانی پھول نثار کرتا ہے

الا … اے محرم! ظلم و ستم کے خلاف مسلسل جہد و قیام کرکے تاریخ کے سرخ صفحے پر حَسین ترین تصویر کھینچنے والے سورماؤں اور احرار کی نظر میں تو پرانا آشنا اور دشمن کے خلاف برسرپیکار ہے کہ تو انہیں ہر وقت یاد کرتا ہے

الا … اے محرم! تو وہ کیمیا ہے جو دگرگوں کرتا ہے اور تبدیل کرتا ہے کہ تو موتِ حیات آفرین کو “شہادت” کے نام سے عشق کی ایسی اکسیر میں تبدیل کردیا ہے جو تیری فجر آفرین انگلیوں میں مضمر ہے اور تو اس اکسیر میں بدلنے والی موت کو عسل مصفّا اور شہید شیریں کی طرح اس کے شیدائیوں کو چکھا دیتا ہے۔

تبصرے
Loading...