ایک شخص کا معصوم ھونا کیسے ممکن ھے

عصمت ایک نفسانی صفت اور ایک باطنی طاقت ھے جو اپنے حامل کو گناہ ھی سے نھیں بلکہ گناہ انجام دینے کی فکر یا خیال سے بھی دور رکھتی ھے۔ دوسرے لفظوں میں یہ خدا کا باطنی خوف ھے جو انسان کو گناہ سے حتٰی گناہ کے ارادہ سے بھی محفوظ رکھتا ھے۔یھاں یہ سوال پیش آتا ھے کہ یہ کیسے ممکن ھے کہ ایک شخص تمام گناھوں سے محفوظ رھے اور وہ نہ صرف گناہ نہ کرے بلکہ گناہ اور نافرمانی کے ارادہ سے بھی دور رھے ؟اس کا جواب یہ ھے کہ گناہ کی برائیوں کے علم کا لازمہ یہ ھے کہ انسان اپنے آپ کو گناہ سے محفوظ رکھے ۔ البتہ اس کا مطلب یہ نھیں کہ گناہ کی برائیوں کے سلسلہ میں ھر درجہ کا علم انسان کو گناہ سے محفوظ و معصوم بنا دیتا ھے ،بلکہ علم کی حقیقت نمائی اس قدر قوی ھو جو گناہ کے برے آثار کوانسان کی نگاہ میں اس قدر مجسم کر دے کہ انسان ان برے کاموں کے انجام کو اپنی آنکھوں میں مجسم ھوتے ھوئے دیکھے ۔ اس صورت میں گناہ اس کے لئے ”محال عادی “ ھو جائے گا ۔

کیا انسانی معاشرہ کی قیادت و رھبری سے بڑھکر کوئی منصب تصور کیا جا سکتا ھے؟کیا کوئی شخص روحی و جسمی امتیازات کے بغیر زندگی کے کسی ایک پھلو میں بھی معاشرہ کی قیادت کا بوجہ سنبھال سکتا ھے ؟ چہ جائیکہ زندگی کے تمام مادی ومعنوی پھلوؤں میں !! جو صرف الٰھی رھبروں یعنی انبیاء وغیرہ سے مخصوص ھے؟

سیاسی لیڈران جو ملک و مملکت کے صرف سیاسی مسائل میں قیادت کرتے ھیں یا اقتصادی مسائل کے ماھرین جو ملک کی اقتصادکی باگڈور ھاتہ میں رکھتے ھیں ان میدانوں سے متعلق خاص شرائط و صفات کے بغیر —–جو انھیں دوسروںسے ممتاز و بر تر ثابت کرتے ھیں —–ملک کے اس اعلیٰ سیاسی یا اقتصادی منصب کو حاصل ھی نھیں کر سکتے ۔

اگر ایسا ھی ھے تو یہ بات بدرجہ اولی تسلیم کرنی چاھئے کہ انبیائے الٰھی اور ان کے حقیقی جانشینوں —– جو انسانی معاشرہ کے تمام میدانوں میں رھبر ھیں —–میں بھی وہ عالی اور با عظمت صفات و کمالات ھونے چاھئےںجو ان کی رھبری کی حیثیت کو ثابت کریں ۔ کیوں کہ در حقیقت ان صفات اور امتیازات کی بنا پر ھی ان افراد کو یہ عظیم منصب عطا کیا گیا ھے۔

آپ ان عظیم افراد کے امتیازات کو حسب ذیل دو عنوانوں میں خلاصہ کر سکتے ھیں:

1)۔ گناہ اور خدا کی نا فرمانی سے محفوظ رھنا۔

2)۔ خدا سے احکام حاصل کرنے اور لوگوں کو ان احکام کی تبلیغ کرنے میں خطا و غلطی سے محفوظ رھنا ۔ اس سے پھلے کہ الٰھی رھبروں کے لئے عصمت کے لازم ھونے کے دلائل بیان کئے جائیں ،بھتر ھے کہ خود عصمت کے بارے میں اجمال کے ساتھ یہ گفتگو کی جائے کہ کس طرح ایک شخص گناہ سے محفوط رھتا ھے۔

عصمت کیا ھے؟

عصمت ایک نفسانی صفت اور ایک باطنی طاقت ھے جو اپنے حامل کو گناہ ھی سے نھیں بلکہ گناہ انجام دینے کی فکر یا خیال سے بھی دور رکھتی ھے۔ دوسرے لفظوں میں یہ خدا کا باطنی خوف ھے جو انسان کو گناہ سے حتٰی گناہ کے ارادہ سے بھی محفوظ رکھتا ھے۔

یھاں یہ سوال پیش آتا ھے کہ یہ کیسے ممکن ھے کہ ایک شخص تمام گناھوں سے محفوظ رھے اور وہ نہ صرف گناہ نہ کرے بلکہ گناہ اور نافرمانی کے ارادہ سے بھی دور رھے ؟

اس کا جواب یہ ھے کہ گناہ کی برائیوں کے علم کا لازمہ یہ ھے کہ انسان اپنے آپ کو گناہ سے محفوظ رکھے ۔ البتہ اس کا مطلب یہ نھیں کہ گناہ کی برائیوں کے سلسلہ میں ھر درجہ کا علم انسان کو گناہ سے محفوظ و معصوم بنا دیتا ھے ،بلکہ علم کی حقیقت نمائی اس قدر قوی ھو جو گناہ کے برے آثار کوانسان کی نگاہ میں اس قدر مجسم کر دے کہ انسان ان برے کاموں کے انجام کو اپنی آنکھوں میں مجسم ھوتے ھوئے دیکھے ۔ اس صورت میں گناہ اس کے لئے ”محال عادی “ ھو جائے گا ۔ ذھن کو اور قریب کرنے کے لئے حسب ذیل مطلب پر توجہ دیں۔

ھم میں سے ھر ایک شخص بعض ایسے اعمال سے جن سے ھماری جان جانے کا خطرہ ھوتاھے ایک طرح سے محفوظ ومعصوم ھیں ۔اس طرح کا تحفظ اس علم کی پیدا وار ھے جوان اعمال کے نتائج کے طور پر ھمیں حاصل ھے مثال کے طور پر ایک دوسرے کے دشمن دو ملک جن کی سرحدیں آپس میں ملی ھوئی ھیں اور ھر طرف کے فوجی تھوڑے فاصلہ سے بلند برجوں پر قوی دوربینوں،تیز لائٹوں اور سدھے ھوئے کتوں کے ذریعہ سرحد کی نگرانی کررھے ھیں اور خاص طور سے کسی کے سرحد پار کرنے پر گھری نظر رکھے ھوئے ھیں کہ اگر کوئی سرحد سے ایک قسم بھی آگے بڑھا گولوں سے بھون دیا جائے گا ایسی صورت میں کوئی عقل مند انسان سرحد پار کرنے کا خیال بھی اپنے ذھن میں نھیں لاسکتا چہ جائےکہ عملا بہ اقدام کرے ۔ایسا انسان اس عمل کے سلسلہ میں ایک طرح سے محفوظ ومعصوم ھے۔

 

زیادہ دور نہ جائےں ،ھرعاقل انسان جسے اپنی زندگی سے پیار ھے ،قاتل زھر کے مقابل جس کا کھانا اس کے لئے جان لیوا ھوگایابجلی کے ننگے تار کے مقابل جس کا لمس کرنا اسے جلاکر سیاہ کردے گایا اس بیمار کی بچی ھوئی غذا کے مقابل– جسے ”جذام“یا”برص“کی شدید بیماری ھوئی ھو– جس کے کھانے سے اس کے اندر یہ مرض سرایت کرجائے گا،ایک طرح کا تحفظ اور عصمت رکھتاھے۔یعنی وہ ھرگز اور کسی بھی قیمت پر یہ اعمال انجام نھیں دیتا اور اس سے ان اعمال کا ھونا ایک”محال عادی“ھے۔ اس کااس طرح سے محفوظ ومعصوم رھنے کا سبب بھی ان اعمال کے برے نتائج کا اس کی نظر میں مجسم ھونا ھے۔عمل کے خطرناک آچار اس کی نظر میں اس قدر مجسم اور اس کے دل کی نگاہ میں اتنے نمایاں ھوجاتے ھیں کہ ان کی روشنی میں کوئی بھی انسان اپنے ذھن میں ان کاموں کے انجام دینے کا خیال تک نھیں لاتا،چہ جائے کہ وہ یہ عمل انجام دے ڈالے۔

ھم دیکھتے ھیں کہ ایک شخص یتیم وبےنوا کا مال ھضم کرجانے میں کوئی باک نھیں رکھتا جبکہ اس کے مقابل دوسرا شخص ایک پیسے حرام کھانے سے بھی پرھیز کرتا ھے ۔پھلا شخص پوری بے باکی کے ساتھ ےتیموں کا مال کیوں کھا جاتاھے لیکن دوسرا شخص حرا م کے ایک پیسہ سے بھی کیوں پرھیز کرتاھے؟

اس کاسبب یہ ھے کہ پھلا شخص سرے سے اس قسم کی نافرمانی کے برے انجام کا اعتقادھی نھیں رکھتا اور اگر قیامت کا تھوڑا بھیت ایمان رکھتا بھی ھے جب بھی تیزی سے تمام ھوجانے والی مادی لذتیں اس کے دل کی آنکھوں پر اس کے برے انجام کی طرف سے ایسا پردہ ڈال دیتی ھےں کہ ان کے برے آثار کا ایک ھلکا ساسایہ اس کی عقل کی نگاھوں کے سامنے سے گذر کر رہ جاتاھے اور اس پر کوئی اثر نھیں ھوتا ۔ لیکن دوسراشخص اس گناہ کے برے انجام پر اتنا یقین رکھتا ھے کہ مال یتیم کا ھر ٹکڑا اس کی نظر میں جھنم کی آگ کے ٹکڑے کے برابر ھوتا ھے اور کوئی عقلمند انسان آگ کھانے کا اقدام نھیں کرتا ،کیونکہ وہ علم وبصیرت کی نگاہ سے دیکہ لیتا ھے کہ یہ مال کس طرح جھنم کی آگ میں بدل جاتاھے ۔لھٰذا وہ اس عمل کے مقابل محفوظ ومعصوم رھتاھے۔

اگر پھلے شخص کو بھی ایسا ھی علم اور ایسی ھی آگاھی حاصل ھوجائے تو وہ بھی دوسرے شخص کی طرح یتیم کا مال ظالمانہ طریقہ سے ھڑپ نہ کرے گا۔جو لوگ سونے اور چاندی کادھیر اکٹھا کرلیتے ھیں اور خدا کی طرف سے واجب حقوق کو ادا نھیں کرتے قرآن مجید ان کے سلسلہ میں فرماتا ھے :یھی سونا چاندی قیامت کے دن آگ میں بدل جائے گا اور اس سے ان کی پیشانی پھلووٴں اور پشت کو داغا جائے گا۔ (1)

اب اگر ایسا خزانہ رکھنے والے اس منظر کو خود اپنی آنکھوں سے دیکہ لیں اوریہ دیکہ لیں کہ ان جیسے افراد کاکیا انجام ھوا،اس کے بعد انھیں تنبیہ کی جائے کہ اگر تم بھی اپنی دولت کو جمع کرکے رکھوگے اور خدا کی راہ میں خرچ نھیں کروگے تو تمھارا بھی یھی انجام ھوگا تو وہ بھی فوراً اپنی چھپائی ھوئی دولت کو نکال کر خدا کی راہ میں خرچ کر ڈالیں گے۔

اکثر بعض افراد اسی دنیا میں الٰھی سزا وعذاب کے اس منظر کو دیکھے بغیر اس آیت کے مفھوم پر اس قدر ایمان رکھتے ھیں جو دیکھی ھوئی چیز پر ایمان سے کم نھیں ھوتا ۔یھاں تک کہ اگر دنیا وی و مادی پردے ان کی نگاھوں سے ھٹا دیئے جائیں جب بھی ان کے ایمان میں کوئی فرق نھیں آتا ۔ایسی صورت میں یہ شخص اس (خزانہ جمع کرنے کے ) گناہ سے محفوظ رھتا ھے ،یعنی ھر گز سونا چاندی اکٹھا نھیں کرتا ۔

اب اگر ایک شخص یا ایک گروہ کائنات کے حقائق کے سلسلہ میں کامل اور حقیقی آگاھی و معرفت رکھنے کی وجہ سے تمام گناھوں کے انجام کے سلسلہ میں ایسی ھی حالت رکھتا ھو اور گناھوں کی سزا ان پر اس قدر نمایاں اور واضح ھو کہ مادی حجاب نگاھوں سے اٹھنے یا زمان و مکان کے فاصلوں کے باوجود ان کے ایمان و اعتقاد میں کوئی فرق نھیں آتا تو اس صورت میں یہ شخص یا وہ گروہ ان تمام گناھوں کے مقابل سو فی صدی تحفظ اور عصمت رکھتا ھے ۔نتیجہ میں ان سے نہ صرف گناہ سرزد نھیں ھوتے بلکہ انھیں گناہ کا خیال بھی نھیں آتا۔

لھٰذا یہ کھنا چاھئے کہ عصمت کسی ایک چیز یا تمام چیزوں میں اعمال کے انجام و نتائج کے قطعی علم اور شدید ایمان کے اثر سے پیدا ھوتی ھے ْاور ھر انسان بعض امور کے سلسلہ میں ایک طرح کی عصمت رکھتا ھے مگر انبیائے الٰھی اعمال کے انجام سے مکمل آگاھی اور خدا کی عظمت کی کامل معرفت کی وجہ سے تمام گناھوں کے مقابل مکمل عصمت رکھتے ھیں اور اسی علم و یقین کی بنا پر گناہ کے تمام اسباب، خواھشوں اور شھوتوں پر قابو رکھتے ھیں اور ایک لمحہ کے لئے بھی خدا کے معین کردہ حدود سے سرکشی نھیں کرتے ۔

آخر میں اس نکتہ کی طرف توجہ دلانا ضرور ی ھے کہ یہ صحیح ھے کہ انبیائے کرام گناہ اور ھر طرح کی نافرمانی سے محفوظ ھیں ، لیکن اس تحفظ کا یہ مطلب نھیں ھے کہ وہ گناہ کے کام انجام دینے کی توانائی نھیں رکھتے اور خدا کا حکم بجا لانے پر مجبور ھیں ۔ بلکہ یہ حضرات بھی تمام انسانوں کی طرح عمل کی آزادی اور اختیار رکھتے ھیں اور اطاعت یا نافرمانی دونوں پر انھیں قدرت حاصل ھے لیکن یہ لوگ اپنی باطنی آنکھوں سے — جو کائنات کے حقائق سے متعلق ان کے وسیع علم کی وجہ سے انھیں حاصل ھوئی ھیں — اعمال کے نتائج و انجام کا مشاھدہ کرلیتے ھیں اور ان نتائج سے جنھیں شریعت کی زبان میں عذاب کھا جاتا ھے ،واقف و آگاہ رھتے ھیں، لھٰذا ھر طرح کے گناہ اور نافرمانی سے پرھیز کرتے ھیں ۔اسے سمجھنے کے لئے حسب ذیل عبارت پر غور کیجئے :

اس میں کوئی شک نھیں ھے کہ خدا وند عالم ھر طرح کے برے اور قبیح کا م انجام دینے پر قادر ھے لیکن اس سے کبھی اس طرح کام صادر نھیں ھوتا جو اس کے عدل اور اس کی حکمت کے خلاف ھو اس کے باوجود ھم یہ نھیں کھہ سکتے کہ وہ ان کاموں کو انجام دینے کی قدرت نھیں رکھتا ۔ بلکہ وہ ھر شئے پر قادر ھے ۔ معصوم افراد بھی گناہ کے سلسلہ میں یھی کیفیت رکھتے ھیں وہ لوگ بھی گناہ کرنے کی قدرت و توانائی رکھنے کے باوجود معصیت و گناہ کی طرف نھیں جاتے۔

رھبران الٰھی کے لئے عصمت کی دلیلیں

علمائے عقائد نے الٰھی رھبروں خصوصاً انبیاء کرام کی عصمت کے بارے میں متعدد دلائل بیان کئے ھیں ھم یھاں ان میں سے دو دلیلیں بیان کرتے ھیں۔

یہ صحیح ھے کہ ان علماء نے یہ دلیلیں انبیاء کی عصمت کے لئے بیان کی ھیں لیکن یھی دلیلیں جس طرح انبیاء کی عصمت کو ثابت کرتی ھیں اسی طرح اماموں کی عصمت کو بھی ثابت کرتی ھےں ۔کیونکہ امامت شیعی نقطھٴ نظر سے رسالت اور نبوت کاھی تسلسل ھے ۔فرق یہ ھے کہ انبیاء منصب نبوت رکھتے ھیں اور ان کا رابطہ وحی الٰھی سے ھے اور امام کے یھاں یہ دوصفتیں نھیں ھےں ۔لیکن اگر ان دو خصوصیتوں سے صرف نظر کریں تو انبیاء اور اماموں کے در میان کوئی خاص فرق نظر نھیں آتا۔

اب یہ دونوں دلیلیں ملاحظہ ھوں :

1۔تربیت عمل کے سایہ میں :

اس میں کوئی شک نھیں کہ انبیائے کرام کی بعثت کامقصد انسانوں کی تربیت اور ان کی راھنمائی ھے اور تربیت کے موٴثر اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی ھے کہ مربی میں ایسے صفات پائے جائیں جن کی وجہ سے لوگ اس سے قریب ھوجائےں ۔مثال کی طور پر اگر کوئی مربی خوش گفتار ،فصیح اور نپی تلی بات کرنے والا ھو لیکن بعض ایسے نفرت انگیز صفات اس میں پائے جائیں جس کے سبب لوگ اس سے دور ھوجائےں تو ایسی صورت میں انبیاء کی بعثت کامقصد ھی پورا نھیں ھوگا۔

ایک مربی ورھبر سے لوگوں کی دوری اور نفرت کا سب سے بڑا سبب یہ ھے کہ اس کے قول وفعل میں تضاد اور دورنگی پائی جاتی ھو۔اس صورت میں نہ صرف اس کی راھنمائیاں بے قدر اور بیکار ھوجائےں گی بلکہ اس کی نبوت کی اساس وبنیاد ھی متزلزل ھوجائے گی ۔

شیعوں کے مشھور اور بزرگ عالم سید مرتضی علم الھدیٰ نے اس دلیل کو یوں بیان کیا ھے:اگر ھم کسی کے فعل کے بارہ میں اطمینان نھیں رکھتے یعنی اگر ھمیں یہ شبہ ھے کہ وہ کوئی گناہ انجام دیتاھے تو ھم اطمینان قلب کے ساتھ اس کی بات پر دھیان نھیں دیتے ۔اور ایسے شخص کی باتےں ھم پر اثر نھیں کرسکتیں جس کے بارے میں ھم جانتے ھیں کہ وہ خود اپنی بات پر عمل نھیں کرتا ۔جس طرح مربی یارھبرکا گناہ کرنالوگوںکی نظر میں اسے کم عقل ،بے حیا اور لاابالی ثابت کرتاھے اور لوگوں کو اس سے دور کردیتاھے اسی طرح مربی یا رھبر کے قول وفعل کی دو رنگی بھی لوگوں پر اس کے خلاف منفی اثر ڈالتی ھے ۔

اگر کوئی ڈاکٹر شراب کے نقصانات پر کتاب لکھے یاکوئی متاٴثر کرنے والی فلم دکھائے لیکن خود لوگوں کے مجمع میں اس قدر شراب پئے کہ اپنے پیروں پر کھڑا نہ ھوسکے ۔ایسی صورت میں شراب کے خلاف اس کی تمام تحریریں ،تقریریں اور زحمتیں خاک میں مل جائیں گی۔

فرض کیجئے کہ کسی گروہ کارھبر کرسی پر بیٹہ کر عدل وانصاف اور مساوات کی خوبیاں بیان کرنے کے لئے زبردست تقریرکرے لیکن خود عملی طور سے لوگوں کا مال ھڑپ کرتارھے تو اس کاعمل اس کی کھی ھوئی باتوں کو بے اثر بنادے گا۔

خداوند عالم اسی وجہ سے انبیاء کو ایسا علم وایمان اور صبر وحوصلہ عطا کرتاھے تاکہ وہ تمام گناھوں سے خود کو محفوظ رکھیں ۔

اس بیان کی روشنی میں انبیائے الٰھی کے لئے ضروری ھے کہ وہ بعثت کے بعد یا بعثت سے پھلے اپنی پوری زندگی میں گناھوں اور غلطیوں سے دور رھیں اور ان کا دامن کسی بھی طرح کی قول وفعل کی کمزوری سے پاک اور نیک صفات سے درخشاں رھنا چاھئے ۔کیونکہ اگر کسی شخص نے اپنی عمر کاتھوڑا سا حصہ بھی لوگوں کے درمیان گناہ اور معصیت کے ساتھ گزارا ھو اور اس کی زندگی کانامھٴ اعمال سیاہ اور کمزوریوں سے بھرا ھو تو ایسا شخص بعد میں لوگوں کے دلوں میں گھر نھیں کرسکتا اور لوگوں کو اپنے اقوال وکردار سے متاثر نھیں کرسکتا۔

خداوند عالم کی حکمت کاتقاضا ھے کہ وہ اپنے نبی ورسول میں ایسے اسباب وصفات پیدا کرے کہ وہ ھر دل عزیز بن جائےں۔اور ایسے اسباب سے انھیں دور رکھے جن سے لوگوںکے نبی یارسول سے دور ھونے کا خدشہ ھو ۔ظاھر ھے کہ انسان کے گزشتہ برے اعمال اور اس کاتاریک ماضی لوگوں میں اس کے نفوذ اور اس کی ھر دلعزیزی کو انتھائی کم کردے گا اور لوگ یہ کھیں گے کہ کل تک تو وہ خود بد عمل تھا، آج ھمیں ھدایت کرنے چلاھے؟!

2۔اعتماد جذب کرنا:

تعلیم وتربیت کے شرائط میںسے ایک شرط ،جو انبیاء یاالٰھی رھبروں کے اھم مقاصد میں سے ھے ،یہ ھے کہ انسان اپنے مربی کی بات کی سچائی پر ایمان رکھتاھوکیونکہ کسی چیز کی طرف ایک انسان کی کشش اسی قدر ھوتی ھے جس قدر وہ اس چیز پر اعتماد وایمان رکھتاھے۔ایک اقتصادی یا صحی پروگرام کا پر جوش استقبال عوام اسی وقت کرتے ھیں جب کوئی اعلیٰ علمی کمیٹی اس کی تائید کردیتی ھے ۔کیونکہ بھت سے ماھروں کے اجتماعی نظریہ میں خطا یا غلطی کاامکان بھت کم پایا جاتا ھے ۔ اب اگر مذھبی پیشواوٴں کے بارے میں یہ امکان ھو کہ وہ گناہ کرتے ھوں گے تو قطعی طور سے جھوٹ یا حقائق کی تحریف کا امکان بھی پایا جاتا ھوگا ۔اس امکان کی وجہ سے ان کی باتوں سے ھماراا طمینان اٹہ جائے گا۔ اسی طرح انبیاء کا مقصد جو انسانوں کی تربیت اور ھدایت ھے ھاتہ نہ آئے گا۔

 

ممکن ھے یہ کھا جائے کہ اعتماد واطمینان حاصل کرنے کے لئے یہ کافی ھے کہ دینی پیشوا جھوٹ نہ بولیں اور اس گناہ کے قریب نہ جائےں تا کہ انھیں لوگوں کا اعتماد حاصل ھو ۔بقیہ سارے گناھوں سے ان کا پرھیز کرنا لازم نھیں ھے کیونکہ دوسرے گناھوں کے کرنے یا نہ کرنے سے مسئلہ اعتماد واطمینان پر کوئی اثر نھیں پڑتا۔

 

جواب یہ ھے کہ اس بات کی حقیقت ظاھر ھے ،کیونکہ یہ کیسے ممکن ھے کہ ایک شخص جھوٹ بولنے پر آمادہ نہ ھو لیکن دوسرے گناھوں مثلاً آدم کشی ،خیانت اور بے عفتی وبے حیائی کے اعمال کرنے میں اسے کوئی باک نہ ھو؟اصولاً جو شخص دنیا کی لمحاتی لذتوں کے حصول کے لئے ھر طرح کے گناہ انجام دینے پر آمادہ ھو وہ ان کے حصول کے لئے جھوٹ کیسے نھیں بول سکتا۔؟! (2)

اصولی طور سے انسان کو گناہ سے روکنے والی طاقت ایک باطنی قوت یعنی خوف خدا اور نفس پر قابو پاناھے ۔جس کے ذریعہ انسان گناھوں سے دور رھتا ھے ۔پھر یہ کیسے ممکن ھے کہ جھوٹ کے سلسلہ میں تو یہ قوت کام کرے لیکن دوسرے گناھوں کے سلسلہ میں جو عموماً بھت برے اور وجدان و ضمیر کی نظر میں جھوٹ سے بھی زیادہ قبیح ھوں ،یہ قوت کام نہ کرے ؟!

اور اگر ھم اس جدائی کو ثبوت کے طور پر قبول کربھی لیں تو اثبات کے طور سے یعنی عملاً عوام اسے قبول نھیں کرےں گے۔کیونکہ لوگ اس طرح کی جدائی کو ھرگز تسلیم نھیں کرتے۔

اس کے علاوہ گناہ جس طرح گناہ گار کو لوگوں کی نظر میں قابل نفرت بنادیتے ھیں اسی طرح لوگ اس کی باتوں پر بھی اعتماد واطمینان نھیں رکھتے اور”انظر الیٰ ما قال ولاتنظر من الیٰ قال“یعنی یہ دکھو کیا کھہ رھاھے یہ نہ دیکھو کون کھہ رھاھے کا فلسفہ فقط ان لوگوں کے لئے موٴثر ھے جو شخصیت اور اس کی بات کے در میان فرق کرنا چاھتے ھیں لیکن ان لوگوں کے لئے جو بات کی قدرقیمت کو کھنے والے کی شخصیت اور اس کی طھارت وتقدس کے آئینہ میں دیکھتے ھیں یہ فلسفہ کارگر نھیں ھوتا۔

یہ بیان جس طرح رھبری وقیادت کے منصب پر آنے کے بعد صاحب منصب کے لئے عصمت کو ضروری جانتاھے،اسی طرح صاحب منصب ھونے سے پھلے اس کے لئے عصمت کو لازم وضروری سمجھتاھے ۔کیونکہ جو شخص ایک عرصہ تک گناہ گارو لاابالی رھاھواور اس نے ایک عمر جرائم وخیانت اور فحشا وفساد میں گزاری ھو، چاھے وہ بعد میں توبہ بھی کرلے ،اس کی روح میں روحی ومعنوی انقلاب بھی پیدا ھوجائے اور وہ متقی وپرھیزگاراور نیک انسان بھی ھوجائے لیکن چونکہ لوگوں کے ذھنوں میں اس کے برے اعمال کی یادیں محفوظ ھیں لھٰذا لوگ اس کی نیکی کی طرف دعوت کو بھی بد بینی کی نگاہ سے دیکھیںگے اور بسا اوقات یہ تصور بھی کرسکتے ھیں کہ یہ سب اس کی ریاکاریاں ھیں وہ اس راہ سے لوگوں کو فریب دینا اور شکار کرنا چاھتاھے۔اور یہ ذھنی کیفیت خاص طورسے تعبدی مسائل میں جھاں عقلی استدلال اور تجزیہ کی گنجائش نھیں ھوتی ،زیادہ شدت سے ظاھر ھوتی ھے۔

مختصر یہ کہ شریعت کے تمام اصول و فروع کی بنیاد استدلال و تجربہ پر نھیں ھوتی کہ الٰھی رھبر ایک فلسفی یا ایک معلم کی طرح سے اس راہ کو اختیار کرے اور اپنی بات استدلال کے ذریعہ ثابت کرے ،بلکہ شریعت کی بنیاد وحی الٰھی اور ایسی تعلیمات پر ھے کہ انسان صدیوں کے بعد اس کے اسرار و علل سے آگاہ ھوتا ھے اور اس طرح کی تعلیمات کو قبول کرنے کے لئے شرط یہ ھے کہ لوگ الٰھی رھبر کے اوپر سو فی صد ی اعتماد کرتے ھوں کہ جو کچھ وہ سن رھے ھیں اسے وحی الٰھی اور عین حقیقت تصور کریں ، اور ظاھر ھے کہ یہ حالت ایسے رھبر کے سلسلے میں لوگوں کے دلوں میں ھر گز پیدا نھیں ھو سکتی جس کی زندگی ابتدا سے انتھا تک روشن و درخشاں اور پاک و پاکیزہ نہ ھو۔ (3)

یہ دو دلیلیں نہ صرف انبیائے کرام کے لئے عصمت کی ضرورت کو ثابت کرتی ھیں ،بلکہ یہ بھی ثابت کرتی ھیں کہ انبیاء کے جانشینوں کو بھی انبیاء کی طرح معصوم ھونا چاھئے ، کیوں کہ امامت کا منصب اھل سنت کے نظر یہ کے برخلاف کوئی حکومتی اور معمولی منصب نھیں ھے بلکہ جیسا کہ ھم پھلے بیان کر چکے ھیں امامت کا منصب ایک الٰھی منصب ھے اور امام پیغمبر کے ساتھ (نبوت اور وحی کے علاوہ ) تمام منصبوں میں شریک ھے ۔ امام ،دین کا محافظ و نگھبان اور قرآن کے مجمل مطالب کی تشریح کرنے والا ھے نیز ایسے بھت سے احکام کو بیان کرنے والا ھے جنھیں پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) بیان کرنے میں کامیاب نھیں ھوئے تھے ۔

اس لئے امام مسلمانوں کا حاکم اور ان کی جان و مال و ناموس کا نگھبان بھی ھے اور شریعت کو بیان کرنے والا اور الٰھی معلم و مربی بھی ھے اور ایک مربی کو معصوم ھونا چاھئے ، کیوں کہ اگر اس سے کوئی بھی چھوٹا یا بڑا گناہ سرزد ھوا تو اس کی تربیت بے اثر ھو جائے گی ۔ اور اس کی گفتار و کردار کی صحت و درستگی پر سے لوگوں کا اعتماد اٹھ جائے گا۔

حوالہ جات

۱۔ ”یوم یحمیٰ علیھا فی نار جھنم فتکویٰ بھا جباھھم و ظھورھم ھذا ما کنزتم لا نفسکم فذوقوا ما کنتم تکنزون“ سورہ توبہ /35

۲۔اس کے علاوہ گناہ کرنے والے اگر جھوٹ نہ بولیں گے تو اس کالازمہ یہ ھوگا کہ وہ سچائی کے ساتھ اپنے گناھوں کا اعتراف کریں اور جب لوگ ان کی برائیوں سے آگاہ ھوجائےں گے تو فطری طور سے ان کا وقار اور ان کی عزت خاک میں مل جائے گی اور لوگ ان سے نفرت کرنے لگیں گے۔نتیجہ میں دوبارہ وھی مشکل پیش آئے گی کہ مربی اپنے عملی گناہ کے سبب لوگوں میں اپنی عزت گنوادے گا۔

۳۔ لوگوں کا اعتماد جزب کرنے کا لازمہ یہ ھے کہ پیغمبر اپنی زندگی کے تمام ادوار میں چاھے وہ رھبری سے پھلے کی زندگی ھو یا اس کے بعد والی زندگی ھر طرح کے گناہ لغزش اور الودگی سے پاک و پاکیزہ ھو ۔ کیوں کہ یہ بے دھڑک اور سو فی صدی اعتماد اسی وقت ممکن ھے جب اس شخص سے کبھی کوئی گناہ ھوتے ھوئے نہ دیکھا جائے ۔ جو لوگ اپنی زندگی کا کچھ حصہ گناہ اور آلودگی میں بسر کرتے ھیں ،اسکے بعد توبہ کرتے ھیں ،ممکن ھے کہ ایک حد تک لوگوں کا اعتماد جذب کرلیں لیکن سو فی صد ی اعتماد تو بھر حال جذب نھیں کر سکتے ۔

ساتھ ھی اس بات سے یہ نتیجہ بھی حاصل کیا جاسکتا ھے کہ رھبروں کو عمدی گناہ کے ساتھ ساتھ سھو اور بھو ل سے کئے گئے گناہ سے بھی محفوظ ھونا چاھئے ،کیوں کہ عمدی گناہ اعتماد کو سلب کر لیتا ھے اور سھوی گناہ اگر چہ بعض موارد میں اعتماد سلب کرنے کاباعث نھیں ھوتا لیکن انسان کی شخصیت کو نا قابل تلافی نقصان پھنچاتا اور اس کی شخصیت کو بری طرح مجروح کر دیتا ھے اگر چہ سھوی گناہ کی سزا نھیں ھے اور انسان ،دین و عقل کی نگاہ سے معذور سمجھا جاتا ھے لیکن رائے عامہ پر اس کابرا اثر پڑتا ھے اور لوگ ایسے شخص سے دور ھو جاتے یا میں خاص طور سے اگر گناہ بھول سے کسی کو قتل کرنے کا یا اسی جیسا ھو ۔

 

تبصرے
Loading...