اہل سنت کی نظر میں توسل ۔ دوسرا حصہ

ہمارے اس موضوع کا تقاضہ ہے کہ اس مسئلے کی اہل سنت کی روایات کے مطابق تحقیق کی جائے ۔ پہلے ان روایات کو ذکر کیا جائے گا جن میں خود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے توسل کرنے کا حکم دیا ہے ۔ جابر بن عبداللہ انصاری سے روایت ہوئی ہے کہ انہوں نے کہا : ” کان رسول اللہ یقول : و سلوا بمحبتنا الی اللہ و استشفعوا بنا”۔ رسول خدا فرماتے تھے : ہماری محبت کے ذریعہ خداوندعالم سے توسل اور طلب شفاعت کرو (حسینی ، ج١٨، ص ٥٢١) ۔

3۔ روایات

مقالہ کا موضوع اقتضاء کرتا ہے کہ اس مسئلہ کی اہل سنت کی روایات کے مطابق تحقیق کی جائے ۔ پہلے ان روایات کو ذکر کیا جائے گا جن میں خود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے توسل کرنے کا حکم دیا ہے ۔ جابر بن عبداللہ انصاری سے روایت ہوئی ہے کہ انہوں نے کہا : ” کان رسول اللہ یقول : و سلوا بمحبتنا الی اللہ و استشفعوا بنا”۔ رسول خدا فرماتے تھے : ہماری محبت کے ذریعہ خداوندعالم سے توسل اور طلب شفاعت کرو (حسینی ، ج١٨، ص ٥٢١)

نیز ” امام مالک” نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے روضہ میں منصور دوانیقی سے کہا : ” ھو وسیلتک و وسیلة ابیک آدم”۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تیرے لئے وسیلہ ہیں جس طرح تمہارے باپ آدم کے لئے وسیلہ تھے ۔ (زینی دحلان ، ١٣٦٤ شمسی، ص ١٥٧) ۔

محمد بن عبدالوہاب کے بعد پہلی مرتبہ اس کے بھائی نے، کتاب ”شفاء السقام” میں سبکی نے اور ان کی پیروی کرتے ہوئے سمہودی نے ” کتاب وفاالوفاء ” میں محمد بن عبدالوہاب کے عقاید اور نظریات پر تنقید کی ہے ۔

سبکی نے اپنی کتاب ”شفاء السقام” میں اس کو بہترین طریقہ سے تقسیم کیا ہے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے توسل کو ہر حال میں جائز شمار کیا ہے اور اس کی تین قسمیں کی ہیں:

الف : توسل کرنے والا پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی ذات، چہرہ اور آپ کے حق کو واسطہ قرار دے کر خداوند عالم سے اپنی حاجت طلب کرتا ہے ۔

ب : ضرورت مند ، اپنے حق میں رسول خدا کی دعاکی درخواست کے لئے آپ سے متوسل ہوتا ہے ۔

ج : توسل کرنے والا خود پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے اپنی درخواست طلب کرتا ہے ۔

ان تینوں قسموں میں سے ہر ایک کے لئے تین حالتیں، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دنیا میں خلق ہونے سے پہلے، آپ کی حیات کے وقت اور دنیا سے رحلت کے بعد ذکر کی ہیں ، اس مقالہ میں تینوں قسموں کو بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور اپنے مدعا کو ثابت کرنے کے لئے پہلی حالت کو تینوں صورتوں کے ساتھ بیان کرنا کافی ہے ۔

١۔ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی جسمانی خلقت سے پہلے توسل

حاکم نے صحیح سند کے ساتھ عمر بن خطاب سے اس طرح نقل کیا ہے : ” قال رسول اللہ : لما اقترف آدم الخطیئة قال : یا رب اسالک بحق محمد لما غفرت لی ، فقال اللہ : یا آدم و کیف عرفت محمدا ولم اخلقہ؟ قال : یا رب ، لانک لما خلقتنی بیدک و نفخت فی من روحک، رفعت راسی فرایت علی قوام العرش مکتوبا ”لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ” فعلمت انک لم تظف الی اسمک الا احب الخلق الیک، فقال اللہ تعالی : صدقت یا آدم انہ لاحب الخلق الی، ادعنی بحقہ فقد غفرت لک، ولو لا محمد ما خلقتک ”۔ جس وقت حضرت آدم سے ترک اولی سرزد ہوا تو خداوند عالم کی بارگاہ میں عرض کیا : خدایا ! محمد کے حق کا واسطہ مجھے معاف کردے ۔ خداوند عالم نے فرمایا: اے آدم ! کس طرح تم نے محمدکو پہچانا؟ کہ جنہيں ابھی میں نے خلق نہیں کیا ہے ؟ عرض کیا : خدایا ! جس وقت تو نے مجھے خلق کیا اور اپنی روح میرے اندر پھونکی تو میں نے اپنا سر بلند کیا ، عرش پر لکھا ہوا تھا ” لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ” اورمیں سمجھ گیا کہ تو نے اپنی محبوب ترین مخلوق کا نام اپنے ساتھ لکھا ہے ، خداوندعالم نے فرمایا: تم نے سچ کہا ہے، وہ میری محبوب ترین مخلوق ہے ، تم مجھے ان کے حق کا واسطہ دو تو میں تمہیں بخش دوں گا، اگر وہ نہ ہوتے تو میں تمہیں خلق نہ کرتا ۔ (نیشاپوری ، ج٢، ص ٦١٥) ۔ سبکی اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں : یہ حدیث اس قوی سند اورحاکم کی تصحیح کے ساتھ ابن تیمیہ تک نہیں پہنچی ورنہ وہ کبھی بھی (توسل کے جائز ہونے کی) تکذیب نہ کرتا یا کم سے کم حاکم کا جواب دیتا ۔ (سبکی، شفاء السقام، المعجم العقایدی) ۔

اس روایت کو اختلاف کے ساتھ طبرانی نے ”المعجم الصغیر” میں، بیہقی نے ”الدلایل النبوة” میں ، سیوطی نے ”الدر المنثور” میں اور آلوسی نے ”روح المعانی” میں نقل کیا ہے ، اس بناء پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے حضرت آدم کا توسل کرنامشہور اور معروف ہے ، اس کے علاوہ حضرت پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے حضرت نوح، ابراہیم اور حضرت عیسی کا توسل کرنا اہل سنت کی کتابوں میں بیان ہوا ہے ، یہاں پر اختصار کی وجہ سے اس کو بیان نہیں کریں گے ۔

مفسرین نے سورہ بقرہ کی آیت ٨٩ کے ذیل میں روایت کی ہے کہ مدینہ اور خیبر کے یہودی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت سے قبل جب بھی کسی کے ساتھ جنگ کرتے تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نام سے متوسل ہوتے تھے جس کو انہوں نے توریت سے لیا تھا اورکہتے تھے : پروردگارا ! تجھے تیری نبی برحق کا واسطہ ہمیں کامیابی عطا کر۔ اور وہ کامیاب ہوتے تھے ۔ لیکن جس وقت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مبعوث ہوگئے اور آپ وہ کتاب لے کر آئے جو توریت اورانجیل کی تصدیق کرتی تھی لیکن یہودی اس پر ایمان نہیں لائے کیونکہ آپ بنی اسرائیل سے نہ تھے (رجوع کریں، نسابوری، گذشتہ حوالہ، ص ٢٦٣۔ طبری و سیوطی مذکورہ آیت کے ذیل میں) ۔

اس بناء پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے توسل اور آپ سے مدد کی درخواست گذشتہ ادیان کے ماننے والوں کے درمیان ایک امر مسلم ہے ۔

٢۔ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی حیات میں آپ سے توسل

اس حصہ میں بھی فریقین کی کتابوں میں بہت بہت زیادہ روایات بیان ہوئی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ عثمان بن حنیف روایت کرتے ہیں کہ ایک نابینا شخص پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں پہنچا اور کہا : خداوند عالم سے میری عافیت کی دعا کریں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کو حکم دیا کہ وضو کرو اور دو رکعت نماز پڑھو ، پھر یہ دعا پڑھو: ” اللھم انی اسالک و توجہ الیک بنبیک محمد نبی الرحمة، یا محمد انی اتوجہ بک الی ربی فی حاجتی لتقضی، اللھم شفعہ فی” ۔خدایا ! تیرے نبی ”محمد” کے ذریعہ جو کہ پیغمبر رحمت ہیں، تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں ۔ یا محمد ! اپنی حاجت کے لئے اپنے پروردگار کے سامنے آپ کو واسطہ قرار دیتا ہوں تاکہ میری حاجت پوری ہوجائے ، خدایا ! ان کو میرے لئے شفیع قرار دے ۔ اس کے بعد راوی کہتا ہے : ہم ابھی متفرق نہیں ہوئے تھے کہ وہ شخص صحیح ہوگیا (سمہودی ، گذشتہ حوالہ، ص ١٣٧٢) ۔

علماء اہل سنت کے علاوہ ، آیت اللہ سبحانی کہتے ہیں : اس حدیث کی سند کے صحیح اور متقن ہونے میں کوئی شک نہیں ہے یہاں تک کہ ابن تیمیہ نے بھی اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔ رفاعی وہابی جو کہ توسل کے جائز ہونے کی احادیث کو خراب کرنے کی کوشش کرتا ہے اس نے اس حدیث کو صحیح اور مشہور جانا ہے (آئین وہابیت ، ص ١٤٨) ۔

حضرت پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے فاطمہ بنت اسد کی وفات کے وقت اپنے اور گذشتہ انبیاء کے حق کا واسطہ دے کر ان کے لئے دعا کی تھی (سمہودی ، گذشتہ حوالہ، ص ١٣٧) ۔ اگر خدا کے نزدیک کسی کوواسطہ قرار دینا جائز نہ ہوتا تو کبھی بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی والدہ کی مغفرت کے لئے خداوندعالم کو اپنے اور گذشتہ انبیا کے حق کا واسطہ نہ دیتے ۔ اس بناء پر آنحضرت کا عمل توسل کے جائز ہونے پر بہترین دلیل ہے ۔

٣۔ آنحضرت (ص) کی رحلت کے بعد آپ سے توسل

سمہودی نے طبرانی سے نقل کرتے ہوئے عثمان بن حنیف کی روایت کو بیان کیا ہے کہ ایک شخص اپنی حاجت حاصل کرنے کے لئے عثمان بن عفان کے پاس جاتا تھا لیکن وہ اس کی طرف توجہ نہیں کرتے تھے ۔ عثمان بن حنیف نے اس سے کہا: وضو کرو اور مسجد میں جاکر دو رکعت نماز پڑھو پھر نماز کے بعد اس دعا ”اللھم انی اسالک…” پڑھو (اس دعا کو گذشتہ صفحہ پر بیان کیا ہے) پھر اپنی حاجت طلب کرو ،اس شخص نے ایسا ہی کیا تو اس کی حاجت پوری ہوگئی (گذشتہ حوالہ، ص ١٣٧٢۔ ١٣٧٣) ۔

سبکی لکھتے ہیں : اس حدیث کو ، ترمذی نے صحیح قراردیا ہے اور بیہقی نے پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے آپ کی رحلت کے بعد اس کو توسل کے جائز ہونے کی لئے کافی سمجھا ہے (سبکی ،گذشتہ حوالہ) ۔

اس نکتہ کو یاددلانا ضروری ہے کہ اکثر مسلمان (فریقین) پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خلقت سے قبل اور آپ کی حیات میں آپ سے توسل کو جائز سمجھتے ہیں ، بعض متاخرین کو جس چیز میں شبہہ ہوا ہے وہ یہ ہے کہ انبیاء الہی اور پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی روح سے ان کے انتقال کے بعد توسل کرنا جائز ہے یا نہیں؟ یہ لوگ ،حیات اور مرنے کے بعد کی دنیا میں فرق کے قائل ہیں ۔

انہوں نے ایک نکتہ کی طرف توجہ نہیں کی ہے وہ یہ ہے کہ آیات ، روایات اور فلسفی و کلامی کتابوں سے یہ بات حاصل ہوتی ہے کہ انسان کاوجود اس کی روح کی وجہ سے ہے، توسل اور شفاعت کی درخواست،آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے روحی پہلو سے مربوط ہے ۔

٤۔ سیرت

ادیان الہی کے ماننے والوں کی سیرت انبیاء، اولیاء اور دینی مقدسات سے توسل کے جائز ہونے پر قائم تھی ، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیات اور آپ کی رحلت کے بعد مسلمانوں کی سیرت بھی اسی پر قائم تھی، مسلمانوں کی سیرت سے استدلال کرنے میں دو چیزوں کو ثابت کرنا ضروری ہے :

الف : اس سیرت کا شارع کے زمانہ میں ثابت ہونا ۔

ب : پیغمبرا کرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اس سیرت کے سےمتفق ہونا ۔

پہلی بات کو ثابت کرنے کیلئے مذکورہ روایات سے استشہاد کیا جاسکتا ہےجو تظافر کی حدتک ہیں ،اس کے علاوہ اگر کوئی مسئلہ مبتلا بہ ہو اور واضحات میں سے سیرت کے خلاف بھی نہ ہو اور روایات میں اس کےمتعلق کوئی سوال یا جواب نہ ملتا ہو تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خاص عمل انبیاء خصوصا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ میں بھی موجود تھا ، ورنہ سیرت کے خلاف ہوتا یا اس متعلق زیادہ سوال و جواب پائے جاتے لیکن ایسا نہیں ہے ۔

دوسری بات کو ثابت کرنے کیلئے دو ”قضیہ شرطیہ” سے مدد لینی پڑے گی جس کے نتیجہ میں شارع کی جانب سےسیرت کے اس مضمون کی موافقت حاصل ہوجائے گی:

الف : اگر شارع ،سیرت کے اس مضمون سے متفق نہ ہوتا تو اس کی پیروی کرنے سے منع کرتا ۔

ب : اگر شارع اس کی پیروی کرنے سے منع کرتا تو شارع کے منع کرنے کی خبر ہم تک پہنچتی ۔

توسل سے منع کرنے پر کوئی روایت موجود نہیں ہے بلکہ بہت زیادہ روایتیں توسل کے جائز(یہاں تک کہ صریح رویات میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اپنے آپ سے توسل کرنے کا حکم دیا ہے) ہونے پر دلالت کرتی ہیں ، یہ خود سیرت کے قائم ہونے پر گواہ اور اس پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رضایت معلوم ہے ۔ اسلام کی نظر میں توسل کے جائز ہونےکی دلیل یہ ہےکہ توسل کرنا تمام پیغمبر ان الہی کی سیرت رہی ہے جیسے حضرت آدم کا پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے توسل کرنا ، برادران یوسف کا اپنے والد یعقوب سے توسل اور گذشتہ امتوں کا اپنے نبیوں سے توسل کرنا ۔

اس بناء پر ان چار دلیلوں (عقل، آیات، روایت اور سیرہ مسلمین) سے توسل کے جائز ہونے پر استدلال کیا جاسکتا ہے ۔

اس بات کی طرف اشارہ کیا جاچکا ہے کہ بعض متاخرین نے جس چیز پر اعتراض کیا ہے وہ یہ ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور اولیائے الہی کی روح سے ان کے مرنے کے بعد درخواست اور توسل کرنا ہے ۔

یہاں پر ہم صرف دو بنیادی سوالوں کی تحقیق کریں گے :

١۔ کیاعالم برزخ میں انبیاء اور اولیاء الہی کی ارواح ہماری درخواست کو پورا کرنے پر قادر ہیں یا نہیں؟

٢۔ انبیا اور اولیاء الہی کی ارواح سے شفاعت و دعا یا توسل کی درخواست کرنا جائز ہے یانہیں؟جائز ہونے یا جائز نہ ہونے کی دلیل کیا ہے؟

انبیاء اور اولیاء الہی کی ولایت تکوینی سے ناواقفیت کی بناء پر شاید بعض لوگوں کے ذہن میں ان ارواح کے قادر نہ ہونے کا شبہ پیدا ہواہے ۔ روح کے لئے ولایت تکوینی ، اکتسابی خصوصیت ہے جس کے ذریعہ اس کوبہت سے کام انجام دینے کے لئے انسان سے زیادہ طاقت حاصل ہوتی ہے اور اس کے ذریعہ وہ تکوینی امور میں تصرف کرسکتی ہے، یہ روح جو اس کی اصل ہے ، مرنے کے بعد بھی باقی رہتی ہے اور ہماری درخواستوں کو پورا کرنے پر قادر ہے۔

آیت اللہ سبحانی لکھتے ہیں : ولایت تکوینی ایک روحی اور معنوی کمال ہے جوشارع کے قوانین پر عمل کرنے کی برکت سے انسان کے اندر ظاہر ہوتا ہے (اصالت روح، ص ١٩٨) ۔

گذشتہ مطالب کو مد نظر رکھتے ہوئے حیات اور مرنے کے بعد کی روح کی قدرت میں کوئی فرق نہیں ہے (اور جو لوگ انبیاء اور اولیاء الہی سے طلب حاجت کرتے ہیں ان کا اعتقاد یہ ہوتا ہے کہ یہ حضرات خدا کے ارادہ اور مشیت سے تمام امور کو انجام دیتے ہیں ، مستقل طور پر نہیں) اسی وجہ سے صحابہ بھی قدرت کی عام طاقت کوسمجھ گئے تھے جس کی وجہ سے وہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی رحلت کے بعد بھی آپ کی قبر پر جاتے تھے اور سورہ نساء کی ٦٤ویں آیت سے استناد کرتے ہوئے مغفرت کی درخواست کرتے تھے ۔

سبکی لکھتے ہیں : سورہ نساء کی٦٤ویں آیت کے حکم سے مسلمان آج بھی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے طلب مغفرت کرسکتے ہیں کیونکہ خداوند عالم نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو ایسا مقام عطا کیا ہے جو مرنے کے بعد بھی ختم نہیں ہوتا، یعنی وہ ہماری درخواستوں اور دعائوں کوپورا کرنے پر قادر ہیں جیسا کہ اصحاب اور تابعین بھی اس پر عمل کرتے تھے (سبکی ،گذشتہ حوالہ، ص ٣٠٢) ۔

دوسرے سوال کا جواب : یہ بیان ہوچکا ہے کہ اکثر مسلمان (ساتویں صدی تک) ان امور کو جائز جانتے تھے اور اس کی بعض دلیلیں بھی بیان ہوچکی ہیں ۔

لیکن جو لوگ جائز نہیں جانتے جیسے ابن تیمیہ اور ان کے پیرو ،ان کے پاس جائز نہ ہونے پر کوئی ایک ضابطہ نہیں ہے جس کی وجہ سے کبھی اصحاب اورتابعین کے اجماع کا دعوی کرتے ہیں اور کبھی ان امور کے بدعت ہونے کا دعوی کرتے ہیں ۔

اجماع : ابن تیمیہ لکھتا ہے : قبرمیں میت یا کسی غایب انسان سے یہ خطاب کرنا کہ خداوند عالم سے میرے لئے یہ چیز طلب کر، یا خداوند عالم سے میری شفاعت کر، یاخداوند عالم سے درخواست کرو کہ میں اپنے دشمن پر غالب ہوجائوں ، یا خداوند عالم سے مغفرت کی درخواست کرنا وغیرہ اصحاب اور تابعین کے اجماع کے خلاف ہے ،اصحاب اور تابعین نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد ایسی کوئی درخواست نہیں کی ہے! اورائمہ مسلمین نے اپنی کتابوں میں اس کو ذکر نہیں کیا ہے (رجوع کریں: ابن تیمیہ، ١٤٢١، ق ، ج١، ص ١٤٩) ۔

یہ بات دو طرح سے غلط ہے ، کیونکہ اولا : اس طرح کا کوئی اجماع اور اتفاق موجود نہیں ہے ، ثانیا : اہل سنت کی بہت سی کتابوں میں بیان ہوا ہے کہ اصحاب اور تابعین پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر سے متوسل ہوتے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اپنی مادی اور معنوی درخواستیں کرتے تھے ۔

جیسا کہ ذکر ہوا ہے ،قرطبی نے سورہ نساء کی ٦٤ویں آیت کے ذیل میں ابوصادق نے حضرت علی علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دفن کے تین دنون بعد ایک اعرابی نے آپ کی قبر سے توسل کیا اور خداوندعالم سے استغفار کی درخواست کی اورقبر سے آواز آئی کہ خداوندعالم نے تجھے معاف کردیا ۔

ابن کثیر لکھتے ہیں : یہ آیت گناہگارہوں کی ہدایت کرتی ہے تاکہ وہ رسول خدا سے توسل کرتے ہوے خدا وند عالم سے اپنے استغفار کی دعا کریں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان کے لئے طلب مغفرت کرتے ہیں اور خداوند عالم بھی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وساطت سے ان کی توبہ قبول کرلیتا ہے اور انہیں معاف کردیتاہے ۔ اس کے بعد وہ قرطبی جیسی ہی ایک اور روایت جسمیں اعرابی قبر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے متوسل ہوتا ہے نقل کرتےہیں (ج 2 ص 329-9)

ابن تیمیمہ اور ان کے اتباع کے رد میں جوکتابیں لکھی گئي ہیں ان میں تفصیل سے ان کے تمام اعتراضات کا جواب دیاگيا ہے اور متقن دلیلوں سے ثابت کیا گيا ہے کہ توسل ، شفاعت اور طلب مدد جیسی امور کو بدعت اور شرک کہنے والے خود بدعت گذار ہیں ۔ ان حضرات نے مسلمانون کو مشرک قراردیکر بڑا خون خرابہ کیا ہے اور مسلمانوں میں تفرقے کاباعث بنے ہیں۔ 

تبصرے
Loading...