انسانی زندگی پر قیامت کا اثر

بے شک اللہ اور روز قیامت پر اعتقاد رکھنے کی وجہ سے انسان اپنے آپ کوتیار اور محفوظ رکھتا ھے، کیونکہ یہ عقیدہ انسانی نفس میں ایک ایسی طاقت بخشتا ھے جو خواہشات نفسانی کا مقابلہ کرتی ھے، اور اس دنیا میں دھوکہ دینے والی چیزوں سے محفوظ رہتا ھے اور عقیدہ معاد انسان کے لئے ایسی سپر ھے جس کی وجہ سے انسان خواہشات نفسانی ،دنیاپرستی اور ھوا وھوس سے مصون رہتا ھے کیونکہ اکثر وہ لوگ جو معاد پر ایمان نھیں رکھتے بلکہ ان کا اعتقاد ھے کہ جب انسان مرجائے گا تو اس کا جسم ریزہ ریزہ ھوکر نابود ھوجائے گا اور اس کی حیات بعد از مرگ تمام ھو جائے گی ان لوگوں کے پاس کوئی ایسی چیز نھیں ھے جو دنیا میں اس کو سرکشی اور ھوا و ھوس سے روکے رکھے اور ان کو باطل پرستی و فعل قبیح کے اتیان سے باز رکھے۔

لیکن روز آخرت پر ایمان رکھنے والا شخص اس دنیاوی چند روزہ زندگی کو ایک مدرسہ اور معرفت و فضیلت اور کمال تک پہنچنے کا وسیلہ اور آخرت میں آرام سے زندگی گزارنے اور سرمدی اور ھمیشگی زندگی کا ذریعہ سمجھتا ھے، کیونکہ انسان اس دنیا میں رہ کر اپنے کو گناھوں اورلغزشوں سے محفوظ رکھتا ھے،  فضیلت و عدالت کو اپناتا ھے اور شرع و عقل کی مخالف چیزوں کا مقابلہ کرتا ھے تاکہ انسان کمال کی بلندی کو طے کرتا ھوا روحی اطمینان تک پہنچ جائے، جیسا کہ ارشاد رب العزت ھوتا ھے:

(1)

”اے اطمینان پانے والی جان اپنے پرور دگار کی طرف چل تو اس سے خوش وہ تجھ سے راضی تو میرے (خاص)بندوں میں شامل ھوجا ،اور میرے بہشت میں داخل ھوجا“۔

اور انسان اس قیامت پر ایمان رکھے بغیر (جو برائی اور بھلائی کا روز جزا و سزا ھے)ان تمام اقدار اور بلندیوں کو نھیں چھو سکتا اور اسی عقیدہ معاد کی وجہ سے انسان کے نفس میں ایسی طاقت پیدا ھو جاتی ھے کہ جس سے انسان نیکیوں اور اچھائیوں کا دوستدار بن جاتا ھے اور گناھوں سے دور ھوتا چلاجاتا ھے، کیونکہ برائیوں کے ارتکاب سے انسان کے اندر شرمندگی، حسرت اور روز قیامت کی ذمہ داری کا احساس بڑھتا جاتاھے۔

اور پھر روز قیامت کا اعتقاد انسان کو برائیوں سے ھی نھیں روکتا بلکہ نفس کو مطمئن بھی کردیتا ھے اور خطرات کے موقع پر انسان میں چین و سکون پیدا کردیتا ھے، اسی کے ذریعہ  امانت کی خاموش نہ ھونے والی شمع روشن ھوجاتی ھيں، انسان کی آرزوئیں صرف حق و کمال کی تلاش میں رہتی ھیں اس وقت انسان بافضیلت ھو جاتا ھے، اور فضیلت کے اس مقام تک پہنچنے کی وجہ سے اس کا عذاب خدا سے ڈرنا یا امید ثواب نھیں ھے ،بلکہ اس معاد کے عقیدہ کی وجہ سے انسان رذیلت کی لذت سے فضیلت کی لذت محسوس کرنے لگتا ھے،اور وہ کسی ڈر یا لالچ میں اللہ کی عبادت نھیں کرتا بلکہ وہ خداکو عبادت کا مستحق سمجھتا ھے، جیسا کہ حضرت امیر الموٴمنین علیہ السلام فرماتے ھیں:

”الھی ما عبد تک خوفاً من عقابک ولا طمعا فی ثوابک ،ولکن وجدتک اھلا للعبادة فعبدتک“۔ (2)

”پالنے والے! میں تیری عبادت تیرے عذاب کے خوف سے کرتا ھوں نہ تیرے ثواب کے لالچ سے، بلکہ تجھے عبادت کا اہل پاتا ھوں تو تیری عبادت کرتا ھوں“۔

لیکن قیامت پرایمان نہ رکھنے والے اور خدا کی بارگاہ میں حاضر ھونے کا عقیدہ نہ رکھنے والے لوگ اسی دنیاوی زندگی پر خوشحال ، اور مطمئن ھیں اور اسی پر بھروسہ کئے ھوئے ھیں، جس سے ان کی رغبتوں میں اضافہ ھوتا رہتا ھے، اور ھوائے نفس ان پر اور ان کی ذات پر غلبہ کرلیتی ھے جس سے ان کے نفوس تباہ و برباد ھو جاتے ھیں،اس وقت یہ لوگ خود کو دنیاوی برائیوں کے دلدل میں پھنسا ھوا دیکھتے ھیں۔ کیونکہ یہ لوگ سعادت اور اپنی زندگی کا عیش و آرام اور مرنے سے پہلے بہت سی آرزوٴں کو حاصل کرنا چاہتے ھیں، ان کے عقیدہ کے مطابق عالم موتفنا ھوجانا ھے۔

اسی وجہ سے آپ حضرات ان کو مضطرب اور پریشان دیکھتے ھیں، وہ ڈرتے ھیں کہ کھیں مرنے سے پہلے ھی ان کا رزق ختم نہ ھوجائے،مرنے سے پہلے آسائش و سکون کے اسباب نہ حاصل کرپائیں، وہ زندگی میں تھوڑی سی تکلیف سے پریشان ھوجاتے ھیں، اور ظاہری مال و دولت اور چین و سکون کے وسائل حاصل نہ کرنے پر اپنے نفس کی ملامت کرتے ھیں ان کی نظر میں یہ دنیا تاریک بن جاتی ھے یعنی اس کا مقصد معلوم نھیں ھو پاتا، اسی وجہ سے کبھی کبھی اس غم سے نجات حاصل کرنے کے لئے خودکشی کر لیتے ھیں، یہ لوگ درحقیقت اندھے ھیں، جو کچھ بھی نھیں دیکھ پاتے ھیں، دنیا نے ان کوحق و حقیقت اور خیر و کمال کو دیکھنے سے اندھا کردیا ھے۔

حضرت امیرالموٴمنین علیہ السلام فرماتے ھیں:

”انما الدنیا منتھیٰ بصر الاعمی ،لا یبصرمما و راء ھا شیئا، والبصیر ینفذھا بصرہ ،ویعلم ان الدار وراء ھا فالبصیر منھا شاخص، والاعمی الیھا شاخص ،والبصیر منھا متزود والاعمی لھا متزوّد“۔[3]

”یہ دنیا اندھے کی بصارت کی آخری منزل ھے جو اس کے ماوراء کچھ نھیں دیکھتا ھے جبکہ صاحب بصیرت کی نگاہ اُس پار نکل جاتی ھے اور وہ جانتا ھے کہ منزل اس کے ماوراء ھے، صاحب بصیرت اس سے کوچ کرنے والا ھے اور اندھا اس کی طرف کوچ کرنے والا ھے، بصیر اس سے زاد راہ فراھم کرنے والا ھے اور اندھا اس کے لئے زاد راہ اکٹھا کرنے والا ھے“۔

لیکن اس کے برعکس ایک مرد مومن کا عقیدہ یہ ھوتا ھے اوراس کا نفس اس بات پر مطمئن ھوتا ھے کہ سعادت و خوشبختی اس دنیا اور اس کے محدود مال و متاع میں خلاصہ نھیں ھوتی کیونکہ اس کے عقیدہ کے مطابق جو چیز خدا کے پاس ھے وہ خیر کثیر اور باقی رہنے والی سعادت ھے، جیسا کہ ارشاد ھوتا ھے:

[4]

”اور تم لوگوں کو جو کچھ عطا ھوا ھے تووہ دنیا کی (ذراسی)زندگی کا فائدہ اور اسی کی آرائش ھے اور جو کچھ خدا کے پاس ھے وہ اس سے کھیں بہتر اور پائیدار ھے “۔

لہٰذا وہ دنیاوی مشکلات و مصائب کے سامنے مضطرب اور پریشان نھیں ھوتا، حوادث کے سامنے سر نھیں جھکاتا، اضطراب و پریشانی کے موقع پر چیخ و پکار نھیں کرتا،بلکہ اپنے نفس کو صبر کی تلقین کرتا ھے، موت کا تذکرہ کرتا ھے، خداوندعالم کی بارگاہ میں حاضرھونے کی جاودانہ سعادت کی امید رکھتا ھے، جیسا کہ حضرت امیرالموٴمنین علیہ السلام کا ارشاد گرامی ھے:

”اکثروا ذکر الموت ویوم خروجکم من القبور ،وقیامکم بین یدی اللہ تعالی ،تھون علیکم المصائب“۔[5]

” اکثر اوقات موت کا ذکر اور قبر سے نکلنے کا تصور کیا کرواور خداوندعالم کے سامنے حاضری کا تصور کیا کرو تو تم پر مصائب آسان ھو جائیں گے“۔

پس معلوم ھوا کہ قیامت کا عقیدہ انسان کو سعادت اور خوشبختی کی طرف لے جاتا ھے اور انسان کو کمال و فضیلت کا مالک بنا دیتا ھے، کیونکہ حقیقی کامیابی وھی آخرت کی کامیابی ھے جو انسانی کمال اور فضائل کسب کرنے کی بنا پر حاصل ھوتی ھے کہ انسان اپنے کو حد اعتدال میں رکھے اورغضب و شھوت میں افراط و تفریط کا شکار نہ ھو ، اور ان راستوں کا انتخاب کرے جن کے ذریعہ وہ بہترین کمال تک پہنچ جائے اور اپنے کو مختلف برائیوں سے دور رکھے کیونکہ برائیوں میں انسان کی ذلت اور خواری کے علاوہ کچھ نھیں ھے، تاکہ آخرت میں ذلت اور عذاب کا مستحق قرار نہ پائے، لہٰذا ان تمام چیزوں کے پیش نظر انسان کے لئے یہ دنیا اُخروی کمال تک پہنچنے کا راستہ بن جاتی ھے۔

آج جب کہ انسان مختلف چیزوں میں ترقی کرتا ھوا نظر آتا ھے، اور مختلف طاقتوں پر قبضہ کئے ھوئے ھے لیکن خود اس کے نفس کی لگام ڈھیلی ھے اور اس کو کمال مطلوب کی طرف پہنچنے میں مانع ھے اس کے بعد انسان ان انحرافات ،پریشانیوں اور مشکلات کو دور کرنے سے عاجز رہ جاتا ھے، جیسا کہ آج کل کی ترقی یافتہ دنیا کے اکثر ممالک میں ھو رھا ھے۔

اسی وجہ سے روحانی پریشانی اور اضطرابات کو دور کرنے کے تمام راہ حل بے کار رہ جاتے ھیں اور انسان شش و پنج کی زندگی میں مبتلا ھوجاتا ھے۔

لہٰذا یہاں پر صرف ایک عقیدہ معاد ھی راستہ باقی رہ جاتا ھے ، جس کے ذریعہ انسان اپنے نفس کو پاکیزہ بنا سکتا ھے اور انحرافات اور برائیوں کے آڑے آ سکتا ھے،اوریہ ایسی مضبوط زرہ ھے جو ھوائے نفس اور خواہشات نفسانی سے محفوظ رکھتی ھے تاکہ انسان اپنی منزل مقصود کو حاصل کرلے،اوراسی  بنیادی رکن پر نفس اور فاضل معاشرہ کی بنیاد رکھی  ھوئی ھے۔

حوالہ جات :

[1] نہج البلاغہ /صبحی الصالح :۱۹۱۔خطبہ نمبر ۔(۱۳۳)

[2] سورہٴ قصص آیت۶۰۔

[3] الخصا ل،شیخ صدوقۺ:۶۱۶۔حدیث الابعمائة۔

(4) سورہٴ فجر آیت۲۷۔۳۰۔

(5) بحا رالانوار /علامہ مجلسی،ج۴۱،ص

تبصرے
Loading...