انتظار کی حقیقت اور شیعوں کی پیش رفت

اسی مطلب کو امام ترمذی ،صدوق الطائفہ اور علامہ مجلسی نے اس عبارت کے ساتھ نقل کیا ھے : ”افضل اعمال امتی انتظار الفرج من عزوجل “۔ ”میری امت کا بہترین عمل ،خدا سے انتظار فرج کی دعا کرنا ھے ۔“[1]

اس لحاظ سے دین اسلام میں ھم (امام مھدی (ع) کا )انتظار کرنے والوں کا مقام بہت بلند وبالا ھے جس کے لئے روایات میں عجیب تعبیر ات موجود ھیں کہ جس کے کچھ نمونہ آپ کے پیش کرتے ھیں:

امام علی ابن ابی طالب (ع) فرماتے ھیں :”الآخذ بامرنا معنا غداْ فی حظیر القدس والمنتظر لامرنا کمتشحط بدمہ فی سبیل اللہ ۔“ھمارے امر (امامت )سے تمسک رکھنے والے کل جنت الفردوس میں ھمارے ساتھ ھوں گے اور اس (مھدی(ع)) کا انتظار کرنے والے ان لوگوں کے جیسے ھوں گے جو راہ خدا میں اپنی خون ھی میں غلطاں ھوں۔

(ممکن ھے اس حدیث میں کلمہ ٴ ”امر “”اوامر“ یا ”امور“ کا مفرد ھو لیکن اسی احتمال کو ھونا واجب ھے اور علماء نے ظاھراً دوسرے اختیار کو استعمال کیا ھے اسی انھوں نے اس کو ”انتظار الفرج فی ولی العصر ‘ ‘ کے باب میں ذکر کیا ھے)[2]

سید الساجدین حضرت امام زین العابدین ںنے فرمایا:”تمتد الغیبة بولی اللہ الثانی عشر من اوصیاء رسول اللہ  (ص)،۔۔۔ان اھل زمانہ غیبتہ القائلون بامامتہ المنتظرون لظھورہ ،افضل اھل کل زمانہ؛لان اللہ تعالیٰ ذکرہ اعطاھم من العقول والافھام والمعرفة ما صارت بہ الغیبة عندھم بمنزلة المشاھدة وجعلھم فی ذلک الزمان بمنزلة المجاھدین بین یدی اللہ رسول اللہ  (ص)بالسیف ،اولئک المخلصون حقاً و شیعتنا صدقاً والدعاة الی دین اللہ سرا جھراً“۔؛[3]

”رسول خدا  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے اوسیاء میں بارھویں وصی کے غیبت کا زمانہ بہت طولانی ھوگا اس زمانے کے لوگ جو ان کی امامت کے معتقد اور ان کے ظھور کے منتظر ھوںگے وہ تمام زمانے کے لوگوں سے افضل و برتر ھوں گے ۔اس لئے کہ خدا وند عالم انھیں عقل و فھم اور معرفت عطا کرے گا کہ جس سے غیبت ان کی نظروں میں زمانہ ظھور کے جیسے ھوگا اور وہ ان مجاھدوں کے جیسے ھوں گے گویا جو رسول خدا(ص) کے ساتھ تلوار سے لڑ رھے ھوں ۔وھی واقعی مخلص ،ھمارے سچے شیعہ اور دین خدا کی طرف ظاھراً و باطناً دعوت کرنے والے ھوں گے ۔“

امام موسیٰ کاظم ں نے فرمایا:”طوبیٰ لشیعتنالمتمسکین بحبلنا فی غیبة قائمنا،الثابتین علی مولاتناوالبرائة من اعدائنا ،اولئک منا ونحن منھم ،قدر رضوا بنا ائمة ورضینا بھم شیعة ، فطوبیٰ                 لھم ثم طوبی ٰ لھم ،ھم واللہ معنا فی درجتنا یوم القیامة “۔[4]

”خوش نصیب ھیں ھمارے وہ شیعہ جو ھمارے قائم کی غیبت کے زمانے میں ھمارے دامن سے متمسک ،اور ھماری محب اور ھمارے دشمنوں سے دشمنی کرنے پر ثابت رھیں گے ،وہ لوگ ھم سے،خوش نصیب اور خوش نصیب ھیں وہ لوگ ،خدا کی قسم روز قیامت وہ لوگ ھمارے ھم درجہ اور ھمارے واتھ ھوں گے ۔“

در حقیقت حضرت مھدی(ع) کے طھور کے انتظار کرنے والوں کا اس بلنداور عظیم مرتبے پرھونے کا راز کہ جس سے خدا کے مقرب فرشتے بھی ان سے رکش کریں گے وہ کس چیز میں مخفی ھے؟ جو کچھ بھی ھو اس کی باز گشت ”انتظار“کی طرف ھے ۔مگر یہ انتظار ھے کیا کہ جو اس حد تک کمال عطا کرنے والا ھے؟ یہ کیسا مقام ھے کہ جس سے انسان پر واز کرکے سدرة المنتھی کی بلندی تک پھنچ جاتا ھے ؟۔ شاید ”کلمہ ٴ انتظار“کا مفھوم نہ ھوسکا ھو لہٰذ ممکن ھے کہ اس سوال کو پھر سے اٹھا یا جائے کہ انتظار ھے کیا؟

جواب یہ ھے کہ:کتاب و سنت کے علوم ومعارف سے سمجھ میں آتا ھے کہ انتظار کی حقیقت ھی عجیب ھے جو ایک یا دو کلمے سے اس کی گھرائی تک نھیں پھنچا جا سکتا ۔انتظار ایسا حکم ھے جس کے کتنے پھلو اور متعدد زاوئے ھیں جن کو ایک یا دو جملوں سے بھی تمام جوانب کو اس گفتگو میں منعکس نھیں کیا جا سکتا ۔لیکن ”اگر سمندر کے پانی کو نھیں کھینچ سکتے تو پیا سا رھنا ھی پڑے گا۔

کلمہ ٴ انتظار کی تعریف

یوں تو انتظار کے مختلف تعریفیں ھو سکتی ھیں:                                              

امام حمد باقر علیہ السلام سے روایت ھے ونیز باب۲۶،ح۴ میں امام علی علیہ السلام سے اسی طرح کی حدیث نقل ھوئی ھے۔

انتظار یعنی ثبات و پائیداری کا مظاھرہ

انتظار یعنی عدالت کی خشک رگوں میں خون کا ڈالنا

انتظار یعنی عشق و محبت کا ایک موقع 

انتظار یعنی انسانی شرافت وکرامت کی حفاظت

انتظار یعنی ابراھیم کے ہتھوڑے اور ذوالقفار علی (ع)کی جنگ

انتظار یعنی کربلا کے خون کی تفسیر

انتظار یعنی ھابیلیوں کی کامیابی کا ضمانت نامہ

انتظار یعنی شکوک و ظنون کے دور میں یقین کا مزہ چکھنا

انتظار یعنی تاریخ کے قلب کے تپنے کا بھانا

پیغمبر اسلام  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)سے دومشھور روایتیں منقول ھیں کہ جن کے ذریعہ انتظار کی ایک خصوصیت تک پھنچا جا سکتا ھے ۔

”افضل الاعمال احمزھا “۔[5]وافضل اعمال امتی ،انتظار الفرج“۔[6]

مذکورہ دونوں مقدمے [7]کا نتیجہ یہ ھے کہ انتظار بہت ھی سخت اور مشکل کام ھے انتظار کی اس خصوصیت کا کشف کرنا واضح کر دیتا ھے کہ کیوں انتظار کرنے والوں کی جزاکی اتنی عظمت واھمیت ھے ۔

انتظار کی مشکل کی حقیقت

مناسب ھوگا کہ اس تکلیف کی دشواری کی حقیقت پر ایک نظر ڈالتے چلیں تاکہ ھم اس دینی وظیفے  کی ضروریات سے زیادہ سے زیادہ آشنا ھو سکیں انتظا کرنے والوں کے وظیفے کی دشواری کی علتوں کو چار جملوں میں خلاصہ کرتے ھیں:

(۱)علت و تقویٰ سے آراستہ ھونا

انتظار کرنے والوں کو متدین اور عدالت و تقویٰ کے ذیور سے آراستہ ھونا چاہئے اس لئے کہ حضرت ولی عصر (ع) کا واقعی اور سچا پیرو کار وہ شخص ھے جو حضرت کی روش اور ان کے مکتب کو اپنا عملی نمونہ بنائے کہ مولیٰ کا قیامت اور ان کی تمام زحمتیں ،اور ان کے آباء و اجداد کی تمام مجاھدت ،رشادت اور شھادت ،دیندار لوگوں کی واقعی تربیت کے لئے تھی۔در حقیقت جو لوگ اس امر میں آنحضرت (ع) کی مدد کریں گے ان کو اپنے رھبر کا روحی و جان سے ھم سنخ ھونا ھوگا اور نو منتظرین ان کے حکم سے ان کے ھم رکاب ھو کر جھاد کریں گے ان کو فرمان الٰھی پر بھی عمل پیرا ھونا پڑھے گا جیسے :۔[8]”تقویٰ وپر ھیز گاری کا جو حق ھے اس طرح خدا سے ڈرو“۔

جو لوگ حجت قائم (ع) کی غیبت کے دور میں انتظار کرنے والے ھیں ان کی واضح علامتیں یقینا حدیث نبوی میں ذکر ھوئی ھیں ،حضرت رسول اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے آخر الزمان (ع) کے انتظار کرنے والوں کی جلالت و عظمت کو صحابہ سے خطاب کرتے ھوئے فرمایا:

”تم لوگ ھمارے اصحاب ھو ،لیکن ھمارے بھائی وہ لوگ ھیں جو آخر ی زمانہ میں ھوں گے “۔

اور پھر ان کی مجاھدت اور دینداری کی بلندی کو یوں بیان کیا

:”لا حدھم اشد بقیة علی دینہ من خرط القتاد فی الیلة الظلماء ،او کا لقابض علی جمرالغضا؛اولئک مصابیح الدجیٰ۔۔۔[9]

”ان میں ھر ایک اپنے ایمان کی حفاظت میں تاریکی شب میں کسی خاردار درخت کی چھال آتارنے یا درخت تاغ (ایک قسم کا جنگلی درخت ھے )کی لکڑی کو ہتھیلی میں رکھ کر حفاظت کرنے سے زیادہ صبر وپائیداری کا مظاھرہ کریں گے بیشک وھی لوگ راتوں کے لئے ھدایت کے چراغ ھیں۔۔۔

اسلام میں عدالت فردی اور عدالت اجتماعی میں بہت ھی تھوڑا سا فرق ھے ،اسلام کی نظر میں جب معاشرہ میں عدالت فردی کا رواج پیدا ھو جائے گا تو عدالت اجتماعی کا بھی وجود ھو جائے گا۔

عدل ظلم کے مقابل ھے ( منطقیوں کے بقول یہ دونوں عدم ملکہ ھیں)جو شخص ظالم ھوگا وہ عادل نھیں ھوسکتا جیسا کہ معصیت اور گناھوں کا مرتکب ھونا اپنے نفس پر ظلم ھے گناھگار شخص ھر قسم کے اجتماعی اور معاشرتی ظلم کے لئے روح وجان کے لحاظ سے پورے طور سے آمادگی رکھتاھوگا۔

اس لئے کہ جو شخص اپنے حقوق کا پاس ولحاظ نھیں رکھتا وہ دوسروں کے حقوق کا کیسے لحاظ رکھے گا ۔

ایسے میں اس کا نفس بھی اس حیوانی ظلم سرکشی سے اس کو نھیں روک سکتا اور اس ظلم کو روکنے والان لوھا بھی دوسروں کی نسبت کوئی زیادہ کار آمد نھیں ھوتا اس لحاظ سے عدالت فردی کے محقق ھونے کا رتبہ ”عدالت اجتماعی“ کے ایجاد کرنے پر مقدم ھے یعنی” عدالت انفسی“ کا حصول ”عدالت آفاقی“ کے وصول کا مقدمہ ھے ۔

اس لئے کہ اگر کوئی شخص معصیت خدا سے اجتناب کرکے اپنے اندر عدالت کا ملکہ پیدا کرلے اور اپنے نفسانی قوتوں میں تعادل بر قرار کرکے اخلاقی حیات کے ارکان کو اپنے وجود میں رکھ سکتا ھے تو اس وقت وہ عصر ظھور کہ جو اصل اور مطلق عدل کے استقرار کا زمانہ ھے اس میں اپنے کو مھدویت کے توحیدی فرھنگ سے ملا سکتا ھے ورنہ اس کے بغیر انسانی دولت کریمہ (کہ جس کا محور عدالت ھوگا )کی قدرت کو ہضم نھیں کر سکتا ۔

معمولاً ایسا شخص کسی جدید شرائط سے ھماھنگ نھیں ھوگا اور یہ تعارض اس کو بند راستے کی طرف لے جائے گا اس طرح کے حالات کے کچھ نمونے حکومت علوی میں نظر آتے ھیں حضرت علی (ع) کو ابتداء سے معلوم تھا کہ غیر مہذب اور غیر تربیت شدہ افراد جو عدالت سے دور ھو چکے ھیں ان پر عدالت کا کوئی اثر نھیں ھوگا لہٰذا علی (ع)کی خلافت کو قبول کرنے سے انکار کیا یھاں تک کہ آپ نے ان پر اپنی حجت تمام کر دی ۔اور حکومت قائم ھونے کے بعد نتیجہ یھی ھوا کہ مولا نے پیشین گوئی کر دی یعنی بہت سے لوگ جو امام علی (ع) کو حق جانتے اور مانتے تھے اور ان کے دل آپ کے ساتھ تھے اس کے باوجود انھیں کے خلاف تلوار اٹھا لی اور نتیجہ یہ ھوا کہ محراب عبادت میں فرق عدالت پر ضرب لگادی ”قتل فی محرابہ لشدتہ عدلہ “۔[10]

ھاں ! جو بھی اس عدل منتظر کے حقیقی منتظرین میں اپنے کو شامل کرنا چاہتا ھے اس کو تقویٰ اختیار کرنا پڑے گا اور مکارم اخلاق سے آراستہ ھونا پڑے گا ۔[11]

امام مھدی (ع) کے ظھور کے انتظار کرنے والوں کو استقامت اور صبر وحلم اختیار کرنا پڑے گا اس تفصیلی روایت کے مطابق کہ جس میں عصر غیبت کے شرائط اورظھور سے پھلے کے حالات کا بیان ھے ۔[12]حوادث و حالات کی تاریخی تحلیل [13]اور تحقیق سے اس نکتہ تک پھنچا جا سکتا ھے کہ زمانہ غیبت میں امام مھدی (ع) کے حقیقی اور مخلص انتظا ر کرنے والوں پر الگ سے کچھ صفات کا ھونا ضروری ھے کہ جس میں استحکام و بائیداری کے لئے بہت زیادہ حوصلہ اور جذبہ کی ضرورت ھے انتظار کرنے والوں کو صبر کے اعلیٰ درجہ پر فائز ھونے کی کوشش کرنی پڑے گی وہ بھی ایسا صبر کہ جو اصل ایمان کے اعتبار سے ھو اس لحاظ سے اس مقام پر اختصار کے پیش نظر نبی اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی ایک حدیث کے ترجمہ پر اکتفاء کرتے ھیں ایک روز رسول خدا(ص) نے اپنے اصحاب سے خطاب کرتے ھوئے فرمایا:”تمھارے بعد کچھ لوگ ھوں گے کہ جس میں سے ھر ایک کو تم میں سے پچاس لوگوں کا اجر دیا جائے گا “۔                                              

 

اصحاب نے سوال کیا یا رسول اللہ !ھم لوگ بدر واحد اور حنین و۔۔۔جیسی جنگوں میں آپ کے ساتھ رھے اور ھمارے لئے قرآن کی آیتیں نازل ھوئیں تو کیونکہ ان لوگوں کو ھم میں سے پچاس لوگوں کے برابر اجر دیا جائے گا ؟حضرت نے جواب دیا وہ لوگ ایسے سخت دور میں ھوں گے کہ اگر تم لوگ اس دور میں ھوتے تو ان لوگوں کے جیسے صبر نہ کرتے ۔[14]

(۳)اصل دین کی شناخت

انتظار کرنے والے کو چاہئے کہ دین کو صحیح طریقہ سے سمجھے،تاریخ ادیان کا مطالعہ کرنے سے اس حقیقت کا پتہ چلتا ھے کہ ادیان ،طرح طرح کے عوامل اور عرصہ ٴ دراز کے گذرنے کے سبب آھستہ آھستہ اپنے پھلے خلوص سے دور ھو جاتا ھے ان ادیان کے اصلی اور فرعی راھوں میں کمی یا زیادتی ، شدت و ضعف،تاویل وتفسیرو ۔۔۔تحریفات کا شکار یعنی اصل سے منحرف ھو جاتا ھے تحریف کی تمام صورتوں کو ھم دو قسموں میں تقسیم کر سکتے ھیں :لفظی ومعنوی ۔

اسلام میں تحریف کے متعلق یہ کھا جا سکتا ھے کہ اگر ھماری آسمانی کتاب قرآن مجید میں لفظی تحریف کا کوئی امکان نھیں ھے لیکن چودہ صدیاں گذرنے کے بعد کچھ چیزیں جیسے تفسیر بالرایٴ یا قرآن کو غلط سمجھنا ،حدیث و سنت کی بعض منابع کا فقدان ،جعل حدیث اور اسرائیلیات کا پھیلنا ،تاریخ اور شخصیتوںکا بدلنا،فکر کا منجمد ھونا،غیروںکی تہذیب کا نفوذ دیداری اور آگاھی کا رگوںپیدا ھونا، مسلمانوں کا مختلف قسم کا مذھب بنانا ،سامراجوں کی فرقہ سازی ،اجتماعی اور سیاسی زندگی سے وحی کی مہجوریت ،مسموم شدہ اور مغرضانہ اسلام شناسی کی ترویج جیسے اھل مشرق کا نمائش نامہ دین کو ایک نظر سے دیکھنا و۔۔۔ان تمام علل و اسباب نے اپنے طور پر اسلام کے اصل خلوص میں کوئی نہ کوئی کردار پیش کیا ھے ۔ [15]

امام مھدی (ع) نہ صرف ایک انقلابی اور سیاست کے عظیم رھبر ھیں بلکہ عدالت اجتماعی جو کہ تمام انبیاء الٰھی کی آرزو تھی اس کو انسانی معاشرہ میں رائج کریں گے اوردین کے ایک بہت بڑے اصلاح کرنے والے ھیں ۔[16]وہ تمام دین فروش بدعت قائم کرنے والے اور آگاہ ونا آگاہ تمام لوگوں کا خاتمہ کرکے لوگوں کو دین کے نامعلوم اور متروک پھلووٴں کی طرف ھدایت کریں گے ۔[17]

ان کا قیام فکروں کو زندہ کرنے اور دین کی زندگی کے لئے ایک قسم کی عظیم حرکت ھوگی۔[18]وہ حقیقی اور اصلی اسلام کو عملی جامہ پھنانے اور اس کو پہچنوانے میں کسی قسم کی کسر باقی نھیں رکھیں گے اور جس کو بھی اس اصلاحی حرکت کے مقابل اٹھتے دیکھیں گے اسے ختم کر دیں گے ۔

اس امر کی اھمیت اور اس کا یاد آنااس طرح ھے کہ جو معتبر روایات پر قائم ھے ،جس سب سے پھلے اسلام پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے ھاتھوں ظاھر ھوا تو لوگ لکڑی اور پتھر سے بنے ھوئے بتوں سے رسول اسلام  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے مقابل آکھڑے ھوئے لیکن جب دوسری مرتبہ اسلام امام مھدی (ع) کے ھاتھوں ظھور کرے گا تو ایک گروہ قرآنی آیات سے تمسک کر کے حضرت مھدی (ع) کے مقابل صف آرائی کرے گا۔[19]تو حضرت اصلاحی امور کی تکمیل میں مجبوراً اپنے بعض ساتھیوں اور سپاھیوں سے سختی سے پیش آئیں گے اور انھیں تنبیہ کریں گے ۔(۵)

حضرت کے مقابل کچھ دیندار لوگوں کے کھڑے ھونے کی دو وجہ ھوگی :                                         

(الف)دین فروش مسلمانوں کے اپنے خواہشات نفسانی کی پیروی ،یہ وہ سبب ھے جو کلام امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیھم السلام میں یوں بیان ھوا ھے:” یعطف الھویٰ علی الھدی اذا عطفوا الھدی علی الھویٰ ویعطف الراٴی علی القرآن اذا عطفوا القرآن علی الراٴی“حضرت مھدی (ع) لوگوں کے خواہشات نفسانی کو ھدایت سے تبدیل کردیں گے اس وقت جب لوگ اپنے خواہشات کو ھدایت پر غالب کر دیں گے ،اور آپ لوگوں کے آراء و نظریات کو قرآن کی طرف پلٹا ئیں گے ،جب کہ وہ لوگ قرآن کو اپنے نظریات کی طرف پلٹائیں گے ۔[20]

(ب)متدینین کے ایک طبقے میں اسلام کی ضروری ترتیب ومعرفت کا نہ پایا جانا ؛

روایت ابواب الفتن ،ملاحم وانباء القائم سے امام مھدی (ع) اور امیر المو منین علی ابن ابی طالب (ع) کی حکومت میں کچھ شباہت کا پتہ چلتا ھے ،جیسا کہ حضرت علی مرتضیٰ (ع) نے ایسے گروہ سے جنگیں کیں جو یا تو ھوا پرستی یا دنیا طلبی کی وجہ سے اپنے امام وقت کے مقابل قیام کرنے پر آما دہ ھوئے (یعنی جمل وصفین والے )یاسادہ لوحی اور دین سے تعصب کی وجہ سے (مارقین وخوارج )جنھوں نے حضرت علی کے مقابل قیام کیا اسی طرح حضرت ولی عصر (ع) کے دور حکومت میں بھی دو طرح کے لوگ اپنے زمانے کے امام کے خلاف خروج کرکے حضرت کے مقابل تلوار کھینچیں گے ھوی پرست اور غلط فکر رکھنے والے لوگ نہ تو دین وحکمت کی گھرائی کو جانتے ھیں اور نہ وہ ادب و ترتیب رکھتے ھیں جو زمانے کی حجت کے مقابل ھونا چاہئے۔

اس طرح سے امام کو کارجی محاذ پر دنیا کی استکباری طاقتوں سے لڑنا پڑے گا اور داخلی محاذ پر ان انتظار کرنے والوں سے کہ جو یہ سونچتے تھے کہ مھدی موعود (ع) وھی شخص ھے کہ جس کا خدا نے وعدہ کیا ھے تاکہ وہ آئے اور ان کی آرزوں کو پوری کرے یا جو کچھ انھوں نے دین کے عنوان سے پہچانا اور قبول کیا تھا اس کو جاری کریں ۔                                        

عقیدہ ٴ انتظار کے ضرر کو پہچاننے کے لئے کچھ مقدمات فرض کئے جائیں تاکہ انتظار کر نے والے قدیمی سطح پر دین اور اس کے اھداف کے ساتھ عصر غیبت میں دین کی کامل شناخت کے دود وموانع ، امامت اور امام کے اختیارات ،انتظار کا صحیح مفھوم ،منتظرین کی ذمہ داریاں ،عصر ظھور میں امام عصر (ع) کی سیر ت اور کردار ،ظھور کی یقینی علامات اور قائم آل محمد (ع) کے قیام سے آشنا ھوں اسی طرح اسلامی معاشرہ کے لوگوں کی تربیت میں انتظار کرنے والوں کے فرد فرد کے دل میں روح ولایت کو قبول کرنے کی جان ڈالی جائے تاکہ اس کے ذریعے عقیدہ ٴ مھدویت میں منتظرین کے درمیان ھونے والے انحراف کو روکا جا سکے ۔

(۴)اصلاح طلبی وظلم روکنے کی ضرورت

انتظار کرنے والوں کو اپنے اعتبار سے معاشرہ کی اصلاح ،عدالت قائم کرنے ،ظلم و تعدی ختم کرنے کی حتی الامکان کوشش کرنی چاہئے اس لئے کہ جو انسان ایسے شخص کا منتظر ھو جو دنیا کی اصلاح کرنے والا ھے اس کو اپنے طور پر بھی صالح اور مصلح ھونا چاہئے ،فرد منتظر کا صالح ھونا ایک واضح سی بات ھے ابھی اسی کے متعلق تھوڑی سی وضاحت کی جائے گی۔

شریعت اسلام میں اس کی بہت تاکید ھے کہ ھر قسم کی اخلاقی ،سیاسی اور اجتماعی فتنے اور فساد کا مقابلہ کرنا چاہئے ۔شارع مقدس نے اس حکیمانہ احساس کو قانون گذاری کے سانچے میں امر بہ معروف و نھی از منکر کی صورت میں ظاھر کیا ھے ،امر بہ معروف و نھی از منکر اسلامی فقہ کے نقطہ ٴ نظر سے ایک شرعی وظیفہ ھے جو سب پر لازم ھے اس فریضے کے انجام دینے کا واضح نتیجہ ”اصلاح“ھے جس کے اجرا کرنے والے کو ”مصلح “کھا جاتا ھے ۔

اسلام میں اس اصل کی اھمیت کو سمجھنے کے لئے قرآن کی ایک آیت اور اھل بیت عصمت و طھارت کی دو حدیث کے ذکر کرنے پر اکتفاء کریں گے ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ھے :۔[21]

”تم بھی بہترین امت ھو کہ جسے لوگوں کے لئے نکالا گیا ھے ،تم ھی لوگ امر بمعروف و نھی از منکر کرتے اور خدا پر ایمان رکھتے ھو۔۔۔“۔

اسی طرح رسول اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے فرمایا:

”یا ایھا الناس !ان اللہ یقول لکم :مروا بالمعروف وانھو اعن المنکر ،قیل ان تدعوا فلا اجیب لکم تسالونی فلا اعطیکم و تستنصرونی فلا انصرکم “۔[22]

”اے لوگو! خدا وند عالم کا ارشاد ھے امر بہ معروف ونھی ازمنکر کرو قبل اس کے کہ تم مجھے پکارو اور میں تمھیں کوئی جواب نہ دوں ،مجھ سے کوئی سوال کرو لیکن میں کچھ عطا نہ کرو ،اور مجھ سے نصرت طلب کرو لیکن میں تمھاری مدد نہ کروں“۔

حضرت امام محمد باقر ںفرماتے ھیں:”ان الا مر بالمعروف والنھی عن المنکر سبیل الانبیاء ومنھاج صلحاء ، فریضة عظیمة بھا تقام الفرائض وتامن المذاھب وتحل المکاسب و ترد المظالم و تعمر الارض وینتصف من الاعداء ویستقیم الامر “۔[23]

بیشک امر بہ معروف ونھی از منکر انبیاء کی راہ اور صالحین کی روش ھے ،اچھائی کا حکم اور برائیوں سے روکنا ایک عظیم ذمہ داری ھے جس کے ذریعے تمام واجبات انجام دیئے جاتے ھیں ،اس کے ھی ذریعے راستے پر امن ،کسب معاش حلا ل اور مشروع ھوتے ھیں ،اسی سے مظالم کو روکا جاتا ھے ،زمین                                           

آباد اور بارونق ھوتی ھے ،اسی سے دشمنوں سے انتقام لیا جاتا ھے اور تمام امور قائم ھوتے ھیں ۔

اسی طرح اور بہت سی روایات اس نکتے کو بیان کر رھی ھیں کہ اگر یہ فریضہ ترک ھو جائے تو معاشرہ پر پڑے لوگوں کی حکومت ھو جائے گی [24]اور اس سے معاشرہ پر عذاب الٰھی نازل ھوتا ھے ۔[25]

عصر غیبت میں امر بہ معروف ونھی از منکر کی دو خصوصیتیں :

(الف)فردی سطح پر حکومت کو مستحکم کرنے کے بعد ھر انقلابی کے اندر سب سے نبیادی اور پھلی ضرورت تجربہ اور قابل اعتماد ھونے کی ضرورت ھے ۔

اس اعتبار سے سیاسی احذاب اور سیاسی پارٹیاں حدود زمینہ سازی کے مسئلہ میں کو بہت زیادہ اھمیت دیتی ھیں کہ جس سے عالی پیمانے پر اصلاح کرنے والے کا عظیم انقلاب بھی اس قاعدے سے مستثنیٰ اور الگ نھیں ھے ۔۔۔

حکومت مھدی (ع) کے انقلابی چھار دیواری کے اصلی مشخصات میں سے ایک شاخص اور علامت تقویٰ ،تہذیب نفس اور مکارم اخلاق سے لیس ھوناو۔۔۔ھے یقینا جس معاشرہ میں نیکی اور اچھائی کی طرف دعوت دینے والے اور برائیوں سے روکنے والے موجود نہ ھوں ،تہذیب نفوس کے رشد و ترقی کی راہ ھموار نہ ھوگی خاص طور سے اگر ایسا نہ ھو کہ معنوی صلاحیتوں کا اجاگر ھونا استثناء ات کی تنگ دیوار میں گھرا ھولہٰذا امر بہ معروف ونھی از منکر ھر فرد کی نسبت عالمی پیمانے پر اصلاح کرنے والے کی حکومت کے کارندوں اور لیڈران کی تربیت کرنے کے لئے سب سے نبیادی چیز ھے ۔جس حکومت کو فوجی کمانڈرس اور ملک کے بر جستہ عھدہ داروں سے پھلے اور دوسرے طبقے میں درمیانی کمانڈرس اور بہت سے دوسرے عھدہ داروں کی بھی ضرورت ھے ۔

(ب)حکومتی سطح ؛عالمی پیمانے پر اصلاح کرنے والے کے منتظرین پر لازم ھے کہ حکومتی پیمانے پر ھونے والی برائیوں سے ڈٹ کرمقابلہ کریں ،جیسا کہ ”النا س علی دین ملوکھم “(اگر طہ اب آھستہ آھستہ بادشاہت ،سیاسی میدان سے کلی طور پر خارج ھو چکی ھے لیکن ابھی اس قول کے معنی صادق آرھے ھیں ؛اس لئے کہ حکومت کے پروپیگنڈہ کے مشینری اور حکومتی اخبارات اور ٹی وی، ریڈیو ایک طرح سے پھلے سے زیادہ موثر ھیں جو حکومت کی اھمیتوں کو لوگوں کے دل میں ڈالتے ھیں) تمام منکرات کہ جو حکومتوں کی طرف سے شائع ھوتے ھیں اس کی تاثیر اس سے کھیں زیادہ خراب کرنے والی ھے۔

دوسری جانب امام مھدی (ع) جن کی اصل زمہ داری ،پیغام ظلم اور کتمان حق کے بساط کو روی زمین سے اٹھا دینا ھے اس لئے کہ یہ حکومت الٰھی حکومتیں نھیں ھیں بلکہ صاحبان زر اور اھل طاقت کی حکومت ھے وہ مھدی(ع) آکر اپنے ھاتھوں میں ابراھیمی تبر لے کر دنیا کی طاقتور حکومتوں کے بازووٴں کو ھمیشہ کے لئے قطع کر دیں گے ،مستضعفین کا امام مھدی (ع) کے ساتھ قیام کرنا اور ان کا ایٹمی بم،میزائیل،اور زھریلی گیس کے اسلحوںو۔۔۔کے مالکوں سے ٹکرانا روح وجان کے لئے ضروری اور مدد گار ھے اگر انھوں نے اپنی عمر کو ظالموں کی حکومتوں کو قبول کرنے میں گزاری ھو یا کسی کو یاد بھی نہ دلایا ھو کہ ایک مرتبہ اپنے اندر سامراج کے حکمرانوں سے ٹکرانے کی جراٴت پیدا کریں اور شیطانی لشکر سے مرعوب نہ ھوں،یہ ایسی چیز ھے جو اس کے لئے رکاوٹ بنے گی اس طرح سے ان کے روح کی کمزوری خطرات کے موجوں میں ان کے قدموں کو سست کر دے گی۔حکومتوں کو نیکیوں کا حکم دینا اور برائیوں سے روکنا ایک مسلمان کے لئے سب سے بہترین قدم شمار کیا گیا ھے ۔

حضرت رسول اکرم(ص)نے فرمایا:”افضل الجھاد ،کلمة عدل عند امام جائر “۔ [26]ظالم حاکم کے سامنے زبان پر کلمہ عدل کا جاری کرنا سب سے بڑا جھاد ھے ۔“                         

میر المومنین علی ابن ابی طالب (ع) کا ارشاد ھے :”وان الامر بالمروف والنھی عن المنکر لا یقربان من اجل ولاینقصان من رزق،وافضل من ذلک کلہ کلمة عدل عند امام جائر “۔[27]”بیشک امر بہ معروفونھی از منکر نہ موت کو نزدیک کرتی ھے اور نہ رزق میں کمی (بلکہ) ظالم حاکم کے سامنے کلمہ ٴ عدل کا زبان پر جاری کرنا بہت بڑی فضیلت ھے ۔“

حضرت امام محمد باقر (ع) نے فرمایا :”من شئی الی سلطان جائر فامرہ بتقویٰ اللہ و وعظہ وخوفہ ،کان لہ مثل اجر الثقلین من الجن والانس ومثل اعمالھم ۔“[28]”

جو شخص طالم حاکم کے پاس جائے اور اس کو تقویٰ الٰھی کا حکم دے ،اس کو نصیحت کرے اور اس کو ڈرائے خداوند عالم اس کو جن وانس اور ان کے اعمال اور ثقلین کے مثل اجر عطا کرتا ھے ۔“

ھاں! واقعی انتظار کرنے والے اور ظھور کے لئے زمینہ فراھم کرنے والے اپنے امام عصر (ع) کی اقتداء میں جنگ کی روش اور جابروں کی قدرت وجاہ جلال کے مقابل قیام کریں گے ،وہ اپنے امام کا لقب (قائم(ع)) سن کر کھڑے ھو جاےئں گے اور اس فعل اورعمل سے اپنے کو ھمیشہ آمادہ رھنے کا اعلان کریں گے ۔

وہ اپنے مذھب کے رئیس حضرت امام جعفر صادق کے قول( ”لیعد احدکم لخروج القائم ولوسھما“۔ [29]”تم انتظار کرنے والوں میں سے ھر ایک کا فریضہ ھے کہ حضرت مھدی (ع) کے قیام کے لئے ایک اسلحہ تیار رکھو اگر چہ صرف ایک تیر ھو )پر لبیک کھیں گےء اور خداوند سبحان کو خطاب کرکے کھیں گے :

”اللھم ان حال بینی بینہ الموت الذی جعلتہ علی عبادک حتما مقضیا،

فاخرجنی من قبری ،موتزراًکفنی شاھرا سیفی ،کجردا قناتی ،ملبیا دعوة الداعی فی الحاضر والبادی “۔[30]

بار الٰھا !جب بھی میرے اور میرے مولا وآقا کے درمیان موت حائل ھو جائے کہ جو تیرے تمام بندوں کے لئے حتمی حکم ھے ،میں تجھ سے چاہتا ھوں کہ تو مجھ کو میری قبر سے باھر نکال ،جب کہ میرے جسم پر کفن ھو ،تلوار کھینچی ھو،نیزہ نکلاھو اور اس داعی الی الخیر کو شھر و بیابان میں لبیک کھوں اور امام مھدی (ع) کے رکاب میں حاضر ھوں۔

یہ تمام باتیں انتظار کرنے والوں کی سخت اور دشوار ذمہ داریوں اور انتظار کے وظیفے کے اصل عوامل پر ایک نظر تھی کہ جس مشکل راستے سے گرزنا ھر ایک کے بس کی بات نھیں ھے کہ آخر تک اس راستے کو طے کر سکے ،ھاں کیوں نھیں،

”عاشقی شیوہ ی زندان بلا کش باشد“

وہ عاشق ھی ایسا ھو جو بلا کش رندوں کے شیوہ سے آگاہ ھو اور اس راہ کو اختیار کر چکا ھو ۔

اس لحاظ سے جو بات حضرت امام محمد باقر (ع) کی حدیث میں وارد ھو ھے وہ یہ ھے کہ :”ھیھات ھیھات لا یکون فرجنا حتی تغربلو ا ،ثم تغربلوا،ثم تغربلوا حتی یذھب الکدر ویبقیٰ الصفوا“[31]”بہت دور ھے بہت دور ھے ھمارے مھدی موعود (ع) کا ظھور اس وقت تک نھیں ھوگا جب تک کہ تم آزمائے نہ جاوٴ (اسی جملہ کو امام نے تین مرتبہ دھرایا) یھاں تک کہ کھوٹے کھرے سے الگ ھو جائے ۔

حضرت امام جعفر صادق (ع)نے فرمایا:”لایکون ھذا الامر حتی یذھب ثلثاالناس۔“[32]

”قائم آل محمد (ع) کا ظھور اس وقت تک نھیں ھوگا جس تک کہ دو تھائی لوگ ختم نہ ھو جائیں “۔

خداوند عالم امام مھدی (ع) کو اس وقت انسانی معاشرہ کے حوالے نھیں کرے گاجب تک منتظرین کے دل لبریز نہ ھو جائیں جس کو خود حضرت ولی عصر (ع) نے اپنی توقیع(خط) میںشیخ مفید سے خطاب کرتے ھوئے فرمایا :”۔

۔۔ولوکان اشیا عنا۔وفقھم اللہ لطاعتہ،علی اجتماع من القلوب فی الوفاء بالعھد علیھم ،لما تاخر عنھم الیمن بلقائناولتعجلت لھم السعادة بمشاھدتنا علی حق المعرفة و صدقھا منھم بنا، فما یحسبنا عنھم الا مایتسل بنا مما نکرہ ولا نوثرہ منھم۔۔۔“[33]

”۔۔۔اگر ھمارے شیعوں کو خدا اطاعت کوانجام دینے کی توفیق دے تو وہ ھمارے عھدکو وفا کرنے میں ھم دل اور ایک جیسے ھوں اگر وہ ھماری ملاقات میں تاخیر نہ کرتے تو ھماری ملاقات کی سعادت جو ھماری معرفت کے ساتھ ھوتی وہ ان کی طرف بڑھتی ،اس کے علاوہ کیا چیز ان سے ھم تک پھنچ سکتی ھے کہ جس کو ھم پسند نہ کریں اور ھم تو ان سے جدا نھیں ھیں ۔۔۔“۔

غربی اسلامی محققین کی نظر میں شیعوں کے( نزدیک عقیدہ مھدی(ع) کا موثر ھونا )

(۱)ماربین (جرمنی محقق)اس کے متعلق کہتے ھیں :

اجتماعی اور معاشرتی مسائل میں سے جو چیز شیعوں کے بہت زیادہ امیدواری اور کامیابی کا باعث ھو سکتی ھے وہ امام عصر (ع) کا وجود اور ان کے ظھور کے انتظار کا عقیدہ ھے اس لئے کہ شیعوں کا عقیدہ یہ  ھے کہ جب انسان بستر پر سوئے تو اس امید کے ساتھ کہ جب صبح کو سو کر اٹھے گا تو  امام عصر (ع) ظھور کریں اور وہ ان کی تصدیق و تائید کے لئے آمادہ رھے گا اور وہ اس بات کے معتقد ھیں کہ تمام لوگ اور روی زمین پر ھونے والی تمام حکومتیں ان کی تابع ھو جائیں گی ،گویا ھر شیعہ بغیر کسی استثناء کے جب سونے                          کے لئے بستر پر جاتا ھے تو اپنے مذھب کی ترقی اور اس کے پورے عالم پر صاحب اقتدار ھونے کی امید کے ساتھ صبح کو سو کر اٹھتا ھے ۔

شیعہ ،مجتھدوں کو حضرت حجت کا نواب عام سمجھتے ھیں ،تما م اھل فکر ونظر پر یہ بات واضح ھے کہ اگر ھر ملت کے فرد فرد میں یہ عقیدہ پھیل جائے تو مجبوراً ایک نہ ایک دن یہ اسباب ان کے لئے فراھم ھو گا! مایوسی اور ناامیدی تو ھر ذلت و رسوائی کا سبب ھے اور اس کے بر عکس اعتقاد کے ساتھ امید ،سھارا اور دل کو مضبوط کرنا کامیابی اور نجات کا باعث ھے ۔

(۲)ھانری کربن نے(فرانس کا مشھور اسلام اور شیعہ شناس )اس موضوع پر کچھ سننے کے قابل مطالب کو بیان کئے ھیں انھوں نے ”عالم بشریت کے لئے مذھب شیعہ کی بشارت “کے عنوان سے کچھ اس طرح اظھار نظر کیا ھے :

ھماری نظر میں ھم سب کوشش کر سکتے ھیں کہ شیعوں کے نظریئے میں واضح طور پر ایک قسم کی معنویت اور روحانیت کا مشاھدہ کریں وہ بھی ایسا مشاھدہ کہ جس کی نا امیدی پر آج بشر کو فوقیت حاصل ھے اور اس کو ختم کردینا ھے ۔۔۔۔کہ جس کو مختصر اً کہہ سکتے ،ھم شیعوں کے امام کو پھنچان سکتے ھیں۔۔۔

[1]اکمال الدین ،ج۲ ،باب ۵۵،ح ۱؛بحار الانوار ،ج ۵۲،۱۲۸۔سنن ترمذی ،با ب الدعواة،ص۱۵۵۔یھی مطلب عیون اخبار رضا اور خصال میں بھی ذکر ھے ۔دیکھئے :المعجم المفھرست للالفاظ حدیث النبوی ،ج۶ ،ص۴۸۱۔

[2]الخصال ،شیخ صدوق ،ج۲ ،باب ۴۰۰،حدیث ۱۰۔

 

[3]اکمال الدین ،ج۱، باب ۳۱،ح ۲؛الاحتجاج ،طبرسی ،ج۲،ص۵۰۔

[4]نوارد الاخبار فی ما یتعلق باصول الدین ،مولی محسن فیض کاشانی ،کتاب الانباء القائم ،باب انتظار الفرج،ح۸؛اکمال الدین وتمام النعمة،ج۱، باب ۳۲،ح۱۵

[5]جو عمل شخت ھو گا وھی عمل بہتر ھوگ۔مجمع البحرین ،فخر الدین طریحی ،مقدمہ و تصحیح :آیت ا۔۔۔ مرعشی نجفی ،ص۲۹۷۔

[6]میری امت کا بہترین عمل انتظار فرج ھے ۔دیکھئے :الجامع الصحیح (سنن ترمزی) این عیسیٰ محمد بن سورہ ترمذی ،ج۵،کتاب الدعوات ،باب ۱۱۶،ص۵۶۵۔

[7]یہ قیاس شکل سوم کی قسم سے ھے جس میں شرائط بھی ھیں اور منتج بھی ھے۔

[8]آل عمران،آیت ۱۰۲

[9]بحار الانوار ،ج۵۲، ص۱۲۴۔

[10]بحار الانوار ج۵۲،ص۱۴۔

[11]بردباری اور صبر وپائیداری کی صفت سے آراستہ ھونا

[12]اکمال الدین ،ج۱، باب ۲۳،ح ۱؛الا رشاد ،مفید ،ص۳۱۸؛الاحتجاج ،طبرسی،ج۲،ص۳۱۸۔

[13]دیکھئے بحث الحول المھدی (ع) ،باقر الصدر ،تحقیق:عبد الجبار شرارہ ،۱۲۷۔

[14]بحار الانوار ج۲،ص۱۳۱۔

[15]دیکھئے :علل انحطاط مسلمین ،مطھری ،احیاء فکر در دین اسلام ،اقبال لاھوری ؛اور اسی طرح امام خمینی کی دوسری برسی کے موقع پر مقالات مجموعہ جو نشر وآثار امام خمینی سے شائع ھوا ۔

[16]ینابیع المودة،قندوزی ،چاپ استانبول ،۴۵۴؛فرحت الغری ،سید ابن طاووس ،حدیث امام علی (ع) کی جو اثبات الھداة کے ج ۳، ص۵۶۰ سے نقل ھے ۔

[17]مصابیح الانوار فی حل مشکلات الاخیار،سید عبد اللہ شبّر،ج۲،۲۴۱؛امام جعفر صادق (ع) کی حدیث جو شیخ طوسی کی الغیبة سے نقل ھوئی؛الارشاد ،ج۲،۳۸۳،چاپ آل البیت ؛اعلام الوریٰ ،طبرسی ،۴۳۱؛بحار الانوار ،۵۲،۳۳۷۔

[18]الغیبة نعمانی نقل از منتخب الاثر ،صافی ،باب۴۱،۳۰۵،ج۱۔۲؛ینابیع المودة ،قندوزی ،۴۰۶؛الارشاد ،ج۲،ص۳۸۴؛بحار الانوار، ج۵۲،ص۳۳۸۔

[19]الغیبة، نعمانی ،باب ۱۳،ح۱۹۔۲۲؛نوادر الاخبار ،فیض کاشانی،کتاب انباء القائم ،ص۳۱۱؛نجم الثاقب، نوری، باب۳،ص۱۳۳ مام محمد باقر (ع) سے حدیث؛ بحاار الانوار،ج۵۲،ص۳۰۲۔۳۱۸۔

[20]نہج البلاغہ ،خطبہ ،۱۳۸؛بحار الانوار ،ج۸،ص۳۶۱۔نہج البلاغہ کے شیعہ اور سنی شارحین نے اس عبارت کو مھدی منتظر اور ان کے قیام کے متعلق جانا ھے۔

[21]آل عمران ،آیت ۱۱۰۔آیت کی ادبی ،روائی اور اجتماعی پھلووٴں کو سمجھنے کے لئے ملاحظہ کریں :جوامع الجامع ،طبرسی ،ص۶۶چاپ مکتبة الکعبة ،تھران ،۱۳۶۲؛تفسیر کنزالدقائق وبحر الغرائب ،شیخ بن محمد رضا قمی مشھدی ،ج۳،ص۱۹۹۔۲۰۰؛پرتوی از قرآن ،سید محمود طالقانی، ج۳، ص۲۷۵ ۔۲۸۳۔

[22]االترغیب والترھیب ،منذری شامی ،ج۳، ص۲۳۳۔

[23]الکافی ،ج۵،ص۵۶ ح ۱ ؛التہذیب ،طوسی ،ج۶ ،ص۱۸۰ اسی طرح امام حسین سے بھی ایک روایت نقل ھے:تحف العقول ،۲۳۷۔

[24]دیکھئے:تہذیب الاحکام ،طوسی، ج۶،ص۱۷۶؛الامالی ،صدوق، ۲۵۴؛الکافی ،ج۵،ص۵۶۔

[25]دیکھئے :ثواب الاعمال ،صدوق ، ۳۰۴؛کنزالعمال ،ج۳،ص۶۶؛وسائل الشیعہ ،ج۱۱،۴۰۷؛الکافی ،ج۵،ص۵۹؛الخصال، صدوق ،ص۱۳۸۔

[26]کنز العمال ،متقی ھندی ،ج۳ ،ص۶۶،ص۵۵۷۶۔

[27]نہج البلاغہ ،حکمت ،۲۷۴ اور اس کے جیسے غررالحکم کلمہ ۳۶۵۸ ۔

[28]مستطرفات السرائر، ابن ادریس حلی ،۱۴۱؛بحار الانوار ج۷۵،ص۳۷۵۔

[29]بحار الانوار ج۵۲،ص۳۶۶۔

[30]دعاء عھد کہ جو امام جعفر صادق سے نقل ھے اس کا ایک جملہ ھے ۔

[31]الغیبة ،شیخ طوسی ،باب امتحان الشیعہ فی حال الغیبة،ص۲۰۶۔

[32]الغیبة ،شیخ طوسی ،باب امتحان الشیعہ فی حال الغیبة،ص۲۰۶۔

[33]الاحتجاج ،طبرسی ،ج۲، ص۳۲۴؛نوادر الاخبار، فیض کاشانی ،کتاب انباء القائم ،باب ما خرج من توقیعاتہ ،۲۷۸۔

 

 

تبصرے
Loading...