اسلام کے سیاسی نظریہ کی بحث کی اھمیت اور ضرورت

ھم نے پھلے جلسہ میں اسلام کے سیاسی نظریہ کے تحت اس سلسلے کے منتخب مسائل کو بیان کیا تاکہ معلوم ھوجائے کہ اس سلسلے میں ھم کیا کچھ عرض کرنا چاھتے ھیں، آج ھم خداوندعالم کی مدد سے اس سلسلے میں بحث کریں گے کہ اسلام کے سیاسی نظریہ کی بحث کتنی مھم اور ضروری ھے۔ 

1۔ اسلامی انقلاب سے مغرب ومشرق کا برتاؤ

اس بحث کی اھمیت اور ضرورت کو واضح کرنے کے لئے ایک نگاہ اپنے ملک اور اس زمانے کے اسلامی ممالک کی تاریخ پر نظر ڈالیں،اور جیسا کہ آپ حضرات جانتے ھیں کہ دنیا پرست، قدرت طلب، زورگو افراد ھمیشہ تاریخ میں فتنہ وفساد کے باعث بنے ھیں اور جس طرح انسان کی زندگی ماڈرن ھوتی جارھی ھے او رحکومتیں قاعدہ وقانوں اورعلم کی بنیاد پر ترقی کی طرف گامزن ھیں، فتنہ وفساد کی فعالیت بھی عملی تر اور قواعد وضوابط کے بنیاد پر دقیق تر ھوتی جارھی ھے۔ 

دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا کی طاقتیں اس نتیجہ پر پھونچ گئی ھیں کہ دنیا کی دو بڑی سُوپر طاقت یعنی مغرب کی ثروتمند طاقت او رمشرق کی مارکسست او رکمیونیسٹ طاقت موجود ھیں اور جنگ کی کامیابی کے بعد دونوں طاقتوں نے یہ فیصلہ کرلیا کہ اپنی قدرت سے دوسرے ممالک کو بھی خوف زدہ کیا جائے تاکہ وہ ان کے مقابلہ میں سر نہ اٹھاسکیں۔ 

اور جب بھی کسی نے ان فتنہ گر اور مفسدوں کے مقابلہ میں سراٹھایا ھے ا سکو نیست ونابود کرنے کی کوشش کی گئی ھے، ان ظالم وستم گروں کا مقابلہ کرنے والے انبیاء اور ان کے پیروکار تھے جو کسی بھی زمانہ میں ستم گروں و ظالموں کے مقابلہ میں تسلیم نھیں ھوئے اسی وجہ سے ظالم و ستمگروں نے انبیاء اور ان کے پیروکاروں کو اپنا دشمن سمجھا اور ان کے ساتھ دشمن جیسا سلوک کیا ، لیکن دوسری جنگ عظیم کے بعد، خصوصاً کلیسا کو جو یورپ میں دینی قدرت کا مظھر تھا میدان سے خارج کرنے بعد یہ گمان کربیٹھے کہ اس وقت دنیا میں کوئی ایسی طاقت نھیں ھے جو ان کے مقابلہ میں آسکے۔ 

لیکن بیسویں صدی کی آخری تین دھائیوں میں غیر یقینی طور پر ایران کے انقلاب کو دیکھتے ھوئے بھت تعجب ھوا ، شروع میں تو یہ سوجا کہ کہ ایران کا یہ انقلاب ان دوسری انقلابی تحریکوں کی طرح ھے جو کبھی کبھی اسلامی ممالک میں ھوتی چلی آئی تھیں کہ جن کو کلّی طورپر نیست ونابود کردیا گیاتھا، انھوں نے یہ سوچ لیا تھا کہ ھم اپنے مخصوص تجربات کے ذریعہ اس انقلاب کو بھی جڑ سے اکھاڑ پھینک دیں گے، لیکن جیسے جیسے زمانہ گذرتا گیا انھوں نے دیکھا کہ یہ انقلاب تو دوسری تحریکوں سے بھت نمایاں فرق رکھتا ھے۔ 

بھر حال اسلامی انقلابِ ایران کے نتیجہ میں اس منطقہ میں ایک بڑی طاقت رونما ھوئی ، انقلاب اسلامی نے مشرق ومغرب پر بھروسہ نہ کیا اور نہ ھی بغاوت جیسی تحریکوں اور فوجی ٹکراؤ کا سھارا لیا ،بلکہ غر ب کو ناکام کرتے ھوئے اسلامی حکومت تشکیل دیدی۔ 

اسلام دشمن طاقتوں کے پاس دینداری سے مقابلہ کا جو کچھ تجربہ تھا وہ سب انقلاب اسلامی کے نابودی کے لئے ھر ممکن حربہ استعمال کیا مگر کامیاب نہ ھوسکے ، آپ حضرات کے لئے تفصیل بیان کرنے کی ضرورت نھیں ھے ھم فقط اشارہ کرتے ھوئے گذرتے ھیں۔ 

شروع ِ انقلاب میں ملکی حالات کو خراب کرنے کی کوشش کی ، اس امید میں کہ یھاں پر ایسی ایک حکومت تشکیل دی جائے جو مغرب کے لئے کام کرے، لیکن انھوں نے دیکھا کہ لوگوں کی طاقت وقدرت اس سے کھیں زیادہ ھے کہ یہ گروھوںکو تحریک کرکے انقلاب اسلامی کے لئے کوئی خطرہ ایجاد کریںیھاں تک کہ اپنے مختلف حربے استعمال کیئے منجملہ یہ کہ ایران پر اقصادی پا بند ی لگا ئی عراق کے ذریعہ آٹھ سال تک جنگ تھونپی ان تمام حربوں کے ذریعہ انقلاب اسلامی کو نا کام کرنا چاھتے تھے لیکن خدا کے فضل سے کسی طرح بھی کامیاب نہ ھوسکے۔ 

2 ۔ جوانوں کی گمراھی کے لئے مغرب کا ایک ثقافتی حربہ

چونکہ دشمن کسی بھی میدان میں کا میاب نہ ھو سکا تو اس کی امید صرف جوانوں پر آکر رکی کہ ایران کے جوانوں کے لئے فرھنگ (کلچر ) کے لحاظ سے ایک طولانی مدت پروگرام بنا یاجائے ، اور اس پروگرام کے تحت مختلف طریقوں سے ملک میں نفوذ کرنا چاھا (کیونکہ اس سلسلے میں ان کے پاس کافی تجربہ موجود تھا)ان کی کوشش یہ تھی کہ ایک ایسا مرکز بتایاجائے کہ جس کے ذریعہ اپنے افکار ونظریات کو نشر وا شاعت کی جائے اور اس مرکز کے ذریعہ ملت کے مختلف لوگوں تک اپنی تبلیغاتی لھر یں پھونچائی جائیں تاکہ آھستہ آھستہ اپنی مرضی کے مطالق ماحول بنایا جائے ،ظاھر ھے کہ اس سلسلے میں بھی دوسرے پروگراموں کی طرح انھوں نے اپنے علمی حساب وکتاب کے تحت پروگرام بنا یا۔ 

چنانچہ جب انھوں نے دیکھا کہ انقلاب کی نسل بڑھاپے کی طرف بڑہ رھی ھے ، اور مستقبل کی نبضوںکو جوانوں کے ھاتھو ںمیں دیکھا (وہ جوان کہ جو شاہ کے ظلم وستم سے آگاہ نھیں ھیں اور نہ ھی انقلاب سے پھلے والے ا ور انقلاب کے بعدوالے اسلامی رزمندوں کی جانثار وں سے آگاہ ھیں ، اور صرف وہ اپنی خواھشوں کے پیروں ھیں ان کی مرادیں کبھی مادیات ھوتی ھیں اور کبھی خواھشات ) تو یہ کہ جوان طبقہ جو اس وقت ملت کی اکثریت ھے اس میں کسی طرح سے رسوخ پیدا کیا جائے اور آھستہ آھستہ اپنی مرضی کے مطابق ایسی حکومت بنوائیں حو ان کے نفع کیلئے کام کرے ، اوروہ اسی کشمکش میں تھے کہ پروگرام کو کھاں سے شروع کیا جائے، اور اس جوان نسل کے افکا رو عقائد میں کس طرح نفوذ کیا جائے ، تاکہ ان کی امیدوں کیلئے زمینہ فراھم ھو سکے ،چنانچہ انھوں نے اس سلسلے میں بھت اسٹیڈی کی کہ آخر اس قدر لوگ کیوں حکومت اسلامی کے حامی اور وفادار ھیں یھاں تک کہ تمام مشکلات مالی، مھنگائی، بمباری اور دوسری پریشانیوں کوبھی بر داشت کررھے ھیں پھر بھی حکومت اسلامی کی حمایت سے باز نھیں آتے ،ان تمام چیزوں کو دیکہ کر دشمن اس نتیجہ پر پھونجا کہ یہ سب اس وجہ سے ھے کہ یہ لوگ دین اسلام کے معتقد ھیں ۔ 

3۔ فرھنگی تین حربے

کیونکہ ایرانی قوم اھل بیت علیھم السلام کے پیروں ھیں اور ائمہ علیھم السلام اور امام حسین علیہ السلام کو اپنے لئے نمونہ عمل بنایا ھے، اور یہ اعتقاد رکھتے ھیں کہ اسلام کے لئے اپنی جان ومال بھی قربان کر سکتے ھیں اور ان کو یہ اعتقاد ان کی ماں نے دودہ میں پلایاھے ،اور جب تک زندہ رھیں گے، یہ عقیدہ ان کہ دلوں میں باقی رھے گا مگر دشمن اس عقیدہ کو کم رنگ کرنا چاھتا ھے ،اور دشمن کی تمنا یہ ھے کہ آئندہ آ نے والی نسل میں اس طرح کا عقیدہ باقی نہ رھے اور اس طرح اسلامی حکومت اور اسکے ذمہ دار افراد سے بد ظن کردیں ، کیونکہ لوگوں کا عقیدہ یہ ھے کہ دین اسلام ھمارا حاکم ھے ،اور حکومت کے حقدار علماء اور دیندار افراد ھیں جن کی سرپرست ولی فقیہ ، ھے ،اور جب تک یہ عقیدہ جوانوں کے درمیان موجود ھے اس حکومت اسلامی کو کوئی نقصان نھیں پھونچ سکتا ۔ 

چنانچہ دشمن نے سوچا کہ اس اعتقاد کو ختم کرنا چاھئے لیکن کس طرح؟ ظاھر ھے کہ یہ افکار روشن فکر طبقہ کے ذریعہ ھی ان تک پھونچائے جاسکتے ھیں، لھٰذا یونیورسٹی اور ثقافتی مراکز کے درمیان ایک ایسا مرکز قائم کیا جائے جس کے ذریعہ یہ افکار ملت تک پھونچائے جائیں ، اور ایسے افراد کو بروئے کار لایا جائے جو ان کے افکار کو پھیلائے اور حداقل لوگوں کے دلوں میں خصوصاً جوان طبقہ میں شک ووسوسہ پیدا کریں اور اسلامی حکومت، ولایت فقیہ کی نسبت ان کے عقائد کو ڈاماڈول اور کم رنگ کیا جائے، جوانوں میں حکومتِ اسلامی کی نسبت عقیدہ کو کم رنگ کرنا ھی ان کا مطلوب ھے کیونکہ اگر ان کے دلوں میں شک پیدا ھوگیا تو پھر کوئی دوسرا 13/ سالہ نوجوان کمر سے بم باندہ کر ٹینک کے نیچے نھیں جائےگا، یہ کام تو اس وقت ھوسکتا ھے کہ جب آخرت اور حساب وکتاب پر ایمان ھو اور اپنے صحیح راستہ کو جانتا ھو،لیکن اگر شک پیدا ھوجائے تو کافی ھے ایک قدم آگے بڑھائے اور پھر پیچھے ھٹ جائے اور یہ شک وتردید دشمن کے لئے کافی ھے تاکہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ھوجائے۔ 

انھیں مقاصد کی تکمیل کے لئے اپنے زرخرید غلاموں (کہ واقعاً جنھوں نے دھوکہ کھایا) اور اپنے مختلف تجربوں ، او ران لوگوں کے ذریعہ کہ جن کے عقائد واقعاً ضعیف وکمزور ھیں مخفیانہ طور پر ذریعہ اپنے مقاصد کی طرف متوجہ کیا اور درج ذیل چیزوں کے ذریعہ اپنا کام شروع کیا۔ 

الف:دین کو سیاست سے جدا کرنے کی فکر رائج کرنا

دشمن کا سب سے پھلا کام دین کو سیاست اور حکومت سے جدا کرنے کی فکر کورائج کرنا تھا اس مسئلہ کی تبلیغ کے لئے راستہ بحد کافی ھموار تھا کیونکہ صدیوں سے مغرب اور یورپ میں اس سلسلہ میں کافی کام ھوچکا تھا بھت سی کتابیں لکھی گئیں کافی مقدار میں ریسرچ کی گئی تھیںجس کے نتیجہ میں مغربی ممالک میں یہ فکر رائج ھوچکی تھی کہ دین سیاست سے الگ ھے۔ 

اپنے اسی ھدف کو حاصل کرنے کے لئے ایران میں بھی راستہ ھموار کیا کہ کم از کم کچھ لوگوں کا یہ عقیدہ ھو کہ دین سیاست سے جدا اور الگ ھے اگرچہ اس کے لئے تھوڑا بھت راستہ پھلے سے ھی ھموار تھا کیونکہ انقلاب سے پھلے بھی اور انقلاب کے بعد بھی بعض وہ لوگ جو حکومت کے کارکنان تھے ایسا عقیدہ رکھتے تھے، ان کا اعتقاد یہ تھا کہ دین اور سیاست میں ایک بھت بڑی دیوار حائل ھے اور اس چیز کے پیش نظر تقریریں بھی ھوئیں ،کتابیںبھی لکھی گئیں ، چنانچہ اسی نظریہ کو مزید تقویت ان چیزوں کے ذریعہ جو مغربی ممالک میں کارگر ھوچکی تھیں اوریہ کوئی مشکل کام نہ تھا،دی گئی۔ 

پس معلوم یہ ھوا کہ دشمن کی ثقافتی کارکردگی میں سے ایک ، دین کو سیاست سے جدا کرنے کی فکر رائج کرنا ھے، البتہ اس فکر سے تمام لوگ تحت تاثیر قرار نہ پائے کیونکہ جن حضرات نے اس اسلامی حکومت کے لئے اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کو قربان کیا تھا، مالی قربانی پیش کی ھے ، اور تمام مشکلات کو برداشت کیا ھے، آسانی سے اس فکر سے متاثر نھیں ھونگے، کیونکہ ابھی تک ان کے کانوں میں امام خمینیۺ کی دل نشین آوازیںگونج رھی ھیں، اور مرحوم مدرس ۺ کی یہ آواز کھ” دیانت ماعین سیاست ما است“(ھماری دینداری اور ھماری سیاست ایک ھی ھے) کو اتنی آسانی سے نھیں بھلاسکتے تھے۔ 

ب: ولایت فقیہ کا انکار

دشمن اور مغرب زدہ روشن فکری کی کارگردی کا دوسرا حصہ یہ ھے کہ ملت میں یہ فکر ایجاد کریں کہ اگرچہ سیاست اور اجتماعی کاموں میں دین دخالت رکھتا ھے اور معاشرہ میں بھی اسلامی احکامات جاری ھونے چاھئے ، اور سیاست میں بھی دینی امور کی طرف توجہ ھونا چاھئے، لیکن اسلامی حکومت کے معنی فقھاء کی حکومت نھیں ھے بلکہ اسلامی پارلیمینٹ میں قوانین کا طے ھونا کافی ھے، بعض قوانین کا دین کے خلاف نہ ھونا اسلامی حکومت کی تشکیل کے لئے کافی نھیں ھے کیونکہ اس صورت میں دین کے مطابق قوانین جاری ھوگئے اور بس ، اسلامی حکومت کے معنی اس کے علاوہ کچھ نھیں ھیں۔ 

پس دوسرا حصہ دشمن کی سیاست کا یہ تھاکہ اگر تمام لوگوں کو اس بات پر قانع نہ کرسکے کہ دین سیاست سے الگ ھے اور وہ اس بات کے قائل رھے کہ دین اور سیاست باھم ھیں تو ھم کھیں گے کہ دین اور سیاست باھم ھیں لیکن دینی حکومت کا مطلب یہ ھے کہ دینی احکام جاری ھوں، لیکن ان احکام کامجری (جاری کرنے والا) کون ھے؟اس مسئلہ کا دین سے کوئی ربط نھیں ،بلکہ احکام دینی کو جاری کرنے کے لئے لوگوں نے جس کا انتخاب کرلیا وھی حاکم ھے، پس اسلامی حکومت کا مطلب اسلامی قوانین کا جاری کرنا ھے، نہ کہ حاکم متدین ، مومن اور فقیہ ھو،یعنی دین کی سیاست میں دخالت کو قبول کرتے ھیں لیکن دین احکام کا مجری فقیہ اور مجتھد ھو اس کو قبول نھیں کرتے ، یا یہ کہ حکوت کا سربراہ ولی فقیہ ھو ، غیر قابل قبول ھے۔ 

اس سلسلہ میں (یعنی ولایت فقیہ کے ذریعہ حکومت نہ ھونے کے سلسہ میں) بھت کوششیں کیں اور اس وقت بھی ان کی یہ کوشش جاری ھے، مختلف اخباروں ، ماھناموں اور دیگر مختلف طریقوں سے ان مطالب کو منتشر کیا جارھا ھے اور اسی سلسلہ میں یونیورسٹی اور دوسرے مراکز میں میٹیگ کرتے رھتے ھیں تاکہ ابھی تک جو متدین حضرات دین کو سیاست سے جدا نہ ھونے کا نظریہ رکھتے ھیں ان کے ذھنوں میں یہ فکر ڈالیں کہ اسلامی حکومت قابل قبول ھے لیکن ولایت فقیہ کی ضرورت نھیں ھے۔ 

اس قسم کا تبلیغی مشن، اسلامی احکامات اور فقھی بنیادوں سے نابلد جوانوں میں موثر ھوسکتا ھے خصوصاً جبکہ اس سلسلے میں ثقافتی وسائل کے ذریعہ بھر پور تبلیغات کی جائے، اور وسیع مالی امکانات کو اس کے لئے خرچ کیا جائے، لیکن پھر بھی ایسے افراد موجود ھیں جن پر ان کی تبلیغات کا کوئی اثر نھیں ھوتا، اور ولایت فقیہ کو جیسا کہ قانون اساسی میں بھی اسی کو محور قرار دیا گیاھے، اپنی تمام زندگی میں اھمیت دیتے ھیں اور جیسا کہ دنیا بھر میںیہ انقلاب، انقلابِ ولایت فقیھ، اور حکومت، حکومتِ ولایت فقیہ کے نام سے مشھور ھے، اور سبھی ولایت فقیہ کے پابند ھیں۔ 

ج۔ ولایت فقیہ کو موردِ اعتراض قرار دینا

ظاھر ھے کہ جو لوگ ولایت فقیہ کے قائل ھیںان کے درمیان ان لوگوں نے نفوذ کرنے کا دوسرا طریقہ انتخاب کیا وہ اس طرح کہ لوگوں میں اس فکر کو رائج کیا جائے کہ ایران میںموجودہ ولایت فقیہ مخدوش(قابل اعتراض) ھے، اور اس پر تجدید نظر کی جانی چاھئے اور یہ ولایت فقیہ صحیح نھیں ھے کیونکہ ڈیموکراسی(جمھوریت) اور لیبرالیزم کے اصولوں سے میل نھیں کھاتی، ولایت فقیہ کو اس طرح ھونا چاھئے کہ دور حاضر میں موجودہ ڈیموکراسی سے ھم آھنگ ھو،اور آج کی دنیا میں جو اصول وضوابط مسلم اور قابل قبول ھیں ان سے ولایت فقیہ متفق ھو، پس دشمن کی تیسری فکری سازش جمھوری اسلامی ایران میں ولایت فقیہ کو مخدوش کرناھے۔ 

خلاصہ کلام یہ کہ عالمی استکبار اوردشمن ِ اسلام عملی اور فکری تین طریقوں سے اس اسلامی حکومت کو ضعیف کرنا چاھتاھے اور اس سلسلے میں انھوں نے خاص پروگرام بھی بنائے اور آج بھی اس طرح کے پروگرام بناتے رھتے ھیں لیکن ان کی امیدیں آنے والی نسل تھی کہ جس لئے انھوں نے ایک لمبافکری پروگرام بنارکھا تھا۔ 

اور اس فکری پروگرام کا پھلا مرحلہ یہ ھے کہ دین کو سیاست سے دور ھونے کی فکردے اس امید میں کہ ایک طبقہ اس کو قبول کرے گا۔ 

دوسرا نظریہ یہ پیش کیا کہ دین سیاست سے جدا نھیں ھے لیکن اسلامی حکومت کا ولایت فقیہ سے کوئی ربط نھیں ھے،یہ نظریہ بھی ایک طبقہ میں قابل قبول ھوسکتا ھے۔ 

تیسرا مرحلہ یہ ھے کہ جو لوگ ولایت فقیہ پر ایمان راسخ رکھتے ھیں ان میں یہ نظریہ رائج کریں کہ ولایت فقیہ مورد قبول ھے لیکن ایران میں جو ولایت فقیہ ھے اس کی فعلی صورت کو تبدیل ھونا چاھئے، خلاصہ دشمن ھر ممکن ذریعہ سے کوشش میں ھے کہ جوانوں کے درمیان شک وشبہ پیدا کرے تاکہ اسلامی حکومت کے سلسلے میں ان کا اعتقادضعیف وکمزور ھوجائے، اوراگر ایسا ممکن ھوا توپھر عالمی استکبار کے نفوذ کے لئے راستہ ھموار ھوجائے گا اور اسلامی معاشرے اور اسلامی حکومت میں نفوذ ھوجائےگا۔ 

جو لوگ ان تینوں نظریات میں سے کسی ایک کا شکار ھوگئے چاھے وہ کسی بھی جگہ ھوں، کسی بھی مقام ومنزلت پرفائز ھوں گویا انھوںنے عالمی استکبار کی مددا ورنصرت کی اور استکبار کو اپنے اغراض ومقاصد تک پھونچنے میں ایک اھم کردار ادا کیا ھے۔ 

4۔ دشمن کی مذکورہ سازشوں کے مقابلے میں ھمارا وظیفہ

چونکہ دشمن نے مذکورہ سازشوں میں اپنی پوری طاقت صرف کی ھے لھٰذا وہ حضرات جواس حکوت کودل وجان سے چاھتے ھیں(اور الحمد للہ لوگوں کی اکثریت اس حکومت کو دل وجان سے چاھتی ھے اور اس کا نمونہ وہ عظیم مظاھرے ھوتے ھیں جو بعض موقع پر ھوتے رھتے ھیں اور تمام دنیا کو تعجب میں ڈال دیتے ھیں) ان لوگوں کو ھوشیار رھنا چاھئے کہ دشمن ان تین طریقوں سے انکے درمیان نفوذ نہ کرے، اور ان کوایسی کوشش کرنا چاھئے کہ جس سے لوگوں کا یہ عقیدہ راسخ تر ھوجائے کہ دین سیاست سے جدا نھیں ھے اور انھیں اس بات کا یقین ھوجائے کہ دوسرے ین اگر سیاست سے جدا ھوں تو ھوں، لیکن اسلام سیاست سے جدا نھیں ھے۔ 

دوسرے یہ کہ اپنے دلوں میں یہ نظریہ راسخ کرلیںکہ حکومتِ اسلامی کا مطلب فقط یہ نھیں کہ پارلیمینٹ میں اسلامی قوانین بن جائیں یا یہ کہ وہ قوانین اسلام کے مخالف نہ ھوں، بلکہ اسلامی حکومت کی حقیقت یہ ھے کہ قانوں کو جاری کرنے والے اسلام کے دلسوز اور اسلام کی پھچان رکھنے والے ھوں اور احکام الھٰی کو جاری کرنے میں اپنی پوری توجہ صرف کریں، ورنہ اگر قانون کاغذ پر لکھے جائیں اور اس کو جاری کرنے والے ھی ان قوانین کاپاس ولحاظ نہ رکھیں تو اس سے لوگوں کو کیا فائدہ ھوگا؟ 

کیا شاہ کے زمانے کے قوانین اساسی میں ایران کا رسمی مذھب شیعہ نھیں تھا؟ لیکن یہ قوانی کچھ بھی کارگر ثابت نہ ھوئے کیونکہ شاہ کی حکومت کافر اور دشمنوں سے بے حد متاٴثر تھی جس کی وجہ سے اسلامی قوانین پرعمل نھیں ھوتا تھا۔ 

اگر قوانین صرف کاغذ پر لکھے ھوئے ھوں اور ان کا جاری کرنے والا مومن ومتدین اور قدرتمند نہ ھو تواس کا کوئی فائدہ نہ ھوگا، لھٰذا اگر اسلامی پارلیمینٹ میں اسلامی قوانین بنائے جائیں لیکن جو شخص ان قوانین کی نظارت کررھا ھے وہ اسلام کا دلسوز نہ ھو اور اس قدر قدرت نہ رکھتا ھوکہ ان قوانین کو جاری کرسکے، توایسے قوانین کو جاری ھونے کی کوئی ضمانت نھیں ھے ، لھٰذا دوسری ھماری ذمہ داری یہ ھے کہ ھم روز بروز ولایت فقیہ کے اعتقاد کو پختہ ترکریں، تاکہ ھمارے یقین میں بھی اضافہ ھو اور ھماری نسلوں میں بھی یہ عقیدہ باقی رھے کہ ولایت فقیہ کے بغیر اسلامی حکومت ناممکن ھے۔ 

ان دومرحلوں کے بعد تیسرے مرحلے کی باری آتی ھے کہ یہ ولایت فقیہ کی موجودہ شکل وصورت جو اس وقت ایران می تقریباً 2۰ سال سے ھے یہ وھی شکل وصورت ھے جس کو اھل بیت علیھم السلام نے بیان کیا ھے یا یہ کہ اس کی شکل وصورت کو عوض ھونا چاھئے؟ 

یہ تیسرا مرحلہ ایک فرعی مرحلہ ھے کہ جو گذشتہ دومرحلوں کے بعد ھے لھٰذا پھلے ان دومرحلوں پر بحث کرنا ضروری ھے اور انھیں دو مسئلوں کی بنیاد پر ھماری بحث اسلام کے سیاسی نظریہ کے تحت تشکیل پاتی ھے۔ 

5۔ دشمن کی سازشوں کے مقابلہ میں بھترینراستوں کا انتخاب

مذکورہ مطالب سے واضح ھوجاتا ھے کہ دشمن نے اپنی تمام تر طاقت اپنی مندرجہ ذیل سازشوں میں صرف کردی: 

1۔دین وسیاست میں جدائی کرنا۔ 

2۔اسلامی حکومت اور ولایت فقیہ میں جدائی کرنا۔ 

3۔ایران میں ولایت فقیہ کی کارگردگی میں شک وتردید کا ایجادکرنا۔ 

لھٰذا طبیعی طورپر ھمارا بھی تین گروھوں سے مقابلہ ھے پھلا گروہ وہ ھے کہ جس نے یہ قبول کرلیا ھے کہ دین سیاست سے جدا ھے یعنی مساجد، امامبارگاہ جدا ھیں اور سیاست وحکومت جدا ھے، لھٰذا ان لوگو ں سے بحث کرنے کے لئے ھمیں ایک خاص راستہ اپنانا پڑے گا۔ 

دوسرا گروہ وہ ھے جس نے اسلامی حکومت کو تو قبول کیا ھے لیکن اس کے احکام کے مجری کے سلسلے میں چوں وچراکرتے ھیں، ان لوگوں سے بحث کرنے کا انداز دوسرا ھونا چاھئے، کیونکہ اگر فرض کریں کہ کوئی خدا ھی کا قائل نھیں ھے تو اس سے بحث اس طرح شروع کی جائے تاکہ خدا کا اثبات ھوسکے اوراس کے بعد نبوت عامہ (تمام انبیاء کی نبوت) اور نبوت خاصہ (حضرت محمد مصطفی کی نبوت) کے بارے میں بحث کی جائے لیکن اگر کوئی خدا اور بعض انبیاء کو قبول کرتا ھو لیکن حضرت محمد مصطفی کی نبوت کا منکر ھو تو اس سے نبوت خاصہ کے سلسلہ میں بحث کی جائے گی۔ 

بھر حال جو لوگ خداوندعالم کو قبول کرتے ھیںلیکن پیغمبر اکرم کی نبوت کو قبول نھیں کرتے تو آنحضرت کی نبوت کو ثابت کرنے کے لئے ضروری نھیں ھے کہ پھلے خدا کے اثبات سے بحث شروع کی جائے کیونکہ اس کے لئے یہ طے شدہ ھے کہ کوئی خدا ھے اور اس نے انسانوں کی ھدایت کے لئے انبیاء کو بھیجا ھے اسی طرح دوسرے مسائل میں بھی مناسب راستہ اپنانا چاھئے اور جس سلسلہ میں ھم بحث کرنا چاھتے ھیں وہ ایسے اصول اور مقدمات پر موقوف ھے کہ بعض لوگ قبول کرتے ھیں اور بعض لوگ ا ن کو سرے سے قبول ھی نھیں کرتے۔ 

لھٰذا مذکورہ بحث کے سلسلہ میں ھمیں بھی چند طریقوں سے بحث کرنا ھوگی اور اس کے لئے مختلف روش درکار ھیں یعنی ممکن ھے بعض جگہ فقط عقلی دلیلوں کے ذریعہ اپنا مدعی ثابت کریں اور جس چیز کو انسان کی عقل درک کرتی ھے اس کے علاوہ کسی دوسری چیز کا سھارا نہ لیں، ایسی صورت میں عقلی برھانوں کے ذریعہ بحث کو آگے بڑھائیں گے بالکل اسی طرح کہ اگر کوئی خدا کو نہ مانتا ھو اور اس کے سامنے خدا کے وجود کوثابت کرنا ھو تو ایسے موقع پر قرآن اور معصومین علیھم اسلام کی احادیث کے ذریعہ اثبات کرنا بے فائدہ ھے کیونکہ وہ ابھی خدا کو ھی نھیں مانتا ، توقرآن وحدیث کو کس طرح قبول کرسکتا ھے؟! 

اس کو سمجھانے کے لئے فقط عقل سے کام لینا پڑے گا اور اس کو عقلی دلیلوں کے ذریعہ خدا کے وجود کو ثابت کرنا ھوگا، اسی طرح جن لوگوں نے اسلامی حکومت کو قبول کیا ھے وہ لوگ ایک قدم آگے ھیں تو ان لوگوں سے بحث کرنے کے لئے ایسا راستہ اپنا ناپڑے گاجو دینی باتیں قبول کرتے ھیں ان کے سامنے وہ دلیلیں بیان کریں جو محتوائے دین کو بیان کریں یعنی ان سے بحث کرنے کے لئے قرآن وحدیث اور تاریخی شواھد کو مدرک قرار دینا ھوگا۔ 

لیکن اگر حکومت کی کارگردگی کی بحث کی جائے تو تاریخی شواھد ومدارک کو مدنظر رکہ کر بحث کی جائے یھاں پر عقلی نقلی وتعبدی (قرآن وسنت) بحث نھیں ھوگی۔ 

خلاصہ یہ کہ ھماری بحث بھی مختلف پھلو رکھتی ھے لھٰذا ھماری بحث بھی مختلف طریقوں سے ھوگی، بعض جگہ عقلی طریقہ سے بحث ھوگی اور بعض جگہ قرآن وحدیث کی روشنی میں بحث ھوگی ، اور بعض دوسری جگہ پر تاریخ کا سھارا لیا جائے گا، یہ عرض کردینا ضروری ھے کہ بعض افراد بحث کے درمیان ھم پر اعتراض نہ کریں کہ یہ بحث عقلی ھے یا شرعی؟ اس وجہ سے پھلے یہ عرض کردینا مناسب سمجھا کہ ھماری بحث کے مختلف طریقے ھوں گے ، بحث کو اس کے مناسب طریقہ سے مورد تحقیق وبررسی قرار دیا جائے گا۔ 

6۔ دین کی تعریف اور اس کے حدود

یھاں پر ایک دوسرا مھم مسئلہ بھی ھے جس پر مستقل طور پر جدا گانہ بحث ھوسکتی ھے لیکن اس وقت صرف اس کی طرف اشارہ کریںگے: 

یھاں پر بحث یہ ھے کہ دین کے حدود کھاں تک ھیں؟ جس وقت ھم یہ بحث کرتے ھیں کہ حکومت ودین میں کیا ربط ھے اور دین وسیاست کا جدا کرنا صحیح ھے یا نھیں۔ 

تو سب سے پھلے خود دین کی معرفت حاصل کرنا ضروری ھے کہ دین کیا ھے دین کی صحیح تعریف ھمارے پاس ھونا چاھئے تاکہ اس کی بنیاد پر ھم اس کے حدودمعین کرسکیں، اس سلسلے میں بعض لوگوں نے سعی فرمائی ھے مگر ایک دوسرے عنوان سے ،وہ اس طرح کہ آیاانسان کو دین کی ضرورت ھے یا نھیں؟ اس چیز کو مورد بحث قرار دیتے ھیں اور اس سے نتیجہ اخذ کرتے ھیں کہ دین کی انسان کی زندگی میں کیا دخالت ھے اس مرحلہ کی تحقیق وبررسی کے بعد ان لوگوں نے اس بحث کو مورد بحث قرار دیا کہ اسلام میں سیاست،دین کا جز ھے یا نھیں؟ بھر حال ان لوگوں نے اس سلسلہ میں بھت سی بحثیں کی ھیں، جیسا کہ آپ حضرات بھی ان بحثوں سے کم وبیش واقف ھیں ۔ 

”مثلاًدین سے ھماری امیدیں“ یعنی دین سے ھماری امیدیں حداقل درجہ پر ھیں یا حد اکثر درجہ پر (یعنی کیا دین انسان کی تمام زندگی کے مسائل کو شامل ھوتا ھے؟یا یہ کہ انسان کی زندگی کے بعض پھلوٴں کو شامل ھوتا ھے، بقیہ امور میں انسانی زندگی کے اکثر مسائل کو عقل و علم اور لوگوں کی مرضی کے مطابق حل ھوتے ھیں)وہ حضرات جو دین کو حکومت سے الگ گردانتے ھیں جس وقت انھوں نے دین کی تعریف فرمائی تو ایسی تعریف کی جو سیکولریزم کے عقیدہ کے موافق تھی مثلاً دین کی یوں تعریف فرماکی کہ : دین یعنی انسان کا خدا سے معنوی رابطہ یا اس سے ایک قدم اور آگے رکھا اور کھادین وہ چیز ھے کہ جو انسان کی آخرت (اگر آخرت کو قبول کرتا ھو )کی زندگی میں موثر اور کارگر ھو،یعنی دین کا کام یہ ھے کہ انسان کی زندگی کو آخرت سے ھم آھنگ کرے ۔ 

اور یہ بات واضح ھے کہ اگر دین کی اس طرح تعریف کی جائے تو پھر یہ کھنا بھت آسان ھے کہ دین کاسیاست سے کیا رابطھ؟سیاست کا خدا سے انسانی رابطہ کا کیا دخل؟سیاست تو صرف انسانوں کے درمیان ایک دوسرے سے رابطہ کو بیان کرتی ھے، اور سیاست دین سے الگ ھے، سیاست انسان کی دنیاوی زندگی سے متعلق ھے اور اس کا عالم آخرت سے کوئی رابطہ نھیں ھے اور اگر دین کے حدود صرف یہ ھوں کہ جھاں انسان کی عقل سمجھنے سے قاصر رھے اور جھاں عقل خود فیصلہ اور قضاوت نہ کرسکتی ھو تو پھر وھاں دین سے کوئی رابطہ نھیں کیونکہ دین کے حدود وھاں تک محدود ھیں کہ جھاں پر عقل کی رسائی اور پھنچ نہ ھو ۔ 

لھٰذا اگر ھم نے دین کی مذکورہ تعریف کے مطابق اس کے حدود کو محدود کردیااور اس بات کے قائل ھوگئے کہ جن مسائل کو ھماری عقل حل کرسکتی ھے وھاں دین کی کوئی ضرورت نھیں ھے اور ھم کو دین کی ضرورت وھاں ھے کہ جھاں ھماری عقل مسائل کو سمجھنے اور ان کو حل کرنے سے عاجز ھو، چنانچہ جسیے جیسے زمانہ گزرتا جارھا ھے اور انسان ترقی کررھا ھے دین کی ضرورت کم ھوتی جارھی ھے چونکہ اس بنیاد پر دین کی ضرورت وھاں ھے کہ جھاں عقل ان مسائل کو سمجھنے اور ان کو حل کرنے سے عاجز ھے۔ 

چونکہ شروع میں انسان علم و تمدن نھیں رکھتا تھا،لھٰذا اس کو دین کی ضرورت بھت زیادہ تھی اور چونکہ انسان خود اپنی عقل سے مسائل کو نھیں سمجھ سکتا تھا لھٰذا اس کو دین کی ضرورت تھی اور آھستہ آھستہ اس کو دین کی ضرورت کم ھوتی گئی،اور اس آخری زمانہ میں انسان کو دین کی ضرورت تقریبا ً نھیں ھے، ھاں بعض ان جزئی مسائل میں ھے جن کو عقل انسان ابھی تک سمجھنے سے قاصر ھے اور کوئی امید بھی نھیں ھے کہ ان کو جلد ھی حل کرلیا جائے گا، ان مسائل میں ابھی بھی دین کی ضرورت ھے،( افسوس کہ یہ وہ لوگ ھیں جومسلمان ھونے کا دعوی کرتے ھیں اورپھر یہ اعتراض ا ور اشکال کرتے ھیں کہ اس وقت چونکہ عقل بشری کامل ھوگئی ھے،لھٰذا اب دین و وحی کے قوانین کی ضرورت نھیں ھے ) بھر حال مذکورہ دین کی تعریف کے مطابق نتیجہ یہ ھوگا کہ سیاست کا دین سے کوئی رابطہ نھیں ھے،اور جب ھم عقلی کوششوں اور عقلی استدلالوں کے ذریعہ تمام سیاسی مسائل کوحل کرسکتے ھیں، تو پھر دین کیا ضرورت ھے؟ 

المختصر یہ کہ اب تک جو ھم نے بیان کئے وہ اس سلسلے کے چند اعتراضات اور اشکالات تھے، اوراب ھم اس کا مختصرا ًجواب عرض کرتے ھیں اور شروع ھی گوش گذار کردیں کہ دین کی تعریف کی گئی ھے اور اس کی بنیاد پر دین کو فقط اخروی زندگی سے مربوط اور خدا سے انسانی رابطہ مانتے ھیں ھماری نظرمیں باطل اور بے نیاد ھے، اور یہ نظریہ کہ دین سے سیاسی مسائل کا یعنی انسان کے سیاسی مسائل کا خدا سے کوئی ربط نھیں ،یہ ساری چیزیں انسان اور خدا کے روحانی رابطہ سے جداگانہ ھیں، یہ بھی بے بنیاد اور بے ھودہ گفتگو ھے اور اس کا حقیقت دین سے کوئی ربط نھیں، یہ دین کی نامکمل تعریف ھے، بلکہ دین وہ طریقہ ھے جو انسان کو صحیح رفتار وکردار پر گامزن رکھے یعنی اس طرح انسان کو بنادے کہ جس طرح خدا چاھے،یعنی اگر انسان اپنے اعتقاد اور اپنی فردی واجتماعی زندگی میں خدا کی مرضی کے مطابق قدم اٹھائے تو ایسا شخص دیندار ھے اور ا سکے مقابل اگر انسان کا عقیدہ خدا کی مرضی کے مخالف ھو او ران عقائد کو قبول کرے جو خدا کو ناپسند ھیں اور اس کی انفرادی واجتماعی زندگی کے اعمال و رفتار خدا پسندانہ نہ ھوں، تو اس کا دین بھی ناقص ھوگا،خلاصہ یہ کہ دین تما م مذکورہ چیزوں کو شامل ھے۔ 

7۔ دینی طریقوں سے دینی معرفت کی ضرورت

اگر ھم دین کی تعریف کرنا چاھیں تو ھمیں دیندار اور دینی بزرگوں کی تعریف دیکھنا ھوگا کہ ان حضرات نے دین کی کس طرح تعریف کی ھے؟ او راگر ھم خود اپنے ذھن سے دین کی تعریف کریں اور من گھڑت تعریف کی بناپر کھیں کہ سیاسی اور اجتماعی مسائل دین سے خارج ھیں یا یہ کہ سیاسی واجتماعی مسائل کا دین سے کوئی ربط نھیں ھے جیسا کہ دین کی ھم نے تعریف کی ھے نہ جیسا کہ خدا نے دین کو بھیجا ھے ،پس ھمارے لئے ضروری ھے کہ دین خدا کی معرفت او را سکو سمجھنے کے لئے خود اپنے طور وطریقہ اور اپنی فکر کے مطابق دین کی تعریف نہ کریں بلکہ دین کی معرفت ا ورشناخت کے لئے ضروری ھے کہ دینی منابع ومآخذ کے ذریعہ دین کے بارے میں تحقیق کریں۔ 

ھوسکتا ھے کہ کوئی یہ کھے : میں دین کو نھیں مانتا، کیونکہ اسلام کے صحیح ھونے پر جو دلیلیں قائم ھوئی ھیں وہ ضعیف ھیں یا (نعوذ باللہ) یہ کھے کہ ھمارے پاس اسلام کے جھوٹ اور باطل ھونے پر دلیل موجود ھے ، اگر کوئی ایسا دعویٰ کرے ،تو یہ دعوی منظقی اور صحیح نھیں ھے، البتہ اگر کوئی اسلام کو قبول کرے ، او رپھر وہ کھے کہ جو میں کھتا ھوں وھی دین ھے نہ یہ کہ جو قرآن، پیغمبر اور ائمہ (ع) کھتے ھیں او رجس کے مسلمان معتقد ھیں، اگر کوئی اسلام کے حق یا نا حق ھونے کے بارے میں بحث کرے چاھے وہ اس کی طرفداری کرے یا اس کی ردّ کرے ، تو اس کے لئے ضروری ھے کہ پھلے وہ اسلام کی معرفت اور پھچان حاصل کرے اور بے شک اسلام کی پھچان کے لئے خدا کے فرمان کی طرف رجوع کرے، جس نے اسلام کو بھیجا ھے ، لھٰذا قرآن کے ذریعہ اسلام کو پھچانا جائے، اس حقیقت کے پیش نظر ھم نے کھا کہ دین کی پھچان، اس کی تعریف اور اس کی فرمانروائی کے دائرے کو سمجھنے کے لئے ضروری ھے کہ دینی منابع، یعنی قرآن وسنت کی طرف رجوع کریں، نہ یہ کہ اپنی مرضی کے مطابق یا کسی امریکن اوریورپین (کہ جن کی باتیں ھمارے نزدیک غیر معتبر ھیں)کے کھنے کے مطابق دین کی تعریف کریں۔ 

لھٰذا اگر کوئی اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں کچھ کھنا چاھے تو اسے چاھئے کہ اس اسلام کے مطابق گفتگو کرے جس کو قرآن، پیغمبر اور ائمہ علیھم السلام نے بیان کیا ھے، او راسی اسلام کی بنیاد پر جس کی اصل قرآن وسنت ھے دین کی تعریف اور اس کے فرمانروائی کے دائرے کو سمجھیں نہ یہ کہ کسی مستشرق (مشرقی زبان دان اور ماھرعلوم) ،موٴلف اور سیاست مدار کی غرض کے تحت اسلام کی تعریف شدہ تعریف کو اپنائیں یا کسی (یورپی)دائرة المعارف (معلومات عامہ کتاب) کے مطابق اسلام کی تعریف کریں ایسے اسلام سے ھمیں کوئی فائدہ نھیں ھوگا۔ 

اسلامِ حقیقی کے طرف رجوع کرنے کے بعد ھمیں معلوم ھوتا ھے کہ نہ صرف یہ کہ دین کی فرمانروائی کا دائرہ انسان کی عقل وفھم پر ختم نھیں ھوتا بلکہ عقل، اسلامی شناخت کے طریقوں میں سے ایک ھے، اور اگر کوئی عربی زبان سے تھوڑی بھی واقفیت رکھتا ھو (اورقرآن کی تفسیر سے چاھے اجمالی ومختصر تفسیر سے آشنا ھو) جس وقت قرآن کی طرف رجوع کرتا ھے تو اس پر یہ بات واضح ھوجاتی ھے کہ قرآن نے اجتماعی مسائل کو نھیں چھوڑا اور ان کو بیان کیا ھے، پس کس طرح یہ کھاجاسکتا ھے کہ دین سیاست سے جدا ھے۔ 

اگر دین کے معنی قرآن کے مطابق کئے جائیں تو دین میں اجتماعی اور سیاسی مسائل شامل ھیں اور اس میں عبادت وذاتی اخلاقیات کے علاوہ قوانین مدنی ،قوانین جزائی (جرائم) اورعالمی قوانین موجود ھیں، اور گھریلو زندگی ،شادی بیاھ،تربیت اولاد، کاروبار اور تجارت وغیرہ جیسے مسائل کو بیان کیا ھے، پس کون سی چیز ایسی ھے جو دین سے خارج ھے؟ معاملات،تجارت، اور رھن (گروی رکھنا) کے بارے میں قرآن مجید میں بڑی بڑی آیات موجود ھیں، اگر اسلام کو قرآن کے ذریعہ پھچانے تو پھر کس طرح کوئی کھہ سکتا ھے کہ اسلام کا اجتماعی سے کیا ربط؟ 

اگر نکاح وطلاق دین کا جز نہ ھوں ، اگر تجارت، رھن خرید وفروخت اور سود دین سے مربوط نہ ھوں، اسی طرح ولایت کا مسئلہ اور ولی امر کی اطاعت دین کا جز نہ ھوں تو پھر دین میں کیا باقی بچتا ھے؟! او ر آپ کس دین کی باتیں کرتے ھیں؟ قرآن کریم نے مسلسل ان چیزوں کے بارے میں گفتگو کی ھے۔ 

اگر کوئی یہ کھے کہ جس دین میں اجتماعی وسیاسی مسائل کو شامل کیا جائے ھم اس دین کو نھیں مانتے! ٹھیک ھے نہ مانئے ، اسلام کو نہ ماننے والوں کی تعداد کوئی کم نھیں ھے ، اس وقت بھی بھت سے لوگ دین کو نھیں مانتے، ھمارا ان سے کوئی جھگڑا نھیں ، لیکن اگر وہ چاھتے ھیں تو آئیں او رھم سے بحث کریں تاکہ اس اسلامِ کامل کو ان کے لئے ثابت کریں او راگر نھیں چاھتے تو جو راستہ چاھیں اپنائیں: 

( وَقُلِ الحَقُّ مِنْ رَبِّکُمْ فَمَنْ شَاءَ فَلْیُوٴْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْیَکْفُرْ…)(1) 

”( اے رسول) تم کھدو کہ سچی بات (کلمہٴ توحید) تمھارے پروردگار کی طرف سے (نازل ھوچکی ھے) بس جو چاھے مانے اور جو چاھے نہ مانے“ 

لیکن اگر وہ کھیں کہ ھم اسلام کو قبول کر تے ھیں لیکن پھر اسلام کو ان مسائل پر شامل ھونے کا انکار کرتے ھیں، او راسلام کے اکثر اجتماعی مسائل پر کیوںاعتراض کرتے ھیں؟ کیا جو کچھ قرآن وسنت میں موجود ھے اسلام نھیں ھے؟ کہ تم لوگ نہ نماز کو قبول کرتے ھو اور نہ ھی دوسری عبادتوں کو ؟ تمھارا ایمان نہ اسلام کے اجتماعی مسائل پر ھے اور نہ ھی اس کے سیاسی مسائل پر، نہ تم اسلامی نکاح کو قبول کرتے ھو اور نہ ھی طلاق کو، اور اسی طرح دوسرے احکام کو قبول نھیں کرتے، تو پھر اسلام میں کیا چیز باقی ھے کہ جس اسلام کا تم دم بھرتے ھو وہ کیا ھے؟ یہ باتیں صرف سادہ لوح افراد کے لئے موثر ھوسکتی ھیں لیکن دانشمنداور پڑھے لکھے افراد کے لئے بے مایہ اور فضول ھیں،بھر حال دین یعنی انسانی زندگی الھٰی رنگ وڈھنگ کے ساتھ ھونا: 

( صِبْغَةُ اللّٰہ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہ صِبْغَةً) (2) 

”( مسلمانوں سے کھدو کہ) رنگ تو خدا ھی کا رنگ ھے جس میں تم رنگے ھوئےھو“ 

انسانی زندگی الھٰی رنگ وڈھنگ میں بھی ھوسکتی ھے اور شیطانی رنگ وڈھنگ میں بھی، لیکن اگر انسانی زندگی الھٰی رنگ وڈھنگ میں ھو تو پھرواقعاً اسلام کامل ھے ،اگر ھم چاھیں کہ الھٰی رنگ وڈھنگ اور اس کی مرضی کے بارے میں گفتگو کریں تو پھلے ھمیں دینی منابع کوپھچاننا ضروری ھے اور اسلام کی شناخت کے لئے قرآن، سنت اور عقل کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نھیں ھے، اور یھی طریقے اسلام کے تما م عبادی، سیاسی، اجتماعی او رانفرادی مراحل کو شامل ھے۔ 

اور جیسا کہ ھم نے کھا کہ قرآن پر ایک سرسری نظر کافی ھے تاکہ ھمارے لئے یہ بات ثابت ھوجائے کہ وہ دین جو قرآن میں موجود ھے او رقرآن دین کا اصل منبع ھے، ممکن نھیں کہ اس اسلام میں سیاسی اور اجتماعی مسائل کو چھوڑ دیا گیا ھو اور قوانین کا مجموعہ سیاسی اور اجتماعی مسائل سے خالی ھو، یھاں تک کہ عبادی مسائل سے بھر پور ھو،اور یہ سلسلہ اسلام سے مرتبط نھیں ھے، کیونکہ وہ اسلام جو قرآن نے بیان کیا ھے ھم اس اسلام کا دفاع کرتے ھیں اور یہ اسلام سیاسی، اجتماعی اور عبادی مسائل کو شامل ھے اور سیاست اسلام کے مھم ارکان اور اس کے فرمانروائی کے اصل دائرے میں سے ھے، اور امریکن اور یورپین رائٹروں کے مطابق اسلام سے ھمارا کوئی ربط نھیں ھے اور اس کو حقیقی اسلام کی حقیقت سے دور اور اجنبی مانتے ھیں۔ 

حوالے

1 سورہ کھف آیت 2۹ 

2 سورہ بقرہ آیت 13۸ 

تبصرے
Loading...