کیا عید نوروز کے بارے میں کوئی شرعی دلیل پائی جاتی ہے؟

عید نوروز، ان عیدوں میں سے ایک عید ہے کہ ایران اور اس کے ہمسایہ ملکوں کے فارسی زبان لوگ اور ایران، عراق اور ترکیہ کے ترک زبان لوگ اس کا احترام کرتے ہیں اور اسے عید کے طور پر مناتے ہیں- یہ عید، ایران کی قد

کیا عید نوروز کے بارے میں کوئی شرعی دلیل پائی جاتی ہے؟

۔ عید نوروز، ان عیدوں میں سے ایک عید ہے کہ ایران اور اس کے ہمسایہ ملکوں کے فارسی زبان لوگ اور ایران، عراق اور ترکیہ  کے ترک زبان لوگ اس کا احترام کرتے ہیں اور اسے عید کے طور پر مناتے ہیں-
یہ عید، ایران کی قدیم قومی عیدوں میں سے ایک عید ہے جو اسلام سے پہلے رائج تھی-
ہم اس سلسلہ میں موجود منابع کی طرف رجوع کرنے پر کوئی ایسی روایت نہیں پاتے ہیں جو اس کی تائید کرتی ہو یا کوئی فقیہ اس کا معترض ہو- صرف شیخ طوسی کے زمانہ {۴۶۰ ہجری} میں کتاب “مصباح التہجد” میں مندرجہ ذیل روایت نقل کی گئی ہے کہ:
” معلی بن خنیس نے امام صادق علیہ اسلام سے روایت کی ہے کہ نوروز کے دن غسل کرنا، پاکیزہ ترین لباس زیب تن کرنا، خوشبو لگانا، روزہ رکھنا، ظہروعصر کی نماز اور ان کے نوافل پڑھنے کے بود چار رکعت نماز بجا لانا، اس نماز کی پہلی رکعت میں ایک مرتبہ سورہ حمد کے بعد دس مرتبہ سورہ “انا انزلنا” پڑھیں اور دوسری رکعت میں ایک مرتبہ سورہ حمد کے بعد دس مرتبہ “قل یا ایھا الکافرون”  اور تیسری رکعت میں ایک مرتبہ سورہ حمد کے بعد دس مرتبہ ” قل ھو اللہ احد” اور چوتھی رکعت میں ایک مرتبہ سورہ حمد کے بعد دس مرتبہ “قل اعوذ برب الناس”  اور “قل اعوذ برب الفلق” پڑھیں اور نماز ختم کرنے کے بعد سجدہ میں جائیں اور بارگاہ الہٰی میں شکر بجا لائیں اور خداوندمتعال سے پچاس سال کے گناہوں کو بخش دینے کی درخواست کریں[1]-
اس کے علاوہ کتاب “مہذب” میں مذکورہ راوی سے نقل کیا گیا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: “نوروز وہی دن ہے جس دن پیغمبراسلام {صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم} نے غدیرخم میں حضرت علی {علیہ السلام } کے لیے لوگوں سے بیعت لے لی اور ان کی ولایت کا اقرار کرایا اور مبارک ہو ان لوگوں پر جو اس پر ثابت قدم رہے، اور افسوس ہے ان لوگوں پر جنہوں نے اس کی عہدشکنی کی ، اور یہ وہ دن ہے، جس دن رسول خدا {صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم} نے علی {علیہ السلام } کو جنات کی وادی میں بھیجا تاکہ ان سے بیعت لی لیں اور یہ وہ دن ہے جس دن حضرت علی {علیہ السلام} نے اہل نہروان پر فتح حاصل کی اور ذوالثدیہ کو قتل کر ڈالا، اور یہ وہ دن ہے جس دن ہمارے قائم {عج} اپنے کارندوں کے ہمراہ ظہور کریں گے اور خداوندمتعال انہیں دجال کو شکست دینے میں کامیابی عطا کرے گا اور دجال کو کوفہ میں سولی پر چڑھائیں گے، کوئی ایسا نوروز نہیں ہے جس میں ہم اپنے امام {عج} کے ظہور کی امید نہیں رکھتے ہیں، کیونکہ یہ دن ہمارا دن ہے، جسے ایرانیوں نے محفوظ رکھا ہے اور آپ نے اسے ضائع کیا ہے{اس کے بعد کلام کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا:} بنی اسرائیل کے انبیاء میں سے ایک نبی نے خداوندمتعال سے درخواست کی کہ ہزاروں افراد پر لوگوں کی ایک جماعت، جو موت کے ڈر سے گھروں سے بھاگ گئے تھے، خداوندمتعال نے انہیں موت سے دوچار کیا تھا، انہیں دوبارہ زندہ کرے اور خداوندمتعال نے اس نبی کو وحی بھیجی کہ ان پر پانی چھڑکے، اور اس نبی نے اس دن ان پر پانی چھڑکا اور وہ سب زندہ ہوئے، ان کی تعداد تیس ہزار افراد تھی، اس دن پانی چھڑکنا ایک دائمی سنت بنی اور اس کا سبب علم میں پائداری رکھنے والے ہی جانتے ہیں، اور وہ ایرانیوں کے سال کا پہلا دن ہے،” معلی کہتا ہے: ” امام {ع} نے مجھے اس کا املا فرمایا اور میں نے لکھا[2]-“
عصر جدید کے مشہور فقہا نے اس روایت پر عمل کیا ہے اور نوروز کے دن غسل کے مستحب ہونے کا فتوٰی دیا ہے- صاحب جواہر کہتے ہیں” ” نوروز کے دن غسل کرنا متاخرین میں مشہور ہے یہ معلی بن خنیس کی امام صادق علیہ السلام سے روایت کی وجہ سے ہے جو کتاب مصباح سے نقل کی گئی ہے، ہم نے اس سلسلہ میں کوئی مخالفت نہیں پائی[3]-
لیکن مرحوم آیت اللہ خوئی نے روایت کے مرسل ہونے کی وجہ سے اس پر عمل نہیں کیا ہے اور کہا ہے: ” معلی بن خنیس کی روایت مرسلہ ہے، اس لیے اس پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا ہے مگر یہ کہ ادلہ سنن میں قول تسامح کی بنا پر، کہ ہم اسے قبول نہیں کرتے ہیں[4]-“
اس بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ اس عید کو سو فیصدی دینی رنگت نہیں دی جا سکتی ہے اور اسے دینی عیدوں میں شمار نہیں کیا جا سکتا ہے-
لیکن یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ فرض کریں کہ شارع مقدس نے اس عید کو ایک دینی عید کے طور پر قبول نہیں کیا ہے، لیکن کیا کہیں پر اس کی ممانعت اور نہی کی ہے؟ اور اسے حرام قرار دیا ہے؟ تاکہ اسے منعقد کرنا جائز نہ ہو؟
ہم اس کے جواب میں کہتے ہیں: ابن شہر آشوب اپنی کتاب “مناقب” میں ایک روایت نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ” نقل کیا گیا ہے کہ منصور دوانقی نے کسی کو امام موسی بن جعفر {علیہ السلام} کی خدمت میں بھیجا تاکہ ان سے اجازت حاصل کرے کہ جب لوگ نوروز کے دن اس کے پاس مبارکبادی کے لیے ہدایا اور تحفے لے کر آتے ہیں اس کے پاس بیٹھیں، حضرت{ع} نے فرمایا: ” مجھے اس سلسلہ میں اپنے جد بزرگوار کی کوئی روایت نہیں ملی اور یہ ایرانیوں کی سنت ہے، اسلام نے اسے ختم کیا ہے، خدا کی پناہ ہو کہ ایک ایسی چیز کو زندہ کرنا چاہئیں، جسے اسلام نے ختم کیا ہے؛”
منصور نے کہا: ہم اس کام کو اپنے لشکر کے لیے سیاسی طور پر انجام دیتے ہیں آپ کو خدا کی قسم ہے کہ تشریف رکھئے اور اس کے بعد حضرت {ع} بیٹھہ گئے، اور وزراء، امراء، گورنر اور فوجی ہدایا کے ساتھہ داخل ہوئے اور اسے مبارکبادی دیتے تھے۔ ۔ ۔ [5]”
واضح ہے کہ اس روایت کی سند ضعیف ہے، کیونکہ ابن شہرآشوب نے روایت کی سند کو بیان نہیں کیا ہے بلکہ اسے “وحکی” کی تعبیر سے نقل کیا ہے اور یہ اس روایت کے ضعیف ہونے اور اس سے استناد نہ کرنے کی دلیل ہے-
قابل ذکر بات ہے کہ عید نوروز کے دن جشن منانا ایک وسیع مسئلہ اور ایک رائج رسم تھی، اگر نوروز اسلام اور دین کے خلاف ہوتا تو قطعاً ائمہ معصومین {علیہم السلام } واضح طور پر تاکید کے ساتھہ اس کی ممانعت فرماتے اور بے شک وہ ممانعت ہم تک پہنچتی اور واضح ہے کہ ائمہ {ع} کی خدمت میں نوروز کا ذکر ہوتا تھا لیکن انہوں نے اس کی ممانعت اور نہی نہیں فرمائی ہے اور اسے باطل قرار نہیں دیا ہے[6]- واضح ہے کہ ایک ایسی پائدار رسم کو ایک مرسل روایت پر اعتماد کر کے نابود نہیں کیا جا سکتا ہے- اس لیے اس مسئلہ کو مباحات میں داخل کرنا چاہئیے- خاص کر اس عید کی تقریب موسمی لحاظ سے طبیعت کے بہترین ایام، یعنی بہار میں منعقد کی جاتی ہے جن دنوں معاد کی یاد تازہ ہو جاتی ہے اور اس کے علاوہ اس دن لوگ ایسے کام انجام دیتے ہیں، جن کی شارع مقدس نے تائید کی ہے، مثال کے طور پر : گھروں کی صفائی کرنا، صلہ ارحام ، مومنین کو مسرور کرنا، دشمنیوں، کینوں اور کدورتوں کو دور کرنا، قیدیوں کو آزاد کرنا وغیرہ- البتہ غلط رسومات، جیسے آگ پر سے چھلانگ لگانا وغیرہ بھی ان دنوں انجام پاتے ہیں کہ نہ صرف ان کے صحیح ہونے کے سلسلہ میں کوئی شرعی دلیل نہیں ہے بلکہ یہ کام بجائے دین کے خرافات کے زیادہ نزدیک ہے اور اس کو نابود کرنے کے لیے کوشش کی جانی چاہئیے-
اس سلسلہ میں ہم حسن ختام کے طور پر امیرالمومنین{علیہ السلام } کے کلام کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ آپ {ع} نے فرمایا ہے: ” ہر وہ دن، جس دن خدا کی نافرمانی اور معصیت نہ ہو، وہ عید ہے[7]-“
 
[1] وسائل الشیعہ، ج 8، ص 173.
[2] ایضاً.
[3] جواہر الکلام فی شرح شرایع الاسلام، ج 5، ص 42؛ العروة الوثقی (المحشی)، ج 2،ص 152
[4] موسوعہ امام خویی، ج 10، ص 50.
[5] المناقب، ج 4، ص 319.
[6] ملاخطہ ہو: کافی، ج 5، ص 142؛ من لا یحضرہ الفقیہ، ج 3، ص 300.
[7] نہج البلاغة، ص 551، عدد 428



source : abna24

تبصرے
Loading...