مومن کی بیداری اور ہوشیاری

” یَا َبَاذَرٍ!اَلْمُتَّقُونَ سَادَة وَ الْفُقَھَائُ قَادة وَ مُجَالَسَتَھُمْ زِیَادَة اِنَّ الْمُؤْمِنَ لَیَریٰ ذَنْبَہُ کََنَّہُ تَحْتَ صَخْرَةٍ یَخَافُ َنْ تَقَعَ عَلَیْہِ وَ اِنَّ الْکَافِرَ لَیَریٰ ذَنْبَہُ کََنَّہُ ذُبَاب مَرَّ عَلٰی اَنْفِہِ.

یَا اَبَاذَرٍ! اِنَّ اﷲَتَبَارَکَ وَ تَعَالیٰ اِذَا اَرَادَ بِعَبْدٍ خَیْراً جَعَلَ الذُّنُوبَ بَیْنَ عَیْنَیہِ مُمَثَّلَة وَ الْاِثْمَ عَلَیْہِ ثَقِیلاً وَبِیلاً، وَ اِذاَ اَرَادَ بِعَبْدٍ شَرّاً اَنْسَاہُ ذُنوبَہُ

یَا اَبَاذَر ! لَاتنْظُرْ اِلٰی صِغَرِ الْخَطِیْئَةِ وَ لٰکِنْ انْظُر اِلٰی مَنْ عَصَیْتَ۔ یَا اَبَاذَر ! اِنَّ نَفْسَ الْمُوْمِنُ اَشَّدُ ارْتِکَاضاً مِنَ الخطِیَٔةِ مِنَ الْعُصْفُور،حِیْنَ یُقْذَفُ بِہِ فِی شَرَکِہِ” 

پرہیز گاروںاور فقہا کے ساتھ ہم نشینی اور مومن وکافر کی نظر میں گناہ کا فرق :

” یَا َبَاذَر ! اَلْمُتَّقُونَ سَادَة وَ الْفُقَھَائُ قَادة وَ مُجَالَسَتَھُمْ زِیَادَة اِنَّ الْمُؤْمِنَ لَیَریٰ ذَنْبَہُ کََنَّہُ تَحْتَ صَخْرَةٍ یَخَافُ َنْ تَقَعَ عَلَیْہِ وَ اِنَّ الْکَافِرَ لَیَریٰ ذَنْبَہُ کََنَّہُ ذُبَاب مَرَّ عَلٰی اَنْفِہِ.

اے ابوذر!جو پرہیزگار ، بزرگوار ، فقیہ ، پیشوا اور قائد ہیں ، ان کی مصاحبت ،علم وفضیلت میںاضافہ کا سبب ہے مؤمن ، گناہ کو ایک بڑے پتھر کے مانند دیکھتا ہے جس کا اسے ڈر رہتا ہے کہ اس کے سر پر نہ گرے اور کافر اپنے گناہ کو اس مکھی کے مانند دیکھتا ہے جو اس کی ناک پر سے گزرتی ہے ۔

پیغمبر اسلام صلی اﷲعلیہ و آلہ وسلم نے اپنی گزشتہ نصیحتوں میں انسان کو اس کی نازک حالت ، زندگی کی اہمیت اور اس کی عمر کے قیمتی لمحات سے آگاہ فرمایا اور اسے اس بات سے متنبہ کیا کہ سستی کاہلی اور لا پروائی سے اجتناب کرکے ذمہ داری کے احساس کے ساتھ اپنی زندگی کے مسائل پر غور کرے ۔ تاکید کی گئی ہے کہ انسان فرصت کو غنیمت جانے اور آ ج کے کام کو کل پر نہ چھوڑے ۔ اب بحث یہ ہے کہ عمر سے بہتر استفادہ کرنے کا راستہ اور ” سیر الی اللہ ” میں آگے بڑھنے کا پہلا قدم کیا ہے ؟

بے شک عمر کی قدر جاننے کے سلسلے میںا ور ” سیر الی اللہ ” میں پہلا قدم گنا ہ سے اجتناب ہے کیونکہ گناہوں کا مرتکب انسان کسی مقام تک نہیں پہنچتا ہے اور انسان کی عمر کی قدرو منزلت اسی صورت میں ہے کہ وہ گناہ میں آلودہ نہ ہوجا۔

حضرت امام سجاد علیہ السلام دعائے ”مکارم الاخلاق ” میں ارشاد فرماتے ہیں :

اَلّٰلھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ … وَ عَمِّرنی مَاکَانَ عُمْرِیْ بِذْلَةً فِی طَاعَتِکَ فَاِذَا کَان عُمْرِی مَرْتعاً لِّشَیْطَانِ فاقبِضْنِی اِلَیْکَ قَبْلَ اَنْ یَسْبِقَ مَقْتُکَ اِلیَّ اَ و یَسْتحکِمَ غَضَبُکَ عِلَیَّ ١

پروردگارا ! محمدۖ اور آل محمدعلیہم السلام پر درود بھیج.. میری عمر کو تب تک طولانی فرما جب تک میں تیری بندگی میں مصروف رہوں پس جب میری عمر شیطان کی چراگاہ بن جائے ، تو مجھ پر ناراض ہوکر غضب کرنے سے پہلے میری روح کو قبض کرلے”

اس لحاظ سے گناہ چاہے جتنا بھی چھوٹا ہو تباہی کا سبب ہے ، اگرچہبعض انسان اس کے ساتھ بہت سی عبادتیں بھی انجام دیتے ہیں جو اپنی عبادتوں کے ساتھ گناہ بھی انجام دیتے ہیں ، ان کی مثال اس شخص کے جیسی ہے کہ جس کے پاس ایک سوراخ والا تھیلا ہے ،جتنابھی اس میں ایک طرف سے پیسے اور جواہرات ڈالتے ہیں دوسرے طرف سے گرجاتے ہیں ، یا اس کی مثال اس شخص کے جیسی ہے کہ ایک انبار کو جمع کرنے کے بعد اس میں آگ لگادیتا ہے کیونکہ گناہوںکی مثال اس آگ کی مانند ہے جو ہمارے اعمال کے خرمن کو جلا کر راکھ کر دیتی ہے۔

لہٰذا پہلے مرحلے پر ہمیں گناہوں کو پہچاننا چاہیئے اور پھر اس سے آلودہ ہونے سے اپنے آپ کو بچانا چاہیئے اور اگر ہم کسی گناہ کے مرتکب ہوجائیں تو فوراً ہمیں توبہ کرنی چاہیئے اور خدا کی مدد اور اولیائے الٰہی کے توسل سے اس صدد میں رہیں کہ کبھی گناہ کے مرتکب نہ ہوں ۔

١۔ مفاتیح الجنان ، طبع چہارم دفتر نشر فرہنگ اسلامی، ص ١١٠٦۔
تبصرے
Loading...