مسجد

مسجدکی اہمیت

مسجدروئے زمین پرالله کاگھرہے اورزمین کی افضل ترین جگہ ہے ،اہل معارف کی جائیگاہ اورمحل عبادت ہے،صدراسلام سے لے کرآج تک مسجدایک دینی والہٰی مرکزثابت ہوئی ہے،مسجد مسلمانوں کے درمیان اتحادپیداکرنے کامحورہے اوران کے لئے بہترین پناہگاہ بھی ہے، مسجدخانہ ہدایت و تربیت ہے مسجدمومنین کے دلوں کوآباداورروحوں کوشادکرتی ہے اورمسجدایک ایساراستہ ہے جوانسان کوبہشت اورصراط مستقیم کی ہدایت کرتاہے ۔

دین اسلام میں مسجد ایک خاص احترام ومقام رکھتی ہے ، کسی بھی انسان کو اس کی بے حرمتی کرنے کا حق نہیں ہے اور اس کا احترام کرنا ہر انسان پر واجب ہے ۔

ا بو بصیر سے مروی ہے: میں نے حضرت امام صادق سے سوال کیا کہ: مسجدوں کی تعظیم واحترام کاحکم کیوں دیاگیاہے ؟آپ (علیه السلام)نے فرمایا :

انّماامربتعظیم المساجدلانّہابیوت اللهفی الارض۔(۱)

مسجدوں کے احترام کا حکم اس لئے صادرہواہے کیونکہ مسجدیں زمین پر خداکا گھر ہیں اور خدا کے گھر کا احترام ضروری ہے۔

(۱)علل الشرئع /ج۲/ص۳۱۸. 

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)اپنے ایک طولانی خطبہ اورگفتگومیں ارشادفرماتے ہیں:

من مشیٰ الی مسجد من مساجدالله فلہ بکل خطوة خطاہاحتی یرجع الی منزلہ عشرحسنات ،ومحی عنہ عشرسیئات ، ورفع لہ عشردرجات.

ہروہ جوشخص کسی مسجدخداکی جانب قدم اٹھائے تواس کے گھرواپسی تک ہراٹھنے والے قدم پردس نیکیان درج لکھی جاتی ہیں اوردس برائیاں اس نامہٴ اعمال سے محوکردی جاتی ہیں اوردس درجہ اس کامقام بلندہوجاتاہے۔

ثواب الاعمال/ص۲۹۱.

قال النبی صلی الله علیہ وآلہ:من کان القرآن حدیثہ والمسجدبیتہ بنی الله لہ بیتافی الجنة.

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:جس شخص کی گفتگوقرآن کریم ہواورمسجداس کاگھرہوتوخداوندعالم اس کے لئے جنت میں ایک عالیشان گھرتعمیرکرتاہے۔

تہذیب الاحکام/ج۳/ص۲۵۵.

عن ابی عبدالله علیہ السلام قال:من مشی الی المسجد لم یضع رجلاعلی رطب ولایابس الّاسبحت لہ الارض الی الارض السابعة.

امام صادق فرماتے ہیں:جوشخص مسجد کی طرف قدم اٹھائے اب وہ زمین کی جس خشک وترشےٴ بھی قدم رکھے توساتوںزمین تک ہرزمین اس کے لئے تسبیح کرے گی۔

تہذیب الاحکام/ج۳/ص۲۵۵.

عن الصادق علیہ السلام:ثلٰثة یشکون الی الله عزوجل مسجدخراب لایصلی فیہ اہلہ وعالم بین الجہال ومصحف معلق قدوقع علیہ غبارلایقرء فیہ۔(۱)

امام جعفر صادق فرماتے ہیں : تین چیزیں الله تبارک وتعالی کی بار گاہ میں شکوہ کرتی ہیں :

۱۔ویران مسجدکہ جسے بستی کے لوگ آباد نہیں کر تے ہیں اور اس میں نماز نہیں پڑھتے ہیں 

۲۔وہ عالم دین جو جاہلوں کے درمیان رہتا ہے اور وہ لوگ اس کے علم سے فائدہ نہیں اٹھاتے ہیں 

۳۔ وہ قرآن جو کسی گھر میں گرد وغبارمیں آلودہ بالا ئے تاق رکھا ہوا ہے اور اہل خانہ میں سے کوئی شخص اس کی تلاوت نہیں کرتا ہے۔

قال النبی صلی الله علیہ وآلہ وسلم :من سمع النداء فی المسجد فخرج من غیرعلة فہومنافق الّاان یریدالرجوع الیہ۔(۲)

رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں: منافق ہے وہ شخص جو مسجد میں حاضر ہے اور اذان کی آواز سن کر بغیر کسی مجبوری کے نماز نہ پڑھے اور مسجد سے خارج ہو جائے مگر یہ کہ وہ دوبارہ مسجد میں پلٹ آئے۔

(۱)سفینة البحار/ج۱/ص۶۰۰. (۲)امالی(شیخ صدوق )/ص۵۹۱. 

قال رسول الله صلی الله علیہ وآلہ :ان اللهجل جلالہ اذاراٴی اہل قریة قداسرفوافی المعاصی وفیہاثلاثة نفرمن المومنین ناداہم جل جلالہ وتقدست اسمائہ:یااہل معصیتی !لولامَن فیکم مِن المومنین المتحابّین بجلالی العامرین بصلواتہم ارضی ومساجدی والمستغفرین بالاسحارخوفاًمِنّی ،لَاَنزَلْتُ عَذَابِیْ ثُمَّ لااُبَالِی۔(۱)

رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:جب خداوندعالم کسی بستی کے لوگوں کوگناہوں میں آلودہ دیکھتاہے او راس بستی میں فقط تین افرادمومن باقی رہ جاتے ہیں تواس وقت خدائے عزوجل ان اہل بستی سے کہتاہے :

اے گنا ہگا ر انسانو ! اگرتمھارے درمیان وہ اہل ایمان جومیری جلالت کے واسطے سے ایک دوسرے کودوست رکھتے ہیں،اورمیری زمین ومساجدکواپنی نمازوں کے ذریعہ آبادرکھتے ہیں،اورمیرے خوف سے سحرامیں استغفارکرتے ہیں نہ ہوتے تومیں کسی چیزکی پرواہ کئے بغیرعذاب نازل کردیتا۔ 

(۱) علل الشرایع /ج۲/ص۵۲۲.

وہ لوگ جومسجدکے ہمسایہ ہیں مگراپنی نمازوں کومسجدمیں ادانہیں کرتے ہیں ان کے بارے میں چندروایت ذکرہیں :

قال النبی صلی الله علیہ وآلہ:لاصلاة لجارالمسجدالّافی المسجدہ۔

وسائل الشیعہ /ج۳/ص۴۷۸. 

پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:مسجد کے ہمسایو ں کی نماز قبول نہیں ہوتی ہے مگر یہ کہ وہ اپنی نمازوں کو اپنی مسجد میں اداکریں۔

عن الصادق علیہ السلام انہ قال::شکت المساجدالی الله الّذین لایشہدونہامن جیرانہافاوحی الله الیہاوعزتی جلالی لاقبلت لہم صلوة واحدة ولااظہرت لہم فی الناس عدالة ولانالتہم رحمتی ولاجاورنی فی الجنة ۔(۱)

حضرت امام صادق فرماتے ہیں: مسجد وں نے ان لوگوں کے بارے میں جو اس کے ہمسایہ ہیں اور بغیر کسی مجبوری کے نماز کے لئے مسجد میں حاضر نہیں ہو تے ہیں درگاہ خداوندی میں شکایت کی ،خدا وندعالم نے ان پر الہام کیا اور فرمایا : میں اپنے جلال وعزت کی قسم کھا کر کہتا ہوں ، میں ایسے لوگوں کی ایک بھی نماز قبول نہیں کر تا ہوں اور ان کو معا شرے میں اور نیک اورعادل آدمی کے نام سے شہرت وعزت نہیں دیتا ہوں اور وہ میری رحمت سے بہرہ مندنہ ہونگے اوربہشت میں میرے جوار میں جگہ نہیں پائیں گے ۔ 

(۱)سفیتة البحار/ج۱/ص۶۰۰. 

عن ابی جعفرعلیہ السلام انہ قال:لاصلاة لمن لایشہدالصلاة من جیران المسجد الّامریض اٴومشغول.

امام محمدباقر فرماتے ہیں:ہروہ مسجدکاہمسایہ جونمازجماعت میں شریک نہیں ہوتاہے اس کی نمازقبول نہیں ہوتی ہے مگریہ کہ وہ شخص مریض یاکوئی عذرموجہ رکھتاہو۔

من لایحضرہ الفقیہ/ج۱/ص۳۷۶.

مسجدکوآبادرکھنااورکسی نئی مسجدکی تعمیرکرنابہت زیادہ ثواب ہے،اگرکوئی مسجدگرجائے تواس کی مرمت کرنابھی مستحب ہے اوربہت زیادہ ثواب رکھتاہے، اگر مسجد چھوٹی ہے تواس کی توسیع کے لئے خراب کرکے دوبارہ وسیع مسجدبنانابھی مستحب ہے 

(۲)

الله کی مسجدوں کوصرف وہ لوگ آباد کرتے ہیں جو خدا اور روزآخرت پر ایمان رکھتے ہیں اورجنھوں نے نمازقائم کی ہے اورزکات اداکی ہے اور خداکے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جو عنقریب ہدایت یافتہ لوگوں میں شمارکئے جائیں گے۔

(۲)سورہٴ توبہ/آیت۱۸. 

عن ابی عبیدة الحذاء قال سمعت اباعبدالله علیہ السلام یقول :من بنیٰ مسجدا بنی اللهلہ بیتاًفی الجنة۔(۲)

ابوعبیدہ سے مروی ہے کہ میں نے امام صادق کویہ فرماتے سناہے:ہروہ شخص جو کسی مسجدکی بنیادرکھے توخداوندعالم اس کے لئے بہشت میں ایک گھربنادیتاہے ۔

تہذیب الاحکام /ج۳/ص۲۶۴

تاریخ میں لکھاہے کہ جس وقت نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ پہنچے تو آپ نے سب سے پہلے ایک مسجدکی بنیادرکھی (جو مسجد النبی کے نام سے شہرت رکھتی ہے )اوراس کے تعمیرہونے کے بعدحضرت بلال /نے اس میں بلندآوازسے لوگوں کونمازکی طرف دعوت دینے کاحکم دیا ۔

عن ابی جعفرعلیہ السلام قال:اذادخل المہدی علیہ السلام الکوفة قال الناس: یاابن رسول الله(ص) انّ الصلاة معک تضاہی الصلاة خلف رسول الله(ص)، وہذا المسجد لایسعنا فیخرج الی العزی فیخط مسجدا لہ الف باب یسع الناس ویبعث فیجری خلف قبر الحسین علیہ السلام نہرایجری العزی حتی فی النجف .

امام صادق فرماتے ہیں:جب امام زمانہ (ظہورکے بعد)کوفہ میں واردہونگے تووہاں کے لوگ آپ سے نماز پڑھانے کی فرمائش کریں گے ،اورکہیں گے آپ پیچھے نمازپڑھنارسول خدا(ص)کے پیچھے نمازپڑھنے کے مانندہے مگریہ مسجد بہت چھوٹی ہے پ،یہ سن کرامام (علیه السلام) عزیٰ کے جانب حرکت کریں گے اورزمین ایک خط کھینچ کرمسجدکاحصاربنائیں گے اوراس مسجدکے ہزاردروازے ہونگے جس میں تمام (شیعہ)لوگوں کی گنجائش کی جگہ ہوگی اورسب لوگ اس میں حاضرہوجائیں،امام حسینکی قبرمطہرکی پشت سے ایک نہرجاری ہوگی جوعزی تک پہنچے گی یہاں تک کہ شہرنجف میں بھی جار ی ہوگی۔

بحارالانوار/ج۹۷/ص۳۸۵.

عن ابی عبدالله علیہ السلام قال:ان قائمنااذاقام یبنی لہ فی ظہرالکوفة مسجدلہ الف باب.

امام صادق فرماتے ہیں:جب امام زماں قیام کریں گے توپشت کوفہ میں ایک مسجدتعمیرکریں گے جس کے ہزاردروازے ہونگے ۔

بحارالانوار/ج۹۷/ص۳۸۵.

تبصرے
Loading...