قرآن مجید کی مشرکین کو مناظرہ کی دعوت

کفارومشرکین کہ جن کے دلوں میں  بت پرستی نے جڑپکڑ لی تھی ،اسلام کی دعوت کو قبول کرنے اور حق وحقیقت کے سامنے ہتھیا ر ڈالنے کے لئے ہر گز تیار نہیں تھے . لہذاپیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تر دید کرتے  ہوئے کہتے تھے :”یہ جھوٹا ہے اور جس قرآن کوخدا سے نسبت دیتا ہے ،یہ ا س کا اپنا کلام ہے”

اس تہمت کو دور کرنے کے لئے قرآن مجید نے شدید رد عمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے عربوں کے میدان فصاحت وبلاغت کے ہراول دستے کو مقابلہ کی دعوت دیتے ہوئے ان سے چاہا کہ اگر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں  ان لوگوں کا شک و شبہہ صحیح ہے اور وہ سچ کہتے ہیں توقرآن مجید کے کلام کے مانند کلام لے آئیں اور اس طرح اسلام کی دعوت کے بے بنیاد ہونے کو ثابت کریں چنانچہ خدائے متعال فرماتا ہے :

(ام یقولون َتقَّولہ بل لا یو منون ٭فلیاّ توا بحدیث مثلہ ان کانوا صادقین )   (طور٣٤٣٣)

”یا یہ کہتے ہیں کہ نبی نے قرآن گڑ ھ لیا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ یہ ایمان لانے والے نہیں ہیں اگر یہ اپنی بات وںمیں  سچے ہیں تو یہ بھی ایساہی کوئی کام لے آئیں ۔”

(ام یقولون افترٰیہ  قل فتوا بسورةٍ مثلہ  وادعوا من استطعتم من دون اللّہ ان کنتم صٰدقین)  (یونس ٣٨)

 ”کیا یہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ اسے پیغمبر نے گڑھ لیا ہے تو کہدیجئے کہ تم اس کے جیسا ایک ہی سورہ لے آئو اورخدا کے علاوہ جسے چاہو اپنی مدد کے لئے بلا لو اگر تم الزام میں  سچے ہو ۔”

کفار ومشرکین عرب ،جو سخنوری کے استاد اور ملک فصاحت و بلاغت کے فرمانرواتھے ،سخنوری میں  اس تکبر وغرورکے باوجود اس دعوت کو قبول کرنے سے پہلو تہی کرتے ہوئے مقابلہ سے چشم پوشی کی اور کلام کے مقابلہ کوخونین مقا بلہ میں  تبدیل کرنے پر مجبورہوئے یعنی ان کے لئے رسوائی اور مقابلہ کی نسبت قتل ہونا زیادہ آسان تھا ۔

عرب سخنور قرآن مجید کا جواب لانے سے عاجز ہوئے ،نہ صرف نزول قرآن کے زمانے میں  زندگی گزارنے والے ،بلکہ جو نزول قرآن کے زمانے  کے بعد پیداہوئے وہ بھی اس کا کوئی جواب نہ لا سکے اور مقابلے کے بعد شکست کھا کر پیچھے ہٹ گئے ۔انسان کی فطرت ہمیشہ اس چیز کی طرف مائل ہوئی ہے کہ اس سے کوئی شا ہکار یاہنر ظاہر ہو جائے اور لوگوں کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کرے ،اگرچہ یہ کارنامہ مکہ بازی اور رسی کھینچنے کے مانند معاشرہ میں  براہ راست اثربھی نہ رکھتا ہو ،پھر بھی لوگوں کی ایک جماعت اس کی جیسی مثال یااس سے بہترمثال پیش کرنے اور اس کا مقابلہ کرنے کی فکر میں  لگ جاتے ہیں ،اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید کے بھی گھات میں  کچھ لوگ ہمیشہ رہے ہیں کہ اگر اس آسمانی کتاب سے مقابلہ کرنے کی فرصت مل جائے تو اس سے گریز نہ کریں گے۔

یہ لوگ مقابلہ سے عاجز آچکے تھے اور سحرو جادو کو بہانہ بناکر یہ نہیں کہہ سکے کہ قرآن مجید جادو ہے ،کیونکہ جادو ایک ایسا عمل ہے جو خاصیت کے مطابق حق کو  باطل اور باطل کو حق ظاہر کرتا ہے ،جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ کے روپ میں  پیش کرتا ہے اور اگر قرآن مجید اپنے زیبالحن اور فصیح نظم سے دلوں کو جذب کرتا ہے تو یہ اس کی فطری خاصیت کی زیبائی ہے اور علم جادو سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے .اگر لفظ کے ذریعہ کچھ مقاصد کی طرف دعوت دیتا ہے اور کچھ معارف کے بارے میں  لوگوں کو یاد دہانی کراتا ہے کہ انسانی شعور اور خداداد فطرت سے ان کی حقیقت کو سمجھ سکیں اور لوگوں کو کچھ رفتار وکردار کا جیسے :حق شناسی ،نیک نیتی ،عدل وانصاف اور انسان دوستی کو قبول کرنے پر مجبور کرے تو ان کی تعریف کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے ۔

چونکہ قرآن مجید،حقیقت کو بیان کرنے کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں ہے ،اس لئے یہ لوگ عاجز ہو کر یہ بھی نہ کہہ سکے ہیں کہ قرآن مجید کلام بشر سے مافوق ہے اس لئے کہ زیبائی، دلکشی ،بلا غت اور کشش میں  بے نظیر ہے اور یہ اس کے کلام خدا ہونے کی دلیل نہیں    بن سکتی ہے ۔

دوسرے الفاظ میں  یہ کہا جائے کہ ہر ایک صفت یامہارت ،جیسے جرئت ،شجاعت، پڑھنا اور لکھنا وغیرہ جو قابل ترقی ہے ، لا محالہ تاریخ بشریت میں  ان میں  سے ایک غیر معمولی ذہنیت والا مقابلہ میں  جیت کر اول آتا ہے ،کیا حرج ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عربی بول چال کے اس مقابلہ میں  کامیاب قرار پا کر فصاحت وبلاغت میں  اول آئیں ،اس صورت میں  آپۖ کا کلام باوجود اس کے کہ کلام بشر ہے نا قابل منا قشہ ہو گا۔

 پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہم عصر سخن وروں نے یہ بات نہیں کہی اور نہ ہی قرآن مجید کے حریفوں میں  سے کوئی شخص یہ کہہ سکا اور ثابت کر سکا ،کیونکہ ہر صفت یا مہا ر ت جو کسی غیر معمولی ہنر مند کے ذریعہ تر قی کے کمال تک پہنچتی ہے ،کچھ بھی آخر کار یہ ایک ایسا امر ہے جو انسان کی قابلیت اور استعداد سے وجود میں  آتا ہے اور فطرت بشر کا نتیجہ ہے ،لہذا یہ کام دوسروں کے لئے ممکن ہے کہ اس غیر معمولی ذہین شخص کے نقش قدم پر چل کر ضروری سعی و کوشش کے ذریعہ اسی غیر معمولی ذہین  انسان کی طرح ایک کارنامہ انجام دیں اگرچہ کسی بھی جہت سے اس سے بہتر نہ ہو۔

اس حالت میں  مذکورہ غیر معمولی شخص ،جو راستہ کھولنے والا پہلا شخص ہے ،صرف پیشوااور پیش رو ہو سکتا ہے ،مثلا سخاوت میں  حاتم طائی سے بلند کوئی شخص نہیں ہو سکتا ہے ،لیکن اس کے جیسا کام انجام دیا جاسکتا ہے ،خوشنویسی میں  میر کے برابر اور نقاشی میں  مانی کے مقام تک نہیں پہنچ سکتے ہیں ،لیکن مناسب کوشش اور جستجو کے نتیجہ میں  میر کے نہج پر ایک کلمہ لکھا جاسکتا ہے یا مانی کے اسلوب پر نقاشی کا ایک چھوٹاسا نمونہ بنایا جاسکتا ہے۔

اس عام قانون کی بناپر،اگر قرآن مجید فصیح و بلیغ ترین انسانی کلام (نہ کلام خدا) ہوتا تو دوسروں کے لئے خاص کر دنیا کے نامور سخن وروں  کے لئے ممکن تھا کہ اسی اسلوب کا تجربہ کر کے ، ایک کتاب یا کم ازکم قرآن مجید کے سوروں کے مانند ایک سورہ کو بنا تے ۔

قرآن مجید نے مقابلہ کے مرحلہ میں  لوگوں سے اپنے جیسے کلام کا تقاضا کیا ہے نہ کہ اس سے بہترکا:

(فلیا توا بحدیث مثلہ )  (طور٣٤)

(فاتوا بسورة مثلہ ) (یونس ٣٨)

(فاتوا بعشرسور مثلہ مفتریٰت)  (ہود١٣)

(لا یاتون بمثلہ ولو کان بعضہم لبعض ظہیرا)  (اسراء  ٨٨)

ماخوذ از کتاب “دینی تعلیم ”  علامہ طباطبائی،مرتبہ: سید مہدی آیت اللہی ۔مترجم،سید قلبی حسین

تبصرے
Loading...