علامہ طبرسی مفسِّرین کے لئے نمونۂ عمل

ابو علی فضل ابن حسن ابن فضل طبرسی جن کا لقب ”أمین الاسلام ” ہے ، چھٹی صدی ہجری کے مشہور شیعہ عالم، مفسِّر، محدِّث، فقیہ، متکلِّم، أدیب، لغت شناس اور ریاضی دان شمار ہوتے ہیں، آپ کی تفسیر ” مَجْمَعُ البَیٰانِ فِی تَفْسِیْرِ الْقُرآنِ ” قرآن کریم پر لکھی جانے والی بہترین تفاسیر میں سے شمار ہوتی ہے نیز اسلامی اور مکتب تشیّع کے مکتوب ورثہ کے افتخارات میں سے ایک سمجھی جاتی ہے ۔

علامہ طبرسی کی ولادت ٤٦٨ یا ٤٦٩ ہجری قمری کو ایران کے مشہور و معروف شہر، مشہد مقدس میں ہوئی ، اور آپ کی رحلت مشہور قول کے مطابق ٥٤٨ ہجری قمری کو عید الاضحی کی شب، صوبہ خراسان کے شہر سبزوار میں ہوئی، جہاں آپ نے اپنی زندگی کے آخری ٢٥ سال گذارے، وفات کے بعد آپ کے جسدِ خاکی کو مشہد مقدس منتقل کیا گیا، اور آپ حرم امام علی ابن موسیٰ الرضا ـ کے نزدیک ، اُس مقام پر سپرد خاک کئے گئے ، جسے اُس زمانے میں قتل گاہ کے نام سے جانا جاتا تھا (کیونکہ حکومت صفویہ کے آخری دور میں ” عبد اللہ خان امیر افغان ” کے حکم سے یہاں پر لوگوں کا قتل عام کیا گیا تھا)۔ لیکن انقلاب اسلامی ایران کے بعد حرم مطہر امام علی ابن موسیٰ الرضا ـ کی توسیع اور حرم کے اطراف زیر زمین شارع بچھانے کے پیش نظر آپ کے مقبرے کو باغِ رضوان کے ایک حصے میں منتقل کر دیا گیا۔ اِس وقت آپ کے مرقد کے سامنے اور حرم امام علی رضا ـ کے شمال کی طرف ایک وسیع و عریض شارع گزرتی ہے ، جسے ‘ ‘ علامہ طبرسی ” کے نام سے موسوم کیا گیا ہے ۔

آپ کے فرزند ”ابو نصر حسن ابن فضل ابن حسن طبرسی ” صاحب کتاب ” مَکَارِمُ الْأَخْلَاقِ ” ہیں، اور آپ کے پوتے ”ابو الفضل علی ابن حسن ابن فضل طبرسی ” صاحب کتاب ” نَثْرُ الْلِئَالِی ” اور ” مِشْکٰوةُ الْأَنْوَارِ ” ہیں، انھوں نے ” مِشْکٰوةُ الْأَنْوَارِ ” اپنے والد کی کتاب ” مَکَارِمُ الْأَخْلَاقِ ” کی تکمیل میں تألیف فرمائی۔

ابو منصور احمد ابن علی ابن ابی طالب بھی” طبرسی ” کے نام سے مشہور ہیں اور انکی طرف کتاب ” اَلْاِحْتِجٰاجُ ” کی نسبت دی جاتی ہے ، لیکن اُنکی صاحب ” مَجْمَعُ البَیٰان ” سے کسی قسم کی کوئی نسبت یا قرابتداری نہیں ہے ۔

البتہ کتاب ” نَثْرُ الْلِئَالِی ” کے بارے میں بعض کا نظریہ یہ ہے کہ یہ کتاب خود ” علامہ طبرسی ” صاحبِ 

” مَجْمَعُ البَیٰان ” نے تألیف فرمائی ہے، علّامہ آقا بزرگ تہرانی اِس کتاب کے بارے میں فرماتے ہیں : ” نَثْرُ الْلِئَالِی امیر المومنین علی ـ کے مختصر کلمات پر مشتمل ایسا مجموعہ ہے کہ جو حروف تہجّی کی ترتیب پر جمع کیا گیا ہے، اور ہر حرف کے ذیل میں دس یا اُس سے کم و بیش فرمودات بیان ہوئے ہیں، اِس مجموعہ کو مفسِّر قرآن أمین الاسلام فضل ابن حسن ابن فضل طبرسی (وفات ٥٤٨ قمری) نے تألیف کیا ہے اور اس کتاب کا ایک نسخہ کتابخانۂ صدر اور ایک نسخہ موقوفہ حاجی ملا نوروز علی بُسطامی، مشہد مقدس میںمحفوظ ہے۔’ ‘١

کتاب ” نَثْرُ الْلِئَالِی ” کا تعارف 

نثر اللألی امیر المومنین علی ابن ابی طالب ـ کی مختصر فرمائشات پر مشتمل ایسا مختصر رسالہ ہے، جسے مرحوم آمدی کی کتاب ” غِرَرُالْحِکَمِ وَدُرَرُ الْکَلِمِ ” کی روش پر حروف تہجّی کی ترتیب کے مطابق مرتَّب کیا گیا ہے، اور حرف الف سے آغاز اورحرفِ یاء پر اختتام ہوتا ہے، لیکن ایک حرف کے ذیل میں جو فرامین بیان ہوئے ہیں، خود اُن فرامین میں حروف تہجّی کی ترتیب کا لحاظ نہیں رکھا گیا، بلکہ ہر حرف کے ذیل میں نامنظم اور غیر مرتّب فرامین ذکرکئے گئے ہیں، لہذا جناب محمد حسن زبری قاینی نے اِس کتاب کی تحقیق و تصحیح کے بعد حروف تہجّی کی کلی ترتیب کے پیش نظر، خود ہر حرف کے ذیل میں بھی حروف تہجّی کی ترتیب کو ملحوظ خاطر رکھا ہے، تاکہ کتاب کا حُسن مزید بڑھ جائے اور قاری بھی آسانی سے اپنے مقصود تک دسترسی حاصل کرلے۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ یہ فرامین جو مرحوم طبرسی نے اس کتاب ” نَثْرُ الْلِئَالِی ” میں جمع فرمائی ہیں ، دوسری اُن کتابوں اور منابعوں میں، جن میں امیر المومنین علی ـ کے کلمات کو جمع آوری کیا گیا ہے، جیسے:

نہج البلاغہ، غرر الحکم، ابن ابی الحدید کی الحکم المنثور، مطلوب کل طالب اور انکے علاوہ دیگر کتابوں میں نہیں پائے جاتے ہیں۔(لہٰذا اِس کتاب کی اِسی اہمیت کے پیش نظر ہم نے امیر المومنین علی ـ کی ان فرامین کو قارئین کی خدمت میں بمعہ ترجمہ پیش کیا ہے)۔

نَثْرُ الْلِئَالِی کی تصحیح اور اِسکا مورد توجّہ نسخہ 

اِس کتاب کے بہت سے نسخے مختلف خطِ کتابت اور اسلوب تحریر میں مختلف کتابخانوں میں موجود ہیں، اس کتاب کی تحقیق اور تصحیح کے لئے جناب محمد حسن زبری قاینی نے استاد محترم کاظم مدیر شانہ چی (قدّس سرّہ ) کے شخصی اور ذاتی کتابخانے کے چھپے ہوئے (Printed) نسخے کو مورد عنایت اور مورد ِ توجّہ قرار دیا، اور اس چھپے ہوئے نسخے کو کتابخانہ آستانِ قدس رضوی (مشہد مقدس) کے اندر موجود دیگر نو نسخوں کے ساتھ اور مقابلہ کیا، اور نسخوں کے اختلاف کو نیچے حاشیہ میں ذکر کیا ہے، مذکورہ نسخہ ١٣١٣ قمری میں تحریر کیا گیا، اور حدیث ” اِیْمَانُ الْمَرْئِ یُعْرَفُ بِأَیْمَانِہ” سے شروع ہوتا ہے اور حدیث ” یَأْسُ الْقَلْبِ رَاحَةُ النَّفْسِ ” پر ختم ہوتا ہے۔ لیکن تحقیق و تصحیح کرنے والے نے کیونکہ خود حروف تہجّی کی ترتیب کو بھی ملحوظ خاطر رکھا ہے اور مذکور احادیث کو بھی بعد میں آنے والے حروف تہجّی کے لحاظ سے ترتیب دیا ہے ، اسلئے اس نسخے کی ترتیب تبدیل ہو گئی ہے۔

طبرسی کا صحیح تلفُّظ کیا ہے؟ 

مرحوم طبرسی کی شہرت ” طبرسی ” کے تلفُّظ میں اختلاف ہے، بعض اس کو” طَبَرْسی”پڑھتے ہیں، اُنکا دعویٰ یہ ہے کہ آپ کی نسبت ” طبرستان ” کی طرف ہے، میرزا عبداللہ أفندی ” رِیٰاضُ العُلَمٰائِ ” میں اور محمد باقر خوانساری ” رَوْضٰاتُ الجَنّٰاتِ ” میں اِسی پر اصرار کرتے ہیں۔

لیکن بعض یہ کہتے ہیں کہ ” طبرستان ” کی طرف نسبت سے ” طَبَرِی ” یا ” طَبْرٰانی ” یا ” طَبْرِسْتٰانی ” ہونا چاہیے ، نہ کہ ” طَبَرْسی ”۔بلکہ مؤلِّفِ” مَجْمَعُ البَیٰان ” کا دقیق منسوب نام ” طَبْرِسی ” ہے، جو

” تَفْرِشی ”سے عربی میں پھیرا گیا (یعنی معَرَّب ہوا )ہے ،” تَفْرِش ” قم مقدس اور أراک کے نزدیک، ایک شہر ہے، جس شہر کی طرف ”علامہ طبرسی ” کی نسبت ہے۔ ٢

اِسی طرح سے” طَبْرَسی” اور ” طَبْرِسی ” (راء کے زبر اور زیر) ہر دو پڑھے گئے ہیں، اور مختلف منابع میں دونوں صورتوں میں ضبط ِ تحریر ہوئے ہیں،” طَبْرَسی ” ضبط کرنے کی دلیل شاید یہ ہو کہ عجمی الفاظ کو عربی میں ڈھالنے کے وقت حروف کی تبدیلی کے ساتھ، کبھی حرکات بھی تبدیل ہوجاتی ہوں، اور عربی کے أوزان کے مساوی کرنا، مشہور صرفی أوزان کی شکل میں ہی ہو سکتا ہے، اور عربی میں ” فَعْلِل” کا وزن نہ ہونے کی وجہ سے راء کا زیر ، زبر میں تبدیل ہوگیا ہو، نیز یہ کہ زبر( فَتْحَہ) کی حرکت تلفُّظ میں ہلکی اور آسان ہے، لہٰذا ” طَبْرَسی ” پڑھا گیا ہے۔ لیکن وہ لوگ جو ” طَبْرِسی ” (راء کے زیر کے ساتھ) پڑھتے ہیں، وہ اصل کے وزن کو ملحوظ رکھتے ہیں، کیونکہ ” تَفْرِش ” راء کے زیر (کَسْرَہ) کے ساتھ ہے۔

اس بارے میں اگرچہ کافی تفصیل سے لکھا گیا ہے، لیکن پھر بھی کچھ اِبھامات اور اِشکالات نظر آتے ہیں، جن میں سے کچھ کی طرف ہم اشارہ کرتے ہیں:

1۔ کہاں، کس وقت اور کیوں علّامہ کو” طَبْرَسی” کے لقب سے شہرت حاصل ہوئی؟ جبکہ ” علّامہ ” صوبہ خراسان کے شہر مشہد مقدّس میں پیدا ہوئے اور اِسی صوبہ کے شہر سبزوار میں انتقال فرمایا۔

2۔ اگر دیکھا جائے تو ” علّامہ طبرسی ” نے اپنی تمام عمر پُر برکت، فارسی زبان کے علاقوں، خراسان اور شاید کچھ مدّت ”شہرِ رَی” میں گزاری، تو پھر ” تَفْرِشی ” کے لقب سے کیوں مشہور نہ ہوئے، اور آپکی شہرت عربی میں کیوں تبدیل ہوئی؟

اِن دونوں سؤالوں کا جواب تمام اُن آثار اور تألیفات میں جو اَب تک تحریر کئے گئے ہیں، ہمیں کہیں نظر نہیں آتا۔

مرحوم طبرسی کے بارے میں علماء کے اقوال 

علّامہ طبرسی کے شاگرد منتجب الدین ابو الحسن علی ابن عبید اللہ ابن بابویہ رازی، جو پانچویں صدی ہجری کے بزرگ علماء میں سے شمار ہوتے ہیں اپنی کتاب میں لکھتے ہیں: ”شیخ امام أمین الدین ابو علی فضل ابن حسن ابن فضل طبرسی قابل ثقہ شخصیت و فاضل، دیندار اور معروف حیثیت کے حامل تھے۔”٣

علامہ محمد باقر مجلسی اپنی کتاب بحار الانوار کے مدخل میں فرماتے ہیں:” طبرسی علماء اعلام کے فخر، أمینِ ملّت واسلام، مفسِّرین قرآن کے لئے نمونہ عمل اور ماہر فضلاء کیلئے بہترین سرمایہ تھے، طبرسی دین اسلام کے بزرگ زُعماء اور طائفہ شیعہ کے جلیل القدر اور قابل اعتماد علماء میںشمار ہوتے ہیں۔” پھر فرماتے ہیں:” طبرسی کی بلند و بالا شہرت اور ان کے فضل و دانش کی درخشندگی اور نیز انکی گرانمایہ کتاب تفسیرِ مجمع البیان اور دیگر تألیفات اور آثار علمی و جاودانی کی موجودگی میں، جو ان کے علم و فضل اور میدانِ تفسیر میں برجستگی کو ظاہر کرتے ہیں، کسی اور کتاب سے طبرسی کی زندگی اور شرح احوال کو پیش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔”٤

سید محسن أمین العاملی فرماتے ہیں: ” شیخ جلیل القدر، عالم و زاہد، أمین الدین، ثقة الاسلام، أمین رُوساء مرحوم طبرسی کا فضل، عظمت و بزرگی اور علوم میں انکی مہارت و وثاقت ہر قسم کی وضاحت سے بے نیاز ہے اور اس چیز پر بہترین شاہد خود ان کی کتابیں ہیں۔” پھر فرماتے ہیں: ” مرحوم طبرسی اپنے فکری مخالفین کے ساتھ بھی أدب و احترام کا لحاظ رکھتے تھے، انکی گفتگو اور کلام میں کوئی ایسی بات نہیں ملتی، جو ان کے مخالفین کی نفرت و رنجش کا سبب بنے، یا ان کی ہجو اور مذمت یا بُر ا بھلا کہنے پر مشتمل ہو، در حالانکہ مصنِّفین و مولِّفین میں بہت ہی کم ایسے ملیں گے، جن کی گفتگو اور کلام اس چیز سے بچا ہوا ہو۔”٥

تفسیر کے میدان میں علّامہ طبرسی کی تالیفات

مشہور یہ ہے کہ ” علّامہ طبرسی ” نے تین کتابیں تفسیر کے موضوع پر تألیف فرمائیں، اُن میں سے پہلی کتاب ” مَجْمَعُ البَیٰانِ لِعُلُوْمِ الْقُرٰآنِ ” ٦ یا ” مَجْمَعُ البَیٰانِ فِی تَفْسِیْرِ الْقُرآنِ ” ہے، یہ تفسیر مرحوم 

” علّامہ طبرسی ” نے ٥٣٠ تا ٥٣٤ ہجری قمری یا ٥٣٦ہجری قمری تک تدوین کی، اور اُنھوں نے اِس تفسیر کو 

” تفسیر کبیر ” سے تعبیر کیا ہے۔٦

کیونکہ علّامہ طبرسی ، تفسیر ” مجمع البیان ” لکھنے کے دوران محمود زمخشری کی کتاب ” اَلْکَشّٰافُ عَنْ حَقٰائِقِ التَّنْزِیْلِ وَعُیُوْنِ الأَقٰاوِیْلِ فی وُجُوْہِ التَّأْوِیْلِ ” سے آشنا نہیں ہوئے تھے، اسلئے ” اَلْکَشّٰافُ عَن ” سے آشنا اور متاثر ہونے کے بعد، اُنھوں نے ایک اور تفسیر ” اَلْکٰافِیُ الشّٰافِیُ ” کے نام سے تحریر فرمائی،کہ جو روش اور ترتیب میں ” اَلْکَشّٰافُ ” کی مانند تھی، اور مطالب کو بیان کرنے میں بھی انھوں نے ” اَلْکَشّٰافُ ” سے بہت زیادہ استفادہ کیا تھا اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ اُن کی یہ تفسیر، محمود زمخشری کی ” الکشّاف ” کا خلاصہ اور انتخاب تھی۔ ” علّامہ طبرسی ‘ ‘ نے اپنی عمر کے آخری سالوں میں، اپنے بیٹے حسن ابن فضل، صاحب ِ ” مکارم الاخلاق ” کے مشورے اور اصرار پرایک اور تفسیر ” جَوٰامِعُ الْجٰامِعِ ” کے عنوان سے تألیف کی، جو تفسیر ” مَجْمَعُ الْبَیٰانِ ” کی تلخیص اور ” اَلْکَشّٰافُ ” سے حاصل شدہ اضافات کے ساتھ ہے، علّامہ نے یہ تفسیر تقریباً ٥٤٢ ہجری قمری میں، ایک سال کی مدّت میں تحریر فرمائی۔

تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ مرحوم ” علّامہ طبرسی ” نے اِن تین تفاسیر کے علاوہ کوئی اور تفسیر تحریر نہیں فرمائی، اور بعض جو یہ کہتے ہیں کہ اُنھوں نے ایک یا دو تفاسیر، اِن کے علاوہ بھی تحریر کی ہیں، اِسکی کوئی سند یا دلیل نہیں ہے، جیسا کہ اِن تین تفاسیر کو اصطلاح میں ” کبیر، وسیط اور وجیز ” (یعنی بڑی، درمیانی اور مختصر) کہا جاتا ہے۔ ٧ اگرچہ علّامہ کی تفسیر ” الکافی الشافی ” اِس وقت موجود نہیں ہے، لیکن لگتا یہ ہے کہ علّامہ کی درمیانی تفسیر

” جوامع الجامع ” ہے اور ” الکافی الشافی ” ان کی مختصر تفسیر تھی۔

لیکن وہ بات جو اس بارے میں قابل افسوس کہی جا سکتی ہے، وہ تفسیر ” الکافی الشّافی ” کی عدم دستیابی ہے، کہ اِس وقت علّامہ طبرسی کی اِس کتاب کا کوئی أثر و نشان موجود نہیں ہے، حالانکہ علّامہ طبرسی خود ” جوامع الجامع ” کے مقدَّمہ میں بیان فرماتے ہیں: ”تفسیر کی بڑی کتاب ” مجمع البیان ” تالیف کرنے کے بعد میں نے ” الکشّاف ” کو دیکھا اور اُس سے استفادہ کرنے کے بعد ۔۔۔” الکافی الشّافی ” کو تحریر کیا، جب یہ دونوں کتابیں چھپ گئیں تو اِنھوں نے لوگوں کے دل مُوہ لئے ۔۔۔اور دلوں میں علم کی آگ روشن کردی ۔۔۔اور ایک ضرب المَثَل اور کہاوت کی طرح شہروں میں رواج پا گئیں، اور فکر و خیال کی طرح ہر جگہ پہنچ گئیں۔”

غور طلب بات یہ ہے کہ یہ گفتگو اور تعریف و توصیف اُن سالوں کی کیفیت کو بیان کرتی ہے، جب ” مجمع البیان ” اور ” الکافی الشافی ” کی تالیف اور ” جوامع الجامع ” کی تالیف کے درمیان فاصلہ ہوگیا تھا، اب اِن تمام تعریفوں کے بعد کس طرح ” الکافی الشّافی ” کا کوئی أثر و نشان اور کوئی نسخہ موجود نہیں؟ یہ ایک ایسا سؤال ہے کہ جو نسخہ شناس اور آثارعلمی تلاش کرنے والوں کے لئے جستجو اور تلاش کا دروازہ کھولتا ہے، تاکہ وہ ” علّامہ طبرسی ” کی اِس کتاب کو تلاش کرکے اہل علم کیلئے استفادہ کا سامان فراہم کریں۔

علّامہ طبرسی کے اساتذہ اور شاگرد 

” علّامہ طبرسی ” کے ابتدائی حصول علم کے زمان و مکان کے بارے میں موجودہ منابع میں کوئی خاص بات موجود نہیں ہے، لیکن فقہ، روایت اور تفسیر میں اُن کے معروف اور مشہور اساتذہ درج ذیل بیان کئے گئے ہیں:

١۔ ابو علی حسن ابن محمد ابن حسن طبرسی،(فرزند ِ شیخ طوسی ، جو مفید ثانی کے لقب سے جانے جاتے ہیں)۔

٢۔ ابو الوفاء عبدالجبّار ابن عبداللہ علی مقریٔ نیشاپوری۔

٣۔ حسن ابن حسین ابن بابویہ قمی رازی (جدِّ شیخ منتجب الدین)۔

٤۔مو فَّق الدین حسین ابن فتح واعظ بکر آبادی جرجانی۔

٥۔ سید محمد ابن حسین حسینی جرجانی۔

٦۔ شیخ ابو الفتح عبداللہ ابن عبد الکریم ابن ھوازن قشیری۔

٧۔ شیخ ابو الحسن عبداللہ ابن محمد ابن حسین بیہقی۔

٨۔ جعفر ابن محمد دوریستی۔

علّامہ طبرسی کے شاگردوں میں سے درج ذیل شخصیات کو بیان کیا جا سکتا ہے

١۔ حسن ابن فضل (علّامہ طبرسی کے فرزند)۔

٢۔ رشید الدین ابو جعفر محمد ابن علی ابن شہر آشوب سروی مازندرانی۔

٣۔ شیخ منتجب الدین علی ابن عبیداللہ ابن بابویہ قمی۔

٤۔ ضیاء الدین فضل اللہ ابن علی راوندی کاشانی۔

٥۔ قطب الدین سعید ابن ھبةاللہ راوندی (معروف بہ قطب راوندی)۔

علّامہ طبرسی کی تألیفات و تصنیفات 

مذکورہ تین تفاسیر کے علاوہ، فقہ کے موضوع پر ” اَلْمُؤْتَلَفُ مِنَ الْمُخْتَلَفِ بَیْنَ آئِمَةِ السَّلَفِ” اور سیرت اہل بیت کے موضوع پر ” اِعْلٰامُ الْوَرَیٰ بِأَعْلٰامِ الْھُدَیٰ ” علّامہ طبرسی کی گرانقدر تصنیفات ہیں، اوراس کے علاوہ دس سے زائد دیگر آثار بھی علامہ کے لئے ذکر کئے گئے ہیں، جن میں بعض اِس وقت موجود ہیں، اور بعض کے فقط نام، حالات زندگی کی کتابوں میں دیکھے جاسکتے ہیں۔

” علّامہ طبرسی ” کے عصر کو تفسیر کی پیش رفت کا دور کہا جاسکتا ہے، کیونکہ علّامہ کے زمانے ہی میں ”ابو الفضل رشید الدین میبدی ” کی تفسیر ” کَشْفُ الْأَسْرٰارِ وَعُدَّةُ الْأَبْرٰارِ ”، جار اللہ محمود ابن عمر زمخشری کی تفسیر

” اَلْکَشّٰافُ عَنْ حَقٰائِقِ التَّنْزِیْلِ وَعُیُوْنِ الْأَقٰاوِیْلِ فی وُجُوْہِ التَّأْوِیْلِ ”، ابو الفتوح رازی کی تفسیر

” رُوْحُ الجِنٰانِ رَوْحُ الجَنٰانِ ” اور کچھ دیگر تفاسیر تالیف پائیں، جیسا کہ علّامہ کے زمانے کو ایک پہلو سے تفسیر نویسی کے مرحلے سے نئے تفسیر نویسی کے دور کا آغاز بھی کہا جا سکتا ہے، ایک وہ زمانہ تھا، جب مرحوم شیخ طوسی نے اپنی تفسیر ” اَلتِّبْیٰانُ فِی تَفْسِیْرِ الْقُرْآنِ ” لکھی، یہ تفسیر کے ایک خاص رنگ اور خاص انداز میں تصنیف کے دور کا آغاز تھا، اِس دور میں بہت سی قابل قدر تفاسیر، مختلف پہلوؤں سے لکھی گئیں، مثلاًأدبی، لغوی، تاریخی، فقہی، کلامی اور عرفانی پہلوئوں سے تفاسیر تالیف پائیں اور تفسیرِ ” مَجْمَعُ الْبَیٰانِ ” اِن میں ممتاز اہمیت کی حامل تفسیر ہے،اِسی بناء پر اِس تفسیر کو جامع تفاسیر کی صف میں رکھا جا سکتا ہے، ایسی تفاسیر جو کسی ایک خاص پہلو میں محدود نہیں ہوتی ہیں، اگرچہ اِس کا أدبی رنگ اور أدبی پہلو زیادہ نمایاں دیکھائی دیتا ہے۔

تفسیر ” مَجْمَعُ الْبَیٰانِ ” میں علامہ طبرسی نے تالیف کی روش اور اِسکے مطالب کی ترتیب و تنظیم درج ذیل اُمور میں قرار دی ہے:

١۔ سورتوں اور آیات کے مکّی یا مدنی ہونے کی طرف اشارہ اور اختلافی موارد کا ذکر۔

٢۔ سورتوں کی آیات کی تعداد اور اِس بارے میں مختلف أقوال کا ذکر۔

٣۔ سورتوں کے نام رکھے جانے کی کیفیت اور سورتوں کے مفاہیم سے اِن ناموں کی مناسبت۔

٤۔ سورہ کی تلاوت اور پڑھنے کی فضیلت کا بیان اور اِس سے مربوط احادیث۔

٥۔ ” اَلْقِرٰا ئَةُ ” کے عنوان سے اختلاف قرائت کا بیان۔

٦۔ ” اَلْاِعْرٰابُ ” کے عنوان سے کلمات کے اعراب کی دلیل اور اِس بارے میں مختلف قرائتوں کی صورتوں (وجوہ) کی تشریح۔

٧۔ ” اَلْلُغَةُ ” کے عنوان سے آیات کی مشکل لغات کے معنیٰ کا بیان۔

٨۔ ” اَلنُّزُوْلُ ” کے عنوان سے آیات کے عِلل و اسبابِ نزول کا بیان۔

٩۔ ” اَلْمَعْنیٰ” کے عنوان سے آیات کی تأویل و تفسیر کا بیان۔

١٠۔ ” اَلنَّظْمُ ” کے عنوان سے آیت کا ماقبل ومابعد آیات سے اِرتباط اور مناسبت کا بیان۔

١١۔ ” اَلْقِصَّةُ ” کے عنوان سے قرآنی داستانوں (قِصص) کا بیان۔

١٢۔ آیت کی تفسیر کے ذیل میں احکام فقہی کا بیان اور اِنکی جانچ پڑتال۔

علّامہ طبرسی کا تفسیری اسلوب 

چند خصوصیات علّامہ طبرسی کے تفسیری اسلوب، بالخصوص تفسیر ” مَجْمَعُ الْبَیٰانِ ” میں نمایاں طور پر دیکھی جاسکتی ہیں ، اُن ہی میں سے بعض خصوصیات کو ہم یہاں بیان کرتے ہیں:

پہلی خصوصیت: نظم بدیع (جدید اور نئے انداز کا نظم):

تفسیرِ ” مجمع البیان ” کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت اِس کا بے سابقہ و جدید نظم اور بہترین اُسلوب ہے، جو اِس تفسیر کو دیگر تمام تفسیروں سے نمایاں اور ممتاز کرتا ہے، اور تمام صاحبان ِ علم کو گزشتہ صدیوں سے داد تحسین دینے پر مجبور کرتا رہا ہے، علّامہ طبرسی نے در حقیقت مرحوم شیخ طوسی کی ” تفسیرتبیان ” کو، جو علامہ کے نزدیک صحت و سُقم کی حامل اور ترتیب و نظم سے فاقد تھی، خوبصورت ترین شکل میں نظم بخشا ہے، اور اِس پر مزید تجزیٔہ و تحلیل اور فوائد کا اضافہ بھی کیا اور اس سے بعض غیر ضروری مطالب کو حذف کر دیا ہے۔

علامہ طبرسی اگرچہ اپنی تفسیری تألیفات میں جدیّت رکھنے والی بے سابقہ شخصیت کے حامل ہیں اور انہوں نے زیادہ تر روایات و حکایات پر توجہ کی ہے، جیسا کہ خود علامہ طبرسی ” مجمع البیان ” کے مقدَّمہ میں لکھتے ہیں: ”انھوں نے قدم بہ قدم اپنے متقدِّمین، جیسے شیخ الطائفہ مرحوم طوسی کے نقش قدم پر عمل کیا ہے، اور ان کو اپنے لیے نمونۂ عمل اور قابل تقلید قرار دیا ہے۔”

لیکن بلاشکّ و شبہ علامہ طبرسی جدید تفسیری اسلوب کی جانب حرکت کا آغاز کرنے والے، اور منظم و مرتّب تفسیر کی تدوین کی بنیاد رکھنے والے کہے جا سکتے ہیں، کیونکہ علامہ طبرسی سے پہلے مفسِّرین کا اصلی ہدف و مقصد لفظی، أدبی اور لغوی خصوصیات کی تشریح یا متعلقہ روایات کا نقل کرنا ہی ہوتا تھا، علامہ طبرسی روایت کے بیان کرنے میں صادق اور أمین، روایات کی چھان پھٹک کرنے میں تیزبین اور نقّاد، متن کے انتخاب کرنے میں تمام جوانب نگاہ رکھنے والے اور دوسروں پر نقد و تنقید کرنے میں عدل و انصاف کے تمام پہلوؤں کی رعایت کرنے والے تھے۔ انھوں نے گزشتہ مفسِّرین کے اقوال و گفتار اور نظریات کو انتخاب کرنے اور بیان کرنے میں اس قدر خوبصورتی سے کام لیا ہے کہ مرحوم طبرسی سے پہلے یا بعد میں کسی نے اس طرح کا کام نہیں کیا۔

اِن تمام چیزوں کے باوجود، علّامہ طبرسی نے کسی کی تقلید یا پیروی نہیں کی، بلکہ انھوں نے فقہی، کلامی، عرفانی، أدبی و تاریخی نظریات اور گزشتگان کے اقوال کا بڑی دقَّت سے مطالعہ کیا اور ان میں سے بہترین کا انتخاب کیا ہے۔

دوسری خصوصیت: متن محوری (یعنی قرآن محوری):

تفسیر مجمع البیان میں علّامہ طبرسی کی ایک اور خصوصیت، قرآن محوری ہے، جامعة الازہر، مصر کے شیخ محمود شلتوت اِس بارے میں لکھتے ہیں: ”یہ کتاب پہلی اور کامل ترین تفسیرِ جامع ہے، ایسی تفسیرِ جامع جو وسیع تحقیقات کے علاوہ، عمیق، دقیق اور بے نظیر نظم کی حامل بھی ہے، فصل بندی کے ساتھ، خوبصورت ترتیب اور نہایت موزوں عبارات میں لکھی گئی ہے، ایسی تفسیر ہے جو فنِ تفسیر کو قرآن کریم کی خدمت میںاستعمال کرتی ہے، نہ یہ کہ قرآن کریم کو اہل لغت اور فقہاء کی خدمت میں لے آئے، یا یہ کہ قرآن کریم کو ”سیبویہ” کی ”نحو” پر، ”عبدالقاہر” کی ”بلاغت” پر، اور یونان و روم کے ”فلسفوں” پر تطبیق کرے، یا یہ کہ قرآن کریم کو ایسے اعتقادات کے قبول کرنے اور گروہی رجحانات و تمایلات کے مطابق قرار دینے پر محکوم کرے، جو خود قرآن کریم کے حکم سے محکوم ہونے چاہیں۔

تیسری خصوصیت: اعتدال پسندی اور أدب کی رعایت:

علّامہ طبرسی کی ایک اور خصوصیت، مذہبی نظریات میں اعتدال ہے، باوجود اِسکے کہ علامہ طبرسی کا تعلّق اُس زمانے سے ہے کہ جب مختلف مکاتب فکر کے علماء اور دانشمندان فقط اپنے ہی نظریات اور اعتقادات کو قابل اعتناء سمجھتے تھے اور اپنے مخالفین کی بات کو نقل کرنے سے بے اعتنائی برتتے تھے، لیکن علامہ طبرسی نے اس طرح کے طرز فکر کی پروا نہ کرتے ہوئے، مختلف اقوال کے نقل کرنے میں کسی قسم کے تعصُّب کا اظہار نہیں کیا، اور تمام اصناف اور ہر قسم کے اقوال کو یکساں نظر سے دیکھا، جس قول کو قابل قبول جانا، خواہ وہ قول کسی کا بھی تھا، اُسے لے آئے، جیسا کہ بعض اِس حوالے سے علامہ طبرسی پر اعتراض کرتے ہیں کہ وہ زیادہ تر عامّۂ مفسِّرین سے نقلِ قول کرتے ہیں، حتیٰ کہ علامہ طبرسی مختلف آراء اور اقوال کے نقل کرنے میں انکے ناموں کے مقدَّم یا مؤخَّر کرنے میں بھی کسی قسم کی غرض مندی کو جائز نہیں سمجھتے تھے۔

علّامہ طبرسی بہت سے دیگر مؤلِّفین کے بر خلاف، اپنے مخالفین کی نسبت طعن و تشنیع، اعتراض اور تحقیر کرنے سے اجتناب کرتے تھے، جیسا کہ تفسیر جوامع الجامع کے آغاز میںصاحب کشّاف، زمخشری کو جو حنفی اور معتزلی المسلک ہے، نیکی اور بڑائی سے ذکر کرتے ہیں اور اُس کے اپنے ہم عصر ہونے کے حجاب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے، اُسکی اِس تالیف کی تعریف کرتے نظر آتے ہیں۔

لہٰذا علّامہ طبرسی کی یہ روش اور اسلوب نگارش نہ صرف قابل تعریف ہے، بلکہ تمام محقِّقین اور مولّفین کے لئے قابل تقلید بھی ہے، ہمارے دوسرے سلفِ صالح کی سیرت بھی اِسی قسم کی رہی ہے، اس بارے میں شیخ مفید ، سید رضی، سید مرتضیٰ اور شیخ طوسی کے نام قابل ذکر ہیں، کیونکہ یہ ہستیاں اہل سنّت کی درمیان بھی مقبول اور قابل احترام رہی ہیں، نیز انہیں مسندِ درس اور فتویٰ بھی حاصل رہا ہے۔

علّامہ طبرسی ، شیخ محمد تقی قمی کی نگاہ میں 

جامعة الازہر مصر کے مشہور استاد جناب محمد تقی قمی علّامہ طبرسی کے بارے میں کہتے ہیں: ” علّامہ طبرسی اپنی تفسیر میں مقام انصاف پر فائز تھے، وہ قرآنی أدب اور اخلاق کی راہ سے ہرگز دور نہیں ہوئے، مجادلہ کرنے میں سختی سے کام نہ لیا اور گفتگو میں غیر معقول باتوں اور جلد بازی کا مظاہرہ نہیں کیا، وہ اپنے مخالف اور موافق ہر دو کے ساتھ اچھی، مستدل اور مستند گفتگو کرتے ہیں اور اس طرح سے پڑھنے والے کو صحیح فیصلہ کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں ، لہٰذا اس طرح سے انہوں نے اپنی کتاب کو اس آیت ” وَجَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ أَحْسَنُ” کا بہترین نمونہ اور مصداق قرار دیا ہے۔”

چوتھی خصوصیت: وسعتِ نظری

علّامہ طبرسی کی تفسیر کی ایک اور خصوصیت اُن کا وسیع النظر ہونا اور قرآن کریم کے تمام اطراف و جوانب کا احاطہ کرنا ہے، وہ قرآن کی آیات پر بڑے تسلُّط اور قدرت کے ساتھ ایک آیت کی تفسیر کے لئے بہت سی دوسری آیات سے استفادہ کرتے ہیں، اور اس طرح سے قرآن کریم کی تفسیر خود قرآن ہی کے ساتھ یعنی تَفْسِیْرُ الْقُرآنِ بِالْقُرآنِکے انتہائی عمدہ اور پسندیدہ اسلوب سے کرتے ہیں۔

پانچویں خصوصیت: مختلف علوم و فنون پر دسترس

علّامہ طبرسی اُن چند گزشتہ شیعہ علماء میں سے ہیں کہ جو مختلف علوم اسلامی میں صاحبِ نظر اور مہارت رکھنے والے سمجھے جاتے تھے اور انہوں نے مختلف علوم و فنوں میں کتابیں بھی تألیف و تصنیف فرمائی ہیں، اُنکی تفسیر مجمع البیان بھی قرآن کریم کے مختلف علوم کا ”دائرة المعارف” کہی جاسکتی ہے، لیکن قابل افسوس بات یہ ہے کہ علّامہ طبرسی کے بعد کئی صدیوں تک علوم قرآنی شیعہ علماء کے درمیان بے توجہی اور غفلت کا شکار رہے ہیں، اور اس بارے میں بہت ہی کم صاحب نظر افراد پیدا ہوئے، جنھوں نے اس سلسلے میں کچھ تألیف بھی کیا ہو، لہذا علوم قرآنی کے تمام مہم اور اصلی منابع عمدةً اہل سنّت کے علماء کی طرف سے ہیں اور بعض اوقات تو یہ کسی خاص مذہبی رجحان کے تحتِ أثر تألیف پائے ہیں، اِس بارے میں کوئی ایسی تألیف جو قابل توجّہ ہو، مجمع البیان کے بعد شیعہ علماء کے درمیان نظر نہیں آتی، سوائے اِ ن آخری چند دہائیوں کے (بالخصوص انقلاب اسلامی ایران کے بعد) خوشبختی سے دوبارہ اِن علوم قرآنی کی جانب توجّہ پیدا ہوئی ہے، اور اہل تشییع کے درمیان اِن علوم قرآنی نے دوبارہ رواج پایا ہے، اور اس موضوع سے متعلِّق کئی ارزشمند کتابیں شیعہ علماء اور دانشمندوں کے طرف سے تألیف کی گئی ہیں۔

چھٹی خصوصیت: تمام زمانوں میں قابل استفادہ 

بلا شکّ و شبہ تفسیر کے میدان میں تسلسل سے جاری و ساری رہنے والا سفر، اور کلام حقّ کو سمجھنے کے لئے صراطِ مستقیم کی جانب حرکت، ایسا عمل ہے جو کبھی بھی رکنے والا نہیں ہے، قرآن کریم انسانوں کی ہدایت و راہنمائی کے لئے، اُنکی سطحِ فکری اور علم و آگاہی کے مطابق نازل ہوا ہے، قرآن شب و روز کی سیر و گردش کے ساتھ، اور زمانے و زمانے والوں کے ہمراہ سفر کرتا ہے، ہمیشہ نئی فکروں کو جلاء بخشتا ہے، اور زمانے کے گزرنے کے ساتھ اِسکی نورافشانی اور درخشندگی بڑھتی ہی جاتی ہے ،لہٰذا نہ تو کبھی بوسیدہ ہوتا ہے اور نہ ہی ماند پڑتا ہے۔

اِس تفسیری سفر میں دو طرح کی تفسیریں تألیف پائیں ہیں، بعض تفاسیر وہ ہیں جو اپنے زمانے کے حاصل شدہ تجربات اور معلومات کو اُسی محصور و محدود زمانے اور افراد کے تناظر میں پیش کرتی ہیں، اس طرح کی تفاسیر ہرگز قرآن کی مستمر اور جاری ہدایت کے ساتھ، کہ جو طول تاریخ میں جاری وساری ہے، قدم بہ قدم نہیں چل سکتیں، اسلئے اس قسم کی تفاسیر کی ایک تاریخ اختتام (Expairity Date) ہوتی ہے، اور وہ تاریخ پوری ہوجانے کے بعد، کاروانِ علم و معرفت کی پیشرفت کے سفر سے یہ تفاسیر خود بخود خارج ہوجاتی ہیں۔

لیکن مجمع البیان کی مانند تفاسیر، جو تفسیر کے ثابت اور مضبوط اصول و قواعد اور خاص روش و طریقۂ کار کے تحت لکھی گئی ہیں، خود قرآن کی طرح اُنکی ارزش و اہمیت ہمیشہ باقی ہے، اور یہ تفاسیر ہمیشہ قابل استفادہ اور قابل توجّہ رہتی ہیں۔

ساتویں خصوصیت: معیار تفسیر اور تفسیر معیار 

کلام الٰہی کا سمجھنا اور اُس میں تدبُّر کا عمل، ایسا کام ہے جس میں ہمیشہ پیش رفت ہوتی رہی ہے اور یہ چیز تسلسل کے ساتھ آگے بڑھی ہے، لیکن ضروری ہے کہ یہ فہم و تدبُّر اور قرآن کریم سے مطالب کا أخذ کرنا، یقینی طور پر کسی خاص روش اور کسی خاص اساس پر استوار ہو، جسے معیَّن اور بیان کیا گیا ہو اور اس معیَّن کئے گئے معیار سے تخلُّف و روگردانی، تفسیر بہ رائے کہلائے گی۔

صحیح تفسیر کا معیار و مبنیٰ اور اصول و قواعد پر منطبق متن مجمع البیان کی طرح کا ہوتا ہے، جو بہترین شکل و صورت اور خاص نظم کے ساتھ موجود ہے، اگر دوسرے مفسِّرین ان بیان کئے گئے اصولوں کی بنیاد پرفہم و تدبُّر اور قرآن سے مطالب أخذ کرنے کا کام لیں، تو وہ مجاز ہونگے، اور انہیں أجر و ثواب بھی دیا جائے گا، وگرنہ اُن کے ہر قدم پر تفسیر بہ رائے کا خدشہ اور اسکے بعد جَلا دینے والے انجام کا خوف اُن کے دامن گیر ہو گا۔

ہم کہہ سکتے ہیں کہ تفسیر مجمع البیان تفسیر معیار بھی ہے اور معیار تفسیر بھی، کیونکہ اس میں تفسیر کے ثابت اصول و قواعد کو جمع کیا گیا ہے، یعنی آغاز میں آیات سے مرادِ الٰہی کو سمجھنا اور عبارات کو بیان کرنے کے ساتھ، اشارات، لطائف اور حقائق کو پیش کرنے کے لئے آمادہ کرنا مقصود ہے۔

آٹھویں خصوصیت: حوزہ ہای علمیہ اور طلّاب دینیہ کیلئے متنِ درسی

علّامہ طبرسی کی مجمع البیان کو تفسیر قرآن کے عنوان سے بہترین تدریس کا متن قرار دیا جا سکتا ہے، کیونکہ یہ تفسیر اپنی اس خصوصیت میں کسی اور تفسیر کے متن سے ہرگز قابل مقایئسہ نہیں ہے، گویا اس کے مصنِّف نے اس تفسیر کو موجودہ حوزہ ہای علمیہ میں تدیس کیلئے تألیف فرمایا ہے۔

آخر میں اس چیز کی طرف توجّہ دلانا ضروری ہے کہ متأسفانہ مجمع البیان جیسی قابل قدر اسلامی میراث، صنعت طباعت کو ایک صدی سے زیادہ گزر جانے کے باوجود، ابھی تک اسکی مناسب اور قابل ملاحظہ طباعت نہیں ہوئی ہے اور ابھی تک جو چیز منظر عام پر آئی ہے، وہ کم و بیش واضح اور تغییر دینے والی غلطیوں کی حامل رہی ہے، اور ہرگز آجکل کے تحقیق و تصحیح کے معیاروں کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہے۔ بعض مراکز نے چند سال قبل تحقیق کا ارادہ اور بہترین انداز سے چھاپنے کا اعلان بھی کیا تھا، لیکن ابھی تک انکا یہ دعویٰ تحقُّق پذیر نہیں ہوا ہے۔

جی ہاں معتبر قدیمی نسخوں کا حاصل کرنا اور ان کے اقوال کا تحقیق کے ساتھ استخراج کرنا، روایات کو ارجاع دینا اور مختلف طرح کی فنّی فہرستوں کا تیار کرنا، ایک ایسا ضروری کام ہے، جو وقت چاہتا ہے، علاوہ یہ کہ یہ کام دشوار اور مجمع البیان کے متن کی خصوصیت کی وجہ سے بلاشکّ و شبہ انتہائی سخت اور زحمت طلب ہے۔

والسَّلامُ عَلیٰ مَن اتَّبَع الھُدیٰ) 

seydaqeel@yahoo.com

حوالہ جات

١۔ علّامہ آقا بزرگ تہرانی ، اَلذَّرِیْعَةُ اِلیٰ تَصَانِیْفِ الشِّیْعَةِ ، ج ٢٤ ، ص ٥٣

٢ ۔ لفظ ِ” طبرسی ” کے تلفُّظ اور صحیح ضبط کے بارے میں بعض علماء نے تفصیل سے بحث کی ہے، جیسے: مرحوم آیت اللہ 

شہید قاضی طباطبائی کا تفسیر ”جَوٰامِعُ الْجٰامِعِ”پر مقدَّمہ، میرزا طاہر قزوینی کی کتاب ” شَرْحُ شَوٰاہِدِ 

مَجْمَعِ البَیٰانِ ” پر میرزا محمد باقر مازندرانی کا مقدَّمہ، ڈاکٹر حسین کریمان کی کتاب ” طَبْرِسی وَ مَجْمَعُ 

البَیٰانِ ” اور ڈاکٹر ابو القاسم گرجی کا ” جَوٰامِعُ الْجٰامِعِ ” مطبوعہ دانشگاہ تہران پر مقدَّمہ، اس بارے میں 

قابل ملاحظہ ہیں۔

٣۔ ابو الحسن علی ابن عبید اللہ ابن بابویہ رازی، فِہْرِسْتُ أَسْمَآئِ عُلْمَآئِ الشِّیْعَةِ وَمُصَنِّفِیْھِمْ ، ص ١٤٤ ؛ نیز رجوع 

کریں: رِیَاضُ الْعُلَمَآئِ ، ج٤ ، ص ٣٤٢ ؛ شیخ محمد ابن حسن الحرّ العاملی (وفات: ١١٠٤ قمری)، أَمَلُ الْآمِلِ ، 

ج ٢ ، ص ٢١٦ ؛ علامہ اردبیلی (وفات : ١١٠١قمری)، جَامِعُ الرُّوَاةِ ، ج ٢ ، ص ٤ ؛ سید امیر مصطفی حسینی تفرشی 

(دسویں صدی ہجری)،کتاب نقد الرجال ، ص ٢٦٦ ؛ علامہ مامقانی (وفات: ١٣٥١ قمری ) ، 

تَنْقِیْحُ الْمَقَالِ ،ج ٢ ،ص ٧ (بخش دوم شمارہ ٩٤٦١)

٤۔ علامہ محمد باقر مجلسی (وفات : ١١١١ قمری )، بِحَارُ الْأَنْوَارِ ، ص ١٣٦

٥۔ سید محسن أمین العاملی (وفات: ١٣٧١ قمری)، اَعْیَانُ الشِّیْعَةِ ، ج ٨، ص ٣٩٩؛ نیز رجوع کریں: مرحوم شیخ 

عباس قمی( وفات ١٣٥٩ قمری)، سَفِیْنَةُ الْبِحَارِ ، ج ٣ ، ص٢٠٥ ؛ ہَدْیَةُ الْأَحْبَابِ ، ص ٢١٣ ؛ اَلْکُنٰی 

وَالْأَلْقَابُ ، ج ٢ ، ص ٤٠٩ ؛ اور فوائد الرضویہ ، ص ١١٧؛ محدِّ ث نوری (وفات: ١٣٢٠ قمری)، خَاتِمَةُ 

مُسْتَدْرَکِ الْوَسَائِلِ ، ج٢١ ، ص٦٩

٦۔ اِس تفسیر کے مقدَّمہ میں علّامہ طبرسی نے اِس تفسیر کو اِسی نام سے ذکر کیا ہے، لیکن مترجمین اور فہرست نگاروں 

نے اِس تفسیر کو ” مَجْمَعُ البَیٰانِ فِی تَفْسِیْرِ الْقُرآنِ ” کے نام سے بیان کیا ہے۔

٧۔ شیعہ علماء میں سے بعض دیگر مفسِّرین، مثلاً مرحوم فیض کاشانی اور سید عبداللہ شُبَّر نے بھی تین مختلف روشوں 

اور مختلف حجموں (کبیر ، وسیط اور وجیز) میں تین تین تفاسیر لکھی ہیں۔

تبصرے
Loading...