خودشناسى اور بامقصد زندگی

حیوان کى سارى زندگى کھانے ، سونے ، خواہشات نفسکى تکمیل اور اولاد پیداکرنے سے عبارت ہے حیوان کى عقل اور آگاہى کامل نہیں ہوتى وہ اچھائی اور برائی میں تمیز نہیں کرسکتا اس لیے اس پر کوئی فرض اورذمہ دارى نہیں ہے اس کے لیے کوئی حساب و کتاب اور ثواب و عذاب نہیں ہے اسکى زندگى میں کوئی عاقلانہ پروگرام اور مقصد نہیں ہوتا لیکن انسان کہ جو اشرف المخلوقات ہے وہ حیوان کى طرح نہیں ہے انسان عقل ، شعور اور آگاہى رکھتا ہے اچھے ، برے ، خوبصورتاور بد صورت میں تمیز کر سکتا ہے انسان کو ایک دائمى اور جاوید زندگى کے لیےپیدا کیا گیا ہے نہ کہ نابودى اور فنا کے لیے اساعتبار سے اسکے سر پہ ذمہ دارى بھى ہے اور فرض بھى انسان خلیفة الله ہے اور امین الہى ہے انسان کى زندگى کا حاصل فقط کھانا ، سونا ، خواہشات کى تکمیل اور نسل بڑھانا ہى نہیں ہوسکتا انسان کو ایسے راستے پر چلنا چاہیے کہ وہ فرشتوں سے بالاتر ہوجائے وہ انسانہے اسے چاہیے کہ اپنى انسانیت کو پروان چڑھائے او راسکى تکمیل کرے انسان کىزندگى کا کوئی مقصد ہے البتہ ایک بلند ہدف نہ کر پست حیوانى ہدف انسان رضائے خدا کے لیے اورمخلوق خدا کى خدمت کے لیے کوششاور جد و جہد کرتا ہے نہ کہ زود گزر دنیاوى مفادات کے حصول کے لیے انسان متلاشى حق اور پیروحق ہے ہاں انسانى وجود ایسا گوہر گران بہا ہے کہ جو حیوانات سے بہت ممتاز ہے یہ امر بہت افسوس نا ک ہے کہ بہت سے انسانون نے اپنى اس انمول انسانى قیمت کو گنوادیا ہے اور اپنى قیمتى زندگى کو ایک حیوان کى طرح سے گزار رہے ہیں اور ان کى نظر میں حیوانوں کى طرح سے کھانے ، پینے ، سونے اور خواہشات نفسانى کى تکمیل کے علاوہ کوئی ہدف نہیں ہے ہو سکتا ہے کہ ایک انسان سو سال زندہ رہے لیکن اپنى انسانى قیمت کو نہ پہچان سکے اور اپنے بارے میں جاہل ہى مرجائے دنیا میں ایک حیوان کى صورت آئے اور ایک حیوان کى صورت چل بسے بے مقصد اور سرگردان رہے اور اس کى سارى جد و جہد کا نتیجہ بدبختى کے علاوہ کچھ نہ نکلے انسان کو جاننا چاہیے کہ وہ کون ہے ؟ کہاں سے آیا ہے ؟ اور کہاں جانا ہے ؟ اس کے آنے کا مقصد کیا ہے ؟

اور اس کو کسراستے پر چلنا چاہیے اور اس کے لیے حقیقى کمال اور سعادت کیا ہے حضرت على علیہ السلام فرماتے ہیں : بہترین معرفت یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو پہچان نے اور سب سے بڑى نادانى یہ ہے کہ اپنے آپ کو نہ پہچانے

(1)

امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں:

( جسنے اپنے آپ کو نہ پہچانا وہ راہ نجات سے دور اور جہالت و گمراہى کے راستے پر رہا ( 2

حضرت على علیہ السلام فرماتے ہیں:

خدا کے نزدیک انسانوں میں سے ناپسندیدہ ترین شخص وہ ہے کہ جسکا زندگى میں مقصد شکم سیرى اور

( خواہشات نفسانى کى تکمیل کے علاوہ کچھ نہ ہو ( 3

حضر ت على علیہ اسلام فرماتے ہیں:

( ”جس نے اخروى سادت کو اپنا مقصد بنالیا وہ بلندترین خوبیوں کو پالے گا ” ( 4

ماں باپ کو چاہیے خودشناسى اور بامقصدیت کا درس بچے کو دیں ، وہ تدریجاً اپنى اولاد کى تعمیر کرسکتے

ہیں اور انہیں بامقصد اور خودشناس بناسکتے ہیں وہ آہستہ آہستہ اپنى اولاد کو انسانیت کا بلند مقصد سمجھا سکتے ہیں اور ان کے سامنے زندگى کا مقصد واضح کرسکتے ہیں بچے کو ماں باپ کے ذریعے رفتہ رفتہ سمجھنا چاہیے وہ کون ہے ؟ کیا تھا؟ کہاں سے آیا ہے اس کى زندگى کا مقصد کیا ہے آخر کار اسے کہاں جانا ہے اس دنیا میں اس کى ذمہ دارى اور فریضہ کیاہے اور اسے کسپروگرام اور ہدف کے تحت زندگى گزارنا چاہیے اسکى خواہشنصیبى اور بد نصیبى کس میں ہے اگر ماں باپ خودشناس ہوں اور ان کى اپنى زندگى با مقصد ہو اور وہ اپنى ذمہ داریوں سے آگاہ ہوں

تو وہ خودشناس اور بامقصد انسان پروان چڑھا سکتے ہیں –

_______________

1غررالحکم ، ص 179 

2غررالحکم ، ص 707 

3غررالحکم ، ص 205 

4غرر الحکم ، ص 693

تبصرے
Loading...