الہٰی اسو ے (1)

خداوند تبارک تعالیٰ نے معصومین ، انبیاء ، ائمہ اطہار اور بعض غیر معصوم شخصیات کو انسان کے لئے بعنوان اسوۂ مقرر کیا ہے اوریہ حیثیت دیگر عناوین اور مناصب مثلاًامامت اور رسالت سے الگ ایک حیثیت ہے جسے خداوند تبارک تعالیٰ نے انہیں عطا فرمایاہے۔

الٰہی اسوے امت کے لئے ایک دروازہ ہے تاکہ امت اس باب کے ذریعے اس شخصیت سے متصل ہو جسے خدا نے اسوۂ مقرر کیا ہے۔

قرآن مجید میں دو شخصیات کو صراحت سے اسوہ ٔکہا گیا ہے، پیغمبر اکرم ۖ اور حضرت ابراہیم خلیل اللہ ـ لیکن روایات میں تقریباً تمام معصومین کے لئے یہ تعبیر موجود ہے اور اسی طرح خاندان اہل بیت میں سے غیر معصومین شخصیات کے لئے بھی یہ تعبیریں موجود ہیں از جملہ حضرت زینب مسلماً پوری بشریت اور انسانیت کے لئے ایک الہٰی اسوۂ ہیں نہ کہ فقط خواتین کے لئے، اگر ہم یہ کہیںکہ حضرت زینب فقط خواتین کے لئے اسوۂ ہیں تو یہ آپ کی شخصیت کے سلسلے میں بہت کوتاہ اور محدود نظر ہے۔ 

حضرت زینب تمام بشریت اور انسانیت کے لئے ایک جامع اسوہ ٔ ہیں جسے خداوند تبارک تعالیٰ نے

مقرر کیا ہے۔ حضرت زینب کو خداوند تبارک تعالیٰ کی جانب سے جو توفیقات، علوم، فضائل اور کمالات نصیب ہوئے ہیں کسی انسان کو بہت کم اس طرح کی توفیقات نصیب ہوئی ہیں آپ کو جو کچھ عطا کیا اس کا امتحان بھی ہوا ہے یہ فقط ادّعا نہیں بلکہ حقیقتاً حضرت زینب ممتحنہ یعنی آزمائش شدہ اور امتحان دی ہوئی بی بی ہیں۔ اس بی بی نے امتحان دے کر اپنے کمالات کو ثابت کیا ہے۔ آزمائشوں اور بلاؤں سے گزری ہیں۔ جس طرح حضرت ابراہیم ـ ایک قرآنی اسوۂ ہیں لیکن اسوۂ ممتحن، خدا نے ابراہیم ـ کو آزمائشوں میں رکھا)” وَإِذِ ابْتَلَى إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ…” (بقرہ١٢٤

اسی طرح حضرت زینب ایک ممتحنہ اسوۂ ہیں۔ حضرت زینب اور حضرت سیدہ زہرا کے القابات میں سے ایک لقب ممتحنہ ہے یعنی انہوںنے امتحان دیا ہوا اور آزمائشوں سے گزری ہوئی ہیںجیسا کہ ہم بعض چیزوں پر اعتماد کرنے کے لئے کہتے ہیں کہ یہ مجرب اور امتحان شدہ چیز ہے اسی طرح حضرت زینب نے اپنے کمالات و فضائل کا باقاعدہ طور پر امتحان دیا ہے اور اس امتحان میں اعلیٰ درجہ سے قبول ہوئی ہیں ۔ یہ بہت مہم ہے کہ امتحان دیا تو خداکے نزدیک اس میں اعلیٰ درجے پر فائز ہوئیں)’ ِإِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ ” (مائدہ٢٧

خدا فقط متقین سے قبول کرتاہے۔ امتحان کی توفیق لے لینا اتنا مہم نہیں ہے لیکن اس توفیق کے بعد امتحان دے کر قبول ہوجانا واقعاً مہم ہے ۔ حضرت زینب یعنی عصمت صغریٰ اپنی والدہ ٔ مکرمہ یعنی عصمت کبریٰ کی مانند ممتحنہ ہیں اور دونوں ماں بیٹی امتحان دے کر اس میں قبول ہوئی ہیں۔

شناخت اسوۂ کی ضرورت

ضروری ہے کہ یہ اسوے متعارف ہوں۔ اس کے لیے جتنی کوششیں کی جائیں کم ہیں، اس لئے کہ معصومین اور اولیاء اللہ کی شخصیت کا یہ پہلو بہت سارے عوامل کی وجہ سے مسکوت اور فراموش شدہ رہا ہے۔ اس اسوائیت کے پہلو کو احیاء اور زندہ کرنا ہے۔

الحمد للہ، دین اور خصوصاً حضرات معصومین و اولیاء اللہ سے متعلق بہت سارے پہلو زندہ ہیں لیکن کئی پہلو ایسے ہیں جو فراموش شدہ ہیں۔ ابھی انسان بیدار نہیں ہو ا ہے کہ ان پہلوؤں کی طرف بھی ملتفت ہو مثلاً امیر المؤمنین ـ کی شخصیت سے متعلق بہت سارے پہلو ہیں جو ابھی فراموش شدہ ہیں جن کی طرف ابھی توجہ بھی نہیں ہوئی ہے اور نہ انہیں سمجھا گیا ہے۔ ان پہلوؤں کوسمجھنے کے لئے جو ضروری شعور چاہیے وہ ابھی بیدار نہیں ہے۔

بقول شاعر :

یعنی واقعاً زمانہ منتظر ہے کہ انسانیت بیدار ہوجائے تاکہ ان اسوئوں کو پہچانے ، امام حسین ـ کو پہچانے، حضرت زینب کو پہچانے، کربلا اور کربلا کے اسوئوں کو پہچانیں ، اس کے علاوہ اور باقی تمام اسوات کہ پہنچانیں۔

شناخت اسوۂ کیوں ضروری ہے؟

یہ شناخت اس لئے ضروری ہے کیونکہ یہ فراموشی انسانیت کے ضرر میں ہے ، نہ کہ ان شخصیتوں کے ضرر میں ہے۔ ان کی اسوائیت کا پہلو اگر اسی طرح مسکوت و فراموش شدہ رہا تو نسلو ںکی نسلیں خسارے میں گزرتی جائیں گی۔ نسلیں اپنی عمریں گزار کر قبرستان کا رخ کرتی جائیں گی اور نقصان کا سلسلہ جاری رہے گا۔

دوسری قوموں میں اسوؤں کا قحط

یہ اس نسل کی بات ہے جس کے پاس ذخیرہ موجود ہے ورنہ بعض ایسی قومیں اور نسلیں ہیں جن کے پاس دکھانے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے، مثلاً آپ یونان میں جاکر دیکھیں تو وہاں اسطوروں اور افسانوی شخصیتوں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے اور یہ کسی قوم ، مذہب اور ثقافت کے لئے بہت بڑا قحط ہے کہ اس کے پاس اسوۂ موجود نہ ہو ، اسوۂ کے بجائے اس کے پاس اسطورہ ہو تاکہ اسوؤں کی خلا کو اسطوروں سے پُر کرے یا مثلاً ہندوستان کی ہندؤ تہذیب میں اسوے نہیں ہیں ، اسطورے ہیں اور وہ اسطورے ایسے ہیں جن کا انسان سے کوئی ربط نہیں ہے ، وہ فقط تقدیس اور تخیل میں رکھنے کے لئے ہیں ورنہ ان سے انسان کا کوئی عملی تعلق نہیں، وہ انسان کے لئے راہنما نہیں ہیں اور انسان انہیں اسوۂ کے بجائے اپنے تخیّل میں ایک مافوق بشر و مافوق طبیعت مخلوق فرض کرکے اپنی زندگی کی بعض خلاء کو پُر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہاں پر انسان کی پیروی کے لئے کوئی چیز نہیں ہے ۔ اس طرح کی تہذیبوں کے اسطورے اس لئے نہیں ہیں کہ بشر ان کے نقش قدم پر چلے بلکہ بشر کے ساتھ ان کی سرے سے کوئی سنخیت نہیں ہے۔ یہ صرف اس لئے ہیں کہ بشر ان کے نام پر قربانیاں دیتا رہے، ان سے ڈرتا اور خوف کھاتا رہے، ان کی تقدیس و ثناء کرتا رہے، نہ کہ ان سے کچھ سیکھے۔یہ اسطورے ان کے لئے معلم نہیں ہیں ، ان سے وہ کچھ سیکھتے نہیں ہیں اور نہ ہی وہ کچھ بتا سکتے ہیں۔ نہ ان کی کوئی تاریخ ہے اور نہ ان کا بنایا ہوا کوئی ایسانظام ہے جسے بشر اپنا سکے بلکہ وہ خود نظام سے باہر ہیں۔ ان پر کسی طرح کا کوئی قانون لاگونہیں ہوتا، وہ مافوق قانون ہیں۔ یہ کسی بھی قوم و مکتب کے لئے ایک بڑا قحط ہے۔

تشیّع کا امتیاز

اس حوالے سے اسلام اور خصوصاً اسلام کی امامی تفسیر یعنی تشیّع بہت غنی ہے۔ یہ بہت اہم نکتہ ہے جس کی طرف ہمیں توجہ کرنی چاہیے ۔ تشیّع میں اسوۂ کے لحاظ سے اس قدر فراوان سرمایہ ہے کہ اگر ہم اس کی طرف متوجہ ہوجائیں کہ ہمارے پاس کیا عظیم سرمایہ ہے تو شاید سنبھال بھی نہ سکیں، پھر اس کے بعد کی منزل ہے کہ ہم اس سرمایہ کو دنیا کے سامنے پیش کریں اور اسے متعارف کرائیں۔

قصوراور ذمہ داری

ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم دنیا کو بتائیں ہمارے پاس کیا موجود ہے اور یہ ہمار اقصور ہے کہ ہم نہ اسے سمجھ سکے ہیں اور نہ دوسروں کو بتا سکے ہیں۔ لوگوں نے اسطورے کو زیادہ بہتر طریقے سے متعارف کرایاہے اور ہم اسوے نہیں متعارف کر اسکے۔ یہ عجیب بات ہے کہ لوگوں نے افسانے زیادہ پھیلائے ہیں اور ہم حقائق نہیں پھیلا سکے، یہ عجائب روزگار میں سے ہے کہ لوگوں نے دنیا میں تخیّل زیادہ ترویج کیا ہے اور ہم تعقل کونہیں رائج کرسکے بلکہ ممکن ہے دوسروں کی دیکھا دیکھی ہم بھی اسی کا شکار ہوجائیں اور یہ سمجھنے لگیں کہ جس ثقافت میں اسطورے زیادہ ہیں وہ بہتر ہے اور اسطورہ سازی کی طرف تمایل پیدا کرلیں، لہٰذا ہم اپنے اسوؤں کو بھی بعض اوقات اسطورہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ اسوۂ غیر از اسطورہ ہے ۔ جس کے پاس اسوۂ موجود ہو اس کو اسطورہ کی ضرورت نہیں ہے ۔ اسطورہ ان لوگوںکو چاہیے جن کے پاس اسوۂ نہ ہو۔ وہ اسوۂ کی خالی جگہ کو اسطورہ سے پُر کرتے ہیں جس طرح مثلاً اگر ایک جوان نے شادی نہ کی ہو تو وہ خیالی ازدواج کرتا ہے، اس کی خیالی ملکہ ہوتی ہے لیکن جس کے پاس بیوی بچے ہوں اس کو خیالی ملکہ کی ضرورت نہیں ہے۔ جس کے پاس مکان ہو اس کو خیالی بلڈنگ کی ضرورت نہیں ہے۔ خیالی بلڈنگیں وہ بناتا ہے جس کے پاس حقیقت میں کچھ نہیں ہوتا۔ انسان تخیّل کو ہمیشہ حقیقت کی جگہ بھرنے کے لئے لاتا ہے۔ اسطورہ یعنی” تخیّلی شخصیات ”جو انسان کی خیال پردازی کا نتیجہ ہوتی ہیں۔اسطورہ بت کی طرح ہے جو انسان کی ایک خود ساختہ چیز ہے۔ اسطورہ پوری طرح مخلوق انسان ہے جیسے انسان اپنی بعض حسّوں کی تسکین کے لئے تشکیل دیتا ہے جبکہ اسوۂ انسان کی مخلوق نہیں ہے بلکہ انسان تابع اسوۂ ہے اس کے برعکس اسطورہ خود انسان کا تابع ہے کیونکہ آپ اسے جس طرح بنائیں گے وہ اسی طرح بنے گا لیکن اسوۂ ہمارے اختیار میں نہیں ہے بلکہ ہم اس طرح بنیں گے جس طرح اسوہ ٔ ہوگا پس جن کے پاس اسوہ ٔ ہو ان کواسطورہ بنانے کی ضرورت نہیںہے۔لیکن ہم افسانوی تہذیبوں ، مثلاً یونانی، ہندی اور قدیم ایرانی تہذیبوں سے زیادہ سروکار رکھنے اور ان سے زیادہ متأثر ہونے کی بنا پر انہیں کے اسطوروں سے متأثرہوئے ہیں اور اپنے حقائق کو چھوڑ دیا بلکہ اکثر اپنے حقائق کو اسطورہ کی شکل دینے کی کوشش کی ہے۔

ہم بجائے اس کہ اپنے مکتب کا سرمایہ استخراج کرتے اور اسے دنیا کے سامنے پیش کرتے آج خودان اسوؤں کے سب سے زیادہ محتاج ہیں۔ آج عالم تشیّع ، عالم اسلام اور عالم بشریت ان اسوؤں کا محتاج ہے۔ 

تبصرے
Loading...