عقیدہٴ ظہور مہدی اور مدعیان مہدویت کا قیام

عقیدہٴ ظہور مہدی اور مدعیان مہدویت کا قیام

عقیدہٴ ظہور مہدی اور مدعیان مہدویت کا قیام

احمد امین مصری اور طنطاوی جیسے بعض دیگر افراد نے مہدویت کے جھوٹے دعویداروں کی جانب سے کی جانے والی بغاوتوں یا انقلابات کو جنگ وجدال اور مسلمانوں کی کمزوری کا عذر پیش کرتے ہوئے ظہور مہدی کے عقیدہ کو اس کی علت قرار دیا ہے اور اس طرح ان حوادث و واقعات کے سہارے شیعوں کے خلاف زہر افشانی کر کے معاشرہ کے ثبات و استحکام اور آئندہ کے اطمینان کا سبب بننے والے عقیدہ سے لوگوں کے اذہان کو منحرف کرنے کی کوشش کی ہے، حالانکہ جن لوگوں نے مہدویت کا جھوٹا دعویٰ کیا ہے یا کر سکتے ہیں ان کے دعویٰ کا ظہور مہدی کے عقیدہ کی صحت یا عدم صحت سے کوئی تعلق نہیں ہے ایک دانشور کی جانب سے ایسے واقعات کو کسی دینی و مذہبی واقعات کے انکار کا بہانہ قرار دیا جانا انتہائی تعجب خیز ہے۔

جناب احمد امین صاحب ! ذرا فرمائیں تو سہی۔ وہ کون سے اعلیٰ مفاہیم اور خدائی نعمتیں ہیں کہ جن کا مغرض افراد نے غلط استعمال نہیں کیا؟ کیا ریاست طلب اور اقتدار کے بھوکے اپنے مقاصد کے لئے ایسے ہتھکنڈے نہیں اپناتے ہیں؟

حق، صلح، عدالت، امانت و صداقت، تہذیب و تمدن، تعلیم و تربیت، ترقی و تکامل، دین و مذہب، آزادی، ڈیموکریسی، نظم و ضبط اور قانون کی بالادستی جیسے ان گنت مفاہیم کے ساتھ مفاد پرست افراد اور موقع پرست سیاستداں کل بھی کھلواڑ کرتے رہے تھے اور آج بھی کر رہے ہیں کل بھی ان چیزوں کا غلط استعمال(Miss Use) کیا گیا اور آج بھی کیا جا رہا ہے، واقعیت یہ ہے کہ اب توان میں سے اکثر الفاظ اپنے مخالف معنی میں استعمال ہو رہے ہیں۔

جنگجو اور وسعت پسند صلح و ڈیموکریسی کا، ظالم عدل وانصاف کا، فساد برپا کرنے والے اصلاح کا، رجعت پسند ترقی کا، خیانت کار امانت کا اور آزادی کے دشمن آزادی کا دم بھرتے ہیں لیکن درحقیقت ان الفاظ کے سہارے اپنے مقاصد کے در پے رہتے ہیں اور خوشنما الفاظ کے ذریعہ اپنی خیانتوں اور خباثتوں کی پردہ پوشی کر کے مظلوم اقوام پر اپنی مرضی تحمیل کرتے رہتے ہیں۔

تعلیم و تربیت کی توسیع کے ذریعہ لوگوں کو صحیح اخلاقی راستہ سے ہٹاکر علمی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ایجاد کی جا تی ہے، آزادی، مظلوموں کی نجات اور کمزور اقوام کے حقوق کے دفاع کے نام پر جو جنگیں لڑی گئیں ان کا مقصد کمزور ممالک کے حقوق کو پامال کر کے ان کی ثروت پر قبضہ کرنا اور انہیں اپنے نوآبادیاتی حصہ میں شامل کرناتھا۔

معنوی رہبری اور رسالت آسمانی کے نام پر زیادہ بغاوتیں ہوتی ہیں یا مہدویت کے نام پر،با لفاظ دیگر نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنے والوں کی تعداد زیادہ ہے یا مہدویت کا؟

مختلف ممالک میں جومسلسل فوجی بغاوتیں یا انقلاب رونما ہوتے ہیں وہ اصلاح، نجات ملت، آزادی، قانون کی بالادستی کے نام پر ہوتے ہیں یا کسی اور نام پر؟ کیا ایسے انقلابات کے خودساختہ رہبر واقعاً آزادی یا اصلاح کے لئے قیام کرتے ہیں یا ان کے درپردہ مقاصد کچھ اور ہوتے ہیں؟

قرآن مجید جب نااہل مغرض اور سیاسی افراد کے ہاتھ لگتا ہے تو اس کی بھی خلاف واقع اور غلط تفسیر کی جاتی ہے غلط افراد کو آیات قرآنی کا مصداق قرار دیا جاتاہے اور یہاں تک کہہ دیا جاتا ہے کہ معاویہ و یزید بھی علی و حسین کی طرح قرآن کے کاتب اور قاری تھے!

چونکہ قرآن مجید کی بعض آیتوں کی لوگوں نے اپنے مفادات کی خاطر، دل خواہ طریقہ سے تاویل و تفسیر کر لی ہے اور اس طرح کچھ لوگوں کی ضلالت و گمراہی کا سبب بن گئے ہیں تو کیاقرآن کے بارے میں بھی آپ یہ تجویز پیش کریں گے کہ (العیاذباللہ) قرآن سے ایسی آیات حذف کر دینا چاہئیں تاکہ لوگ اپنی مرضی سے تفسیر نہ کر سکیں؟

ان سب سے بڑھکر کچھ لوگوں نے تو خدائی کا دعویٰ بھی کیا ہے، صرف زبانی ہی نہیں عملی طور پر لوگوں کو اپنی عبدیت میں رکھا ہے کروڑوں افراد گائے کی پوجا کرتے ہیں، بت پرست، آتش پرست اور ستارہ پرست ہیں بے شمار افراد فرعون، نمرود اور تاریخ کے دیگر ڈکٹیٹروں کے سامنے ذلت و رسوائی کا شکار رہے اور خود کو ان کا بندہٴ بے دام اور غلام کہتے رہے اپنے جیسے بلکہ اپنے سے بھی جاہل، نالائق انسانوں کی پرستش کرتے رہے اور خدائے واحد کے بجائے سلاطین کا نام لیتے رہے اور خدائے رحمٰن و رحیم کے بجائے ظالموں کے پست و حقیر ناموں سے کام کا آغاز کرتے رہے اگر اسلام کا سورج طلوع نہ ہوا ہوتا اور عقیدہٴ توحید کی روشنی نے لوگوں کے دلوں تک پہنچ کر انہیں غلط افکار سے آزادی نہ دلائی ہوتی اور انسان نے اپنے آپ کو نہ پہچانا ہوتا ، قوم نے حکام سے رابطہ کی حقیقت کا ادراک نہ کیا ہوتا، ”بسم اللہ“ اور ”اللہ اکبر“ آزاد منش افراد کا نعرہ نہ بنا ہوتا تو انسان پرستی کا بدنما طوق کبھی بھی بشریت کی گردن سے نہ اترتا۔

چونکہ تاریخ شریعت میں علم و صنعت، خدا پرستی، نبوت، صلح، عدل و انصاف اقتدار پرست سیاستدانوں کا کھلونا بنتے رہے ہیں اس لئے کیاآپ ان چیزوں کی مذمت کر سکتے ہیں؟

چونکہ کچھ لوگ آزادی اور عدل و انصاف یا قانون کی بالادستی کے نام پر ظلم و تشدد اور قانون شکنی کرتے ہیں ڈکٹیٹر بن جاتے ہیں تو کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ عدل و انصاف، حریت و آزادی، قانون، مساوات و فضیلت کی کوئی حقیقت ہی نہیں ہے ، بلکہ یہ چیزیں تو انسانیت کے لئے دردِ سر ہیں لہٰذا انہیں انسانیت کی لغت سے حذف کر دینا چاہئے؟

کیا آپ اسی نارسا فکر اور غلط منطق کے بل بوتے پرایسے موضوع کے بارے میں جس کے سلسلہ میں سینکڑوں حدیثیں پائی جاتی ہیں اور کروڑوں مسلمان ہر دور میں جس عقیدہ کے حامل رہے ہوں؟ اظہار خیال کرنا چاہتے ہیں؟

نہیں جناب احمد امین صاحبہرگز آپ ایسی بے عقلی کا مظاہرہ نہیں کر سکتے۔

آپ بخوبی واقف ہیں کہ دنیا میں اکثر اختلافات جزئیات اور مصادیق کے ہی ہوتے ہیں۔ اور اگر سہواً یا عمداً کسی چیز کو کسی کلی یا جزئی کامصداق قرار دے دیا گیا یا باطل کو حق کا لباس پہنا دیا گیا تو اس سے حق کی صداقت پر حرف نہیں آتا۔

جس طرح کچھ جاہل جھوٹی ڈگریاں لے کر خود کو عالم بتایا کرتے ہیں اسی طرح کچھ لوگ مصلح، عادل، مہدی موعود، امام، نبی اور پیغمبر ہونے کا جھوٹا دعویٰ کرتے ہیں۔

بلکہ مہدویت کے جھوٹے دعویداروں میں سے ایک (علی محمد شیرازی) نے جب یہ دیکھا کہ معاملہ میں جان نہیں آئی اور ہلدی پھٹکری کے باوجود رنگ نہیں جما اور اپنے معتقدین کو بہت زیادہ نادان اور احمق محسوس کیا تو مہدویت کے علاوہ اور بھی دعوے کرنے لگا (۱)

لہٰذا یہ بات، کہ چونکہ ظہور مہدی کے عقیدہ کو چند اقتدار پسند عیار و مکار افراد نے استعمال کیا ہے لہٰذا اس مسلّم الثبوت واقعیت کا انکار ہی کر دیا جائے قطعی قابل قبول نہیں ہو سکتی۔ نہ ہی یہ بات عقل و منطق کے مطابق ہے۔

اسی لئے پہلی صدی ہجری سے آج تک جب بھی کسی نے مہدویت کادعویٰ کیایا دوسروں

(۱)علی محمد شیرازی ابتداء میں خود کوسید کہتا تھا بعد میں ”بابیت“ کا مدعی ہوا اور اس کے بعد صراحت کے ساتھ حضرت ولی عصر عجل اللہ تعالیٰ کی امامت و مہدویت اور ان کے فرزند امام حسن عسکری ہونے کا اقرار و اعتراف کرنے کے باوجود مہدویت اور اس کے بعد نبوت کا دعویٰ کر بیٹھا۔ اور اس کے بعض مکتوبات کے مطابق یہ بھی کہا جاتا ہے کہ خدائی کا دعویدار ہو گیا تھا۔ آخر میں تمام باتوں کا منکر ہو گیا اور اپنے ہاتھ سے معذرت نامہ اور توبہ نامہ لکھ کر ناصر الدین شاہ کے سامنے پیش کیا مدعیان مہدویت کے درمیان علی محمد جیسی صورتِ حال شائد ہی کسی کی ہو اوہ اپنی مختلف اور نامعقول باتوں، رکیک اور ہذیانی عبارتوں کے باعث پاگل مشہور تھا۔

یہ بات مخفی نہ رہے کہ بابی یا بہائی گروپ در اصل ایک زرخیز سیاسی گروہ سے جو آخری صدی میں ہندوستان، ترکی، ایران خاص طور پر فلسطین اور دیگر اسلامی مراکز میں سامراجی طاقتوں کا آلہ کار اور ان کی سیاست کے لئے حالات ہموار کرنے نیز ان کے لئے جاسوسی کا ایک نیٹ ورک رہا ہے۔ اسی لئے یہ لوگ مشرقی ممالک خصوصاً ملت مسلمہ پرلالچی نگاہیں رکھنے والے ممالک کے منظور نظر رہے ہیں۔

ابتدائی مرحلہ میں انہیں ایرانی قوم کے درمیان اختلاف اور حکومت کے خلاف شورش کا کام سپرد کیا گیا اور اس کی مدد کا وعدہ کیا گیا۔ علی محمد جب ایران پہونچا تو ایران میں نفوذ رکھنے والی روسی حکومت کی سرپرستی اور حفاظت نے اس امید میں کہ شائد بہائیت روسی سیاست کے نفاذ اور اسلام و علماء کے نفوذ کی کمزوری کاوسیلہ ہو سکے فارس میں اسے سزائے موت نہ ہونے دی۔ اور اسے صوبہ فارس سے اصفہان کے حاکم منوچہر خان گرجی کے سپاہیوں کی حفاظت میں اصفہان لے آئے۔ اصفہان کا حاکم منو چہر خان گرجی ارمنی نژاد تھا اور اسے روسی حکومت کی حمایت حاصل تھی۔ جب تک منو چہر زندہ رہا روسی حکومت کے حکم کے مطابق علی محمد کو مخفیرکھ کراس کی حفاظت کی گئی۔ کافی عرصہ تک روس کاسفارتخانہ اور قونسل خانہ بہائیت کی حمایت کرتے رہے یہاں تک کہ یہ لوگ اصفہان میں بھی کھلم کھلا دین، اورملکی آزادی کے خلاف اور روسی مفادات کے حق میں فتنہ انگیزی کرتے رہے۔ جب کبھی علماء اور عوام کے دباؤ کے نتیجہ میں حکومت اصفہان مجبور ہو جاتی اور ان کی گرفتاری کے لئے اقدام کرتی تو یہ لوگ روس کے قونسل خانہ میں پناہ گزیں ہو جاتے اور کونسلٹ ان کی حمایت کرتا اس طرح اعلانیہ طور پر ایران کے معاملات میں مداخلت کرتے رہتے۔ جب روس والوں کو احساس ہوا کہ یہ لوگ نمک حرامی پر کمر بستہ ہیں اور انہوں نے انگلینڈ سے ساز باز کر لی ہے اور اب انگریزوں کے ایجنٹ ہیں تو مجبوراً روس والوں (باقی آئندہ صفحہ پر)

نے کسی کی جانب ایسی نسبت دی تو کسی نے بھی یہاں تک کہ بنی امیہ اور بنی عباس نے بھی یہ کہہ کر اس کی تکذیب نہیں کی کہ اصل ظہور کا عقیدہ ہی غلط ہے بلکہ ہمیشہ موعود کے صفات نہ ہونے کا حوالہ دے کر انہیں جھٹلایا جاتا تھا،کسی نے آج تک یہ نہیں کہا کہ چونکہ لوگ جھوٹا دعویٰ کر رہے ہیں لہٰذا ظہور مہدی کا ہی انکار کر دینا بہتر ہے،کیونکہ جو مسلمان بھی کتاب، سنت، اجماع صحابہ و تابعین پر ایمان رکھتاہے

(گذشتہ صفحہ کا بقیہ) نے ان کی حمایت ترک کر دی اپنے لگائے ہوئے پودے کو انگلینڈ کے حوالہ کر دیا۔ انگلینڈ کے جاسوسی ادارہ نے ان سے کام لینا شروع کر دیا اور ایران، ترکی نیز بعض عربی ممالک میں ان کی موجودگی سے خوب فائدہ اٹھایا۔ اچھی تنخواہوں کے ساتھ بہتر وسائل ان کے حوالہ کئے۔ عباس افندی نے پہلی جنگ عظیم میں انگریزوں کی جو خدمت کی جس کے نتیجہ میں انگریز فلسطین پر قابض ہوئے اور اسلامی ممالک کا تجزیہ شروع ہوا اس کے انعام کے طور پر انگریز جنرل البنی نے رسمی البتہ مخفی طور پر عباس افندی کو ”لقب“ اور میڈل وغیرہ سے نوازا۔ بعد میں اس جشن کی تصاویر اور تفصیلات کتابوں میں شائع ہوئیں۔ جس سے صاف ظاہر ہے کہ اس فرقہ کی تمام فعالتیوں اور جاسوسی کا مقصد عالمی صیہونزم کو فائدہ پہونچانا تھا۔

انگلینڈ کے بعد امریکیوں نے بھی ان کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا شروع کر دیا اور اس طرح یہ C.I.A. کے ایجنٹ ہو گئے۔ عباس افندی کے وصیت نامہ کے برخلاف شوقی آفندی مقطوع النسل رہ گیا اور شوقی آفندی کی موت کے بعد ڈاکٹر شعبی کے بقول (مقارنة الادیان ج ۱ ص ۳۰۹) بہائیت رسمی طور پرصہیونیت کا حصہ بن گئی یا اس نے اپنے چہرہ سے نقاب ہٹا کر صیہونزم کا چہرہ اختیار کر لیا۔ اس حقیقت کا اعتراف دیگر مصنفین نے بھی کیا ہے اور پھر اسرائیل میں منعقدہ عظیم کانفرنس میں ”میسن“ نامی ایک امریکی صہیونیت کو بہائیت کا عالمی رہبر منتخب کر لیا گیا۔البتہ شوقی کے دوست ”میسن رسمی“ نامی ایک شخص نے بھی شوقی کی جانشینی کا دعویٰ کیا اور ایک دوسرے شخص نے خودکو ”سماء الہٰ“ کہا۔

خلاصہٴ کلام یہ ہے کہ بابی یا بہائی گروپ کا وجود ایک سیاسی کھیل تھا جس کے ذریعہ ایران کے استقلال و آزادی کو ختم کرنا مقصود تھا۔ یہ سب صہیونزم کے زرخرید ایجنٹ تھے اور ہیں ۔ایک روسی جاسوس نے ان کی بنیاد رکھی بعد میں یہ لوگ اسلام مخالف سامراجی طاقتوں کا کھلونا بن گئے۔ اگر بڑے اور طاقتور ممالک کا نفوذ نہ ہوتا، صہیونی اور امریکہ کی یہودی کمپنیوں، اداروں اور انجمنوں نے ان کی حمایت نہ کی ہوتی جس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے تو یہ گروپ رو ز اول ہی ختم ہو گیا ہوتا،جو لوگ اس سیاسی ڈرامہ اور ان کے ضمیر فروش سربراہوں کی تاریخ اور ان کی خیانتوں، فتنوں اور قتل و غارت گری کے بارے میں تفصیل کے خواہاں ہیں و ہ علی محمد کے فتنہ کے دور میں لکھی جانے والی کتب مثلاً ناسخ، روضة الصفا، یا کشف الحیل، فلسفہٴ نیکو، ساختہ ہای بہائیت در دین و سیاست، مہازل البہائیہ، محاکمہ و بررسی، بہائیت دین نیست،بہائی چہ می گوید، دزد بگیر شرح بگیر، مفتاح باب الابواب، یادداشتہائی کینیا دالگورکی، دانستنیہائی دربارہٴ تاریخ، نقش سیاسی رہبران بہائی بلکہ خود اسی فرقہ کی کتابوں کی طرف رجوع فرمائیں۔ ( باقی آئندہ صفحہ پر)

اس کے خیال میں اس فکر یعنی ظہور مہدی کے انکار کا مطلب قولِ پیغمبر اور کتاب و سنت کی تکذیب کے مانند ہے جو کہ ایک مسلمان کے لئے کسی قیمت پر قابلِ قبول نہیں ہے اور چونکہ ظہور مہدی سے متعلق احادیث میں شروع سے ہی خبر بھی دی گئی تھی کہ جھوٹے مدعی بھی پیدا ہوں گے لہٰذا ایسے جھوٹے افراد کے سامنے آنے سے ظہور مہدی پر یقین و اطمینان اور زیادہ ہوتا جاتاہے اور اگر کچھ لوگ جھوٹے دعوؤں کی بنا پر گمراہ بھی ہوئے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں اوصاف و علائم مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کے بارے میں بقدرِ ضرورت معرفت نہیں تھی لہٰذا یہ لوگ اپنی جہالت، نادانی، بے معرفتی کے باعث گمراہ ہوئے نہ کہ جھوٹے دعوے کی وجہ سے لیکن اگر کوئی مہدی منتظر عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کو احادیث میںمذکور اوصاف و علائم کے ذریعہ پہچانے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگا جھوٹے دعوؤں سے اس کا عقیدہ و ایمان متزلزل نہ ہوگا، یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جتنے واضح اور روشن طریقہ سے امام مہدی کے اوصاف و خصوصیات بیان کئے گئے ہیں اتنے واضح انداز میں نبی، ولی یا کسی اور منصوص من اللہ شخصیت کے اوصاف بیان نہیں ہوئے ہیں۔
 بشکریہ مہدویت ڈاٹ نیٹ
 

http://shiastudies.com/ur/474/%d8%b9%d9%82%db%8c%d8%af%db%81%d9%b4-%d8%b8%db%81%d9%88%d8%b1-%d9%85%db%81%d8%af%db%8c-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d9%85%d8%af%d8%b9%db%8c%d8%a7%d9%86-%d9%85%db%81%d8%af%d9%88%db%8c%d8%aa-%da%a9%d8%a7-%d9%82/

تبصرے
Loading...