علت  بقاء نہضت عاشورا / تحریر: اشرف حسین صالحی

علت  بقاء نہضت عاشورا

تحریر: اشرف حسین صالحی

 

*مقدمہ*

عاشورا کی جاودانگی اور بقاء کی علت پر تحقیق اور تحلیل کے لئے کئی کتابوں کی ضرورت ہے، بندہ حقیر نے اس مختصر تحریرمیں اپنی بضاعت کے حساب سے تحقیق کرکے علماء کرام کے نظریات مطابق کچھ علتوں کو ضبط تحریر میں لانے کی کوشش کی ہے اس امید کے ساتھ حسین ابن علی ع کی نظر اور قبول درگاہ واقع ہوجاے۔

 

اكثر حوادث اور مكاتب فكری کی تین خصوصیات ہیں پیدائش ، ترقی و تنزلی ۔لیکن ایک دن ایسا بھی آئے گا ان کا نام لینے والا کوئی نہ ہوگا سب کے ذھنوں سے نکل گئے ہونگے کیوں نہ یہ حوادث و مشکلات کا شکار ہوئے اور صفحہ ہستی سے ختم ہوگئے ،لیکن حماسه‌عاشورا ایک ایسا مكتب فكری ہے سنہ 61 هجري قمري میں جس کا آغاز ہوا ، اور چودہ سو سال گزرنے کے بعد بھی ایسا لگتا ہے یہ واقعہ ابھی ہوا ہے ہر روز اس میں تازگی آتی جارہی ہے تمام بشریت کے لئے اس میں نئی حیات ہے: ،كل يوم عاشورا و كل ارض كربلا.

اسی لئے شاعر نے کیا خوب کہا ہے:انسان کو بیدار ہو لینے دو۔ ہر قوم پکارے گی ہمارے ہے حسین ع.

 

اگر چہ اس پورے چودہ سو سال میں واقعہ عاشورا کو مٹانے کے لئے تمام ظالم و مستكبر، صاحبان قدرت و ثروت نے بہت سعي وکوشش کی ہے کہ واقعہ کربلا کی تضعيف و تحريف و تخريب کرنے کی لیکن یہ لوگ نہ کبھی اپنے مقاصد میں کامیاب ہوئے ہیں نہ ان جیسے لوگ کامیاب ہونگے. بني‌اميه نے اس عظیم حماسہ کے واقع ہوتے ہی انکی تمام کوششوں کو بروکار لایاکبھی انہوں نے اس دن کو عید قرار دیا: يوم تبركت به بنواميه و يوم فرحت به آل زياد[1] روز عاشورا ایک ایسا دن ہے جس کو بنی امیہ نے اپنے جشن وسرور کا دن قرار دیا ہے . تو کبھی یزید کے مظالم کی توجیہ کرتے نظر آتے ہیں اور کبھی اہداف قيام اباعبدالله الحسين (ع) کو تحريف کرتے ہوئے۔ اور تاریخ میں یہ بھی ہے کہ عزاداروں اور زائرين کو مشكلات ايجاد کرتے تھے اور کئی دفعے حرم مقدس امام حسين (ع) کی بھی جسارت کی اور منہدم کرنے کی کوشش بھی کی گئی لیکن یہ لوگ نہ ماضی میں حسینیوں کو امام حسین ع سے جدا کرسکے تھے نہ آئیندہ بھی کبھی اپنے مقاصد میں کامیاب ہونگے . اسی طرح بني‌العباس نے بھی700 سال تلاش وکوششوں کو جاری رکھا ۔ ابھی بھی یہ سلسلہ جاری ہے لیکن یہ لوگ بھی اپنے اسلاف کی طرح عاشورا و اس عظیم درسگاہ کے خلاف کچھ بھی نہیں کرسکتے۔

 

ان شاءاللہ ذیل میں کچھ علتوں کی طرف اشارہ کرونگا علت بقاء واقعہ عاشورا کے حوالے سے ۔

 

*1- اراده اور مشيت الهي ہے*

يريدون ليطفوا نورالله بافواههم والله متم نوره و لو كره الكافرون[2]

 

یہ لوگ چاہتے ہیں اپنے منہ (کی پھونکوں ) سے اللہ کے نور کو بجھادیں اوراللہ اپنے نور کو پورا کر کے رہے گا خواہ کفار برا مانے ۔ لفظ یریدون سے پتہ چلتاہے کفار کی طرفسے ہمیشہ کوشش ہوتی ہے اور ہوتی رہے گی ، پس تمام كفار ، منافقين و مخالفين ، ہمیشہ سب ساتھ ہاتھوں میں ہاتھ دیکر کوشش کرتے ہیں، مسلسل اور وقفہ کے بغیر قرآن اور اہل بیت اور اسلام کے نورکو ختم کرنے کے در پے ہیں لیکن اللہ تعالی نے انکو جواب دیا کہ ان کا نور نہ صرف ختم نہیں ہوگا بلکہ ہر دن ان کا نور وسیع تر ہوتا جاے گا.

 

پس اللہ تعالی کا اراده اور مشيت الهي بقاء عاشورا پر ہے . اسی لئے پيغمبر اکرم ص نے فرمایا: ان لقتل الحسين (ع) حرارة في قلوب المؤمنين لا تبرد ابداً[3]

 

بے شک امام حسین ع کی شہادت نے مؤمنين کےدلوں میں ایسی حرارت پیداکی ہےجوکبھی ٹھنڈی نہیں ہوسکتی ، اس محبت کو اللہ نے مومنین کے دلوں میں ڈالا ہے جیسے ہی حسین ع کا نام آتا ہے مومنین کے دل آشکبار ہوجاتا ہے.

 

*2-اللہ تعالی کا وعدہ ہے شہیدوں کی بقاء کےبارے*

و لا تحسبن الذين قتلوا في سبيل الله امواتاً بل احياء عند ربهم يرزقون[4] . جو لوگ راہ خدا میں شہید ہوئے ان کو مردہ گمان نہ کرنا بلکہ اللہ کے پاس وہ زندہ ہیں اور اللہ کا رزق پارہے ہیں .

 

و لا تقولوا لمن يقتل في سبيل الله اموات بل احياء و لكن لا تشعرون[5]

 

جو اللہ تعالی کی راہ میں شہید ہوجائے ان کو مردہ نہ کہنا بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تم لوگوں کو شعور نہیں ہے۔

 

ان دونوں آیتوں میں واضح الفاظ میں بیان ہوا ہے جو شہید ہے ان کو مردہ نہ کہنا بلکہ وہ زندہ ہیں.

 

اگر شہداء زنده وجاويد ہوں اور انکو حیات ابدی عطاہوئی ہےتو تمام شھداء کے سید وسالار یقینا زندہ وجاوید ہیں،

 

اور سيدالشهداءکے زندہ وجاوید ہونے کی دلیل یہ ہے كه عاشورا ہر روز اور ہر زمان کے لئے یہ پیغام دیتا ہے کہ امام حسين (ع) کے تمام چاہنے والوں کے دلوں میں محبت ہے اس کی علامت یہ ہے جب بھی محرم کا چاند دیکھتے ہی کسی کے بتائے بغیر کچھ خرچہ کئے بغیر اپنے آپ کو سیاہ لباس کے ساتھ عزاداری امام حسین ع کے لئے تیار کرلیتے ہیں، تو یہ سب دليل ہے حماسہ عظیم عاشورا کے زندہ وجاوید ہونے کی.-

 

*3-عاشورا کے مکتب میں اخلاص اورالہی رنگ ہے*

اس آیت کریمہ کی بناء پر :

ما عندكم ينفدو ما عندالله باق[6] .

 

جو کچھ تمہارے پاس ہے سب نے فنا ہونا ہے لیکن جو اللہ کے پاس ہے اس نے باقی رہنا ہے۔

 

عاشورا پر نگاہ کریں تو نظر آئے گا کہ امام حسین ع نے جو کچھ تھا ایک دن میں سب کچھ اللہ کی راہ میں اور سنت رسول کی احیاء کے لئے قربان کردیا اور اپنے سر مبارک کو بھی قربان کر کے بتادیا کہ اب یہ واقعہ قیامت تک رہنے والا ہے اور کبھی دنیا اسے بھولا نہیں سکتی، آپ ع اپنے اس عظیم قربانی کے اہداف کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں. اني لم اخرج اشرا و لابطراً و لا مفسداً و لا ظالماً و انما خرجت لطلب الاصلاح في امه جدي[7].

 

میرے قیام کا مقصد نہ ظلم ہے نہ فساد بلکہ میرا مقصد صرف میرے جد رسول اللہ کی امت کی اصلاح ہے، اور اس راہ میں آپ نےاپنی اوراپنےعزیزوں اوراصحاب کی جانیں قربان کردیں تاکہ بے راہ وگمراہ لوگ نجات حاصل کرسکیں.

 

و بذل مهجته فيك ليستنقذ عبادك من الجهالة و حيره الضلاله[8] .

 

*4- عاشورا کی بقا کے لئے رسول اللہ کا اہتمام۔۔۔*

اس عظیم قربانی کی بقا کی دلیلوں میں سے ارشادات اور سیرت نبی اکرم ص ہیں امام حسین ع اور عاشورا کے بارے میں رسول ص کی وہ معروف حدیث ہے :حسين مني و انا من حسين[9] ، حسین ع مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں، یعنی حسین ع میری نبوت کا حصہ ہے جس طرح اسلام کو لانے والا میں ہوں تو میرا حسین ع اسلام کو بچانے والا ہے، اسی طرح دوسری مشہور حدیث: من بكي علي‌الحسين او ابكي او تباكي و جبت له الجنه[10] پیغمبر اکرم ص ارشاد فرمایا : جس نے بھی میرے حسین پر گریہ کیا یا کسی کو رولایا، یا رونے کی شکل بنائی تو وہ جنت کا حقدار ہے ،ایک اور روايت :ان لقتل الحسين حراره في قلوب المومنين لن تبرد ابدا [11]. رسول ص نے فرمایا: بتحقیق امام حسین ع کی شہادت نے مومنوں کے دلوں میں ایسی حرارت ایجاد کی ہے وہ کبھی ٹھنڈی نہیں ہوسکتی. پیغمبر اکرم ص نے واقعہ کربلا پیش آنے سے پہلے اس عظیم حماسہ کے بارےمیں ارشادفرمایا اور اس واقعہ کو یاد بھی کیا جب امام حسین ع چھوٹے تھے تو اپنے نانا کی خدمت میں لائے تو آپ ص نے اس نومولود سے پیار وشفقت بھری نگاہ کرنے کے بعد فرمایا : جس نے بھی ان کی قبر کی زیارت کی گویا اس نے ایک حج مقبول انجام دیا، تو اس وقت عائشہ کو تعجب ہوکےسوال کیا یا رسول ص پورا حج کا ثواب ہے ؟ جواب میں رسول اکرم ص نے ارشاد فرمایا جی بالکل یہی ہے [12]

 

رسول خدا نے اپنے ایک نوراني بیان میں عاشورا کی پوری تاریخ میں زندہ رہنے کے بارے اشارہ فرمایا ہے ، لذا جب آپ ص نے شہادت امام حسين (ع) کے قصہ کو اپنی دختر گرامی فاطمه (س) کو بيان فرمایا تو حضرت زهرا نے بہت زیادہ گریہ فرمایا اور عرض کرنے لگی : متي يكون ذلك میری جان آپ پر قربان ہو یہ واقعہ کب ہوگا؟ جواب میں رحمت للعالمین نے ارشاد فرمایا: في زمان خال مني و منك و من علي: اس وقت ہوگا جب ہم پنجتن میں سے صرف حسین ع باقی ہوگا،

 

فاشتد بكائها و قالت يا ابه فمن يبكي عليه و يلتزم با قامه العزاء له:

اس وقت حضرت زہراء کے گریہ میں شدت آگئی اور عرض کی اس وقت میرے حسین ع پر رونے والا اور گریہ وماتم کرنے والا کون ہوگا ؟

 

فقال النبي (ع) يا فاطمه ان نساء امتي تبكين علي نساء اهل بيتي و رجالهم يبكون علي رجال اهل بيتي يجدّدون العزاء جيلاً بعد جيل في كل سنه[13] .

 

رسول اللہ نے فرمایا اے فاطمه میری امت کی خواتین حسین کی اہل حرم پر روئیں گی اور میری امت کے مرد کربلا کےشہیدوں پر گریہ کرینگے۔

 

*5- عاشورا کی بقاء کے لئے اہل بيت ع کا خصوصی اہتمام*

یہ ایک اور اہم عامل ہے کہ جس کی وجہ سے واقعہ کربلا کو حیات نو ملی ہے وہ باقی اہل بیت ع کا خاص اہتمام ہے اس عظیم قربان کی یاد تازہ کرنا ہر زمانہ اور ہر وقت اور ہر مناسبت پر امام حسین ع کے اہداف عالیہ کو بیان کرنا اور اپنی سیرت کے ذریعے سے کربلا کےشہیدوں کےنام عزاداری برپا کرنا ،

 

اسی طرح اہداف بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اس عظیم واقعے میں تحریف ہونے سے بھی بچانا ہےمخصوصا بنی امیہ کی بھرپورکوشش رہی کہ اس عظیم واقعے کو تاریخ سے مٹانے کی بنی امیہ کے مظالم کا بھی بہ بانگ دہل ہر مجلس میں برملا اظہار کرنا اور بنی امیہ کو رسوا کرنا ، اور ساتھ ہی فضائل عزاداري اورامام حسين ع پر گریہ، زيارت امام حسين ع کی رسم بھی واقعہ کربلا کو زندہ رکھنے کے لئے بہت موثر ثابت ہوئی ۔۔ وہ پہلی عزاداري کہ جس کو حضرت زينب نے قتلگاه میں جاکر اپنے بھائی حسین ع کی لاش پرنگاہ کرنے برپا کی[14] ،اسی طرح کربلاکے اسیروں اورسفیروں کاسفر کے دوران مختلف جگہوں مجلس عزا برپا کرنا اسی طرح عزاداری امام صادق ع اور امام رضا ع اور باقی ائمہ ع کی بھی سیرت تھی ، زیارت ناحیہ مقدسہ بھی عاشورا کے زندہ وجاوید کے لئے ومفیدموثر ثابت ہوئی .

 

*6-عاشورا کی بقاء کے لئے علماء کرام ومجتہدین عظام کااہتمام*

نہضت عاشورا کی حفاظت میں اہل علم حضرات خصوصا علماء کرام اور مجتہیدین عظام کا خاص اہتمام اور مسلسل کوشش وکاوشیں بھی شامل ہیں۔۔ کہ انہوں نے مختلف موضوعات پر کتابیں لکھیں۔ اسی طرح تاریخ کے مختلف خطباء اور مقررین کا بھی خاص کرداررہا ہے کہ انہوں نے عزاداری کے فضائل اور گریہ کرنےکے فضائل بیان کیے ۔اسی طرح مبلغین اور شعراءکرام نے بھی خاص اہتمام کیاہے ۔۔۔

 

خصوصا بانی انقلاب اسلامی ایران امام خمینی رح نے انقلاب کربلا سے خاص الہام لیتے ہوئے اپنے انقلاب میں کامیابی حاصل کی اور یزید جیسے وقت فاسق وفاجر اور ظالمین اور مستکبیرین کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرکیا ۔۔ اور ابھی رہبر معظم مدظلہ العالی نے اسی سلسلے کو جاری وساری رکھا ہے اور ہماری دعا ہے اس سلسلے کو امام زمان ع تک متصل فرمائے ۔۔

 

*7- تاریخ کے مخلص مومن ومومنات کا بھی خاص اہتمام ہے*

اسی طرح مومنین اور مومنات کا اہتمام بھی خاص اہمیت کا حامل ہے یہی لوگ ہیں جنہوں نے امام حسین ع سے خاص ارادت ومحبت کی وجہ سے سالوں سال سے عزاداری وجلوس ومجالس کا سلسلہ رکھ کر ہر سال اپنے امام ع سے کئے ہوئے عہد کی وفا کرتے ہوئے مجالس عزا برپا کرتے ہیں اور ہر مشکل وپریشانی کو برداشت کرتے ہوئے کربلا کی زیارت کو جانا بھی اس نہضت کو زندہ رکھنے میں بڑی اہمیت رکھتاہے .

 

ورنہ تاریخ گواہ ہے بنی امیہ اور بنی عباسک کےظالم حکمرانوں ۔ اور اسی طرح دیگر ظالمین جیسے صدام لعین ۔۔۔ ان سب کی یہی کوشش تھی یہ عزاداری کا سلسلہ ختم ہوجاے لیکن ان میں سے کوئی اپنے مقاصد میں کامیاب نہ ہوسکا ان شاء اللہ تا قیامت یہ سلسلہ جاری وساری رہے گا۔ اللہ تعالی سے ہماری دعا ہے بحق چہاردہ معصومین یہ سلسلہ تاقیامت جاری وساری رکھنے کی ہمیں توفیق عطا فرمائے۔

 

=== *حوالہ جات ۔۔۔*

 

قرآن مجید ترجمہ مفسرقرآن شیخ محسن علی نجفی

[1] – مفاتيح‌الجنان زيارت عاشورا

[2] – صف 8

[3] – مستدرك الوسائل ج1 ص318

[4] – آل عمران 169

[5] – بقره 154

[6] – نحل 96

[7] – بحارالانوار ج44، 326

[8] – مفاتيح الجنان زيارت اربعين

[9] – بحارالانوار ج10 ص318

[10] – بحارالانوار ج 44ص 288

[11] – مستدرك الوسائل ج 10 ص318

[12] – بحارالانوار ج 98 ص35

[13] – بحارالانوار ج44 ص292

[14] – حماسه حسيني ج1ص 290

┄┅┅┅┅❀💠❀┅┅┅┅┄

 

*الهدی اسلامی تحقیقاتی مرکز (اتم) پاکستان*

تبصرے
Loading...