غدیر کے بعد عاشورا کیوں؟

خلاصہ: غدیر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کی ولایت کا اعلان کردیا تھا، مگر منافقین نے مختلف طرح کی سازشوں سے خلافت کو غصب کرتے ہوئے امیرالمومنین (علیہ السلام) کو خانہ نشین کردیا، نیز دین میں مختلف بدعتیں ایجاد کردیں یہاں تک کہ دین اسلام بنیادی طور پر خطرہ میں پڑگیا تو امام حسین (علیہ السلام) نے قیام کرتے ہوئے ولایت غدیر کے ذریعے مکمل ہونے والے دین اسلام کا تحفظ کیا۔

غدیر کے بعد عاشورا کیوں؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی حیات طیبہ کے دوران مختلف مقامات پر حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کی ولایت، امامت اور خلافت کا تذکرہ فرماتے رہے، مگر یہ تعارف بعض لوگوں کے سامنے ہوا کرتا تھا، اسی لیے ہوسکتا تھا کہ بعض لوگوں تک فرمان رسالت نہ پہنچا ہو یا اگر پہنچا ہو تو انکار کے لئے کوئی بہانہ ڈھونڈھ لیتے، لہذا جب سید الانبیاء نے غدیر کے میدان میں عظیم اہتمام کرتے ہوئے لوگوں سے اقرار لے کر جم غفیر کی نظروں کے سامنے امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کی ولایت کا اعلان کردیا اور ان لوگوں سے “امیرالمومنین “کے لقب کے ساتھ سلام کرنے کے ذریعے بیعت لی، تو دشمنوں کےدل میں منافقت کی آگ کے شعلہ لپکنے لگے، وہی منافقت جو سالہاسال سے چلی آرہی تھی، جس کی بنیادیں دن بدن مضبوط ہوتی جارہی تھیں، اسی لیے وہ اپنی تمام تر کوششیں کرتے رہے کہ اسلام کو نابود کردیں۔ لیکن غدیر وہ دن ہے جس دن  کافر مایوس اور ناامید ہوگئے کہ ارشاد الٰہی ہے: “الْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن دِينِكُمْ”[1] نیز دین مکمل ہوگیا، نعمت تمام ہوگئی اور اللہ نے لوگوں کے لئے دین کی حیثیت سے اسلام کو پسند کر لیا۔  غور طلب بات یہ ہے کہ کافر کون تھے، کیسے اور کس چیز سے ناامید ہوگئے؟ یہ کون سے لوگ تھے جن سے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطرہ محسوس کرتے تھے کہ اللہ تعالی نے آنحضرت سے فرمایا: “وَاللَّـهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّـهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ”[2]، “اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا کہ اللہ کافروں کی ہدایت نہیں کرتا ہے”۔
واضح ہے کہ کفار اور مخالف لوگ، فتح مکہ میں سب تسلیم ہوگئے اور ایمان لائے تھے اور مذکورہ آیت جو شر سے محفوظ رکھنے کی خبر دے رہی ہے، فتح مکہ کے بعد نازل ہوئی ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں فاتحانہ داخل ہوئے اور سب لوگ تسلیم ہوگئے تھے اور جزیرۃ العرب میں کوئی شخص نہیں تھا جو آپ کے سامنے قیام کرسکے، لہذا آپ کا خوف کس وجہ سے تھا؟ مرحوم علامہ طباطبائی فرماتے ہیں: رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو مشکل درپیش تھی، یہی منافقین کا مسئلہ تھا کہ کہیں مخالفت نہ کریں، لہذا خداوند متعال نے فرمایا: “وَاللَّـهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ”.
یہ جو کفار ناامید ہوگئے، ان کی ناامیدی یہ تھی کہ جب پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف ان کے الزام، جنگ اور قتل کی کوششیں ناکام ہوگئیں تو انہیں صرف آنحضرت کی وفات پر امید تھی کہ جب آپ کا انتقال ہوگا تو وہ خلافت و حکومت کو اپنے قبضہ میں لے لیں گے، لیکن یہ لوگ حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کی ولایت کا اعلان سن کر ناامید ہوگئے۔ ان کی ناامیدی کی وجہ یہ تھی کہ امیرالمومنین (علیہ السلام) کے منصوب ہونے سے دین کا ولی اور سرپرست مقرر ہوگیا۔ وہ لوگ حضرت علی (علیہ السلام) کے علم، تقوا، عبادت، عدالت، شجاعت اور عصمت سے واقف تھے، ان کی سب امیدوں کو اس بات نے ناامیدی میں بدل دیا کہ ایسے ولی اور سرپرست کو لوگوں پر دینی اور سیاسی سربراہی کے لئے مقرر کردیا گیا ہے جو “معصوم” ہے اور اس معصوم سرپرست کے بعد بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلیفے اور جانشین گیارہ معصوم ہستیاں ہیں جو سب، پہلے خلیفہ یعنی علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کی نسل میں سے ہیں۔
ان منافقوں نے ہمیشہ اپنی کوششیں جاری رکھیں تاکہ اللہ کے نور کو بجھا دیں، لیکن چونکہ خالق کائنات کا اٹل فیصلہ ہے کہ پروردگار کا آفتاب حجت اور نور الہی ہرگز نہیں بجھ سکتا تو خلافت کو غصب کرنے والوں نے اپنے ناپاک عزائم تک پہنچنے کے لئے دو ہی راستے پائے: یا آفتاب کو خاموشی کے قیدخانہ میں قید کردیا جائے یا لوگوں کی آنکھوں اور دل کو بند کردیا جائے تاکہ آفتاب کے نور کو نہ دیکھنے پائیں! انہوں نے ان دونوں راستوں کو اختیار کیا، حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کو بھی خانہ نشین کردیا اور جہالت، کفر اور منافقت کے سیاہ پردے لوگوں کے دل کی آنکھوں پر لٹکادیئے اور یہ دونوں راستے، ایک دوسرے کے بغیر ان کے مقصد کو پورا نہیں کرتے تھے، کیونکہ اگر لوگ اپنی جہالت کے قیدی نہ ہوتے تو ہرگز غدیر کے روشن دن میں مقرر کردہ امام اور خلیفہ برحق کی خانہ نشینی پر تاب نہ لاتے اور نیز اگر اسلام کی بقاء خطرہ میں نہ ہوتی اور حیدرکرار کو ذوالفقار اٹھانے کی فرصت مل جاتی تو کسی آنکھ اور دل پر جہالت، کفر اور منافقت کا پردہ چاک ہونے سے نہ بچ سکتا، یعنی غدیر کے دن جیسی روشنی ہر آنکھ اور دل پر اس طرح سے جلوہ فگن ہوتی کہ حقیقی صاحب منبر، اپنی مسند پر بیٹھ جاتا اور نفس رسول (ص) اسی طرح اسلامی احکام اور سنت نبوی کو دنیابھر میں جاری کرتا جیسے خود رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جاری کیا کرتے تھے اور غدیر میں مبارک دینے والوں کو اپنا کینہ، دشمنی اور منافقت کو اچھالنے کا موقع ہی نہ ملتا، لہذا نہ دربتولؑ جلتا، نہ بنت رسولؐ کا پہلو شکستہ ہوتا، نہ حسنینؑ کی والدہ شہید ہوتیں، نہ محسنؑ شہید ہوتے، نہ حسن مجتبیؑ کا جگر زہر سے ٹکڑے ٹکڑے ہوکر باعث شہادت بنتا، نہ امیرالمومنینؑ سے عداوت کے شعلے سیدالشہدا٫ حسینؑ ابن علیؑ کو شہید کرنے کے لئے میدان کربلا میں بھڑک اٹھتے۔
مگر عرصہَ دراز سے طویل شیطانی آرزووَں نے دنیا کی محبت کو ناپاک دل کی اتنی گہرائی تک پہنچا دیا تھا کہ وفات پیغمبرؐ کے فوراً بعد ہی انکار غدیر کا چھپا ہوا خنجر، خیانت کی نیام سے نکل کر آیت تطہیر کے مصادیق پر یکے بعد دیگرے چلنے لگا، پہلی ضربت ہی اس طرح چلی کہ پہلو کو شکستہ کرتی ہوئی عرش و فرش کو لرزا دیا، دوسری ضربت فرق سر پر چلی تو محراب عبادت کو مظلومیت کے خون سے سرخ کردیا، تیسری ضربت نے سبط اکبر کے جگر کے ٹکڑوں سے طشت کو بھردیا، چوتھی ضربت نے پیاسے مظلوم پر ظلم کی انتہا کردی جس معصوم کو تنہائی کے عالم میں تیر و تلوار اور نیزہ و خنجر سے مارا گیا۔ اسی طرح ان ضربتوں کا سلسلہ، انہی معصوم اماموں پر جاری رہا جن کی امامت کا اعلان غدیر خم میں نبیوں کے سردار نے کیا تھا۔
مگر کب تک خفیہ دشمنی کے انگارے دل میں، چھپے ہوئے خنجر آستین میں اور بارگاہ نبوت میں گستاخی کرنے والی تلوار منہ میں چھپ کررہ سکتی تھی! جب مصلحت الہی نے مناسب سمجھا تو امر الہی سے حقیقی اولی الامر نے میدان میں قدم رکھ کر دشمن کی خفیہ آگ، منافقانہ خنجر اور توہین آمیز تلوار کو فاش کردیا، لہذا دشمن اِنّا نَقْتُلُکَ بُغْضاً لاَِبِیکَ[3] (ہم تمہارے باپ سے دشمنی کی وجہ سے تمہیں قتل کرنے آئے ہیں) کہہ کر اپنی آتش عداوت کو ظاہر کردیا، منافقت اس طرح زیرآستین چھپی ہوئی تھی کہ جب اظہار کا موقع ملا تو جس کو جو ملتا تھا، نواسہَ رسولؐ کو مارتا تھا اور جس کے پاس کچھ نہیں تھا وہ مٹی کی مٹھی پھینک کر اپنی منافقت دکھانے لگا، گستاخانہ تلواریں ایسے چلنے لگیں کہ سیدالشہدا٫ (علیہ السلام)  پر اپنے عزیزوں کی شہادت کے زخم ایک طرف سے اور دشمن کی زبان کی تلوار کے زخم دوسری طرف سے آپؑ پر ستم ظریفی کرتی رہیں۔
وہی دین جس کی تکمیل اللہ نے غدیر خم میں کی تھی، رفتہ رفتہ غاصبان خلافت نے اس میں اتنی بدعتیں شامل کرلیں کہ قرآن کے الفاظ اور ظاہر کے علاوہ کچھ نہ رہا، اسلام کے نام پر مختلف ذاتی اغراض کو دین کا حصہ بنادیا گیا، شریعت کے متعدد اعمال میں من گھڑت حصے شامل کردیئے گئے، نماز، روزہ، حج، زکات اور دیگر شرعی احکام میں کمی بیشی لاکر اس کی حقیقت کو بدل دیا گیا اور بعض حلال کو حرام اور حرام کو حلال کردیا گیا اور اسلام کے نام کو صرف اس لیے باقی رکھا گیا کہ لوگوں کو دین میں تخریب کاری نظر نہ آنے پائے، یعنی اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اسلام کی بنیادوں کو بالکل برباد کرنے کی مکمل کوشش کی گئی، یہاں تک کہ قرآن کریم کی تفسیر اپنی مرضی سے کرنے لگے، اپنے مفاد کی باتیں کرکے ان باتوں کی نسبت پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دیتے ہوئے جعلی حدیثیں بنانے لگے اور ولایت غدیر کو بالکل طاق نسیان پر رکھ دیا، اسی لیے حقیقی اسلام کے تحفظ کے لئے حسین ابن علی (علیہما السلام) کھلم کھلا دشمن کے سامنے آگئے اگرچہ اس عظیم تحفظ کے لئے بیت عصمت کو طرح طرح کے تشدد اور اسلام کے معصوم محافظوں کو ظلم و ستم کے گرتے ہوئے پہاڑوں کو برداشت کرنا پڑا۔ اسلام کی بنیادوں کا کھوکھلا ہونا اور دین پر ہر طرف سے باطل کی یلغار اتنی بڑھ چکی تھی کہ جیسے دین کے سلسلہ کو جاری رکھنے کے لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے امیرالمومنین (علیہ السلام) کا بازو پکڑ کر سب کو دکھایا اور اعلان ولایت کیا تھا اسی طرح مظلوم کربلا نے اپنا سر اللہ کی راہ میں بر سر نیزہ دے کر دین اسلام کا تحفظ کرلیا اور اپنی حیات طیبہ کے آخری وقت میں ھل من ناصر ینصرنی[4] کی صدا بلند کرتے ہوئے حیوانی نیند میں سونے والی بشریت کی کروٹ بدل دی، رہتی دنیا کو غفلت کی نیند سے بیدار کردیا، باطل کے سامنے جھکنے والی اقوام کو حق کے لئے قیام کرنا سکھا دیا، اپنا خون دے کر باطل کی کمر توڑ دی  اور زمانہَ جاہلیت کی طرف پلٹتے ہوئے لوگوں کا رخ حقیقی اسلام اور ولایت غدیر کی طرف موڑ کر موت کے گھاٹ اترتی ہوئی انسانی ارواح میں ابدی روح حیات پھونک دی کہ حضرت آیت اللہ العظمی امام خمینی (علیہ الرحمہ) فرماتے ہیں: “این محرم و صفر است کہ اسلام را زندہ نگہ داشتہ است”،  “یہ محرم اور صفر ہے جس نے اسلام کو زندہ رکھا ہوا ہے”۔
نتیجہ: جو دین اسلام، غدیر خم میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اعلان ولایت سے مکمل ہوگیا تھا اور سب لوگوں کےلئے حجت تمام ہوگئی تھی، آنحضرت کے بعد اس دین میں منافقین کے ذریعے بدعتیں داخل کی گئیں تاکہ رفتہ رفتہ اسلام کی بنیاد کو کاٹ دیں! امام حسین (علیہ السلام) کے زمانہ میں اسلام کی نشانیاں اتنی مٹ گئی تھیں کہ قیام کرنا ضروری تھا ورنہ اسلام صفحہ دہر سے بالکل مٹ جاتا، لہذا غدیر میں جس اسلام کو اللہ تعالی نے ولایت امیرالمومنین (علیہ السلام) کے ذریعہ مکمل کیا تھا اس اسلام کو امام حسین (علیہ السلام) نے اپنے قیام کے ذریعہ محفوظ کیا بقا دیدی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] سورہ مائدہ، آیت 3۔
[2] سورہ مائدہ، آیت 67۔
[3] ينابيع المودّة، ج 3، ص 79-80.
[4] أمالی صدوق، ص 136 و 137۔

تبصرے
Loading...