سوره نساء آيات 81 – 100

سوره نساء آيات 81 – 100

وَ یَقُوۡلُوۡنَ طَاعَۃٌ ۫ فَاِذَا بَرَزُوۡا مِنۡ عِنۡدِکَ بَیَّتَ طَآئِفَۃٌ مِّنۡہُمۡ غَیۡرَ الَّذِیۡ تَقُوۡلُ ؕ وَ اللّٰہُ یَکۡتُبُ مَا یُبَیِّتُوۡنَ ۚ فَاَعۡرِضۡ عَنۡہُمۡ وَ تَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ ؕ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ وَکِیۡلًا﴿۸۱﴾

۸۱۔ اور یہ لوگ (منہ پر تو) کہتے ہیں: اطاعت کے لیے حاضر (ہیں) لیکن جب آپ کے پاس سے نکلتے ہیں تو ان میں سے ایک گروہ آپ کی باتوں کے خلاف رات کو مشورہ کرتا ہے، یہ لوگ راتوں کو جو مشورہ کرتے ہیں اللہ اسے لکھ رہا ہے۔ پس (اے رسول) آپ ان کی پرواہ نہ کریں اور اللہ پر بھروسا کریں اور کارسازی کے لیے اللہ کافی ہے۔

81۔ سلسلۂ کلام ضعیف الایمان افراد کے بارے میں جاری ہے۔ ان ضعیف الایمان لوگوں کے بارے میں ہمیشہ فَاَعۡرِضۡ عَنۡہُمۡ کا حکم ہے کہ ان کو فاش نہ کرو ان کو اپنی صفوں سے نہ نکالو۔ اس طرح کرنے سے اس امت کا شیرازہ بکھر جائے گا کیونکہ یہ امت ابھی اپنی تشکیل کے مراحل طے کر رہی ہے۔

تفسیر المنار کا بھی یہی مؤقف ہے کہ فَاَعۡرِضۡ عَنۡہُمۡ سے مراد منافقین نہیں ہیں کہ آیۂ جَاہِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنٰفِقِيْنَ (9
:73) کے ذریعے اس آیت کو منسوخ سمجھا جائے۔


اَفَلَا یَتَدَبَّرُوۡنَ الۡقُرۡاٰنَ ؕ وَ لَوۡ کَانَ مِنۡ عِنۡدِ غَیۡرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوۡا فِیۡہِ اخۡتِلَافًا کَثِیۡرًا﴿۸۲﴾

۸۲۔ کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے؟ اور اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یہ لوگ اس میں بڑا اختلاف پاتے۔


وَ اِذَا جَآءَہُمۡ اَمۡرٌ مِّنَ الۡاَمۡنِ اَوِ الۡخَوۡفِ اَذَاعُوۡا بِہٖ ؕ وَ لَوۡ رَدُّوۡہُ اِلَی الرَّسُوۡلِ وَ اِلٰۤی اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡہُمۡ لَعَلِمَہُ الَّذِیۡنَ یَسۡتَنۡۢبِطُوۡنَہٗ مِنۡہُمۡ ؕ وَ لَوۡ لَا فَضۡلُ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ وَ رَحۡمَتُہٗ لَاتَّبَعۡتُمُ الشَّیۡطٰنَ اِلَّا قَلِیۡلًا﴿۸۳﴾

۸۳۔ اور جب ان کے پاس امن یا خوف کی خبر پہنچتی ہے تو وہ اسے خوب پھیلاتے ہیں اور اگر وہ اس خبر کو رسول اور اپنے میں سے صاحبان امر تک پہنچا دیتے تو ان میں سے اہل تحقیق اس خبر کی حقیقت کو جان لیتے اور اگر تم پر اللہ کا فضل نہ ہوتا اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو چند ایک افراد کے سوا باقی تم سب شیطان کے پیروکار بن جاتے۔

83۔ یہ آیت بھی اکثر حضرات کے نزدیک ضعیف الایمان مسلمانوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ تفسیر المنار نے یہی مؤقف اختیار کیا ہے۔

یہ لوگ اسلامی مرکز میں رونما ہونے والے عسکری اسرار و رموز سے مربوط ہر بات کو پھیلا دیتے تھے۔ جس سے بہت سے راز فاش ہو جاتے اور مسلمانوں کی صفوں میں اس افواہ سازی کے نتیجہ میں بد امنی پھیلتی تھی۔ اس آیت میں ان کے لیے حکم آیا کہ وہ اس قسم کی خبروں کے بارے میں مرکز کی طرف رجوع کیا کریں اور اس کے بارے میں مرکز سے ہدایات لے لیا کریں۔ چونکہ مرکز یعنی رسول (ص) اور صاحبان امر اس خبر کے پس منظر اور حقائق سے آگاہ ہیں۔

اس آیت میں سلام کے آداب بیان فرمائے گئے ہیں کہ سلام کا جواب بہتر طریقے سے دیں۔ مسلمانوں کو ایک مبلّغ اور داعی کی حیثیت سے اخلاق و شائستگی کا درس دیا جا رہا ہے کہ اگر کوئی سلام کرے تو اس کا جواب اس سے بہتر طریقے سے دیا کرو۔ واضح رہے سلام کرنا مستحب اور جوابِ سلام واجب ہے۔ حدیث میں آیا ہے: السلام تطوع و الرد فریضۃ ۔


فَقَاتِلۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ۚ لَا تُکَلَّفُ اِلَّا نَفۡسَکَ وَ حَرِّضِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ۚ عَسَی اللّٰہُ اَنۡ یَّکُفَّ بَاۡسَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ؕ وَ اللّٰہُ اَشَدُّ بَاۡسًا وَّ اَشَدُّ تَنۡکِیۡلًا﴿۸۴﴾

۸۴۔(اے رسول) راہ خدا میں قتال کیجیے، آپ پر صرف اپنی ذات کی ذمے داری ڈالی جاتی ہے اور آپ مومنین کو ترغیب دیں، عین ممکن ہے کہ اللہ کافروں کا زور روک دے اور اللہ بڑا طاقت والا اور سخت سزا دینے والا ہے ۔


مَنۡ یَّشۡفَعۡ شَفَاعَۃً حَسَنَۃً یَّکُنۡ لَّہٗ نَصِیۡبٌ مِّنۡہَا ۚ وَ مَنۡ یَّشۡفَعۡ شَفَاعَۃً سَیِّئَۃً یَّکُنۡ لَّہٗ کِفۡلٌ مِّنۡہَا ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ مُّقِیۡتًا﴿۸۵﴾

۸۵۔ جو شخص اچھی بات کی حمایت اور سفارش کرتا ہے وہ اس میں سے حصہ پائے گا اور جو بری بات کی حمایت اور سفارش کرتا ہے وہ بھی اس میں سے کچھ حصہ پائے گا اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔

85۔ جب رسول خدا (ص) کو بنفس نفیس قتال کا حکم دے دیا تو اس کے بعد فرمایا کہ جو کارہائے خیر میں مدد دیتا ہے یا مدد کی سفارش کرتا ہے وہ بھی اس کار خیر میں حصے دار ہے۔ اسی طرح برائی میں مدد دینے والابھی اس میں شریک اور حصے دار ہے۔ آیت کے عموم میں اچھی باتوں میں ہر قسم کی سفارش اور مدد کرنا اوربری باتوں میں ہر قسم کا حصہ لینا شامل ہے ۔


وَ اِذَا حُیِّیۡتُمۡ بِتَحِیَّۃٍ فَحَیُّوۡا بِاَحۡسَنَ مِنۡہَاۤ اَوۡ رُدُّوۡہَا ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ حَسِیۡبًا﴿۸۶﴾

۸۶۔ اور جب تمہیں سلام کیا جائے تو تم اس سے بہتر سلام کرو یا انہی الفاظ سے جواب دو، اللہ یقینا ہر چیز کا حساب لینے والا ہے۔

86۔تحیت و سلام کی رسم تو ہر قوم و ملت میں موجود ہے مگر ان میں تحیت و سلام کامطلب یہ ہے کہ ادنیٰ انسان کسی بڑے کے سامنے اس کی بڑائی کا اظہار کرے۔ اسلام نے تحیت و سلام کے آداب میں اس قسم کی تفریق مٹا کر اسے امن و سلامتی، صلح و آشتی، مساوات و مؤاسات کا شعار قرار دیا ہے، چنانچہ حدیث میں آیا ہے کہ رسالت مآبؐ پر سلام کرنے میں کوئی سبقت نہیں لے سکتا تھا۔ اسلام میں سلام کے آداب کچھ اس طرح ہیں کہ چھوٹے بڑوں کو، راہ گیر بیٹھے ہوئے لوگوں کو، سوار پیادوں کو، تھوڑے لوگ زیادہ لوگوں کو سلام کریں۔


اَللّٰہُ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ؕ لَیَجۡمَعَنَّکُمۡ اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ لَا رَیۡبَ فِیۡہِ ؕ وَ مَنۡ اَصۡدَقُ مِنَ اللّٰہِ حَدِیۡثًا﴿٪۸۷﴾

۸۷۔ اللہ وہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ تم سب کو بروز قیامت جس کے آنے میں کوئی شبہ نہیں ضرور جمع کرے گا اور اللہ سے بڑھ کر سچی بات کرنے والا کون ہو سکتا ہے؟


فَمَا لَکُمۡ فِی الۡمُنٰفِقِیۡنَ فِئَتَیۡنِ وَ اللّٰہُ اَرۡکَسَہُمۡ بِمَا کَسَبُوۡا ؕ اَتُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ تَہۡدُوۡا مَنۡ اَضَلَّ اللّٰہُ ؕ وَ مَنۡ یُّضۡلِلِ اللّٰہُ فَلَنۡ تَجِدَ لَہٗ سَبِیۡلًا﴿۸۸﴾

۸۸۔ پھر تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم منافقین کے بارے میں دو گروہ ہو گئے ہو؟ اور اللہ نے ان کی بداعمالیوں کی وجہ سے انہیں اوندھا کر دیا ہے، کیا تم لوگ اللہ کے گمراہ کردہ کو ہدایت دینا چاہتے ہو؟ حالانکہ جسے اللہ گمراہ کر دے اس کے لیے تم کوئی راستہ نہیں پاؤ گے۔

88۔یہاں سے آگے منافقین کا ذکر شروع ہو جاتا ہے اور ربط آیت اس طرح ہے کہ جب اچھی بات کی مدد اور سفارش کرنے والے کو نیکی میں حصہ اور بری بات کی سفارش کرنے والے کو گناہ میں حصہ مل جاتا ہے تو پھر تم منافقین کے بارے میں دو گروہ کیوں ہو گئے ہو۔ ان کی اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انہیں دوبارہ کفر و ضلالت کی اتھاہ گہرائی میں اوندھا کر دیا۔ جب اللہ نہیں چاہتا تو تم کیسے ان کی ہدایت کر سکتے ہو۔

شان نزول : حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے: کچھ لوگ مکہ سے مدینہ آئے اور یہ ظاہر کیا کہ ہم نے اسلام قبول کر لیا ہے۔ پھر مکہ واپس چلے گئے، کیونکہ انہیں مدینہ راس نہ آیا۔ پھر مسلمانوں کا سامان لے کر یمامہ چلے گئے تو مسلمانوں نے ان پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا۔ آپس میں اختلاف ہوا۔ کچھ لوگوں نے کہا یہ لوگ مسلمان ہیں، جب کہ کچھ لوگوں نے کہا یہ لوگ مشرکین ہیں۔ اس اختلاف پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (مجمع البیان )


وَدُّوۡا لَوۡ تَکۡفُرُوۡنَ کَمَا کَفَرُوۡا فَتَکُوۡنُوۡنَ سَوَآءً فَلَا تَتَّخِذُوۡا مِنۡہُمۡ اَوۡلِیَآءَ حَتّٰی یُہَاجِرُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ فَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَخُذُوۡہُمۡ وَ اقۡتُلُوۡہُمۡ حَیۡثُ وَجَدۡتُّمُوۡہُمۡ ۪ وَ لَا تَتَّخِذُوۡا مِنۡہُمۡ وَلِیًّا وَّ لَا نَصِیۡرًا ﴿ۙ۸۹﴾

۸۹۔ وہ چاہتے ہیں کہ تم بھی ویسے ہی کافر ہو جاؤ جیسے کافر وہ خود ہیں تاکہ تم سب یکساں ہو جاؤ، لہٰذا ان میں سے کسی کو اپنا حامی نہ بناؤ جب تک وہ راہ خدا میں ہجرت نہ کریں، اگر وہ (ہجرت سے) منہ موڑ لیں تو انہیں پکڑ لو اور جہاں پاؤ قتل کر دو اور ان میں سے کسی کو اپنا حامی اور مددگار نہ بناؤ۔

89۔ جن لوگوں کے بارے میں تمہارے درمیان دو مؤقف وجود میں آگئے، وہ نہ صرف اہل ایمان نہیں ہیں، بلکہ وہ تمہارے ایمان کے بھی خلاف ہیں ۔ سیاق آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں ہجرت کی دعوت دینی چاہیے، اگر وہ ہجرت سے منہ موڑ یں تو اس صورت میں ان کے ساتھ قطع تعلق اور قتل کا حکم ہے۔


اِلَّا الَّذِیۡنَ یَصِلُوۡنَ اِلٰی قَوۡمٍۭ بَیۡنَکُمۡ وَ بَیۡنَہُمۡ مِّیۡثَاقٌ اَوۡ جَآءُوۡکُمۡ حَصِرَتۡ صُدُوۡرُہُمۡ اَنۡ یُّقَاتِلُوۡکُمۡ اَوۡ یُقَاتِلُوۡا قَوۡمَہُمۡ ؕ وَ لَوۡ شَآءَ اللّٰہُ لَسَلَّطَہُمۡ عَلَیۡکُمۡ فَلَقٰتَلُوۡکُمۡ ۚ فَاِنِ اعۡتَزَلُوۡکُمۡ فَلَمۡ یُقَاتِلُوۡکُمۡ وَ اَلۡقَوۡا اِلَیۡکُمُ السَّلَمَ ۙ فَمَا جَعَلَ اللّٰہُ لَکُمۡ عَلَیۡہِمۡ سَبِیۡلًا﴿۹۰﴾

۹۰۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایسے لوگوں سے جا ملیں جن کے اور تمہارے درمیان معاہدہ ہو یا وہ اس بات سے دل تنگ ہو کر تمہارے پاس آ جائیں کہ تم سے لڑیں یا اپنی قوم سے لڑیں اور اگر اللہ چاہتا تو انہیں تم پر مسلط کر دیتا اور وہ تم سے ضرور لڑتے لہٰذا اگر وہ تم سے الگ رہیں اور تم سے جنگ نہ کریں اور تمہاری طرف صلح کا پیغام بھیجیں تو اللہ نے تمہارے لیے ان پر بالادستی کی کوئی سبیل نہیں رکھی ہے۔

90۔ دو قسم کے منافقین کو اللہ نے اس حکم قتل سے مستثنٰی قرار دیا ہے: 1۔ وہ منافق جو ایسی قوم سے جا ملتے ہیں جس کے اور مسلمانوں کے درمیان معاہدہ ہے۔ 2۔ وہ غیر جانبدار منافق جو نہ مسلمانوں کے ساتھ جنگ کرتے ہیں اور نہ ہی مسلمانوں کے دشمنوں کے ساتھ جنگ کرتے ہیں، بلکہ وہ امن و آشتی کا پیغام دیتے ہیں۔ ان دو صورتوں میں منافقین کا قتل جائز نہ ہو گا ۔


سَتَجِدُوۡنَ اٰخَرِیۡنَ یُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ یَّاۡمَنُوۡکُمۡ وَ یَاۡمَنُوۡا قَوۡمَہُمۡ ؕ کُلَّمَا رُدُّوۡۤا اِلَی الۡفِتۡنَۃِ اُرۡکِسُوۡا فِیۡہَا ۚ فَاِنۡ لَّمۡ یَعۡتَزِلُوۡکُمۡ وَ یُلۡقُوۡۤا اِلَیۡکُمُ السَّلَمَ وَ یَکُفُّوۡۤا اَیۡدِیَہُمۡ فَخُذُوۡہُمۡ وَ اقۡتُلُوۡہُمۡ حَیۡثُ ثَقِفۡتُمُوۡہُمۡ ؕ وَ اُولٰٓئِکُمۡ جَعَلۡنَا لَکُمۡ عَلَیۡہِمۡ سُلۡطٰنًا مُّبِیۡنًا﴿٪۹۱﴾

۹۱۔ عنقریب تم دوسری قسم کے ایسے (منافق) لوگوں کو پاؤ گے جو تم سے بھی امن میں رہنا چاہتے ہیں اور اپنی قوم سے بھی امن میں رہنا چاہتے ہیں، لیکن اگر فتنہ انگیزی کا موقع ملے تو اس میں اوندھے منہ کود پڑتے ہیں، ایسے لوگ اگر تم لوگوں سے جنگ کرنے سے باز نہ آئیں اور تمہاری طرف صلح کا پیغام نہ دیں اور دست درازی سے بھی باز نہ آئیں تو جہاں کہیں وہ ملیں انہیں پکڑو اور قتل کرو اور ان پر ہم نے تمہیں واضح بالادستی دی ہے۔


وَ مَا کَانَ لِمُؤۡمِنٍ اَنۡ یَّقۡتُلَ مُؤۡمِنًا اِلَّا خَطَـًٔا ۚ وَ مَنۡ قَتَلَ مُؤۡمِنًا خَطَـًٔا فَتَحۡرِیۡرُ رَقَبَۃٍ مُّؤۡمِنَۃٍ وَّ دِیَۃٌ مُّسَلَّمَۃٌ اِلٰۤی اَہۡلِہٖۤ اِلَّاۤ اَنۡ یَّصَّدَّقُوۡا ؕ فَاِنۡ کَانَ مِنۡ قَوۡمٍ عَدُوٍّ لَّکُمۡ وَ ہُوَ مُؤۡمِنٌ فَتَحۡرِیۡرُ رَقَبَۃٍ مُّؤۡمِنَۃٍ ؕ وَ اِنۡ کَانَ مِنۡ قَوۡمٍۭ بَیۡنَکُمۡ وَ بَیۡنَہُمۡ مِّیۡثَاقٌ فَدِیَۃٌ مُّسَلَّمَۃٌ اِلٰۤی اَہۡلِہٖ وَ تَحۡرِیۡرُ رَقَبَۃٍ مُّؤۡمِنَۃٍ ۚ فَمَنۡ لَّمۡ یَجِدۡ فَصِیَامُ شَہۡرَیۡنِ مُتَتَابِعَیۡنِ ۫ تَوۡبَۃً مِّنَ اللّٰہِ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ عَلِیۡمًا حَکِیۡمًا﴿۹۲﴾

۹۲۔ اور کسی مومن کو یہ حق نہیں کہ وہ کسی دوسرے مومن کو قتل کر دے مگر غلطی سے اور جو شخص کسی مومن کو غلطی سے قتل کر دے وہ ایک مومن غلام آزاد کرے اور مقتول کے ورثاء کو خونبہا ادا کرے مگر یہ کہ وہ معاف کر دیں، پس اگر وہ مومن مقتول تمہاری دشمن قوم سے تھا تو (قاتل) ایک مومن غلام آزاد کرے اور اگر وہ مقتول ایسی قوم سے تعلق رکھتا تھا جس کے ساتھ تمہارا معاہدہ ہو تو اس کے ورثاء کو خونبہا دیا جائے اور ایک غلام آزاد کیا جائے اور جسے غلام میسر نہیں وہ دو ماہ متواتر روزے رکھے، یہ ہے اللہ کی طرف سے توبہ اور اللہ بڑا علم والا، حکمت والا ہے۔

92۔ اس بیان کے بعد کہ منافقین کا قتل کن صورتوں میں جائز ہے ، مومن کے قتل کا ذکر آیا ہے کہ دارالکفر میں موجود منافق اور کافروں کو قتل کرنے کے ضمن میں اگر غلطی سے کوئی مؤمن قتل ہو جائے تو: ٭ اگر وہ مؤمن غیر ارادی طور پر قتل ہو جائے تو قاتل ایک مؤمن غلام آزاد کرے اوردیت بھی ادا کرے۔٭ اگر مقتول کافر قوم کا ایک مؤمن فرد تھا تو قاتل غلام آزاد کرے، دیت دینا واجب نہیں ہے کیونکہ دیت ورثاء کو ادا کرنا ہوتی ہے۔ یہاں وارث کافر ہیں اور کافر مؤمن کا وارث نہیں بن سکتا۔٭ اگر مقتول ایسی قوم کا فر د ہے جس کے ساتھ مسلمانوں کا معاہدہ ہے تو غلام آزاد کرناہو گا اور ساتھ دیت بھی دینا ہو گی۔ یہاں دیت کی مقدار وہی ہوگی جو معاہدے میں طے ہے۔ یہاں قتل کی تین قسمیں ہیں:٭ قتل عمد، اس کی سزا قصاص اور دیت ہے۔ ٭ شبہ عمد، یعنی ضرب تو مثلا ً جان بوجھ کر لگائی مگر قتل کا ارادہ نہ تھا اتفاقاً قتل ہو گیا۔ اس کی سزا دیت ہے قصاص نہیں اور دیت خود قاتل کے ذمے ہے ۔ ٭ قتل خطا، قتل کا ارادہ تو نہ تھا مگر وہ زد میں آ گیا اور قتل ہو گیا اس کی سزا دیت ہے جو قرابتداروں کے ذمے ہے۔


وَ مَنۡ یَّقۡتُلۡ مُؤۡمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُہٗ جَہَنَّمُ خٰلِدًا فِیۡہَا وَ غَضِبَ اللّٰہُ عَلَیۡہِ وَ لَعَنَہٗ وَ اَعَدَّ لَہٗ عَذَابًا عَظِیۡمًا﴿۹۳﴾

۹۳۔اور جو شخص کسی مومن کو عمداً قتل کر دے تو اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت ہو گی اور ایسے شخص کے لیے اس نے ایک بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔

93۔کسی مومن کو جان بوجھ کر جان سے مار دینے کی دوصورتیں ہو سکتی ہیں : 1۔ اگر مومن ہونے کی وجہ سے اس کا خون حلال سمجھ کر قتل کرتا ہے تو اس صورت میں قاتل ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔ اس پر خدا کا غضب اور اس کی رحمت سے بھی دورہو گا اور اس کی توبہ قبول نہیں ہے۔ 2۔ قتل کا محرک مقتول کا مومن ہونا نہ ہو اور نہ ہی اسے جائز القتل اور اس کا خون حلال سمجھ کر قتل کیا ہو تو اس صورت میں کیا اس قاتل کی توبہ قبول ہوگی یا نہیں؟ چند اقوال ہیں۔ اہل تحقیق کے نزدیک اس کی توبہ قابل قبول ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اِنَّ اللہَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِہٖ وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ ۔ (4 نساء :48) اللہ اس بات کو یقینا معاف نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ (کسی کو) شریک ٹھہرایا جائے اور اس کے علاوہ دیگر گناہوں کو جس کے بارے میں وہ چاہے گا معاف کر دے گا۔ دوسری جگہ ارشاد فرمایا : اِنَّ اللہَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا ۔ (39زمر: 53) یقینا اللہ تمام گناہوں کو معاف فرماتا ہے۔ ممکن ہے کہ یہ آیات مذکورہ آیت کے لیے مقید ثابت ہوں اور یہ گناہ قابل توبہ و مغفرت ہو۔


یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا ضَرَبۡتُمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ فَتَبَیَّنُوۡا وَ لَا تَقُوۡلُوۡا لِمَنۡ اَلۡقٰۤی اِلَیۡکُمُ السَّلٰمَ لَسۡتَ مُؤۡمِنًا ۚ تَبۡتَغُوۡنَ عَرَضَ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۫ فَعِنۡدَ اللّٰہِ مَغَانِمُ کَثِیۡرَۃٌ ؕ کَذٰلِکَ کُنۡتُمۡ مِّنۡ قَبۡلُ فَمَنَّ اللّٰہُ عَلَیۡکُمۡ فَتَبَیَّنُوۡا ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرًا﴿۹۴﴾

۹۴۔ اے ایمان والو! جب تم راہ خدا میں (جہاد کے لیے) نکلو تو تحقیق سے کام لیا کرو اور جو شخص تمہیں سلام کرے اس سے یہ نہ کہو کہ تم مومن نہیں ہو، تم دنیاوی مفاد کے طالب ہو، جب کہ اللہ کے پاس غنیمتیں بہت ہیں، پہلے خود تم بھی تو ایسی حالت میں مبتلا تھے پھر اللہ نے تم پر احسان کیا، لہٰذا تحقیق سے کام لو، یقینا اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے۔

94۔ السلام علیکم کہنا شروع میں مسلمانوں کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ بعض جنگوں میں جب کوئی مسلمان لپیٹ میں آ جاتا تو وہ یہ بتانے کے لیے کہ میں تمہارا مسلمان بھائی ہوں سلام کرتا اور کلمہ پڑھ دیتا، مگر مسلمان اسے قتل کر دیتے اس گمان سے کہ اس نے صرف جان بچانے کے لیے ایسا کیا ہے۔اس آیت سے صریحاً ثابت ہوتا ہے کہ کلمہ گو اور اہلِ قبلہ تو بجائے خود، اسلامی آداب و شعائر کا اظہار کرنے والے پر بھی اسلامی احکام جاری ہوتے ہیں اور اس کا جان و مال محفوظ ہوتا ہے۔ امام ابوحنیفہ کا بھی یہی نظریہ ہے۔ وہ کہتے ہیں: لانکفراھل القبلۃ بذنب ۔ صاحب تفسیرالمنار نیم خواندہ، تنگ نظر لوگوں کے بارے میں درست لکھتے ہیں: کہاں یہ بات اور کہاں ان لوگوں کا کردار جو نہ اپنے اسلام میں نہ اپنے اعمال میں کتاب اللہ سے ہدایت حاصل کرتے ہیں اور اپنی خواہشات سے ذرا اختلاف رکھنے والے اہلِ قبلہ کو کافر قرار دینے کے بڑے شوقین ہوتے ہیں۔


لَا یَسۡتَوِی الۡقٰعِدُوۡنَ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ غَیۡرُ اُولِی الضَّرَرِ وَ الۡمُجٰہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ بِاَمۡوَالِہِمۡ وَ اَنۡفُسِہِمۡ ؕ فَضَّلَ اللّٰہُ الۡمُجٰہِدِیۡنَ بِاَمۡوَالِہِمۡ وَ اَنۡفُسِہِمۡ عَلَی الۡقٰعِدِیۡنَ دَرَجَۃً ؕ وَ کُلًّا وَّعَدَ اللّٰہُ الۡحُسۡنٰی ؕ وَ فَضَّلَ اللّٰہُ الۡمُجٰہِدِیۡنَ عَلَی الۡقٰعِدِیۡنَ اَجۡرًا عَظِیۡمًا ﴿ۙ۹۵﴾

۹۵۔ بغیر کسی معذوری کے گھر میں بیٹھنے والے مؤمنین اور راہ خدا میں جان و مال سے جہاد کرنے والے یکساں نہیں ہو سکتے، اللہ نے بیٹھے رہنے والوں کے مقابلے میں جان و مال سے جہاد کرنے والوں کا درجہ زیادہ رکھا ہے، گو اللہ نے سب کے لیے نیک وعدہ فرمایا ہے، مگر بیٹھنے والوں کی نسبت جہاد کرنے والوں کو اجر عظیم کی فضیلت بخشی ہے۔

95۔ گو اللہ نے سب کے لیے نیک وعدہ فرمایا ہے۔ یہ جہاد فرض کفایہ ہونے کی صورت میں ہے کہ دشمنوں کے مقابلے کے لیے کفایت کے لڑنے والے موجود ہیں۔ اس صورت میں جہاد میں شرکت نہ کرنے والوں کا درجہ اگرچہ کم ہے تاہم ان کے لیے بھی نیک وعدہ ہے، لیکن اگر جہاد کے لیے کفایت کے لوگ موجود نہ ہوں یہ جہاد واجب عینی ہو جاتا ہے۔ اس صورت میں جہاد میں شرکت نہ کرنے والے میدان جنگ سے فرار کرنے والوں کی طرح ہیں۔ یہ لوگ اللہ کے نیک وعدوں میں شامل نہیں ہوتے۔


دَرَجٰتٍ مِّنۡہُ وَ مَغۡفِرَۃً وَّ رَحۡمَۃً ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا﴿٪۹۶﴾

۹۶۔(ان کے لیے) یہ درجات اور مغفرت اور رحمت اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ بڑا معاف کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔


اِنَّ الَّذِیۡنَ تَوَفّٰہُمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ ظَالِمِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ قَالُوۡا فِیۡمَ کُنۡتُمۡ ؕ قَالُوۡا کُنَّا مُسۡتَضۡعَفِیۡنَ فِی الۡاَرۡضِ ؕ قَالُوۡۤا اَلَمۡ تَکُنۡ اَرۡضُ اللّٰہِ وَاسِعَۃً فَتُہَاجِرُوۡا فِیۡہَا ؕ فَاُولٰٓئِکَ مَاۡوٰىہُمۡ جَہَنَّمُ ؕ وَ سَآءَتۡ مَصِیۡرًا ﴿ۙ۹۷﴾

۹۷۔ وہ لوگ جو اپنے آپ پر ظلم کر رہے ہوتے ہیں جب فرشتے ان کی روحیں قبض کرتے ہیں تو ان سے پوچھتے ہیں: تم کس حال میں مبتلا تھے؟ وہ کہتے ہیں: ہم اس سر زمین میں بے بس تھے، فرشتے کہیں گے: کیا اللہ کی سرزمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کرتے؟ پس ایسے لوگوں کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بہت بری جگہ ہے۔

97۔ ظلم سے مراد دین حق سے انحراف کر کے اپنے آپ پر ظلم کر نا ہے ۔

اس آیت میں مرنے کے بعد سوال قبر کی طرف اشارہ ہے۔ فرشتوں کا سوال مرنے والے کے دین کے بارے میں ہو گا کہ تم کس حال میں مبتلا تھے؟ مرنے والا جواب دے گا کہ جس سرزمین میں میں زندگی گزار رہا تھا، وہاں دین پر عمل پیرا رہنا ممکن نہ تھا۔ فرشتے کہیں گے کہ اگر تم کفار کی سرزمین پر اپنے دین اور مذہب کا تحفظ نہیں کر سکتے

تھے تو اللہ کی سرزمین تو وسیع تھی اور ایسی سرزمین بھی موجود تھی جہاں دین حق کی فضا قائم تھی، تم نے وہاں ہجرت کیوں نہ کی ؟اور دار الاسلام میں تمہیں بہتر زندگی بھی میسر تھی۔


اِلَّا الۡمُسۡتَضۡعَفِیۡنَ مِنَ الرِّجَالِ وَ النِّسَآءِ وَ الۡوِلۡدَانِ لَا یَسۡتَطِیۡعُوۡنَ حِیۡلَۃً وَّ لَا یَہۡتَدُوۡنَ سَبِیۡلًا ﴿ۙ۹۸﴾

۹۸۔بجز ان بے بس مردوں اور عورتوں اور بچوں کے جو نہ کوئی چارہ کر سکتے ہیں اور نہ کوئی راہ پاتے ہیں۔


فَاُولٰٓئِکَ عَسَی اللّٰہُ اَنۡ یَّعۡفُوَ عَنۡہُمۡ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ عَفُوًّا غَفُوۡرًا﴿۹۹﴾

۹۹۔ عین ممکن ہے اللہ انہیں معاف کر دے اور اللہ بڑا معاف کرنے والا، بخشنے والا ہے۔

98۔ 99۔ حِیۡلَۃً : اس تدبیر کو کہتے ہیں جس سے کسی چیز تک پوشیدہ طور سے پہنچا جا سکے۔ عام طور پر اس کا استعمال بُری تدبیر کے لیے ہوتا ہے، لیکن کبھی ایسی تدبیر کے متعلق بھی ہوتا ہے جس میں حکمت اور مصلحت ہوتی ہے۔ (مفردات راغب)

سابقہ آیات میں ان لوگوں کا ذکر تھا جو حقیقتاً بے بس اور مجبور نہ تھے، وہ اپنے دین کی خاطر ہجرت کرنے پر قادر تھے۔ اس آیت میں ان لوگوں کا ذکر ہے جو واقعی بے بس اور مجبور تھے اور ہجرت کرنے کاکوئی وسیلہ نہیں تھا اور کوئی قابل عمل تدبیر کارگر ثابت نہیں ہوتی تھی۔


وَ مَنۡ یُّہَاجِرۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ یَجِدۡ فِی الۡاَرۡضِ مُرٰغَمًا کَثِیۡرًا وَّ سَعَۃً ؕ وَ مَنۡ یَّخۡرُجۡ مِنۡۢ بَیۡتِہٖ مُہَاجِرًا اِلَی اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ ثُمَّ یُدۡرِکۡہُ الۡمَوۡتُ فَقَدۡ وَقَعَ اَجۡرُہٗ عَلَی اللّٰہِ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا﴿۱۰۰﴾٪

۱۰۰۔ اور جو اللہ کی راہ میں ہجرت کرے گا وہ زمین میں بہت سی پناہ گاہیں اور کشائش پائے گا اور جو اپنے گھر سے اللہ اور رسول کی طرف ہجرت کی غرض سے نکلے پھر (راستے میں) اسے موت آ جائے تو اس کا اجر اللہ کے ذمے ہو گیا، اور اللہ بڑا معاف کرنے والا،رحم کرنے والا ہے۔

100۔ ہجرت سے انسان ارتقائی منازل آسانی سے طے کر لیتا ہے اور ہجرت میں طبعی طور پر برکت بھی ہے اور اگر یہ ہجرت دار الکفر سے دار الاسلام کی طرف ہو تو قرآن فرماتا ہے: مُرٰغَمًا کَثِیۡرًا ۔ اسے زندگی کے لیے بہت پناہ گاہیں ملیں گی۔ اگر ایک جگہ رہنے نہ دیا تو دوسری جگہ، نہیں تو تیسری جگہ، جو کہ زمین خدا کے وسیع ہونے کا لازمی نتیجہ ہے نیز فرمایا: وَّ سَعَۃً بسر اوقات میں کشائش آئے گی۔ یعنی اگر وہ دارالکفر میں تنگی میں تھا تو ہجرت کے بعد کشائش آئے گی۔


تبصرے
Loading...