فدک، معتبرترین تاریخی دستاویز

بسم  اللہ الرحمن الرحیم

قال ابوسعید الخدری : ” لمّا نزلت هذه الآیة “و آت ذاالقربی حقه” دعا النبی صلی  اللہ علیه وآله و سلم فاطمة و اعطاها فدک” (1)

ابوسعید خدری کہتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی (اورقرابت دار کو اس کا حق دو) تو نبی اکرم (ص) نے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کو بلایا اور فدک انہیں عطا فرمایا”

قال ابوبکر: قال رسول  اللہ صلی  اللہ علیه و آله و سلم : لا نورث، ما ترکنا صدقة”

فقال علی علیه السلام: ” وَوَرِثَ سُلَيْمَانُ دَاوُودَ” (2) و قال زکریا: يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ ” (3)

فقال ابوبکر: هکذا

فقال علی علیه السلام هذا کتاب  اللہ ینطق (4)

ترجمہ: ابوبکر نے کہا: رسول  اللہ (ص) نے فرمایا ہے : ہم انبیاء ورثہ نہیں چھوڑتے ہم اپنے بعد جو کچھ چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔

علی (ع) نے فرمایا: اور سلیمان داؤد کا وارث بنا” اور ” زکریا نے عرض کیا (پس مجھے ایسا فرزند عطا کردے) جو میرا اور آل یعقوب کا وارث ہو”

ابوبکر نے کہا: ایسا ہی ہے۔

پس علی (ع) نے فرمایا: یہ خدا کی کتاب ہے جو بول رہی ہے!

بسم  اللہ الرحمن الرحیم

ممکن ہے کہ تاریخ اور حدیث کے اہل تسنن کے معتبر مصادر و مآخذ سے ناواقف افراد شاید تصور کرتے ہوں کہ فدک کا واقعہ مخصوص شیعہ نظریات و عقائد کا حصہ ہے جبکہ اگر وہ تعصب اور جانبداری کی عینک اتار کر محققانہ نگاہ سے صحاح و مسانید اور تاریخ و حدیث کے مجموعات کی ورق گردانی کریں تو جان لیں گے کہ یہ مسئلہ تشیع کا مخصوص مسئلہ ہی نہیں بلکہ اہل سنت کے معتبر دلائل و شواہد بھی اس حقیقت کو ثابت کرتے ہیں۔

یہ مقالہ “فدک، معتبرترین تاریخی دستاویز” سعی کرتا ہے کہ فدک کے بارے میں اہل سنت کے منابع میں منقولہ دلائل، حقیقت کے متلاشی آزاد اندیش اور روشن ضمیر انسانوں کی خدمت میں پیش کرے۔

محمد امین صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم “اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ” (5) کی ندا کے ساتھ ہی خدا کے آخری سفیر اور سید الانبیاء و المرسلین کی حیثیت سے مبعوث ہوئے۔

بعثت کے ابتدا ئی ساعتوں میں ہی آپ (ص) کی وفا شعار زوجۂ مطہرہ ام المؤمنین حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا، جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قدموں میں نثار کرنے کے لئے اپنے مال و جان کے لئے کسی قدر و قیمت کی قائل نہ تھیں، آپ (ص) پر ایمان لے آئیں اور “لا الہ الا  اللہ محمد رسول  اللہ” کا کلمہ پڑھ کر اپنی جان نثاری کا ثبوت دیا، جس کی ان کے وجود کا ہر ذرہ گواہی دیتا ہے۔

آپ (ص) اللہ کے چچا، کفیل و سرپرست مؤمن قریش حضرت ابوطالب علیہ السلام کے فرزند علی (ع) جن کی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے چھوٹے بھائی کی مانند تربیت فرمائی تھی ـ بھی آپ (ص) پر ایمان لائے۔ (6)

خدیجہ سلام  اللہ علیہا نے آپ (ص) کے دوش بدوش تبلیغ رسالت کے ابتدائی مراحل کی تمام صبر آزما مشکلات اور دشواریاں خندہ پیشانی سے برداشت کرلیں۔

خدا نے محمد صلی  اللہ علیہ و آلہ و سلم اور خدیجہ سلام اللہ علیہا کو عظیم ترین امانت الہیہ کی حفاظت کا فریضہ سنبھالنے پر انہیں حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا جیسا عظیم ترین تحفہ عنایت فرمایا۔

حضرت رسول اکرم (ص) ان فداکار و جان نثار ماں بیٹی سے شدید محبت کرتے تھے۔ خاص بات یہ تھی کہ خداوند متعال نے آپ صلی  اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اس بیٹی کو بقائے دین اور آپ (ص) کی نسل کی بقاء کا موجب قرار دیا تھا۔

خدیجہ سلام  اللہ علیہا دنیا سے رخصت ہوئیں تو یہ مصیبت آپ (ص) پر بہت بھاری تھی مگر فاطمہ سلام  اللہ علیہا کا وجود آپ صلی  اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تسلی و تسکین کا باعث تھا۔

جب حضرت فاطمہ سلام  اللہ علیہا کی شادی کا وقت آیا، آپ (س) کے والد ماجد (ص) نے خدا کے امر (7) سے آپ (س) کا نکاح اس مرد سے کرایا جو سب سے پہلے اسلام لایا تھا اور بچپن سے آپ صلی  اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زیر تعلیم و تربیت رہا تھا اور اس طرح خاندان نبی (اہل بیت) کی تشکیل ہوئی۔ (8) اور قرآن کے ساتھ ساتھ عترت کی بقاء کی ضمانت بھی فراہم ہوئی۔ (9)

خداوند متعال نے اپنے تحفۂ عظیم کی عظمت مختلف مناسبتوں سے گوناگوں مواقع پر بیان فرمائی؛ جبکہ اس تحفۂ عظیم کی معرفت طبیعی طور پر لوگوں کے لئے ناممکن تھی۔

کبھی آپ سلام  اللہ علیہا کو آیت تطہیر میں اہل بیت علیہم السلام کا محور و مرکز قرار دیا: “هُم فاطمة و ابوها و بعلها و بنوها” (= یہ فاطمہ اور ان کے والد اور خاوند اور دو بیٹے ہیں) تا کہ نبی اکرم (ص) کئی مہینوں تک ہر روز صبح و شام آپ سلام  اللہ علیہا کے گھر تشریف لاتے رہیں اور آپ (س) اور آپ (س) کے خاندان پر درود و سلام بھیجتے رہیں۔ (10)

خداوند متعال کبھی آیت مباہلہ میں “نسائنا” کے تحت آپ سلام اللہ علیہا کو خاندان نبوت کی اکلوتی خاتون کے عنوان سے تعارف کراتا ہے تا کہ آپ کی عظمت کو نہ صرف مسلمانوں پر ثابت کردے بلکہ اہل عالم پر بھی ثابت ہوجائے جن میں اہل کتاب بھی شامل ہیں۔ (11)

کبھی اپنے نبی (ص) کی زبان سے جو (وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى۔ (12) اپنی جانب سے کچھ بولتے ہی نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا کلام اس وحی کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا جو آپ پر نازل ہوتی ہے۔) آپ سلام اللہ علیہا کو سیدة نساء الجنة (13) اور سیدة نساء العالمین جیسے القاب عطا فرماتا ہے۔

فاطمہ سلام اللہ علیہا حضرت حق تعالی کی رضا پر توجہ کامل رکھنے اور اپنے والد بزرگ سے عملی نمونے اور اسوہ حسنہ حاصل کرنے کی بنا پر دنیا کی طرف توجہ نہیں دیا کرتی تھیں اور دنیا کی زاہدترین خاتون تھیں کیونکہ والد بزرگوار (ص) آپ سلام اللہ علیہا کو زہد کی تربیت دلایا کرتے تھے۔

 پیغمبر اکرم (ص) فدک اپنی اکلوتی بیٹی کو بخش دیتے ہیں:

تبصرے
Loading...