یہاں مزید سپنوں کی سرزمین نہيں رہی

کورونا بحران کو مہینے گذرے مگر امریکی انتظامیہ مداوا کے وسائل فراہم کرنے سے عاجز ہے اور طبی وسائل کی قلت ایک سنجیدہ بحران میں بدل چکی ہے۔ کورونا میں مبتلا لاکھوں امریکیوں کا ٹیسٹ نہیں ہوا / یہاں مزید سپنوں کی سرزمین نہیں ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ “جو کچھ ہم [امریکی] اس وقت کرسکتے ہیں وہ یہ ہے کہ: دعا کریں اور خوف کے مارے مفلوج نہ ہوں”۔ یہ جملہ ایک غیر ترقی یافتہ معاشرے کے ایک معمولی فرد کا نہیں؛ بلکہ ایک امریکی ڈاکٹر کا ہے جو ریاستہائے متحدہ امریکا کی ریاست نیویارک کی ایک کاؤنٹی “بروکلن”، کے ہسپتال وسائل کی شدید قلت کا رونا رو رہا ہے۔

بڑی طاقت ہونے کے بلند بانگ دعؤوں کے باوجود امریکہ میں طبی وسائل ـ حتی کہ ماسک جیسے ابتدائی حفاظتی وسائل ـ کی شدید قلت نے دنیا کو حیرت زدہ کردیا ہے اور اس حیرت اور افسوس نے حتی کہ امریکی اہلکاروں کو قلتوں اور نقائص کا اعتراف کرنے پر مجبور کردیا ہے۔

امریکی سینیٹر ٹیم کین (Tim Kaine) نے چند روز قابل لکھا: “یہاں امریکہ ہے؟! ہسپتالوں میں کورونا ٹیسٹ کا انتظآم نہیں ہے۔ جب ٹیسٹ کے وسائل کا کچھ سامان انہيں ملتا ہے تو ڈاکٹروں کو معلوم ہوجاتا ہے کہ ٹیسٹ کے دوسرے وسائل موجود نہیں ہیں۔ ماسک نہیں ہے”۔

حتی اپنی انتظام صلاحیت اور امریکہ کی عظمت کے قصیدے کہنے والے مسٹر ٹرمپ نے بھی اپنے ملک کی شدید کمزوری کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے: “ہم ایسی چیزی اپنے ملک میں دیکھ رہے ہیں جو ہماری عادت تھی کہ انہیں دوسری سرزمینوں میں دیکھ لیں”۔

کورونا وائرس سے متاثرہ کم از کم 500 لاکھ افراد کا ٹیسٹ نہیں ہوا!

کورونا کی تشخیص کے وسائل کی شدید قلت نے امریکیوں کو شدیدترین بحران سے دوچار کردیا ہے، یہ ایسی شکست ہے جس نے آج امریکہ کو کورونا کی وباء کے مرکز میں تبدیل کیا ہے۔ جبکہ امریکہ کے [فسادی] وزیر خارجہ پمپیو نے اس سے قبل کہا تھا کہ “مجھے یقین ہے کہ امریکہ کسی بھی ملک سے بہتر، کورونا کا مقابلہ کرے گا!”۔

امریکی قومی ادارہ برائے الرجی و متعدی امراض (National Institute of Allergy and Infectious Diseases [NIAID]) کے ڈائریکٹر ڈاکٹر انتونی ایس فوسی (Anthony Stephen Fauci) اس صورت حال کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں: “نظام حکومت نے حقیقتا ہماری ضروریات کے مطابق عمل نہیں کیا ہے، یہ ایک شکست ہے! مجھے اقرار کرنے دیجئے”۔

امریکہ میں کورونا میں مبتلا افراد اور اس مرض کے نتیجے میں ہونے والی اموات تعداد چونکا دینے والی ہے اور مبتلا افراد کے لحاظ سے یہ ملک اس وقت پہلے نمبر پر اور یہاں ہونے والی اموات کی تعداد سپین میں ہونے والی اموات سے زیادہ ہے اور جس تیزرفتاری سے یہاں اموات کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے، لگتا ہے کہ امریکہ اس لحاظ سے بھی تمام ریکارڈ بہت جلد توڑ دے گا۔ جبکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا کی تشخیص کے لئے درکار تشخیصی کٹ (Detection Kit) کی شدید قلت کی وجہ سے، لگتا ہے کہ کورونا میں مبتلا افراد کی تعداد اعلان شدہ تعداد سے کہیں زیادہ ہے۔

امریکی لکھاری و سماجی کارکن ماریانے ولیم سن (Marianne Williamson) نے اپنے ٹویٹر پیغام میں لکھا ہے کہ “جب کورونا کے مریضوں کی تعداد کا اعلان ہوتا ہے تو جان لینا چاہئے کہ بہت کم لوگوں کا ٹیسٹ لیا گیا ہے”۔

ماہر صحت و حفظان صحت اور جان ہاپکنز یونیورسٹی (Johns Hopkins University) کے پروفیسر ڈاکٹر “مارٹی میک رے” (Dr. Marty Makary) نے بھی ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ “میرے خیال میں کورونا وائرس میں مبتلا 500000 سے زائد لوگ اس وقت سڑکوں پر گھوم رہے ہیں”، ان کا کہنا تھا کہ “سرکاری اعداد و شمار پر یقین نہ کرو”۔

البتہ یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ کورونا کے علاج کے بھاری اخراجات اور ملک میں انشورنس کی مناسب کوریج کا فقدان بھی اس قدر وسیع ہے کہ حتی اگر ڈیٹکشن کٹ کی تعداد کافی بھی ہو، بہت سے لوگ متعلقہ اخراجات برداشت کرنے سے عاجز ہیں۔

البته، توجه به این نکته هم ضروری است که هزینه‌ی درمان کرونا، و عدم پوشش کافی بیمه در این کشور‌ آن‌قدر زیاد است که حتی در صورت وجود تعداد کافی کیت تشخیصی، بسیاری از مردم توان پرداخت هزینه‌های مربوط به آن‌را نداشته باشند.

جب نمبر 1 امریکہ کا سپنا [American Dream] درہم برہم ہوجاتا ہے

بعض تخمینوں سے معلوم ہوتا ہے کہ بیمے کی ناگفتہ صورت حال اور علاج معالجے کے بھاری اخراجات نیز لاکھوں بے گھر افراد کی موجودگی کی وجہ سے 200000 امریکی باشندوں کی جان جاسکتی ہے۔ ان تخمینوں اور معقول پیش گوئیوں کے باوجود امریکی حکومت کورونا پر قابو پانے کے لئے درکار وسائل کی فراہمی سے عہدہ برآ نہیں ہوسکی ہے۔ برطانوی اخبار “گارین” نے اس سلسلے میں لکھا ہے: “ٹرمپ نے کہا تھا کہ آج کے بعد، ایک نیا نظریہ ہماری سرزمین کا انتظام چلائے گا۔ اس لمحے کے بعد، “سب سے پہلے امریکہ”؛ لیکن امریکہ آج پہلے سے بالکل مختلف ہوچکا ہے؛ کورونا میں مبتلا افراد کی تعداد کے لحاظ سے”۔

ڈاکٹروں اور نرسوں کے پاس وسائل نہیں ہیں

کچھ دن پہلے ایک امریکی نرس کی ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں وہ اشکبار آنکھوں سے کہہ رہی تھی: “امریکہ تیار نہیں ہے اور نرسوں کی حفاظت کا انتظام نہیں ہے”۔ اس نرس نے یہ ویڈیو کلپ اس وقت وائرل کیا کہ جب وہ استعفا دے چکی تھی وہ بھی اس وجہ سے کہ اس سے کہا گیا تھا کہ “ماسک کی قلت کی وجہ سے ICU  میں ماسک پہنے بغیر مریضوں کی دیکھ بھال کرے”۔

نیویارک ٹائمز نے اس صورت حال پر رد عمل کے طور پر “ماسک کہاں ہیں؟” کے عنوان سے ایک رپورٹ شائع کی اور طبی عملے کے حفاظتی انتظامات کو بہت زیادہ کمزور قرار دیا اور لکھا: “امریکی ہسپتالوں کے طبی عملے کی اکثریت حفاظتی وسائل کے فقدان کی وجہ سے بیمار پڑ گئی ہے۔ ان میں سے بہت سے افراد کو ڈسپوزایبل ماسک اور دستانے متعدد بار استعمال کرنا پڑتے ہیں”۔ کینٹکی (Kentucky) ریاست کے ایک ہسپتال کے ماہر تخدیر (Anesthesiologist) کا کہنا تھا کہ “یہاں اپنے تحفظ کا کوئی انتظآم اور کوئی پروگرام نہيں ہے؛ میں گذشتہ کئی دنوں سے ماسک اور مناسب حفاظتی لباس کے بغیر اپنی ذمہ داری نمٹاتا رہا؛ میں یہاں نہ صرف اپنی حفاظت نہیں کرسکتا بلکہ حتی اپنے بیماروں کی بھی حفاظت نہيں کرسکتا”۔

بغض رپورٹوں سے معلوم ہوا ہے کہ آئسولیشن اور حفاظت کے لئے درکار لباس اور گاؤن کے فقدان کی وجہ سے امریکی ڈاکٹروں اور نرسوں کو کوڑے کے پلاسٹک تھیلے استعمال کرنا پڑ رہے ہیں۔ امریکی سینیٹر برنی سینڈرز (Bernie Sanders) نے لکھا: “امریکہ میں اس وقت ناقابل یقین انداز سے ڈاکٹروں اور نرسوں کو  کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں جان ہتھیلی پر رکھ کر لڑنا پڑ رہا ہے کیونکہ ان کے پاس ماسک، دستانے اور سرجری والا لباس نہیں ہے؛ یہ صورت حال قابل قبول نہیں ہے”۔ ادھر نیویارک کی بلدیہ نے بھی اس شہر کی طبی ضروریات کی تکمیل کے سلسلے میں حکومت کی بےبسی کی بنا پر ایک اطلاعیہ جاری کرکے عوام سے اپیل کی ہے کہ “اپنے ماسک بلدیہ کو فروخت کریں”۔

گھریلو ماسک متبادل کے طور پر!!

ماسک کی قلت نے امریکی ادارہ صحت کے حکام کو لوگوں کو گھریلو ماسک کی تیاری کی تربیت دینے پر مجبور کیا۔ امراض کے کنٹرول اور روک تھام کے مراکز (Centers for Disease Control and Prevention [CDC]) نے امریکی عوام کو ہدایت کی ہے کہ کپڑے، چادر اور رومال کو ماسک کے طور پر استعمال کریں۔ صدر امریکہ ٹرمپ کی باری آئی تو انھوں نے نہایت سادگی سے لوگوں کو تلقین کی کہ “ایک ماسک کو کئی مرتبہ استعمال کریں!”۔ انھوں نے طبی عملے اور علاج معالجے میں مصروف افراد کو ہدایت کی کہ “ماسک کو ایک بار استعمال کرکے پھینکنے کے بجائے اس کو ایک بار پھر وبائی اثرات سے پاک کرکے استعمال کریں!!”۔

راز افشاء کروگے تو برخاست کئے جاؤگے

ہسپتالوں کی گھمبیر اور نامناسب صورت حال کا مستقبل مداوا کرنے کے بجائے اب امریکی انتظامیہ نے صحیح صورت حال کے فاش ہونے پر قدغن لگانا شروع کیا ہے۔ بلومبرگ نے اولیویا کارویلا (Olivia Carville) ایما کورٹ (Emma Court) اور کرسٹن براؤن (Kristen V Brown) کی رپورٹ شائع کی ہے جس کا عنوان ہے: “اسپتالوں نے ڈاکٹروں سے کہا کہ اگر وہ سازوسامان کی قلت کے بارے میں بولیں گے تو انہیں فارغ کردیا جائے گا”۔ ایک امریکی ڈاکٹر “یوجین جین” نے سماجی رابطے کی ویب گاہ ٹویٹر پر اپنے پیغام میں لکھا: “اگر طبی عملہ ہسپتال میں قلتوں کے بارے میں بات کریں تو انہيں نکال باہر کیا جاتا ہے”۔ امریکہ میں کورونا وائرس کی تباہ کاریوں کے موقع پر سینسر شپ اتنی وسیع ہوچکی ہے کہ امریکی طیارہ بردار جہاز تیوڈور روزویلٹ کے کیپٹن بریٹ کروزیئر (Brett Crozier) اس لئے نوکری سے برخاست کیا گیا کہ انھوں نے جہاز پر موجود عملے کے درمیان کورونا کے پھیلاؤ کی خبروں کو فاش کردیا تھا اور 200 امریکی ملاحوں کے کورونا میں مبتلا ہونے کے سلسلے میں امریکی اہلکاروں کو خبردار کیا تھا۔

امریکی حکومت ریاستوں کو ناقص سازوسامان مہیا کرتی ہے

حقائق کو سینسر ہونے کے علاوہ، امریکی حکومت اپنے پاس کے ذخائر میں موجود سازوسامان کو مناسب انداز سے ریاستوں کے درمیان تقسیم کرنے میں بھی ناکام رہی ہے اور اس لحاظ سے امریکہ انتظامیہ بحران سے دوچار ہو چکی ہے۔ ریاست مشی گن اور ریاست نیویارک سمیت دیگر ریاستوں کے گورنر تسلسل کے ساتھ امریکی عوام کی صحت کی ضروریات کی تکمیل کے سلسلے میں امریکی حکومت کے وسائل کی تقسیم پر تنقید کررہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ مرکزی حکومت ریاستوں کی ضرورت کے مطابق امداد فراہم نہیں کررہی ہے۔ دوسری طرف سے وسائل کی قلت کی وجہ سے امریکی حکومت ناقابل استعمال اور ناقص و معیوب وسائل کے استعمال پر زور دے رہی ہے یا ایسے وسائل ریاستوں کو بھجوا رہی ہے جن کے استعمال کی تاریخ گذر چکی ہے۔ ایسوسی ایٹڈ پریس نے کچھ دن پہلے ایک رپورٹ کے ضمن میں انکشاف کیا تھا کہ مرکزی حکومت کے گوداموں سے بعض ریاستوں میں بھجوایا گیا سامان معیوب اور ناقابل استعمال تھا۔ مثال کے طور پر ریاست الاباما کو بھجوائے گئے 6000 ماسک 2010ع‍ کے تیار کردہ تھے اور سڑ چکے تھے؛ مصنوعی سانس کے لئے لاس اینجلس بھجوائے گئے 150 وینٹی لیٹر کو مرمت کی ضرورت تھی؛ ریاست اوریگون کو بھجوائے گئے ماسک ناقص تھے اور طبی عملے کے مریض ہونے کا سبب بن سکتے تھے۔

ماسک کی ضرورت کو پورا کرنے کی حکمت عملی : ماڈرن ڈاکہ زنی

طبی سامان کی چوری اور لوٹ مار ، لوگوں کی طبی ضروریات کی فراہمی میں بےبسی پر امریکی حکام کے رد عمل کا ایک اور نمونہ ہے۔ حرمنی کے کے برلن صوبے کے وزیر داخلہ آندریاس ہیزل (Andreas Geisel) نے انکشاف کیا کہ برلن کی صوبائی حکومت نے اپنی پولیس نفری کے لئے ماسک خرید لئے تھے جنہیں امریکہ نے بینکاک ہی میں ضبط کرلیا ہے!! انھوں نے امریکیوں کے رویے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ “ہم نے چین میں مصروف عمل ایک امریکی کمپنی کو دو لاکھ FFP-2 ماسک تیار کرکے بھجوانے کا آرڈر دیا تھا اور اس کمپنی کو رقم کی ادائیگی بھی ہوچکی تھی لیکن امریکیوں نے تھائی لینڈ میں انہیں ضبط کرکے امریکہ بھجوایا۔ انھوں نے اس امریکی رویے کو جدید دور کی جدید ڈاکہ زنی قرار دیا اور کہا: “ہم اپنے شرکاء سے اس طرح کی بدسلوکی کی توقع نہيں رکھتے تھے”۔

اس ماڈرن چوری کے بعد امریکیوں نے فرانس سمیت کئی دوسرے ممالک کا خریدا ہوا ساز و سامان چوری کرکے امریکہ بھجوایا ہے گوکہ یورپی ممالک نے بھی ایک دوسرے کا سازوسامان چوری کرکے ثابت کرکے دکھایا کہ نام نہاد لبرل مغربی نظام صرف مغربی ممالک کے وحشی پن پر پڑا ہوا پردہ اور مغرب کے منہ پر پڑا ہوا نقاب تھا جسے کورونا وائرس نے ہٹا کر رکھ دیا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رپورٹ: حسین مہدی تبار
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

/110

تبصرے
Loading...