یوسف قرآن (حصہ اول)

سورہ یوسف کا رخ زیبا

سورہ یوسف مکی سورتوں میں شمار ہوتا ہے۔ اس کی ایک سو گیارہ ( ١١١) آیتیں ہیں ، حضرت یوسف علیہ السلام کا نام قرآن میں ٢٧/مرتبہ آیا ہے جس میں پچیس بار خود اسی سورہ میں ہے اس سورہ کی آیتیں آپس میں ایک دوسرے سے پیوستہ ہیں اور چند فصلوں میں جذاب انداز اور خلاصہ کے ساتھ حضرت یوسف علیہ السلام کی داستان کو بچپن سے لے کر مصر کی خزانہ داری تک بیان کیا گیا ، آپ(ع) کی عفت و پاکدامنی ، آپ(ع) کے خلاف تمام سازشوں کا پردہ فاش ہونا اور قدرت الٰہی کی جلوہ نمائی اس سورہ میں نمایاں ہیں ۔

حضرت یوسف علیہ السلام کی داستان فقط اسی سورہ میں بیان ہوئی ہے ۔ جبکہ دوسرے انبیاء (ع)کی داستانیں مختلف سوروں میں موجود ہے ۔(١) حضرت یوسف علیہ السلام کی داستان توریت کی ”کتاب پیدائش”میں فصل نمبر ٣٧ سے لیکر پچاس ٥٠ تک مذکور ہے۔

لیکن قرآن اورتوریت کا تقابلی جائزہ لینے سے بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ قرآن محفوظ ہے اور تورات میں تحریف ہوئی ہے ۔

ادبی دنیا میں بھی یوسف و زلیخا کی داستان ایک خاص اہمیت کی حامل ہے ۔ ”نظامی گنجوی کی منظوم یوسف و زلیخا” ”فردوسی کی طرف منسوب یوسف و زلیخا”کا نام اس ادبی دنیا میں لیا جاسکتا ہے۔

قرآن حضرت یوسف علیہ السلام کی داستان میں خود آپ(ع) کی شخصیت کو حوادث کی بھٹی سے گزرنے ہی کو داستان کا اصلی مرکز و محور قرار دیتاہے ۔

جبکہ دوسرے انبیاء (ع)کی داستانوں میں زیادہ تر مخالفین کا انجام ، ان کی ہٹ دھرمی اور ان کی ہلاکت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔

بعض روایتوں میں عورتوں کو سورہ یوسف کی تعلیم سے روکا گیا ہے لیکن بعض صاحبان نظر کے نزدیک ان روایتوں کی سند معتبر نہیں ہے ۔(2 )

اس کے علاوہ نہی کا سبب ؛عزیز مصر کی بیوی زلیخاکا عشق کرنا ہے ، جس میں قرآنی بیان کی بنیاد پر کوئی منفی پہلو نہیں ہے ۔

————–

( ١ ) حضرت آدم و نوح (علیہما السلام) دونوں کی داستانیں بارہ ١٢ سورتوں میں ، داستان حضرت ابراہیم (ع) اٹھارہ ١٨ سورتوں میں ، داستان حضرت صالح(ع) گیارہ ١١/سورتوں میں، حضرت داؤود(ع) کا واقعہ پانچ سورتوں میں ، حضرت ہود (ع)و سلیمان (ع)دونوں کی داستانیں چار ٤ سورتوں میں اور حضرت عیسیٰ (ع)و زکری(ع) کی داستانیں تین ٣ سورتوں میں مذکور ہیں ۔ تفسیر حدائق .

(2) تفسیر نمونہ .

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ .

شروع کرتاہوں اللہ کے نام

سے جو بڑا رحم کرنے والا مہربان ہے ۔

( ١ ) الۤرٰ تِلْکَ ا یاتُ الْکِتَابِ الْمُبِینِ .

” الف لام را وہ واضح اور روشن کتاب کی آیتیں ہیں”۔

( ٢ ) اِنّا اَنْزَلْنَاہُ قُرْ اناً عَرَبِیّاً لَعَلّکُمْ تَعْقِلُوْنَ .

” ہم نے اس قرآن کو عربی میں نازل کیاہے تاکہ تم سمجھو ”.

نکات :

قرآن جس زبان میں بھی نازل ہوتا دوسروں پر اس سے آشنائی لازم ہوتی لیکن قرآن کا عربی زبان میں نازل ہونا ایک خاص امتیاز کاحامل ہے ، ان میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں :

الف ۔ عربی زبان کی لغات اتنی وسیع اور اس کے قوانین اتنے محکم ہیں کہ دوسری زبانوں میں ایسی باتیں نہیں ملتیں ۔

ب۔ روایات کے مطابق اہل جنت کی زبان عربی ہے ۔

ج۔ جس علاقے کے لوگوں میں قرآن نازل ہوا ان کی زبان عربی تھی لہٰذا آسمانی کتاب کا کسی دوسری زبان میں ہونا ممکن نہ تھا ۔

خداوندعالم نے قرآن مجید کے بھیجنے کے طریقے کو ”نزول ” کہا ہے جیساکہ بارش کے سلسلے میں بھی ”نزول” ہی استعمال کیا گیا ہے قرآن اور بارش کے درمیان کچھ ایسی مشابہتیں ہیں جن کا ذکر مناسب ہے :

الف۔دونوں آسمان سے نازل ہوتے ہیں (نزّلنا) (١ )

ب۔ دونوں خود بھی پاک ہیں اور دوسروں کو پاک کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں(لیطھرکم ) (٢) (یزکّیھم )(٣ )

ج۔دونوں زندگی کا وسیلہ ہیں (دعا کم لما یحییکم )(٤) (لنحی بہ بلدمیتا) (٥ )

د۔ دونوں باعث برکت ہیں (مبارکاً )(٦ )

————–

( ١ ) سورہ ق آیت ٩ .

( ٢ ) یُنزّل علیکم من السماء ماء لیُطھرّکم بہ۔انفال ،آیت ١١ .

( ٣ ) ربناوابعث فیہم رسولاً … یعلمہم الکتاب والحکم ویزکیہم۔ بقرہ آیت ١٢٩ .

( ٤ ) انفال آیت ٢٤ .

( ٥ ) فرقان آیت ٤٩ .

( ٦ ) ھذا کتاب انزلناہ مبارک انعام آیت ٩٢ نزّلنا من السماء ماء مبارکا۔(سورہ ق آیت٩ .

ھ۔ قرآن بارش کی طرح قطرہ قطرہ ، آیت آیت نازل ہواہے(نزول تدریجی )

شائد قرآن کے عربی ہونے پر تاکید کی وجہ یہ ہو کہ ان لوگوں کا جواب دےدیا جائے جو کہتے ہیں کہ قرآن کو ایک عجمی شخص نے پیغمبر اسلام(ص) کو سکھایا تھا۔ (١ )

پیام :

١۔ قرآن خود معجزہ ہے اس میں معجزات کی تمام اقسام: علمی ، تاریخی ، عینی سب شامل ہیں اس میں انہیں حروف تہجی کو استعمال کیا گیا ہے جنہیں تم استعمال کرتے ہو ۔ (الۤر)(سورہ کی پہلی آیت میں اسی طرف اشارہ ہے )

٢۔ قرآن کا مقام ومرتبہ بہت بزرگ و برتر ہے ۔(تلک )

٣۔ قرآن عربی زبان میں ہے لہٰذا دوسری زبانوں میں اس کاترجمہ نماز میں عربی کا قائم مقام نہیں ہوسکتا (قرآناً عربی )

٤۔ ایک طرف قرآن کا عربی میں نازل ہونا ، اور دوسری طرف اس میں تدبراور غور و فکر کا حکم اس بات کی علامت ہے کہ تمام مسلمانوں پر عربی زبان سے آشنائی لازمی ہے (قرآناً عربی )

( ٥ ) قرآن فقط تلاوت ، تبرّک اور حفظ کے لئے نہیں ہے بلکہ بشر کے لئے تعقل اور تکامل کا ذریعہ ہے ۔ (لعلکم تعقلون )

————-

( ١ ) ۔.۔وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّہُمْ یَقُولُونَ إِنَّمَا یُعَلِّمُہُ بَشَرٌ لِسَانُ الَّذِی یُلْحِدُونَ إِلَیْہِ أَعْجَمِیٌّ وَہَذَا لِسَانٌ عَرَبِیٌّ مُبِینٌ .( سورہ نحل آیت ١٠٣ )

( ٣ ) نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْکَ أَحْسَنَ الْقَصَصِ بِمَا أَوْحَیْنَا إِلَیْکَ ہَذَا الْقُرْآنَ وَإِنْ کُنتَ مِنْ قَبْلِہِ لَمِنْ الْغَافِلِینَ .

” ہم اس قرآن کو آپ کی طرف وحی کرکے آپ سے ایک نہایت عمدہ قصہ بیان کرتے ہیں اگرچہ آپ اس سے پہلے (ان واقعات سے بالکل) بے خبر تھے ”۔

نکات :

” قصص” داستان اور بیانِ داستان دونوں معانی میں استعمال ہوتا ہے ۔

قصہ اور داستان انسان کی تربیت میں قابل توجہ حصہ رکھتے ہیں کیونکہ داستان ایک امت کی زندگی کا عینی مجسمہ اور عملی تجربہ ہے ۔ تاریخ اقوام کا آئینہ ہے ہم جس قدر ماضی کی تاریخ سے آشنا ہوں گے اتنا ہی محسوس ہو گا کہ ہم نے ان لوگوں کی عمر کے برابر زندگی گزاری ہے ۔

حضرت علی علیہ السلام نے نہج البلاغہ کے مکتوب نمبر ٣١ میں اپنے فرزند امام حسن علیہ السلام کو مخاطب کرکے کچھ باتیں بیان فرمائی ہیں جن کا مضمون یہ ہے :

” اے میرے لخت جگر ! میں نے ماضی کی تاریخ اور سرگزشت کا اس طریقے سے مطالعہ کیا ہے اور آگاہ ہوں گویا میں نے ان لوگوںکے ساتھ زندگی گزاری ہو اور ان کی عمر پائی ہو ”۔

شاید انسان پر قصہ اور داستان کی تاثیر کی وجہ یہ ہو کہ انسان داستان سے قلبی لگ رکھتا ہے تاریخی کتابیں اور داستانی آثار معمولاً تاریخ بشریت میں ایک خاص اہمیت کے حامل اور اکثر لوگوں کے لئے قابل فہم رہے ہیں ۔ جبکہ عقلی و استدلالی بحثوں کو بہت کم افراد ہی درک کرپاتے ہیں ۔

قرآن مجید نے حضرت یوسف علیہ السلام کی داستان کو بعنوان ”احسن القصص” یاد کیا ہے لیکن روایات میں پورے قرآن کو ”احسن القصص” کہا گیا ہے ۔یقینا ان دونوں باتوںمیں کوئی تضاد نہیں ہے اس لئے کہ پورا قرآن تمام کتب آسمانی کے درمیان ”احسن القصص” ہے جبکہ سورہ یوسف تمام قرآنی سورتوں میں ”احسن القصص” ہے۔(١)(٢ )

————–

( ١ ) تفسیر کنزالدقائق .

( ٢ ) اگر آیت کے اس ٹکڑے ”احسن القصص” کو بغور دیکھا جائے تو اس توجیح کی ضرورت پیش نہیں آئے گی جسے صاحب کنزالدقائق نے پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ کیونکہ یہاں بہترین داستان مقصود نہیں ہے اس لئے کہ قصہ کی جمع ”قَصص ”نہیں بلکہ ” قِصص ”ہے یہاں خداوندمتعال کا مقصود یہ ہے کہ ہم قصہ گوئی کا بہترین طریقہ اور اس کی روش بیان کررہے ہیں یعنی پورا قرآن ”احسن القصص” ہے لیکن اس سورہ میں بہترین شیوہ اور اسلوب کو بروئے کار لایا گیا ہے۔ پورے سورہ کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات واضح ہوجائے گی کہ کون سا بہترین شیوہ یہاں استعمال کیا گیا ہے ۔ جو قصہ گوئی کے فن سے آگاہ ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ بہترین قصہ وہ ہے جو بامقصد ہو۔ قرآن مجید کے سارے سورے بامقصدہیںاور وہ بھی عالی ترین مقصد جو ہدایت ہے وہ اس سورہ میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے ۔لیکن دوسری شرط یہ ہے کہ قصہ ایک جگہ بیان کیا جائے اسی لئے جو چاشنی ایک E

دوسری داستانوں سے قرآنی داستانوں کا فرق :

١۔قصہ کہنے والا خدا ہے ۔(نحن نقص)(١ )

٢۔ بامقصد ہے۔(نقص علیک من انباء الرسل ما نثبّت بہ فادک)(٢ )

٣۔صحیح اور سچ ہے نہ کہ خیال و تصور۔ (نقص علیک نبأھم بالحق)(٣ )

٤۔ علمی بنیاد پر ہے نہ کہ وہمی و گمانی ۔(فلنقصّنّ علیہم بعلم)(٤ )

٥۔وسیلہ تفکر ہے نہ کہ ذریعہ بے حسی۔(فاقصص القصص لعلھم یتفکرون)(٥ )

————–

F مکمل ناول میں ہوتی ہے وہ قسط وار میں نہیں ہوتی ۔ یہی وہ بہترین روش ہے جو اس سورے میں استعمال کی گئی ہے۔ اس سے قبل آپ نے ”سورہ یوسف کا رخ زیبا” عنوان میں ملاحظہ فرمایا کہ دوسرے انبیاء (ع)کی داستان قرآن مجید کے مختلف سوروں میں ملتی ہے لیکن حضرت یوسف علیہ السلام کا قصہ فقط اسی سورہ میں ہے وہ بھی اپنی خاص زیبائی و خوبصورتی کے ساتھ لہٰذا پورا قرآن احسن القصص ہے لیکن جناب یوسف کا قصہ ، قصہ گوئی کے تما م فنون سے بہرہ مند ہے ۔(مترجم )

( ١ ) سورہ یوسف آیت٣ .

( ٢ ) سورہ ہود، آیت١٢٠ .

( ٣ ) سورہ کہف آیت١٣ .

( ٤ ) سورہ اعراف آیت٧ .

( ٥ ) سورہ اعراف آیت ١٧٦ .

٦۔عبرت و نصیحت کا ذریعہ ہے نہ کہ تفریح و سرگرمی۔(کان فی قصصھم عبر)(١ )

حضرت یوسف علیہ السلام کا قصہ” احسن القصص ”ہے ، چونکہ :

١۔ تمام قصوں میں معتبرترین قصہ ہے ۔(بما اوحین )

٢۔ اس داستان میں عظیم ترین جہاد (جسے جہاد بالنفس سے تعبیر کیا گیا ہے)کا تذکرہ ہے۔

٣۔اس داستان کا مرکزی کردار ایک ایسا نوجوان ہے جو تمام انسانی کمالات کا حامل ہے(یعنی صبر، تقویٰ ، پاکدامنی ، ایمان ، امانت ، حکمت ، بخشش ، احسان، وغیرہ )

٤۔ اس داستان کے تمام افراد آخرکار خوشبخت ہوگئے ، مثلاًحضرت یوسف (ع)بادشاہ ہوگئے جناب یوسف (ع)کے بھائیوں نے توبہ کرلی ، آپ (ع)کے پدر بزرگوار کی بینائی لوٹ آئی ، قحط زدہ ملک کو نجات مل گئی ، مایوسی اور حسادت ، وصال اور محبت میں تبدیل ہو گئی۔

٥۔ اس قصے میں تمام اضداد کو ایک دوسرے کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ۔ مثلاًفراق ووصال، خوشی و غم ، خشک سالی و سبزہ زاری ، وفاداری و جفاکاری ، مالک و مملوک ، کنواں اور محل ، فقر و غنا، غلامی و بادشاہی ، نابینائی و بینائی ، ناجائز تہمت اور پاکدامنی ۔

فقط الٰہی قصے ہی نہیں بلکہ خداوندعالم کے تمام کام ”عمدہ ” ہیں اس لئے کہ وہ :

————–

( ١ ) سورہ یوسف آیت ١١١ .

بہترین پیداکرنے والا ہے ۔ احسن الخالقین (١ )

بہترین کتاب کا نازل کرنے والا ہے ۔نزّل احسن الحدیث (٢ )

بہترین صورت بنانے والا ہے ۔ فاحسن صورکم(٣ )

بہترین دین کا مالک ہے۔ و من احسن دینا ممن اسلم وجھہ للّٰہ(٤ )بہترین جزا دینے والا ہے ۔ لیجزیھم اللہ احسن ما عملوا(٥ )

اورخداوندعالم ان تمام اچھائیوںکے مقابلے میں انسان سے بہترین عمل چاہتا ہے لیبلوکم ایّکم احسن عملا(٦ )

قرآن مجید میں غفلت کے تین معانی بیان ہوئے ہیں :

الف ۔ بری غفلت: (و انّ کثیرا من الناس عن ایاتنا لغافلون)(٧) اگرچہ بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے غافل رہتے ہیں ۔

ب۔ اچھی غفلت : (الذین یرمون المحصنات الغافلات المومنات

————–

( ١ ) سورہ مومنون آیت ١٤ .

( ٢ ) سورہ زمر آیت ٢٣ .

( ٣ ) سورہ غافر آیت ٦٤ .

( ٤ ) سورہ نساء آیت ١٢٥ .

( ٥ ) سورہ نور آیت ٣٨ .

( ٦ ) سورہ ہود آیت ٧ .

( ٧ ) سورہ یونس آیت ٩٢ .

لعنوا فی الدنیا والاخر) (١)جو لوگ بے خبر پاک دامن مومنہ عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں ان پر دنیاو آخرت میں لعنت ہے ۔

ج۔ طبیعی غفلت :یعنی آگاہ نہ ہونا ۔(و ان کنت من قبلہ لمن الغافلین )

پیام :

١۔ قرآنی داستانوں میں قصہ گو ،خود خداوندعالم ہے ۔(نحن نقص )

٢۔دوسروں کےلئے نمونہ پیش کرنے کےلئے بہترین افراد کا انتخاب اور تعارف کروائیں ۔ (احسن )

٣۔ قرآن ”احسن الحدیث” اور سورہ یوسف ”احسن القصص”ہے ۔( احسن القصص )

٤۔بہترین داستان وہ ہے جو وحی کی بنیاد پر ہو ۔(احسن القصص بما اوحین )

٥۔قرآن شریف بہترین اور خوبصورت انداز میں داستان بیان کرنے والا ہے۔ (احسن القصص )

( ٦ ) پیغمبر گرامی (ص) وحی کے نازل ہونے سے پہلے ”گزشتہ تاریخ”سے ناآشنا تھے …(لمن الغافلین )

————–

( ١ ) سورہ نور آیت ٢٣ .

( ٤ ) إِذْ قَالَ یُوسُفُ لِأَبِیہِ یَاأَبَتِ إِنِّی رَأَیْتُ أَحَدَ عَشَرَ کَوْکَبًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَأَیْتُہُمْ لِی سَاجِدِینَ ۔

” ( وہ وقت یاد کرو )جب یوسف نے اپنے باپ سے کہا: اے بابا! میں نے (خواب میں)گیارہ ستاروں اور سورج اور چاند کو دیکھا ہے ۔ میں نے دیکھا ہے کہ یہ سب مجھے سجدہ کر رہے ہیں”۔

نکات :

حضرت یوسف علیہ السلام کی داستان خواب سے شروع ہوتی ہے تفسیر المیزان میں علامہ طباطبائی(رح) فرماتے ہیں حضرت یوسف علیہ السلام کی داستان ایک ایسے خواب سے شروع ہوتی ہے جو انہیں بشارت دیتا ہے اور مستقبل کے بارے میں روشن امید دلاتا ہے تاکہ انہیں تربیت الٰہی کی راہ میں صابر و بردبار بنائے ۔

جناب یوسف (ع)حضرت یعقوب (ع)کے گیارہویں فرزند ہیں جو بنیامین کے بعد پیدا ہوئے تھے۔ بنیامین کے علاوہ دوسرے بھائی دوسری ماں سے ہیں ۔ حضرت یعقوب (ع)حضرت اسحاق (ع)کے اور حضرت اسحاق (ع)حضرت ابراہیم (ع)کے فرزند ہیں (١)۔

اولیاء ِالٰہی کے خواب مختلف ہوتے ہیں ۔ کبھی تعبیر کے محتاج ہوتے ہیں جیسے حضرت یوسف (ع)کا خواب اور کبھی تعبیر کی ضرورت نہیں ہوتی ہے جیسے حضرت ابراہیم کا خواب جس میں حضرت اسماعیل (ع)کو ذبح کرنے کا حکم دیاگیا تھا ۔

————–

( ١ ) تفسیر مجمع البیان .

خواب کے سلسلے میں ایک اور گفتگو

پیغمبر اکرم (ص) فرماتے ہیں : الرویا ثلاث : بشری من اللہ ، تحزین من الشیطان والذی یحدث بہ الانسان نفسہ فیراہ فی منامہ (١ )

یعنی خواب کی تین قسمیں ہیں: (الف)خدا کی طرف سے بشارت۔ (ب)شیطان کی طرف سے غم و غصہ (ج) وہ مشکلات جن سے انسان روزمرہ دچار ہوتاہے پھر انہیں خواب میں دیکھتا ہے ۔

بعض دانشمند اور علوم نفسیات کے ماہرین خواب دیکھنے کو شکست اور ناکامی کا نتیجہ سمجھتے ہیں وہ اپنی بات کو مستند کرنے کے لئے ایک پرانی ضرب المثل پیش کرتے ہیں ”شتر در خواب بیند پنبہ دانہ” جسے اردو میں ”بلی کے خواب میں چھیچھڑے ”کہہ سکتے ہیں ۔ بعض تو خواب کو خوف کا نتیجہ سمجھتے ہیں اور اسکے لئے یہ ضرب المثل پیش کرتے ہیں ”دور از شتر بخواب تا خواب آشفتہ نبینی”(اونٹ سے دورسو تاکہ پریشان کنندہ خواب نہ دیکھو)بعض ، خواب کو غرائز اور ہوس کا آئینہ سمجھتے ہیں ۔

————–

( ١ ) بحار الانوار ج ١٤ صفحہ ٤٤١ .

اگرچہ خواب کے سلسلے میں مختلف نظریات ہیں لیکن کسی نے بھی خواب کی حقیقت و اصلیت سے انکار نہیں کیا ہے ۔ہاں اس بات کی طرف توجہ رکھنی چاہئے کہ تمام خواب ایک ہی تحلیل کے ذریعہ قابل حل نہیں ہیں ۔

علامہ طباطبائی (رح) تفسیر المیزان (١) میں فرماتے ہیں : عالم وجود تین ہیں (١)عالم طبیعت(٢) عالم مثال (٣) عالم عقل ، چونکہ انسان کی روح مجرد ہے لہٰذا خواب میں ان دو عالم سے ارتباط پیدا کرتی ہے اور استعداد و امکان کے مطابق حقائق کو درک کرتی ہے اگر روح کامل ہو تو صاف فضا میںحقائق کو درک کرلیتی ہے اور اگر روح کمال کے آخری درجوں تک نہ پہنچی ہو تب بھی حقائق کو دوسرے سانچوںمیں درک کرلیتی ہے ۔

جس طرح عالم بیداری میں ہم شجاعت کو شیر کے سانچے میں ،حیلہ و مکر کو لومڑی کے قالب میں اور بلندی کو پہاڑکی صورت میں دیکھتے ہیں اسی طرح خواب میں علم کو نور ، شادی بیاہ کو لباس اور جہل ونادانی کو سیاہ چہرہ کے قالب میں دیکھتے ہیں ۔اس بحث کے نتیجہ کو ہم چند مثالوں میں پیش کرتے ہیں ۔ جو لوگ خواب دیکھتے ہیں ان کی متعدد قسمیں ہیں :

پہلی قسم : ان لوگوں کا خواب جو کامل اور مجرد روح کے حامل ہیں وہ حواس کے خواب آلود ہونے کے بعد عالم عقل سے ارتباط پیداکرتے ہوئے حقائق کو صاف وشفاف دوسری دنیا سے حاصل کرلیتے ہیں (جیسے ٹی۔وی اپنے مخصوص انٹینے کے ذریعہ کہ جو بلندی پر نصب ہوتاہے دور دراز کی امواج کو بھی باآسانی پکڑ لیتاہے )ایسے خواب جو حقائق کو

————–

( ١ ) المیزان فی تفسیر القرآن ج١١ ص ٢٩٩ .

براہ راست درک کرلیتے ہیں وہ تعبیر کے محتاج نہیں ہوتے ہیں ۔

دوسری قسم : ان لوگوں کا خواب جو متوسط روح کے حامل ہوتے ہیں ایسے افراد حقائق کو دھندلا ، اور تشبیہ و تخیل کے ساتھ دیکھتے ہیں (ایسے خواب کی تعبیر کے لئے ایسا مفسر درکار ہے جو مشاہدات کی دنیا سے دور رہ کر تفسیر کرے یعنی جوکہ خوابوں کی تعبیر جانتا ہو اسے خواب کی تعبیر کرنی چاہیئے )

تیسری قسم : ایسے افراد کا خواب جن کی روح حد درجہ پریشان اور گوناگوں خیالات میں گم ہوتی ہے ایسے لوگوں کا خواب کوئی مفہوم ہی نہیں رکھتا یہ خواب کی وہ قسم ہے جو تعبیر کے قابل نہیں ہے ایسے ہی خواب کو قرآن نے ”اضغاث احلام”(یعنی پریشان کرنے والے خواب)کے نام سے یاد فرمایا ہے۔

ابن سیرین نے خواب کے موضوع پر ایک کتاب لکھی ہے۔ اس میں یہ بیان ہوا ہے کہ جب کسی نے اس سے پوچھا کہ اس خواب کی تعبیر کیا ہے کہ ایک شخص عالم خواب میں منہ اور شرمگاہ پر مہر لگا رہا ہے ؟ تو ابن سیرین نے جواب دیا : وہ شخص ماہ مبارک رمضان کا موذن ہوگا جو اذان کے ذریعہ کھانے اور جماع کوممنوع اعلان کرے گا (یعنی اذان سنتے ہی کھانا پینا اور جماع حرام ہے )

قرآن نے کچھ ایسے خوابوں کا ذکر کیا ہے جو تحقق پذیر ہوئے ہیں ۔ آپ حضرات مندرجہ ذیل خوابوں کو ملاحظہ فرمائیں :

الف۔ حضرت یوسف علیہ السلام کا خواب جس میں انہوں نے گیارہ ستارے اور چاند و سورج کو سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ۔ اس کی تعبیر یہ ہوئی کہ حضرت یوسف (ع)بادشاہ ہوگئے اور بھائیوں اور ماں باپ نے سرتسلیم خم کردیا۔

ب۔ قید خانے میں حضرت یوسف علیہ السلام کے دونوں ساتھیوں کا خواب جس کی تعبیر یہ ہوئی کہ ایک آزاد ہو گیا دوسرے کو سزائے موت سنائی گئی ۔

ج۔ عزیز مصر کا خواب کہ لاغر اور کمزور گائے موٹی تازی گائے کو کھا رہی ہے جس کی تعبیر یہ ہوئی کہ کھیتی ،سرسبزو شادابی کے بعد خشک سالی میں تبدیل ہوگئی ۔

د۔ جنگ بدر میں پیغمبر اسلام (ص) کا خواب جس میں آپ (ص)نے مشرکین کی تعداد کو کم دیکھاجس کی تعبیر مشرکوں کی شکست ہوئی(١ )

ھ۔ حضرت پیغمبر اسلام (ص) کا وہ خواب کہ مسلمین اپنا سر منڈوائے ہوئے مسجد الحرام میں داخل ہورہے ہیں ۔ جس کی تعبیر فتح مکہ اور خانہ خدا کی زیارت ہوئی (٢ )

و۔ حضرت موسیٰ (ع)کی مادر گرامی کا خواب جس میں انہیں جناب موسیٰ (ع)کو صندوق میں رکھ کر دریائے نیل کے حوالے کرنے کا حکم دیا گیا (اذ اوحینا الی امک ما یوحی ان اقذفیہ فی التابوت)(٣ )

” جب ہم نے آپ کی والدہ کی طرف اس بات کا الہام کیا جو بات الہام کی جاتی ہے (وہ یہ)کہ اس (بچے)کو صندوق میں رکھ دیں…”، روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ

————–

( ١ ) سورہ انفال آیت ٤٣.( إِذْ یُرِیکَہُمُ اﷲُ فِي مَنَامِکَ قَلِیلًا وَلَوْ أَرَاکَہُمْ کَثِیراً لَفَشِلْتُمْ وَلَتَنَازَعْتُمْ …)

( ٢ ) سورہ فتح آیت ٢٧.( لَقَدْ صَدَقَ اﷲُ رَسُولَہُ الرُّیَا بِالْحَقِّ …)

( ٣ ) سورہ طہ آیت٣٨۔ ٣٩ .

یہاں وحی سے مراد وہی”خواب”ہے

ز۔ حضرت ابراہیم (ع)کا خواب کہ وہ اپنے فرزند اسماعیل (ع)کو ذبح کررہے ہیں (١ )

قرآنی خوابوں سے صرف نظر کرتے ہوئے ہم اپنی روزمرہ زندگی میں ایسے افراد کو جانتے ہیں جنہوں نے خواب کے ذریعہ بعض ایسے امور سے آگاہی حاصل کی ہے کہ جہاںتک معمولاً انسان کی رسائی ناممکن ہوتی ہے ۔

سید قطب فرماتے ہیں :میں نے امریکہ میں خواب دیکھاکہ میرے بھانجے کی آنکھ سے خون بہہ رہا ہے ۔ میں نے مصر ایک خط لکھا جواب ملایہ بات صحیح ہے حالانکہ خونریزی ظاہراً آنکھوں سے نہیں ہورہی تھی ۔

ملا علی ہمدانی جو کہ مراجع تقلید میں سے تھے ان سے حکایت ہوئی ہے کہ وہ فرمایا کرتے تھے ایک عالم نے خواب میں پیغمبراکرم (ص) کو دیکھا جنہوں نے اس سے فرمایا :

” ابھی جو پیغام ایران سے پہنچا ہے کہ اس سال وجوہات سامرہ سے نہیں پہنچیں گی اس سے پریشان نہ ہوں، الماری میں سو تومان ہیں انہیں لے لو”۔

جب میں خواب سے بیدارہوا تو میرزائے شیرازی کے نمائندے نے دروازہ کھٹکھٹایا اور مجھے ان کے سامنے پیش کردیا میں جیسے ہی حاضر ہوا میرزائے شیرازی نے فرمایا :الماری میں سو تومان ہیں دروازہ کھول کر نکال لو اور مجھے سمجھایا کہ خواب کے موضوع کو ظاہر نہ کرو۔

( ٢ ) سورہ صافات آیت ١٠٢.(فَلَمَّا بَلَغَ مَعَہُ السَّعْیَ قَالَ یٰبُنَيَّ إِنِّي أَرَیٰ فِی الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُکَ …)

صاحب مفاتیح الجنان جناب شیخ عباس قمی (رح) نے اپنے بیٹے کو خواب میں آکرکہا : میرے پاس ایک کتاب امانت تھی اس کو اس کے مالک تک پہنچا دو تاکہ میں برزخ میں آرام سے رہ سکوں ۔ جب وہ خواب سے بیدار ہوئے تو اس کتاب کی تلاش میں لگ گئے جو علامتیں باپ نے بتائی تھیں ان کے مطابق کتاب کو لے کر چلے لیکن راستے میں وہ کتاب گر کر تھوڑی سی خراب ہوگئی ۔اسی کتاب کو انہوں نے مالک تک پہنچادیا اور باپ کی طرف سے عذر خواہی بھی کرلی۔ رات کو محدث قمی دوبارہ اپنے فرزندکے خواب میں آئے اور فرمایا: تم نے اس کتاب کے مالک سے کیوں نہیں کہاکہ وہ کتاب تھوڑی سی خراب ہوگئی ہے تاکہ وہ اگرتاوان چاہتا تو تم سے اسکا مطالبہ کرتایا اسی عیب پر راضی ہوجاتا ۔

پیام :

١۔ ماںباپ اپنے بچوں کی مشکلات کو حل کرنے کیا بہترین ذریعہ ہیں (یا ابت )

٢۔ والدین کو چاہیئے کہ وہ اپنے بچے کے خواب کے بارے میں بھی متوجہ رہیں (یا ابت )

٣۔ خواب کی لغت میں ”اشیاء حقائق کی نمائندگی کرتی ہیں ”(مثلاً خورشید باپ کی اور چاند ماں کی اور ستارے بھائیوں کی علامت ہیں)۔(رایت احد عشرا کوکبا …)

٤۔ کبھی خواب دیکھنا حقائق کو دریافت کرنے کا ایک راستہ ہوتاہے ۔ ( انی رایت )

٥۔ کبھی نوجوانوں میں ایسی صلاحیت ہوتی ہے جو بزرگوں کو سرجھکانے پر مجبور کردیتی ہے (ساجدین )

٦۔ اولیائے خدا کا خواب سچا ہوتاہے (ر ایت )

اس آیت میں ”رایت ”کی تکرار اس بات کی علامت ہے کہ حتماًدیکھاہے۔ واقعہ خیالی و تصوری نہیں ہے بلکہ خارجی حقیقت رکھتاہے ۔

٧۔ حضرت یوسف (ع)شروع میں خواب کی تعبیر نہیں جانتے تھے لہٰذا خواب کی تعبیر کے لئے اپنے باپ سے مدد طلب کی (یا ابت )

( ٥ ) قَالَ یَابُنَیَّ لاَتَقْصُصْ رُیَاکَ عَلَی إِخْوَتِکَ فَیَکِیدُوا لَکَ کَیْدًا إِنَّ الشَّیْطَانَ لِلْإِنسَانِ عَدُوٌّ مُبِینٌ ۔

” یعقوب (ع)نے کہا: اے بیٹا (دیکھو خبردار)کہیں اپنا خواب اپنے بھائیوں سے بیان نہ کرنا (ورنہ) وہ لو گ تمہارے لئے مکاری کی تدبیر کرنے لگیں گے اس میں تو شک ہی نہیں ہے کہ شیطان آدمی کا کھلا ہوا دشمن ہے”۔

نکات :

اصول زندگی میں سے ایک اصل ”راز داری” ہے اگر مسلمانوں نے اس آیت کی روشنی میں عمل کیا ہوتا تو یہ سب استعداد و سرمایہ ، خطی کتابیں ،علمی آثار اور تما م آثار قدیمہ دوسرے ممالک کے میوزیم میں نہ ہوتے اور محقق (Diplomite) وسیاح کے روپ میں دشمن ہمارے منافع ، منابع اور امکانات سے باخبر نہ ہوتااور سادہ لوحی و خیانت کی وجہ سے ہمارے اسرار ایسے لوگوںکے ہاتھ میں نہ جاتے جو ہمیشہ مکر وفریب کے ذریعہ ہماری تاک میں رہتے ہیں ۔

حضرت یوسف علیہ السلام کا اپنے بھائیوںکے سامنے اپنے خواب کو اپنے باپ سے بیان نہ کرنا خود آپ (ع)کی عقل مندی کی علامت ہے ۔

پیام :

١۔والدین کو چاہیئے کہ وہ اپنے بچوں کی خواہشات اور عادات سے آگاہ ہوں تاکہ صحیح راستہ کی رہنمائی کرسکیں ۔ (فیکیدوالک کید )

٢۔ معلومات اور اطلاعات کی تقسیم بندی کرتے ہوئے پوشیدہ اور آشکار چیزوں کو ایک دوسرے سے جدا کرنا چاہئے(لاتقصص )

٣۔ ہر بات کو ہرکس وناکس سے نہیں کہنا چاہیئے (لاتقصص )

٤۔حسادت کی راہوں کو نہ بھڑکائیں(لاتقصص…فیکیدو )

٥۔اگر کچھ خواب بیان کرنے کے لائق نہیں ہوتے تو اس کا مطلب یہ ہواکہ بیداری میں دیکھی جانے والی بہت ساری چیزوں کو بھی بیان نہیں کرنا چاہئے (لاتقصص )

٦۔ انبیاء (ع)کے گھرانوں میں بھی مسائل اخلاقی مثلاً حسد و حیلہ وغیرہ موجود ہیں (یا بنی لاتقصص…فیکیدوا …)

٧۔ اہم مسائل کی صحیح پیش بینی کرتے ہوئے اگر سوء ظن کا اظہار کیا جائے یا بعض خصلتوں سے پردہ فاش کیا جائے تو کوئی برائی نہیں ہے ۔(فیکیدوالک کید )

٨۔ انسان کا مکر و فریب میں مبتلا ہونا شیطانی کام ہے (فیکیدوا…ان الشیطان )

٩۔ شیطان ہماری اندرونی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم پر مسلط ہوجاتا ہے ۔ بھائیوں کے درمیان حسد و جلن کے ماحول نے شیطان کے لئے انسان سے دشمنی کرنے کی راہ کو ہموار کردیا ۔(فیکیدوا…ان الشیطان للانسان عدو مبین )

( ٦ ) وَکَذَلِکَ یَجْتَبِیکَ رَبُّکَ وَیُعَلِّمُکَ مِنْ تَأْوِیلِ الْأَحَادِیثِ وَیُتِمُّ نِعْمَتَہُ عَلَیْکَ وَعَلَی آلِ یَعْقُوبَ کَمَا أَتَمَّہَا عَلَی أَبَوَیْکَ مِنْ قَبْلُ إِبْرَاہِیمَ وَإِسْحَاقَ إِنَّ رَبَّکَ عَلِیمٌ حَکِیمٌ۔

”( جو تم نے دیکھا ہے )ایسا ہی ہو گا تمہارا پروردگار تم کو برگزیدہ قرار دے گا اور تمہیں ان باتوں کے انجام کا علم (اور خوابوں کی تعبیر)سکھائے گا اور وہ اپنی نعمت کو تم پر اور خاندان یعقوب پر اسی طرح پوری کرے گا جس طرح اس سے پہلے تمہارے دادا و پردادا پر اپنی نعمتیں پوری کرچکا ہے بے شک تمہارا پروردگار بڑا واقف کار حکمت والا ہے”۔

نکات :

تاویل خواب باطن کو بیان کرنا اور خواب کے وقوع کی کیفیت ہے ”احادیث”کلمہ ”حدیث” کی جمع ہے یہ کلمہ ”ماجرا بیان کرنے”کے معنی میں استعمال ہوتاہے چونکہ انسان اپنے خواب کو مختلف لوگوں سے بیان کرتاہے لہٰذا خواب کو بھی حدیث کہا جاتا ہے بنابریں ”تاویل الاحادیث”یعنی خوابوں کی تعبیر۔

حضرت یعقوب (ع)اس آیت میں اپنے فرزند جناب یوسف (ع)کو ان کے خواب کی تعبیر بیان کرتے ہوئے ان کے مستقبل کی خبر دے رہے ہیں …

پیام :

١۔ اولیائے الٰہی خواب کے ذریعہ افراد کے مستقبل کا نظارہ کرتے ہیں (یجتبیک ربک و یعلمک )

٢۔ انبیاء علیہم السلام، خداوندعالم کے برگزیدہ افراد ہیں( یجتبیک )

٣۔ انبیاء (ع)اللہ کے بلا واسطہ شاگرد ہیں( یعلمک )

٤۔ مقام نبوت و حکومت، نعمتوں کا سرچشمہ ہے ( ویتم نعمتہ )

٥۔ انبیاء گرامی (ع)کا انتخاب علم و حکمت الٰہی کی بنیاد پر ہے (یجتبیک۔.۔ علیم حکیم )

٦۔ اپنے برگزیدہ بندوں کے لئے خدا وند عالم کا سب سے پہلا تحفہ ”علم ”ہے (یجتبیک ربک و یعلمک )

٧۔ تعبیر خواب ان امور میں سے ہے جسے خداوندمتعال انسان کو عطاکرتاہے ۔ (یعلمک من تاویل الاحادیث )

٨۔ انتخاب میں لیاقت کے علاوہ اصل و نسب بھی اہمیت رکھتاہے (یجتبیک …و ابویک من قبل )

٩۔ قرآن کی لغت میں اجداد باپ کے حکم میں ہیں: ( ابویک من قبل ابراھیم و اسحاق )

( ٧ ) لَقَدْ کَانَ فِی یُوسُفَ وَإِخْوَتِہِ آیَاتٌ لِلسَّائِلِینَ .

” یوسف اور انکے بھائیوں (کے قصہ)میں پوچھنے والوں کےلئے یقینا بہت سی (ارادہ خداکے حاکم ہونے کی) نشانیاں ہیں”۔

نکات :

حضرت یوسف علیہ السلام کی زندگی کی داستان میں بہت سی ایسی علامتیں اور نشانیاں موجود ہیں جن سے خداوندعالم کی قدرت آشکار ہوتی ہے ان میں سے ہر ایک اہل تحقیق و جستجو کے لئے عبرت و نصیحت کا باعث ہے ان میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں :

١۔ حضرت یوسف علیہ السلام کا پُر اسرار خواب (٢)تعبیر خواب کا علم (٣) حضرت یعقوب (ع)کا اپنے فرزند کے مستقبل سے مکمل طور پر آگاہ ہونا (٤)کنویں میں رہنا اور کسی خطرے سے دوچار نہ ہونا(٥) اندھا ہونا اوردوبارہ بینائی کا لوٹنا (٦)کنویںکی گہرائی اور جاہ و جلال کی بلندی (٧)قید خانہ میں جانااور حکومت تک پہنچنا (٨)پاک رہنا اور ناپاکی کی تہمت سننا (٩) فراق و وصال (١٠)غلامی و بادشاہی (١١)گناہوں کی آلودگی کے بجائے زندان کو ترجیح دینا (١٢)اپنی بزرگواری سے بھائیوںکی غلطیوں کو جلد معاف کردینا۔

انہیں نشانیوں کے ساتھ ساتھ بہت سے ایسے سوالات بھی ہیں جن میں سے ہر ایک کا جواب زندگی کی راہوں کو روشن کرنے والا ہے ۔

حسادت انسان کو بھائی کے قتل پر کیسے آمادہ کردیتی ہے ؟

دس آدمی ایک خیانت میں کیسے متحد ہوجاتے ہیں ؟

حضرت یوسف علیہ السلام اپنی بزرگواری کی وجہ سے اپنے خیانت کار بھائیوں کو سزا دینے سے کیسے صرف نظر کرلیتے ہیں ؟

انسان آلودگی اور لذت گناہ پر یاد الٰہی کے ساتھ قید خانہ کو کیسے ترجیح دیتاہے؟

یہ سورہ اس وقت نازل ہوا جب پیغمبر اسلام (ص) اقتصادی اور اجتماعی محاصرہ میں سخت گرفتار تھے۔ یہ داستان ا ۤنحضر(ص)ت کی تسلی ئخاطر کا باعث ہوئی کہ اے پیغمبر اگر آپ کے بعض رشتہ دار ایمان نہیں لاتے ہیں تو آپ رنجیدہ نہ ہوں ،جناب یوسف کے بھائیوں نے تو ان کو کنویں میں ڈال دیا تھا ۔

اس سورہ کی اہم آیتیں سازشوں پر خدا کے غلبہ کے بارے میں ہیں(بشری سازشیں ارادہ الٰہی کے سامنے بیکار ہوجاتی ہیں) حضرت یوسف (ع)کو کنویں میں ڈال دیاتاکہ باپ کے نزدیک محبوب ہوجائیں ۔ لیکن مبغوض ہو گئے دروازوں کو بند کیا گیا تاکہ آپ (ع)شہوت سے آلودہ ہوجائیں لیکن آپ(ع) کی پاکیزگی ثابت ہوگئی ،نہ کنواں ، نہ غلامی نہ قید خانہ نہ قصر اور نہ سازشیں کوئی بھی ارادہ الٰہی پر غالب نہ آسکیں ۔

پیام :

١۔ قصہ بیان کرنے سے پہلے سننے والے کو داستان سننے اور عبرت آموزی کے لئے آمادہ کریں (لقد کان فی یوسف )

٢۔ جب تک سننے اور سیکھنے کے عاشق نہ ہوں اس وقت تک قرآنی درسوں سے بطور کامل فائدہ نہیں اٹھا سکتے ہیں (للسائلین )

٣۔ داستان ایک ہے لیکن اس واقعہ سے حاصل ہونے والے درس اور نکات بہت ہیں ( آیات )

٤۔ قرآنی داستانیں زندگی میں پیش آنے والے بہت سے سوالوں کا جواب دیتی ہیں (للسائلین )

٥۔ ”حسد”خاندان اور رشتہ داری کے محکم ستون کو بھی منہدم کردیتاہے (لقد کان فی یوسف )

( ٨ ) إِذْ قَالُوا لَیُوسُفُ وَأَخُوہُ أَحَبُّ إِلَی أَبِیْنَا مِنَّا وَنَحْنُ عُصْبَ إِنَّ أَبَانَا لَفِیْ ضَلَالٍ مُبِیْنٍ .

” جب (یوسف کے بھائیوں نے)کہا کہ باوجودیکہ ہماری جماعت بڑی طاقت ور ہے تاہم یوسف اور اس کا حقیقی بھائی (بنیامین )ہمارے والد کے نزدیک ہم سے بہت زیادہ پیارے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے والد یقینا صریح غلطی میں ہیں”۔

نکات :

حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ لڑکے تھے ان میں سے دو (یوسف و بنیامین) ایک ماں سے تھے جبکہ باقی دوسری ماں سے تھے۔ باپ کی محبت جناب یوسف (ع)سے (آپ (ع)کے چھوٹے ہونے یا کمالات کی وجہ سے تھی)بھائیوں کے لئے حسد و جلن کا سبب بنی اور حسادت کے علاوہ ”نحن عصب”کہنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے اندر خوئے تکبر اور غرور بھی موجود تھی اور اسی غرور و تکبرکے نتیجہ میں باپ کو بچوں سے محبت کرنے پر انحراف اور غلطی سے متہم کرنے لگے

معاشرے اور سماج میں ایسے افراد بھی موجود ہیں جو خود کو بلندی پر لے جانے کے بجائے بلند افراد کو نیچے لے آتے ہیں ۔ خود محبوب نہیں ہیں لہٰذا محبوب افراد کو داغدار کرتے ہیں ۔

تبعیض و تفاوت کے درمیان فرق: تبعیض کسی کو بغیر دلیل کے برتری دینا ۔تفاوت:لیاقت و شرافت کی بنیاد پر برتری دینا ۔ مثلاًڈاکٹر کے نسخے اور معلم کے نمبر فرق کرتے ہیں لیکن یہ تفاوت حکیمانہ ہے ظالمانہ نہیں ۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کی حضرت یوسف علیہ السلام سے محبت حکیمانہ تھی نہ کہ ظالمانہ لیکن حضرت یوسف (ع)کے بھائی اس محبت کو تبعیض اور بدون دلیل سمجھ رہے تھے ۔

کبھی زیادہ محبت مصیبتوں کا سبب بنتی ہے ۔ حضرت یعقوب – حضرت یوسف – کو بہت چاہتے تھے یہی محبت بھائیوںکے کینہ اور ان کے کنویں میں ڈالے جانے کا سبب بنی اسی طرح” زلیخا کی حضرت یوسف (ع)سے محبت ” قید خانہ میں جانے کا سبب بنی لہٰذا جب حضرت (ع)کے اخلاق سے متاثر ہو کر زندان بان نے کہاکہ میں آپ (ع)سے محبت کرتا ہوں تو حضرت (ع)نے فرمایا : میں ڈرتا ہوں کہیں اس محبت و دوستی کے پیچھے بھی کوئی مصیبت پوشیدہ نہ ہو۔ (١ )

————–

( ١ ) تفسیر الستین الجامع .

پیام :

١۔ اگر اولاد تبعیض اور دو گانگی کا احساس کرلے توا ن کے درمیان حسادت کی آگ بھڑک اٹھتی ہے۔(احب ابینامنّ )

٢۔ بچوں کے درمیان تفاوت کرنے سے باپ سے ان کا عشق و محبت کم ہوجاتاہے (ان ابانا لفی ضلال مبین )

٣۔ طاقت و قدرت محبت آور نہیں ہے (احب الی ابینا و نحن عصب )

٤۔ ”حسد ”نبوت اور پدری حدود کو بھی توڑ دیتاہے اور بچے اپنے باپ کو جو پیغمبر بھی ہیں ”منحرف”اور ”بے انصاف”کہنے لگتے ہیں ۔(ان ابانا لفی ضلال مبین )

٥۔ محبوب نظر ہونے کا عشق اور اسکی محبت ہر انسان کی فطرت میں موجود ہے اگر کوئی انسان سے محبت نہ کرے یا کم توجہی برتے تو انسان کو اس سے تکلیف ہوتی ہے۔(احب الی ابین )

( ٩ ) اقْتُلُوا یُوسُفَ أَوِ اطْرَحُوہُ أَرْضًا یَخْلُ لَکُمْ وَجْہُ أَبِیکُمْ وَتَکُونُوا مِنْ بَعْدِہِ قَوْمًا صَالِحِینَ ۔

”( بھائیوں نے ایک دوسرے سے کہاخیر تو اب مناسب یہ ہے کہ یاتو)یوسف کو مار ڈالو یا (کم از کم ) اس کو کسی جگہ (چل کر)پھینک تو البتہ تمہارے والد کی توجہ صرف تمہاری طرف ہوجائے گی اور اسکے بعد تم سب کے سب (باپ کی توجہ سے)اچھے آدمی بن ج گے”۔

نکات :

جب انسان کو نعمتیں حاصل ہوتی ہیں تو اس کی چار حالتیں ہوتی ہیں ۔حسادت ، بخل ، ایثار، غبطہ ۔ جب یہ فکر ہو کہ اگر ہمارے پاس فلاں نعمت نہیں ہے تو دوسرے بھی اس نعمت سے محروم رہیں تو اسے ”حسادت” کہتے ہیں ۔اگر یہ فکر ہو کہ یہ نعمت فقط میرے پاس رہے دوسرے اس سے بہرہ مند نہ ہوں تو اسے ”بخل”کہتے ہیں اگریہ فکر ہو کہ دوسرے اس سے بہرہ مند ہوں اگرچہ ہم محروم رہیں تو اسے ”ایثار” کہتے ہیں ۔ اگر یہ کہے کہ دوسرے افراد نعمت سے بہرہ مند رہیں ۔اے کاش ہم بھی نعمت سے بہرہ مند ہوتے تو اسے غطبہ اور رشک کہتے ہیں ۔

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: میں کبھی اپنے بچوں سے اظہار محبت کرتاہوں اور انہیں اپنے زانوں پر بٹھاتاہوں جبکہ وہ ان تمام محبتوں کے مستحق نہیں ہوتے (میں اس لئے ایسا کرتا ہوں کہ) کہیں ایسا نہ ہوکہ میرے تمام فرزند ایک دوسرے سے حسد وجلن کرنے لگیں اور حضرت یوسف (ع)کے ماجرے کی تکرار ہوجائے۔(١ )

————–

( ١ ) تفسیر نمونہ بنقل بحار، ج ٧٤ ص ٨٧ .

پیام :

١۔ بُری فکر انسان کو خطرناک عمل کی طرف لے جاتی ہے (لیوسف۔.۔احب ۔۔.اقتلو )

٢۔ حسد وجلن انسان کو بھائی کے قتل پر آمادہ کرتی ہے۔(اقتلوا یوسف )

٣۔انسان ، محبت کا خواہاں ہے اور محبت کا کم ہونابہت بڑے خطرات و انحرافات کا باعث ہوتاہے۔(یخل لکم وجہ ابیکم )

٤۔ اگرچہ قرآن ”محبوبیت کی راہ”ایمان و عمل صالح کو قرار دیتاہے ان الذین

امنوا و عملوا الصالحات سیجعل لھم الرحمن ودّا(١) لیکن شیطان محبوبیت کی راہ کو برادر کشی بتاتا ہے (اقتلوا …یخل لکم وجہ ابیکم )

٥۔ حسد کرنے والا یہ سمجھتا ہے کہ دوسروں کو نابود کرنے سے اسے نعمتیں مل جائیں گی ۔ (اقتلوا …یخل لکم وجہ ابیکم )

٦۔ شیطان کل توبہ کرلینے کا دھوکا دے کر آج گناہ کا راستہ دکھاتا ہے۔ (وتکونوا من بعدہ قوماً صالحین )

٧۔ علم و آگاہی ہمیشہ انحراف سے دوری کا سبب نہیں ہے ۔ جناب یوسف (ع)کے بھائیوں نے قتل اور شہر بدر کرنے کو برا سمجھنے کے باوجود اسی کو انجام دی(و تکونوا من بعدہ قوما صالحین )

( ١٠ ) قَالَ قَائِلٌ مِنْہُمْ لاَتَقْتُلُوا یُوسُفَ وَأَلْقُوہُ فِی غَیَابَ الْجُبِّ یَلْتَقِطْہُ بَعْضُ السَّیَّارَ إِنْ کُنتُمْ فَاعِلِینَ .

” ان میں سے ایک کہنے والا بول اٹھا کہ یوسف کو جان سے تو نہ مارو (ہاں اگر تم کو ایسا ہی کرنا ہے) تو کسی اندھے کنویں میں (لے جاکر)ڈال دو کوئی راہ گیر اسے نکال کر لے جائے گا(اور تمہارا مطلب بھی حاصل ہوجائےگا )”

————–

( ١ ) سورہ مریم آیت ٩٦ .

نکات :

” جُبّ” اس کنویں کو کہتے ہیں جس میں پتھر نہ بچھائے گئے ہوں ”غیابت”بھی ان طاقچوں کوکہتے ہیں جو کنویںکی دیوار میں پانی کے قریب ہوتے ہیں جو اوپر سے دکھائی نہیں دیتے ہیں ۔

نہی از منکر(برائیوں سے روکنا) ایسی برکتوں کا حامل ہے جو آئندہ روشن ہوتے ہیں ۔ (لا تقتلوا)نے حضرت یوسف (ع)کو نجات دلائی اور اس کے بعد آپ (ع)نے ایک مملکت کو قحط سے نجات دلائی اسی طرح جس طرح ایک دن جناب آسیہ نے فرعون سے ” لاتقتلوا”کہہ کرجناب موسی (ع)کو نجات دلائی اور اس کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات دلائی در حقیقت یہ وعدہ الٰہی کا روشن نمونہ ہے خداوندعالم فرماتاہے من احیاء ھا فکانما أحیا الناس جمیعا(١)جو بھی ایک شخص کو حیات دے گا گویا اس نے تمام انسانوں کو زندگی بخش دی۔

پیام :

١۔ اگر برائیوں کو بطور کامل نہیں روک سکتے تو جہاں تک ممکن ہو روکنا چاہئیے۔ (لاتقتلوا …والقوہ )

سورہ مائدہ آیت ٣٢ .

( ١١ ) قَالُوا یَاأَبَانَا مَا لَکَ لاَتَأْمَنَّا عَلَی یُوسُفَ وَإِنَّا لَہُ لَنَاصِحُونَ .

” سب نے (یعقوب سے)کہا اباجان آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ آپ یوسف کے بارے میں ہم پر اعتبار نہیں کرتے حالانکہ ہم لوگ تو اس کے خیر خواہ ہیں”۔

پیام :

١۔ جو لوگ کچھ نہیں ہوتے وہ زیادہ دعوی اور پروپیگنڈا کرتے ہیں ۔ (انا لہ لناصحون )

٢۔ ہر بھائی قابل اطمینان نہیںہے(گویاحضرت یعقوب نے جناب یوسف کوبارہا بھائیوں کےساتھ جا نے سے روکا ہے اسی لئے بھائیوں نے یہ کہہ کر (مالک لاتأمنّ)اعتراض کیا ہے )

٣۔ نعرے بازی سے دھوکا نہ کھ اور بے مسمی اسم سے پرہیز کرو (خائن اپنا نام ناصح رکھتا ہے)(لناصحون )

٤۔ دشمن بد گمانی کو دور کرنے کے لئے ہر قسم کا اطمینان دلاتا ہے ۔ (انالہ لناصحون )

٥۔ خیانت کار اپنی غلطی کو دوسروں کی گردن پر ڈالتاہے ۔(مالک )

٦۔ روز اول ہی سے انسان نے خیر خواہی کے نام پر دھوکا کھایا ہے ، شیطان نے جناب آدم و حوا کوغفلت میں ڈالنے کے لئے یہی کہا تھا کہ میں آپ کا خیر خواہ ہوں (وقاسمھما انی لکما لمن الناصحین)(١)(انا لہ لناصحون )

٧۔بعض و حسد،انسان کو مختلف گناہوں پر مجبور کرتاہے (جیسے جھوٹ ، دھوکہ دینا یہاں تک کہ اپنے محبوب ترین رشتہ دارکو بھی دھوکہ دینا چاہتا ہے ۔(انا لہ لناصحون )

( ١٢ ) أَرْسِلْہُ مَعَنَا غَدًا یَرْتَعْ وَیَلْعَبْ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ .

” آپ اس کو کل ہمارے ساتھ بھیج دیجئے کہ ذرا (جنگل) سے پھل پھلاری کھائے اور کھیلے کودے اور ہم لوگ تو اس کے نگہبان ہی ہیں”۔

نکات :

انسان تفریح و ورزش کا محتاج ہے جیسا کہ اس آیت میں مشاہدہ ہوتاہے کہ وہ قوی ترین منطق و دلیل جس کی بنیاد پر حضرت یعقوب (ع)کو اپنے بیٹوں کی خواہش کو تسلیم کرنا پڑا وہی تفریح ہے کہ یوسف کو تفریح کی ضرورت ہے، بعض روایتوں میں آیا ہے کہ مومن کو اپنا کچھ وقت تفریح ولذات کے لئے مخصوص کرنا چاہیئے تا کہ اس کے وسیلہ سے تمام کام بخوبی انجام دے(٢ )

————–

( ١ ) سورہ اعراف آیت ٢١ .

( ٢ ) نہج البلاغہ حکمت ٣٩٠

فقط کل ہی نہیںبلکہ آج بھی اور آئندہ بھی اس کھیل اور ورزش کے بہانے جوانوں کو سرگرم کیاجارہا ہے اور کیاجاتا رہے گا ہمارے جوانوں کو حقیقی ہدف سے دور اور غفلت میں رکھا جا رہا ہے کھیلوں کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں تاکہ اہم چیزیں کھیل شمار ہونے لگیں ۔ استکبار اور سازشی لوگ صرف کھیل کود سے سوء استفادہ نہیں کرتے بلکہ ہر پسندیدہ و مقبول نام سے اپنے برے اہداف کی ترویج کرتے ہیں، ڈپلومیٹ (diplomate) کے روپ میں خطرناک ترین جاسوسوں کو دوسرے ممالک میں روانہ کرتے ہیں فورس اور دفاعی امور کے مشیر ہونے کے پیچھے سازش کرتے ہیں اور اس کے راز حاصل کرلیتے ہیں ۔

حقوق بشر کے بہانے کرکے اپنے نوکروں کی حمایت کرتے ہیں، دوا کے نام پر اپنے نوکروں کے لئے اسلحہ روانہ کرتے ہیں ، اقتصادی ماہرین کے بہانے ممالک کو کمزور تر بنا دیتے ہیں ، سم پاشی کے بہانے باغات اور کھیتوں کو برباد کردیتے ہیں ۔حتی اسلامی ماہرین کے روپ میں غیر اسلامی چیزوں کو اسلامی لباس میں پیش کرتے ہیں ۔

پیام :

١۔بچے کی تفریح باپ کی اجازت سے ہونی چاہیئے ۔(ارسلہ )

٢۔ورزش و تفریح ، کھیل کود شیطانی جالوںمیں سے ایک جال ہے اور غافل کرنے کا ذریعہ ہے (ارسلہ معنا غدا یرتع و یلعب )

٣۔ بھائیوں نے دھوکہ دینے کے لئے مباح اور منطقی وسیلہ سے سوء استفادہ کیا (ارسلہ …یرتع و یلعب )

( ١٣ ) قَالَ إِنِّی لَیَحْزُنُنِی أَنْ تَذْہَبُوا بِہِ وَأَخَافُ أَنْ یَأْکُلَہُ الذِّئْبُ وَأَنْتُمْ عَنْہُ غَافِلُونَ .

”( یعقوب نے)کہا تمہارا اس کو لے جانا مجھے صدمہ پہنچاتا ہے اور میں تو اس سے ڈرتا ہوں کہ تم سب کے سب اس سے بے خبر ہوج اور (مبادا)اسے بھیڑیا کھا جائے”۔

نکات :

حضرت یعقوب (ع)نے بظاہر بھیڑئے کے حملے سے خوف کا اظہار کیا۔ مصلحتوں کی بنیاد پر حسادت کا ذکر نہیں فرمایاہمارا حال بھی یہی ہے کہ ہمیں جس چیز سے ڈرنا چاہیئے اس سے نہیں ڈرتے۔ ہمیں حساب و کتاب دوزخ سے ڈرنا چاہیئے لیکن نہیں ڈرتے ۔ رزق و روزی، مقام و دولت جو پہلے سے مقدر ہیں اس سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیئے لیکن ہم پھر بھی ڈرتے ہیں!!۔

پیام :

١۔ راز فاش نہ کریں(اخاف ان یاکلہ الذئب) حضرت یعقوب علیہ السلاماپنے بیٹوں کی حسادت سے واقف تھے اسی لئے حضرت یوسف (ع)سے فرمایا تھاکہ بھائیوں سے اپنا خواب بیان نہ کرنا ، لیکن یہاں پر ان کی حسادت کا ذکر نہیں کرتے بلکہ بھیڑئےے اور غفلت کا بہانہ کررہے ہیں ۔

٢۔ اپنے بچوں کی نسبت احساس ذمہ داری پیغمبروں (ع)کی ایک خصلت ہے۔ (لَیَحْزُنُنِی…اخاف )

٣۔ اپنے بچوں کو مستقل بنائیں، عشق پدری اور اپنے بچے کو آنے والے احتمالی خطرہ سے بچانادو حقیقتیں ہیں، لیکن اپنے بچے کو مستقل بنانا بھی ایک حقیقت ہے حضرت یعقوب (ع)نے جناب یوسف (ع)کو تمام بھائیوں کےساتھ روانہ کردیا اسلئے کہ نوجوان کو آہستہ آہستہ باپ سے جدا ہوکر اپنے لئے دوست بنانا چاہیئے اسے فکر کرکے اپنے پیروں پر کھڑا ہونا چاہیئے چاہے کتنی ہی مشکلات اور غم والم کا سامنا کرنا پڑے۔

٤۔جھوٹے کو راستہ نہ دکھ(روایتوںمیں آیا ہے کہ بھیڑئےے کا موضوع جناب یوسف (ع)کے بھائیوں کے ذہن میں نہیں تھا بلکہ حضرت یعقوب (ع)کے بیان نے انہیںاس طرف متوجہ کیا)(١ )

( ١٤ ) قَالُوا لَئِنْ أَکَلَہُ الذِّئْبُ وَنَحْنُ عُصْبَ إِنَّا إِذًا لَخَاسِرُونَ

” وہ لوگ (یعقوب کے بیٹے)کہنے لگے جبکہ ہماری جماعت قوی ہے (اس پر بھی)اگر اس کو بھیڑےا کھاجائے تو ہم لوگ یقینا بڑے گھاٹا اٹھانے والے(نکمے) ٹھہریں گے”۔

————–

( ١ ) تفسیرنورالثقلین

نکات :

” عصب” متحدو قوی گروہ و جماعت کو کہتے ہیں اس لئے کہ وحدت و یکجہتی میں اعصاب بدن کی طرح ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہیں ۔

پیام :

١۔ کبھی بزرگ اپنے تجربہ اور آگاہی کی بنیاد پر خطرے کا احساس کرلیتے ہیں لیکن جوان اپنی طاقت و قدرت پر مغرور ہوتے ہیںاور خطرہ کو مذاق سمجھتے ہیں ۔(نحن عصب)باپ پریشان ہے لیکن بچے اپنی طاقت و قدرت پر نازاں ہیں ۔

٢۔اگر کوئی ذمہ داری کو قبول کرلے اور اسے نہ نبھا سکے تو وہ اپنا سرمایہ ، شخصیت ، آبرواور ضمیر کوخطرے میں ڈال دیتا ہے اور آخر کار نقصان اٹھاتاہے ۔(لخاسرون )

٣۔ظاہری فریب اور جھوٹے احساسات کا اظہار جناب یوسف (ع)کے بھائیوں کا ایک دوسرا حربہ تھا۔(إِنَّا إِذًا لَخَاسِرُونَ )

( ١٥ ) فَلَمَّا ذَہَبُوا بِہِ وَأَجْمَعُوا أَنْ یَجْعَلُوہُ فِی غَیَابَ الْجُبِّ وَأَوْحَیْنَا إِلَیْہِ لَتُنَبِّئَنَّہُمْ بِأَمْرِہِمْ ہَذَا وَہُمْ لاَیَشْعُرُونَ۔

” غرض یوسف کوجب یہ لوگ لے گئے اور اس پر اتفاق کرلیا کہ اسکو اندھے کنویں میں ڈال دیں اور (آخر کاریہ لوگ کر گزرے تو)ہم نے یوسف کی طرف وحی بھیجی کہ (تم گھبر نہیں)ہم عنقریب تمہیں بڑے مرتبہ پر پہنچائیں گے (تب آپ انکے)اس فعل (بد)کے بارے میں انہیں ضرور بتائیں گے جبکہ انہیں اس بات کا شعور تک نہیں ہوگا”۔

نکات :

جب سے خدا نے حضرت یوسف (ع)کوحاکم بنانے کا ارادہ کیا اسی وقت سے ضروری ہوگیاکہ جناب یوسف (ع)چند مراحل سے گزریں غلام بنیں تاکہ غلاموں پر رحم کریں، کنویں اور قید خانہ میں رہیں تاکہ قیدیوں پر رحم کریں ۔ اسی طرح خداوندمتعال اپنے پیغمبر حضرت محمد (ص) سے فرماتاہے کہ آپ فقیر و یتیم تھے پس یتیم و فقیر کو اپنے پاس سے نہ بھگائےں (الم یجدک یتیمافاوی…فاما الیتیم فلا تقھر…) (١ )

پیام :

١۔ کنویں کے اندر جناب یوسف (ع)کے اطمینان کا بہترین وسیلہ روشن مستقبل اور نجات کے بارے میں ”خداکی طرف سے الہام ہے”(اوحینا الیہ )

————–

( ١ ) سورہ ضحی آیت ٦ تا ٩ .

٢۔مخالفین کااتفاق نظر اور اجتماع تمام مقامات پر کارساز اور حقانیت کی دلیل نہیں ہے بلکہ قانون خداوندی ہی حق ہونے کی دلیل ہے ۔(اجمعوا … و اوحیناالیہ )

٣۔ حساس مواقع پر امداد الٰہی ،اولیاء ِخداکی طرف آتی ہے (فی غیابت الجب …و اوحیناالیہ )

٤۔ جناب یوسف (ع)جوانی میں بھی وحی الٰہی کو حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے (اوحیناالیہ )

سازش اور عمل کے درمیان فاصلہ ہوتا ہے (بھائیوں نے کنویں میں پھینکنے کی سازش کی (القوہ)لیکن جب عمل کا مرحلہ آیا تو جناب یوسف (ع)کو کنویں میں چھوڑ دیا (یجعلوہ )

( ١٦ ) وَجَائُوا أَبَاہُمْ عِشَائً یَبْکُونَ .

” اور یہ لوگ (اپنی سازش کو عملی جامہ پہنانے کے بعد) رات کی ابتدا میں اپنے باپ کے پاس (بناوٹی رونا ) روتے ہوئے آئے ”۔

پیام :

١۔ سازش کرنے والے احساسات اور مناسب موقع سے پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہیں ۔(عشائ )

٢۔گریہ ہمیشہ صداقت کی علامت نہیں ہے لہٰذا ہر آنسو پر بھروسہ نہ کریں ۔ (یبکون)(١ )

( ١٧ ) قَالُوا یَاأَبَانَا إِنَّا ذَہَبْنَا نَسْتَبِقُ وَتَرَکْنَا یُوسُفَ عِنْدَ مَتَاعِنَا فَأَکَلَہُ الذِّئْبُ وَمَا أَنْتَ بِمُمِنٍ لَنَا وَلَوْ کُنَّا صَادِقِینَ .

” اور کہنے لگے : اے بابا !ہم لوگ تو جاکر دوڑ لگانے لگے اور یوسف کو (تنہا)اپنے اسباب کے پاس چھوڑ دیا اتنے میں بھیڑیاآکر اسے کھا گیا اور ہم لوگ سچے بھی ہوں پھر بھی آپ کو ہماری باتوں پر یقین نہیں آئے گا”۔

————–

( ١ ) قرآن مجید میں گریہ اور آنسو کی چار قسمیں ہیں :

١۔شوق و محبت کے آنسو۔ عیسائیوں کا ایک گروہ قرآن مجید کی آیتیں سن کر آنسو بہاتا تھا(…تری اعینھم تفیض من الدمع مما عرفوا من الحق) (سورہ مائدہ آیت ٨٣ )

٢۔حزن و حسرت کے آنسو ۔ عشق و محبت سے سرشارمسلمان جیسے ہی رسول اکرم (ص)سے سنتے تھے کہ جنگ میں جانے کی جگہ نہیں ہے تو رونے لگتے تھے۔ (تفیض من الدمع حزنا الا یجدوا ما ینفقون۔) (سورہ توبہ آیت ٩٢ )

٣۔خوف وہراس کے آنسو: اولیاء الٰہی کے سامنے جیسے ہی آیات کی تلاوت ہوتی ہے روتے ہوئے سجدے میں گر پڑتے ہیں: (خرّواسجداو بکیا) (سورہ مریم آیت ٥٨) (و یخرون للاذقان یبکون و یزیدھم خشوعا ۔) ( سورہ بنی اسرائیل آیت ١٠٩ )

٤۔ مگرمچھ کے آنسو:سورہ یوسف کی یہی سولہویں آیت جس میں برادران یوسف اپنے باپ کی خدمت میں روتے ہوئے آئے کہ یوسف کو بھیڑیا کھا گیا۔(یبکون )

نکات :

بھائیوں نے اپنی خطا کی توجیہ کے لئے پے درپے تین جھوٹ کا سہارہ لیا :

١۔ کھیلنے گئے تھے۔

٢۔ یوسف کو سامان کے پاس چھوڑ دیا تھا۔

٣۔ یوسف کو بھیڑیا کھا گیا۔

پیام :

١۔خیانت کار ؛ڈرپوک اور جھوٹا ہوتاہے ، راز فاش ہونے سے ڈرتاہے ۔(ما انت بمومن لنا و لو کنا صادقین )

٢۔مقابلہ و مسابقہ کا رواج گزشتہ ادیان میں بھی تھا ۔(نستبق )

( ١٨ ) وَجَائُوا عَلَی قَمِیصِہِ بِدَمٍ کَذِبٍ قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَکُمْ أَنفُسُکُمْ أَمْرًا فَصَبْرٌ جَمِیلٌ وَاﷲُ الْمُسْتَعَانُ عَلَی مَا تَصِفُونَ

” یہ لوگ یوسف کے کرتے پر جھوٹ موٹ (بھیڑ)کا خون بھی(لگا کے باپ کے پاس)لے آئے ۔ یعقوب نے کہا (بھیڑئےے نے نہیںکھایا ہے)بلکہ تمہارے دل نے تمہارے بچ کے لئے ایک بات گڑھی ہے پھر (تو مجھ کو)صبر جمیل (کرنا)ہے اور جو تم لوگ کہتے ہو اس پر خدا ہی سے مدد مانگی جاتی ہے”۔

نکات :

مقدرات الٰہی پر صبر کرنا اچھی بات ہے لیکن ایک بچے پر جو ظلم ہوا ہے اس پر صبر کرنا کون سی ایسی بات ہے جسے حضرت یعقوب(ع) ”فصبر جمیل”سے یاد فرما رہے ہیں؟

جواب :سب سے پہلی بات تو یہ کہ حضرت یعقوب (ع)وحی کے ذریعہ سے جانتے تھے کہ جناب یوسف (ع)زندہ ہیں ۔دوسری بات یہ کہ جناب یعقوب(ع) کی ذرا سی ایسی حرکت جس سے بھائیوں کو گمان ہوجاتا کہ حضرت یوسف (ع)زندہ ہیں تو وہ کنویں پر جاکر انہیں نیست و نابود کردیتے ،تیسری بات یہ کہ ایسا کام نہیں کرنا چاہیئے کہ حتی ظالموں پر بھی مکمل طور پر توبہ کی راہیں بند ہوجائیں ۔

پیام :

١۔ مظلوم نمائی کے دھوکے میں نہ (جناب یعقوب (ع)خون بھرے کرتے اور آنسو کے فریب میں نہ آئے بلکہ فرمایا یہ تم نے اپنے بچ کے لئے گڑھا ہے)(بل سولت لکم انفسکم )

٢۔سازشوں سے بچتے رہو۔(بدم کذب )

 

٣۔نفس اور شیطان، انسان کے نزدیک گناہ کو اچھا کرکے پیش کرتے ہیں اور گناہگاروں کے لئے طرح طرح کے بہانے بناتے ہیں ۔(بل سولت لکم انفسکم )

٤۔ بہترین صبر وہ ہے جہاں دل جل رہا ہو آنسو نہ تھمتے ہوں پھر بھی خدا فراموش نہ ہو ۔ (واللّٰہ المستعان )

٥۔ باطنی طاقت اور صبر کے علاوہ حوادث میں انسان کو اللہ سے بھی مدد حاصل کرنی چاہیئے ۔ (فصبر جمیل واللّٰہ المستعان )

( ١٩ ) وَجَائَتْ سَیَّارَ فَأَرْسَلُوا وَارِدَہُمْ فَأَدْلَی دَلْوَہُ قَالَ یَابُشْرَی ہَذَا غُلَامٌ وَأَسَرُّوہُ بِضَاعَ وَاﷲُ عَلِیمٌ بِمَا یَعْمَلُونَ .

” اور (خدا کی شان دیکھویوسف کنویں میں تھے کہ )ایک قافلہ (وہاں)آکر اترا ان لوگوں نے اپنے سقے کو (پانی بھرنے)بھیجا اس نے اپنا ڈول ڈالا ہی تھا (کہ یوسف اس میں ہو بیٹھے اور اس نے کھینچا تو باہر نکل آئے)وہ پکارا ! آہا یہ تو لڑکا ہے اور قافلہ والوں نے یوسف کو قیمتی سرمایہ سمجھ کر چھپا رکھا حالانکہ جو کچھ یہ لوگ کر رہے ہیں خدا اس سے خوب واقف ہے”۔

نکات :

خداوندمتعال اپنے مخلص بندوں کو ان کے حال پر نہیں چھوڑتا بلکہ مصیبتوں اور مشکلات سے نجات دیتا ہے ۔

جیسا کہ جناب نوح (ع) کو پانی کے اوپر ، جناب یونس (ع) کو پانی کے اندراور جناب یوسف (ع)کو پانی کے کنارے نجات دی ۔ اسی طرح جناب ابراہیم (ع)کو آگ سے جناب موسیٰ(ع) کو وسط دریا میں اور حضرت محمد مصطفی (ص) کو غارکے اندر ، حضرت علی علیہ السلام کو شب ہجرت رسول اکرم (ص)کے بستر پر سوتے ہوئے نجات دی۔

جب بھی خدا ارادہ کرتا ہے تو انسانی درخواست اور خواہش کے بغیر وہ جامہ عمل سے آراستہ ہوجاتا ہے ۔ جناب موسیٰ(ع) آگ لانے گئے تھے لیکن وحی اور پیغمبری کے ساتھ لوٹے، یہ قافلہ پانی لانے کے لئے گیا تھا لیکن وہ جناب یوسف (ع)کو نجات دے کر لوٹا۔

ارادئہ الٰہی سے کنویں کی رسی وسیلہ قرار پائی کہ جناب یوسف (ع)کنویں کی گہرائی سے نکل کر تخت و تاج اور حکومت تک پہنچیں تو ذرا غور کریں کہ ”حبل اللہ” ( اللہ کی رسی )سے کیا کیا کارنامے انجام پذیر ہوسکتے ہیں اور انسان بلندیوں کی کن منازل تک پہنچ سکتا ہے ۔

پیام :

١۔ جب اپنے حمایت نہیں کرتے توخدا غیروں کے ذریعہ سے مدد کرتا ہے جناب یوسف کے بھائی انہیں کنویں میں ڈال کر چلے گئے لیکن نا آشنا قافلہ نے انہیں نجات دی ۔(جائت سیار )

٢۔کام کا آپس میں تقسیم کرنا معاشرتی زندگی کے اصولوں میں سے ایک اصل ہے (واردھم)(پانی لانے کے ذمہ دار شخص کا ذکر ہے )

٣۔ کچھ لوگ انسان کو بھی بضاعت اور پونجی سمجھنے لگتے ہیں ۔ (بضاع )

٤۔حقیقت دوسروں سے پوشیدہ ہوسکتی ہے لیکن عالم الغیب خدا سے کیسے پوشیدہ ہو(١)(اسروہ … واللہ علیم )

————–

( ١ ) واقعہ یوسف میں ہر گروہ نے کچھ نہ کچھ چھپانا چاہا لیکن خداوندعالم نے سب کچھ آشکار کردیا بھائیوں نے کنویں میں ڈالنے کو چھپایا، زلیخا نے اپنے عشق کو چھپایا ۔ لیکن خدانے ظاہر کردیا .

( ٢٠ ) وَشَرَوْہُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ دَرَاہِمَ مَعْدُودَ وَکَانُوا فِیہِ مِنْ الزَّاہِدِینَ .

”( قافلے والوں نے)یوسف کو بڑی کم قیمت پر چند گنتی کے کھوٹے درہم کے عوض بیچ ڈالا اور وہ لوگ اس میں زیادہ طمع بھی نہیں رکھتے تھے ”۔

نکات :

ہر آدمی اپنے وجود کے یوسف کو سستا بیچ کر پشیمان ہوتا ہے کیونکہ ، عمر ، جوانی ، عزت و استقلال اور انسان کی پاکیزگی ان میں سے ہر ایک یوسف ہے جسے سستا نہیں بیچنا چاہیئے۔

پیام :

١۔ وہ مال جو آسانی سے آتا ہے وہ آسانی سے چلا بھی جاتا ہے ۔(شَرَوْہ )

٢۔ جو شخص کسی چیز کی اہمیت اور قیمت کو نہیں پہچانتااسے سستا بیچ دیتا ہے (بِثَمَنٍ بَخْسٍ)(قافلہ والے حضرت یوسف (ع)کی حقیقت و اہمیت سے نا آشنا تھے )

٣۔ انسان پہلے گرایا جاتا ہے پھر غلام بنایا جاتا ہے اس کے بعد سستا بیچ دیا جاتا ہے۔

٤۔ پیسوں کی تاریخ ،اسلام سے ہزاروں سال پرانی ہے ۔(دَرَاہِمَ ) 

٥۔ نظام غلامی اور غلام فروشی کا سابقہ طولانی ہے ۔ (شَرَوْہ )

٦۔ قانون طلب و رسد (بازار میں مال کی آمد اور خریدار کی کثرت )قیمت کی تعیین میں موثر ہے (چونکہ قافلے والے بیزار تھے اس لئے یوسف کو ارزاں بیچ دیا )

٧۔بے معرفت مردوں نے جناب یوسف (ع)کو کم قیمت میں بیچ دیا لیکن با معرفت عورتوں نے جناب یوسف(ع) کو ایک کریم فرشتہ کہا ۔ روایت میں آیا ہے ”رُبّ امرئ افقہ من الرجل”کتنی ہی ایسی عورتیں ہیں جو مردوں سے زیادہ سمجھ دار ہوتی ہیں ۔

( ٢١ ) وَقَالَ الَّذِی اشْتَرَاہُ مِنْ مِصْرَ لِامْرَأَتِہِ أَکْرِمِی مَثْوَاہُ عَسَی أَنْ یَنفَعَنَا أَوْ نَتَّخِذَہُ وَلَدًا وَکَذَلِکَ مَکَّنَّا لِیُوسُفَ فِی الْأَرْضِ وَلِنُعَلِّمَہُ مِنْ تَأْوِیلِ الْأَحَادِیثِ وَاﷲُ غَالِبٌ عَلَی أَمْرِہِ وَلَکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لاَیَعْلَمُونَ ۔

” اور مصر کے لوگوں میں سے جس نے ان کو خریدا تھا اس نے اپنی بیوی سے کہا : اس کو عزت و آبرو سے رکھو (غلام نہ سمجھو) عجب نہیں یہ ہمیں کچھ نفع پہنچائے یا (شاید) اسکو اپنا بیٹا ہی بنالیں ۔اور یوں ہم نے یوسف کو اس سرزمین میں (جگہ دے کر)قابض بنایا اور غرض یہ تھی کہ ہم اسے خواب کی باتوں کی تعبیر سکھائیں اورخدا تو اپنے کام پر ہر طرح سے غالب و قادر ہے مگر بہتیرے لوگ اسے نہیں جانتے ہیں”۔

نکات :

اگر انسان کا خریدار عزیز ہو تو تلخ حوادث میں بھی انجام اچھا ہوتا ہے لہٰذااگر ہم خود کو واقعی عزیز (یعنی خدائے متعال) کے ہاتھوں بیچ ڈالیں تو آخرت میں خسارت و حسرت میں گرفتار نہ ہوں گے ۔

پیام :

١۔ بزرگواری جناب یوسف (ع)کے چہرہ سے نمایاں تھی یہاں تک کہ جس نے آپ (ع)کو خریدا اس نے بھی اپنی بیوی سے تاکید کردی کہ ان کو غلام کی نگاہ سے نہ دیکھے۔ (أَکْرِمِی مَثْوَاہُ )

٢۔ دل، اللہ کے ہاتھوں میں ہوتے ہیں ۔ لہٰذا حضرت یوسف (ع)کی محبت خریدار کے دل میں بیٹھ گئی ( عَسَی أَنْ یَنفَعَنَا أَوْ نَتَّخِذَہُ وَلَدًا )

٣۔ لوگوں کا احترام کرکے ان سے مدد کی امید رکھ سکتے ہیں (اکرمی… ینفعن )

٤۔ بچے کو گود لینا تاریخی سابقہ رکھتا ہے ( نَتَّخِذَہُ وَلَدًا )

٥۔ علم و قدرت ،ذمہ داری کو قبول کرنے کی دوشرطیں اور نعمت الٰہی ہیں (مَکَّنَّا… َلِنُعَلِّمَہ )

٦۔ تلخیاں برداشت کرنے کا نتیجہ شیرینی ہے ( بِثَمَنٍ بَخْسٍ… مَکَّنَّا لِیُوسُفَ )

٧۔ خدا کا غالب ارادہ جناب یوسف (ع)کو چاہ سے جاہ تک لے گی( مَکَّنَّا لِیُوسُفَ )

٨۔ جس کو ہم حادثہ سمجھتے ہیں در حقیقت خداوندعالم اس کے ذریعہ اپنے ارادے کو عملی جامہ پہنانے کی راہ ہموار کرتا ہے۔( غَالِبٌ عَلَی أَمْرِہِ )

٩۔ لوگ ظاہری حوادث کو دیکھتے ہیں لیکن الٰہی اہداف سے بے خبر ہوتے ہیں (لاَیَعْلَمُون )

( ٢٢ ) وَلَمَّا بَلَغَ أَشُدَّہُ آتَیْنَاہُ حُکْمًا وَعِلْمًا وَکَذَلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِینَ .

” اور جب یوسف اپنی جوانی کو پہنچے تو ہم نے ان کو حکم (نبوت یا حکمت)اور علم عطا کیا اور نیکوکاروں کو ہم ایسے ہی جزا دیا کرتے ہیں ”۔

نکات :

کلمہ”أَشُد” کا ریشہ” شدّ”ہے جو مضبوط گرہ کے معنی میں استعمال ہوتاہے یہاں بطور استعارہ(١) ”روحی و جسمی استحکام ”کے لئے آیاہے ۔

یہ کلمہ قرآن مجید میں کبھی بلوغ کے معنی میں استعمال ہوا ہے جیسے سورہ بنی اسرائیل میں ارشاد ہوا ہے ”حتی یبلغ اشدہ” (٢)یعنی مال یتیم کے قریب نہ ج یہاں تک کہ وہ سن بلوغ تک پہنچ جائے ۔اور کبھی ”یہی ”اشد چالیس سال کے سن کے لئے استعمال ہوا ہے جیسے سورہ احقاف میں ارشاد ہوا ہے ”بلغ اشدہ و بلغ اربعین سن”(٣) اور کبھی بڑھاپے سے پہلی والی زندگی کے لئے استعمال ہوا ہے جیسے سورہ غافر میں ارشاد ہوا ”ثم یخرجکم طفلا ثم لتبلغوا اشد کم ثم لتکونوا شیوخا”(٤ )

————–

( ١ ) استعارہ علم معانی بیان کی ایک اصطلاح ہے جو در حقیقت تشبیہ ہے لیکن فرق یہ ہے کہ تشبیہ میں مشبہ و مشبہ بہ مذکور ہوتاہے لیکن جب یہ حذف ہوجاتے ہیں تو اسے ”استعارہ ”کہتے ہیں ۔مترجم

( ٢ ) سورہ انعام آیت ١٥٢،

( ٣ ) سورہ أحقاف آیت ١٥،

( ٤ ) سورہ غافر آیت ٦٢ .

پیام :

١۔ایک قوم و معاشرے کی رہبری کے لئے علم و حکمت کے علاوہ جسمی طاقت بھی ضروری ہے۔( بَلَغَ أَشُدَّہ )

٢۔علوم انبیاء (ع)اکتسابی نہیں ہیں(آتَیْنَاہُ عِلْمً )

٣۔ الطافِ الٰہی انسان کی لیاقت اور قانون کی بنیاد پر ہےں ۔( نَجْزِی الْمُحْسِنِین )

٤۔ پہلے نیکی اور احسان کرنا چاہیئے تاکہ انعام الٰہی کے لائق ہوسکیں ( نَجْزِی الْمُحْسِنِین )

٥۔نیک کام کرنے والے اس دنیا میں بھی کامیاب ہوجاتے ہیں(کَذَلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِینَ )

٦۔ ہر وہ شخص جو علمی اورجسمانی طاقت رکھتا ہے لطف الٰہی اس کے شامل حال نہیں ہوتا بلکہ محسن ہونا بھی ضروری ہے۔ (نَجْزِی الْمُحْسِنِین )

( ٢٣ ) وَرَاوَدَتْہُ الَّتِی ہُوَ فِی بَیْتِہَا عَنْ نَفْسِہِ وَغَلَّقَتِ الْأَبْوَابَ وَقَالَتْ ہَیْتَ لَکَ قَالَ مَعَاذَ اﷲِ إِنَّہُ رَبِّی أَحْسَنَ مَثْوَایَ إِنَّہُ لاَ یُفْلِحُ الظَّالِمُونَ .

” اور جس عورت کے گھر میں حضرت یوسف رہتے تھے اس نے( اپنا مطلب حاصل کرنے کے لئے) خود ان سے آرزو کی اور تمام دروازے بند کردیئے اور (بے تابانہ ) کہنے لگی : لو میں تمہارے لئے آمادہ ہوںیوسف نے کہا: معاذاللہ(اللہ کی پناہ)وہ میرا پروردگار ہے اس نے مجھے اچھامقام دیا ہے (میں ایسا ظلم کیونکر کرسکتا ہوں)بے شک (ایسا)ظلم کرنے والے فلاح نہیں پاتے ”۔

نکات :

اآیت کے اس جملہ ”إِنَّہُ رَبِّی أَحْسَنَ مَثْوَایَ” کی تفسیر میں دو احتمال پائے جاتے ہیں :

١۔خداوندمتعال میرا پروردگار ہے جس نے مجھے عزت دی ہے اور میں نے اسی کی طرف پناہ لی ہے ۔

٢۔عزیز مصر میرا مالک ہے اور میں نے اس کے دسترخوان پر زندگی گزاری ہے ، اس نے تم سے میرے بارے میں ”اکرمی مثواہ ” کہا ہے لہٰذا میں اس سے خیانت نہیں کرسکتا ۔

یہ دونوں احتمال اپنے لئے دلائل رکھتے ہیں اور شواہد کی بنیاد پر استناد بھی کیا جاتا ہے ۔لیکن ہماری نظر میں پہلا احتمال بہتر ہے کیونکہ حضرت یوسف (ع)نے تقوی الٰہی کی بنیاد پر خود کو گناہ سے آلودہ نہ کیا ۔ نہ یہ کہ اس بنیاد پر پرہیز کیا کہ چونکہ میں عزیز مصر کے گھر میں رہتا ہوں اور اس کے مجھ پر حق ہیں لہٰذا اس کی بیوی کے ساتھ برا قصد نہیں کروں گا ۔ کیونکہ یہ کام تقوی سے کم تر ہے۔

یقینا اس سورہ میں چند جگہوں پر کلمہ (ربّک) سے مراد ”عزیز مصر”ہے لیکن کلمہ ”ربیّ”جو استعمال ہوا ہے اس سے مراد خداوندمتعال ہے۔ دوسری طرف جناب یوسف (ع)کی شان سے بعید ہے کہ وہ خود کو اتنا حقیر بنالیں کہ عزیز مصر کو ”ربیّ”کہنے لگیں ۔

پیام :

١۔ جہاں کم تقوی اور نامحرم عورتیں رہتی ہیں وہاں جوان لڑکوں کو نہیں چھوڑنا چاہیئے کیونکہ وہاں غلط آرزں کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں ۔( وَرَاوَدَتْہُ … فِی بَیْتِہَ )

٢۔ بڑے گناہ نرم لطیف انداز سے شروع ہوتے ہیں ۔ (وَرَاوَدَتْہُ )

٣۔غلط کام کرنے والوں کا نام لینے سے پرہیز کرنا چاہیئے ان کے سلسلے میں فقط اشارہ کنایہ سے بات کرنی چاہیے ۔(الَّتِی )

٤۔ مرد کا پاک ہونا کافی نہیں ہے کیونکہ کبھی کبھی عورتیں بھی مردوں کے لئے پریشانی کا باعث ہوتی ہیں(وَرَاوَدَتْہُ )

٥۔ نامحرم مرد و عورت کا کسی ایسی جگہ جمع ہونا جہاں کوئی نہ ہو ،گناہ کی راہ ہموار کرتا ہے (غَلَّقَتِ الْأَبْوَابَ وَقَالَتْ ہَیْتَ لَکَ )

٦۔ہمیشہ تاریخ میں ”زنا کا گناہ ایک ثابت شدہ جرم ہے”اسی وجہ سے عزیز مصر کی بیوی نے تمام دروازوں کو مضبوطی سے بند کردیا تھا۔ (غَلَّقَتْ الْأَبْوَابَ )

٧۔ رسوائی سے بچنے کے لئے بذات خود اقدامات کئےے۔ (غَلَّقَتْ )

٨۔ عشق بطور دفعی اور یک بارگی نہیںہوتا بلکہ دل لبھانے کے نتیجہ میں تدریجاً پیدا ہوتا ہے یوسف کا مسلسل گھر میں رہنا عشق کا باعث ہوا۔( فِی بَیْتِہَ )

٩۔ شہوت کی طاقت اس حد تک ہے کہ بادشاہ کی بیوی بھی اپنے غلام کی اسیر ہوجاتی ہے ۔ ( وَرَاوَدَتْہُ الَّتِی )

١٠۔ تقوی کی بہترین قسم یہ ہے کہ خدا سے محبت کی بنیاد پر گناہ نہ کریں نہ کہ دنیا میں رسوائی اور آخرت کے خوف سے گناہ ترک کریں ۔( مَعَاذَ اﷲِ إِنَّہُ رَبِّی أَحْسَنَ مَثْوَایَ )

١١۔تمام دروازے بند ہیں لیکن خدا کی پناہ کا دروازہ کھلا ہے۔(غَلَّقَتِ الْأَبْوَاب …مَعَاذَ اﷲِ )

١٢۔ تقوی اور انسانی ارادہ انحراف اور غلطیوں کی راہ پرغالب آسکتا ہے (مَعَاذَ اﷲِ)(١ )

( ١ ) اولیاء الٰہی خدا کی پناہ حاصل کرتے ہیں اور اس سے فائدہ بھی اٹھاتے ہیں ۔حضرت موسیٰ(ع) نے فرعون کے فتنوں سے خدا کی پناہ مانگی ( انی عذت بربی و ربکم من کل متکبر لا یومن بیوم الحساب .) (سورہ مومن آیت ٢٧)،جناب مریم کی والدہ فرماتی ہیں : خدایا میں مریم اور اسکی نسل کو تیری پناہ میں دیتی ہوں (انی اعیذھا بک و ذریتھا من الشیطان الرجیم ۔) (سورہ آل عمران آیت ٣٦)خداوندعالم اپنے پیغمبر کو اپنی ذات کی پناہ حاصل کرنے کا حکم دیتا ہے۔ (قل اعوذ… )(سورہ فلق آیت ١، سورہ ناس آیت ١ )

————–

( ١ ) بحار۔ج،١٠ ص ٢٢٧

١٣۔خدا سے لو لگانا گناہ اور لغزش سے دور رہنے کا سبب ہے ۔( مَعَاذَ اﷲِ )

١٤۔ اگر ہماراکوئی بزرگ یا سربراہ گناہ کا حکم دے تو ہمیں اس کی اطاعت نہیںکرنا چاہیئے ( ہَیْتَ لَکَ قَالَ مَعَاذَ اﷲِ ) (لا طاع لمخلوق فی معصی الخالق)لوگوں کی اطاعت کے لئے اللہ کی معصیت نہیں کرنا چاہیئے (١ )

١٥۔ اعوذ باللہ کہنے کے بجائے یک بیک خدا کی پناہ میں چلے گئے اور ”مَعَاذَ اﷲِ”کہہ دیا تاکہ اپنی پناہندگی (کہ میں نے خود پناہ حاصل کی ہے)کو بیان نہ کریں درحقیقت حضرت یوسف(ع) اپنے لئے کسی کمال کے قائل نہ ہوئے۔

١٦۔گناہ کے انجام کی یاد، گناہ کرنے سے روکتی ہے ۔(لاَ یُفْلِحُ الظَّالِمُون )

١٧۔ زنا یا پاک دل نوجوان کے خلاف سازش کرنا ،خود اپنے او پر ،اپنے شوہر یا بیوی پر ،معاشرے اور معاشرے کے افراد پر ظلم ہے۔ (لاَ یُفْلِحُ الظَّالِمُون )

١٨۔ پل بھر کا گناہ انسان کو ابدی فلاح و بہبود سے روک دیتا ہے۔ (لاَیُفْلِحُ الظَّالِمُون )

١٩۔ گناہ کرنا ناشکری اور کفران نعمت ہے ۔ (لاَ یُفْلِحُ الظَّالِمُون )

( ٢٤ ) وَلَقَدْ ہَمَّتْ بِہِ وَہَمَّ بِہَا لَوْلاَ أَنْ رَّأَی بُرْہَانَ رَبِّہِ کَذَلِکَ لِنَصْرِفَ عَنْہُ السُّوءَ وَالْفَحْشَاءَ إِنَّہُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِینَ .

”( عزیز مصر کی بیوی )زلیخا نے تو ان کے ساتھ (برا)ارادہ کر ہی لیا تھا اور اگر یہ بھی اپنے پروردگار کی دلیل نہ دیکھ چکے ہوتے تو (غریزہ کی بنیاد پر)قصد کر بیٹھتے(ہم نے اس کو یوں بچایا)تاکہ ہم اس کو برائی اور بدکاری سے دور رکھیں، بے شک وہ ہمارے خالص بندوں میں سے تھا”۔

نکات :

امام جعفرصادق علیہ السلام نے فرمایا: ”برہان رب” علم و یقین اور حکمت کا نور تھا جس کو خداوندعالم نے گزشتہ آیتوں میں ذکر فرمایا ہے (آتیناہ علما و حکما)(١)اور جیسا کہ بعض روایتوں میں آیاہے کہ برہان رب سے مراد ؛باپ یا جبرئیل (ع)کی صورت دیکھنا ہے، اس کی کوئی محکم سند نہیں ہے۔

قرآن مجید میں کئی مرتبہ اولیائے خداکے بارے میں دشمنان دین کی سازشوں اور ارادوں کا ذکر آیا ہے لیکن ان تمام موارد میںخداوندعالم نے ان کی سازشوں پر پانی پھیر دیا مثلاًجنگ تبوک سے واپسی پر منافقین نے چاہاکہ پیغمبر اسلام (ص)کے اونٹ کو بھڑکا کر آنحضر(ص)ت کو شہید کردیں لیکن وہ اپنے ارادے میں کامیاب نہ ہوسکے ، (وھموا بما لم ینالوا)(٢ )

————–

( ١ ) تفسیر کشف الاسرار .

( ٢ ) ۔ سورہ توبہ آیت ٧٤ .

نیز کچھ لوگوں نے پیغمبر اسل(ص)م کو منحرف کرنے کاارادہ کیا (فھمّت طائف منہم ان یضلوک)(١ )

یا دست درازی کا ارادہ کیا لیکن کامیاب نہیں ہوئے (ھمَّ قوم ان یبسطوا الیکم ایدیھم فکف ایدیھم عنکم (٢ )

پیام :

١۔ اگر امداد الٰہی نہ ہو تو ہر شخص کے پیر پھسل جائیں(وَہَمَّ بِہَا لَوْلاَ أَنْ رَأَی بُرْہَانَ رَبِّہِ )

٢۔ خداوندمتعال اپنے مخلص بندوں کی حفاظت کرتا ہے ۔( لِنَصْرِفَ عَنْہُ السُّوئَ… إِنَّہُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِینَ )

٣۔انبیاء (ع)میں عام انسانوں کی طرح غریزہ شہوت موجود ہے لیکن خدا پر قوی ایمان ہونے کی بنیاد پر گناہ نہیں کرتے(٣) (ہَمَّ بِہَا لَوْلاَ أَنْ رَأَی بُرْہَانَ رَبِّہ )

————–

( ١ ) سورہ نساء آیت ١١٣ .

( ٢ ) سورہ مائدہ آیت ١١ .

(3) حضرت یوسف (ع)پاکدامن اور معصوم تھے ۔ اسکی دلیل ان لوگوں کا بیان ہے جو کسی نہ کسی طرح آپ (ع)سے متعلق تھے ۔ بطور نمونہ کچھ دلیلیں ملاحظہ ہوں ۔١۔خداوندعالم نے فرمایا: لِنَصْرِفَ عَنْہُ السُّوءَ وَالْفَحْشَاءَ إِنَّہُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِینَ۔٢۔خود حضرت یوسف (ع)نے فرمایا:رب السجن احب الی مما یدعوننی الیہ۔پروردگارا! قید خانہ میرے لئے اس سے بہتر ہے جسکی طرف یہ لوگ مجھے بلا رہے ہیں ۔دوسری جگہ پھر فرمایا:انی لم اخنہ بالغیب۔میں نے صاحب خانہ کے پیچھے خیانت نہیں کی ہے ۔٣۔زلیخا نے کہا :E

( ٢٥ ) وَاسْتَبَقَا الْبَابَ وَقَدَّتْ قَمِیصَہُ مِنْ دُبُرٍ وَأَلْفَیَا سَیِّدَہَا لَدَی الْبَابِ قَالَتْ مَا جَزَاءُ مَنْ أَرَادَ بِأَہْلِکَ سُوئً ا إِلاَّ أَنْ یُسْجَنَ أَوْ عَذَابٌ أَلِیمٌ .

” اور دونوں دروازے کی طرف جھپٹ پڑے اور زلیخا نے پیچھے سے ان کا کرتہ (پکڑ کر کھینچا)اور پھاڑ ڈالا ،ناگہانی دونوں نے زلیخا کے شوہر کو دروازے کے پاس کھڑا پایا، زلیخا (یوسف سے انتقام لینے یا اپنی پاکدامنی ثابت کرنے کے لئے )جھٹ (اپنے شوہر)سے کہنے لگی کہ جو تمہاری بیوی کے ساتھ بدکاری کا ارادہ کرے اسکی سزا اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ یا تو قید کردیا جائے یا دردناک عذاب میں مبتلا کردیا جائے ”؟۔

————–

F لقد روادتہ عن نفسہ فاستعصم۔یقینا میں نے یوسف کو لبھایا تھا لیکن وہ معصوم ہیں ۔٤۔عزیز مصر نے کہا : یوسف اعرض عن ھذا واستغفری لذنبک۔اے یوسف تم اس ماجرا سے صرف نظر کرلو ۔ اور زلیخا سے کہا : تم اپنے گناہ سے توبہ کرو۔٥۔شاہد جس نے گواہی دی کہ اگر کرتہ پیچھے سے پھٹا ہے تو معلوم ہو گا کہ یوسف پاکدامن ہیں ۔(ان کان قمیصہ…)۔٦۔ مصر کی عورتوں نے گواہی دی کہ ہم جناب یوسف کے بارے میں کوئی گناہ نہیں جانتیں، (ما علمنا علیہ من السوئ)٧۔ابلیس کہ جس نے تمام لوگوں کو فریب دینے کا وعدہ کیا ہے اس نے کہا :الاعبادک منہم المخلَصین۔میں تیرے مخلص بندوں کا مقابلہ نہیں کرسکتا ، اور یہ آیت جناب یوسف (ع)کو ”مخلَص” کہہ رہی ہے ۔

نکات :

” استباق” کے معنی یہ ہیں کہ دو یا چند آدمی ایک دوسرے سے سبقت و پہل کریں ”قدّ” لمبائی میں پھٹ جانے کو کہتے ہیں ۔ ”لفائ”یعنی ناگہاں پالینا۔

پیام :

١۔ صرف معاذاللہ کہنے سے کچھ نہیں ہوتا بلکہ گناہ سے فرار بھی ضروری ہے۔ (وَاسْتَبَقَا )

٢۔ کبھی ظاہری عمل ایک ہوتا ہے لیکن اہداف مختلف ہوتے ہیں ایک دوڑتا ہے تاکہ گناہ میں ملوث نہ ہو ،دوسرا دوڑتا ہے تاکہ گناہ سے آلودہ کردے۔( اسْتَبَقَا )

٣۔ گناہ کی جگہ سے فرار کرنا اور ہجرت ضروری ہے ۔(اسْتَبَقَا الْبَابَ )

٤۔دروازے بند ہونے کا بہانہ کرنا کافی نہیں ہے بلکہ بند دروازے کی طرف بھاگنا چاہیئے شاید کھل جائے ۔ (اسْتَبَقَا الْبَابَ )

٥۔ عزیز مصر کی بیوی نے اپنے شوہر کے احساس اور اس کی محبت سے خوب خوب فائدہ اٹھانا چاہا۔( بِأَہْلِک )

٦۔ مجرم خود کو بری الذمہ کرنے کےلئے دوسروں پر تہمت لگاتا ہے۔(أَرَادَ بِأَہْلِکَ سُوئ )

٧۔ شکایت کرنے والا کبھی کبھی خود مجرم ہوتاہے ۔( قَالَتْ مَا جَزَائ …)

٨۔ ہمیشہ سے شوہر دار عورت پر دست درازی کوجرم شمار کیا گیا ہے ۔( مَا جَزَاءُ مَنْ أَرَادَ بِأَہْلِکَ سُوئً )

٩۔ قید خانہ اور مجرموں کو قید کرنا تاریخی سابقہ رکھتاہے ۔( یُسْجَنَ )

١٠۔ عزیز مصر کی طرف سے سزا کا اعلان کرنا بیوی کی قدرت و طاقت کی علامت ہے ۔( یُسْجَنَ أَوْ عَذَابٌ أَلِیمٌ )

١١۔ ہوس آلود عشق ،ایک پل میں عاشق کو قاتل بنا دیتاہے۔ ( یُسْجَنَ أَوْ عَذَابٌ أَلِیمٌ )

( ٢٦ ) قَالَ ہِیَ رَاوَدَتْنِی عَنْ نَفْسِی وَشَہِدَ شَاہِدٌ مِنْ أَہْلِہَا إِنْ کَانَ قَمِیصُہُ قُدَّ مِنْ قُبُلٍ فَصَدَقَتْ وَہُوَ مِنْ الْکَاذِبِینَ .

” یوسف نے کہا : اس نے خود مجھ سے (میری خواہش کے برخلاف)میری آرزو کی تھی اور زلیخا ہی کے کنبہ والوں میں سے ایک گواہی دینے والے نے گواہی دی کہ اگر ان کا کرتا آگے سے پھٹا ہوا ہے تو یہ سچی ہے اور وہ جھوٹے (کیونکہ ایسی صورت میں یوسف اور عزیز مصر کی بیوی آگے سے ایک دوسرے سے درگیر ہوتے اور کرتا آگے سے پھٹتا )”

نکات :

بعض روایتوں میں آیا ہے کہ وہ گواہ ایک بچہ تھا جس نے جناب عیسی ٰ علیہ السلام کی طرح گہوارے میں گواہی دی لیکن چونکہ اس کی سند محکم نہیں ہے لہٰذا اس پر اعتبار نہیں کرسکتے ہیں، بہتر یہی ہے کہ عزیز مصر کے مشاوروں میں سے ایک مشورہ دینے والے کو مانیں جو اس کی زوجہ کے خاندان سے تھا اور ذہین و ہوشمند تھا اور وہ عزیز مصر ہی کی طرح واقعہ کا گواہ ہو گیا۔ کیونکہ اگر وہ ماجرے کا عینی گواہ ہوتا تو جملہ شرطیہ کے ساتھ واقعہ کی گواہی دینا بے معنی ہو جائے گا ۔(ان کان…)(١) (اگرایسا …)

پیام :

١۔جناب یوسف (ع)نے بات شروع نہیں کی ۔ اگر عزیز کی زوجہ آپ (ع)پر تہمت نہ لگاتی تو شاید آپ(ع) اس کی آبروریزی نہ کرتے اور یہ نہ کہتے: ( ہِیَ رَاوَدَتْنِی )

٢۔ جس پر تہمت لگائی جارہی ہے اس کو اپنا دفاع کرنا چاہیئے اور اصلی مجرم کو پہنچنواناچاہیئے۔ ( ہِیَ رَاوَدَتْنِی )

٣۔ جن راہوں کا وہم و گمان بھی نہیں ہوتا خدائے متعال ان راہوں سے مدد فرماتاہے ۔ (شَہِدَ شَاہِدٌ مِنْ أَہْلِہَ )

————–

( ١ ) مقدسات پر تہمت لگانے کا مسئلہ قرآن مجید میں بہت جگہوں پر موجود ہے مثلاًحضرت مریم پر زنا کی تہمت لگائی گئی لیکن خداوند نے نجات دی ۔ پیغمبر اسلام کی بیوی پر بھی تہمت لگائی گئی اور یہاں جناب یوسف (ع)کی طرف بدکاری کی نسبت دی گئی۔

٤۔ جرم شناسی میں باریک نکات سے مسائل کو کشف کیا جاتا ہے ۔ ( إِنْ کَانَ قَمِیصُہ …)

٥۔ قاضی قرائن کی بنیاد پر فیصلہ کرسکتا ہے۔ ( مِنْ قُبُل )

٦۔ بے گناہ کا دفاع واجب ہے ، خاموشی ہر جگہ اچھی نہیں ہوتی۔(شَہِدَ شَاہِدٌ )

٧۔ جب خدا چاہتا ہے تو مجرم کے رشتہ دار بھی اس کے خلاف گواہی دیتے ہیں ۔ (شَہِدَ شَاہِدٌ مِنْ أَہْلِہَ )

٨۔ گواہی میں حسب و نسب ، موقعیت اور رشتہ داری نہیں دیکھنی چاہئےے ۔ (شَہِدَ شَاہِدٌ مِنْ أَہْلِہَ )

( ٢٧ ) وَإِنْ کَانَ قَمِیصُہُ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ فَکَذَبَتْ وَہُوَ مِنْ الصَّادِقِینَ .

” اور اگر ان کا کرتہ پیچھے سے پھٹا ہوا ہو تو یہ جھوٹی اور وہ سچے ہیں”۔

نکات :

جناب یوسف (ع)کی داستان میں آپ (ع)کا کرتا بڑا کار ساز ہے ۔ ایک جگہ کرتہ کا پیچھے سے پھٹا ہوناآپ(ع) کی بے گناہی اور زلیخا کا جرم ثابت کر گیا ۔

دوسری جگہ کرتہ کا نہ پھٹنا بھائیوں کے جرم کا گواہ بن گیا کیونکہ جب انہوں نے جناب یوسف (ع)کو کنویں میں ڈالنے کے بعد آپ (ع)کے پیراہن کو خون آلودکر کے باپ کی خدمت میں دکھایا اور کہا کہ جناب یوسف (ع)کو بھیڑیا کھا گیا ہے تو جناب یعقوب (ع)نے پوچھا : پھر کرتہ کیوں نہیں پھٹا ؟ اور قصہ کے آخر میں بھی کرتہ باپ کی بینائی کا سبب بنا۔

پیام :

١۔ جرم اور مجرم کی تشخیص کے لئے جرم شناسی کے طریقوں کا اپنانا ضروری ہے ۔ (إِنْ کَانَ قَمِیصُہُ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ …)

( ٢٨ ) فَلَمَّا رَأَی قَمِیصَہُ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ قَالَ إِنَّہُ مِنْ کَیْدِکُنَّ إِنَّ کَیْدَکُنَّ عَظِیمٌ۔

” پھر جب عزیز مصر نے ان کا کرتاپیچھے سے پھٹا ہوا دیکھا (تواپنی بیوی سے )کہنے لگا: یہ تم ہی لوگوں کے چلتر ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ تمہارے چلتر بڑے (غضب کے)ہوتے ہیں”۔

نکات :

کَیْدَکُنَّ سے مراد یہ ہے کہ پاک لوگوں پر تہمت لگانا اور خود سے بغیر پریشانی کے جلد از جلد تہمت کو دور کردینا۔

اگرچہ قرآن مجید نے شیطان کے کید اور فریب کو کمزور شمار کیا ہے ۔ ان کید الشیطان کان ضعیفا۔(١)لیکن اس آیت میں عورتوں کے چلتر کو بڑا بتایا گیا ہے۔ صاحب تفسیر صافی فرماتے ہیں شیطان کا وسوسہ تھوڑی دیر کے لئے ، پیچھے سے ، غائبانہ اور چوری چھپے ہوتا ہے لیکن عورت کا فریب لطائف و محبت کے ساتھ ، سامنے سے اور دائمی ہوتاہے ۔

کبھی کبھی خدا بڑے بڑے کام چھوٹی چھوٹی چیزوں کے ذریعہ انجام دیتا ہے ۔ ابرہہ کو ابابیل کے ذریعہ سرنگوں کرتاہے ، مکڑی کے جالے سے پیغمبر اسلام کی حفاظت کرتاہے ، کوّے کے ذریعہ نسل بشر کو تعلیم دی جاتی ہے ، گود کے بچے کے ذریعہ جناب مریم (ع)کی عفت اور پاکدامنی ثابت ہوتی ہے ، پیچھے سے پھٹے ہوئے کرتے سے جناب یوسف کی پاکدامنی ثابت کرتاہے ،ہدہد کی خبر ایک ملک کو باایمان بنا دیتی ہے اور اصحاب کہف کا انکشاف پیسے کے نمونے کے ذریعہ فرماتا ہے۔

پیام :

١۔ حق نہیں چھپتا لیکن مجرم رسوا ہوجاتا ہے ( إِنَّہُ مِنْ کَیْدِکُنَّ )

٢۔ ناپاک عورتوں کے مکر و فریب سے بچنا چاہیئے کیونکہ ان کا چلتر بڑے غضب کا ہوتا ہے ۔ ( إِنَّ کَیْدَکُنَّ عَظِیمٌ )

————–

( ١ ) سورہ نساء آیت ٧٦ .

( ٢٩ ) یُوسُفُ أَعْرِضْ عَنْ ہَذَا وَاسْتَغْفِرِی لِذَنْبِکِ إِنَّکِ کُنتِ مِنْ الْخَاطِئِین .

”( اور عزیز مصر نے یوسف سے کہا:)اے یوسف اس کو جانے دو (اسے کہیں اور بیان نہ کرنا)اور (اپنی بیوی سے کہا:)تو اپنے گناہ کی معافی مانگ، کیونکہ بے شک تم ہی از سر تاپا خطاکاروں میں سے ہو”۔

پیام :

١۔ عزیز مصر چاہتا تھا کہ یہ بات مخفی رہ جائے لیکن سارا جہاں اس واقعہ سے مطلع ہو گیا تا کہ جناب یوسف (ع)کی پاکدامنی ثابت ہوجائے ۔( یُوسُفُ أَعْرِضْ عَنْ ہَذَ )

٢۔ عزیز مصر نے بھی دوسرے کاخ نشینوں کی طرح ناموس اور غیرت کے سلسلے میں کاہلی کی اور اپنی بیوی کی سرزنش و توبیخ سنجیدگی سے نہیں کی ۔ (وَاسْتَغْفِرِی )

٣۔ غیر الٰہی نمائندے اپنی بیویوں کی غیر اخلاقی حرکات پر ان کے خلاف کوئی سنجیدہ اور فیصلہ کن اقدام کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ۔ (وَاسْتَغْفِرِی )

٤۔ عورت کا اپنے شوہرکے علاوہ کسی دوسرے سے جنسی رابطہ نامشروع و ناجائز ہے ۔ (وَاسْتَغْفِرِی لِذَنْبِک )

( ٣٠ ) وَقَالَ نِسْوَہٌ فِی الْمَدِینَ امْرَ الْعَزِیزِ تُرَاوِدُ فَتَاہَا عَنْ نَفْسِہِ قَدْ شَغَفَہَا حُبًّا إِنَّا لَنَرَاہَا فِی ضَلَالٍ مُبِینٍ۔

” اور شہر (مصر) میں عورتیں چرچا کرنے لگیں کہ عزیز (مصر) کی بیوی اپنے غلام سے (ناجائز) مطلب حاصل کرنے کی آرزومند ہے بےشک غلام نے اسے اپنی الفت میں لبھایا ہے ہم لوگ تو اسے صریح غلطی میں مبتلا دیکھتے ہیں”۔

نکات :

” شغاف ” ”دل کے اوپر پیچیدگی کو یادل کے اوپر نازک جلد جو دل کو اپنے گھیرے میں لئے رہتی ہے ”اسے کہتے ہیں اس جملہ میں شَغَفَہَا حُبًّا،کے معنی یہ ہیں کہ دل میں محبت رچ بس گئی ہے اور عشق شدید ہو گیا ہے (١ )

ہر شخص جناب یوسف (ع)کو اپنانا چاہتاہے جناب یعقوب (ع)اپنا فرزند جانتے ہیں (یا بُنیَّ ) قافلے والے آپ (ع)کو اپنا سرمایہ سمجھتے ہیں (شروہ بثمن بخس) عزیز مصر آپ (ع)کو اپنا گود لیا ہوا فرزند سمجھتا ہے (نتخذہ ولدا) زلیخا آپ (ع)کو اپنا معشوق سمجھتی ہے (ْ شَغَفَہَا حُبًّا)قیدی آپ (ع)کو خواب کی تعبیرکرنے والا سمجھتے ہیں (نبئنا بتاویلہ)لیکن خدا آپ کو اپنا برگزیدہ بندہ اور رسول سمجھتا ہے (یجتبیک ربک)اور جو کچھ جناب یوسف (ع)کے لئے رہ گیا تھا وہ مقام رسالت تھا (واللہ غالب علی امرہ )

————–

( ١ ) تفسیر نمونہ .

پیام :

١۔ حکومتی افراد اور ان کے خاندان کی خبریں جنگل کی آگ کی طرح پھیل جاتی ہیں ۔ (قَالَ نِسْوَ … امْرَ الْعَزِیز )

٢۔ جب خدا چاہتا ہے تو دروازہ بند کرنے کے بعد بھی رسوائی کا داغ دامن کردار پر لگ ہی جاتا ہے ۔ (قَالَ نِسْوَ … امْرَ الْعَزِیزِ تُرَاوِدُ …)

( ٣١ ) فَلَمَّا سَمِعَتْ بِمَکْرِہِنَّ أَرْسَلَتْ إِلَیْہِنَّ وَأَعْتَدَتْ لَہُنَّ مُتَّکَأً وَآتَتْ کُلَّ وَاحِدَ مِّنْہُنَّ سِکِّینًا وَقَالَتِ اخْرُجْ عَلَیْہِنَّ فَلَمَّا رَأَیْنَہُ أَکْبَرْنَہُ وَقَطَّعْنَ أَیْدِیَہُنَّ وَقُلْنَ حَاشَ لِلَّہِ مَا ہَذَا بَشَرًا إِنْ ہَذَا إِلاَّ مَلَکٌ کَرِیمٌ .

” تو جب زلیخا نے ان کے طعنے (اور بد گوئی) سنے تو اس نے عورتوں کو بلا بھیجا اور ان کےلئے ایک تکیہ گاہ آمادہ کی اور ان میں سے ہر ایک کے ہاتھ میں ایک چھری دے دی (تاکہ پھل وغیرہ کاٹ سکیں)اور یوسف سے کہا : اب ان کے سامنے سے نکل تو ج ، پس جب عورتوں نے انہیں دیکھا تو انہیں بڑا حسین پایا اور وہ سب کی سب (بیخودی ) میں اپنے ہاتھ کاٹ بیٹھیں اور کہنے لگیں پاک ہے اللہ ،یہ آدمی نہیں ہے یہ تو (ہو نہ ہو بس)ایک معزز فرشتہ ہے ”۔

نکات :

کلمہ” حاشا” اور ”تحاشی” کنارے اور الگ تھلگ رہنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ،پرانے زمانے میں یہ رسم تھی کہ لوگ کسی کو بے عیب بتانا چاہتے تھے تو سب سے پہلے خداوندعالم کے بے عیب ہونے کو بیان کرتے پھر اس شخص کی بے عیبی کو بیان کرتے تھے۔(١ )

————–

( ١ ) تفسیر المیزان .

پیام :

١۔کبھی کبھی دوسروں کے مسائل پیش کرنے کا ہدف دلسوزی نہیں ہوتی بلکہ حسد و جلن، سازش اور ان کے خلاف نقشہ کشی مدنظر ہوتی ہے ۔(مَکْرِہِنّ )

٢۔ جب عشق ہو جاتا ہے تو انسان ہاتھ کٹنے پر بھی متوجہ نہیں ہوتا ۔ (قَطَّعْنَ أَیْدِیَہُنّ)(اب اگر آپ نے سنا کہ نماز کے وقت حضرت علی علیہ السلام کے پیروں سے تیر نکال لیا گیا لیکن آپ متوجہ نہ ہوئے تو اس پر تعجب نہ کیجئے ، اس لئے کہ اگر ظاہری حسن اور سطحی عشق ہاتھ کٹنے کی حد تک بڑھ سکتا ہے تو جمال واقعی سے گہرا عشق و محبت انسان کو کس کمال تک پہنچا سکتا ہے؟ )

٣۔ فوراً کسی پر تنقید نہیں کرنی چاہیئے اس لئے کہ اگر اس کی جگہ پر آپ ہوتے تو شاید وہی کام کرتے ۔ (قَطَّعْنَ أَیْدِیَہُنّ)(تنقید کرنے والیوں نے جب ایک لحظہ کے لئے جناب یوسف کو دیکھا تو عزیز مصر کی بیوی کی طرح یوسف کی محبت میں گرفتار ہو گئیں ۔ )

٤۔کبھی کبھی مکر کا جواب مکر سے دیا جاتا ہے (عورتوں نے عزیز مصر کی بیوی کا راز فاش کرنے کی سازش کی تھی لیکن اس نے مہمان بلا کر تمام سازشوں سے پردہ فاش کردیا۔ ( أَرْسَلَتْ إِلَیْہِنّ )

٥ ۔ بزرگ اور بزرگواری کے مقابلہ میں انسان فطری طور پر انکساری وتواضع سے پیش آتا ہے ۔ (أَکْبَرْنَہ )

٦۔ اہل مصر اس زمانے میں خدا اور فرشتوں پر ایمان رکھتے تھے ۔ ( حَاشَ لِلَّہِ … مَلَکٌ کَرِیمٌ )

( ٣٢ ) قَالَتْ فَذَلِکُنَّ الَّذِی لُمْتُنَّنِی فِیہِ وَلَقَدْ رَاوَدتُّہُ عَنْ نَفْسِہِ فَاسْتَعْصَمَ وَلَئِنْ لَمْ یَفْعَلْ مَا آمُرُہُ لَیُسْجَنَنَّ وَلِیَکُوناً مِّنَ الصَّاغِرِینَ۔

”( تب زلیخا ان عورتوں سے بولی جو اپنے ہاتھ کاٹ چکیں تھیں)بس یہ وہی تو ہے جس کے بارے تم سبمجھے ملامت کرتی تھیں اور ہاں بے شک میں اس سے اپنا مطلب حاصل کرنے کی خود اس سے آرزو مند تھی مگر اس نے اپنی عصمت قائم رکھی اور جس کام کا میں حکم دیتی ہوں اگر یہ نہ کرے گا تو ضرور قید بھی کیا جائے گا اور خوار بھی ہوگا”۔

نکات :

نفسیاتی اور معاشرتی شرائط انسان کے عکس العمل میں اثر انداز ہوتے ہیں جب زلیخا اپنے برے کام کے آشکار ہونے سے ڈری تو ”غلقت الابواب” دروازے بند کر ڈالے ،لیکن جب مصر کی عورتوں کو اپنی طرح دیکھتی ہے تو علی الاعلان کہتی ہے ”انا راودتہ” میں اس کی آرزومند تھی ۔

اسی طرح جب کسی معاشرے میں برائی کا احساس ختم ہوجاتا ہے تو ان کے لئے گناہ بڑے آسان ہو جاتے ہیں ۔ شاید اسی کو روکنے کے لئے ہم دعائے کمیل میں پڑھتے ہیں ”اللھم اغفرلی الذنوب التی تھتک العصم ”پروردگارا! میرے ان گناہوں کو بخش دے جو حیا کے پردے کو چاک کر دیتے ہیں ۔ کیونکہ شروع میں انسان کے لئے گناہ کرنا سخت ہوتا ہے لیکن جب حیا و شرم ختم ہوجاتی ہے تو پھر گناہ کرنا آسان ہو جاتا ہے ۔

پیام :

١۔ دوسروں پر ایسی ملامت نہ کرو جس میں خود ہی گرفتار ہوج ( فَذَلِکُنَّ الَّذِی لُمْتُنَّنِی فِیہِ )

٢۔گناہ سے آلودہ عشق ،رسوائی کا سبب ہوتا ہے ۔( رَاوَدتُّہ )

٣۔ جھوٹا رسوا ہوتا ہے ۔ جس نے کل کہا تھا کہ یوسف (ع)بدکاری کرنا چاہتے تھے (اراد باھلک سوئ)وہی آج کہہ رہی ہے۔ ( لقدرَاوَدتُّہ)میں نے آرزو کی تھی ۔

٤۔ کبھی دشمن بھی اپنے مدمقابل کی پاکدامنی کی گواہی دیتا ہے۔ (فَاسْتَعْصَمَ) کبھی کبھی مجرم کا ضمیر بھی بیدار ہوجاتا ہے ۔

٥۔ پاکدامنی نبوت کا لازمہ ہے ۔( فَاسْتَعْصَمَ )

٦۔ بہت سے پاکدامن افراد اپنے ارادے اور قصد سے زندان میں جاتے ہیں (فَاسْتَعْصَمَ… لَیُسْجَنَنَّ)جناب یوسف اپنی پاکدامنی کے باوجود قید خانہ میں ڈال دئے جاتے ہیں ۔

٧۔ قدرت و طاقت سے غلط فائدہ اٹھانا اہل طاغوت کا طریقہ کار ہے۔ (لَیُسْجَنَن )

٨۔ قید اور رسوا ئی کی دھمکی ،اہل طاغوت کا وطیرہ و حربہ ہے ۔( لَیُسْجَنَنَّ… الصَّاغِرِین )

٩۔ ناکام عاشق دشمن ہو جاتا ہے ۔( قَالَت…لَیُسْجَنَنَّ وَلِیَکُوناً مِنَ الصَّاغِرِینَ )

١٠۔ محل میں رہنے والوں میں غیرت کی حس ختم ہوجاتی ہے( عزیز مصر نے اپنی بیوی کی خیانت کو سمجھ لیا تھا اور اس سے توبہ کرنے کے لئے بھی کہا تھا لیکن اس کے باوجود جناب یوسف (ع)اور زلیخا کے درمیان جدائی نہ ڈالی )

( ٣٣ ) قَالَ رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَیَّ مِمَّا یَدْعُونَنِی إِلَیْہِ وَإِلاَّ تَصْرِفْ عَنِّی کَیْدَہُنَّ أَصْبُ إِلَیْہِنَّ وَأَکُنْ مِّنَ الْجَاہِلِینَ .

”( یہ سب باتیں سن کر یوسف نے)عرض کی اے میرے پالنے والے جس بات کی یہ عورتیں مجھ سے خواہش رکھتی ہیں اس کی نسبت مجھے قید خانہ زیادہ پسند ہے اور اگر تو ان عورتوں کا فریب مجھ سے دفع نہ فرمائے گا تو (مبادا)میں ان کی طرف مائل ہوجں اور جاہلوں سے شمار کیا جں”۔

نکات :

جناب یوسف (ع)،سراپا جواں مرد تھے۔ ایک بار بھائیوں کی حسادت کے نتیجے میں فدا ہوئے لیکن دشمنی نہیں کی ۔دوسری مرتبہ زلیخا کی شہوت کی وجہ سے قربان ہوئے لیکن گناہ نہیں کیا ۔ تیسری دفعہ قدرت کے وقت آپ (ع)نے اپنے بھائیوں سے انتقام نہیں لیا۔ چوتھی مرتبہ جیسے ہی ملک کوخطرے میں دیکھاتو وطن لوٹنے کی خواہش کے بجائے ملک کی نجات اور اقتصادی امور کی تدبیر میں لگ گئے ۔

ہر شخص کے لئے کوئی نہ کوئی چیز محبوب ہوتی ہے جناب یوسف (ع)کو اپنی پاکدامنی، عورتوں کی آرزں سے زیادہ محبوب ہے۔ ایک گروہ کےلئے دنیا زیادہ محبوب ہے یستحبون الحیوٰ الدنیا (١) اور مومنین کے لئے اللہ محبوب تر ہے ۔ والذین آمنوا اشد حبّاً للّٰہ(٢)(٣ )

————–

( ١ ) سورہ ابراہیم آیت ٣ .

( ٢ ) سورہ بقر آیت ١٦٥ .

( ٣ ) واضح ہے کہ جناب یوسف(ع) کامرتبہ اس سے بھی بلند و بالا ہے ۔ مترجم .

پیام :

١۔ خداکی ربوبیت کی طرف متوجہ ہونا آداب دعا میں سے ایک ادب ہے۔ (رَبِّ )

٢۔ اولیائے خدا شریفانہ زندگی کی پریشانیوں کو،گناہوں میں ملوث آرام دہ زندگی سے بہتر سمجھتے ہیں ۔ ( رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَیَّ )

٣۔ہر آزادی کی اہمیت و عظمت نہیں ہے اور ہر قید خانہ عیب کا باعث نہیں ہے ( رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَیَّ )

٤۔ انسان، خداکی مدد کی بنیاد پر ہر قسم کے حالات اور شرائط میں گناہ سے کنارہ کشی کرسکتا ہے ۔( رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ)(گناہ کے ماحول سے ہجرت ضروری ہے )

٥۔ رنج ومحن گناہ کے مرتکب ہونے کا جواز نہیں ہوسکتے۔( رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ …)

٦۔ گناہ اور جنسی انحرافات سے محفوظ رہنے کےلئے خدا سے دعا اور مدد مانگنی چاہیئے(رَبِّ السِّجْنُّ …)

٧۔ انسان کی شخصیت اسکی روح سے وابستہ ہے نہ کہ اسکے جسم سے اگر روح آزاد ہو تو زندان بھی بہشت ہے اور اگر روح تکلیف میں ہو تو محل سرا بھی قید خانہ ہوتا ہے( السِّجْنُ أَحَبّ )

٨۔یا تو تمام عورتیں جناب یوسف (ع)کی عاشق ہو گئیں اور ان تک پیغام بھجوایا یا پھر انہوں نے جناب یوسف (ع)کو عزیز مصر کی بیوی کی درخواست قبول کرنے کے لئے کہا (کَیْدَہُنَّ ، یَدْعُونَنِی )

٩۔ کوئی بھی انسان لطف خدا کے بغیر ،گناہوں سے محفوظ نہیں رہ سکتاہے۔ (وَإِلاَّ تَصْرِفْ عَنِّی…)بحرانی مواقع میں تنہا راہ نجات خدا پر بھروسہ ہے۔

١٠۔الٰہی امتحان لحظہ بہ لحظہ سخت سے سخت تر ہوتا جاتا ہے جناب یوسف (ع)پہلے ایک عورت کے مکر میں گرفتار تھے اب کئی عورتوں کے مکر میں گرفتار ہوگئے ( کَیْدَہُنَّ ، إِلَیْہِنَّ )

١١۔ خدا کی ناراضگی مول لے کر لوگوں کو راضی کرنا ،جہالت اور نادانی ہے۔ (مِمَّا یَدْعُونَنِی … وَأَکُنْ مِنْ الْجَاہِلِینَ۔ )

١٢۔ گناہ ؛ وہبی اور خدا دادی علم کے سلب ہونے کا باعث بنتا ہے۔ (اتیناہ علما وحکما…اکن من الجاھلین )

١٣۔ صرف علم کا نہ ہونا جہالت نہیں ہے بلکہ ایک لحظہ کی لذت کا انتخاب کرنا اور رضائے الٰہی سے چشم پوشی بھی سب سے بڑی نادانی ہے۔ (اکن من الجاھلین )

( ٣٤ ) فَاسْتَجَابَ لَہُ رَبُّہُ فَصَرَفَ عَنْہُ کَیْدَہُنَّ إِنَّہُ ہُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ .

” تو ان کے پروردگار نے ان کی سن لی اور ان سے عورتوں کے مکر کو دفع کردیا اس میں شک نہیں کہ وہ بڑا سننے والا واقف کار ہے”۔

پیام :

١۔اللہ والے مستجاب الدعوات ہوتے ہیں ۔ ( فَاسْتَجَابَ لَہُ )

٢۔ جو شخص بھی خدا کی پناہ گاہ میں چلاجائے وہ ہر چیز سے محفوظ رہتا ہے۔ (فَاسْتَجَابَ لَہُ رَبُّہُ فَصَرَفَ عَنْہُ کَیْدَہُنَّ )

٣۔ استجابت دعا خدا کے سمیع و بصیرا ور علیم ہونے کی دلیل ہے۔ (فَاسْتَجَاب … ہُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ )

( ٣٥ ) ثُمَّ بَدَا لَہُمْ مِنْ بَعْدِ مَا رَأَوُا الْآیَاتِ لَیَسْجُنُنَّہُ حَتَّی حِینٍ ۔

” پھر (عزیز مصر اور اس کے لوگوں نے )باوجودیکہ (یوسف کی پاکدامنی کی )نشانیاں دیکھ لی تھیں اسکے بعد بھی ان کو یہی مناسب معلوم ہوا کہ کچھ مدت کے لئے ان کو قید ہی کر دیں”۔

پیام :

١۔ حسن و خوبصورتی ہمیشہ خوش بختی نہیں ہے بلکہ )کبھی کبھی( درد سر بھی بن جاتا ہے ۔( ثُمَّ بَدَا لَہُمْ … لَیَسْجُنُنَّہُ )

٢۔ ایک دیوانہ اگر کنویں میں ایک سوئی ڈال دے توسو(١٠٠) عقلمند مل کر بھی باہر نہیں نکال سکتے ایک عورت عاشق ہو گئی لیکن اتنے مرد اور حکومتی افراد مل کر بھی اس رسوائی سے بچنے کے لئے کوئی فکر اور تدبیر نہ کر سکے۔(بَدَا لَہُمْ مِنْ بَعْدِ مَا رَأَوْ )

٣۔ اہل طاغوت کے درباروں اور محلوں میں عدالت کا نفاذ اور محاکمہ دکھاوے کے لئے ہوتاہے تاکہ بے گناہ لوگوں کو محکوم کیا جا سکے ۔( لَیَسْجُنُنَّہُ )

٤۔ کاخ نشین عام طور پر لا پرواہ اور بے شرم ہوتے ہیں ۔( مِنْ بَعْدِ مَا رَأَوُا الْآیَاتِ لَیَسْجُنُنَّہُ )جناب یوسف کی پاکدامنی کی ان تمام دلیلوں کے باوجود آپ کو قید خانہ میں ڈال دیتے ہیں ۔

( ٣٦ ) وَدَخَلَ مَعَہُ السِّجْنَ فَتَیَانِ قَالَ أَحَدُہُمَا إِنِّی أَرَانِی أَعْصِرُ خَمْرًا وَقَالَ الْآخَرُ إِنِّی أَرَانِی أَحْمِلُ فَوْقَ رَأْسِی خُبْزًا تَأْکُلُ الطَّیْرُ مِنْہُ نَبِّئْنَا بِتَأْوِیلِہِ إِنَّا نَرَاکَ مِنْ الْمُحْسِنِینَ ۔

” اور قید خانے میں یوسف کے ساتھ دو جوان بھی داخل ہوئے (چند دن کے بعد)ان میںسے ایک نے کہا کہ میں نے (خواب) دیکھا ہے کہ میں شراب (بنانے کے واسطے انگور) نچوڑ رہا ہوں اور دوسرے نے کہا (میں نے بھی خواب میں)اپنے کو دیکھاکہ میں اپنے سرپر روٹی اٹھائے ہوئے ہوں اور پرندے اس میں سے کھا رہے ہیں (یوسف) ہمیں اس کی تاویل بت ،یقینا آپ ہمیں ایک نیک انسان نظر آتے ہیں ”۔

نکات :

ایک حدیث میں آیا ہے کہ جناب یوسف (ع)کو نیک انسان کہنے کی وجہ یہ تھی آپ (ع)قید خانہ میں مریضوں کی خدمت کرتے تھے اور محتاجوں کی مشکلات کو دور کرنے نیز تمام لوگوں کی مشکل حل کرنے کی سعی فرماتے تھے (١ )

————–

( ١ ) تفسیر نور الثقلین ۔ میزان الحکم مادہ (سجن )

پیام :

١۔ تاریخی طور پر قیدی اور قید خانہ کا سابقہ بہت قدیمی ہے ۔ ( وَدَخَلَ مَعَہُ السِّجْنَ )

٢۔ جناب یوسف (ع)کا قید خانہ ،عمومی تھا۔ ( مَعَہُ السِّجْن )

٣۔ لوگوں کا احترام کرنا چاہیئے۔ قرآن کریم جناب یوسف (ع)کے قیدی ساتھیوں کو

( فتیان) کہہ رہا ہے ۔

٤۔ تمام خوابوں کو آسان نہیں سمجھنا چاہیئے کیونکہ بعض خوابوں میں اسرار پوشیدہ ہوتے ہیں (أَرَانِی أَعْصِرُ خَمْرً)۔(ممکن ہے کہ معمولی انسان بھی اہم خواب دیکھ لیں )

٥۔ اگرانسان کسی پر اعتماد کرلیتاہے تو اسکو اپنے تمام راز بتا دیتاہے( إِنَّا نَرَاکَ مِنْ الْمُحْسِنِینَ )

٦۔نیک سیرت افراد قید خانہ میں بھی دوسروں کو متاثر کردیتے ہیں( إِنَّا نَرَاکَ مِنْ الْمُحْسِنِینَ )

٧۔ مجرم اور گناہ کار لوگ بھی نیک طینت افراد کے لئے ایک خاص مقام و منزلت کے قائل ہوتے ہیں ۔( إِنَّا نَرَاکَ مِنْ الْمُحْسِنِینَ )

( ٣٧ ) قَالَ لاَیَأْتِیکُمَا طَعَامٌ تُرْزَقَانِہِ إِلاَّ نَبَّأْتُکُمَا بِتَأْوِیلِہِ قَبْلَ أَنْ یَأْتِیَکُمَا ذَلِکُمَا مِمَّا عَلَّمَنِی رَبِّی إِنِّی تَرَکْتُ مِلَّ قَوْمٍ لاَیُمِنُونَ بِاﷲِ وَہُمْ بِالْآخِرَ ہُمْ کَافِرُونَ .

” یوسف نے کہا : اس سے پہلے کہ جو کھانا تمہیں (قید خانہ سے ) دیا جاتا ہے وہ آئے میں تمہیں اسکی تعبیر بتادوں گا یہ (تعبیر خواب بھی)منجملہ ان باتوں میں سے ہے جو میرے پروردگار نے مجھے تعلیم فرمائی ہیں،میں نے ان لوگوں کا مذہب چھوڑ دیا ہے جو خدا پرایمان نہیں لاتے اور آخرت کے بھی منکر ہیں ”۔

نکات :

آیت کے ترجمے کے پہلے حصے میں یہ احتمال ہے کہ لاَیَأْتِیکُمَا… کا مقصود یہ ہو کہ میں خدا کی طرف سے جانتا ہوں کہ وہ غذا جو تمہارے لئے لائیں گے وہ کیا ہے ۔ لہٰذا میں تمہارے خواب کی تعبیر بھی کرسکتا ہوں یعنی جناب یوسف (ع)نے تعبیر خواب کے علاوہ دوسری چیزوں کی بھی خبردی ہے جس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام گھروںمیںجو کچھ غذں کا ذخیرہ ہوتا تھا اور جو لوگ جو کچھ کھاتے تھے سب کی خبر دے دیتے تھے ۔

سوال:جناب یوسف (ع) نے ان کے خواب کی تعبیر فوراً کیوں نہیں بتائی بلکہ اس کو کچھ دیرکے لئے مخر کیوںکردیا؟ اس سوال کے جواب کو فخر رازی کی زبان سے ملاحظہ فرمائیے :

١۔جناب یوسف (ع)ان کو انتظار میں رکھنا چاہتے تھے تاکہ اس مدت میں ان کو نصیحت اور تبلیغ کرسکیں تاکہ شاید وہ شخص جس کو پھانسی دی جانے والی ہے وہ ایمان لے آئے اور باایمان اور عاقبت بخیر اس دنیا سے کوچ کرے ۔

٢۔جناب یوسف (ع)اس غذا کی قسم کو بیان کر کے جو ابھی نہیں آئی تھی ا نکا اعتماد حاصل کرنا چاہتے تھے ۔

٣۔جناب یوسف (ع)ان کو زیادہ تشنہ کرنا چاہتے تھے تاکہ وہ اچھی طرح سنیں ۔

٤۔چونکہ ان میں سے ایک کے خواب کی تعبیر پھانسی تھی لہٰذا دھر ادھر کی باتیں کررہے تھے تاکہ یہ بات سنتے ہی اس کی روح پرواز نہ کرجائے۔

پیام :

١۔ کبھی کبھی زیادہ متاثر کرنے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ انسان علمی قدرت اور کمالات کو دوسروں سے بیان کرے ۔(نَبَّأْتُکُمَا بِتَأْوِیلِہِ )

٢۔ فرصت سے خوب فائدہ اٹھانا چاہیئے ۔(نَبَّأْتُکُمَا بِتَأْوِیلِہِ… إِنِّی تَرَکْتُ مِلَّ…)جناب یوسف (ع)نے تعبیر خواب سے پہلے انکی تربیت اور عقیدہ کی اصلاح شروع کی۔

٣۔ اپنی معلومات اور علم کو خدا کی عطا قرار دینا چاہیئے ۔ (عَلَّمَنِی رَبِّی )

٤۔ تعلیم کاہدف تربیت بھی ہے (عَلَّمَنِی رَبِّی )

٥۔ خداوندعالم حکیم ہے لہٰذا بغیر کسی وجہ کے اپنے علم کے دروازے ہر کس و ناکس پر نہیں کھولتا (عَلَّمَنِی رَبِّی )اس لئے کہ میں نے( تَرَکْتُ مِلَّ قَوْمٍ لاَ یُمِنُونَ) اس قوم کے عقیدہ کو چھوڑ دیا جو ایمان دار نہیں ہے ۔

٦۔جو کفر کی ظلمتوں سے فرار کرتا ہے اسکی نور ِعلم تک رسائی ہوتی ہے (عَلَّمَنِی رَبِّی… إِنِّی تَرَکْتُ)میرے علم کا سبب کفر کو ترک کرنا ہے ۔

٧۔ تمام ادیان آسمانی میں توحید اور معاد کا عقیدہ ایک دوسرے کے ساتھ لازم ہے ۔ (قَوْمٍ لاَ یُمِنُونَ بِاﷲِ وَہُمْ بِالْآخِرَ ہُمْ کَافِرُونَ )

٨۔ ایمان کی بنیاد تولیٰ اور تبرا ہے لہٰذا اس آیت میں کفار سے برائت اور بعد والی آیت میں اولیاء الٰہی سے تولیٰ کا تذکرہ ہے۔(إِنِّی تَرَکْتُ…واتبعت )

( ٣٨ ) وَاتَّبَعْتُ مِلَّ آبَائِی إِبْرَاہِیمَ وَإِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ مَا کَانَ لَنَا أَنْ نُشْرِکَ بِاﷲِ مِنْ شَیْءٍ ذَلِکَ مِنْ فَضْلِ اﷲِ عَلَیْنَا وَعَلَی النَّاسِ وَلَکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لاَیَشْکُرُونَ .

” اور میں تو اپنے باپ دادا ابراہیم و اسحاق و یعقوب کے مذہب کا پیرو ہوں ہمارے لئے مناسب نہیں ہے کہ ہم خدا کے ساتھ کسی چیز کو (اس کا) شریک بنائیں یہ بھی خدا کی ایک بڑی مہربانی ہے ہم پر بھی اور تمام لوگوں پر، مگر بہترے لوگ (اس کا)شکر (بھی )ادا نہیں کرتے”۔

نکات :

خاندانی شرافت جس طرح لوگوں کی شخصیت سازی میں موثر ہے اسی طرح قبول کرنے میں بھی اثر انداز ہے لہٰذا حضرت یوسف علیہ السلام خود کو پہچنوانے کےلئے نہ صرف اپنے باپ دادا کے انبیاء (ع)ہونے پر انحصار کررہے ہیں بلکہ اپنی خاندانی شرافت و عظمت کو پیش کرنے کےساتھ ہی ساتھ اپنی دعوت حق کی اہمیت کو بھی اجاگر کر رہے ہیں یہ وہی روش ہے جسے اپنا تعارف کروانے کےلئے ہمارے پیغمبر (ص) نے اختیار فرمایا : میں وہی نبی امی ہوں جسکا نام و تعارف توریت و انجیل میں موجود ہے ۔ نیز امام حسین علیہ السلام اور امام زین العابدین علیہ السلام نے بھی کربلا و شام میں اپنی معرفت کروانے کےلئے اسی روش سے استفادہ فرمایا تھا: (انا بن فاطم الزھر(ع))(١)۔

کلمہ ”ملت” قرآن مجید میںدین و مذہب کے معنی میں استعمال ہوا ہے سورہ حج کی ٧٨ ویں آیت میں مل ابراھیم کی تصویر کشی اسطرح کی گئی ہے ”اور خدا کی راہ میں ایسے جہاد کرو جیسے جہاد کرنے کا حق ہے اس( خدا)نے تمہیں منتخب کیا اور دین کے معاملہ میں تمہیں کسی مشکل سے دوچار نہیں کیا ،یہ تمہارے باپ ابراہیم کا دین ہے .۔۔لہٰذا نماز قائم کرو اور زکو دیا کرو اوراللہ کے ساتھ متمسک رہو۔۔ ”

————–

( ١ ) میں فرزند فاطمہ الزہرا (ع)ہوں ۔

پیام :

١۔ حق تک پہنچنے کے لئے باطل کی شناخت اور اسے ترک کرنا ضروری ہے (تَرَکْتُ مِلَّ قَوْمٍ لاَیُمِنُونَ وَاتَّبَعْتُ مِلَّ …)

٢۔ دادا ، باپ کے حکم میں ہے لہٰذا دادا کو بھی ”اب ”کہا گیا ہے ۔( مِلَّ آبَائِی إِبْرَاہِیمَ وَإِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ )

٣۔انبیاء (ع)کو پاک اور شریف خاندان سے ہونا چاہیئے ( آبَائِی إِبْرَاہِیمَ وَإِسْحَاقَ …)

٤۔تمام انبی(ع)ء ِالٰہی کا ہدف ایک ہے ( مِلَّ آبَائِی إِبْرَاہِیمَ وَإِسْحَاقَ …)

٥۔نبوت اور ہدایت تمام بشریت کےلئے توفیق اور فضل الٰہی ہے (عَلَیْنَا وَعَلَی النَّاسِ )

٦۔ منفی راہوں کے ساتھ مثبت راستوں کی نشاندہی کرنا بھی ضروری ہے۔ (تَرَکْتُ مِلَّ… وَاتَّبَعْتُ مِلَّ …)

٧۔ توحید کی طرف رجحان اور شرک سے پرہیز کے لئے ”توفیق الہی”ضروری ہے۔ (ذَلِکَ مِنْ فَضْلِ اﷲِ …)

٨۔ شرک تمام صورتوں میں قابل مذمت ہے (ذات ، صفات ، افعال اور عبادات)( مِنْ شَیْئٍ )

٩۔ ”کثرت افراد ”شناخت کے لئے صحیح معیار نہیں ہے (أَکْثَر النَّاسِ لاَیَشْکُرُونَ )

١٠۔ انبیاء (ع)کی راہ سے روگردانی بہت بڑی کفران نعمت ہے ۔ ( لاَیَشْکُرُونَ )

١١۔ شرک کرنا ، خداتعالیٰ کی ناشکری ہے ( لاَیَشْکُرُونَ )

( ٣٩ ) یَاصَاحِبَیِ السِّجْنِ أَأَرْبَابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَیْرٌ أَمِ اﷲُ الْوَاحِدُ الْقَہَّارُ .

” اے میرے قید خانہ کے دونوں رفیقو! (ذرا غور تو کرو کہ) بھلا جدا جدا معبود اچھے ہیں یا خدائے یکتا زبردست”۔

انسانو ں کی تین قسمیں ہیں :

١۔ ”قالب پذیر” یعنی جن کی اپنی کوئی شکل نہ ہو جیسے پانی اور ہوا ، جس قالب میں ڈالیں وہی شکل اختیار کرلیں گے ۔

٢۔ نفوذ ناپذیر اور مقاومت کرنے والے جیسے لوہا جو بیرونی طاقت کے مقابلے میں سختی سے مقابلہ کرتا ہے۔

٣۔ لیکن تیسری قسم ان افراد کی ہے جو دوسروں پر اثرانداز ہوتے ہیں جیسے ”امام اور رہبر”جو دوسروں کو خدائی رنگ میں رنگ دیتے ہےں حضرت یوسف علیہ السلام انسانوں کی اس تیسری قسم سے تعلق رکھتے ہیں جس کا ایک نمونہ یہ ہے کہ قید خانہ میں مشرک کو موحد بنا رہے ہیں ۔

قرآن مجید میں مختلف مقامات پر سوالات اور تقابلی جائزہ لینے کی روش سے استفادہ کیا گیا ہے خداوندعالم کے سلسلے میں اس کے بعض نمونے قابل توجہ ہیں ۔

( ھل من شرکائکم من یبدأالخلق ثم یعیدہ)(١) کیا تمہارے شریکوں میں سے کوئی ایسا ہے جو خلقت کی ابتدا بھی کرتا ہو اور پھر اسے دوبارہ بھی پیدا کرے ؟( ھل من شرکائکم من یھدی الی الحق )(٢)کیا تمہارے شریکوں میں سے کوئی ایسا ہے جو حق کی طرف ہدایت کرے ؟(أ غیر اللہ ابغی رباً وھو رب کل شی)(٣ )

آیا خدائے یکتا کے علاوہ دوسرے خدا کو قبول کرلوں حالانکہ وہی تمام چیزوں کا پروردگار رہے؟ (ءَ اﷲ خیر اما یشرکون )(4) اللہ بہتر ہے یا وہ جس کو (خدا کا) شریک بنا رہے ہیں؟

————–

( ١ ) سورہ یونس آیت ٣٤ .

( ٢ ) سورہ یونس آیت ٣٥ .

( ٣ ) سورہ انعام آیت ١٦٤ .

(4) سورہ نمل آیت ٥٩ .

پیام :

١۔ لوگوں کو پیار محبت سے دعوت دیں ۔( یَاصَاحِبَیِ )

٢۔ حساس زمان و مکان سے تبلیغ کےلئے استفادہ کرنا چاہیئے ۔ ( یَاصَاحِبَیِ السِّجْنِ أَأَرْبَابٌ مُتَفَرِّقُونَ ۔.۔ )

( قید خانہ میں جیسے ہی حضرت یوسف (ع) نے مشاہدہ کیا کہ یہ لوگ تعبیر خواب کے محتاج ہیں فوراً اس موقع کو غنیمت سمجھ کر اس سے تبلیغ کے لئے فائدہ اٹھایا )

٣۔سوال و جواب اور تقابلی جائزہ ،ارشاد و ہدایت کے طریقوں میں سے ایک طریقہ ہے ۔ ( أَأَرْبَابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَیْرٌ …)

( ٤٠ ) مَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِہِ إِلاَّ أَسْمَائً سَمَّیْتُمُوہَا أَنْتُمْ وَآبَکُمْ مَا أَنزَلَ اﷲُ بِہَا مِنْ سُلْطَانٍ إِنْ الْحُکْمُ إِلاَّ لِلَّہِ أَمَرَ أَلاَّ تَعْبُدُوا إِلاَّ إِیَّاہُ ذَلِکَ الدِّینُ الْقَیِّمُ وَلَکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لاَیَعْلَمُونَ .

”( افسوس) تم لوگ تو خدا کو چھوڑ کر بس ان چند ناموں ہی کی پرستش کرتے ہو جن کو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے گڑھ لیاہے ،خدا نے تو ان کے لئے کوئی دلیل نہیں نازل کی ، حکومت تو بس خدا ہی کے واسطے (خاص)ہے اس نے (تو)حکم دیا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو یہی مستحکم دین ہے مگر (افسوس) بہتیرے لوگ نہیں جانتے”۔

پیام :

١۔خدائے یکتا کے علاوہ دوسرے خدں کی کوئی حقیقت نہیں ہے بلکہ وہ صرف تمہارے اور تمہارے بزرگوں کی خیال پروری ہے ۔( مَا تَعْبُدُونَ إِلاَّ أَسْمَائً سَمَّیْتُمُوہَا أَنْتُمْ وَآبَکُمْ )

٢۔ بہت ساری طاقتیں، کمیٹیاں ، انجمنیں، ادارے ، سیمنار، قراردادیں، ملاقاتیں ، حمایتیں، اطاعتیںاور دوسرے عناوین و القاب ”بے مسمی” اسم اور ہمارے جدید دور کے بت ہیں جن کو ہم نے خود بنایا ہے اور خدا کے بجائے ان کے گرویدہ ہوگئے ہیں ۔ ( مَا تَعْبُدُونَ…إِلاَّ أَسْمَائً سَمَّیْتُمُوہَا )

٣۔ انسان کے عقائد عقلی اور شرعی دلائل پر استوار ہونے چاہییں ۔ ( مِنْ سُلْطَانٍ )

٤۔ خدا کے علاوہ کسی دوسرے کے حکم پر فروتنی کا مظاہرہ نہ کیجئے کیونکہ حکم صادر کرنے کا حق فقط خدا کو ہے ۔ ( إِنْ الْحُکْمُ إِلاَّ لِلَّہِ )

٥۔ خدا کے قانون کے علاوہ ہر قانون متزلزل ہے ۔(ذَلِکَ الدِّینُ الْقَیِّمُ )

٦۔ جہالت و نادانی شرک کا باعث بنتی ہے۔ (لاَیَعْلَمُونَ )

٧۔ اکثر و بیشتر لوگ جاہل ہیں ۔ ( أَکْثَرَ النَّاسِ لاَیَعْلَمُونَ)( یا تو جاہل بسیط ہیں یعنی اپنی نادانی سے واقف ہےں یا جہل مرکب ہیں یعنی اپنے گمان میں عالم ہے حالانکہ حقیقت میں جاہل ہےں )

( ٤١ ) یَاصَاحِبَیِ السِّجْنِ أَمَّا أَحَدُکُمَا فَیَسْقِی رَبَّہُ خَمْرًا وَأَمَّا الْآخَرُ فَیُصْلَبُ فَتَأْکُلُ الطَّیْرُ مِنْ رَّأْسِہِ قُضِیَ الْأَمْرُ الَّذِی فِیہِ تَسْتَفْتِیَانِ .

” اے میرے قید خانہ کے دونوں رفیقو! (اچھا اب تعبیر خواب سنو)تم میں سے ایک (جس نے انگور دیکھے ہیں، رہا ہو کر)اپنے مالک کو شراب پلائے گا اور دوسرا (جس نے روٹیاں سر پر دیکھی ہیں)سولی پر چڑھایا جائےگا اور پرندے اس کا سر (نوچ نوچ کر)کھائیں گے جس امر کو تم دونوں دریافت کرتے ہو (وہ یہ ہے اور) اس کا فیصلہ ہو چکا ہے”۔

نکات :

کلمہ” ربّ” حاکم، مالک اورارباب کے معنی میں استعمال ہوتاہے ۔ بطور مثال ”رب الدار” یعنی مکان کا مالک۔ پس اس جملہ ”فَیَسْقِی رَبَّہُ خمراً”کا معنی ”اپنے حاکم کو شراب پلائے گا”ہوگا۔

پیام :

١۔ لوگوں کا احترام کرنا چاہیئے اگرچہ وہ آپ کے ہم فکر نہ ہوں ۔ (یَا صَاحِبَی )

٢۔ نوبت اورباری کی رعایت کرنی چاہیئے ( أَمَّا أَحَدُکُمَا…)(پہلے وہ جس نے پہلے خواب کا تذکرہ کیا تھا )

٣۔ بعض خوابوں کی تعبیر بہت اہم ہو سکتی ہے اگرچہ اس کا دیکھنے والا مشرک ہی کیوں نہ ہو ۔ (فَیَسْقِی رَبَّہُ خَمْرً )

٤۔ حضرت یوسف (ع) کا خواب کی تعبیر بیان کرنا قیاس یا پیش بینی نہیں ہے بلکہ خدا کی طرف سے قطعی خبر ہے۔ ( قُضِیَ الْأَمْرُ )

( ٤٢ ) وَقَالَ لِلَّذِی ظَنَّ أَنَّہُ نَاجٍ مِنْہُمَا اذْکُرْنِی عِنْدَ رَبِّکَ فَأَنسَاہُ الشَّیْطَانُ ذِکْرَ رَبِّہِ فَلَبِثَ فِی السِّجْنِ بِضْعَ سِنِینَ .

” اور ان دونوں میں سے جس کی نسبت یوسف نے سمجھا تھا کہ وہ رہا ہو جائے گا اس سے کہا : اپنے مالک (عزیز مصر)کے پاس میرا تذکرہ کرنا مگر شیطان نے اسے اپنے آقا سے (یوسف کا)ذکر کرنا بھلا دیا یوں یوسف قید خانہ میں کئی برس رہے ”۔

نکات :

” ظَنّ” علم و اعتقاد کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے چونکہ حضرت یوسف (ع) نے گذشتہ آیت میں یقین و صراحت کے ساتھ ایک قیدی کی آزادی اور دوسرے کو سزائے موت کی خبر دی ہے لہٰذا یہاں پر ”ظن”کے معنی گمان اور شک و تردید کے نہیں ہیں ۔

کلمہ ” بِضْعَ” دس سے کم عدد کے لئے استعمال کیاجاتاہے اوراکثر مفسرین نے حضرت یوسف (ع)کی قید کی مدت سات سال ذکرکی ہے ۔(واللہ اعلم )

بعض تفسیروں میں اس جملہ ” فَأَنسَاہُ الشَّیْطَانُ” کا ترجمہ اس طرح کیا گیا ہے: ”شیطان نے پروردگار کی یاد کو جناب یوسف(ع) کے ذہن سے بھلا دیا اور آپ (ع)نے خدا سے مدد طلب کرنے کے بجائے بادشاہ کے ساقی سے مدد چاہی” یہ حضرت یوسف (ع)کا ترک اولی تھا لہٰذا چند سال مزید آپ(ع) زندان میں رہے مگر صاحب تفسیر المیزان علامہ طباطبائی (رح)تحریر فرماتے ہیں کہ ایسی روایات قرآن مجید کے خلاف ہیں ۔ کیونکہ قرآن مجید نے حضرت یوسف (ع)کو مخلصین میں شمار کیا ہے اور مخلصین تک شیطان کی رسائی نہیں ہے اس کے علاوہ ٤٥ویں آیت میں آیا ہے کہ” َقَالَ الَّذِی نَجَا مِنْہُمَا وَادَّکَرَ بَعْدَ أُمَّ ”ان دو قیدیوںمیں سے جس (قیدی)نے رہائی پائی تھی اسے بڑی مدت کے بعد وہ بات یاد آگئی۔ یہاں سے معلوم ہوتاہے کہ فراموشی، ساقی سے مربوط ہے حضرت یوسف (ع)سے نہیں ۔

پیام :

١۔ انبیاء (ع)بھی معمولی راستوں سے اپنی مشکلات حل کرنے کے لئے اقدامات کرتے ہیں اور یہ توحید و توکل الٰہی کے منافی بھی نہیںہے۔ (اذْکُرْنِی عِنْدَ رَبِّکَ )

٢۔ ہر تقاضا رشوت نہیں ہے (اذْکُرْنِی عِنْدَ رَبِّکَ)جناب حضرت یوسف (ع)نے ہدایت اور تعبیر خواب کے لئے کوئی اجرت اور رشوت کی درخواست نہیں کی بلکہ فرمایا کہ میری مظلومیت کی خبر بادشاہ تک پہنچادو۔

٣۔عام طور پر لوگ کسی مرتبے ، مقام اور آسائش کے بعد پرانے دوستوں کو بھول جاتے ہیں ۔ ( فَأَنسَاہُ الشَّیْطَانُ )

٤۔ حضرت یوسف (ع)کا قید خانہ سے نکلنا اور تہمت سے بری ہونا، شیطان کے اہداف کے خلاف تھا لہٰذا اس نے جناب یوسف (ع)کی یاد کو ساقی کے ذہن سے محو کرنے کی سازش کی( فَأَنسَاہُ الشَّیْطَانُ )

( ٤٣ ) وَقَالَ الْمَلِکُ إِنِّی أَرَی سَبْعَ بَقَرَاتٍ سِمَانٍ یَأْکُلُہُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ وَسَبْعَ سُنْبُلَاتٍ خُضْرٍ وَأُخَرَ یَابِسَاتٍ یَاأَیُّہَا الْمَلَأُ أَفْتُونِی فِی رُیَای إِنْ کُنتُمْ لِلرُّیَا تَعْبُرُونَ۔

” اور (ایک دن)بادشاہ نے (بھی خواب دیکھا اور)کہا کہ میں نے دیکھا ہے کہ سات موٹی تازی گائیں ہیں انکو ساتھ دبلی پتلی گائیں کھائے جاتی ہیں اور سات تازی سبز بالیاں اور (سات) سوکھی خشک بالیاں خواب میں دیکھی ہیں اے (میرے دربار کے)سردارو! اگر تمہیں خواب کی تعبیر آتی ہے تو میرے (اس) خواب کے بارے میں نظریہ پیش کرو”۔

نکات :

ابھی تک اس سورہ میں تین خواب ذکر ہوئے ہیں(١) خود حضرت یوسف (ع)کا خواب (٢) قید خانہ کے رفیقوں کا خواب (٣) بادشاہ مصر کا خواب۔

پہلا خواب آپ (ع) کے لئے پریشانی کا سبب بنا لیکن دوسروں کے خوابوں کی تعبیر کا بتانا آپ(ع) کےلئے عزت و شرف کا باعث بنا۔ توریت میں آیا ہے کہ ایک بار بادشاہ نے دیکھا کہ لاغر اور کمزور گائیں موٹی تازی گائیوں کو کھائے جارہی ہیں اور دوسری مرتبہ دیکھا کہ سبز بالیاں خشک بالیوں کےساتھ ہیں(١ )

————–

( ١ ) تفسیر المیزان .

آیا عزیز مصر وہی بادشاہ مصر ہے یا دوالگ الگ شخصیات ہیں ؟ اس سلسلے میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے چونکہ اس بحث کا کوئی عملی فائدہ نہیں ہے لہٰذا ہم اس بحث سے چشم پوشی کرتے ہیں ۔

کتاب ”روضہ کافی” میں ہے کہ خواب کی تین قسمیں ہیں :

١۔خدا کی طرف سے خوشخبری۔

٢۔شیطان کی طرف سے وحشت زدہ کرنا ۔

٣۔ بے سروپا اور پریشان کرنے والے خواب۔

پیام :

١۔ ایک ظالم بادشاہ کے خواب دیکھنے سے خدا ایک قوم کو خشک سالی سے نجات دیتا ہے (بشرطیکہ تعبیر بتانے والا یوسف(ع) ہو)۔(قَالَ الْمَلِکُ إِنِّی أَرَی )

٢۔ بادشاہ مصر نے اپنے تعجب آور خواب کو کئی بار دیکھا تھا۔ (أَرَی )

٣۔ رسا اور صاحب قدرت افراد تھوڑی سی ناگواری سے خطرے کا احساس کرنے لگتے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم سے قدرت چھین لی جائے ۔ (قَالَ الْمَلِکُ إِنِّی أَرَی …أَفْتُونِی فِی رُیَای )

٤۔ تعبیر خواب کے لئے اہل کی طرف رجوع کرنا چاہیئے ہر کس و ناکس کی تعبیر پر اعتماد اور توجہ نہیں کرنی چاہیئے ۔ (أَفْتُونِی … إِنْ کُنتُمْ لِلرُّیَا تَعْبُرُونَ )

( ٤٤ ) قَالُوا أَضْغَاثُ أَحْلَامٍ وَمَا نَحْنُ بِتَأْوِیلِ الْأَحْلَامِ بِعَالِمِینَ ۔

” ان لوگوں نے عرض کی یہ تو پریشان خوابوں میں سے ہے اور ہم لوگ اس قسم کے پریشان خوابوں کی تعبیر نہیں جانتے”۔

نکات :

لفظ ”اضغاث” ضَغث کی جمع ہے جو ”مخلوط کرنے” کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور ”ضغث” لکڑی کے گٹھڑ کوبھی کہتے ہیں، لفظ ”احلام”حلم کی جمع ہے جو پریشان خواب کے معنی میں ہے ”اضغاث احلام”یعنی وہ پراکندہ اور پریشان خواب جس کا سرا تعبیر کرنے والوں کی سمجھ سے باہر ہو۔

پیام :

١۔اپنی جہالت اور نادانی کی توجیہ نہیں کرنی چاہیئے چونکہ اہل دربار خواب کی صحیح تعبیر سے ناواقف تھے لہٰذا بادشاہ کے خواب کو پریشان خواب کہہ دیا ۔ (قَالُوا أَضْغَاثُ أَحْلَامٍ )

٢۔ ہر کام کو اس کے اہل کے سپرد کرنا چاہیئے (ماہر محقق اور دانشمند ، تعبیر خواب کرتا ہے لیکن جو اس سے نابلد ہوتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہ خواب پریشان ہے جو قابل تعبیر نہیں ہے)۔(مَا نَحْنُ بِتَأْوِیلِ الْأَحْلَامِ بِعَالِمِینَ )

( ٤٥ ) وَقَالَ الَّذِی نَجَا مِنْہُمَا وَادَّکَرَ بَعْدَ أُمَّ أَنَا أُنَبِّئُکُمْ بِتَأْوِیلِہِ فَأَرْسِلُونِ .

” اور جس (قیدی )نے ان دونوں( قیدیوں)میں سے رہائی پائی تھی اور اسے ایک زمانہ کے بعد (یوسف کا قصہ) یاد آیا ،بول اٹھا کہ مجھے (قید خانہ تک)جانے دیجئے تو میں اس کی تعبیر بتائے دیتا ہوں” ۔

نکات :

” ام” اگرچہ انسانوں کے اجتماع کو کہا جاتا ہے لیکن یہاں پر ایام (مدتوں)کے اجتماع کے معنی میں استعمال ہوا ہے (١)۔

پیام :

١۔ اچھائیاں اپنے اثرات کو دیر یا سویر آشکار کر ہی دیتی ہیں ۔ (ادَّکَرَ بَعْدَ أُمَّ )

٢۔ صاحبان علم کو معاشرے کے سامنے پہچنوائیں تاکہ لوگ ان سے بہرہ مند ہوسکیں ۔ (فَأَرْسِلُونِ )

٣۔ بعض محققین بڑی سخت زندگی گزار رہے ہیں ان سے غافل نہیں ہونا چاہیئے۔ (فارْسِلُونِ )

————–

( ١ ) تفسیر کبیر وتفسیرالمیزان .

( ٤٦ ) یُوسُفُ أَیُّہَا الصِّدِّیقُ أَفْتِنَا فِی سَبْعِ بَقَرَاتٍ سِمَانٍ یَأْکُلُہُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ وَسَبْعِ سُنْبُلَاتٍ خُضْرٍ وَأُخَرَ یَابِسَاتٍ لَعَلِّی أَرْجِعُ إِلَی النَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَعْلَمُونَ ۔

”( غرض وہ گیا اور یوسف سے کہنے لگا)اے یوسف اے بڑے سچے (یوسف) ذرا ہمیں یہ تو بتائےے کہ سات موٹی تازی گائیوں کو سات دبلی پتلی گائیں کھائے جاتی ہیں اور سات تازی ہری بالیاں اور پھر سات سوکھی مرجھائی ہوئی (اس کی تعبیر کیا ہے)تا کہ میں لوگوں کے پاس پلٹ کر جں (اور بیان کروں)تا کہ ان کو بھی (تمہاری قدر اور اس خواب کی حقیقت)معلوم ہوجائے”۔

نکات :

‘ صدّیق’ اس شخص کو کہتے ہیں جس کی رفتار و گفتار اور عقیدہ سب ایک دوسرے کی تصدیق کریں ۔چونکہ حضرت یوسف (ع)کے دوست ان کی رفتار و گفتار کا قید خانہ میں مشاہدہ کرچکے تھے اور دوسری طرف اس شخص نے اپنے اور اپنے ساتھی کے خواب کی تعبیر کو واقع کے مطابق پایا تھا لہٰذا حضرت یوسف (ع)کو صدیق کہہ کر پکارا ۔

خداوندعالم نے حضرت ابراہیم (ع)کو صدیق کہا تو انہیں اپنا خلیل بنا لیا (واتخذ اللہ ابراھیم خلیلا) (١ )

حضرت مریم (ع)کو صدیقہ کہا توانہیں برگزیدہ بنا دیا (ان اﷲاصطفاکِ)(٢) اورحضرت یوسف (ع)کو صدیق کہا تو ان کو ہر طرح کی قدرت عطا کر دی (وکذلک مکّنا لیوسف )(٣ )

حضرت ادریس (ع)کو صدیق کہا تو بلند مقام تک پہنچا دیا (و رفعناہ مکاناًعلیاً)(٤) اور جو لوگ اس درجہ کے لائق نہیں ہیں انہیں صدیقین اور سچوں کے ساتھ رہنا چاہیئے (فاولئک مع الذین انعم اﷲ علیہم من النبیین والصدیقین…)۔(٥ )

” صدّیق’ ‘ ان القاب میں سے ایک لقب ہے جسے پیغمبر اسلام(ص) نے حضرت علی علیہ السلام کو عطا فرمایا ہے۔ (٦ )

ایک احتمال یہ ہے کہ جملہ ”لعلہم یعلمون” کا مقصود لوگوں کو حضرت یوسف کی

ارزش و اہمیت سے واقف کرنا ہو یعنی میں لوگوں کی طرف پلٹوں تاکہ ان کو معلوم ہو سکے کہ آپ کیسے گوہر نایاب ہیں ۔

————–

( ١ ) سورہ نساء آیت ١٢٥ .

( ٢ ) سورہ آل عمران آیت ٤٢ .

( ٣ ) سورہ یوسف آیت ٥٦ .

( ٤ ) سورہ مریم آیت ٥٧ .

( ٥ ) سورہ نساء آیت ٦٩ .

( ٦ ) تفیسر اطبیب البیان و تفسیر الکبیر سورہ مومن آیت ٢٨ کے ذیل میں .

پیام :

١۔ درخواست سے پہلے مناسب ہے کہ شخص کے ذاتی کمالات کو بیان کریں ۔ (أَیُّہَا الصِّدِّیقُ )

٢۔ اپنے سوالات اور مشکلات کو ایسے لوگوں کے سامنے پیش کریں جن کا سابقہ اچھا ہو اور وہ سچے ہوں ۔ ( أَیُّہَا الصِّدِّیقُ أَفْتِنَ )

( ٤٧ ) قَالَ تَزْرَعُونَ سَبْعَ سِنِینَ دَأَبًا فَمَا حَصَدْتُمْ فَذَرُوْہُ فِی سُنْبُلِہِ إِلاَّ قَلِیلًا مِمَّا تَأْکُلُونَ .

”( یوسف نے جواب میں )کہا (اسکی تعبیر یہ ہے)کہ تم لوگ متواتر سات برس کاشتکاری کرتے رہو گے توجو (فصل)تم کاٹو اس (کے دانہ) کو بالیوں ہی میں رہنے دو (چھڑانا نہیں)مگر وہ تھوڑا (بہت) جو تم خود کھ ”۔

نکات :

حضرت یوسف (ع)نے اپنے قیدی ساتھی سے بغیر کسی گلے شکوے کے کہ مجھے کیوں بھول گئے ؟ بادشاہ کے خواب کی تعبیر فوراً بتادی کیونکہ علم و حکمت کا چھپانا بالخصوص ایسے مواقع پر کہ جب لوگ( بلکہ معاشرہ) اس کے بہت زیادہ محتاج ہوں ایک پاک اور نیک خصلت انسان کی شان کے خلاف ہے۔

حضرت یوسف (ع) تعبیر خواب کے بجائے اس خشک سالی سے مقابلہ کرنے کے طریقے تفصیلی طور پر بیان فرما رہے ہیں تاکہ معلوم ہوجائے کہ میں خوابوں کی تعبیر کے علاوہ منصوبہ بندی اور انتظامی صلاحیتوں سے بھی مالا مال ہوں ۔

زراعت کا علم ، ذخیرہ سازی کی سیاست اورخرچ کرنے میں صرفہ جوئی سے کام لینے کے حکمت آمیز پیغامات اس آیت میں واضح طورپر بیان کیے گئے ہیں ۔

پیام :

١۔خدائی افراد کو لوگوں کی فلاح و بہبود اور آرام و آسائش کے متعلق ہمیشہ غور و فکر کرنا چاہیئے نیز طویل مدت اور کم مدت کے پروگرام بھی پیش کرنے چاہئیں ۔ ( تَزْرَعُونَ سَبْعَ سِنِینَ )

٢۔اگر گیہوں اپنی بالیوں کے ساتھ ہو تو اسکی زندگی بڑھ جاتی ہے( فَذَرُوہُ فِی سُنْبُلِہِ )

٣۔ منظم پروگرام بنانے کے بعد قدرتی حوادث مثلاًزلزلہ ، سیلاب ، اور خشک سالی کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے ۔ ( فَذَرُوہُ فِی سُنْبُلِہِ )

٤۔ منصوبہ بندی اور مستقبل کے لئے تدبیر کرنا۔ خدا پر توکل اور اس کے آگے سرتسلیم خم کرنے کے منافی نہیں ہے( فَذَرُوہُ فِی سُنْبُلِہِ) (تدبیر کے ساتھ تقدیر کا استقبال کرنا چاہیئے )

٥۔ تمام پروگرام عملی صلاحیت کے حامل ہونے چاہئیں ۔( فَذَرُوہُ فِی سُنْبُلِہِ )

اس زمانے میں چونکہ گندم کو محفوظ کرنے کے لئے مخصوص برج نما گودام یاکوئی جدید ٹیکنالوجی نہیں تھی لہٰذا گندم کو محفوظ رکھنے کا بہترین طریقہ یہی تھا کہ گیہوں کو اس کی بالیوں میں رہنے دیا جائے )

٦۔ ہر مصیبت اور سختی ، بُری نہیں ہوتی ۔ یہی خشک سالی جناب یوسف (ع)کی حاکمیت کا پیش خیمہ بنی۔ اسی طرح یہ قحط صرفہ جوئی اور لوگوں کے درمیان زیادہ کام کرنے کا رجحان پیداکرنے کا باعث بنا۔ (تَزْرَعُونَ… فَذَرُوہُ، إِلاَّ قَلِیلًا …)

٧۔ آج کی کفایت شعاری، کل کی خود کفائی ہے اور آج کی فضول خرچی کل کے لئے باعث پریشانی ہے۔( قَلِیلًا مِمَّا تَأْکُلُونَ )

٨۔ مستقبل کے بارے میں فکر کرنا اور معاشرے کی اقتصادی مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کے لئے طویل مدت کے پروگرام بنانا ملکی نظام کے لئے ضروری ہے۔ (تَزْرَعُونَ… فَذَرُوہُ… إِلاَّ قَلِیلًا )

٩۔ بحرانی حالات اور شرائط میں تولید و توزیع پر حکومت کا کنٹرول ضروری ہے۔ (تَزْرَعُونَ… فَذَرُوہُ … )

١٠۔ کافروں کے خواب بھی حقائق کو بیان کرسکتے ہیں اور معاشرے کی حفاظت کے لئے دستورالعمل بھی ہوسکتے ہیں ۔

( ٤٨ ) ثُمَّ یَأْتِی مِنْ بَعْدِ ذَلِکَ سَبْعٌ شِدَادٌ یَأْکُلْنَ مَا قَدَّمْتُمْ لَہُنَّ إِلاَّ قَلِیلًا مِمَّا تُحْصِنُونَ .

” پھر اسکے بعد بڑے سخت سات برس آئیں گے جو کچھ تم لوگوں نے ان سات سالوں کے واسطے پہلے سے جمع کررکھا ہوگا لوگ سب کھا جائیں گے مگر قدر قلیل جو تم (بیج کے طور پر)بچا رکھو گے ”۔

( ٤٩ ) ثُمَّ یَأْتِی مِنْ بَعْدِ ذَلِکَ عَامٌ فِیہِ یُغَاثُ النَّاسُ وَفِیہِ یَعْصِرُونَ .

”( بس) پھر اس کے بعد ایک سال آئے گا جس میں لوگوں کے لئے بارش ہوگی (اور خشک سالی کی مشکل حل ہوجائےگی) اور لوگ اس سال (پھلوں اور روغن دار دانوں کی فراوانی کی وجہ سے ان کا رس) نچوڑیں گے”۔

نکات :

” یُغَاثُ النَّاسُ ” یاتو ”غوث”سے ہے یعنی لوگوں کو خداوندعالم کی طرف سے مدد حاصل ہوگی اور ١٤ سالہ مشکلات حل ہوجائیں گی یا”غیث”سے ہے یعنی بارش ہوگی اور تلخ حوادث ختم ہوجائیں گے۔ (١ )

————–

( ١ ) المیزان فی تفسیر القرآن .

حضرت یوسف (ع)نے سات موٹی گائیں اور سات دبلی پتلی گائیوں اور سبز و خشک بالیوں کی تعبیر یہ فرمائی کہ ١٤ چودہ سال نعمت اور خشک سالی کے ہوں گے لیکن پندرہواں سال جو باران رحمت اور نعمت کی فراوانی کا ہوگا اس کا تذکرہ بادشاہ کے خواب میں نہیں ہے درحقیقت یہ غیب کی خبر تھی جسے حضرت یوسف(ع) نے بیان فرمایا تاکہ آپ (ع)اعلان نبوت کے لئے راہ ہموار کرسکیں ۔(ثُمَّ یَأْتِی مِن بَعد ذَلِکَ عام …)

سماج میں ایک کارآمد اور کامیاب منتظم اور انتظامیہ کےلئے درج ذیل شرائط کا حامل ہونا ضروری ہے۔

١۔ لوگوں کا اعتماد۔ (انا لنراک من المحسنین )

٢۔ صداقت۔ (یوسف ایھا الصدیق )

٣۔ علم و دانائی ۔ (علّمنی ربّی )

٤۔ صحیح پیشین گوئی۔ (فَذَرُوہُ فِی سُنْبُلِہِ )

٥۔ قوم کی اطاعت۔کیونکہ لوگوں نے حضرت یوسف کی بیان کردہ تجاویزپر عمل کیا۔

پیام :

١۔ مستقبل کی مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لئے بچت کرنا اور منظم طریقے سے خرچ کرنا نہایت ہی اہمیت کا حامل ہے ۔( سَبْعٌ شِدَادٌ یَأْکُلْنَ مَا قَدَّمْتُمْ …)

٢۔ خرچ کرتے وقت تھوڑا سا بیج اور سرمایہ ذخیرہ کرلیں ۔( إِلاَّ قَلِیلًا مِمَّا تُحْصِنُونَ)(١ )

٣۔ خواب نہ صرف آئندہ کے حوادث کو بتا سکتے ہیں بلکہ انسان کے لئے مشکلات سے رہائی اور پھر خوشحالی کا ذریعہ اور اشارہ بھی ہوسکتے ہیں ۔( یُغَاثُ النَّاسُ وَفِیہِ یَعْصِرُونَ )

————–

( ١ ) مِمَّا تُحْصِنُون یعنی محفوظ جگہ پر ذخیرہ کرلیں .

( ٥٠ ) وَقَالَ الْمَلِکُ ائْتُونِی بِہِ فَلَمَّا جَاءَ ہُ الرَّسُولُ قَالَ ارْجِعْ إِلَی رَبِّکَ فَاسْأَلْہُ مَا بَالُ النِّسْوَ اللاَّتِی قَطَّعْنَ أَیْدِیَہُنَّ إِنَّ رَبِّی بِکَیْدِہِنَّ عَلِیمٌ .

”( یہ تعبیر سنتے ہی)بادشاہ نے حکم دیاکہ یوسف کو میرے حضور میں لے اور پھر جب (شاہی)چوبدار (یہ حکم لے کر)یوسف کے پاس آیا تو یوسف نے کہا تم اپنے بادشاہ کے پا س لوٹ ج اور اس سے پوچھو کہ ان عورتوں کا مسئلہ کیا تھا جنہوں نے (مجھے دیکھ کر) اپنے ہاتھ کاٹ ڈالے تھے ؟ آیا میں ان کا طالب تھا یا وہ (میری) ،اس میں تو کوئی شک ہی نہیں کہ میرا پروردگار ہی ان کے مکروفریب سے خوب واقف ہے”۔

نکات :

جناب یوسف (ع)نے بادشاہ کے خواب کی تعبیر اور سنجیدہ و منظم پروگرام، بغیر کسی شرط و قید کے بیان کرکے ثابت کردیا کہ وہ کوئی معمولی قیدی نہیں ہیں بلکہ ایک غیر معمولی اور دانا انسان ہیں ۔

جب بادشاہ کا فرستادہ حضرت یوسف (ع)کی خدمت میں آیا تو آپ (ع)نے آزادی کی خبر کا خیر مقدم نہیں کیا بلکہ سابقہ فائل پر دوبارہ تحقیق کی درخواست کی، اس لئے کہ آپ (ع) نہیں چاہتے تھے کہ بادشاہ کا عفو آپ (ع)کے شامل حال ہو بلکہ یہ چاہتے تھے کہ آپ (ع)کی بے گناہی اور پاکدامنی ثابت ہوجائے تاکہ بادشاہ کو سمجھا سکیں کہ تمہاری حکومت میں کس قدر فساد اور ناانصافی کارفرما ہے۔

شاید حضرت یوسف (ع)نے عزیز مصر کے احترام میں اس کی بیوی کا نام نہیں لیا بلکہ اس مہمان نوازی والے واقعہ کی طرف اشارہ کیا۔(قطعھن ایدھن )

حدیث میں موجود ہے کہ پیغمبراسلام (ص)نے فرمایا: مجھے حضرت یوسف (ع)کے صبر پر تعجب ہے اس لئے کہ جب عزیز مصر نے خواب کی تعبیر چاہی تو نہیں فرمایاکہ جب تک قید خانہ سے آزاد نہیں ہوجاتا خواب کی تعبیر بیان نہیں کروں گا ۔لیکن جب حضرت یوسف (ع)کو آزاد کرنا چاہا تو آپ (ع)قیدخانہ سے اس وقت تک باہر تشریف نہ لائے جب تک تہمت کا بالکل خاتمہ نہ ہوگیا۔(١ )

————–

( ١ ) تفسیر اطیب البیان .

پیام :

١۔ وہ متفکر ذہن جن کی ملک کو ضرورت ہو اگر وہ کسی جرم کے مرتکب نہیں ہوئے تو حکومت کی مدد سے انہیں آزاد کردینا چاہیئے۔ (قَالَ الْمَلِکُ ائْتُونِی بِہ …)

٢۔ ہر طرح کی آزادی قابل اہمیت نہیں ہے بلکہ بے گناہی کا ثابت کرنا آزادی سے اہم ہے۔ (ارْجِعْ إِلَی رَبِّکَ فَاسْأَلْہُ )

٣۔ جو قیدی آزادی کے بجائے فائل کی تحقیق کا مشورہ دیتا ہے وہ یقینا بے گناہ ہے۔ (فَاسْأَلْہُ )

٤۔حضرت یوسف (ع)نے پہلے لوگوں کے ذہن کو پاک کیا پھر مسلیت قبول فرمائی ( مَا بَالُ النِّسْوَ )

٥۔ آبرو اور عزت کا دفاع واجب ہے۔( مَا بَالُ النِّسْوَ )

٦۔ حضرت یوسف (ع)کو قید خانہ میں ڈالنے کی سازش میں تمام عورتیں شریک تھیں ۔ (کَیْدہنّ )

٧۔ حضرت یوسف (ع)نے اپنے پیغام میں بادشاہ کو یہ بھی بتا دیا کہ آزادی کے بعد آپ (ع) بادشاہ کو اپنا مالک نہیں سمجھیں گے اور نہ ہی وہ جناب یوسف (ع)کو اپنا غلام سمجھنے کا اختیار رکھتا ہے۔ بلکہ خدا کو اپنا مالک سمجھتے ہیں ۔( إِنَّ رَبِّی بِکَیْدِہِنَّ عَلِیمٌ )

( ٥١ ) قَالَ مَا خَطْبُکُنَّ إِذْ رَاوَدتُّنَّ یُوسُفَ عَنْ نَفْسِہِ قُلْنَ حَاشَ لِلَّہِ مَا عَلِمْنَا عَلَیْہِ مِنْ سُوئقَالَتِ امْرَ الْعَزِیزِ الْآنَ حَصْحَصَ الْحَقُّ أَنَا رَاوَدتُّہُ عَنْ نَفْسِہِ وَإِنَّہُ لَمِنْ الصَّادِقِینَ .

” چنانچہ بادشاہ نے ان عورتوں (کو طلب کیا اور)ان سے پوچھا کہ جس وقت تم لوگوں نے یوسف سے اپنا مطلب حاصل کرنے کی خود ان سے تمنا کی تھی تو تمہیں کیا معاملہ پیش آیا تھا وہ سب کی سب عرض کرنے لگیں پاکیزہ ہے اللہ ہم نے یوسف میں کسی طرح کی کوئی برائی نہیں دیکھی (تب)عزیز (مصر)کی بیوی (زلیخا) بول اٹھی اب تو حق سب پر ظاہر ہو ہی گیا ہے (اصل بات یہ ہے کہ) میں نے خود اس سے اپنا مطلب حاصل کرنے کی تمنا کی تھی اور بے شک وہ یقینا سچوں میں سے ہے ”۔

نکات :

کسی اہم کام کے سلسلے میں دعوت دینے کو ”خطب ” کہتے ہیں ۔

” خطیب” اس شخص کو کہتے ہیں جولوگوں کو کسی اہم اور بڑے ہدف و مقصد کی دعوت دے ”حصص” یعنی حق کا باطل سے جدا ہوکرآشکار ہوجانا۔(١ )

اس داستان میں خداوندعالم کی سنتوں میں سے ایک سنت یہ جلوہ نما ہوئی ہے کہ تقوی الٰہی اور پرہیز گاری کی وجہ سے مشکل کام آسان ہوجاتے ہیں(٢ )

پیام :

١۔ جب کوئی مسئلہ بہت سنگین ہوجائے اور کسی سے بھی حل نہ ہو پارہا ہو تو سربراہ مملکت کو اس میں مداخلت کرنی چاہیئے اور تحقیق کے بعد مشکل کو حل کرنا چاہیئے ۔ ( قَالَ مَا خَطْبُکُنَّ …)

٢۔متہم کو عدالت میں حاضر کرنا چاہیئے تاکہ وہ اپنا دفاع کرسکے ۔ ( قَالَ مَا خَطْبُکُنَّ …)یہاں تک کہ زلیخا بھی عدالت میں حاضر تھی ( قَالَتِ امْرَ الْعَزِیز )

٣۔ پریشانی کے ساتھ آسانی اور تلخی کے ساتھ شیرینی ہے کیونکہ جہاں (اراد باھلک سوئ)ہے وہاں اسی زبان پر ( مَا عَلِمْنَا عَلَیْہِ مِنْ سُوئٍ)بھی جاری ہے۔

٤۔ حق ہمیشہ کے لئے مخفی نہیں رہ سکتا ۔(الْآنَ حَصْحَصَ الْحَقُّ )

٥۔ ضمیر کبھی نہ کبھی بیدار ہوکر حقیقت کا اعتراف کرتا ہے۔(أَنَا رَاوَدتُّہُ )

معاشرے اور ماحول کا دب ضمیر فروشوں کو حق کا اعتراف کرنے پر مجبور کردیتا ہے (عزیز مصر کی بیوی نے جب دیکھا کہ تمام عورتوں نے یوسف (ع)کی پاک دامنی کا اقرار کر لیا ہے تو اس نے بھی حقیقت کا اعتراف کرلیا )

————–

( ١ ) تفسیر اطیب البیان .

( ٢ )( من یتق اللہ یجعل لہ مخرجا و یرزقہ من حیث لایحتسب) اور جو تقوی الٰہی اختیار کرتا ہے اللہ اس کے لئے مشکلات سے نکلنے کا راستہ بنادیتاہے اور اسے ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے جہاں سے وہ سوچ بھی نہ سکتا ہو۔ (سورہ طلاق آیت ٢،و ٣ )

( ٥٢ ) ذَلِکَ لِیَعْلَمَ أَنِّی لَمْ أَخُنْہُ بِالْغَیْبِ وَأَنَّ اﷲَ لاَیَہْدِی کَیْدَ الْخَائِنِینَ ۔

”( یوسف نے کہا)یہ قصہ میں نے اس لئے چھیڑا تاکہ(تمہارے )بادشاہ کو معلوم ہوجائے کہ میں نے اس کی عدم موجودگی میں اس کی (امانت میں)خیانت نہیں کی اور خدا خیانت کاروں کے مکر و فریب کو کامیابی سے ہمکنار نہیں کرتا”۔

نکات :

یہ کلام حضرت یوسف علیہ السلام کی گفتگو ہے یا عزیز مصر کی بیوی کے کلام کا حصہ ہے؟اس سلسلے میں مفسرین کے دو نظرئےے ہیں بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ حضرت یوسف علیہ السلام کا کلام ہے (١) جب کہ بعض مفسرین اسے عزیز مصر کی بیوی کا بیان قراردیتے ہیں (٢) لیکن آیت کے مضمون کو مد نظر رکھتے ہوئے پہلا نظریہ صحیح ہے لہٰذا یہ جملہ عزیز مصر

————–

( ١ ) تفسیر مجمع البیان، تفسیر المیزان .

( ٢ ) تفسیر نمونہ .

کی بیوی کا کلام نہیں ہوسکتا کیونکہ ایک بے گناہ کو سالہا سال قید خانے میں قیدی بنا کر رکھنے سے بڑی خیانت اور کیا ہوسکتی ہے ؟

یوسف علیہ السلام اپنے اس جملے سے قید خانہ سے دیر سے آزاد ہونے کی وجہ بیان فرما رہے ہیں : دوبارہ ان کے بارے میں تحقیق کی گئی ہے اور وہ اپنی حقیقی حیثیت و فضیلت پرفائز ہوئے ہیں ۔

پیام :

١۔ کریم انسان انتقام لینے کے درپے نہیں ہوتا بلکہ حیثیت اور کشف حقیقت کی تلاش میں رہتا ہے۔( ذَلِکَ لِیَعْلَمَ )

٢۔ حقیقی ایمان کی علامت یہ ہے کہ انسان تنہائی میں خیانت نہ کرے( لَمْ أَخُنْہُ بِالْغَیْبِ )

٣۔ دوسروں کی ناموس پر بُری نگاہ ڈالنا گویا اس شخص کےساتھ خیانت کرنا ہے (لَمْ أَخُنْہُ )

٤۔ خیانت کار اپنے کام یا برے کام کی توجیہ بیان کرنے کےلئے سازش کرتا ہے (کَیْدَ الْخَائِنِینَ )

٥۔ خیانت کار ،نہ صرف اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوتا بلکہ اس کی عاقبت بھی بخیر نہیں ہوتی ،حقیقت میں اگر ہم پاک ہوں ( لَمْ أَخُنْہُ بِالْغَیْبِ)تو خداوندعالم اجازت نہیں دیتا کہ ناپاک افراد ہماری آبرو برباد کرسکیں ۔(انَّ اﷲَ لاَیَہْدِی کَیْدَ الْخَائِنِینَ )

٦۔ حضرت یوسف علیہ السلام اس کوشش میں تھے کہ بادشاہ کو آگاہ کردیں کہ تمام حوادث اور واقعات میں ارادہئ خداوندی اور سنت الٰہی کارفرما ہوتی ہے۔(انَّ اﷲَ لاَیَہْدِی …)

 

تبصرے
Loading...