ہمارے آقا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سراپا قر آن تھے ۔۔

ہرسال کی طرح اس سال بھی ربیع الاول کے مہینے میں ہم دا خل ہو چکے ہیں جسے ہم پورے مہینے بڑے دھوم دھام سے منا تے ہیں اورہر طرح حضور(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے الفت کا اظہار کرتےہیں جوکہ بلا شبہ کر نا چاہیئے۔ عملمائے کرام سیرت بیان فرما تے ہیں ،نعت گو اور نعت خواں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تعریف بیان فرما تے ہیں۔ مگر جہاں تک اتباع ِ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کاتعلق ہے اس پر کوئی بات نہیں کرتا ،بلکہ ہم نے تو ایک مولوی صاحب کویہ فرماتےسنا  ہےکہ میلاد منانے کے لیئے ہوتی ہے اور سیرت عمل کر نے کے لیئے ہوتی ہے۔ دوسری طرف ایک طبقہ جس کو اپنی پاکبازی پر ناز ہے اور وہ اپنے سوا کسی کو مسلمان ہی نہیں سمجھتا، وہ سارا مہینہ اپنا زور ان کو بد عتی کہنے پر صرف کرتا ہے۔اگر بغور جا ئزہ لیا جا ئے تو دونوں کے یہاں مقصدیت کا فقدان ہے کہ وہ  ہےحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اسوہ حسنہ کا ذکر کے لوگوں کو عمل کی طرف راغب کر نا ۔ جو دونوں طبقے بھولےہو ئے ہیں ۔

پچھلے دنوں ایک بہن نے ہم سب کی توجہ بہت ہی خوبصورت انداز میں اس طبقہ کی بے عملی کی طرف دلا ئی تھی جوکہ اب قصے کہانیوں میں باقی رہ گیا ہے؟ ۔ میں آگے اسی کو قارئین کی نذر کر نے جا رہا ہوں ۔ کیونکہ وہ تحریر ادب میں تھی  وہاں سےبلاگ میں آئی تھی ،  وہاں بہت تھوڑے لوگ پڑھتے ہیں۔ میں  اسےآج اپنے کالم میں اس لیئے پیش کر رہا ہوں کہ زیادہ لوگوں تک پہونچے، دوسرے یہ کہ ہمارے اخبار کی پالیسی ہی یہ ہے کہ ہم عمل کی طرف لوگوں کو راغب کریں اور یہ  ہی مقصد اس آیت کے دینے کا ہے جو سرورق پر روز ِ روشن کی طرح جگ مگا رہی کہ “ مسلمانوں وہ کہتے کیوں ہو جو کرتے نہیں ہو “ قر آن میں یہ ہی ایک آیت اس مضمون کی نہیں ہے بلکہ اس کےعلاوہ بھی جتنی آیتوں میں ایمان لانے کا ذکر ہے اس کے فورا بعد نیک عمل پر عامل  ہونے کا حکم  بھی ہے۔ عمل کی ظاہر کسوٹی خدا نے ایک ہی رکھی  ہےوہ ہے نماز  جس کی بے انتہا تاکید فرما ئی ہے “ کیونکہ اس کے علاوہ نیکیا ں ریاکاری سے بچنے کے لیئےنہ دکھانے کا حکم ہے “ جبکہ ان کی کچھ شقیں، جیسے زکات ،حج ،وغیرہ کے لیئے صاحب ِ نصاب ہو نا شرط ہے  لیکن نماز کسی حالت میں بھی معاف نہیں ہے اور مردوں کو با جماعت ادا کرنے کا حکم ہے؟ اس کے لیئے ہادیِ برحق (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرما یا کہ مومن اورکافر میں فرق ہی یہ ہے کہ مومن نماز پڑھتا ہے جب کہ کافر نماز نہیں پڑھتا  “

اور نماز کی افادیت میں اللہ تعالیٰ نے قر آن میں فرما یا کہ یہ تمام برائیوں سے بچاتی ہے۔ مگر ہمارے ہاں عام طور پر دیکھا یہ گیا ہے اور لوگوں کو کہتے بھی سنا ہے کہ نماز فرض ہے وہ ہم ادا کرتے ہیں اورجو ہم ہیر پھیر کرتے ہیں وہ ہما را کاروبار ہے ؟ جبکہ اس سلسلہ میں بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  نےفرمایا کہ اللہ تو اپنی رحمت سے  وہ گناہ معاف کر دے گا جو بندے نے اس کی فرا ئض کی ادا ئگی میں کوتاہی برتی ہوگی مگر وہ معاف نہیں کرے گا جو بندوں کے حقوق اس کی طرف ہو نگے وہ صرف صا حب ِمعاملہ ہی معاف کر یں گے؟ یہاں تک تو ہم  نےعام لوگوں کی بات کی تھی اب آگے ان کی بات کرتے ہیں جوادارہ اور  اس کے بانی افراد کبھی سر چشمہ ہدا یت تھے اور وہاں سے لوگ  کامل ہوکر نکلتے تھے۔آج وہ سوالیہ نشان بنا ہوا ہے؟  یعنی سلسلہ تصوف جس کے سربراہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے کہ “ایمان کے بغیر عمل کچھ نہیں اور عمل بغیر ایمان کچھ نہیں  “ دونوں چیزین لازم و ملزوم ہیں “ ان جملوں میں باب ِعلم نے پورا اسلام بیان کر دیا ہے۔ کیونکہ قر آن کے مطابق جس کا خدا پر ایمان نہیں ہے اس کابھی آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے اور جس کا خدا پر ایمان تو ہے مگر بے عمل ہے اس کا  بھی آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے ۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بھیجا یہاں آخرت اچھی بنانے کے لیئے تھا۔

اب آگے میں اپنے مضمون کو اور واضح کرنے کے لیئے ان کے سوالوں جواب پیش کر رہا ہوں۔

“  پہلا سوال تو آپ کا یہ ہے کہ اس دور میں اللہ والے نہیں رہے۔ اس پر پھر اس سلسلہ میں دو صوفیوں کی مثالیں بھی دی ہیں۔ایک صاحب کی آپ نے مثال دی ہے کہ وہ علامہ اقبال کے خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں دو بیویوں کو طلاق دے کر صوفیانہ زندگی گزار رہےہیں۔ دوسری خاتون ہیں جو آپ کے اپنے خاندان سے تعلق رکھتی ہیں جو اب سب سے لا تعلق ہو کر صوفیانہ زندگی گزار رہی ہیں ۔ اس میں یہ آپکی بڑائی ہے کہ آپ نے اپنے خاندان کی بڑائی بیان نہیں کی حالانکہ آپ بھی ایک ایسے ہی خانوادے سے تعلق رکھتی ہیں، جو ہم جیسوں کو پتہ ہے کہ کبھی وہ بھی ہدایت کا سر چشمہ تھا۔چونکہ آپ نے کبھی ہمیں یا قارئین کو نہیں بتایا؟  اس لیئےہم بھی اپنے پڑھنے والوں کو نہیں بتا ئیں گے کہ ہمیں کیسے معلوم ہوا؟

اب جواب حاضر ہے۔ جبکہ میں جواب دیتے ہوئے اس کی صرف تر تیب بدلنا چاہو نگا کہ آخری سوال کا جواب بعد میں دونگا۔ جبکہ دوسرا پہلے اور تیسرا اس کے بعد؟

پہلے کا جواب یہ ہے۔ ہم لوگوں کے یہاں شخصیت پرستی اس قدر آگئی ہے جو بڑھ کر بت پرستی تک پہونچ گئی ہے؟ آپ معلوم تا ریخ میں جا ئیں تو پتہ چلے گا کہ پہلی بت پرستی شخصیت پر ستی سے  ہی شروع ہو ئی ؟ سب سے پہلے آدم علیہ السلام کے بعد چار بزرگ ایسے گزر ے جن کے نام قر آن میں موجود ہیں ۔ ان کی اولاد اور ان کے ماننے والوں نے ان کی یاد زندہ رکھنے کے لیئے کچھ کرنا چاہا، شیطان نے انہیں راستہ  دکھا یا کہ ان کی تصویر یں بنالی جا ئیں ۔ پھر اس نے اس سلسلہ میں مزید ترقی کی راہ دکھائی کہ انہیں کے بت بنا دیئے اور رفتہ رفتہ ان کی پو جا ہو نے لگی۔ جب لوگ گمرا ہی کی انتہا پر پہونچ گئے تو حضرت نوح علیہ السلام کو بھیجا گیا جوکہ تقریباً اتنے ہی عرصے تک تبلیغ کر تے رہے کہ جتنا عرصہ حضرت آدم علیہ السلام کے بعد انہیں بگڑنے میں لگا یعنی کم و بیش ایک ہزار سال؟ آخرمیں انہوں نے بد دعا فر مائی؟

اللہ سبحانہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ جب تک وہ عذاب نازل نہیں فرماتا تب تک کہ اس دور کے نبی (ع)بد عا نہ کریں ۔ وہاں طوفا ن آیا اور ان (ع) کے ہی ایک صاحبزادے کوڈبو کے یہ بتا دیا کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ نبی کابیٹا بھی نبی (ع)جیسا ہو؟اس سلسلہ کی اور بھی بہت سی مثالیں ہیں۔ جو آپ سب نے پڑ ھ رکھیں ہیں لہذا میں مضمون کو طول نہیں دینا چاہتا۔ یہ اس کا جواب ہے جوکہ آپکی پہلی مثال ہے؟

دوسری مثال میں جن خاتون کا آپ نے ذکر کیا ہے ان کو میں نہیں جانتا مگر قیافے کی بنیاد پر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ وہ بھی کسی ایسے ہی خاندان سے تعلق رکھتی ہیں جہاں شخصیت پرستی را ئج ہے؟ اور کوئی شخصیت جب مایوس ہو جاتی ہے تو اپنی اصل کی طرف لوٹتی ہے۔ لہذا وہ بھی اسی طرف لوٹیں تو، مگر ان کے سامنے وہ اصل تعلیمات عملی طور پر بظاہر کہیں موجود نہیں تھیں جسکو وہ معیار بنا سکتیں ؟ لہذا جو اب اس کی بگڑی ہوئی شکل ہے وہ اس پر عامل ہوگئی ہیں ؟

اب رہا آپ کے تیسرے سوال کاجواب کہ کیا اللہ والوں سے جہاں خالی ہو گیا؟ تو عرض یہ ہے کہ جب ایسا ہو جا تا ہے توعذاب نازل ہو جا تا ہے۔ کیونکہ قرآن میں موجود ہے کہ جب تک کسی شہر میں اللہ والے موجودرہتے ہیں تب تک وہاں عذاب نازل نہیں ہو تا؟ جس کو قر آن میں کئی جگہ بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً مکہ معظمہ کے بارے میں فرما یا کہ جب تک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اوراللہ والے وہا ں موجود ہیں، کفار کے عذاب طلب کرنے باوجود ان کا مطالبہ پو رانہیں کیا جا سکتا ؟

جبکہ لوگوں کو ڈرانے کے لیئے وہ اپنی نشانی دکھاتا رہتا ہے وہ بھی قرآن میں بیان ہوا ہے کہ “ کیا تم دیکھتے نہیں کہ سال میں جو چھوٹی موٹی آفات آتی رہتی ہیں وہ ڈرانے کے لیئے ہوتی ہیں 

جنکا ہم آجکل آئے دن اپنے ہاں مشاہدہ کر رہے ہیں؟

اوپر کی وضاحت سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ دنیا کے قائم رہنے کے لیئے۔ اللہ والوں کا موجود رہنا ضروری ہے اور وہ موجود ہیں؟ اب آپکا سوال یہ کہ وہ دکھا ئی کیوں نہیں دیتے ؟ اس کےجواب کے لیئے جو لوگ اس سلسلہ کے ماہر اور رہنما تھے۔ ان کی طرف دیکھنا پڑے گا ۔ چونکہ آپ کوئی بھی صوفیا ئے کرام کا شجرہ اٹھا کر دیکھیں تو وہ حضور (ص) سے شروع ہو تا ہے؟ ان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد سترہ یا اٹھارہ سلسلوں میں بالاتفاق را ئے دوسرا نام جو آتا ہے ،وہ حضرت علی کرم اللہ وجہ کا ہے۔ جبکہ ایک سلسلہ حضرت ابو بکرصدیق (رض) سے بھی مو سوم ہے ؟ اب ہما رے سامنے ان تینوں کی زندگی موجود ہے انہیں میں اور ان کے تابعین کی سیرتوں میں آپ کے ہر سوال کا جواب موجود ہے؟

پہلے حضور (ص) سے شروع کر تے ہیں جو جیتا جاگتا قر آن تھے؟ جن کے اسوہ حسنہ کے مثالی ہونے کی تصدیق خود قر آ ن میں اللہ سبحانہ تعالیٰ نے فرمادی اور اپنی محبت کو بھی اس سے مشروط فرمادیاکہ ً آپ فرمادیجئے اگرتم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میرا اتباع کرو ً ان (ص) کی سیرت ہمارے سامنے ہے جو ان کی یہ صفت ثابت کرتی ہے کہ وہ (ص)سراپا عمل تھے ۔ پھر حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور حضرت ابو بکر (رض) کا کردار دیکھئے کیا وہ اپنے کر دار میں حضور (ص) کا پرتو نہیں تھے کیا ان کے یہاں کہیں پر حضور(ص) سے سرو مو فرق نظر آتا ہے ؟اس کاجواب ہر ایک یہ ہی دے گا کہ نہیں !

اب حضور (ص) کا یہ ارشادِ گرامی پڑھ لیجئے۔ “وہ فلاح پاگیا جس نے میرا اتباع کیا یا میرے ان صحابہ (رض) کا اتباع کیا جو کہ آج پوری طرح میرا اتباع کر رہے ہیں ً“؟ ان تمام مثالوں سے یہ بات میرے خیال میں ثابت ہوجاتی ہے کہ کوئی بے عمل انکا ماننے والا نہیں ہوسکتا کیونکہ ان کے اتباع اور محبت کا تقاضہ یہ ہے کہ ہر وہ شخص جو جتنا قریب ہو گا وہ عمل میں بھی ان ہی جیسا ہی ہوگا؟

لہذاجواب یہ ہی ہو سکتا ہے کہ اگر کوئی ایسا نہیں ہے تو وہ مسلمان ہی نہیں ہے ،اور مسلمان نہ ہو تو صوفی کیسے ہو گا، کیونکہ قرآن ہر جگہ جہاں ایمان لا نے کی بات کرتا ہے اس کے فوراً بعد عمل کی بات کرتا ہے ،کہیں صرف کلمہ پڑھ لیناکافی نہیں کہتا؟ اس لیئے کہ اسلام نام ہی عمل کا ہے۔ا س کی روشنی میں کسی بے عمل، مغرور ، بد اخلاق اور گوشہ نشین کی گنجا ئش کہاں ہے؟ جواب ہمیشہ کی طرح قارئین پر چھوڑ تا ہوں ؟

یہ تو ہم جڑ کی بات کر رہے تھے اب تنوں کی بات کرتے ہیں پھر شاخوں کی بات کرینگے؟

پھر یہ سلسلہ امام حسن ، امام حسین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے ہو کر دوسرے نامور بزرگوں سے ہو تا ہوا گزرتا ہے، ان تمام مشہور بزرگوں میں سنت کے خلاف کوئی بات ملتی ہے، یا قول و فعل میں تضاد ملتا ہے ؟ جواب یقینی طور میں کہہ سکتا ہوں کہ آپ سب کابھی یہی ہوگاکہ نہیں ؟اب اسی جواب سے پھر یہ سوال آپ کے ذہن میں پیدا ہو گا کہ اب جو خود کو انکا جانشین کہلاتے ہیں۔ ان میں یہ خرابیاں کہاں سے آئیں؟ جواب میں وہی بات دہراؤنگا کہ وراثت کی بناپر شخصیت پرستی سے۔ جبکہ ابتداء میں اس کی بنیاد تقویٰ پر تھی جوکہ ہم نے شخصیت پرستی کی دھول میں نظر انداز کردی۔جس طرح ہمیں حضور(ص) کے اخلاق اور کردار سے بحیثیت مسلمان کوئی نسبت نہیں ہے، اسی طرح ان کے جانشینوں کو اپنے اجداد (رض)سے کوئی نسبت نہیں ہے کیونکہ حضور (ص) کی ذاتِ گرامی ان کے لیئےمنبہ ہدایت تھی ؟ نہ ان میں بے عملی تھی نہ ان میں بد اخلاقی تھی نہ غرور تھا۔ ہر ایک کا زور اس بات پر تھاکہ کو ئی انکا (رض)فعل خلاف ِقرآن اور سنت نہ ہو ؟ اس کی بہت سی مثالیں ہیں مگر یہاں ایک مثال دیکر بات ختم کر تا ہوں۔ سنیوں میں تمام سلسلوں میں جہاں ولایت کاسلسلہ ہے وہاں حضرت عبد القادر جیلانی علیہ رحمہ کو اپنا رہنما ماناجاتا ہے۔ ان کا قول یہ ہے کہ ً ایک شخص ہوا میں اڑ رہا ہو، پانی پر چل رہا ہومگر اس کا ایک فعل بھی خلاف سنت ہو تووہ شیطان ہے، ولی نہیں ً جبکہ ان کے ماننے والے ان کی کرامات تو بیان کر تے ہیں مگر کردار نہیں کہ وہ خلیفہ وقت اور اس وقت کے بے علمل علما ء اور صوفیا ئے کرام کے بارے میں ان کے منھ پر کیا ارشاد فرماتے تھے۔ وہ ان کی کتابوں پڑھ لیجئے؟

اب سوال یہ ہے کہ اللہ والے دکھائی کیوں دیتے ؟ اس پر بھی میں حضرت عبد القادر جیلانی (رض) کی کتاب غنیہ الطالبین سے سندپیش کرتا ہوں کہ انہوں نے فرما یا کہ دنیا میں ہر وقت ٣٥ ہزار ولی موجود رہتے ہیں، جن میں سے بہت سوں کوخود پتہ نہیں ہو تا کہ وہ ولی ہیں اور اللہ جو چاہتا ہے وہ ان سےکام لیتا ہے؟ رہا یہ کہ وہ ہمیں نظر کیوں نہیں آتے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ چودہ سو سال میں  اس حساب سے  وہ کتنے اب تک گزر ے ہونگے اور ہم ان میں سے کتنوں کو جانتے ہیں ؟ ہم جنہیں جانتے ہیں انکی تعداد ہزاروں میں بھی بمشکل ہو گی جب کہ دنیا کی تا ریخ دیکھتے ہو ئے ، تعدادکرو ڑوں میں ہو نا چا ہیئے؟ وجہ یہ ہےکہ جن کے سپرد تبلیغ تھی وہی ظاہر ہو ئے انہیں کو ہم جانتے ہیں، جو دوسرے کاموں پر مامور تھے ان کو چونکہ شہرت اور کرا مات دکھانے کی ضرورت نہیں تھی لہذا نہ وہ مشہور ہوئے نہ ہم انہیں جانتے ہیں جبکہ نبی (ع)کو نبوت ظاہر کرنے کا حکم ہے اور ولی جوتبلیغ پر مامور نہیں ان کو خود کو مخفی رکھنے کا حکم ہے ؟جب کہ یہ سلسلہ بھی پہلے دن سے تھا۔ جس کا ثبوت قر آن میں حضرت خضر (ع)اور موسیٰ (ع) کے قصے میں موجود ہے۔ چونکہ اب اللہ کی کتاب مکمل ہو چکی تھی حضور(ص) کے بعد کوئی نبی (ع) نہیں آنا تھا، لہذا دین کو بچانے کے لیئے یہ سلسلہ اولیا ء بھی قائم رکھا گیا، جس نے جب بھی کوئی دین میں بگاڑ پیدا ہوا آگے بڑھ کر دین کی حفاظت کی اگر یہ سلسلہ بھی آج کی طرح پہلے ہی گمراہ ہو گیا ہو تا تو دین ہی نہیں ہوتا، مگر اللہ نے اس کی بقا کا وعدہ کیا ہوا ہے لہذا یہ بظاہر اضافی چیز پہلے حضور (ص) کوعطا فرما ئی گئی اور ان سے امت کو منتقل ہوئی؟ کیونکہ اس سے پہلے جو نبی(ع) آپکو قر آن میں ملیں گے ان کے ذمہ یتلو علیہم  (آیات پڑھ کر سنانے)کی خدمت تھی ، جبکہ اس کے ساتھ   یزکیھہم (تزکیہ کرنے) کی خدمت صر ف حضور (ص) کے ساتھ مقرر ہوئی ۔ یعنی اور نبی (ع) صرف اللہ کاکلام پڑھ کر سناتے تھے جبکہ ہمارے آقا (ص) کے سپرد اک اضافی خدمت یہ تھی کہ وہ ان کو پاک بھی فر ما ئیں۔ کیونکہ عملی طور انہیں ہی کو دین کو نافذ کرنا تھا اور ان کے بعد یہ ہی تربیت یافتہ لوگ اقامت دین کر نے اور اللہ کا نظام چلانے کے ذمہ دار تھے ۔ اب رہا یہ سوال کہ ان کی پہچان کیا ہے۔ وہ سورہ البقر ہ میں آیت نمبر ٢٥٦، ٢٥٧میں بیان ہو ئی ہے ۔ کہ پہلی تاکید تو یہ ہے کہ “ زبردستی کسی کومسلمان مت بنا ؤ اس لیئے کہ ہم نے گمراہی سے ہدایت کو ممتاز فرمادیاہے اور ایمان والے وہی ہیں جو کفر اور طاغوت سے تا ئب ہوگئے اور اللہ پر ایمان لا ئے اور اس کے کڑے کو مضبوطی سے پکڑ لیا اور وہ سننے اور جاننے والا ہے۔ دوسری آیت میں ارشاد ہو تا ہے “اللہ ایمان والوں کا ولی ہے اور جوکہ اندھیرے سے نکال کراجا لے کی طرف لاتا ہے۔اور کفار کا ولی طاغوت ہے جو نور سے ظلمات کی طرف کھینچتاہے یہ ہی لوگ کافر ہیں جو ہمیشہ جہنم میں پڑے رہیں گے “

تبصرے
Loading...