کیوں حضرت زہرا (س) کو رات میں دفنایا گیا؟

جناب زہرا(س) نے وصیت کی کہ انہیں رات کے عالم میں دفنایا جائے لیکن یہ وصیت صرف اس وجہ سے نہیں تھیں کہ نامحرموں کی آپ کے جنازے پر نگاہ نہ پڑے بلکہ آپ ان لوگوں کو باخبر نہیں کرنا چاہتی تھیں جنہوں نے آپ پر ظلم و ستم کے طوفان ڈھائے۔

بقلم: افتخار علی جعفری

کیوں حضرت زہرا (س) کو رات میں دفنایا گیا؟

سوال: کہا جاتا ہے کہ حضرت زہرا (س) کو رات میں دفن کیا گیا تھا۔ کیا یہ صرف اس وجہ سے تھا جو آپ نے جناب اسما بنت عمیس کو وصیت کی تھی، تاکہ نامحرم آپ کے جسد کو نہ دیکھ سکیں؟

جواب: جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا رات کے عالم میں دفن ہونا، خلفاء کا جنازے میں شریک نہ ہونا، قبر کا مخفی ہونا، یہ تمام وہ راز ہیں جن کے پس پردہ بہت سارے حقائق پوشیدہ ہیں۔ ٹھیک ہے جناب زہرا (س) نے وصیت فرمائی تھی لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیوں جناب زہرا ایسی وصیت کرنے پر مجبور ہوئیں؟ کیا ایسا نہیں ہے کہ آپ اپنی اس وصیت کے ذریعہ اپنے دشمنوں کی نسبت ناراضگی کا اظہار کرنا چاہتی تھیں؟ اور قیامت تک کے محققین کے لیے یہ سوال چھوڑ کر جانا چاہتی تھیں کہ کیوں جناب زہرا (س) کا جنازہ رات میں اٹھایا گیا؟ کیوں جناب زہرا (س) کی قبر مخفی ہے ؟ کیوں حضرت علی (ع) نے خلفاء وقت کو خبر کئے بغیر آپ کے جنازہ پر نماز ادا کر دی؟ وغیرہ وغیرہ

کیا وہ شخص جو جانشین پیغمبر (ص) تھا وہ دختر رسول (ص) کے جنازہ پر نماز پڑھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا؟

جی ہاں، جناب زہرا(س) نے وصیت کی کہ انہیں رات کے عالم میں دفنایا جائے لیکن یہ وصیت صرف اس وجہ سے نہیں تھیں کہ نامحرموں کی آپ کے جنازے پر نگاہ نہ پڑے بلکہ آپ ان لوگوں کو باخبر نہیں کرنا چاہتی تھیں جنہوں نے آپ پر ظلم و ستم کے طوفان ڈھائے۔ یہ شیعت کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے رسول اسلام (ص) کے بعد جانشین رسول (ص) ہونے کا دعویٰ کیا تھا دختر رسول (ص) دنیا سے جاتے وقت ان سے ناراض تھیں لہذا جناب فاطمہ (ص) کی محبت دل میں رکھنے والے اور ان کی سیرت پر چلنے والے کیسے ان سے راضی ہو سکتے ہیں؟

جناب زہرا (س) کے خلفاء راشدین سے ناراضگی پر شیعہ سنی کتابوں میں کثرت سے روایات موجود ہیں ہم یہاں پر صرف چند ایک کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

اہلسنت کی کتابوں میں:

رات میں دفن کرنا اور خلفاء کو اطلاع نہ دینا

محمد بن اسماعیل بخاری لکھتے ہیں:

وعَاشَتْ بَعْدَ النبي صلى الله عليه وسلم سِتَّةَ أَشْهُرٍ فلما تُوُفِّيَتْ دَفَنَهَا زَوْجُهَا عَلِيٌّ لَيْلًا ولم يُؤْذِنْ بها أَبَا بَكْرٍ وَصَلَّى عليها.

فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا رسول خدا (ص) کے بعد چھ مہینے زندہ رہیں جب دنیا سے رخصت ہوئیں تو آپ کے شوہر علی (ع) نے رات کے عالم میں آپ کو دفن کر دیا اور ابوبکر کو اطلاع نہیں دی۔

البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله (متوفاي256هـ)، صحيح البخاري، ج 4، ص 1549، ح3998، كتاب المغازي، باب غزوة خيبر، تحقيق د. مصطفى ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة – بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407 – 1987.

ابن قتیبہ دینوری نے تاویل مختلف الحدیث میں لکھا ہے:

وقد طالبت فاطمة رضي الله عنها أبا بكر رضي الله عنه بميراث أبيها رسول الله صلى الله عليه وسلم فلما لم يعطها إياه حلفت لا تكلمه أبدا وأوصت أن تدفن ليلا لئلا يحضرها فدفنت ليلا.

فاطمہ(س) نے ابوبکر سے اپنے باپ کی میراث کا مطالبہ کیا ابوبکر نے قبول نہیں کیا تو فاطمہ(س) نے قسم کھائی کہ ابوبکر کے ساتھ بات نہیں کریں گی اور وصیت کی کہ انہیں رات کو دفن کیا جائے اور وہ (ابوبکر) ان کے جنازہ میں شریک نہ ہو۔

الدينوري، أبو محمد عبد الله بن مسلم ابن قتيبة (متوفاي276هـ)، تأويل مختلف الحديث، ج 1، ص 300، تحقيق: محمد زهري النجار، ناشر: دار الجيل، بيروت، 1393هـ، 1972م.

عبد الرزاق صنعانی لکھتے ہیں:

عن بن جريج وعمرو بن دينار أن حسن بن محمد أخبره أن فاطمة بنت النبي صلى الله عليه وسلم دفنت بالليل قال فرَّ بِهَا علي من أبي بكر أن يصلي عليها كان بينهما شيء.

ابن جریح اور عمرو بن دینار سے نقل کیا ہے کہ انہیں حسن بن محمد نے خبر دی کہ فاطمہ (س) بن نبی صلی اللہ علیہ و آلہ کو رات میں دفن کیا گیا اس نے کہا کہ فاطمہ (س) اور ابوبکر کے درمیان جو کچھ ہوا اس کی وجہ سے علی (ع) نے اسے نماز پڑھنے کے لیے مطلع نہیں کیا۔

نیز لکھتے ہیں:

عبد الرزاق عن بن عيينة عن عمرو بن دينار عن حسن بن محمد مثله الا أنه قال اوصته بذلك

حسن بن محمد سے اس کے مشابہ ایک اور روایت بھی نقل ہوئی ہے اس میں صرف اتنا فرق ہے کہ اس میں آیا ہے کہ فاطمہ(س) نے خود اس کام کی وصیت کی تھی۔

الصنعاني، أبو بكر عبد الرزاق بن همام (متوفاي211هـ)، المصنف، ج 3، ص 521، حديث شماره 6554 و حديث شماره: 6555، تحقيق حبيب الرحمن الأعظمي، ناشر: المكتب الإسلامي – بيروت، الطبعة: الثانية، 1403هـ.

ابن بطال نے شرح صحیح بخاری میں لکھا ہے:

أجاز أكثر العلماء الدفن بالليل… ودفن علىُّ بن أبى طالب زوجته فاطمة ليلاً، فَرَّ بِهَا من أبى بكر أن يصلى عليها، كان بينهما شىء.

اکثر علماء نے جنازہ کو رات میں دفن کرنے کو جائز قرار دیا ہے۔۔۔ اور علی بن ابی طالب نے اپنے زوجہ فاطمہ کا جنازہ رات کو دفن کیا تاکہ ابوبکر ان پر نماز نہ پڑھ سکے چونکہ ان دونوں ( فاطمہ اور ابوبکر) کے درمیان کوئی اختلاف تھا۔

إبن بطال البكري القرطبي، أبو الحسن علي بن خلف بن عبد الملك (متوفاي449هـ)، شرح صحيح البخاري، ج 3، ص 325، تحقيق: أبو تميم ياسر بن إبراهيم، ناشر: مكتبة الرشد – السعودية / الرياض، الطبعة: الثانية، 1423هـ – 2003م.

ابن ابی الحدید نے جاحظ سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے:

وظهرت الشكية، واشتدت الموجدة، وقد بلغ ذلك من فاطمة ( عليها السلام ) أنها أوصت أن لا يصلي عليها أبوبكر۔

فاطمہ کی شکایت اور نارضگی اس حد تک تھی کہ انہوں نے وصیت کی کہ ابوبکر ان کے جنازہ پر نماز نہ پڑھے۔

إبن أبي الحديد المدائني المعتزلي، أبو حامد عز الدين بن هبة الله بن محمد بن محمد (متوفاي655 هـ)، شرح نهج البلاغة، ج 16، ص 157، تحقيق محمد عبد الكريم النمري، ناشر: دار الكتب العلمية – بيروت / لبنان، الطبعة: الأولى، 1418هـ – 1998م.

دوسری جگہ لکھتے ہیں:

وأما إخفاء القبر، وكتمان الموت، وعدم الصلاة، وكل ما ذكره المرتضى فيه، فهو الذي يظهر ويقوي عندي، لأن الروايات به أكثر وأصح من غيرها، وكذلك القول في موجدتها وغضبها.

فاطمہ (س) کی قبر کا مخفی ہونا، موت کو چھپانا، اور ابوبکر کا نماز جنازہ نہ پڑھنا، اور مزید جو کچھ سید مرتضی نے لکھا ہے وہ سب میرے نزدیک واضح اور مورد تائید ہے۔ اس لیے کہ اس موضوع پر کثرت سے روایات موجود ہیں اور باقی روایتوں سے صحیحتر ہیں اور اس طرح ( شیخین کے سلسلے میں ) آپ کی ناراضگی اور غضب کی بات بھی میرے نزدیک مورد تائید ہے۔

شرح نهج البلاغة، ج 16، ص 170.

 

شیعوں کی کتابوں میں

جناب فاطمہ (س) کا رات میں دفن ہونا

اگر چہ جناب زہرا (ص) کی رات میں دفن کے سلسلے میں وصیت شیعہ علماء کے نزدیک مسلم اور قطعی ہے لیکن ہم یہاں پر صرف ایک روایت کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

مرحوم شیخ صدوق نے رات کو دفنانے کی وجہ کے بارے میں لکھا ہے:

عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي حَمْزَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام لِأَيِّ عِلَّةٍ دُفِنَتْ فَاطِمَةُ (عليها السلام) بِاللَّيْلِ وَ لَمْ تُدْفَنْ بِالنَّهَارِ قَالَ لِأَنَّهَا أَوْصَتْ أَنْ لا يُصَلِّيَ عَلَيْهَا رِجَالٌ [الرَّجُلانِ ].

علی بن ابو حمزہ نے امام صادق علیہ السلام سے پوچھا: کیوں فاطمہ زہرا(س) کو رات میں دفن کیا گیا دن میں نہیں؟ فرمایا: فاطمہ سلام اللہ علیہا نے وصیت کی تھی کہ انہیں رات میں دفن کیا جائے تاکہ کچھ لوگ( دو آدمی) ان کے جنازہ پر نماز نہ پڑھ سکیں۔

الصدوق، أبو جعفر محمد بن علي بن الحسين (متوفاي381هـ)، علل الشرايع، ج 1، ص185، تحقيق: تقديم: السيد محمد صادق بحر العلوم، ناشر: منشورات المكتبة الحيدرية ومطبعتها – النجف الأشرف، 1385 – 1966 م .

مرحوم صاحب مدارک لکھتے ہیں:

إنّ سبب خفاء قبرها ( عليها السلام ) ما رواه المخالف والمؤالف من أنها ( عليها السلام ) أوصت إلى أمير المؤمنين ( عليه السلام ) أن يدفنها ليلا لئلا يصلي عليها من آذاها ومنعها ميراثها من أبيها ( صلى الله عليه وآله وسلم ).

جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو رات میں دفن کرنے کی وجہ یہ ہے کہ جیسا کہ دوست و دشمن سب نے نقل کیا ہے کہ آپ (س) نے امیر المومنین علی (ع) کو وصیت کی تھی کہ انہیں رات کو دفنایا جائے تاکہ وہ لوگ جنہوں نے آپ کو اذیت و آزار دیں اور آپ کو اپنے باپ کی میراث سے محروم کیا آپ کے جنازہ میں شریک نہ ہوں اور آپ پر نماز نہ پڑھ سکیں۔

الموسوي العاملي، السيد محمد بن علي (متوفاي1009هـ)، مدارك الأحكام في شرح شرائع الاسلام، ج 8، ص279، نشر و تحقيق مؤسسة آل البيت عليهم السلام لإحياء التراث، الطبعة: الأولي، 1410هـ.

نتیجہ

مذکورہ روایات اور اہلسنت کے علماء کے اعتراف کی روشنی میں جناب زہرا (س) کو رات کے عالم میں دفنانا آپ کی وصیت کی وجہ سے تھا جو آپ نہیں چاہتی تھیں کہ جن لوگوں نے آپ کے بابا کے بعد آپ کو اس قدر ستایا کہ اٹھارہ سال کی عمر میں سر کے بال سفید ہو گئے، کمر خمیدہ ہو گئی، پسلیاں توڑ دی گئی، شکم میں محسن کو شہید کر دیا گیا، وہ لوگ آپ کے جنازے میں شریک ہوں۔ وہ لوگ کیسے جناب زہرا (س) کی جنازہ میں شریک ہو سکتے تھے؟ جناب زہرا (س) ہرگز انہیں اجازت نہیں دے سکتی تھی کہ وہ آپ کے جنازے پر نماز پڑھیں۔ ایسے میں اگر رات کو دفنانے کی وصیت نہ کرتی اور دن میں جنازہ اٹھتا تو یقینا رسم نبھانے وہ لوگ بھی جنازہ میں شریک ہو جاتے جس سے ایک تو جناب زہرا(س) کی روح کو اذیت ہوتی۔ دوسرے اگر علی علیہ السلام انہیں منع کرتے تو ایک نیا ہنگامہ کھڑا ہو جاتا۔ ممکن تھا تلواریں نکل آتیں تو جنازہ کی بے حرمتی ہوتی۔ لہذا جناب زہرا (س) نے پہلے سے ہی ان تمام حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے رات کے عالم میں اپنے دفنانے کی وصیت کر دی تاکہ کسی کو خبر نہ ہو اور مسلمان خونریزی سے بچ جائیں۔

 

تبصرے
Loading...