کورونا کے آگے علم طب کی بےبسی / کورونا نے سائنس کو عاجز کردیا، نہ کہ سائنس نے دین کو

کورونا وائرس نے دنیا بھر کو متاثر کیا تو دین دشمن افراد اور لابیوں نے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی ٹھانی ہے اور کچھ لوگ مغالطوں سے بھرپور اعتراضات اور شبہات پیش کرکے کورونا کو نوجوانوں کے دل میں دین و اعتقاد کو کمزور کرنے کا ذریعہ بنانے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔ یہاں بھی مغالطوں سے بھرے کچھ جملے سامنے آئے ہیں جیسے “دین نے سائنس کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے ہیں، وغیرہ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ دین کی نہیں بلکہ سائنس کی کمزوری ابھر کر سامنے آئی ہے اور سائنس نے ایک وائرس کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں! سائنس واقعی بےچارگی کا شکار ہے اور ہمیشہ انسانی ضروریات کے سامنے بےچارگی سے دوچار رہی ہے۔ گوکہ محنت کش سائنسدان جو انسانی مسائل حل کرنے کے لئے شب و روز مصروف عمل رہتے ہیں، قابل صد احترام ہیں۔

اہل البیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا، (خصوصی) ۔
ایک دین دشمن شخص نے کورونا کے عالمی پھیلاؤ کے بعد سائبر اسپیس پر ذیل کے مغالطوں پر مشتمل ایک پوسٹ نشر کی ہے؛ اگر زندہ رہو تو:
1۔ یاد رکھو اس دین نے سائنس کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے تھے!
2۔ یاد رکھو کہ مسلمان اپنے مقدس مقامات کو بھی الکحل کے ذریعے صاف کرتے تھے!
3۔ مسلمانوں نے اپنی نماز کی چھٹی کردی!
4۔ یاد رکھو کہ مزید ان کی ضریح شفا نہیں دی رہی تھیں!
5۔ یاد رکھو کہ مسلمانوں کی ضریحیں خود بیماری میں تبدیل ہوچکی ہیں!
6۔ یاد رکھو کہ مسلمان خود بھی اپنی خرافات پر یقین نہیں رکھتے تھے!
7۔ یاد رکھو کہ مسلمان اپنے مقدس مقامات کو بھی الکحل کے ذریعے صاف کرتے تھے جس کا تعلق سائنس سے تھا!
8۔ یاد رکھو کہ دین سائنس کے ساتھ تضاد رکھتا ہے!

اب اگر کہیں ہمیں اس طرح کے شبہات کا سامنا ہوا تو خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہيں ہے، امام زمانہ علیہ السلام سے توسل کرتے ہیں اور امام زمانہ(ع) کے ظہور کے لئے دو رکعت نماز بجا لاتے ہیں اپنے پروردگار اور اپنے مولا سے مدد مانگتے ہیں کہ شبہے اور اعتراض کا جواب ہمارے لئے واضح کردیں۔ / سائنس ایک وائرس کے سامنے باالکل عاجز ہے تو اس میں دین کا کیا قصور؟ اور سائنس نے ایسا کونسا کارنامہ انجام دیا ہے کہ کہا جاسکے کہ دین نے سائنس کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں؟

1۔ “اگر زندہ رہے تو یاد رکھو اس دین نے سائنس کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے!

جواب:

یہاں مغالطوں سے بھرے کچھ جملے ہیں: مثال کے طور پر دین نے سائنس کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے ہیں بلکہ سائنس کی کمزوری ابھر کر سامنے آئی ہے اور سائنس نے ایک وائرس کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں! سائنس واقعی بےچارگی کا شکار ہے۔

ہم کہتے ہیں کہ ایک وائرس آیا ہے اب یہ سائنس ہمارے لئے کچھ کرے۔ ان دنوں دنیا بھر میں ڈاکٹروں کی طرف سے مختلف قسم کی تلقینات اور نصحتیں سامنے آرہی ہیں، کوئی کہتا ہے فلان وٹامن اچھا ہے دوسرا کہتا کہ وہی وٹامن مضر ہے؛ ایک کہتا ہے کہ فلان کام کرو دوسرا کہتا ہے کہ مت کرو؛ ابھی تک سائنس خود نہیں جانتی کہ اسے کرنا کیا ہے! سائنس نے ایک نہایت چھوٹے خوردبینی مخلوق (وائرس) کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں؛ ہم کہتے ہیں کہ سائنسدانو! آؤ اور اس پر قابو پاؤ، اس پر قابو نہیں پاسکتے ہو تو اس سے پہلے پھیلنے والی بیماریوں پر قابو پاؤ: کینسر کی مختلف قسموں کا علاج بتاؤ، ایڈز کا علاج بتاؤ، ہیپاٹائٹس A, B, اور C کا علاج بتاؤ۔ انفلوینزا کا پر قابو پاؤ جو ہر سال ہزاروں انسانوں کی موت کا باعث بنتا ہے۔ جو لوگ مغربی زبانوں سے واقف ہیں جاکر خود دیکھ لیں اور پوچھ لیں کہ آج کا علم طب کتنے فیصد امراض کا علاج کرتا ہے؟ علاج سے مراد اینلجیسک دینا نہیں ہے بلکہ مرض کی بیخ کنی مراد ہے۔ دیکھ لیں کہ میڈیکل سائنس کتنے فیصد بیماریوں کی بیخ کرتی ہے؛ جاکر مستند رپورٹوں اور دستاویزات کا مطالعہ کریں۔ ڈاکٹر آپس میں لڑ رہے ہیں، ایک دوسرے کے موقف کی تردید کررہے ہیں۔

معاف کرنا، کیا یہ وائرس ایک مخلوق ہے یا نہیں ہے؟ اس کے پھیلاؤ کا دین سے کیا تعلق ہے؟ سائنس نے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں۔ کیا دین نے اس حوالے سے کوئی دعوی کیا ہے؟ دین کہہ رہا تھا کہ “لِّلَّهِ ما فِي السَّمَاواتِ وَمَا فِي الأَرْضِ۔۔۔؛ اللہ سے مخصوص ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے۔۔۔”۔ (بقرہ، 284) اور اب بھی یہی کہتا ہے۔ دین ہمیں یہ کہنے کی تلقین کرتا ہے کہ “اے پروردگار میں تیری پناہ مانگتا ہوں” چاہے ہمارے سامنے سب سے بڑی طاغوتی طاقت ہو یا کوئی مہلک خوردبینی مخلوق؛ نمرود کس طرح ہلاک ہوا؟

یہاں دین کی مشکل کیا ہے؟ کیا دین نے کچھ اور کہا تھا؟ مغالطے کی طرف خوب توجہ دیں۔ چنانچہ ہم کہتے ہیں کہ دین نے کسی چیز کے سامنے بھی گھٹنے نہیں ٹیکے ہیں۔

ہم پوچھتے ہیں کہ اگر دشمن کا ایک لشکر مسجد پر حملہ کرے اور وہاں موجود لوگوں کو قتل کرنا چاہے تو کیا انہیں وہاں سے فرار ہونا چاہئے یا نہیں؟ اگر کوئی ٹیلی فون پر خبر دے یا کوئی آکر کہہ دے کہ اس مسجد، اس امام بارگاہ اور اس مذہبی مرکز بم رکھا گیا ہے یا کچھ دہشت گرد آکر یہاں خودکش کاروائی کرنا چاہتے ہیں، تو آپ کی منطق کیا کہتی ہے اور عقل کا تقاضا کیا ہے کہ لوگوں کو وہاں سے فرار ہونا چاہئے یا نہیں؟ اس سوال کا جواب ہماری عقل نے، ہماری شریعت نے، ہمارے قرآن نے اور ہمارے دین نے دےدیا ہے، کیا دین نے یہ سب نہیں کہا ہے کہ ان صورتوں میں جان بچانا واجب ہے؟ کہتا ہے

2۔ یاد رکھو کہ مسلمان اپنے مقدس مقامات کو بھی الکحل کے ذریعے صاف کرتے تھے!

جواب:

کیا کرونا وائرس کے ظہور پذیر ہونے سے عشروں قبل سے مسجد الحرام میں روزانہ کئی مرتبہ جراثیم کش دواؤں کے ذریعے وبائی اثرات کی صفائی نہیں ہوا کرتی؟ آپ لوگ جو حج بیت اللہ کے لئے مکہ معظمہ گئے ہیں، عمرہ کے لئے حجاز گئے ہیں، کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ ہر روز کئی مرتبہ ان دواؤں کے ذریعے مسجد الحرام کی صفائی ہوتی ہے۔

الکحل ایک شیئے ہو جو خلقت میں موجود ہے۔ خدا نے الکحل کو جراثیم کے مد مقابل قرار دیا ہے اور جراثیم بھی خلقت کا حصہ ہیں۔ پرانے زمانے کے حکماء اور طبیبوں نے دریافت کیا کہ اگر فلان واقعہ رونما ہوا تو الکحل کے ذریعے جراثیم کُشی کا انتظام کرو۔ کیا یہ کوئی عجیب بات ہے؟ کیا دھلائی، تطہیر، صفائی اور جراثیم کے انسداد جیسے اعمال کو تم لائے ہو؟ کیا سائنس ان چیزوں کو اپنے ساتھ لائی ہے؟ سائنس کا سب سے بڑا کارنامہ ان اشیاء کی دریافت ہے جو خلقت میں موجود ہیں؛ سائنس کی سب بڑی خدمت یہی ہے کہ نظام خلقت اور اور قدرت کی قلمرو میں سے کسی چیز کو ڈھونڈ نکالے۔

یہ حضرات کچھ اس انداز سے ہرزہ سرائیاں کرتے ہیں کہ گویا دین ایک طرف بیٹھا ہے اور سائنس نے دوسری طرف اپنی بساط بچھائی ہوئی ہے۔ ایک طرف سے مثلا کچھ [ان لوگوں اور ان کے برعکس تنگ نظر انتہاپسندوں کے خیال میں] دین بھی دوسری طرف سے کہہ رہا ہے کہ “حفاظتی تدابیر کو نظر انداز کرو، مسجد اور نماز جماعت میں آؤ، حسینیہ میں آؤ، حرم میں چلے جاؤ؛ اور وہ بھی اُدھر سے کہہ رہے ہیں کہ تجھے قسم دلاتے ہیں کہ ان اجتماعی مقامات پر نہیں جاؤ، اور یوں دین اور سائنس کے درمیان ایک تنازعہ کھڑا ہوا ہے! کیا تمہیں ایسی کوئی چیز نظر آئی ہے؟ ہم ڈاکٹروں کی پیش کردہ تمام تر احتیاطی تدابیر پر ـ جن کے صحیح یا غلط ہونے کا کسی کو بھی یقین نہیں ہے ـ عمل کررہے ہیں؛ اور پھر یہ سارے انتظامات محض احتیاطی ہیں اور کوئی بھی انتظام اور ہدایت یقینی نہیں ہے؛ ہم کہتے ہیں ڈاکٹر صاحبان بیٹھ کر فیصلہ کریں اور ہمیں بتا دیں کہ کس سے دور رہیں، کہاں اپنی حفاظت کریں؟ ابھی تک یقینی طور پر کچھ معلوم نہیں ہے کہ کیا کرنا چاہئے؛ لیکن ان تدابیر و انتظامات اور ہدایات کے سلسلے میں مذکورہ تمام ممکنہ صورتوں کے باوجود ہم ان ہدایات پر عمل کرتے ہیں اور ہر عقلمند شخص عمل کرتا ہے اس کا بیت اللہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہم پر فرض ہے کہ ان انتظامات پر کاربند رہیں۔

3۔ مسلمانوں نے اپنی نماز کی چھٹی کردی!

جواب:

نماز کی چھٹی کب ہوئی، کہاں ہوئی؟ نماز کی چھٹی ہوئی ہے؟ ہرگز نہیں، اس سفید جھوٹ کو دیکھ لیجئے!

4۔ یاد رکھو کہ مزید ان کی ضریح شفا نہیں دی رہی تھیں!

جواب: یہ بات کس نے کہی ہے؟ کیا اگر ضریح کو جراثیم کے ازالے کی دواؤں سے دھولیا جائے تو وہ شفا نہیں دیتی یا اگر ضریح پر کوئی چیز ڈال دی جائے تو وہ شفا دینے سے عاجز ہوجاتی ہے؟ یعنی اگر امام معصوم اور کسی امام زادہ کی ضریح کی دھلائی کی جائی تو وہ شفا نہيں دیا کرتے؟ یہ بات مجھ سے بھی کسی نے پوچھ لی تو میں نے کہا کہ اگر آپ کے بقول ائمۂ معصومین علیہم السلام کورونا وائرس کی وجہ سے مزید کسی کو شفا نہیں دے رہے ہیں تو کیا اللہ بھی مزید شافی نہیں ہے؟ کیا اس کے بعد ہمیں “یا شافی، یا کافی یا مُعافی” کہہ کر اللہ کے ساتھ راز و نیاز نہیں کرنا چاہئے؟  ائمہ معصومین علیہم السلام بھی تو اللہ کے اذن سے اور اللہ سے التجا کرکے لوگوں کے لئے شفا اور صحت کا انتظام کرتے ہیں، اور اللہ ہمیشہ شافی ہے۔ یہ کیا مغالطہ ہے؟ اگر کوئی آکر ضریح کو زہر سے آلودہ کرے تو تمہاری عقل کیا کہتی ہے؟ امام معصوم(ع) کیا فرماتے ہیں؟ یقینا عقل کا بھی تقاضا ہے اور امام(ع) کا بھی حکم ہے کہ “قریب مت جاؤ”؛ یہ کوئی عجیب مسئلہ تو نہیں ہے۔ اگر آپ کو قم اور مشہد مشرف ہونے کی خواہش ہے تو کوئی مسئلہ نہيں ہے اپنے گھر والوں کو اکٹھا کرو اور کہہ دو “آج ہم نماز ظہر کے بعد یا نماز مغربین کے بعد زیارت جامعہ پڑھنا چاہتے ہیں”، اس میں کوئی حرج نہيں ہے؛ امام رضا علیہ السلام کے اپنے سامنے تصور کریں اور زیارت پڑھیں، سیدہ فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کی زیارت پڑھیں، یہ زيارات مفاتیح الجنان میں موجود ہیں۔ پس کسی بھی عمل کی چھٹی نہیں ہوئی ہے۔

تم کہتے ہو کہ ہم حرم کے قریب کیوں نہیں جاتے؟ تو یہ تو اتنی بڑی بات نہیں ہے تاریخ میں اس سے بہت بڑے واقعات رونما ہوئے ہیں۔ وہ لوگ جنہوں نے مدینہ پر حملہ کیا، جنہوں نے مکہ پر حملہ کیا [یزید اور  عبدالملک کے زمانے میں]، وہ لوگ جنہوں نے بنو عباس کے زمانے میں کربلا پر حملہ کیا اور لوگوں کو قتل کیا اور منتشر کیا۔ کیا صدام کے زمانے میں لوگ آج کی طرح اربعین کے ایام میں کربلا کے سفر پر جاتے تھے، کیا لوگ اس طرح زیارت کے لئے جاتے تھے؟ ان لوگوں نے لوگوں کے افکار کو بازیچہ قرار دیا ہے۔

5۔ یاد رکھو کہ مسلمانوں کی ضریحیں خود بیماری میں تبدیل ہوچکی ہیں!

جواب:

کیا اس حقیقت کو آپ نے اکیلے کشف کرلیا ہے؟ کوئی شخص آکر حرم کو زہریلے مواد سے آلودہ کرے اور پھر کہہ دے کہ اب ضریح بیماری کا سبب بن چکی ہے! اس میں حیرت کی کیا بات ہے؟ کوئی بھی جسم بیماری کا سبب ہوسکتا ہے۔

6۔ یاد رکھو کہ مسلمان خود بھی اپنی خرافات پر یقین نہیں رکھتے تھے!

جواب:

اس شبہے کے دو حصے ہیں۔ ایک حصے کو میں بذات خود قبول کرلیتا ہوں چونکہ میں ہوسکتا ہے کہ میرا ایمان کمزور ہو، میرا عقیدہ کمزور ہو، آزمائش کی گھڑی ہو تو ممکن ہے کہ میں ان باتوں پر استوار نہ رہوں جن کا میں دعوی کرتا ہوں؛ لیکن کیوں کہتے ہو کہ “وہ اپنی خرافات پر یقین نہيں رکھتے تھے”، کیا میرے عقائد خرافات ہیں؟ تم جو ائمہ علیہم السلام سے دشمنی رکھتے ہو اور ایسی باتیں لکھتے ہو کیا تمہیں یقین نہيں ہے کہ اللہ تعالی شفا دینے والا ہے [اور ادویات اور طبیب سب وسیلے ہیں]۔ کیا ہوسکتا ہے کہ جب کام کاج کرکے گھر آتے ہو تو ہاتھ ہر چیز پر مل لو اور ہاتھ مت دھؤو؟ کیا اللہ شفا دینے والا نہیں ہے؟ تو خدا سے کیوں نہيں کہتے ہو کہ جب تو شافی ہے تو ہمیں ہاتھ دھونے کی کیا ضرورت ہے؟ کیا خدا دافع و مانع اور رافع نہیں ہے؟ پھر خدا سے کیوں نہیں کہتے ہو کہ ہم احتیاطی تدابیر کیوں اختیار کریں اور گندے ہاتھوں کو کیوں دھوئیں؟ کیا گندگی اور عدم صفائی مجھے نقصان نہیں پہنچاتی؟ جبکہ الکُحَل اور جراثیم کُش ادویات مجھے فائدہ پہنچاتی ہیں۔

کیا تم خدا کے ساتھ بھی اس قسم کا سلوک روا رکھتے ہو؟ اگر کوئی کام کاج کرکے اپنے بچوں کے لئے روزی کمائے تو کیا وہ اللہ کو رازق نہيں سمجھتا؟ اگر کوئی علاج معالجے کی خاطر طبیب سے رجوع کرے تو کیا وہ خدا کو شافی نہیں سمجھتا؟ اگر کوئی شربت یا گولی کھائے تو کیا کیا وہ خدا کو شافی نہیں سمجھتا؟ کیا ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ اور ائمۂ طاہرین علیہم السلام ظاہری طور پر علاج معالجہ نہيں کرواتے تھے؟ امیرالمؤمنین علیہ السلام محراب کوفہ میں زخمی ہوئے تو اس کے بعد آپ(ع) نے کیا کیا؟ کیا حسنین علیہما السلام نے والد ماجد کے زخم کی تشخیص اور علاج کے لئے طبیب کو نہیں بلوایا؟

تو ہم کہتے ہیں کہ یہ جو تم کہہ رہے ہو ان کا ہمارے عقائد سے کوئی تعلق نہیں ہے تم یہ چیزیں کہاں سے لائے ہو، اس کا ہمیں علم نہیں ہے۔ جی ہاں! اگر تم مجھ پر تنقید کرو کہ میں نے ائمہ علیہم السلام کو کیوں چھوڑا ہے۔ تو میں اگر گنہگار ہوں تو اپنے اعمال کے پیش نظر کہوں گا کہ میں اچھا انسان نہیں ہوں، میں ایک ترش رو اور بد مزاج اور نا اہل انسان ہوں، میرے عقائد صحیح نہیں ہیں، میرے عقائد سست ہیں۔ تم مجھ جیسے کسی کو ملزم ٹہرانا چاہتے ہو، تو مسئلہ نہيں ہے مجھ پر الزام لگاؤ۔ لیکن تم بھی جانتے ہو اور ہم بھی جانتے ہیں کہ میرے عقائد خرافات نہیں ہیں

7۔ یاد رکھو کہ مسلمان اپنے مقدس مقامات کو بھی الکحل کے ذریعے صاف کرتے تھے جس کا تعلق سائنس سے تھا!

جواب:

جاؤ دیکھو، مکہ مکرمہ کو الکحل، پانی اور دوسرے مواد سے دھو لیتے ہیں، تو اس میں مشکل کیا ہے؟ صفائی ستھرائی ایک ضروری عمل ہے اور یہ عمل مسلسل جاری رہنا چاہئے۔ کیا خدام حرم میں مسلسل جھاڑو نہيں لگاتے؟ کیا تم جاکر کہوگے کہ “یاد رکھو مسلمان جھاڑو کے ذریعے حرم کی جھاڑ پونچھ اور صفائی ستھرائی کرتے تھے؟؟؟”؛ [اور پھر الکحل تیسری صدی ہجری سے عالم اسلام میں طب اور جراثیم کشی کے لئے استعمال کیا جاتا رہا ہے]؛ اس شخص کے یہ جملے اس قدر مضحکہ خیز ہیں کہ انسان کو سن کر حیرت ہوتی ہے۔ ممکن ہے کہ یہ باتیں سن یا پڑھ کر انسان کا دل کانپ جائے لہذا اپنے زمانے کے امام سے توسل کرنا چاہئے اور ان ہی سے راز و نیاز کرنا چاہئے اور کہنا چاہئے کہ آپ میرے ولی ہیں یہ لوگ ایسا کیوں کہہ رہے ہیں، آپ ہماری مدد فرمائیں۔

8۔ یاد رکھو کہ دین سائنس کے ساتھ تضاد رکھتا ہے!

جواب:

[بہت سے اوزار اور وسائل ہیں جو دین کے استعمال میں رہتے ہیں اور ان وسائل کو بہر حال سائنسدانوں یا قدیم الایام کے کاریگروں نے تیار کیا ہے جن کا کام فن اور ٹیکنالوجی سے تعلق رکھتا ہے؛ اور ہمیں آج تک ان اوزاروں اور وسائل اور دین کے درمیان کوئی تضاد نظر نہیں آیا؛] کوئی بھی شیئے دین سے تضاد نہيں رکھتی۔ اگر تمہیں سائنس میں کوئی چیز ملے اور آکر مجھ سے کہہ دو کہ یہ گولی لے لو تو یہ فلان مرض کے لئے مفید ہے اور کل آ کر کہہ دو کہ نہیں یہ گولی اس مرض کے لئے مفید نہيں ہے تو سمجھ لو کہ تمہاری وہ سائنس، اب تک سائنس نہيں بن سکی ہے۔ آج میں کہیں کچھ دوستوں سے ملا تو ایک شخص نے کہا: ایک ڈآکٹر نے کہا کہ وٹامن سی کرونا مرض میں مفید ہے اور لیمو وٹامن سی کا حامل ہے چنانچہ لیمو کی قیمت میں اضافہ ہوا اور پھر دوسرے دن دوسرے ڈاکٹر نے کہا کہ لیمو اس بیماری کے لئے مفید نہيں ہے جس کے بعد لیمو کی قیمتیں گر گئیں! ایک نے کہا کہ ادرک بہت مفید ہے تو اس کی قیمت بہت بڑھ گئی اور دوسرے نے کہا کہ مفید نہیں ہے تو اس کی قیمتیں گر گئیں۔ پہلے تم خود کسی نتیجے پر پہنچو، سائنس سے کہہ دو کہ کسی قطعی نتیجے پر پہنچے؛ سائنس بمعنی علم، بمعنی نور، بمعنی روشنی، بمعنی حقیقت ہرگز دین کے ساتھ تضاد نہیں رکھتی؛ [سائنس اگر وسائل اور اوزاروں یا ادویات وغیرہ بنانے کا علم ہے پھر بھی وہ دین کے ساتھ کوئی تضاد نہيں رکھتی] کیونکہ شریعت کا مالک ہی صاحب تکوین اور پوری کائنات کا مالک و خالق ہے؛ صاحب خلقت ہی دین کا مالک ہے، تکوین، خلقت اور دین کے درمیان کسی قسم کا تضاد نہیں ہے۔

ہاں، اگر تم نے کوئی چیز علم اور سائنس کے عنوان سے کوئی چیز گھڑ لی، نہ کہ دریافت کرلی؛ ان لوگوں کی توہین نہيں کرتے جو بعض چیزوں کو دریافت کرنا چاہتے ہیں اور دلچسپ امر یہ ہے کہ جو حقیقی سائنسدان ہیں، محنت کرتے ہیں اور دریافت کرتے ہیں، شب و روز دوڑ کر [بنی نوع انسان کی فلاح کے لئے] کچھ کر دکھنا چاہتے ہیں، وہ کبھی بھی ایسی باتیں نہیں کرتے۔ اپنی تحقیق کے نتائج کا اعلان بھی کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ “فی الحال ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں”؛ ان باتوں کا دین کے ساتھ کوئی تضاد نہيں ہے۔

لہذا دیکھ لیجئے یہ بات صرف کورونا وائرس سے تک محدود نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی یہی سلسلہ جاری رہا ہے۔ آپ کو یاد رکھنا چاہئے کہ اجل مقدّر ہے آتی ہے تو ثانیہ بھر پس و پیش نہيں کرتی۔ اور “اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا؛ اللہ لیتا ہے جانوں کو ان کے مرنے کے وقت”۔ (زمر، 42) میں پوچھتا ہوں: کیا تم نظم و ضبط کی خلاف ورزی کرے ہو؛ کرتے ہو، اکڑ پن دکھاتے ہو اپنی زندگی میں؟ تو کیا کہو گے کہ چونکہ اجل مقدر ہے تو میں زہر کھا لیتا ہوں، نہیں، یہ درست نہيں ہے، بلکہ آپ وہ سب کچھ انجام دیتے ہیں جو صحت و سلامتی اور جانی تحفظ کے لئے ضروری ہے۔ کیا رزق اللہ کی طرف سے مقدر نہیں ہے؟ ارشاد ہوتا ہے: “إِنَّ اللَّهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُ؛ یقینا اللہ وہی روزی دینے والا ہے مضبوط طاقت والا”۔ (ذاریات، 58) اگر اللہ رازق ہے تو کیا مجھے کاہلی اور سستی کا شکار ہوکر گھر میں لیٹنا چاہئے؟ نہیں، ایسا ہرگز نہیں ہے۔

تو میں اپنی بات کو دہراتا ہوں۔ ہم ایسی فضا میں بات کررہے ہیں جہاں ہم وسوسوں میں الجھے بغیر، مضطرب اور پریشان ہوئے بغیر، تمام معقول احتیاطات کو پورا کررہے ہیں اور اپنے معقول فرائض کو نبھا رہے ہیں۔ اب جب ہم نے تمام معقول احتیاطی انتظامات کو سر انجام دیا تو یہ بات مرنے کا سبب تو نہیں ہے۔ جو لوگ پوری دنیا میں کورونا کے سوا دوسری بیماریوں اور حادثات کے نتیجے میں جان سے ہاتھ دھو رہے ہیں ان کی تعداد کئی گنا زیادہ ہے۔

دیکھئے بعض وقت جب کوئی خاص واقعہ رونما ہوتا ہے تو بعض لوگ اس طرح کے اعصابی تناؤ، گھبراہٹ سَرا سيمگی سے دوچار ہوجاتے ہیں کہ گویا ان کے دل و دماغ میں اللہ کی عظمت (معاذ اللہ) کمزور پڑ رہی ہے، معصومین علیہم السلام کی منزلت سست پڑ رہی ہے، جبکہ کچھ بھی نہیں بدلا، خدا وہی خدا ہے، عالَم وہی عالم ہے اور ہر چیز اپنی جگہ محفوظ ہے، [جبکہ یہ بلائیں، آفات اور مصائب ہماری آزمائش کے لئے ہیں: “وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الأَمَوَالِ وَالأنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ؛ اور ضرور بالضرور ہم تمہیں آزمائیں گے، خوف، دہشت، بھوک اور مال و جان اور پھلوں کی کمی [جیسی] کسی نہ کسی چیز کے ساتھ، اور خوشخبری دیجئے صبر کرنے والوں کو”۔ (بقرہ، 155)  

۔۔۔۔۔
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔

110

تبصرے
Loading...