کربلا درسگاہ اخلاق

عام طور سے معرکہ کربلا فقط ایک غم ناک اور اندوہگین واقعہ کی حیثیت سے دیکھا جا تا ہے اور اس کا تذکرہ بھی اکثررو نے رو لا نے کے لئے کیا جا تا ہے ۔مگر ایسے عظیم الشان کا رنامے کا ہدف  جس کے سامنے عقل انسانی متحیر اور کا ئنات دم بخود ہے صرف اظہار مظلومیت قرار دینا حسینی بلند نصب العین کے قطعاً خلاف ہے ۔ریگزار کر بلا پر رو نما ہو نے والا محیر العقول واقعہ کوئی اتفاقی یا ہنگا می حادثہ نہیں ہے بلکہ اس کی خبر حضور مرسل اعظم  ۖ اپنی زندگی میں متعدد مر تبہ دے چکے تھے۔

جس طرح آفتاب کی شعاعیں ہر گھر میں پہونچتی ہیں ٹھیک اسی طرح واقعہ کر بلا دنیا کی ہر قوم اور ہر خطے پر اثر انداز ہوا اورہو رہا ہے اور ہر جگہ اس کی گو نج سنا ئی دیتی ہے ، ہر قوم ومذہب اور ہر طبقہ کے افراد نے اپنے اپنے اپنے نقطہ نگا ہ سے اس واقعہ کی تو ضیح و تفسیر کی ہے یوں تو اس واقعہ کے سلسلہ میں بے شمار افکار و نظریات پا ئے جا تے ہیں کسی نے اسے ایسی کھلی کتاب سے تعبیرکی ہے جس میں ہر مو ضوع پر بحث کی ہو اور کسی نے اسے ایک مستقل مکتب فکر کی حیثیت سے دیکھا ہے ۔

در حقیقت کر بلا ایسی ہمہ جہت درسگا ہ ہے جس میں ہر شعبہ حیات کے لئے اتنے نمو نہ عمل مو جو د ہیں جنھیں جمع کرنے کے لئے کتا بیں نا کا فی ہیں ۔ایک مختصر مقا لہ کے دامن میں اتنی گنجا ئش کہاں؟سردست میں صرف کر بلا کے ایک رخ یعنی درس اخلاق کو پیش کرنا چا ہتا ہوں :

اخلاق سے متعلق قرآن و احادیث میں بے شمار آیات و روایات پا ئی جا تی ہیں ۔ قرآن مجید کے پیشتر حصہ میں اخلاق پہلو نمایاں ہیں۔اس میں بیان کی گئی داستانوں کا بھی بنیادی مقصد اخلاقی سدھار ہے اس لحاظ سے اگرقرآن مجید کو ”کتاب اخلاق”کہا جا ئے تو بیجانہ ہو گا ۔انبیائے کرام بھی جس مکتب کی تر ویج کے لئے بیھجے گئے ہیں در اصل وہ مکتب وہ” مکتب انسان سازی ”ہے مرسلین کی بعثت کا اسا سی  ہدف تزکیہ نفس اور تکمیل مکارم اخلاق ہی ہے۔

”وَیُزَکِّیھِم”(جمعہ اور آل عمران )اور”اِنَّکَ لَعَلیٰ خُلُقٍ عَظیم”(والقلم)کی جیسی آیات اور” بُعِثْتُ لِاُتَمِّمَ مَکَارِمَ الاَخْلاقِ” جیسی روایات اسی نکتہ کی طرف لطیف اشارہ ہیں۔سورۂ شمس میں ١١ قسموں کے بعد” قَدْافْلَحَ مَنْ زَکَّھَا وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّھَا” کا قطعی فیصلہ اخلاق کی عظ،ت پر زندہ دلیل ہے ۔

جملہ احکا مات اسلامیہ کی رعایت ، صبر و استقامت ، جذبۂ ایثار و فداکاری، حقوق کی ادائیگی ، شجاعت و امانتداری ،حسن سلوک و غیرہ وغیرہ یہ تمام چیزیں اخلاق اسلامی میں شامل ہیں ۔اخلاق کے تمام پہلوؤں کو مد نظر رکھتے ہو ئے آئیے کر بلا کے تا ریخ ساز واقعہ کا طا ئرا نہ مطا لعہ کریں اور تلاش کریں کہ کر بلا کس طرح درسگاہ اخلاق ہے؟

١۔امام حسین نے محمد حنفیہ کو جو وصیت نامہ لکھ کر دیا تھا س میں اپنے مقصد خروج کی طرف رو شنی ڈالتے ہو ئے فر ما یا  :”وِاِنَّمَا خَرَجْتُ بِطَلَبِ الاِصْلَاحِ فِی اُمَّةِ جَدِّیْ اُرِیْدُ اَنْ اٰمَرَ بِالمَعْروفِ وَانْھیٰ عَنِ الْمُنْکَرِ وَاَسِیْر بِسِیْرَةِ جَدِّیْ وَابِی عَلِیِّ بْنِ اَبِیْ طالِبْ”۔(یعنی میرا یہ خروج اپنے نا نا کی امت کی اصلاح کے لئے ہے میںچا ہتا ہوں لو گوں کو نیکی کی طرف دعوت دوں اور انھیں برائی سے بچاؤں اور اپنے نا نا و بابا علی بن ابیطالب علیہم السلام کی سیرت پر چلوں)

جس ہدف اور مقصد کے لئے امام حسین نے اپنے وطن کو خیر آباد کہا تھا آخر دم تک پا مردی اور کمال شجاعت کے ساتھ اس پر ثابت قدم رہے چنا نچہ روز عاشورہ اور اس کے قبل و بعد کے دلخراش اور جگر سوز حالات جہاں تمام اعزہ و اقارب ، اعوان و انصار سب کے سب آنکھوں کے سامنے جان بحق ہو گئے ہوں سب کو تڑبتے اور دم تو ڑتے دیکھا ہو ۔دو سری طرف بچوںاور بیبیوں کی تڑپا دینے والی صدا ئے العطش بھی دعوت انتقام دے رہی ہو ایسے جذبات آفریں اور نازک ترین حالات میں بھی خود و قابو میں رکھنا ، دشمنوں کی بھی اصلاح کر تے رہنا اور آخری سانس تک ان کو دعوت غورو فکر دینا فو ق العادہ کردارواخلاق م اور بلندی نفس کا پتہ دیتا ہے  اور رہتی دنیا تک انسان کے لئے درس ہے کہ صرف دشمنوں کو موت کے گھاٹ اتار دینا یا صفوف اعداء کو چیز دینے کا نام ہی شجاعت نہیں ہے نلکہ ہنگام خوف و خطر اور مقام آزمائش وامتحان میں اطمینان نفس اور سکون قلب کے ساتھ اپنے مقصد پر ثابت  قدم رہنا سب سے بڑی شجاعت ہے ۔

٢۔یزیدی فو ج کا سردار (حُر)امام حسین  علیہ السلام کو اپنی حراست میں لینے کے ارادہ سے لجام فرس پر ہاتھ ڈالتا ہے۔اس کی اس جسارت پر جذباتی تقاضوں کی پرواہ کئے بغیر حسین علیہ السلام وانصار حسینی  نے ایثار و فداکاری کا وہ عملی نمونہ پیش کیا کہ جس کی مثال سے تاریخ کا دامن خالی ہے ۔کثیر تعداد میں مگر تھکے ہارے لشکر کو بغیر کسی معاوضہ کے سیراب کر دینا ا ور انسانوں کی ہی نہیں بلہ جا نوروں تک کی جا  بچا لینا انفاق کا اعلیٰ ترین نمونہ اور (وَمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُقونَ)کی زندہ تفسیر ہے۔

٣۔یہ بھی عظ،ت اخلاق کا بہترین شہکار ہے کہ امام حسین علیہ السلام نے اپنے ہمراہیوں اور ساتھیوں کی تعداد کم ہو نے کت خوف یا بڑھا نے کی فکر میں کبھی بھی آیندہ کے خطرات و مشکلات کو پس پردہ نہیں رکھا اس کے بر خلاف ہر ہر مو قع پر صورت حال سے با خبر کر تے رہے حتی کہ شب عاشور واضح الفاظ میں ارشاد فر ما یا کہ اگر کو ئی اپنے فیصلہ پر شرمندہ ہے تو میری طرف سے اس پر کو ئی دباؤ نہیں ۔

٤۔حلم و بر دباری کا یہ عالم کہ کسی حساس مو قع پر بھی آتش غضب اپنی لپیٹ میں نہ ل سکی اور کبھی بھی جو ش و جذبات،نظم و نسق اور سکون کے خلاف نہ ابھار سکے چنا نچہ لب فرات نص شدہ خیام حسینی کا حُر کی مزاحمت کے بعد بے آب و گیاہ میدان میں نصب کیا جا نا  صبرو تحمل کی عظیم الشان مثال ہے ۔

٥۔حکم امام   کی اطاعت اور مر ضی معصوم  پر صدق دل کے ساتھ راضی رہنے کا جس انداز سے کر بلا کے سپاہیوں نے سبق دیا ہے دنیا اس کی مثال لا نے سے قاصر ہے ،وہ خیام جو عباس علمدا ر نے ا پنے ہاتھوں  سے نصب کئے تھے اور زمین پر نشان کھینچ کر دشمنوں کو چیلنج کر تے ہو ئے فر ما یا تھا کہ کس کی ہمت ہے کہ اس سے ایک قدم آگے بڑھ سکے ۔وہ ہی مطیع امر مو لا عباس امام کے حکم کے بعد خود اپنے ہی ہا تھوں سے خیام کو ہٹا کراطاعت امام کے دعویداروں کو عملی خطاب کر تے ہیں کہ اپنی خواہشات اور جذبات کے طوفان میں بھی حکم اور خواہش امام  کو مقدمہ رکھنا ہی اصل اطاعت ہے ۔

٦۔خون کے پیاسے دشمنوں کے نرغہ میں گھرنے کے باوجود بھی امن پسندی کا وہ مظاہرہ کیا کہ آخروقت تک جنگ وجدال سے بچنے کے لئے اپنی طرف سے ہر ممکن کو شش جاری رکھی چنا نچہ تیسری محرم کو جب پسر سعد وارد کر بلا ہوا تو آپ نے اس سے فر ما یا کہ اگر اب کو فہ واے مجھے نہیں چا ہتے تو میں وطن واپس جا نے کو تیار ہوں۔

٧۔حق و صداقت کی حفاظت کے لئے جان کی با زی لگادی مگر جو طریقہ کار پہلے دن صحیح سمجھ کر اپنا یا تھا اس سے ایک قدم بھی پیچھے نہ ہٹے اور آخر دم تک اس پر ڈٹے رہے۔اگر اس ثبات و استقلال کا مظاہرہ صرف امام حسین علیہ السلام کی جانب سے ہوتا تو شاید اتنی اہم بات نہ ہو تی لیکن مصائب و آلام کی شدت اور پیاس کے غلبہ کے باوجود کسی ساتھی یا صحابی اور کم سن بچوں کی طرف سے بھی ایک حرف شکایت تک نہ سنائی دینااخلاق کی ہماہنگی اور عزائم کی پختگی کا عظیم شاہکار ہے ۔اس لئے کہ عیش و عشرت میں سرشار کم ظرفوں کے نزدیک اپنے مخالف کو دھمکانے اور اس سے اپنی مو ت منوانے کا سب سے بڑا ذریعہ ”تصور موت” کا پیدا کر نا ہے ۔مگر وہ افراد جو راہ حق میں موت آنے کو مال زندگی سمجھتے ہیں اس دھمک سے کب متأثر ہو سکتے ہیں۔

٨۔جب جناب حر یزیدی لشکر سے ٹوٹ کر حسین  سے ملحق ہو نا شاہتے تھے تو حسین وحسینی سپاہیوں کا بغیر کسی شکوہ و شکایت مہمان کا استقبال ، عفو گذر کا انسانیت کو واضح درس دے رہا ہے کہ اگر دشمن بھی قابل اصلاح ہو تو اس کی اصلاح کی راہیں نکالنی چا ہئے اور اس کے ساتھ خشونت  وسخت گیری سے پیش آنے کے بجائے اسلامی اخلاق کا مظاہرہ کر نا چا ہئے ۔

٩۔اخلاق  وارکان میں عبد و معبود کے درمیان ارتباط اور دعا و مناجات سب سے اہم ترین رکن ہے ، حضرت امام حسین علیہ السلام اور آپ کے ساتھیوں نے اس سلسلہ میں بھی تاریخ ساز کردار پیش کیا ہے ۔ چنا نچہ شب عاشور اموی لشکر سے رات بھر کی مہلت طلب کرنے کی وجہ بیان کر تے ہو ئے آپ نے فر ما یا :ہم اس را ت اپنے پروردگار کی عبادت کر نا چا ہتے ہیں ۔ چا ہتے ہیں کہ نماز پڑھیں اور استغفار کریں” فَھُوَ یَعْلَمُ اِنِّی اُحِبُّ الصَّلوة لَہ وَتِلَاوَةَکِتابہ وکَثرَةالدُّعَآوَالاِسْتِغْفار”(میرا خدا جا نتا ہے کہ میں نماز ، تلاقت قرآن اور کثرت دعا و استغفار کو کتنا دوست رکھتا ہوں) آپ کے ان فقرات سے آپ کے قلبی آرزو اوردلی مراد کا پتہ چلتا ہے ۔غرض کے تمام اخلاقی فضیلتوں کا مصداق کر بلا والے بن گئے۔

حسین و انصا ر حسینی کا یہ مثالی کردار اور وادی کر بلا پر ان کے بلند اخلاق کے اعلیٰ ترین نمونے آواز دیتے رہے ہیں کہ حسینی وہی ہے جو عزم محکم اور عظیم کر دار و اخلاق کا مالک ہو ۔ جو اپنی خواہشات کا تا بع نہ ہو ، جس کی نگاہ میں سب سے زیادہ محبوب چیز اطاعت پروردگار اور خدمت خلائق ہو۔دنیا کی فریب کا ریاں اور حیات کی رعنائیاں اّسے صراط حق و یقین سے نہ ہٹا سکیں …خوش نصیب ہیں وہ افراد جو اس درسگاہ سے سبق حاصل کر تے ہیں اور دنیا کے سامنے ایسا مرقع اخلاق بن کر پیش ہو تے ہیں جیسا حسین چا ہتے ہیں ۔

خدایا ؛ہمیں بھی اس مقدس درسگاہ اخلاق سے سبق حاصل کر نے کی تو فیق عنایت فر ما!ذکر حسین علیہ السلام کو اپنے تذکرہ کا سبب قرار دے ؟ایام عزا کو اطاعت و عبادت کا ذریعہ بنادے!ہمیں کج فکری اور بے اطاعت اظہار محبت سے بچا ئے رکھنا !حسین علیہ السلام کے سچے دوستوں ، چاہنے والوں اور عزاداروں کی فہرست میں ہمارا نام بھی شامل فرما۔آمین یا رب العالمین

تبصرے
Loading...