کربلائے کوہستان

ساٹھ ہجری کے وسط میں جب فرزند پیغمبر امام حسین علیہ السلام کو یزید بن معاویہ کے عنانِ حکومت سنبھالنے کی خبر پہنچی تو آپ نے اپنے برادرِ بزرگ امام حسن علیہ السلام کی خاموش خدمتِ دین کی حکمتِ عملی میں تقاضۂوقت کے مطابق تبدیلی پیدا کی اور اس شیطانی منصوبے کو بے نقاب کرنے کا حتمی فیصلہ کرلیا۔ پہلے مرحلے میں آپ نے انتظامیہ کے روبرو گفت و شنید کے ذریعے اپنے الٰہی نقطۂ نگاہ کا اعلان کیا اور جب بات نہ بنی تو محض تین یوم کے اندر اندر خدا کے ابدی فیصلے کا سرِ عام پرچار کرنے اور اس کے نفاذ کی خاطر اپنا گھر چھوڑ کر اپنے مقصدِ حیات کی جانب گامزن ہونے کا ارادہ کرلیا۔ 

جب یزیدی انتظامیہ سے بات بن نہ پائی تو حکومتی حکمتِ عملی کے “فتوی کی مشینری” عدلیہ کے روپ میں، حرکت میں آئی اور خلیفہ سے وفاداری نہ برتنے کے جرم میں وارثِ انبیاء و دینِ مبین کو قتل کردینے کا فتویٰ جاری ہوا۔

رجب کی اٹھائیس تاریخ کو وارثِ حق نے اپنے نانا، والدہ، بھائی، دیگر اہلخانہ اور اپنے گھر کو خیر باد کہا اور اس منزل کے لئے رختِ سفر باندھا جو وجہِ تخلیقِ کائنات تھی۔ آخرِ رجب سے شروع ہونے والے اس سفرِ حق کا کاروان اگلے برس کے پہلے ماہ کے دوسرے روز اپنی حتمی منزل تک پہنچ گیا۔ اس کاروان کا سالار اور اس میں شامل ایک بزرگِ رفیع سے لیکر ایک طفلِ رضیع تک تمام افراد اپنی ذمہ داریوں سے کما حقہ آگاہ اور خدا کی بارگاہ میں سرخرو ہونے کے مشتاق تھے کہ گرفتاری کا مرحلہ آن پہنچا اور یزیدی انتظامیہ کی جانب سے ایک فوجی بیڑہ ایک سپہ سالار کی سرکردگی میں فرزند پیغمبر (ص) کو گرفتار کرنے پہنچ گیا۔ مگر یہاں ایک عجیب واقعہ ہوا۔ خدا کے اس نمائندے کے نور کی تجلی سے اس سپہ سالار کی باطنی انکھوں  سے گناہوں کی چربی پگھل گئی اور اس پر حقیقت عیاں ہوگئی۔ وہ گناہ کی دنیا سے آزاد ہوگیا اور ایک لمحے میں پشیمان ہوکر لشکرِ خدا کا حصہ بن کر تمام ادوارِ حیات میں مردِ حر ہوگیا۔

چند دن اور گزرے اور حتمی معرکے کا وقت آن پہنچا۔ حکومتی حکمت ہائے عملی کو آخری مرحلے تک پہنچایا گیا اور فوج کو کاروائی کا حکم ہوا۔ آج تاریخِ کائنات کی ایک انوکھی جنگ ہوئی جس میں پیشہ ور فوجیوں کے دو بہ دو رسولِ خدا (ص) کے بچوں اور دوستوں نے حصہ لیا اور باطل کو ایسے تہہِ تیغ کیا کہ اسے اپنے بدروخندق کے واصلِ جہنم شدہ اجداد یاد آگئے۔ وہاں الٰہی لشکر کے نمائندے بھی ایک ایک کرکے لبِ کوثر پہنچتے گئے اور کئی روز کے بھوکے پیاسے رسولِ اسلام (ص) کے ہاتھوں سیراب ہوتے گئے۔ یہاں تک کہ فرزند رسول (ص) تنہا رہ گیا۔ یہ تنہا مجاہد اس مرحلے پر بھی اتنا کریم رہا کہ اپنی شہادت سے چند لحظے قبل زاروقطار رونے لگا۔ پاس کھڑی ہوئی وارثہ نے جو رونے کا سبب دریافت کیا تو فرمایا کہ میں نہیں چاہتا کہ یہ لوگ میرا خون کرکے جہنم میں جائیں۔ اب بھی یہ حزب الشیطان تائب ہوجائے تو میں وارثِ فردوس اس کی نجات کا ضامن ہوں۔۔۔۔۔ لیکن ایسا نہ ہوا۔ اور حکومت یزید کے وفاداروں نے اپنے انعام کے لالچ کو مقدم رکھا اور وہ قبیح فعل انجام دیا جس پر سرخ آنددھیاں چلیں۔ گرد جب تھمی تو چشمِ فلک نے حق اور باطل کو دو جدا راہوں کی صورت میں واضح دیکھا۔ ایسی واضح راہیں، جن پر شامِ غریباں کا اندھیرا بھی پردہ نہ ڈال سکا اور اس وقت سے یہ دو شاہراہیں ہر صاحب چشم کے سامنے عیاں ہیں۔ ساتھ ہی خدا نے فیصلے کا اختیار ہر شخص کے کے اپنے ہاتھوں میں دے دیا کہ جس راہ کو چاہو، چن لو۔ 

صبحِ عاشور سے حق اور باطل کی جو اعلانیہ جنگ شروع ہوئی، وہ ایک لمحے کو بھی ختم نہ ہوسکی۔ لشکرِ خدا کی عنان کو بعد از حسین علیہ السلام، دختر رسول ثانی زہراء (س) اور امام سجاد (ع) نے سنبھالا اور قدم قدم پر باطل کو بے نقاب کرکے حق کا پرچار جاری رکھا۔ حزب الشیطان ہمیشہ حزب اللہ سے برسرِ پیکار رہی اور چودہ سو سال پر محیط یہ جنگ آج بھی جاری ہے اور تا صبحِ قیامت جاری رہے گی۔ 

حکومت، انتظامیہ، عدلیہ اور فوج کے مزاج اور حکمتِ عملی میں چنداں تبدیلی نہیں آئی اور باطل حق سے نبردآزما ہے۔ حق ہر دور میں اپنا پرچم بلند کئے خدا سے کئے ہوئے وعدے کو وفا کرنے میں مصروف عمل ہے۔ ساتھ ہی لشکرِ باطل میں بیداری کا عمل بھی وقوع پذیر ہے مردانِ آزاد کا حر کی سنت کا اجراء بھی جاری ہے۔ اسی لشکرِ شیطان سے خدا کے چند چیدہ افراد مثلِ حر لشکرِ حق میں شامل ہو جاتے ہیں اور اپنے مقدر سنوار کراپنی منزل کو سدھار جاتے ہیں۔

حق و باطل کی یہ جنگ اب اس حد تک پھیل چکی ہے کہ شیطانِ بزرگ کا لشکر اپنے آقا کی وفاداری میں پاکستان کے نہتے حسینیوں کو آئے روز خون میں نہلا کر اپنی شیطنت کا سرِ عام اعلان کرتا ہے۔ کبھی کسی حسینی کو اکیلے میں گولی و خنجر کے ذریعے تو کبھی حسینی جمعیت کو کرائے کے خود کش بمباروں کے ذریعے سے پارہ پارہ کرڈالتا ہے ۔ کبھی عقائد پر حملے کرتا ہے تو کبھی راہ چلتے نہتے مسافروں کو گولیوں سے بھون ڈالتا ہے۔ اپنے روحانی اجداد کی ہر لمحہ شکست پر یہ شیطانی ٹولہ بدحواس ہو کر باؤلے پن کا شکار ہے اور یہ بات بھول چکا ہے کہ اس کے جن روحانی اجداد نے فرزندرسول کے بدن پر گھوڑے دوڑا کر لاشے کو پامال کیا تھا، اسی حسین کے یہ متوالے اپنے لیئے بوٹی بوٹی ہونا  باعثِ سعادت سمجھتے ہیں۔ یہی شہادت ان کی میراث اور آرزو ہے۔ آج بھی شہادت کے ان متوالوں کی زبانوں پر لبیک یا حسین کا نعرہ ہے جسے بلند کرتے ہوئے آزادی کے یہ متوالے اس بدنِ خاکی سے رہائی پانا اپنے لئے اعزاز گردانتے ہیں۔

رسول اور فرزند رسول کے پیروکاروں کی راہ بھی واضح ہے اور منزل بھی متعین۔ انکو انکی راہ سے نہ کوئی فتویٰ بھٹکا سکا اور نہ ہی کسی یزیدی لشکر کی فوج کشی۔ رہِ حق کو سرعت سے طے کرنے کا خدائی کام جاری ہے۔ راہِ حسین کے یہ عازمین آج بھی سنتِ حسین پر عمل پیرا، انتظامیہ کو یہ بات باور کروا رہے ہیں کہ خدا را اپنے آقا کی وفاداری کی راہ کو چھوڑ کر صرف ایک دفعہ حق کے میزان پر صورتِ حال کو پرکھے۔ آج بھی سید الشہداء کی پیشکش زندہ ہے اور آپ سے یہ درخواست کرتی ہے کہ ایک بار اپنے آقا کی باطل حکمتِ عملی سے اظہارِ برائت کرتے ہوئے یزیدِ وقت کے ان نمائندوں کو قرار واقعی سزا دے دی جائے تو آپ کے ماضی کے تمام گناہوں کا مداوا ممکن ہے۔ بصورتِ دیگر حق اور باطل کی راہیں آج بھی جدا اور عیاں ہیں ان کو اپنے لئے پسند کرنے کا فیصلہ خدا نے ہر انسان کے اپنے ہاتھوں میں دے رکھا ہے۔ فیصلہ آپ کا کہ آپ کا انتخاب رسول کا خانوادہ یا بدرواحد میں جہنم واصل ہونے والے کفار و منافقین و مشرکین؟۔۔۔

تبصرے
Loading...