ڈیڑھ اینٹ کی مسجد

پاکستان سے ہمیں اس لیے بھی محبت ہے چونکہ یہ ایک اسلامی و نظریاتی ملک ہے۔یہ اور بات ہے کہ ہم خود اسلامی اور نظریاتی ہیں یا نہیں۔بہر حال  جذبہ حب الوطنی اور جذبہ ایمانی کے باعث ہم پاکستان بھر میں اسلام کے نام پر کچھ نہ کچھ کرتے ہی رہتے ہیں۔مثلا مسجدیں منوانا،دینی مدارس کا قیام،چندہ اکٹھاکرنا،دیگیں  پکانا اور لمبے لمبے اسلامی و نظریاتی نعرے لگانایہ ہم پاکستانیوں روز مرہ زندگی کا معمول ہے۔حد تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں دہشت گردی  بھی اسلام کے نام پر ہی کی جاتی ہے۔

ہم اگر کچھ دنو ں کے لیے پاکستان کے مختلف شہروں اور قصبوں میں گھومیں پھریں تو ہم پر اس بات کا بھی انکشاف ہو گا کہ ہمارے ہاں مساجد کی تعداد بہت زیادہ ہے اور اس کی ایک وجہ یہ بھی  ہے کہ ہمیں ڈیڑھ اینٹ کی مسجدیں  بنانے کا بہت شوق ہے۔جو آدمی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد  نہ بنائے وہ ڈیڑھ انچ کی تنظیم بنانے میں لگ جاتا ہے۔جو تنظیم بھی نہ بنا سکے وہ نعرے لگاناشروع کر دیتا ہے۔  پھر مزے کی بات یہ ہے کہ ہر” ڈیڑھ” کام کرنے والا شخص اپنے سوا کسی دوسرے کو برداشت کرنے پر بھی راضی نہیں ہوتا۔ہمارے اس ڈیڑھ انچی رویے کے باعث ہماری عوام بہت پریشان ہے۔چونکہ ڈیڑھ اینٹ کی مسجدکے پیچھے بھاگتی ہوئی عوام نہ تین میں ہے اور نہ تیرہ میں۔ قوم کے دردمند رہنمالوگوں سے صرف مال بٹورتےہیں اوریہ مال ان کی تعلیم و تربیت پر خرچ کرنے کے بجائے انہیں اخراجات کی لسٹ پڑھ کر سنا دیتے ہیں۔

ہماری عوام نے رسید بکس لے کر آنے والوں سے کبھی یہ نہیں پوچھاکہ مشرق و مغرب کی تقدیر سنوارنے  اورعالم اسلام پر احسان کرنے کے لئےکے لئے توآپ مجھ سے پیسے مانگ رہے ہیں لیکنمیرے اپنے ہی  گھر میں پلنے والے میرے ہی بچوں کو آپ کے ادارے سے روحانی،معنوی اور مادی طور پر کوئی فائدہ کیوں نہیں پہنچ رہا۔ ہماری عوام نے کبھی یہ سوال نہیں اٹھایاکہ اے دینی تعلیم اور جدید تعلیم کے نعرے لگانے والو خود بھی 

تھوڑابہت پڑھ لواور اپنےعلمی و فکری دعووں کا کوئی عملی ثبوت تو معاشرے کے سامنے پیش کرو ۔

خیر عوام اوررہنماجوکرتے ہیں کرتے رہیں،ہمیں ان سے کیا لینا دینا ہم نے پاکستان میں الیکشن تھوڑے ہی لڑنے ہیں کہ ان سیاسی معاملات میں دخل دیں۔ہمیں تو ہماری ڈیڑھ انچ کی مسجد سے کام ہے۔بس وہ سلامت رہنی چاہیے۔ویسے بھی ہم میں سے کون ہے جو جیلوں میں بے گناہ تڑپنے والوں کے حال پر کڑھتا ہے۔۔۔کون ہے جو شہید ہونے والوں کے غم میں کئی کئی دن کھانا نہیں کھاتا۔۔۔کون ہے جسےملک میں بڑھتی ہوئی کرپشن ،رشوت ،لوٹ کھسوٹ اور مار دھاڑکے دکھ میں راتوں کو نیند نہیں آتی۔۔۔کون ہے جو فیس نہ ہونے کے باعث تعلیم حاصل نہ کر سکنے والے بچوں کے درد میں گریہ کرتا ہے۔۔۔کون ہے جو یتیموں کے گھروں میں کھانا پہنچاتا ہے۔۔۔کون ہے جو مسکینوں کی آہوں کے ڈر سے اپنے بستر پر تڑپتا  رہتاہے۔۔۔کون ہے جو اپنی نوجوان نسل کی گمراہی کے باعث لمحہ بھر سکون  سے نہیں بیٹھتا۔۔۔ہم میں سے کون ہے جو علامہ اقبال {رح}کی طرح سوچ رہاہے،حضرت امام  خمینی{رح}کی طرح زندگی گزار رہا ہے، علامہ عارف حسینی{رح}کی طرح مرنے کے لیے میدان میں اترا ہوا ہے اور محمد علی جناح{رح}کی طرح مسلسل محنت کررہاہے۔۔۔

جب معاشرے میں اقبال جیسی فکر خمینی جیسی زندگی،حسینی جیسے اہداف اور جناح جیسےمحنتی نہ رہیں تو پھرشرابی اور لوٹے اسمبلیوں میں بیٹھ جایا کرتے ہیں،اسلام تختہ مشق بن جاتا  ہے،دانشوروں کے افکار بکنے لگتے ہیں،صحافیوں کے قلم نیلام ہونے لگتے ہیں ،ادیب ہوا کا رخ دیکھ کر قلم اٹھانے لگتے ہیں،بتکدوں میں اذان کی صدا دب جایا کرتی ہے۔۔۔شہیدوں کے خون کی تجارت ہونے لگتی ہے۔۔۔یتیموں کے اشکوں سے اپنی آتش شکم کو ٹھنڈا کیاجاتاہے۔۔۔ اور جہاں پر یتیموں کے اشکوں سے نوالے ترکئے جائیں وہاں پر ڈیڑھ اینٹ کی مسجدپر بینرلگاکرپیسے تو بٹورے جاسکتے ہیں لیکن ملت کی تقدیر نہیں بدلی جاسکتی ۔۔۔

 

تبصرے
Loading...