پندرہ شعبان امیدوں کا دن

نظریہ مھدویت پر مسلم اور غیر مسلم اقوام کا عقیدہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس پر عام طور پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی۔ رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے ایک ایک خطاب میں نظریہ مہدویت پر عالم تشیع کے ساتھ ساتھ مسلم اور غیر مسلم اقوام کے عقیدے کے تعلق سے سیر حاصل گفتگو کی ہے کہ جس کا پہلا حصہ اس وقت قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارھا ہے۔

سب سے پہلے تمام مؤمن و دیندار انسانوں کی آمیدوں اور آرزوؤں کی محور اس مژدہ آفریں عید سعید (شب برات) کی آپ سبھی بھائیوں اور بہنوں خصوصا” ولایت اہلبیت (ع) پر یقین رکھنے والوں اور ظلم و ستم سے بر سر پیکار تمام حریت پسندوں، بیدار و آگاہ لوگوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

نیمۂ شعبان ( شب برات ) کا دن امیدوں کا دن ہے ، یہ امید آل محمد (ص) کے پیرؤں سے مخصوص نہیں ہے حتی امت مسلمہ سے بھی مخصوص نہیں ہے عالم بشریت کے ایک روشن و درخشاں مستقبل کی آرزو اور پوری دنیا میں انصاف قائم کرنے والے ایک عدل گستر ، منجی عالم موعود کے ظہور پر تقریبا” وہ تمام ادیان اتفاق رکھتے ہیں جو آج دنیا میں پائے جاتے ہیں ، دین اسلام ، عیسائیت اور یہودیت کے علاوہ حتی ہندوستان کے ادیان میں ، بودھوں اور جینیوں یہاں تک کہ ان مذہبوں نے بھی کہ جن کے نام دنیا کے زیادہ تر لوگوں کے ذہنوں میں بھی نہیں ہیں اپنی تعلیمات میں ایک اس طرح کے مستقبل کی بشارت دی ہے ، یہ سب کچھ در اصل تاریخ کے طویل دور میں تمام انسانوں کے اندر امید کی شمع روشن رکھنے اور تمام انسانوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے والی ایک حقیقت کے لئے امیدوار رہنے کے لئے بیان ہوا ہے ۔

اللہ کے بھیجے آسمانی ادیان نے جو زيادہ تر الہی اور آسمانی جڑوں کے حامل ہیں ، لوگوں میں بلاوجہ امیدوں کی جوت نہیں جگائی ہے ، ایک حقیقت کو انہوں نے بیان کیا ہے انسانوں کی خلقت اور بشریت کی طویل تاریخ میں ایک حقیقت موجود ہے اور وہ حقیقت یہ ہے کہ حق و باطل کے درمیان یہ مقابلہ آرائی ایک دن حق کی کامیابی اور باطل کی ناکامی پر ختم ہوگی اور اس دن کے بعد انسان کی حقیقی دنیا اورانسان کی منظور نظر زندگی شروع ہوگی اس وقت مقابلہ آرائی کا مطلب جنگ و دشمنی نہیں بلکہ خیر و خیرات میں سبقت کا مقابلہ ہوگا ۔ یہ ایک حقیقت ہے جو تمام ادیان و مذاہب میں مشترک ہے ۔

شیعہ عقیدے کی خصوصیت یہ ہے کہ اس حقیقت کو مذہب تشیع میں صرف ایک آرزو اور ایک تخیلاتی چیز سے ایک زندہ حقیقت میں تبدیل کردیا گیا ہے اور اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ شیعہ جس وقت ” مہدی موعود ” کے انتظار کی بات کرتے ہیں اور اس نجات دہندہ ہاتھ کے انتظار کا ذکر کرتے ہیں تو انتظار کے وقت صرف تخیلات میں غوطہ زنی نہیں کرتے بلکہ ایک ایسی حقیقت کی جستجو کرتے ہیں جو اس وقت موجود ہے ، حجت خدا کی صورت میں لوگوں کے درمیان زندہ ہے اور موجود ہے ، لوگوں کے ساتھ زندگي گزار رہا ہے ، لوگوں کو دیکھ رہا ہے ان کے ساتھ ہے ، ان کے دردوں کو ، ان کی تکلیفوں کو محسوس کرتا ہے انسانوں میں بھی جو لوگ اہل سعادت ہوں ، جن میں صلاحیت و ظرفیت پائی جاتی ہو ، بعض اوقات ناآشنا اور ناشناس کےطور پر ان کی زیارت کرتے ہیں ، وہ موجود ہے ، ایک حقیقی اور مشخص و معین انسان کے عنوان سے جو خاص نام رکھتا ہے جس کے ماں باپ معلوم ہیں ، لوگوں کے درمیان رہتا ہے اور ان کے ساتھ زندگی بسر کررہا ہے ۔یہ ہم شیعوں کے عقیدہ کی خصوصیات میں سے ہے ۔وہ لوگ بھی ، جو دوسرے مذاہب کے ہیں اور اس عقیدہ کو قبول نہیں کرتے ، آج تک کبھی کوئی ایسی عقل پسند دلیل پیش نہیں کرسکے جو اس فکر اور اس عقیدہ کو رد کرتی ہو اور خلاف حقیقت ہونا ثابت کرتی ہو بہت سی روشن و واضح ، مضبوط دلیلیں، جن کی بہت سے اہلسنت نے بھی تصدیق کی ہے ، پورے قطع و یقین کے ساتھ اس عظیم انسان ، خدا کی اس عظیم حجت اور اس تابناک و درخشاں حقیقت کے وجود پر ان ہی خصوصیات کے ساتھ جو ہم اور آپ جانتے ہیں ، دلالت و حکایت کرتی ہیں اور آپ بہت سی غیر شیعہ بنیادی کتابوں میں بھی اس کا مشاہدہ کرسکتے ہیں ۔

امام حسن عسکری علیہ الصلوۃ و السلام کے پاک نہاد، فرزند مبارک کی تاریخ ولادت معلوم ہے ان سے مرتبط تمام تفصیلات معلوم ہیں ان کے معجزات معین و مشخص ہیں خدا نے ان کو طولانی عمر دی ہے اور دے رہا ہے اور یہی ذات دنیا کی تمام امتوں ، تمام قبیلوں ، تمام مذہبوں ، تمام نسلوں ، تمام دوروں اور زمانوں کی آرزوؤں کو مجسم کرتی ہے اور اس اہم مسئلے کے بارے میں مذہب شیعہ کی یہ ایک خصوصیت ہے۔

تبصرے
Loading...