وحی کے ذریعہ حاصل شدہ علم ومعرفت

وحی کے بارے میں ایک اہم سوال یہ بھی ہوتا ہے کہ وحی کے ذریعہ حاصل شدہ علم و معرفت کی ماہیت کیا ہے کیا اس کا تعلق حس اور تجربہ سے ہے؟ یا عقل و برہان سے یا ان سب سے بالکل جدا ایک الگ قسم کی معرفت ہے۔

وحی کے بارے میں مختلف تجزئے اور مختلف تحلیلیں کی گئیں ہیں:

الف: بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وحی ان لوگوں کی باطنی استعداد کی عکاس اور ان کے نابغہ ہونے کی ترجمان ہے جنہوں نے پیغمبری کا دعویٰ کیا ہے۔ ان پیغمبروں کا علم ان کی باطنی صلاحیت اور عظمت کی عکاسی کے سوا کچھ نہیں۔ اس نظریہ کی رو سے وحی کو فقط انسان کی باطنی صلاحیت اور ذاتی استعداد سمجھا گیا ہے وحی کا منشا صرف انسان ہے اور بس، اس کا تعلق نہ عالم غیب سے ہے اور نہ ما وراء طبیعت سے۔ (١)

اس نظریہ پر مندرجہ ذیل اشکالات وارد ہوتے ہیں۔

١۔ انبیاء کے علوم و معارف کا سرچشمہ ان کی اندرونی صلاحیت نہیں بلکہ کوئی بیرونی اور غیبی طاقت ہے ”و انزل اللہ علیک الکتاب و الحکمۃ و علمک ما لم تکن تعلم و کان فضل اللہ علیک عظیماً” اور اللہ نے آپ پر کتاب و حکمت نازل کی ہے اور آپ کو ان تمام باتوں کا علم دے دیا ہے جن کا علم نہ تھا اور آپ پر خدا کا بہت بڑا فضل ہے۔ (٢)

”ان ھو الا وحی یوحیٰ۔ علمہ شدیدی القویٰ” اس کا کلام وہی وحی ہے جو مسلسل نازل ہوتی رہتی ہے، اسے نہایت طاقت والے نے تعلیم دی ہے۔(٣)

٢۔ پیغمبران خدا نابغہ نہیں بلکہ عام انسان تھے ”قل انما انا بشر مثلکم یوحیٰ الیّ” (٤) ایک دوسری آیت میں یہی بات یوں بیان کی گئی ہے ”و کذالک اوحینا الیک روحاً من امرنا و ما کنت تدری ما الکتاب و لا الایمان و لکن جعلناہ نوراً نھدی بہ من نشآء من عبادنا” اور اسی طرح ہم نے آپ کی طرف اپنے حکم سے روح (قرآن) کی وحی کی ہے، آپ کو نہیں معلوم تھا کہ کتاب کیا ہے اور ایمان کن چیزوں کا نام ہے لیکن ہم نے اسے ایک نور قرار دیا ہے جس کے ذریعہ اپنے بندوں میں جسے چاہتے ہیں اسے ہدایت دے دیتے ہیں۔ (٥)

تاریخ گواہ ہے کہ کسی بھی نبی نے کبھی اپنے نابغہ ہونے کا دعویٰ نہیں کیا اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے تو ”امی” ہونے کی تصریح قرآن میں بھی کی گئی ہے۔ ”فآمنوا باللہ و رسولہ البنی الذی یومن باللہ…” (٦)

٣۔ علم کلام میں پیغمبروں کے لئے دو خصوصیات مسلم الثبوت ہیں ”عصمت” اور ”علم غیب” اور ان دونوں خصوصیات کا ذاتی صلاحیتوں سے کوئی واسطہ نہیں۔ ہر طرح کے سہو و نسیان اور خطا و لغزش سے منزہ علم کی ماہیت دوسرے تمام علوم و معارف سے بالکل مختلف ہوگی خواہ یہ حس و تجربہ سے حاصل ہوں،تفکر و تعقل سے یا باطنی شعور و ادراک سے، ان تمام علوم و معارف میں غلطی کا امکان بہر حال پایا جاتا ہے جب کہ انبیاء کے علوم و معارف میں اس کا شائبہ بھی نہیں ہوتا۔ عصمت کے ساتھ انبیاء کے پاس علم غیب کا ہونا بھی ضروری ہے چونکہ علم غیب کے بغیر عصمت بے معنی ہے علم غیب ذاتی طور پر خدا سے مخصوص ہے ”و عندہ مفاتح الغیب لا یعلمھا الا ھو” اور اس کے پاس غیب کے خزانہ ہیں جنہیں اس کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ (٧)

”قل لا یعلم من فی السمٰوات و الارض الغیب الا اللہ” کہہ دیجئے کہ آسمان و زمین میں غیب کا جاننے والا اللہ کے علاوہ کوئی نہیں ہے۔ (٨)

البتہ خود خداوند متعال کی جانب سے کچھ بندوں کو علم غیب عطا ہوتا ہے ”عالم الغیب فلا یظہر علی غیبہ احداً الا من ارتضیٰ من رسول…” وہ عالم الغیب ہے اور اپنے غیب پر کسی کو بھی مطلع نہیں کرتا مگر جس رسول کو پسند کر لے… (٩) پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لئے خصوصی طور پر علم غیب کی تصریح کی گئی ہے ”تلک من انبآء الغیب نوحیہا الیک” پیغمبر یہ غیب کی خبریں ہیں جن کی ہم آپ کی طرف وحی کر رہے ہیں۔ (١٠)

مندرجہ بالا باتوں سے یہ حقیقت بخوبی واضح ہو گئی کہ وحی الٰہی سے حاصل شدہ علم و معرفت اپنی وسعت و جامعیت اور خطا و لغزش سے محفوظ ہونے کے اعتبار سے دوسرے تمام وسائل اور ذرائع سے حاصل شدہ علوم و معارف سے بالکل ممتاز ہے۔ انبیاء کا علم دوسرے تمام علوم و معارف سے بلند و بالا ہے یہ علوم و معارف ہرگز ہرگز انبیاء کے ذاتی افکار و نظریات کی پیداوار نہیں ہیں بلکہ خدا کی خاص عطا اور بخشش ہیں۔

ب: کچھ لوگوں نے وحی کو ایک طرح کا مکاشفہ اور الہام قرار دیا ہے حالانکہ وحی میں صاحب وحی پیغام اخذ کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے مرکز کو بھی پہچانتا ہے، نزول وحی کے وقت پیغمبر اچھی طرح جانتا ہے کہ یہ کس کی طرف سے نازل ہو رہی ہے جب کہ الہام میں ایسا نہیں ہوتا جن لوگوں کو الہام ہوتا ہے وہ اچانک ایک خاص قسم کی غیبی امداد اور رہنمائی کا احساس تو کرتے ہیں مگر اسکے مبدا اور مرکز سے نا آشنا ہوتے ہیں، وہ پیغام تو اخذ کرتے ہیں مگر یہ نہیں جانتے کہ یہ کہاں سے اور کس کی طرف سے آرہا ہے۔

ج: مغربی فلاسفہ کی نظر میں وحی نے ایک خاص قسم کا نشیب و فراز طئے کیا ہے۔ مصری دانشمند محمد فرید وجدی کے بقول ”مغربی ممالک کے لوگ دوسری دیندار قوموں کی طرح سولہویں صدی ہجری تک وحی کے قائل تھے چونکہ ان کی کتابیں انبیاء کے واقعات سے بھری پڑی تھیں لیکن جب جدید علم نے مادہ پرستی اور شکوک و شبہات کے ساتھ وہاں ترقی کی تو فلسفہ غرب نے وحی کو پرانے خرافات کا جز قرار دے کر روح اور خدا کا بھی انکار کر دیا” پھر ١٨٤٦ئ   میں جب امریکہ میں ارواح کا وجود تسلیم کرنے کی علامتیں پیدا ہوئیں اور وہیں سے پورے یورپ میں پھیل گئیں اور لوگوں نے حس و تجربہ کے ذریعہ عالم روحانی کا اثبات کر لیا تو روح سے متعلقہ مسائل کے سلسلے میں بھی ان کے نظریات میں تبدیلی آئی اور عوام پھر سے وحی کے قائل ہوئے تو وحی کا عقیدہ پھر سے زندہ ہو گیا اور دانشوروں نے دینی اصول کے بجائے سائنس کے مسلمہ اصول و قوانین کی بنیاد پر اس مسئلہ کی تحقیق شروع کی اور نتائج بھی حاصل کئے اگر چہ یہ نتائج علماء اسلام کے نظریات سے متفق نہیں تھے مگر پھر بھی ایک ایسے اہم مسئلہ کو ثابت کرنے میں جسے خرافات میں شمار کیا جاتا تھا ایک بہت بڑی کوشش تھے۔ مغربی دانشوروں کی علمی جد و جہد کے نتیجے میں انسان کی مادی شخصیت کے علاوہ ایک اور شخصیت کا ثبوت فراہم ہو گیا اور وہ یہ کہ ہم انسانوں کے لئے ظاہری حواس کے ذریعہ سمجھی جانے والی زندگی کے علاوہ ایک اور زندگی ہے جو اس سے کہیں بلند و بالا ہے اور انسان کی یہ ثانوی زندگی اس وقت نمایاں ہوتی ہے جب ظاہری قوا اور مادی شخصیت طبیعی نیند یا مصنوعی اور مقناطیسی نیند کے ذریعہ تعطل کا شکار ہو جاتی ہیں اس بات کا ان لوگوں کے اوپر جنہیں مصنوعی اور مقناطیسی طور پر سلایا گیا تھا تجربہ کیا گیا جس کے نتیجے میں روحی زندگی کا انکشاف ہوا اس لئے کہ سونے ولا اس حالت میں بھی غیبی امور کا علم رکھتا ہے، دیکھتا اور سنتا ہے اور جسمانی حواس سے استفادہ کئے بغیر احساس کرتا ہے اور باقاعدہ طور پر سوچتا سمجھتا ہے۔واضح رہے کہ طبیعی نیند میں بھی یہی صورت حال ہوتی ہے۔ اور اسی سے انسان کے لئے مادی زندگی سے بلند و برتر زندگی یعنی روحی زندگی کا اثبات ہوا۔مغربی دانشوروں کا ماننا ہے کہ یہی ہوہ چیز ہے جو مادی پردوں کے درمیان سے حسین اور بلند و بلا افکار و تصورات تک انسان کی رہنمائی کرتی ہے اور مشکلات میں ناگہانی طور پر انسان کو الہام کے ذریعہ سہارا دیتی ہے اور یہی وہ چیز ہے جو پیغمبروں کے دل و دماغ میں آتی ہے جسے وہ وحی الٰہی سمجھتے ہیں اور کبھی کبھی یہی باطنی شخصیت اور روحی قوت مجسم شکل اختیار کر لیتی ہے اور پیغمبروں کو گمان ہوتا ہے یہ آسمان سے نازل ہونے والے ملائکہ ہیں۔” (١١) مذکورہ باتوں کے ذریعہ یہ واضح ہو گیا کہ اس نظریہ کے حامل فلاسفہ کی نظر میں وحی کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ پیغمبروں پر کلام الٰہی یا آسمان سے فرشتوں کا نزول ہوتا ہے بلکہ وحی انسان کی باطنی شخصیت کے ذریعہ اس کی روح کی تجلی اور جلوہ نمائی ہے جس کے ذریعہ اسے نامعلوم چیزوں کا علم ہوتا ہے اور خود اس کی اور امت کی ہدایت اور ارتقاء کا سامان فراہم ہوتا ہے۔ (١٢)

وحی کا یہ مفہوم بھی سراسر باطل ہے یہ نظریہ اللہ کے پیغمبروںکی جو تصویر پیش کرتا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ حقیقت ان کے لئے بھی مشتبہ ہو کر رہ گئی ہے، وہ تجلی روح کو کلام الٰہی سمجھ بیٹھے اور اپنے تجسم باطن کو فرشتہ آسمانی! کیا ایسے افراد امتوں کی قیادت کا بیڑا سنبھال سکتے ہیں؟! جو خود غلط فہمی کا شکار ہوں وہ دوسروں کی رہنمائی کیسے کر سکتے ہیں؟

یہ باطل نظریہ انبیاء کے غیبی ارتباط، ان کے الٰہی منصب، ان پر فرشتوں کے نزول اور ان کی عصمت و طہارت کی تردید کر کے انبیاء کے سارے کمالات پر سوالیہ نشان بنا کر دبے لفظوںمیں اصل نبوت کا منکر نظر آتا ہے۔

د: وحی کے ذریعہ حاصل شدہ علم و معرفت کی وضاحت سے پہلے یہ بتا دینا ضروری ہے کہ اس کی حقیقت تک رسائی ہمارے لئے ناممکن ہے چوں کہ یہ علم و معرفت دوسرے انسانی علوم و معارف سے بالکل مختلف ہے۔ انسانی علوم و معارف تین راستوں سے حاصل ہوتے ہیں احساس و تجربہ؛ عقل و فکراور باطنی شعوریعنی وہ بصیرت جس کا تعلق نہ تجزیہ سے ہے اور نہ ہی عقل و برہان سے؛ اور وحی سے حاصل شدہ علوم و معارف ان سبھی دائروں سے خارج ہیں۔ قرآن آیات اور احادیث کی روشنی میں وحی کی تین خصوصیات بیان کی جا سکتی ہیں:

الف: باطنی ہونا، وحی کا مطلب ہے قلبی اور باطنی طور پر علوم و معارف کا حاصل کرنا نہ کہ ظاہری اور حسی طور پر۔

”نزل بہ الروح الامین علی قلبک…” روح الامین نے یہ قرآن آپ کے دل پر نازل کیا۔ (١٣)

نزول وحی کے وقت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حالت بیان کرنے والی روایات کے مطابق جس وقت حضور پر وحی نازل ہوتی تھی آپ کے ظاہری حواس مختل اور آپ بے خود ہو جایا کرتے تھے۔ (١٤)

ب: خارج سے ہونا، اس خصوصیت سے ہماری مراد یہ ہے کہ پیغمبر اگر چہ باطنی طور پر وحی کو اخذ کرتا ہے لیکن وحی کا منبع اس کی ذات سے ہٹ کر ہوتا ہے اور وہ خدائے سبحان کی ذات والا صفات ہے نہ کہ انسان کا باطنی شعور اور اس کی تجلی روح، نزول وحی کے وقت پیغمبر اس کے مبدا اور مرکز سے کاملاً آگاہ ہوتا ہے، وحی یعنی اس عالم معنوی سے غیبی ارتباط جو مادیات سے ماوراء ہے۔

ج: تعلیم و تعلم کا پایا جانا ”وحی میں تعلیم و تعلم پایا جاتا ہے لیکن بشری تعلیم و تعلم سے جدا ”علّمہ شدید القویٰ…” اسے ایک صاحب طاقت نے تعلیم دی ہے۔ (١٥)

اس خصوصیت کے ذریعہ انبیاء کے نابغہ ہونے کا نظریہ باطل ہو جاتا ہے چونکہ نابغہ حضرات بذات خود اپنے افکار و نظریات کے بانی ہوتے ہیں جب کہ وحی کا اطلاق انبیاء کے ذاتی نظریات پر نہیں بلکہ الٰہی تعلیمات پر ہوتا ہے۔ پیغمبر ایک واسطہ ہیں جو ”شدید القویٰ جبریل” نامی ملک سے الٰہی تعلیمات اخذ فرماتے ہیں، اپنی طرف سے ہرگز کچھ نہیں کہتے اور اپنی باتیں قطعاً خدا کی طرف منسوب نہیں کرتے ”و لو تقول علینا بعض الاقاویل لاخذنا منہ بالیمین ثم لقطعنا منہ الوتین” اور اگر یہ پیغمبر ہماری طرف سے کوئی بات گڑھ لیتا تو ہم اس کے ہاتھ کو پکڑ لیتے اور پھر اس کی گردن اڑا دیتے۔ (١٦)

جو کچھ بیان کیا گیا اس کا ما حصل یہ ہے کہ خدا اور پیغمبروں کے درمیان جو تین طرح کے روابط پائے جاتے ہیں (١٧) جنہیں ہم وحی کہتے ہیں ان میں سے کسی کی حقیقت بھی ہمارے لئے واضح نہیں ہے علم و معرفت کی یہ قسم عقل و شعور اور احساس و تجربہ سے ما وراء ہے پیغمبروں کا لایا ہوا دین ”وحی” کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے انسانی عقل و تجربہ کی پیداوار نہیں ہوتا ہم صرف وحی کے پرتو کا ادراک کر سکتے ہیں اس کی حقیقت کا ادراک ہمارے لئے ناممکن ہے۔

٭وحی کی خصوصیات سے مزید آشنائی کے لئے شہید مطہری  کی کتاب ”نبوت” کا صفحہ ٨١ تا ٨٤ مطالعہ کیجئے۔

٭دوسرے باب میں نزول قرآن کے زیر عنوان وحی کے بارے میں مزید وضاحت ہوگی۔

اہم نکات:

٭وحی کے ذریعہ حاصل شدہ معرفت ایک خاص قسم کی معرفت ہے جو کسی بھی طرح کے بشری علم و معرفت سے سنخیت نہیں رکھتی، یہ انبیاء سے مخصوص تعلیم ہے جو خدای عز و جل سے غیبی رابطہ کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے۔

٭اس علم و معرفت میں لغزش و خطا سے تحفظ، باریک بینی اور وسعت و جامعیت جیسے وہ امتیازات پائے جاتے ہیں جن سے نابغہ حضرات یا باطنی شعور سے استفادہ کرنے والے محروم ہیں۔

٭اس علم و معرفت میں مندرجہ ذیل خصوصیات پائی جاتی ہیں…؎

الف:اسے باطنی طور پر اخذ کیا جاتا ہے نہ کہ ظاہری حواس کے ذریعہ۔

ب:اس کا مرکز انسان نہیں بلکہ اللہ ہوتا ہے اور یہیں سے شعور باطنی اور روح تجلیات، وحی الٰہی سے الگ ہو جاتے ہیں۔

ج:وحی کا تعلق تعلیم و تعلم سے ہے لیکن بشری سنخیت سے جدا۔ نابغہ حضرات کے برخلاف انبیاء اپنے ذاتی نظریات پیش کرنے کے بجائے جو کچھ خدا کی طرف سے ان پر نازل ہوتا ہے اسے بندوں تک پہنچاتے ہیں۔

٭وحی کے بارے میں مغربی فلاسفہ کا جدید طرز تفکر اگرچہ ان کے دیرینہ عقیدے سے کہیں بہتر ہے جس کے مطابق ان کے نزدیک وحی اور روح کی کوئی حقیقت نہیں تھی مگر پھر بھی اسلامی دانشوروں کے نظریات سے کوسوں دور ہے۔

حوالے:

١. المنار ج/١١ ص/ ١٥٢     ٢. نسائ/١١٣

٣. نجم/٤و٥۔ حضرت آدم علیہ السلام کے بارے میں ملتا ہے و علم آدم الاسمآء کلھا اور اللہ نے آدم کو سارے اسماء کی تعلیم دی (بقرہ/٣١) اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ملتا ہے و اذا علمتک الکتاب و الحکمۃ و التوراۃ و الانجیل (مائدہ/١١٠)

٤کہف/١١٠  

 ٥. شوریٰ/٥٢

٦. اعراف/١٥٨  

 ٧. انعام/٥٩

٨. نمل/٦٥  

 ٩. جن/٢٦ و٢٧

١٠. ہود/٤٩

١١. دائرۃ معارف القرن العشرین ج/١٠ ص/٧١٢ تا ٧١٤؛ المنار ج/١١ ص/١٣٠ تا ١٥٢

١٢. سابق ص/٧١٩

١٣. شعرائ/١٩٣ سورہ بقرہ کی آیت نمبر ٩٧ کا مفہوم بھی یہی ہے ”قل من کا عدواً لجبریل فانہ نزلہ علی قلبک باذن اللہ”

١٤. درسنامہ علوم قرآن سطح/١ باب وحی

١٥. نجم/٥     ١٦. حاقہ/٤٤، ٤٥ و ٤٦

١٧. ”و ما کان لبشر ان یکمہ اللہ الا وحیاً او من ورآء حجاب او یرسل رسولاً” اللہ کسی بشر سے کلام نہیں کرتا مگر یہ کہ وحی کے ذریعہ یا پردہ کے پیچھے سے یا فرشتہ بھیج کر۔ (شوریٰ/٥١) اس آیت سے وحی کی تین قسمیں سمجھ میں آتی ہیں بلا واسطہ؛ با واسطہ اور بذریعہ ملک۔

تبصرے
Loading...