نماز ، سعادت اور خوش بختی کی کنجی:

” یَا َبَاذَرٍ ! مَا دُمْتَ فِی الصَّلٰوةِ فَاِنَّکَ تَقْرَعُ بَابَ الْمَلِکِ الْجَبَّارِ وَ مَنْ یَکْثِرْ قَرْعَ بَابَ الْمَلِکِ یُفْتَح لَہُ ”
اے ابوذر ! جب تک نماز کے لئے تم خدائے متعال کے دروازے پر دستک دو گے اور جو زیادہ سے زیادہ خداکے گھر پر دستک دے گا ، اس کیلئے اس کا دروازہ کھل جاتا ہے ”
یہ انسان کو نماز کیلئے تشویق اور حوصلہ افزائی کرنے کا ایک اور تذکرہ ہے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: جو نماز پڑھتا ہے ، حقیقت میں وہ خداکے گھر کے دروازے پر دستک دیتا ہے ، اور جسے خداسے کام ہے، اسے اس کے گھر پر جانا چاہیے اور نماز اسی لئے ہے کہ انسان خدا کے گھر پر جائییہ ممکن نہیں ہے کہ کوئی بار بار دستک دے اور اپنی درخواست پر اصرار کرے تواس کے لئے دروازہ نہ کھلے وہ بھی خداکے گھر کا دروازہ ۔
پس اگر چاتے ہو کہ خدا آپکی طرف متوجہ ہواور اس کی رحمت اور قبولیت کا دروازہ آپ پر کھل جائے تو اس کے در پربار بار دستک دو اور نماز پڑھنے میں استمرار کرو، ممکن ہے پہلے اور دوسرے مرحلہ میں انسان کی آلودگیوں یا خدا کی مصلحت کی بنا پر خدا کی رحمتوں کا دروازہ نہ کھلے ، لیکن آخر کار کھل جائے گا ۔
بے شک خدا کی رحمت کے دروازے انسان کیلئے ہر وقت کھلے رہتے ہیں ، کیونکہ یہ ممکن نہیں ہے کہ خداوند متعال ایک طرف سے اپنے بندے کو دعوت دے اور دوسری طرف سے اپنی رحمت کے دروازے اس پر بند رکھے ۔ خدا کی رحمت کے دروازے صرف آیات الٰہی جھٹلانے والوں اور مستکبرینکے لئے بند ہیں البتہ انہوں نے خدا کی رحمت کے دروازے خود اپنے اوپر بند کئے ہیں:
(اِنَّ الَّذِینَ کَذَّبُوا بِآیَاتِنَا وَ اسْتَکبَرُوا عَنْھَا لا تُفَتَّحُ لَھُمْ اَبْوَابُ السَّمَائِ ) (اعراف ٤٠)
بیشک جن لوگوں نے ہماری آیتوں کی تکذیب کی اور غرور سے کام لیا ان کیلئے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے …”
جو بات قابل ذکر ہے وہ یہ کہ بعض آیات و روایات میں آیا ہے کہ آسمان کے لئے دروازے ہیں یا یہ کہ مذکورہ روایت میں آیا ہے کہ جب تک انسان نماز کی حالت میں ہے وہ خدا کے دروازہ پر دستک دیتا ہے ، حقیقت میں یہ معقول کی محسوس سے تشبیہ ہے ، تا کہ معنوی اور ما ورای طبیعی مسائل ہمارے لئے قابل ادراک و فہم بن جائیں ، حقیقت یہ ہے کہ بندہ اور خداوند متعال کے درمیان کسی قسم کا پردہ نہیں ہے بلکہ یہ انسان کے برے اعمال ہیں جو انسان کیلئے خدا کی طرف توجہ کرنے میں مانع بن جاتے ہیں اور حقیقت میں انسان گناہوں کے سبب فیوض الٰہی سے محروم ہوجاتا ہے خد اکی رحمتوں کے دروازے کو کھولنے کی کنجی اور جو چیز ان پردوں کو ہٹا سکتی ہے خد اکی عبادت و بندگی ہے اور عبادت کا بہترین مظہر ہے ۔
حدیث کو جاری رکھتے ہوئے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، نماز گزار کو عنایت ہونے والی نعمتوں کے بارے میں فرماتے ہیں :
” یَا َبَاذَرٍ! مَا مِنْ مَُؤْمِنٍِ یَقُومُ مُصَلِّیاً اِلَّا تَنَاثَرَ عَلَیہِ الْبِرُّ مَا بَیْنَہُ وَبَیْنَ الْعَرْشِ وَ وُکِّلَ بِہِ مَلَک یُنَادِی : یَابنَ آدَمَ لَوْ تَعْلَمُ مَالَکَ فِی الصَّلٰوةِ وَ مَنْ تُنَاجِی مٰا اَنْفَتَلْتَ”
اے ابوذر! جب با ایمان انسان نماز کیلئے اٹھتا ہے ،اللہ تعالیٰ کی رحمت، عرش تک اس پر احاطہ کئے رہتی ہے ، ایک فرشتہ اس پر ممور کیا جاتا ہے جو آواز دیتا ہے : اے آدم کے بیٹے ! اگر تم جانتے کہ نماز میں تجھے کیا ملتا ہے اور کس سے بات کرتے ہو !تو ہرگز اس سے کنارہ کشی نہیں ہوئے ۔
( بڑی تعداد میں درخت کے پتوں کے گرنے کو ” تناثر ” کہتے ہیں یا ایسی چیز کو ” تناثر” کہتے ہیں جو بڑی تعداد میں اوپر سے نیچے گرتی ہے ) 
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :
نماز پڑھنے والا سر سے پیر تک رحمت الٰہی میں غرق ہوتا ہے فطری بات ہے جو اس مقام و منزلت کا شیدائی ہو گا ، وہ نما ز طول دے گا اس سے بالا تر یہ کہ خدائے متعال نے ایک فرشتہ کو ممور فرمایا ہے جو نماز گزار کو مسلسل آواز دیتا ہے : اے آدم کے بیٹے ! اگر تم جانتے کہ کس کے ساتھ راز و نیاز کر رہے ہو اور کس سے محو گفتگو ہو ، تو ہرگز نمازسے ہاتھ نہیں کھینچتے اور تھکنکا تمھیں احساس نہیں ہوتا یہ خیال رکھو کہ تم کس کے سامنے کھڑے ہو اور کس سے رابطہ قائم کئے ہو تا کہ اس چیز کو سمجھنے کے بعداپنی نماز کو بھی اہمیت دو، اگر تم جانتے کہ نماز کے سبب کن فائدوں ، فضیلتوں اورکن کن اجر و ثواب سے فیضیاب ہونے والے ہو تو ، اس کو ہرگز نہ چھوڑتے ۔

تبصرے
Loading...