نفاق کی اجمالی شناخت

1۔ نفاق شناسی کی ضرورت
2۔ نفاق کی لغوی و اصطلاحی معانی
3۔ اسلام میں نفاق کے وجود آنے کی تاریخ

 
نفاق شناسی کی ضرورت

دشمن شناسی کی اھمیت صاحبان ایمان کے وظائف میں سے ایک اھم وظیفہ خصوصاً اسلامی نظام و قانون میں دشمن کی شناخت و معرفت ھے۔
اس میں کوئی تردید نھیں کہ اسلامی نظام کو برقرار رکھنے اور اس کے استحکام، پائداری کے لئے اندرونی (داخلی) و بیرونی (خارجی) دشمنوں نیز، ان کے حملہ ور وسائل کی شناخت لازم و ضروری ھے، دشمن اور ان کے مکر و فریب کو پہچانے بغیر مبارزہ کا کوئی فائدہ نھیں، بعض اوقات دشمن کے سلسلہ میں کافی بصیرت و ھوشیاری نہ ھونے کے سبب، انسان دشمن سے رھائی حاصل کرنے کے بجائے دشمن ھی کی آغوش میں پہنچ جاتا ھے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے ھر اقدام سے پہلے بصیرت و ھوشیاری کو بنیادی شرط بتایا ھے، آپ فرماتے ھیں:
((العامل علی غیر بصیرة کالسائر علی غیر الطریق، لا یزیده سرعة السیر الا بعداً عن الطریق)) ۱
بغیر بصیرت و آگاھی کے عمل کو انجام دینے ولا ایسا ھی ھے جیسے راستہ کو بغیر پہچانے ھوئے چلنے والا، کہ اس صورت میں اصل ھدف و مقصد اور راہ سے دور ھوتا چلا جاتا ھے۔
اسی ضرورت کی بنا پر قرآن میں پندرہ سو آیات سے زیادہ دشمن کی شناخت کے سلسلہ میں نازل ھوئی ھیں، خدا وند عالم ان آیات میں، مومنین اور نظام اسلامی کے مختلف دشمنوں کی (جن و انس میں سے) نشاندھی کی ھے نیز ان کی دشمنی کے انواع و اقسام حربے اور ان سے مقابلہ کرنے کے طور و طریقہ کو بتایا ھے، اور اس بات کی مزید تاکید کی ھے کہ مسلمان ان سے دور رھیں اور برائت اختیار کریں:
(یا ایها الذین آمنوا لا تتخذوا عدوی و عدوکم اولیاء)
۲اے صاحبان ایمان اپنے اور میرے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ۔
آیات قرآن کی بنا پر مومنین کے دشمنوں کو بنیادی طور پر چار نوع و گروہ میں تقسیم کیا جاسکتا ھے

 
نوع اوّل:

شیطان اور اس کے اھل کار (انّ الشیطان لکم عدو فاتخذوه عدوا) ۳
یقیناً شیطان تم سب کا دشمن ھے، تم بھی اسے دشمن بنائے رکھو۔
بعض قرآن کی آیات میں، خداوند عالم نے انسان خصوصاً مومنین کے سلسلہ میں شیطان کے آشکار کینے اور دشمنی کو عدو مبین (آشکار دشمن) سے تعبیر کیا ھے، اللہ انسان کو منحرف کرنے والے شیطان کے مکر و فریب، حیلے کو شمار کرتے ھوئے، مومنین سے چاھتا ھے کے وہ شیطان کے راستے پر نہ چلیں۔
(یا ایها الذین آمنوا لا تتبعوا خطوات الشیطان)۴
اے صاحبان ایمان شیطان کے قدم بہ قدم نہ چلو۔

 
نوع دوّم:

کفار قرآن کی نظر میں مومنین کے دشمنوں میں ایک دشمن کفار ھیں۔
(انّ الکافرین کانوا لکم عدوا مبینا)۵
کفار تمھارے آشکار و عیاں دشمن ھیں۔

 
نوع سوم:

بعض اھل کتاب صاحبان ایمان و اسلام کے دشمنوں میں بعض اھل کتاب خصوصاً یھودی دشمن ھیں، شھادت قرآن کے مطابق، صدر اسلام سے اب تک اسلام و مسلمان کے کینہ توز، عناد پسند دشمن یھودی رھے ھیں، قرآن ان سے دوستانہ روابط برقرار کرنے کو منع کرتا ھے۔
(لتجدنّ اشدّ الناس عداوة للذین آمنوا الیھود)۶
یقیناً آپ مومنین کے سلسلہ میں شدید ترین دشمن یھود کو پائیں گے۔

 
نوع چھارم:

منافقین قرآن مجید نے منافقین کے اصلی خدو خال اور خصوصیت نیز ان کی خطرناک حرکتوں کو اجاگر کرنے کے سلسلہ میں بھت زیادہ اھتمام اور بندوبست کیا ھے، تین سو سے زیادہ آیات میں ان کے طرز عمل کو افشا کرتے ھوئے مقابلہ کرنے کی راہ اور طریقہ کو پیش کیا گیا ھے۔
یہ قرآنی آیتیں جو تیرہ سوروں کے ذیل میں بیان کی گئی ھیں بحث حاضر، قرآن میں چھرۂ نفاق کا اصلی محور و موضوع ھیں۔
گرچہ اھل بیت اطھار علیہم السلام ارواحنا لھم الفداء کے زرین اقوال بھی روایات و احادیث کی شکل میں تناسب مباحث کے اعتبار سے پیش کئے جائیں گے۔

 
قرآن میں نفاق و منافقین

منافقین کی خصوصیت و صفات کی شناخت کے سلسلہ میں، قرآن اکثر مقام پر جو تاکید کر رھا ھے وہ تاکید کفار کے سلسلہ میں نظر نھیں آتی، اس کی وجہ یہ ھے کہ کفار علی الاعلان، مومنین کے مد مقابل ھیں، اور اپنی عداوت خصوصیت کا اعلانیہ اظھار بھی کرتے ھیں، لیکن منافقین وہ دشمن ھیں جو دوستی کا لباس پھن کر اپنی ھی صف میں مستقر ھوتے ھیں، اور اس طریقہ سے وہ شدید ترین نقصان اسلام اور مسلمین پر وارد کرتے ھیں، منافقین کا مخفیانہ و شاطرانہ طرز عمل ایک طرف، ظواھر کی آراستگی دوسری طرف، اس بات کا موجب بنتی ھے کہ سب سے پہلے ان کی شناخت کے لئے خاص بینایی و بصیرت چاھئے، دوسرے ان کا خطرہ و خوف آشکار دشمن سے کھیں زیادہ ھوتا ھے۔
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں:
“کن للعدو المکاتم اشدّ حذر منک للعدو المبارز” ۷
آشکار و ظاھر دشمن کی بہ نسبت باطن و مخفی دشمن سے بھت زیادہ ڈرو۔
آیت اللہ شھید مطھری، معاشرہ میں نفاق کے شدید خطرے نیز نفاق شناسی کی اھمیت کے سلسلہ میں لکھتے ھیں۔
میں نھیں سمجھتا کہ کوئی نفاق کے خطرے اور نقصان جو کفر کے خطرے اور ضرر سے کھیں زیادہ شدید تر ھے، تردید کا شکار ھو، اس لئے کہ نفاق ایک قسم کا کفر ھی ھے، جو حجاب کے اندر ھے جب تک حجاب کی چلمن اٹھے اور اس کا مکروہ و زشت چھرہ عیاں ھو، تب تک نہ جانے کتنے لوگ دھوکے و فریب کے شکار اور گمراہ ھوچکے ھوں گے، کیوں مولائے کائنات امیر المومنین علی علیہ السلام کی پیش قدمی کی حالت، رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرق رکھتی ھے، ھم شیعوں کے عقیدہ کے مطابق امیر المومنین علی علیہ السلام کا طریقۂ کار، رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جدا نھیں ھے، کیوں پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیش قدمی اتنی سریع ھے کہ ایک کے بعد ایک دشمن شکست سے دوچار ھوتے جارھے ھیں، لیکن جب مولائے کائنات امیر المومنین علی علیہ السلام دشمنوں کے مد مقابل آتے ھیں، تو بھت ھی فشار و مشکلات میں گرفتار ھوجاتے ھیں، ان کو رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسی پیش رفت حاصل نھیں ھوتی، صرف یہی نھیں بلکہ بعض مواقع پر آپ کو دشمنوں سے شکست کا بھی سامنا کرنا پڑتا ھے، ایسا کیوں ھے؟!
صرف اس لئے کہ پیامبر عظیم الشان کا مقابلہ کافروں سے تھا اور امیر المومنین علیہ السلام کا مقابلہ منافقین گروہ سے تھا۸
سورۂ توبہ کی آیت نمبر 101 سے استفادہ ھوتا ھے کہ کبھی چھرۂ نفاق اس قدر غازۂ ایمان سے آراستہ ھوتا ھے کہ پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے بھی عادی علم کے ذریعہ اس کی شناخت مشکل ھوجاتی ھے، اللہ ھے جو وحی کے وسلیہ سے اس جماعت کا تعارف کراتا ھے۔
(وممّن حولکم من الاعراب منافقون و من اهل المدینة مردوا علی النفاق لا تعلمهم نحن نعلمهم سنعذّبهم مرّتین یردّون الی عذاب عظیم) ۹
اور تمھارے گرد دیھاتیوں میں بھی منافقین ھیں اور اھل مدینہ میں تو وہ بھی ھیں جو نفاق میں ماھر اور سرکش ھیں تم ان کو نھیں جانتے ھو لیکن ھم خوب جانتے ھیں ھم عنقریب ان پر دھرا عذاب کریں گے اس کے بعد وہ عذاب عظیم کی طرف پلٹادئے جائیں گے۔
مولائے کائنات امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام، اسلامی معاشرہ میں نفاق کے آفات و خطرات کا اظھار کرتے ھوئے نھج البلاغہ میں فرماتے ھیں:
((ولقد قال لی رسول الله: انی لا اخاف علی امتی مومنا ولا مشرکا امّا المؤمن فیمنعه الله بایمانه و امّا المشرک فیقمعه الله بشرکه ولکنی اخاف علیکم کل منافق الجنان، عالم اللسان یقول ما تعرفون و یفعل ما تنکرون)) ۱۰
رسول اکرم حضرت محمد مصطفيٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا ھے: میں اپنی امت کے سلسلہ میں نہ کسی مومن سے خوف زدہ ھوں اور نہ مشرک سے، مومن کو اللہ اس کے ایمان کی بنا پر برائی سے روک دے گا اور مشرک کو اس کے شرک کی بنا پر مغلوب کر دے گا، سارا خطرہ ان لوگوں سے ھے جو زبان کے عالم اور دل کے منافق ھیں کھتے وھی ھیں، جو تم سب پہچانتے ھو اور کرتے وہ ھیں جسے تم برا سمجھتے ھو۔
اسی نفاق کے خدو خال کی پیچیدگی کی بنا پر حضرت علی علیہ السلام کی زمام داری کی پانچ سال کی مدت میں دشمنوں سے جنگ کی مشکلات کھیں زیادہ پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی مشکلات و زحمات سے تھیں۔
پیامبر عظیم الشان ان افراد سے بر سر پیکار تھے جن کا نعرہ تھا بت زندہ باد لیکن امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام ان افراد سے مشغول مبارزہ و جنگ تھے جن کی پیشانیوں پر کثرت سجدہ کی بنا پر نشان پڑے ھوئے تھے۔
حضرت علی علیہ السلام ان افراد سے جنگ و جدال کر رھے تھے جن کی رات گئے تلاوت قرآن کی صداء دلسوز حضرت کمیل جیسی فرد پر بھی اثر انداز ھوگئی تھی۱۱
آپ کا مقابلہ ایسے صاحبان اجتھاد سے تھا جو قرآن سے استنباط کرتے ھوئے آپ سے لڑ رھے تھے۱۲
وہ افراد جو راہ خدا میں معرکہ و جھاد کے اعتبار سے درخشاں ماضی رکھتے تھے یھاں تک کہ بعض کو تمغہ جانبازی و فدا کاری بھی حاصل تھا، لیکن دنیا پرستی نے ان صاحبان صفات و کردار کو حق کے مقابل لاکھڑا کیا۔
پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زبیر کو (سابقہ، فداکاری و معرکہ آرائی دیکھتے ھوئے) سیف الاسلام کے لقب سے نوازا تھا اور طلحہ جنگ احد کے جانباز و دلیر تھے، ایسے رونما ھونے والے حالات و حادثات کا مقابلہ کرنا علوی بصیرت ھی کا کام ھے۔
قابل توجہ یہ ھے کہ مولائے کائنات نے نھج البلاغہ میں ایسے افراد سے جنگ کرنے کی بصیرت و بینائی پر افتخار کرتے ھوئے فرماتے ھیں میرے علاوہ کسی بھی فرد کے اندر یہ صلاحیت نہ تھی جو ان سے مقابلہ و مبارزہ کرتا۔
((ایها الناس انی فقات عین الفتنة ولم یکن لیجتری علیها احد غیری)) ۱۳
لوگو! یاد رکھو میں نے فتنہ کی آنکھ کو پھوڑ دیا ھے اور یہ کام میرے علاوہ کوئی دوسرا انجام نھیں دے سکتا ھے۔
قرآن مجید حکم دے رھا ھے کے اپنے آشکار و مخفی دشمنوں کو خوفزدہ کرنے کے لئے پوری طاقت سے مستعدر ھو اور طاقت حاصل کرو تاکہ تمھاری قدرت و اقتداران کی خلاف ورزی روکنے کا ذریعہ ھوجائے۔
(واعدّوا لهم ما استتطعتم من قوة و من رباط الخیل ترھبون به عدّو الله و عدوکم آخرین من دونهم لا تعلمونهم الله یعلمهم) ۱۴
اور تم سب ان کے مقابلہ کے لئے امکانی قوت اور گھوڑوں کی صف بندی کا انتظام کرو جس سے اللہ کے دشمن اپنے دشمن اور ان کے علاوہ جن کو تم نھیں جانتے ھو اور اللہ جانتا ھے (منافقین) سب کو خوفزدہ کردو۔
اس آیت سے استفادہ ھوتا ھے کہ اسلامی نظام میں طاقت و قدرت کا حصول تجاوز و قانون کی خلاف ورزی روکنے کا وسیلہ ھے نہ تجاوز گری کا ذریعہ۔
منافقین ان افراد میں سے ھیں جو ھمیشہ اسلامی نظام و سر زمین پر تعرض و تجاوز کا خیال رکھتے ھیں لھذا نظامی و انتظامی اعتبار سے آمادگی اور معاشرہ کا صاحب بصارت و دانائی ھونا سبب ھوگا کہ وہ اپنے خیال خام سے باز رھیں، اس نکتہ کا بیان بھی ضروری ھے کہ قوت و قدرت کا حصول (آمادگی) صرف جنگ و معرکہ آرائی پر منحصر نہ ھو اگر چہ جنگ ورزم میں مستعد ھونا، اس کے ایک روشن و واضح مصادیق میں سے ھے، لیکن دشمن کی خصوصیت، اس کے حملہ آور وسائل کی شناخت و پھچان کے لئے بصیرت کا وجود، حصول قدرت و اقتدار کے ارکان میں سے ھے۔
جب کہ منافقین کا شمار خطرناک ترین دشمنوں مں ھوتا ھے لھذا، نفاق اور اس کی خصوصیت و صفات کی شناخت ان چند ضرورتوں میں سے ایک ھے جسے عالم اسلام ھمیشہ قابل توجہ قرار دے۔
اس لئے کہ ممکن ھے ھزار چھرے والے دشمن (منافق) سے غفلت ورزی، شاید اسلامی نظام و مسلمانوں کے لئے ایسی کاری ضرب ثابت ھو جو التیام و بھبود کے قابل ھی نہ ھو۔

 
نفاق کے لغوی و اصطلاحی معانی

لفظ نفاق کا ریشہ اور اس کے اصل لفظ نفاق کے معنی، کفر کو پوشیدہ، اور ایمان کا ظاھر کرنا ھے، نفاق کا استعمال اس معنی میں پہلی مرتبہ قرآن میں ھوا ھے، عرب میں اسلام سے قبل اس معنی کا استعمال نھیں تھا، ابن اثیر تحریر کرتے ھیں:
((وهو اسم لم یعرفه العرب بالمعنی المخصوص وهو الذی یستر کفره و یظهره ایمانه)) ۱۵
لفظ نفاق کا اس خاص معنی میں استعمال لغت کے اعتبار سے چار احتمال ھوسکتا ھے:

 
پہلا احتمال:

یہ ھے کہ نفاق بمعنی اذھاب و اھلاک کے ھیں، جیسے (نفقت الدّابۃ) کہ حیوان کے برباد و ھلاک ھوجانے کے معنی میں ھے۔
نفاق کا اس معنی سے تناسب یہ ھے کہ منافق اپنے نفاق کی بنا پر اس میت کے مثل ھے جو برباد و تباہ ھوجاتی ھے۔

 
دوسرا احتمال:

نفاق ذیل عبارت سے اخذ کیا گیا ھے:
((نفقت لسلعة اذا راجت و کثرت طلابها))
وہ سامان جو بھت زیادہ رائج ھو اور اس کے طلب گار بھی زیادہ ھوں تو یہاں پر لفظ “نفق” کا استعمال ھوتا ھے، اس بنا پر اھل لغت کا اصطلاحی مفھوم سے مرتبط ھوتے ھوئے، نفاق یہ ھے کہ منافق ظاھر میں اسلام کو رواج دیتا ھے، کیوں کہ اسلام کے طلب گار زیادہ ھوتے ھیں۔

 
تیسرا احتمال:

نفاق، زمین دوز راستہ کے معنی میں استعمال ھوا ھے۔
((النفق سرب فی الارض له مخلص الی المکان))
اس اصل کے مطابق منافق ان افراد کے مثل ھے جو خطرات کی بنا پر زمین دوز راستہ (سرنگ) میں مخفی ھوجائے، یعنی منافق بھی اسلام کے لباس کو زیب تن کرکے خود کو محفوظ کرلیتا ھے اگر چہ مسلمان نھیں ھوتا ھے۔

 
چوتھا احتمال:

نفاق کا ریشہ “نافقاء” ھے، صحرائی چوھے اپنے گھر کے لئے دو راستہ بناتے ھیں ایک ظاھر و آشکار راستہ، اس کا نام “قاصعاء” ھے، دوسرا مخفی و پوشیدہ راستہ، اس کا نام “نافقاء” ھے، جب صحرائی چوھا خطرہ کا احساس کرتا ھے تو، قاصعاء سے داخل ھوکر نافقاء سے فرار کرتا ھے۔
اس احتمال کی بنا پر، منافق ھمیشہ خروج کے لئے دو راستہ اپناتا ھے، ایمان پر کبھی بھی ثابت قدم نھیں رھتا اگر چہ اس کا حقیقی راستہ کفر ھے لیکن اسلام کا ظاھر کر کے اپنے کو خطرے سے بچا لیتا ھے۔
ابتدا میں دو احتمال یعنی، نفاق بمعنی ھلاک ھونے اور ترویج پانے کے سلسلے میں علماء لغت کی طرف سے کوئی تائید نھیں ملتی ھے، لھذا ان معانی سے اعراض کرنا چاھئے، لیکن تیسرے اور چوتھے احتمال میں سے کون سا احتمال اساسی و بنیادی ھے اس کے لئے مزید بحث و مباحثہ کی ضرورت ھے۔
تمام مجموعی احتمالات سے ایک نکتہ ضرور سامنے آتا ھے، وہ یہ کہ نفاق کے معانی میں دو عنصر قطعاً موجود ھے، 1: عنصر دورخی، 2:عنصر پوشیدہ کاری
اس بنا پر نفاق کے معانی میں دو رخی و پوشیدہ کاری کا بھی اضافہ کردینا چاھئے، منافق وہ ھے جو دو روئی کا حامل ھوتا ھے، اور اپنی صفت کو پوشیدہ بھی رکھتا ھے۔

قرآن و احادیث میں نفاق کے معانی روایات و قرآن میں نفاق دو معانی اور دو عنوان سے استعمال ھوا ھے:

 
1۔ اعتقادی نفاق

قرآن و حدیث میں نفاق کا پہلا عنوان اسلام کا ظاھر کرنا، اور باطن میں کافر ھونا، اس نفاق کو اعتقادی نفاق سے تعبیر کیا جاتا ھے۔
قرآن میں جس مقام پر بھی نفاق کا لفظ استعمال ھوا ھے یہی معنی منظور نظر ھے، یعنی کسی فرد کا ظاھر میں اسلام کا دم بھرنا، لیکن باطن میں کفر کا شیدائی ھونا۔
سورہ منافق کی پہلی آیت اسی معنی کو بیان کر رھی ھے۔
(اذا جاءک المنافقون قالوا نشهد انک لرسول الله والله یعلم انک لرسوله والله یشهد ان المنافقون لکاذبون)
پیغمبر! یہ منافقین آپ کے پاس آتے ھیں، تو کھتے ھیں کہ ھم گواھی دیتے ھیں کہ آپ اللہ کے رسول ھیں، اور اللہ بھی جانتا ھے کہ آپ اس کے رسول ھیں لیکن اللہ گواھی دیتا ھے کے یہ منافقین اپنے قول میں جھوٹے ھیں۔
سورہ نساء میں منافقین کی باطنی وضعیت اس طریقہ سے بیان کی گئی ھے۔
(و دّو لو تکفرون کما کفروا فتکونون سواء) ۱۶
یہ منافقین چاھتے ھیں کہ تم بھی ان کی طرح کافر ھوجاؤ اور سب برابر ھوجائیں۔
اس بنیاد پر امکان ھے کہ مسلمانوں میں بعض افراد ایسے ھوں جو اسلام کا اظھار کرتے ھوں اور باطن میں دین اور اس کی حقانیت پر اعتقاد نہ رکھتے ھوں۔
لیکن ان کے اس فعل کا محرک کیا ھے؟ اس کا ذکر تاریخ نفاق کی فصل میں بیان ھوگا، اس نوعیت کے افراد کا فعل نفاق ھے اور ان کو منافق کھا جاتا ھے۔
یقیناً بعض افراد کا اسلام، جو فتح مکہ کے وقت مسلمان ھوئے تھے اسی زمرہ میں آتا ھے، مثال کے طور پر ابوسفیان کا اسلام، پیامبر عظیم الشان کے بعد کے واقعات، خصوصاً عثمان کے دورہ خلافت میں ظاھر ھوجاتا ھے کہ، ان کا اسلام چال بازی اور مکاری سے لبریز تھا، آھستہ آھستہ خلافتی ڈھانچے میں اثر و رسوخ بڑھاتے ھوئے اسلام کے پردے میں کفر ھی کی پیروی کرتے تھے، یھاں تک کہ عثمان کے عصر خلافت میں ابوسفیان، سید الشھدا حضرت حمزہ کی قبر کے پاس آکر کھتا ھے، اے حمزہ! کل جس اسلام کے لئے تم جنگ کر رھے تھے، آج وہ اسلام گیند کے مثل میری اولاد میں دست بدست ھو رھا ھے۱۷
ابوسفیان، خلافت عثمان کے ابتدائی ایام میں خاندان بنی امیہ کے اجتماع میں اپنے نفاق کا اظھار یوں کرتا ھے، خاندان تمیم وعدی (ابوبکر و عمر کے بعد) خلافت تم کو نصیب ھوئی اس سے گیند کی طرح کھیلتے رھو اور اس گیند (خلافت) کے لئے قدم، بنی امیہ سے انتخاب کرو، یہ خلافت صرف سلطنت و بشر کی سرداری ھے اور جان لو کہ میں ھر گز جنت و جھنم پر ایمان نھیں رکھتا ھوں ۱۸
جس وقت ابوبکر نے امور خلافت کو اپنے ھاتھ میں لیا ابوسفیان چاھتا تھا کہ مسلمانوں کے درمیان اختلاف و تفرقہ پیدا ھوجائے اور اسی غرض کے تحت مولائے کائنات علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے حمایت و مساعدت کی پیشکش کرتا ھے لیکن حضرت علی علیہ السلام اس کو اچھے طریقہ سے پہچانتے تھے، پیشکش کو ٹھکراتے ھوئے فرمایا: تم اور حق کے طرفدار؟! تم تو روز اوّل ھی سے اسلام و مسلمان کے دشمن تھے آپ نے اس کی منافقانہ بیعت کے دراز شدہ دست کو رد کرتے ھوئے چھرہ کو موڑ لیا۱۹
بھر حال اس میں کوئی شک نھیں کہ ابوسفیان ان افراد میں سے تھا جن کے جسم و روح، اسلام سے بیگانے تھے اور صرف اسلام کا اظھار کرتا تھا۔

 
2۔ اخلاقی نفاق

نفاق کا دوسرا عنوان اور معنی جو بعض روایات میں استعمال ھوا ھے اخلاقی نفاق ھے، یعنی دینداری کا نعرہ بلند کرنا، لیکن دین کے قانون پر عمل نہ کرنا، اس کو اخلاقی نفاق سے تعبیر کیا گیا ھے۲۰
البتہ اخلاقی نفاق کبھی فردی اور کبھی اجتماعی پہلوؤں میں رونما ھوتا ھے، وہ فرد جو اسلام کے فردی احکام و قوانین اور اس کی حیثیت کو پامال کر رھا ھو وہ فردی اخلاقی نفاق میں مبتلا ھے اور وہ شخص جو معاشرے کے حقوق و اجتماعی احکام کو جیسا کہ اسلام نے حکم دیا ھے نہ بجالاتا ھو تو، وہ نفاق اخلاق اجتماعی سے دوچار ھے۔
فردی، نفاق اخلاق کی چند قسمیں، ائمہ حضرات کی احادیث کے ذریعہ پیش کی جارھی ھیں، حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں:
((اظهر الناس نفاقاً من امر با لطاعة ولم یعمل بها ونهی عن المعصیة ولم ینته عنها))۲۱
کسی فرد کا سب سے واضح و نمایاں نفاق یہ ھے کہ اطاعت (خداوند متعال) کا حکم دے لیکن خود مطیع و فرمان بردار نہ ھو، گناہ و عصیان کو منع کرتا ھے لیکن خود کو اس سے باز نھیں رکھتا۔
حضرت امام صادق علیہ السلام مرسل اعظم سے نقل کرتے ھوئے فرماتے ھیں:
((ما زاد خشوع الجسد علی ما فی القلب فهو عندنا نفاق)) ۲۲
جب کبھی جسم (ظاھر) کا خشوع، خشوع قلب (باطن) سے زیادہ ھو تو ایسی حالت ھمارے نزدیک نفاق ھے۔
حضرت امام زین العابدین علیہ السلام اخلاقی نفاق کے سلسلہ میں فرماتے ھیں:
((ان المنافق ینهی ولا ینتهی و یامر بما لا یاتی …… یمسی وهمه العشا وهو مفطر و یصبح وهمه النوم ولم یسهر)) ۲۳
یقیناً منافق وہ شخص ھے جو لوگوں کو منع کرتا ھے لیکن خود اس کام سے پرھیز نھیں کرتا ھے، اور ایسے کام کا حکم دیتا ھے جس کو خود انجام نھیں دیتا، اور جب شب ھوتی ھے تو سواء شام کے کھانے کے اسے کسی چیز کی فکر نھیں ھوتی حالانکہ وہ روزہ سے بھی نھیں ھوتا، اور جب صبح کو بیدار ھوتا ھے تو سونے کی فکر میں رھتا ھے، حالانکہ شب بیداری بھی نھیں کرتا (یعنی ھدف و مقصد صرف خواب و خوراک ھے)۔
ذکر شدہ روایات اور اس کے علاوہ دیگر احادیث جو ان مضامین پر دلالت کرتی ھیں ان کی روشنی میں بے عمل عالم اور ریا کار شخص کا شمار انھیں لوگوں میں سے ھے جو فردی اخلاقی نفاق سے دوچار ھوتے ھیں۔
نفاق اخلاقی اجتماعی کے سلسلہ میں معصومین علیہ السلام سے بھت سی احادیث صادر ھوئی ھیں، چند عدد پیش کی جارھی ھیں۔
امام صادق علیہ السلام فرماتے ھیں:
((ان المنافق…… ان حدثک کذبک و ان ائتمنه خانک وان غبت اغتابک وان وعدک اخلفک)) ۲۴
منافق جب تم سے گفتگو کرے تو جھوٹ بولتا ھے، اگر اس کے پاس امانت رکھو تو خیانت کرتا ھے، اگر اس کی نظروں سے اوجھل رھو تو غیبت کرتا ھے، اگر تم سے وعدہ کرے تو وفا نھیں کرتا ھے۔
پیامبر عظیم الشان (ص) نفاق اخلاقی کے صفات کو بیان کرتے ھوئے فرماتے ھیں:
((اربع من کن فیه فهو منافق وان کانت فیه واحدة منهن کانت فیه خصله من النفاق من اذا حدّث کذب واذا وعد اخلف واذا عاهد غدر واذا خاصم فجر)) ۲۵
چار چیزیں ایسی ھیں کہ اگر ان میں سے ایک بھی کسی میں پائی جائیں تو وہ منافق ھے، جب گفتگو کرے تو جھوٹ بولے، وعدہ کرے تو پورا نہ کرے، اگر عھد و پیمان کرے تو اس پر عمل نہ کرے، جب پیروز و کامیاب ھوجائے تو برے اعمال کے ارتکاب سے پرھیز نہ کرے۔
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں:
((کثرة الوفاق نفاق)) ۲۶
کسی شخصی کا زیادہ ھی وفاقی اور سازگاری مزاج و طبیعت کا ھونا یہ اس کے نفاق کی علامت ھے۔
ظاھر سی بات ھے کہ صاحب ایمان ھمیشہ حق کا طرف دار ھوتا ھے اور حق کا مزاج رکھنے والا کبھی بھی سب سے خاص کر ان لوگوں سے جو باطل پرست ھیں سازگار و ھمراہ نھیں ھوتا، دوسرے الفاظ میں یوں کھا جائے، صاحب ایمان ابن الوقت نھیں ھوتا۔
نفاق اجتماعی کا آشکار ترین نمونہ اجتماعی زندگی و معاشرے میں دور روئی اور دو زبان کا ھونا ھے، یعنی انسان کا کسی کے حضور میں تعریف و تمجید کرنا لیکن پس پشت مذمت و برائی کرنا۔
صاف و شفاف گفتگو، حق و صداقت کی پرستاری، صاحب ایمان کے صفات میں سے ھیں، صرف چند ایسے خاص مواقع میں جھاں اھم حکمت اس بات کا اقتضا کرتی ھے جیسے جنگ اور اس کے اسرار کی حفاظت، افراد اور جماعت میں صلح و مصالحت کی خاطر صدق گوئی سے اعراض کیا جاسکتا ھے۲۷
پیامبر اکرم حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس نوعیت کے نفاق کے انجام و نتیجہ کے سلسلہ میں فرماتے ھیں:
((من کان له وجهان فی الدنیا کان له لسانان من نار یوم القیامة)) ۲۸
جو شخص بھی دنیا میں دو چھرے والا ھوگا، آخرت میں اسے دو آتشی زبان دی جائے گی۔
امام حضرت محمد باقر علیہ السلام بھی اخلاقی نفاق کے خدو خال کی مذمت کرتے ھوئے فرماتے ھیں:
((بئس العبد یکون ذاوجهین و ذالسانین یطری اخاه شاهداً و یأکله غائباً ان اعطی حسده وان ابتلی خذله)) ۲۹
بھت بدبخت و بد سرشت ھے، وہ بندہ جو دو چھرے اور دو زبان والا ھے، اپنے دینی بھائی کے سامنے توتعریف و تمجید کرتا ھے اور اس کی غیبت میں اس کو ناسزا کھتا ھے، اگر اللہ اس کے دینی بھائی کو کچھ عطا کرتا ھے تو حسدکرتا ھے، اگر کسی مشکل میںگرفتار ھوتا ھے تو اس کی اھانت کرتا ھے۔

 
اسلام میں وجود نفاق کی تاریخ مشھورنظریہ

مشھورو معروف نظریہ، نفاق کے وجود و آغاز کے سلسلہ میں یہ ھے کہ نفاق کی بنیاد مدینہ میں پڑی، اسفکر و نظر کی دلیل یہ ھے کہ مکہ میں مسلمین بھت کم تعداد اور فشار میں تھے، لھذا کم تعداد افراد سے مقابلے کےلئے، کفار کی طرف سے منافقانہو مخفیانہ حرکت کی کوئی ضرورت نھیں تھی، مکہ کے کفار ومشرکین علی الاعلان آزار و اذیت، شکنجہ دیاکرتے تھے۔
عظیم الشان پیامبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مدینہ ھجرت کرنے کی بنا پراسلام نے ایک نئی کروٹ لی، روز بروز اسلام کے اقتدار و طاقت، شان و شوکت میں اضافہ ھونے لگا، لھذا اس موقع پر بعضاسلام کے دشمنوں نے اسلامکی نقاب اوڑھ کر دینداری کا اظھار کرتے ھوئے اسلام کو تباہ و نابود کرنے کی کوشش شروع کردی، اسلام کااظھار اس لئے کرتے تھے تاکہ اسلام کی حکومت و طاقت سے محفوظ رہ سکیں، لیکن باطن میں اسلام کے جگر خوار و جانیدشمن تھے، یہ نفاق کا نقطہ آغازتھا، خاص کر ان افراد کے لئے جن کی علمداری اور سرداری کو شدید جھٹکا لگا تھا، وہ کچھ زیادہ ھی پیامبراکرم اور ان کے مشن سے عناد و کینہ رکھنے لگے تھے۔
عبداللہ ابن ابی انھی منافقین میں سے تھا، رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مدینہ ھجرتکرنے سے قبل اوس و خزرج مدینہ کے دو طاقتور قبیلہ کی سرداری اسے نصیب ھونی تھی، لیکن بد نصیبی سے واقعۂھجرت پیش آنے کی بنا بر سرداری کےیہ تمام پروگرام خاکستر ھوکر رہ گئے، بعد میں گر چہ اس نے ظاھراً اسلام قبول کرلیا، لیکن رفتار و گفتارکے ذریعہ، اپنے بغض و کینہ، عناد و عداوت کا ھمیشہ اظھار کرتا رھا، یہ مدینہ میں جماعت نفاق کا رئیس و افسر تھا،قرآن مجید کی بعض آیات میں اسکی منافقانہ اعمال و حرکات کی نشاندھی کی گئی ھے۔
جب پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ میں وارد ھوئے۔ اس نے پیامبر عظیم الشان (ص) سےکھا: ھم فریب میں پڑنے والے نھیں، ان کے پاس جاؤ جو تم کو یھاں لائے ھیں اور تم کو فریب دیا ھے، عبد اللہ ابن ابی کیاس ناسزا گفتگو کے فوراً بعدھی سعد بن عبادہ رسول اسلام کی خدمت میں حاضر ھوئے عرض کی آپ غمگین و رنجیدہ خاطر نہ ھوں، اوس و خزرج کاارادہ تھا کہ اس کو اپنے اپنے قبیلہ کا سردار بنائیں گے، لیکن آپ کے آنے سے حالات یکسر تبدیل ھوچکے ھیں، اس کیفرمان روائی سلب ھوچکی ھے،آپ ھمارے قبیلے خزرج میں تشریف لائیں، ھم صاحب قدرت اور باوقار افراد ھیں۳۰
اسمیں کوئی شک نھیں کہ نفاق کا مبدا ایک اجتماعی و معاشرتی پروگرام کے تحت مدینہ ھے، نفاقِاجتماعی کے پروگرام کی شکل گیری کا اصل عامل حق کی حاکمیت و حکومت ھے، جو پہلی مرتبہ مدینہ میں تشکیل ھوئی، پیامبرعظیم الشان کا مدینہ میں واردھونا و اسلام کا روز بروز قوی و مستحکم ھونا باعث ھوا کہ منافقین کی مرموز حرکات وجود میں آئیں، البتہمنافقین کی یہ خیانت کارانہ حرکتیں پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جنگوں میں زیادہ قابل لمس ھیں۔
قرآنمجید میں بطور صریح جنگ بدر، احد، بنی نظیر، خندق و تبوک نیز مسجد ضرار کے سلسلہ میں منافقینکی سازشیں بیان کی گئی ھیں۔
مدینہ میں جماعت نفاق کے منظّم و مرتب پروگرام کے نمونے، غزوہ تبوک کے سلسلہ میں پیامبر اکرم صلیاللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے مشکلات کھڑی کرنا، مسجد ضرار کی تعمیر کے لئے، چال بازی و شعبدہ بازی کا استعمال کرنا۔
پیامبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا غزوۂ تبوک کے لئے اعلان کرنا تھا کہ منافقین کی حرکاتمیں شدت آگئی، غزوہ تبوک کے سلسلہ میں منافقانہ حرکتیں اپنے عروج پر پھنچ چکی تھیں، مدینہ سے تبوک کا فاصلہ تقریباً ایک ھزار کیلو میٹر تھا،موسم بھی گرم تھا، محصول زراعت و باغات کے ایام تھے، اس جنگ میں مسلمانوں کی مدّ مقابل روم کی سوپر پاورحکومت تھی، یہ تمام حالات منافقین کے فیور (موافق) میں تھے، تاکہ زیادہ سے زیادہ افراد کو جنگ پر جانے سے روکسکیں، اور انھوں نے ایسا ھی کیا۔
منافقین کے ایک اجتماع میں جو سویلم یھودی کے یھاں برپا ھوا تھا، جس میں منافق جماعت کے بلند پایہارکان موجود تھے، طے یہ ھوا کہ مسلمانوں کو روم کی طاقت و قوت کا خوف دلایا جائے، ان کے دلوں میں روم کی ناقابلتسخیر فوجی طاقت کا رعب بٹھایاجائے۔
اس جلسہ اور اھداف کی خبر پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پھنچی، آپ نے اسلام کے خلافاس سازشی مرکز کو ختم نیز دوسروں کی عبرت کے لئے حکم دیا، سویلم کے گھر کو جلادیا جائے آپ نے اس طریقہ سے ایکسازشی جلسہ نیز ان کے ارکانکو متفرق کر کے رکھ دیا ۳۱
مسجدضرار کی تعمیر کے سلسلہ میں نقل کیا جاتا ھے کہ منافقین میں سے کچھ افراد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ھوئے، ایک مسجد قبیلۂ بنی سالم کے درمیان مسجدقبا کے نزدیک بنانے کی اجازت چاھی، تاکہ بوڑھے، بیمار اور وہ جو مسجد قبا جانے سے معذور ھیں خصوصاً بارانی راتوں میں،وہ اس مسجد میں اسلامی فریضہاور عبادت الھی کو انجام دے سکیں، ان لوگوں نے تعمیر مسجد کی اجازت حاصل کرنے کے بعد رسول اکرم صلی اللہعلیہ وآلہ وسلم سے افتتاح مسجد کی درخواست بھی کی، آپ نے فرمایا: میں ابھی عازم تبوک ھوں واپسی پر انشاء اللہ اسکام کو انجام دوں گا، تبوک سےواپسی پر ابھی آپ مدینہ میں داخل بھی نہ ھوئے تھے کہ منافقین آپ کی خدمت میں حاضر ھوئے اور مسجد میںنماز پڑھنے کی خواھش ظاھر کی، اس موقع پر وحی کا نزول ھوا۳۲ جس نے ان کے افعال و اسرار کی پول کھول کر رکھدی، پیامبر اکرمصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد میںنماز پڑھنے کے بجائے تخریب کا حکم دیا تخریب شدہ مکان کو شھر کے کوڑے اور گندگی ڈالنے کی جگہ قراردیا۔
اگراس جماعت کے فعل کی ظاھری صورت کا مشاھدہ کریں تو پیامبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایسے حکمسے حیرت ھوتی ھے لیکن جب اس قضیہ کے باطنی مسئلہ کی تحقیق و جستجو کریں تو حقیقت سامنے آتی ھے، یہ مسجد جوخراب ھونے کے بعد مسجد ضرار کےنام سے مشھور ھوئی، ابو عامر کے حکم سے بنائی گئی تھی، یہ مسجد نھیں بلکہ جاسوسی اور سازشی مرکز تھا، اسلامکے خلاف جاسوسی و تبلیغ اور مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ایجاد کرنا اس کے اھداف و مقاصد تھے۔
ابوعامر مسیحی عالم تھا زمانۂ جاھلیت میں عبّاد و زھّاد میں شمار ھوتا تھا اور قبیلۂ خزرجمیں وسیع عمل و دخل رکھتا تھا، جب مرسل اعظم نے مدینہ ھجرت فرمائی مسلمان آپ کے گرد جمع ھوگئے خصوصاً جنگ بدر میںمسلمانوں کی مشرکوں پر کامیابیکے بعد اسلام ترقی کرتا چلا گیا، ابو عامر جو پھلے ظھور پیامبر (ص) کا مژدہ سناتا تھا جب اس نے اپنےاطراف و جوانب کو خالی ھوتے دیکھا تو اسلام کے خلاف اقدام کرنا شروع کردیا، مدینہ سے بھاگ کر کفار مکہ اور دیگرقبائل عرب سے، پیامبر اسلام صلیاللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف مدد حاصل کرنی چاھی، جنگ احد میں مسلمانوں کے خلاف پروگرام مرتب کرنے میں اسکا بڑا ھاتھ تھا، دونوں لشکر کی صفوں کے درمیان میں خندق کے بنائے جانے کا حکم اسی کی طرف سے تھا، جس میں پیامبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمگر پڑے آپ کی پیشانی مجروح ھوگئی دندان مبارک ٹوٹ گئے، جنگ احد کے تمام ھونے کے بعد، باوجود اس کے کہ مسلمان اس جنگ میں کافی مشکلات و زحمات سے دوچار تھے، اسلام مزید ارتقاء کی منزلیں طے کرنے لگا صدائے اسلام پھلےسے کھیں زیادہ بلند ھونے لگیابو عامر، یہ کامیابی و کامرانی دیکھ کر مدینہ سے بادشاہ روم ھرقل کے پاس گیا تاکہ اس کی مدد سے اسلام کیپیش رفت کو روک سکے، لیکن موت نے فرصت نہ دی کہ اپنی آرزو و خواھش کو عملی جامہ پھنا سکے، لیکن بعض کتب کےحوالہ سے کھا جاتا ھے، کہ وہ بادشاہروم سے ملا اور اس نے حوصلہ افزا وعدے بھی کئے۔
اسنکتہ کو بیان کر دینا بھی ضروری ھے کہ اس کی تخریبی حرکتیں اور عناد پسند طبیعت کی بنا پرپیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے فاسد کا لقب دے رکھا تھا، بھر حال اس کے قبل کہ وہ واصل جھنم ھوا، ایک خطمدینہ کے منافقین کے نام تحریرکیا جس میں لشکر روم کی آمد اور ایک ایسے مکان و مقام کی تعمیر کا حکم تھا جو اسلام کے خلاف سازشی مرکزھو، لیکن چونکہ ایسا مرکز منافقین کے بنانا چنداں آسان نھیں تھا لھذا انھوں نے مصلحتاً معذوروں، بیماروں، بوڑھوںکی آڑ میں مسجد کی بنیاد ڈالکر ابو عامر کے حکم کی تعمیل کی، مرکز نفاق مسجد کی شکل میں بنایا گیا، مسجد کا امام جماعت ایک نیک سیرتجوان بنام مجمع بن حارثہ کو معین کیا گیا، تاکہ مسجد قبا کے نماز گزاروں کی توجہ اس مسجد کی طرف مبذول کی جاسکے،اور وہ اس میں کسی حد تک کامیاببھی رھے، لیکن اس مسجد کے سلسلہ میں آیات قرآن کے نزول کے بعد پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےاس مرکز نفاق کو خراب کرنے کا حکم دے دیا ۳۳،تاریخ کا یہ نمونہجسے قرآن بھی ذکر کر رھا ھے منافقین کی مدینہ میں منظّم کار کردگی کا واضح ثبوت ھے۔

 
مشھورنظریہ کی تحقیق

مشھورنظریہ کے مطابق نفاق کا آغاز مدینہ ھے، اور نفاق کا وجود، حکومت و قدرت سے خوف و ھراس کی بناپر ھوتا ھے، اس لئے کہ مکہ کے مسلمانوں میں قدرت و طاقت والے تھے ھی نھیں، لھذا وھاں نفاق کا وجود میں آنا بے معنیتھا، صرف مدینہ میں مسلمانصاحب قدرت و حکومت تھے لھذا نفاق کا مبداء مدینہ ھے۔
لیکن نفاق کی بنیاد صرف حکومت سے خوف و وحشت کی بنا پر جو اس کے لئے کوئی دلیل نھیں ھے، بلکہاسلام میں منصب و قدرت کے حصول کی طمع بھی نفاق کے وجود میں آنے کا عامل ھوسکتی ھے، لھذا، نفاق کی دو قسم ھونیچاھئے:

1۔ نفاقِ خوف:

ان افراد کا نفاق جواسلام کی قدرت و اقتدار سے خوف زدہ ھوکراظھار اسلام کرتے ھوئے اسلام کے خلاف کام کیا کرتے تھے۔

2۔ نفاقِ طمع:

ان افراد کا نفاق جو اسلالچ میں اسلام کا دم بھرتے تھے کہاگر ایک روز اسلام صاحب قدرت و سطوت ھوا، تو اس کی زعامت و مناصب پر قابض ھوجائیں یا اس کے حصّہ داربن جائیں۔
نفاقبر بناء خوف کا سر چشمہ مدینہ ھے، اس لئے کہ اھل اسلام نے قدرت و اقتدار کی باگ ڈور مدینہمیں حاصل کیا۔
لیکن نفق بر بناء طمع و حرص کا مبداء و عنصر مکہ ھونا چاھئے، عقل و فکر کی بنا پر بعید نھیں ھے کہبعض افراد روز بروز اسلام کی ترقی، اقتصادی اور سماجی بائیکاٹ کے باجود اسلام کی کامیابی، مکرر رسول اعظم صلیاللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سےاسلام کے عالمی ھونے والی خوش خبری وغیرہ کو دیکھتے ھوئے دور اندیش ھوں، کہ آج کا ضعیف اسلام کل قوت وطاقت میں تبدیل ھوجائے گا، اسی دور اندیشی و طمع کی بنا پر اسلام لائے ھوں، تاکہ آئندہ اپنے اسلام کے ذریعہ اسلام کےمنصب و قدرت کے حق دار بن جائیں۔
اس مطلب کا ذکر ضروری ھے کہ منافق طمع کے افعال و کارکردگی منافق خوف کی فعالیت و کارکردگی سے کافیجدا ھے، منافق خوف کی خصوصیت خراب کاری، کار شکنی، بیخ کنی، اذیت و تکلیف سے دوچار کرنا ھے، جب کہ منافق طمع ایسانھیں کرتا، بلکہ وہ ایک تحریککی کامیابی کے سلسلہ میں کوشش کرتے ھیں، تاکہ وہ تحریک ایک شکل و صورت میں تبدیل ھوجائے، اور یہ قدرتکی نبض اور دھڑکن کو اپنے ھاتھوں میں لے سکیں، منافق طمع صرف وھاں تخریبی حرکات کو انجام دیتے ھیں جھاں ان کےبنیادی منافع خطرے میں پڑجائیں۔
اگرھم نفاق طمع کے وجود کو مکہ قبول کریں، تو اس کی کوئی ضرورت نھیں کہ نفاق کا وجود اور اس کےآغاز کو مدینہ تسلیم کیا جائے۔
جیساکہ مفسر قرآن علامہ طباطبائی (رح) اس نظریہ کو پیش کرتے ھیں۳۴، آپایک سوال کے ذریعہکو مذکورہ مضمون کی تائید کرتے ھوئے فرماتے ھیں، باوجودیکہ اس قدر منافقین کے سلسلہ میں آیات، قرآن میںموجود ھیں، کیوں پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد منافقین کا چرچا نھیں ھوتا، منافقین کے بارےمیں کوئی گفتگو اور مذاکراتنھیں ھوتے، کیا وہ صفحہ ھستی سے محو ھوگئے تھے؟ کیا پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کیبنا پر منتشر اور پراکندہ ھوگئے تھے؟ یا اپنے نفاق سے توبہ کرلی تھی؟ یا اس کی وجہ یہ تھی کہ پیامبر اسلام صلیاللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفاتکے بعد صاحبان نفاق طمع، صاحبان نفاق خوف کا تال میل ھوگیا تھا، اپنی خواھشات و حکمت عملی کو جامۂعمل پھنا چکے تھے، اسلام کی حکومت و ثروت پر قبضہ کر چکے تھے اور بہ بانگ دھل یہ شعر پڑھ رھے تھے:
((لعبت هاشم بالملک فلا خبرجاء ولا وحی نزل))
خلاصہ ٔبحث یہ ھے کہ نفاق اجتماعی ایک منظّم تحریک کے عنوان سے مدینہ میں ظھور پذیر ھوا، لیکننفاق فردی جو بر بناء طمع و حرص عالم وجود میں آیا ھو اس کو انکار کرنے کی کوئی دلیل نھیں، اس لئے کہ اس نوعیت کانفاق مکہ میں بھی ظاھر ھوسکتاتھا، وہ افراد جو پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستور و حکم سے سر پیچی کرتے تھے، ان میںبعض وہ تھے جو مکہ میں مسلمان ھوئے تھے، یہ وھی منافق تھے جو طمع و حرص کی بنا پر اسلام کا اظھار کرتے تھے۔

 
مرض نفاق اور اس کے آثار

نفاق،قلب اور دل کی بیماری ھے، قرآن کی آیات اس باریکی کی طرف توجہ دلاتی ھیں، پاکیزہ قلب خداکا عرش اور اللہ کا حرم ھے۳۵، اسمیں اللہ کے علاوہکسی اور کا گذر نھیں ھے، لیکن مریض و عیب دار دل، غیر خدا کی جگہ ھے ھوا و ھوس سے پر دل شیطان کا عرشھے، قرآن مجید صریح الفاظ میں منافقین کو عیب دار اور مریض دل سمجھتا ھے:
(فی قلوبهم مرض) ۳۶
نفاق جیسی پُر خطر بیماری میں مبتلا افراد، بزرگترین نقصان و ضرر سے دوچار ھوتے ھیں، اس لئے کہآخرت میں نجات صرف قلب سلیم (پاکیزہ) کے ذریعہ ھی میسر ھے، ھوا و ھوس سے پر، غیر خدا کا محبّ و غیر خدا سے وابستہدل نجات کا سبب نھیں۔
(یوم لا ینفع مال ولا بنونالا من اتی الله بقلب سلیم) ۳۷
اس دن مال اور اولاد کام نھیں آئیں گے۔ مگر وہ جو قلب سلیم کے ساتھ اللہ کی بارگاہ میں حاضرھو۔
قرآن مجید اس مرض و بیماری کی شناخت و واقفیت کے سلسلہ میں کچھ مفید نکات کا ذکر کر رھا ھے،تمام مسلمانوں کو ان نکات کی طرف توجہ دینی چھاھئے تاکہ اپنے قلب و دل کی صحت و سلامتی و نیز مرض کو تشخیص دےسکیں، نیز ان نکات کے ذریعہ معاشرےکے غیر سلیم و نادرست قلوب کی شناسائی کرتے ھوئے ان کے مراکز فساد و فتنہ سے مبارزہ کرسکیں۔
ایک سرسری جائزہ لیتے ھوئے آیاتِ قرآنی جو منافقین کی شناخت میں نازل ھوئی ھیں ان کو چند نوع میں تقسیم کیا جاسکتا ھے۔
وہآیات جو اسلامی معاشرے میں منافقین کی سیاسی و اجتماعی روش و طرز کو بیان کرتی ھیں، وہ آیات جومنافقین کی فردی خصوصیت نیز ان کی نفسیاتی شخصیت و عادت کو رونما کرتی ھیں، وہ آیات جو منافقین کی ثقافتی روش وطرز عمل کو اجاگر کرتی ھیں، وہآیات جو منافقین سے مبارزہ و رفتار کے طور و طریقہ کو پیش کرتی ھیں۔
پھلی نوع کی آیات میں منافقین کی سیاسی و معاشرتی اسلوب، اور دوسری نوع کی آیات میں منافقین کیانفرادی و نفسیاتی بیماری کی علامات کا ذکر ھے اور تیسری نوع کی آیات میں منافقین کی کفر و نفاق کے مرض کو وسعتدینے نیز اسلام کو تباہ و بربادکرنے کے طریقے کو بیان کیا گیا ھے، چوتھی نوع کی آیات میں منافقین کی کار کردگی کو بے اثر بنانے کےطریقۂ کار کو پیش کیا گیا ھے، اگر چہ قرآن میں جو آیات منافقین کے سلسلہ میں آئیھیں وہ ان کی اعتقادی نفاق کو بیان کرتی ھیں، مگر جو آیات منافقین کی خصوصیت و صفات کو بیان کرتی ھیں وہ ان کیمنافقانہ رفتار و گفتار کو پیش کررھی ھیں خواہ اعتقادی ھوں یا نہ ھوں منافقین کے جو خصائص بیان کئے گئے ھیں، منافقانہ رفتار و گفتار کیشناخت کے لئے معیار و پیمانہ قرار دئے گئے ھیں، اس کے مطابق جو فرد یا جماعت بھی اس نوع و طرز کی رفتار و روش کیحامل ھوگی اس کا شمار منافقینمیں ھوگا۔

۱ اصول کافی، ج1، ص43۔
۲. سورہ ممتحنہ/ 1۔
۳. سورہ فاطر/ 6۔
۴. سورہ نور/ 21۔
۵. سورہ نساء/ 101۔
۶. سورہ مائدہ/ 82۔
۷. شرح نھج البلاغہ، ابن ابی الحدید، ج20ص311۔
۸. مسئلہ نفاق: بنابر نقل نفاق یا کفرپنھان، ص52۔
۹. سورہ توبہ/ 101۔
۱۰. نھج البلاغہ، نامہ27۔
۱۱. بحار الانوار، ج33، ص399۔
۱۲. سفینۃ البحار، ج1، ص380۔
۱۳. نھج البلاغہ، خطبہ93۔
۱۴. سورہ انفال/60۔
۱۵. نھایۃ، ابن اثیر، بحث “نفق” و نیز: لسان العرب، ج10، ص359۔
۱۶. سورہ نساء/ 89۔
۱۷. قاموس الرجال، ج10، ص89۔
۱۸. الاصابہ، ج4، ص88۔
۱۹. تفسیر سورہ توبہ و منافقون۔
۲۰. یقیناً اخلاق کی یہ حالتیں، رذائل کےاجزا میں سے ھے لیکن یہ کہ عادت رذیلہ روایات میں نفاق پر اطلاق ھوتی ھے یا نھیں یہ وہ موضوع ھے جسےاجاگر ھونا چاھئے علامہ مجلسیبحار الانوار ج72 ص108 میں اس نظریہ کی تائید کرتے ھیں کہ روایات میں اسی معنی میں استعمال ھوا ھے،اصول کافی ج2 میں ایک باب صفت النفاق و المنافق ھے اس باب کی اکثر احادیث انفرادی، اجتماعی اخلاقی نفاق کے سلسلہ میںبیان کی گئی ھے یہ خود دلیلھے کہ نفاق روایات میں اس خاص معنی (نفاق اخلاقی) جس کا میں نے اشارہ کیا ھے استعمال ھوا ھے۔
۲۱. غرور الحکم، حدیث 3214۔
۲۲. اصول کافی، ج2، ص396۔
۲۳. اصول کافی، ج2، ص396۔
۲۴. المحجۃ البیضاء، ج5، ص282۔
۲۵. خصال شیخ صدوق، ص254۔
۲۶. میزان الحکمت، ج8، ص3343۔
۲۷. غیبت و کذب سے مستثنٰی موارد کےسلسلہ میں اخلاقی و فقھی کتب جیسے جامع السعادات اور مکاسب کی طرف مراجعہ کریں۔
۲۸. المحجۃ البیضاء، ج5، ص280۔
۲۹. المحجۃ البیضاء، ج5، ص282۔
۳۰. علام الوری، ص44، بحار الانوار، ج19 ص108۔
۳۱. سیرت ابن حشام، ج2، ص517، منشور جاویدقرآن، ج4، ص112۔
۳۲. سورہ توبہ، 107 کے بعد کی آیتیں۔
۳۳. مجمع البیان، ج3، ص72۔
۳۴. تفسیر المیزان، ج19 ص287 تا 290، سورہمنافقون کی آیات 1/ 8 کے ذیل میں۔
۳۵. “قلب المؤمن عرش الرحمن” بحارالانوار، ج58، ص39۔ “لقلب حرم اللہ فلا تسکن حرم اللہ غیر اللہ” بحار الانوار، ج70، ص25۔
۳۶. سورہ بقرہ/ 10، مائدہ/52 ، توبہ/ 125،محمد/ 20۔ 29: بعض آیات میں (فی قلوبھم مرض) کے ھمراہ منافقون کا بھی ذکر کیا گیا ھے، جیسے سورہ انفالکی آیت نمبر 49 و سورہ احزابکی آیت نمبر 12 (اذا یقول المنافقون والذین فی قلوبھم مرض) یھاں یہ سوال سامنے آتا ھے کہ بیمار دلوالے منافق ھی ھیں یا ان کے علاوہ دوسرے افراد، علامہ طباطبائی (رح) تفسیر المیزان، ج15، ص286، ج9، ص99، میں اندونوں کو الگ الگ شمار کرتےھیں، آپ کا کھنا ھے کہ بیمار دل والوں سے مراد ضعیف الاعتقاد مسلمان ھیں، اور منافقین وہ ھیں جو ایمان واسلام کا اظھار کرتے ھیں لیکن باطن میں کافر ھیں، بعض مفسرین کی نظر میں، بیمار دل صفت والے افراد منافق ھی ھیں،نفاق کے درجات ھیں، نفاق کاآغاز قلب و دل کی کجی اور روح کی بیماری سے شروع ھوتا ھے، اور آھستہ آھستہ پایۂ تکمیل کو پھنچتا ھے، لیکن میرے خیال میں منافقون، و (والذین فی قلوبھم مرض) دو مترادف الفاظ کے مثل ھیںجیسے فقیر و مسکین، اگر یہ دو لفظ ساتھ میں استعمال ھو تو ھر لفظ ایک مخصوص معنی کا حامل ھوگا، لیکن اگر جدا استعمالھوتو دونوں کے معنی ایک ھیھوں گے، اس بنا پر وہ آیات جس میں لفظ منافقون و (فی قلوبھم مرض) ایک ساتھ استعمال ھوئے ھیں، دونوں کےمستقل معنی ھیں، منافقون یعنی اسلام کا اظھار و کفر کا پوشیدہ رکھنا، و (فی قلوبھم مرض) یعنی ضعیف الایمان یاآغاز نفاق، لیکن جب (فی قلوبھممرض) کا استعمال جدا ھو تو اس سے مراد منافقین ھیں، کیوں کہ منافقین وھی ھیں جو (فی قلوبھم مرض) کےمصداق ھیں،
۳۷. سورہ شعراء/ 88 و 89۔

 

تبصرے
Loading...