نبوتوں کی تجدید کے اسباب

اگرچہ نبوت ایک متصل اور جاری رہنے والا اسلام اور پیغام الٰہی ہے یعنی دین صرف ایک حقیقت ہے ایک سے زیادہ نہیں ہے۔ صاحب شریعت اور مبلغ کی حیثیت سے آنے والے پیغمبروں کی تجدید اور متواتر ایک کے بعد دوسرے پیغمبر کے آنے اور حضرت خاتم الانبیاء۱ کی شریعت محمدی(ص) کے بعد اس سلسلے کے منقطع ہو جانے کے علل و اسباب حسب ذیل ہیں:

۱۔ زمانہ قدیم کا انسان اپنی استعداد اور فکر کے اعتبار سے اس قابل نہ تھا کہ اپنی آسمانی کتاب کی حفاظت کر سکے اسی وجہ سے آسمانی کتابیں عموما تحریف کا شکار ہو جایا کرتیں یا بالکل ہی فنا ہو جاتیں اس بناء پر یہ ضروری ہو جاتا تھا کہ پیغام کی تکرار کی جائے۔ نزول قرآن کا زمانہ یعنی آج سے چودہ سو سال قبل کا دور تھا جب انسانی معاشرہ اپنے زمانہ طفلی کو بہت پیچھے چھوڑ کر حد بلوغ کو پہنچ چکا تھا اور اس وقت انسان اپنی علمی و دینی میراث کی حفاظت کرنے پر قادر ہو چکا تھا اسی وجہ سے سب سے آخری مقدس و مکمل کتاب یعنی قرآن کریم میں کوئی تحریف نہیں ہو سکی مسلمان اس کی ہر آیت کی حفاظت اس کے وقت نزول سے ہی اپنے ذہنوں اور تحریروں کے ذریعے کرتے رہے اور اس طرح سے اس کی حفاظت کرتے رہے کہ اس میں کسی قسم کے تغیر و تبدل تبدیلی و تحریف حذف و اضافہ کا امکان ہی باقی نہ رہے یہی وجہ ہے کہ اس مقدس اور آسمانی کتاب میں کسی قسم کی کوئی تحریف نہیں ہو سکی اور اس طرح نبوتوں کی تجدید کے اسباب میں سے ایک سبب تو بالکل ہی ختم ہو گیا۔

۲۔ گذشتہ ادوار میں بشریت اپنی صلاحیت اور فکری قابلیت کے اعتبار سے اس بات پر قادر نہیں تھی کہ اپنی زندگی کے لئے مکمل طور پر کوئی آئین اور لائحہ عمل مرتب کر سکے جس کی راہنمائی میں وہ اپنے سفر کو جاری رکھ سکے اس لئے ضروری تھا کہ مرحلہ بہ مرحلہ اور منزل بہ منزل اس کی رہنمائی کی جاتی رہے اور ایک یا کئی رہبر و رہنما ہمیشہ اس کے ساتھ رہیں۔

لیکن حضرت خاتم الانبیاء کے مبارک دور میں اور اس کے بعد قوت و توانائی جو کلی اور مکمل لائحہ عمل مرتب کر سکے انسان کو حاصل ہو چکی تھی لہٰذا مرحلہ بہ مرحلہ اور منزل بہ منزل والا لائحہ عمل مرتب کرنے کی ضرورت ختم ہو گئی اور اس کا سلسلہ منقطع کر دیا گیا۔ شریعتوں کی تجدید کا سبب مذکورہ بالا اسباب کے علاوہ یہ بھی تھا کہ انسان اس بات پر قادر نہیں تھا کہ اپنے واسطے کوئی مکمل اور جامع پروگرام بنا سکے اور جب یہ قوت و طاقت اور صلاحیت اس میں پیدا ہو گی تو مکمل اور جامع پروگرام تیار کرنے کا کام خود اس کے اختیار میں دے دیا گیا اور نبوتوں اور شریعتوں کی تجدید کا یہ دوسرا سبب بھی ختم ہو گیا۔ امت کے علماء ماہر اور سپیشلسٹ ہونے کی بناء پر اسلام کے پیش کردہ مکمل و جامع لائحہ عمل اور ضابطہ حیات سے استفادہ کرتے ہوئے آئین اور دستورالعمل کی ترتیب و تدوین کر کے بشریت کی رہنمائی کر رہے ہیں۔

۳۔ پیغمبروں کی کثیر تعداد دین کی مبلغ تھی نہ کہ صاحب شریعت بلکہ صاحب شریعت پیغمبروں کی تعداد شاید ایک ہاتھ کی انگلیوں کی تعداد سے زیادہ نہیں ہے۔ مبلغ کی حیثیت سے آنے والے پیغمبروں کا کام اس شریعت کی تبلیغ و ترویج اور تفسیر کرنا اور اسے نافذ کرنا تھا جو ان کے زمانے کے افراد کے درمیان موجود تھی۔ اس خاتمیت کے دور میں کہ جو عصر علم و دانش ہے علمائے اسلام اس بات پر قادر ہیں کہ اسلام کے عمومی اصولوں کی معرفت اور زمان و مکان کی شرائط سے واقفیت اور آگاہی حاصل کر کے ان عمومی اصولوں کو زمان و مکان کے تقاضوں سے احکام الٰہی کا استخراج و استنباط کریں۔ اسی عمل کا نام اجتہاد ہے اور امت اسلامی کے لائق و قابل علماء مبلغ کی حیثیت سے آنے والے انبیاء۱ کے بہت سے فرائض اور صاحب شریعت انبیاء۱ کے کچھ فرائض اپنی طرف سے کوئی شریعت لائے بغیر عمل اجتہاد کے ذریعے امت کی رہنمائی کے خاص فریضے کو انجام دیتے ہیں۔ اس لحاظ سے جہاں دین کی ضرورت ہمیشگی حیثیت کی حامل ہے بلکہ بشریت جس قدر تہذیب و تمدن اور ترقی و کمال کی منزلیں طے کرتی جاتی ہے دین کی احتیاج اور زیادہ ہو جاتی ہے وہاں نبوت و شریعت کی تجدید اور کسی جدید آسمانی کتاب یا نئے پیغمبر کے آنے کی ضرورت بھی ہمیشہ کے لئے ختم ہو گی اور نبوت کا سلسلہ بھی۔

(ختم نبوت کی مفصل بحث کیلئے مولف کی کتاب ”ختم نبوت“ کا مطالعہ کریں)

اس بحث سے یہ بات واضح ہو گئی کہ ختم نبوت میں بشر کی اجتماعی اور فکری بلوغت اور پختگی کا نہایت اہم کردار رہا ہے اور اس کردار کے کئی پہلو ہیں:

۱۔ فکری اور اجتماعی بلوغت نے آسمانی کتاب کو تحریف سے محفوظ رکھا ہے۔

۲۔ یہ فکری رشد اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ انسان نے اپنے ارتقائی پروگرام کو منزل بہ منزل کے بجائے ایک ہی مرحلے میں اپنی تحویل میں لے لیا اور اس سے استفادہ کیا۔

۳۔ اجتماعی اور فکری پختگی اور سمجھداری اسے اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ وہ دین کو برقرار کرے اور اس کی ترویج و تبلیغ امربالمعروف اور نہی عن المنکر جیسے فرائض کی ذمہ داری قبول کرے۔ اس سے مبلغ کی حیثیت سے آنے والے پیغمبروں کی ضرورت ختم ہو گئی اور اب اس ضرورت کو امت کے علماء پورا کرتے ہیں۔

۴۔ بشریت اپنی فکری پختگی کے لحاظ سے اس منزل پر پہنچ گئی کہ وہ اجتہاد کی روشنی میں کلیات وحی کی توجیہ و تفسیر کر سکے اور زمان و مکان کے بدلتے ہوئے تقاضوں سے ہم آہنگ ہر مسئلے کو اس سے متعلقہ اصول کی طرف موڑ سکے۔ اس اہم کام کو بھی امت کے علماء انجام دے رہے ہیں۔

معلوم ہوا کہ ختم نبوت کے معنی یہ نہیں کہ اب انسان کو وحی کے ذریعے سے پہنچنے والی الٰہی اور تبلیغی تعلیم کی ضرورت نہیں رہی اور چونکہ انسان کو اس فطری بلوغ کی وجہ سے ان تعلیمات کی ضرورت نہیں رہی اس لئے نبوت کا سلسلہ بھی ختم کر دیا گیا۔ نہیں ہرگز نہیں بلکہ جدید وحی اور جدید نبی و رسول کی ضرورت نہیں نہ کہ الٰہی دین اور اس کی تعلیمات کی ضرورت ختم ہو گئی ہے۔

مشہور و عظیم اسلامی مفکر علامہ اقبال اسلامی مسائل میں اپنی تمام تر نکتہ چینیوں اور دقت نظر (جن سے ہم نے اس کتاب اور دوسری کتابوں میں بہت زیادہ استفادہ کیا ہے) کے باوجود فلسفہ ختم نبوت کی توجیہ و تفسیر میں سخت اشتباہ سے دوچار ہوئے ہیں۔ موصوف نے اس بحث کی بنیاد چند اصولوں پر رکھی ہے:

۱۔ وحی:

 

اس کے لغوی معنی ”آہستہ اور رازدارانہ انداز میں بات کرنا“ ہیں۔ اس لفظ کا قرآن مجید میں وسیع مفہوم ہے جو مرموز اور خفیہ ہدایتوں کی بہت سی قسموں پر محیط ہے اور جو جماد نباتات اور حیوان کی ہدایت سے لے کر انسان تک کی ہدایت کے لئے استعمال ہوا ہے۔ اس کے بارے میں علامہ اقبال کہتے ہیں: اصول وجود کے ساتھ یہ اتصال کسی طرح بھی صرف انسان کے لئے مخصوص نہیں ہے۔ قرآن میں لفظ وحی کا طریقہ استعمال یہ بتاتا ہے کہ یہ کتاب اس ”وحی“ کو زندگی کی ایک خاصیت جانتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اس کی شکل اور خاصیت زندگی کے ارتقاء کے مرحلوں کے مطابق مختلف ہوتی ہے وہ گھاس جو کسی جگہ پر اگتی ہے اور آزادی کے ساتھ نشوونما پاتی ہے وہ جانور جو زندگی کے نئے ماحول سے ہم آہنگ ہونے کے لئے ایک نئے عضو کا حامل ہوتا ہے اور وہ انسان جو زندگی کی اندرونی گہرائیوں میں ایک نئی روشنی کر لیتا ہے۔ یہ سب کے سب وحی کے مختلف حالات کے نمائندے ہیں جو وحی کو قبول کرنے والی ظرفیت و صلاحیت کی ضرورتوں کے مطابق یا ان نوعی ضرورتوں کے مطابق جن سے وہ ظرف تعلق رکھتا ہے مختلف و گوناگوں شکلوں میں نمایاں ہوتی ہے۔

(احیاء فکر دینی در اسلام ص ۱۴۴ ۱۴۵)

۲۔ وحی جبلی قوت جیسی ایک چیز ہے اور وحی کی ہدایت جبلی ہدایت جیسی چیز ہے۔

۳۔ وحی طبیعت انسان کی ہدایت کا نام ہے یعنی انسانی معاشرہ اس اعتبار سے کہ وہ ایک وحدت ہے اور مخصوص راستہ اور حرکت کے قوانین رکھتا ہے اس لئے اس بات کا محتاج ہے کہ اس کی ہدایت کی جائے نبی وہ وصول کرنے والا آلہ (Receiver) ہے جو جبلی طور پر ان پیغامات کو جن کی احتیاج نوع بشر کو ہے حاصل کر لیتا ہے۔ علامہ اقبال کہتے ہیں:

”حیات جہانی ایک نور کی صورت میں اپنی حاجتوں کو دیکھتی ہے اور ایک بحری لحظے میں اپنی سمت کو معین کر لیتی ہے۔ یہ وہی چیز ہے جسے ہم دین کی زبان میں پیغمبر تک وحی کا پہنچنا“ کہتے ہیں۔“

(احیاء فکر دینی در اسلام ص ۱۶۸) 

۴۔ تمام جاندار اپنے وجود کی ابتدائی منزلوں میں (جبلی قوت کے ذریعے ہدایت پاتے ہیں اور جیسے جیسے ترقی و تکامل کے درجوں میں بلند ہوتے جاتے ہیں اور احساس تخیل اور سوچنے کی قوت ان کے اندر زیادہ ہوتی جاتی ہے ویسے ویسے ان کی جبلی قوت ان کی جانشین ہوتی جاتی ہے۔ اسی وجہ سے حشرات سب سے زیادہ اور سب سے قوی جبلتیں رکھتے ہیں اور انسان سب سے کمتر جبلی قوتوں کے حامل ہوتے ہیں۔

۵۔ انسانی معاشرہ اجتماعی لحاظ سے ایک ترقی پذیر معاشرہ ہے اور راہ کمال پر گامزن ہے اور جس طرح ابتدائی مراحل میں حیوانات جبلی شعور کے محتاج ہوتے ہیں اور جوں جوں احساس و تخیل اور کبھی فکر کی قوت ان کے اندر بڑھتی جاتی ہے اسی طرح فکری اور حسی ہدایتیں جبلی شعور کی جانشین ہوتی جاتی ہیں۔ انسانی معاشرہ بھی اپنے تکاملی سفر میں اس منزل پر پہنچ گیا جہاں تعقل اور سوچنے سمجھنے کی قوت کی رشد و پختگی اس کے اندر پائی گئی اور یہی امر جبلی شعور و قوت (وحی) کے ضعف اور کم تری کا سبب بن گیا ہے۔ علامہ موصوف کہتے ہیں: ”بشریت کے دور طفلی میں روحانی طاقت ایک چیز کو ظاہر کرتی ہے جس کو میں ”پیغمبرانہ خود آگاہی“ کا نام دیتا ہوں تیار شدہ احکام بزرگوں کے فیصلوں اور تجربے سے حاصل شدہ منتخبات کی پیروی سے انسان اپنی انفرادی فکر اور راہ زندگی کے انتخاب میں تضیع اوقات سے بچتا ہے لیکن عقل کے کامل ہونے اور اس میں تنقیدی قوت کے پیدا ہو جانے کے بعد زندگی اپنے فائدے کے لئے اس قسم کی خود آگاہی کو نشوونما دینے کے لئے پہلے مرحلے کی روحانی طاقت (وحی) کو روک دیتی ہے۔ انسان پہلے خواہشات اور جبلی قوت کا محکوم و مطیع ہوتا ہے۔ استدلال کرنے والی عقل و جو ماحول پر اس کے مسلط ہونے کا واحد سبب ہے بجائے خود ایک ترقی و پیش رفت ہے اور چونکہ عقل وجود میں آئی تو چاہئے کہ معرفت کی دوسری شکلوں (جبلی شعور اور رہنمائی) کو روک کر اسے تقویت پہنچائیں۔

(احیاء فکر دینی در اسلام ص ۱۴۵)

۶۔ دنیائے بشریت دو بنیادی ادوار پر مشتمل ہے: ایک وحی کی رہنمائی کا زمانہ دوسرا عالم طبیعت اور تاریخ میں عقل و فکری رہنمائی کا زمانہ اگرچہ قدیم دنیا میں فلسفے کے چند مکتب (جیسے یونان اور روم) موجود تھے لیکن ان کی کوئی خاص اہمیت نہیں تھی اور انسانیت ابھی دور طفلیت سے گزر رہی تھی علامہ اقبال کہتے ہیں:

”اس میں کوئی شک نہیں کہ قدیم دنیا جس میں انسان موجودہ حالت کے مقابلے میں ابتدائی دور کی زندگی رکھتا تھا اور کم و بیش و ہم و تخیل کا تابع تھا اگرچہ اس نے چند فلسفی مکتب قائم کر لئے تھے لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ قدیم دنیا میں فلسفی نظریات کا قائم کرنا محض فکر و نظر کا کام تھا کیوں کہ اس وقت تک انسان مبہم دینی عقائد اور رائج سنتوں اور طریقوں سے آگے نہ بڑھ سکا تھا اور زندگی کے عینی اور حقیقی حالات کے بارے میں کوئی قابل اعتماد نظریہ ہمارے لئے مہیا نہیں کر سکا تھا۔“(احیاء فکر دینی در اسلام ص ۱۴۵)

۷۔ پیغمبر اکرم جن پر نبوت کا خاتمہ ہوا کا تعلق دنیائے قدیم سے بھی تھا اور دنیائے جدید سے بھی۔ اپنے سرچشمہ ہدایت یعنی وحی (نہ کہ طبیعت و تاریخ کے تجرباتی مطالعے) کے لحاظ سے قدیم دنیا سے تعلق رکھتے تھے اور اپنی روحانی تعلیمات کے اعتبار سے یعنی طبیعت و تاریخ کے مطالعے عقل و فکر کی دعوت کے لحاظ سے جس کے پیدا ہونے کے بعد وحی کا کام تمام ہو جاتا ہے جدید دنیا سے تعلق رکھتے تھے۔ علامہ موصوف کہتے ہیں:

”پس جب مسئلہ وحی پر اس نقطہ نگاہ سے غور کیا جائے تو کہنا چاہئے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ رسول اکرم قدیم اور جدید دنیا کے درمیان کھڑے ہیں جہاں تک آنحضرت کا رابطہ الہامی سرچشمے سے ہے تو اس لحاظ سے آپ کا تعلق قدیم دنیا سے ہے اور جہاں تک آپ کی روح ہدایت کا تعلق ہے تو اس لحاظ سے آپ جدید دنیا سے متعلق ہیں- زندگی نے آپ کے اندر معرفت کے نئے سرچشمے آشکار کئے۔(طبیعت اور تاریخ کے مطالعے کے ذریعے معرفت) جو آج کی جدید روش زندگی سے مطابقت رکھتے ہیں۔ اسلام اور عقل کا ظہور ایک استقرائی دلیل ہے۔ ظہور اسلام کے ساتھ خود رسالت کے ختم ہو جانے کی ضرورت آشکار ہو جانے کے نتیجے میں رسالت بھی اپنے حد کمال کو پہنچ جاتی ہے اور یہ چیز خود اس امر کا بین ثبوت ہے کہ زندگی ہمیشہ مرحلہ طفلی اور خارج سے رہبری کی سطح پر نہیں رہ سکتی۔ اسلام میں غیب گوئی اور میراثی حکومت کو غلط اور باطل قرار دینا عقل کی طرف مستقل توجہ اور قرآن سے تجربہ حاصل کرنا اور اس کتاب میں عالم طبیعت اور تاریخ کو انسانی معرفت کے سرچشمے کے عنوان سے جو اہمیت دی گئی ہے یہ سب دور رسالت کے خاتمے کی مختلف علامتیں ہیں۔“

یہ ہیں علامہ اقبال کی نظر میں فلسفہ نبوت کے ارکان و اصول ہمیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ فلسفہ قابل اعتراض ہے اور اس کے بہت سے اصول غیر صحیح ہیں۔ پہلا اعتراض جو اس فلسفے پر وارد ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اگر اس فلسفے کو درست مان لیا جائے تو نہ صرف یہ کہ مزید کسی وحی اور نبی کی ضرورت نہیں رہتی بلکہ وحی کی رہنمائی کی بھی قطعاً ضرورت نہیں رہتی کیوں کہ تجرباتی عقل کی ہدایت وحی کی ہدایت کی جگہ لے چکی ہے۔ اگرچہ یہ فلسفہ صحیح ہو تو پھر یہ فلسفہ دین کے خاتمے کا فلسفہ ہے نہ کہ ختم نبوت کا۔ (اس فلسفے کی رو سے وحی اسلام کا کام صرف یہ اعلان کرنا ہے کہ دین کے دور کا خاتمہ اور عقل و علم کے دور کا آغاز ہو گیا ہے۔ یہ نظریہ نہ صرف اسلام کے ایک ضروری امر کے خلاف ہے بلکہ خود اقبال کے نظریے کا مخالف ہے کیوں کہ اقبال کی تمام تر کوششیں اس امر پر صرف ہوئی ہیں کہ علم و عقل انسانی معاشرے کے لئے لازم ہیں لیکن کافی نہیں ہیں۔ انسان دین اور مذہبی ایمان کا اتنا ہی نیازمند ہے جتنا سائنس کا۔

علامہ اقبال خود صراحتاً کہتے ہیں کہ زندگی ثابت اصولوں اور بدلتے رہنے والے فرد کی محتاج ہے اور اسلام میں اجتہاد کا کام اصول پر فروع کا منطبق کرنا ہے۔

موصوف کہتے ہیں:

”اس نئی تہذیب و ثقافت (اسلامی ثقافت) نے عالمی وحدت کی بنیاد اصول توحید پر رکھی ہے۔ اسلام نظام حکومت کے عنوان سے اس امر کے لئے ایک عملی ذریعہ ہے بلکہ اصول توحید کو نوع بشر کی عقلی اور باہمی زندگی میں ایک زندہ عامل و سبب قرار دیتا ہے۔ اسلام خدا کے ساتھ وفادار رہنے کا مطالبہ کرتا ہے نہ کہ عالم اور استبدادی حکومت کے ساتھ وفادار رہنے کا۔ چونکہ خدا ہی پر زندگی کی آخری روحانی بنیاد ہے لہٰذا خدا سے وفاداری عملاً خود آدمی کی مثالی طبیعت(یعنی خواہش آرزو اور مطلوبہ کمال کی جستجو کی طبیعت) سے وفاداری ہے۔ وہ معاشرہ جو حقیقت کے ایسے تصور پر قائم ہوا ہو اسے چاہئے کہ اپنی زندگی میں ”ابدیت“ اور ”تغیر“ دونوں مقولوں کے درمیان آپس میں ہم آہنگی پیدا کرے۔ اسی طرح اپنی اجتماعی زندگی کو منظم کرنے کے واسطے اپنے لئے ابدی اصول رکھتا ہو کیوں کہ جو چیز بھی ابدی اور دائمی ہے وہ اس دائمی تغیر پذیر دنیا میں ہمارے واسطے مستحکم بنیادیں مہیا کرتی ہے لیکن جب ابدی اصولوں کے معنی یہ سمجھے جائیں کہ وہ ہر تغیر و تبدل کے مخالف ہیں یعنی اس چیز سے معارض ہیں جسے قرآن خدا کی ایک عظیم ترین نشانی قرار دیتا ہے تو اس وقت وہ اس کا سبب بنیں گے کہ جو چیز ذاتاً متحرک ہے اسے حرکت سے روک دیں سیاسی و اجتماعی علوم میں یورپ کی شکست پہلے اصول(یعنی ہر قسم کے ابدی اصول کی نفی اور زندگی کے بنیادی اصول کی ابدیت سے انکار) کو مجسم کر دیتی ہے اور ان آخری پانچ سو (۵۰۰) برسوں میں اسلام کی بے حرکتی دوسرے اصول(اصول حرکت و تغیر سے انکار اور ابدیت پر اعتقاد) اسلام میں حرکت کا اصول کیا ہے؟ یہ وہی اصول ہے جسے اصول اجتہاد کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے۔“

(احیائے فکر دینی در اسلام ص ۱۶۸ ۱۲۹) 

مذکورہ بالا بیان کے مطابق وحی کی رہنمائی کی ضرورت ہمیشہ باقی ہے اور تجرباتی عقل کی رہنمائی وحی کی رہنمائی کا بدل نہیں ہو سکتی۔ خود اقبال بھی ہدایت و رہنمائی کی دائمی احتیاج کی بقاء کے سو فی صد حامی ہیں لیکن انہوں نے ختم نبوت کے لئے جو فلسفہ بیان کیا ہے اس کا لازمہ یہ ہے کہ جدید وحی اور جدید رسالت کی احتیاج ہی نہیں بلکہ ہدایت کی بھی احتیاج ختم ہو جائے اور درحقیقت اس فلسفے کی رو سے نہ صرف نبوت کا سلسلہ ختم ہوتا ہے بلکہ دین بھی ختم ہو جاتا ہے۔

ختم نبوت کے بارے میں اقبال کی اشتباہ آمیز توجیہ اس امر کا سبب بنی ہے کہ ان کی بحث و گفتگو سے یہ غلط نتیجہ نکالا جائے اور یہ خیال کیا جائے کہ ختم نبوت کا دور یعنی وحی سے انسان کی بے نیازی کا دور آن پہنچا ہے اور انسان کے لئے پیغمبروں کی تعلیم و تربیت کی ضرورت بچے کے لئے کلاس کے استاد کی مانند ہے۔ جس طرح بچہ ہر سال اوپر والی کلاس میں جاتا ہے تو اس کا استاد بھی تبدیل ہوتا رہتا ہے اسی طرح انسان بھی مختلف زمانوں سے ہوتا ہوا ایک بالاتر مرحلے میں قدم رکھ چکا ہے اور اس کے لئے قانون و شریعت تبدیل ہو چکی ہے جس طرح بچہ آخری کلاس میں پہنچتا ہے اور اپنی تعلیم مکمل کرنے کا سرٹیفکیٹ لیتا ہے اور اس کے بعد اپنے ٹیچر اور استاد کی مدد کے بغیر اپنی تحقیقات کو جاری رکھتا ہے اسی طرح انسان نے بھی ختم نبوت کے اعلان کے ساتھ ہی اپنی تعلیم مکمل کرنے کا سر۱ٹیفکیٹ لے لیا اور جدید تعلیم کے حصول سے بے نیاز ہو گیا۔ بغیر کسی مدد کے بذات خود طبیعت و تاریخ کا مطالعہ شروع کر دیا اور اجتہاد کا مطلب بھی یہی ہے۔ پس ختم نبوت سے مراد انسان کا خود کفائی تک پہنچنا ہے بلاشک ختم نبوت کے سلسلے میں اس قسم کی تفسیر غلط ہے۔ ختم نبوت کی اس قسم کی تفاسیر ایسے نتائج کی حامل ہیں جو نہ تو اقبال کے لئے قابل قبول ہیں اور نہ ہی ان کے لئے جنہوں نے اقبال کی تحریر سے اس قسم کے نتائج اخذ کئے ہیں۔

ثانیاً اگر اقبال کا نظریہ درست ہو تو عقل تجربی کے پیدا ہونے کے بعد جس کو اقبال ”درونی تجربے“ کا نام دیتا ہے (اولیاء اللہ کے مکاشفات) کا بھی خاتمہ ہو جائے کیوں کہ فرض یہ ہے کہ یہ امور ایک قسم کے فطری شعور کی وجہ سے وجود میں آتے ہیں اور عقل تجربی کے ساتھ فطری شعور کا مرحلہ ختم ہوتا ہے حالانکہ خود اقبال کی تصریح کے مطابق باطنی تجربہ ہمیشہ کے لئے باقی ہے اور اسلام کی نظر میں باطنی و اندرونی تجربہ معرفت کے تین سرچشموں میں سے ایک ہے۔(بقیہ دو سرچشمے طبیعت اور تاریخ ہیں)

اقبال ۱شخصی طور پر شدید عرفانی میلان رکھتے ہیں اور معنوی الہامات کے زبردست حامی ہیں وہ کہتے ہیں:

”یہ فکر اس معنی میں نہیں ہے کہ ”باطنی تجربے“ کی کہ جو کیفیت کے لحاظ سے پیغمبرانہ تجربے سے مختلف نہیں ہے حیاتی واقعیت کا جو سلسلہ تھا وہ منقطع ہو گیا۔ قرآن ”انفس“ یعنی خود اور ”آفاق“ یعنی جہان (دنیا) کو علم و معرفت کا سرچشمہ سمجھتا ہے۔ خداوند عالم اپنی نشانیوں کو اندرونی تجربے میں بھی ظاہر کرتا ہے اور بیرونی تجربے میں بھی اور آدمی کا فرض یہ ہے کہ تجربے کی تمام علامتوں کی معرفت کو عدالت کے حضور میں فیصلہ کے لئے رکھے۔ خاتمیت کو اس معنی میں نہیں لینا چاہئے کہ زندگی کی آخری اور حتمی سرنوشت عواطف کی جگہ پر عقل کا کامل جانشین ہو جانا ہے ایسی چیز نہ تو ممکن ہے اور نہ وہ مطلوب ہے۔ اس فکر و نظر کی عاقلانہ قدر و قیمت اس امر میں ہے کہ یہ باطنی تجربے کے مقابلے میں ایک مستقل پرکھنے والی طاقت پیدا کرتی ہے اور یہ امر اس عقیدے سے حاصل ہوتا ہے کہ اشخاص کے مافوق الطبیعت سے اتصال کے دعوے کا اعتبار انسانی تاریخ میں ختم ہو چکا ہے___ اس بناء پر اب باطنی اور عارفانہ تجربے پر چاہے وہ جتنا بھی غیر معمولی اور غیر معروف ہو ایک مکمل طبیعی اور قدرتی تجربے کے زاویے سے نگاہ ڈالی جائے اور انسانی تجربے کی دوسری نشانیوں کی مانند اس کو تنقیدی نظر سے بحث و نظر کا موضوع قرار دیا جائے۔“(احیاء فکر دینی در اسلام ص ۱۴۶ ۱۴۷)

اقبال کا اپنی گفتگو کے آخری حصے میں مقصود یہ ہے کہ نبوت کے ختم ہو جانے کے ساتھ الہامات اور اولیاء اللہ کے مکاشفات و کرامات ختم نہیں ہو گئے ہیں۔ البتہ ان کا گذشتہ اعتبار ختم ہو گیا ہے۔ ماضی میں جب کہ ابھی تجربی عقل پیدا نہیں ہوئی تھی تو معجزہ و کرامت ایک مکمل طبیعی اور قابل قبول اور شک و شبہ سے خالی و عاری سند ہوا کرتی تھی لیکن پختہ فکر اور عقلی کمال کے حامل انسان کے واسطے (دور خاتمیت کے انسان کے لئے) یہ امور اب کوئی حجت اور سندیت نہیں رکھتے لہٰذا ہر واقعے کی طرح انہیں بھی عقلانی تجربے کی کسوٹی پر پرکھنا چاہئے۔

خاتمیت سے قبل کا زمانہ معجزہ و کرامات کا زمانہ تھا یعنی معجزہ و کرامات عقل کو اپنے زیراثر رکھتے تھے لیکن خاتمیت کا زمانہ عقل کا زمانہ ہے۔ عقل کرامت کے مشاہدے کو کسی چیز کی دلیل نہیں مانتی مگر یہ کہ وہ اپنے معیاروں کے ساتھ الہام کے ذریعے کسی کشف شدہ حقیقت کی صحت و اعتبار کو ظاہر کرے اقبال کی گفتگو کا یہ حضہ بھی دور خاتمیت سے پہلے کے لحاظ سے بھی اور دور خاتمیت کے بعد کے لحاظ سے بھی صحیح نہیں ہے ہم بعد میں معجزے اور خاتمیت کے عنوان سے اس پر روشنی ڈالیں گے۔

ثالثاً یہ کہ علامہ اقبال وحی کو فطری قوت کی ایک قسم سمجھتے ہیں جو غلط ہے اور یہی نظریہ ان کے دیگر اشتباہات کا موجب بنا ہے فطری قوت یا فطری شعور جس طرح کہ اقبال خود اس طرف متوجہ ہیں ایک سو فیصد طبیعی (غیر اکتسابی) ناآگہانہ اور حس و عقل کے مقابلہ میں بہت پست اور معمولی ہے جس کو قانون خلقت نے حیوان (حشرات یا ان سے بھی نچلے درجے کے حیوانات) کے وجود کے ابتدائی مرحلوں میں بھی ودیعت کیا ہے جو بالاتر درجے (حس و عقل) کی ہدایتوں کی رشد و نمو کے ساتھ کمزور پڑ جاتا ہے اور ختم ہو جاتا ہے لہٰذا انسان جو فکری اعتبار سے حیوانات میں سب سے زیادہ بے نیاز ہے فطری شعور کے اعتبار سے حیوانات میں سب سے زیادہ کمزور ہے لیکن اس کے برعکس وحی حس و عقل کی رہنمائی سے بالاتر اور کسی حد تک اکتسابی ہے اور وحی کی آگاہی اور علم بدرجہ اولی حس و عقل کی آگاہی اور بصیرت سے بالاتر ہے اور وہ معلومات جو وحی کے ذریعے سے کشف و آشکار ہوتی ہیں عقل تجربی کی معلومات سے بے حد وسیع اور بہت ہی عمیق ہیں۔ ہم (مکتب اور آئیڈیالوجی کے حصے میں) یہ ثابت کر چکے ہیں کہ انسان کی تمام انفرادی و اجتماعی صلاحیتوں اجتماعی رابطوں کی پیچیدگیوں اور ارتقائی رفتار کی انتہا معین نہ ہونے کے باوجود ہمیں یہ اعتراف کر لینا چاہئے کہ جس چیز کو اجتماعی مفکروں اور فلسفیوں نے آئیڈیالوجی کے نام سے پیش کیا ہے وہ گمراہی اور انسان کی شکست کے سوا کچھ نہیں۔ آئیڈیالوجی کے لحاظ سے انسان کے لئے ایک راستے سے زیادہ نہیں ہے اور وہ وحی سے حاصل شدہ آئیڈیالوجی ہے اور اگر وحی کی آئیڈیالوجی کو قبول نہ کریں تو ہمیں قبول کر لینا چاہئے کہ انسان کے پاس کوئی آئیڈیالوجی نہیں ہے۔

آج کل کے مفکرین یہ یقین رکھتے ہیں کہ بشر کے آئندہ سفر کی راہ معین کرنا انسانی آئیڈیالوجی کی شکل میں صرف منزل بہ منزل کی شکل میں ممکن ہے یعنی صرف یہی صورت ممکن ہے کہ ہر منزل پر بعد والی منزل کی راہ معین کی جائے لیکن جہاں تک اس چیز کا تعلق ہے کہ اس منزل کے بعد والی منزلیں کہاں ہیں اور سب سے آخری منزل کیا اور کہاں ہو گی؟ کچھ نہیں معلوم۔ ایسے اجتماعی نظریوں کا نتیجہ اور انجام بھی معلوم ہے۔

اے کاش علامہ اقبال جو عرفا کے آثار کا کم و بیش مطالعہ کر چکے ہیں اور مولانا روم کی مثنوی سے انہیں خاص طور پر انس ہے ان کتابوں کا ذرا غور سے مطالعہ کرتے تو ختم نبوت کے لئے بہتر سرمایہ تحقیق حاصل کر سکتے۔ عرفا اس نکتے تک پہنچ گئے ہیں کہ نبوت کا سلسلہ اس حیثیت سے ختم ہوا کہ انسان کے تمام انفرادی و اجتماعی مراحل و منازل اور وہ راستہ جس پر انسان کو چلنا چاہئے سب ایک جگہ آشکار ہیں اور اب اس کے بعد انسان آئیڈیالوجی کے لحاظ سے جو چیز بھی کشف کرے گا وہ ان مراحل اور راستوں سے زیادہ نہیں ہو گا جو آشکار ہو چکے ہیں اور وہ انہی کی پیروی کرنے پر مجبور ہے۔

الخاتم من ختم المراتب باسرھا

خاتم وہ شخص ہوتا ہے جس نے تمام مراتب و درجات کو طے کر لیا ہو اور کسی مرحلے اور منزل کو طے کرنا باقی نہ چھوڑا ہو یہ ہے ختم نبوت کا معیار نہ کہ معاشرے کی عقل تجربی کی پختگی علامہ اقبال اگر ان مردان خدا کے آثار پر غور و فکر کرتے جن کے وہ عقیدت مند ہیں تو انہیں معلوم ہو جاتا کہ وحی فطری شعور نہیں ہے بلکہ وہ ایک روح اور حیات ہے جو عقلانی روح و حیات سے بالاتر و بلند تر ہے۔

مولانا روم کہتے ہیں:

غیر فہم جان کہ در گاو و خراست

آدمی را عقل و جانی دیگر است

”انسان کی عقل اور روح گائے اور گدھے میں موجود فہم اور روح سے مختلف ہے۔“

 

باز غیر عقل و جان آدمی

ھست جانی در نبی و در ولی

”پھر انسان کی عقل و روح سے مختلف وہ روح ہے جو نبی اور ولی کو عطا ہوتی ہے۔“

جسم ظاہر روح مخفی آمدہ است

جسم ہم چون آستین جان ہم چون دست

”جسم ظاہر ہوتا ہے اور روح مخفی ہوتی ہے جسم آستین کی طرح ظاہر ہوتا ہے اور روح (آستین کے اندر چھپے ہوئے) ہاتھ کی طرح مخفی ہوتی ہے۔“

باز عقل از روح مخفی تربوز

حس بسوی روح زودتر رہ برد

”پھر عقل ہے جو روح سے بھی زیادہ مخفی ہوتی ہے اور حس (عقل کی بہ نسبت) روح کا ادراک جلدی کر لیتی ہے۔

 

روح وحی از عقل پنہان تر بود

زانکہ او غیب است و او زان سر بود

”پھر وحی کی روح عقل سے بھی زیادہ پوشیدہ ہوتی ہے اس لئے کہ وہ غیبی چیز ہے اور عقل تو انسان کے سر میں ہوتی ہے۔“

عقل احمد از کسی پنہان نشد

روح و حیش مدرک ہر جان نشد

”احمد مجتبیٰ کی عقل کسی سے پوشیدہ اور مخفی نہیں تھی لیکن آنحضرت کی وحی کی روح کو ہر شخص نہیں سمجھ سکا۔“

روح وحی را مناسبھا است نیز

درنیابد عقل کان آمد عزیز

”وحی کی روح کے لئے کچھ مناسبات اور بھی ہیں لیکن عقل اس کا ادراک نہیں کر سکتی۔“

لوح محفوظ است و را پیشوا

ازچہ محفوظ است؟ محفوظ از خطا

”لوح محفوظ کے ذریعے اس وحی کی رہنمائی ہوتی ہے لوح محفوظ کس چیز سے محفوظ ہے وہ خطا سے محفوظ ہے۔“

نی نجوم است ونہ رمل است نہ خواب

وحی حق واللہ اعلم بالصواب

”وحی نہ تو علم نجوم سے متعلق ہے نہ علم رمل ہے اور نہ خواب ہے پس وہ حق تعالیٰ کی وحی ہے اور (اس کے بارے میں) اللہ ہی صحیح علم رکھتا ہے۔“

چوتھا اعتراض یہ ہے کہ علامہ اقبال اپنے مذکورہ فلسفے میں اسی طرح اشتباہ سے دوچار ہوئے ہیں جس طرح سے مغربی دنیا ہوئی ہے یعنی سائنس کو ایمان کا جانشین بنانا۔ بلاشک علامہ اقبال سائنس کی جانشینی کے نظریے کے سخت مخالف ہیں لیکن فلسفہ ختم نبوت میں انہوں نے جو راستہ اپنایا ہے وہ اسی نتیجہ تک پہنچتا ہے اقبال وحی کی تعریف فطری قسم کی چیز سے کرتے ہیں اور اس امر کے مدعی ہیں کہ کارخانہ عقل و فکر کے کام شروع کر دینے کے بعد جبلت اور فطری شعور کا فریضہ انجام کو پہنچ جاتا ہے اور خود جبلت خاموش ہو جاتی ہے یہ بات صحیح تھی مگر اس صورت میں جب کہ عقل و فکر اسی کام کو شروع کرتی جس کو طبیعت و جبلت انجام دیتی تھی لیکن اگر ہم یہ فرض کریں کہ جبلت کا فریضہ کچھ اور ہے اور عقل و فکر کا کچھ اور تو پھر اس کی کوئی دلیل نہیں کہ عقل و فکر کے مشغول کار ہو جانے کے ساتھ ہی جبلت اور فطری شعور کا کام ختم ہو جائے۔

پس اگر بالفرض ہم وحی کو ایک قسم کی جبلت اور فطری شعور سمجھیں اور یہ مان لیں کہ اس کا کام ایک قسم کا تصور کائنات اور اجتماعی مسلک کا پیش کرنا ہے جس کا امکان عقل و فکر کے ہاں نہیں ہے تو پھر بھی اس امر کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ بقول (خود اقبال ) عقل برہان استقرائی کی پختگی کے ساتھ ہی جبلت کا کام ختم ہو جاتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ علامہ اقبال شہرت و بلندی علمی کمال اور اسلام کا درد رکھنے کے باوجود اس لحاظ سے کہ ان کی تہذیب ایک مغربی تہذیب ہے اور اسلامی تہذیب ان کی ثانوی تہذیب ہے یعنی انہوں نے اپنی تمام تعلیم مغربی مضامین میں حاصل کی ہے اور اسلامی تہذیب میں خاص کر فتنہ و عرفان اور بس تھوڑا بہت فلسفہ کا مطالعہ ہے لہٰذا بعض جگہ زبردست اشتباہ کا شکار ہوئے ہیں۔ ہم نے ”اصول فلسفہ و روش ریالزم“ کے مقدمہ میں اقبال کی اس کمزوری کی طرف اشارہ کیا ہے۔

اسی وجہ سے سید جمال الدین اسد آبادی سے ان کا موازنہ کرنا صحیح نہیں ہے ایک تو سید جمال الدین اپنے ذاتی فضل و کمال کے لحاظ سے بھی ایک قدآور اور مضبوط شخصیت ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی اصلی تعلیم اسلامی تھی اور مغربی تعلیم اور ثقافت ثانوی حیثیت رکھتی تھی اس کے علاوہ مرحوم سید جمال الدین نے اسلامی ملکوں کے دورے کئے تھے اور بہت ہی قریب سے ان ملکوں کے سیاسی و اجتماعی حالات کا مطالعہ کیا تھا لیکن اقبال کو یہ سب خصوصیات حاصل نہ تھیں اسی وجہ سے سید جمال الدین اقبال کی طرح بعض اسلامی ممالک (مثلاً ایران اور ترکی) کے واقعات کے سلسلے میں کسی صورت میں بھی اشتباہ کا شکار نہیں ہوئے۔   

تبصرے
Loading...