مومن کے لیے چھ چیزوں کا اقرار ضروری ہے

۱- ستم گاروں اور طاغوتوں سے برأت کرے۔

۲- اہل بیت  کی ولایت کا اقرار کرے۔

۳- رجعت پر ایمان لائے۔

۴- متعہ کو حلال سمجھے۔

۵- ملی مچھلی اور سانپ مچھلی کو حرام سمجھے۔

۶- موزوں پر مسخ کرنے سے پرہیزکرے۔

مومن کی سخت مزاجی کی وجہ

مسعدہ بن صدقہ کا بیان ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ مومن تیزو تند کیوں ہوتا ہے؟

آپ  نے فرمایا: اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے دل میں قرآن کی عزت اور خالص ایمان ہوتا ہے اور وہ اللہ کی عبادت بجا لاتا ہے۔ مومن اللہ کا اطاعت گزار اور اس کے پیغمبر کا تصدیق کنندہ ہوتا ہے۔

آپ سے پوچھا گیا کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ مومن بعض اوقات انتہائی بخیل ہوتا ہے؟

آپ  نے فرمایا: اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ حلال ذرائع سے رزق حاصل کرتا ہے اور طلب حلال بڑی دشوار ہوتی ہے اس لیے وہ جس رزق کوبڑی مشکل سے حاصل کر چکا ہوتا ہے وہ اس سے جدا ہونا پسند نہیں کرتا۔ اور اگر کبھی وہ سخاوت کرتا ہے تو اسے جائز مقام پر ہی خرچ کرتا ہے۔

آپ سے پوچھا گیا کہ مومن کی علامات کیا ہیں؟

آپ نے فرمایا: مومن کی چار علامتیں ہیں:

۱- اس کی نیند اس شخص کی نیند جیسی ہوتی ہے جو ڈوب رہا ہو۔

۲- اس کی غذا کسی بیمار کی طرح سے ہوتی ہے۔

۳- اور وہ پسر مردہ ماں کی طرح سے گریہ کرتا ہے۔

۴- اس کا بیٹھنا کسی ہراساں فرد کی طرح سے ہوتا ہے۔

آپ  سے پوچھا گیا کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ مومن کبھی نکاح کا دوسروں کی بہ نسبت زیادہ دلدادہ ہوتا ہے؟

آپ  نے فرمایا: اس کی وجہ یہ ہے کہ مومن اپنی شرم گاہ کو حرام شرم گاہوں سے محفوظ رکھنے کا خواہش مند ہوتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ جنسی خواہش اسے کہیں ادھر ادھر نہ کرتی پھرے۔ اور جب وہ حلال حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو وہ اس پر اکتفا کرتا ہے اور حرام سے بے نیاز ہوجاتا ہے۔

آپ  نے فرمایا: مومن میں تین صفات ایسی جمع ہوتی ہیں جو کسی غیر مومن میں جمع نہیں ہوتیں:

۱- وہ خدا کی معرفت رکھتا ہے۔

۲- وہ خدا کے محبوب افراد کی معرفت رکھتا ہے۔

۳- جن لوگوں سے خدا کونفرت ہے وہ انہیں بھی پہچانتا ہے۔

آپ  نے فرمایا: مومن کی قوت اس کے دل میں ہوتی ہے کیا تم نہیں دیکھتے کہ مومن تمہیں کمزور جسم والا اور ضعیف البدن دکھائی دیتا ہے مگر اس کے باوجود وہ رات کو عبادت کے لیے کھڑا ہوتا ہے اور دن کے وقت روزہ رکھتا ہے۔

آپ  نے فرمایا: مومن دین میں سخت پہاڑ سے بھی زیادہ مضبوط ہوتا ہے کیونکہ حوادث کے نتیجہ میں پہاڑ کی اونچائی کم ہو سکتی ہے لیکن مومن کے دین میں کچھ بھی کمی نہیں ہوتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مومن اپنے دین کے متعلق انتہائی بخیل ہوتا ہے یعنی دن کو اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔

مومن کون‘ مہاجر کون اور مسلم کون ہے؟

مسعدہ بن صدقہ نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے اور آپ کے اپنے آبائے طاہرین کی سند سے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کیا۔ آپ  نے فرمایا:

کیا میں تمہیں یہ خبر نہ دوں کہ مومن کو مومن کیوں کہا گیا ہے؟ اسے اس لیے مومن کا لقب دیا گیا کہ لوگ اسے اپنی جان و مال کا امین سمجھتے ہیں۔

کیا میں تمہیں یہ نہ بتاؤں کہ مسلم کون ہے؟

مسلم وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے لوگ سلامتی حاصل کریں۔

کیا میں تمہیں یہ نہ بتاؤں کہ مہاجر کون ہے؟

مہاجر وہ ہے جو برائیوں اور اللہ کی حرام کردہ اشیاء کو چھوڑ دے۔

علامتِ مومن

انہی اسناد سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے آپ نے فرمایا:

جس شخص کو برائی ناگوار لگے اور بھلائی اسے خوش کر دے تو وہ مومن ہے۔

مومن کے لیے ناپسندیدہ بات

حبیب واسطی کا بیان ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

مومن کے لیے یہ بات انتہائی ناپسندیدہ ہے کہ وہ کسی ایسے فعل کی طرف شوق رکھتا ہو جو اس کی ذلت کا موجب ہو۔

برص سے حفاظت

حبیب واسطی کا بیان ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

برص (پھلبہری) لعنت کی شبیہہ ہے اسی لیے یہ بیماری ہم اور ہماری اولاداور ہمارے شیعوں میں نہیں ہوتی۔

ہورزم گاہ حق و باطل تو فولاد ہے مومن

حسین بن عمرو راوی ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

مومن لوہے کے ٹکڑوں سے بھی زیادہ سخت ہوتا ہے۔ کیونکہ جب لوہے کو آگ میں ڈالا جائے تو اس کی رنگت بدل جاتی ہے جب کہ مومن اتنا مضبوط ہوتا ہے کہ اگر اسے قتل کیا جائے پھر اٹھایا جائے اور پھر قتل کیا جائے تو بھی اس کا دل متغیر نہیں ہوتا۔

مومن بن کر آتے ہیں بنائے نہیں جاتے

مفضل راوی ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

اللہ تعالیٰ نے مومنین کو ایک ہی اصل سے پیدا کیا ہے۔ باہر سے نہ تو کوئی ان میں داخل ہو سکتا ہے اور نہ ہی کوئی ان کے گروہ سے نکل سکتا ہے۔ ان کی مثال جسم میں سر اور ہتھیلی میں انگلیوں جیسی ہے۔ تم جس کو اس کی مخالفت کرتے ہوئے دیکھو تو اس کے متعلق گواہی دو کہ وہ حتماً منافق ہے۔

موسمِ سرما اورمومن

محمد بن سلیمان دیلمی کا بیان ہے کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کو یہ کہتے ہوئے سنا۔ آپ  نے فرمایا:

موسم سرما مومن کے لیے بہار ہے اس کی راتیں لمبی ہوتی ہیں اور مومن شب زندہ داری کے لیے اس سے مدد حاصل کرتا ہے۔

مومن دل کا اندھا نہیں ہوتا

معاویہ بن عمار کا بیان ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

اللہ تعالیٰ نے دنیاوی آزمائشوں سے مومن کو محفوظ نہیں رکھا البتہ اسے آخرت کے اندھے پن اور اسے شقاوت جو کہ آخرت کا اندھا پن ہے‘ سے نجات دی ہے۔

مومن محروم نہیں ہوتا

سعید بن غزوان کا بیان ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: مومن (خیر سے) محروم نہیں کرتا۔

ایمان کی تین علامتیں

صالح بن ہیثم کا بیان ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

جس میں تین صفات موجود ہوں تو اس نے صفات ایمان کی تکمیل کرلی۔ جو کوئی اپنے اوپر ہونے والے ظلم وستم پر صبر کرے اور اپنا غصہ پی جائے اور اپنے دونوں اعمال کا بدلہ خدا سے طلب کرے تو وہ ان لوگوں میں شامل ہوگا جنہیں اللہ جنت میں داخل کرے گا اور انہیں قبیلہ ربیعہ و حضر کے افراد کے برابر حقِ شفاعت عطا فرمائے گا۔

مومن کو فراوانی بھی مصیبت نظرتی ہے

زید کا بیان ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

تم اس وقت تک مومن نہیں بن سکتے جب تک لوگوں کی نظر میں قابلِ اعتماد حیثیت کا درجہ اختیار نہیں کر لیتے اور تم مومن تو اس وقت ہو گے جب تم فراخی اور فراوانی کو اپنے لیے مصیبت سمجھو گے۔ کیونکہ آزمائش پر صبر کرنا وسعت و فراخی کی عافیت سے کہیں بہتر ہے۔

صفاتِ مومن

ایک شخص نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے عرض کیا کہ آپ میرے لیے مومن کی اوصاف بیان فرمائیں۔

آپ  نے فرمایا:

مومن دین میں قوی ہوتا ہے۔ دور اندیش اور نرم خو ہوتا ہے اور وہ باایمان اور صاحب یقین ہوتا ہے۔ فہم دین کے لیے حریص ہوتا ہے اور ہدایت پاکر خوشی محسوس کرتا ہے اور نیکی کے کاموں میں ثابت قدم ہوتا ہے اور وہ صاحب علم و حلم ہوتا ہے اور وہ نرم خو‘ شکرگزار ہوتا ہے۔ راہِ حق میں سخی ہوتا ہے اور ثروت مندی اور دولت مندی کی حالت میں اعتدال کو برقرار رکھتا ہے اور حالت فقروغربت میں ظاہرداری کو بحال رکھتا ہے اور قوت و طاقت رکھنے کی حالت میں معافی دینے والا ہوتا ہے اور خیرخواہی کی اطاعت کرتا ہے اور خواہش و میلان کے باوجود حرام سے پرہیز کرتا ہے اور مخالفت نفس میں حریص ہوتا ہے اور عین کام کے درمیان نماز ادا کرتا ہے اور شدائد میں بردبار اور حوادث میں باوقار ہوتا ہے اور سختیوں میں صابر‘ راحت میں شاکر ہوتا ہے۔

وہ غیبت نہیں کرتا اور تکبر اور قطع رحمی نہیں کرتا۔ وہ کمزورارادہ اور بداخلاق اور تندمزاج نہیں ہوتا۔ طغیانیاں اس سے سبقت نہیں کرتیں اور اس کا شم اسے رسوا نہیں کرتا اور وہ شرمگاہ کے تقاضوں سے مغلوب نہیں ہوتا۔ اور وہ لوگوں سے حسد نہیں کرتا۔ وہ کنجوسی نہیں کرتا اور فضول خرچی اور اسراف سے کام نہیں لیتا۔ وہ مظلوم کی مدد کرتا ہے اور مساکین پر رحم کرتا ہے۔ وہ اپنے نفس کو رنج اور سختی میں رکھتا ہے مگر لوگ اس سے آسائش حاصل کرتے ہیں وہ دنیا سے بے رغبتی اختیار کرتا ہے اور اہلِ دنیا کے خطرات سے خوفزدہ نہیں ہوتا اور جب بھی لوگوں کو پریشانی ہوتی ہے تو وہ اس کی طرف رجوع کرتے ہیں جب کہ وہ ہمیشہ فکر آخرت کے غم میں مشغول رہتا ہے۔

اس کی بردباری میں کوئی کمی دکھائی نہیں دیتی اور اس کی رائے میں سستی نہیں ہوتی اور اس کے دین میں بربادی نظر نہیں آتی۔ جو اس سے مشورہ کرتا ہے وہ اس کی صحیح رہنمائی کرتا ہے اور جو اس کی مدد کرتا ہے وہ اس سے تعاون کرتا ہے اور وہ باطل‘ غلط گفتگو اور جہل و نادانی سے پرہیز کرتا ہے۔ یہ مومن کے اوصاف ہیں۔

مومن خدا کے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتا

ابوالعلاء راوی ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

مومن وہ ہے جس سے ہر چیز ڈرے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ مومن دین خدا میں صاحبِ عزت ہوتا ہے۔ مومن کسی چیز سے نہیں ڈرتا اور یہ ہر مومن کی علامت ہے۔

اللہ ہر چیز کے دل میں مومن کا رعب پیدا کر دیتا ہے

صفوان جمال راوی ہیں کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کو یہ کہتے ہوئے سنا‘ آپ  نے فرمایا:

مومن کے لیے ہر چیز فرمانبردار اور اطاعت گزار ہوتی ہے۔

پھر آپ  نے فرمایا: جب اس کا دل خدا کے لیے بااخلاص ہوتا ہے تو اللہ ہر چیز کے دل میں اس کا رعب و دبدبہ ڈال دیتا ہے یہاں تک کہ زمین کے جانور‘ درندے اور آسمانی پرندے تک بھی اس سے مرعوب ہوتے ہیں۔

اہلِ آسمان نور مومن کا مشاہدہ کرتے ہیں

عمار ساباطی کہتے ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا گیا: کیا آسمان والے زمین والوں کو دیکھتے ہیں؟

آپ  نے فرمایا:

وہ صرف مومنین کو دیکھتے ہیں کیونکہ طینت مومن کا تعلق ستاروں کی طرح نور سے ہے۔

پوچھا گیا کہ کیا وہ اہلِ زمین کو دیکھتے ہیں؟

آپ  نے فرمایا: نہیں وہ ان کے اجسام کو نہیں دیکھ پاتے‘ البتہ وہ اس کے نور کا مشاہدہ کرتے رہتے ہیں۔

پھر آپ  نے فرمایا:

قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ہر مومن کو شفاعت کرنے کے لیے پانچ گھنٹوں کا وقت دے گا۔

مومن کے لیے خدائی امداد

زیاد قندی کہتے ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

اللہ کی طرف سے مومن کی مدد کے لیے یہی بات کافی ہے کہ وہ اپنے دشمن کو خدا کی نافرمانی میں مصروف دیکھتا ہے۔

حسد‘ بخل اور بزدلی ایمان کی متضاد صفات ہیں

حارثی کہتے ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: جس شخص میں بخل‘ حسد اور بزدلی ہو تو وہ مومن نہیں ہے۔ اور مومن بزدل‘ بخیل اور حریص نہیں ہوتا۔

مومن اپنے خلاف بھی سچی گواہی دیتا ہے

ایک جماعت نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی۔ آپ  نے فرمایا: ایک مومن اپنی ذات کے خلاف دوسرے ستر مومنین سے بھی زیادہ سچا ہوتا ہے۔

خدا کی سنت‘ نبی کی سنت اور ولی کی سنت

امام علی رضا علیہ السلام کے غلام حارث بن دلھاث کا بیان ہے کہ امام علی رضا علیہ السلام نے فرمایا:

ایمان کا دعویدار شخص اس وقت تک حقیقی مومن نہیں بن سکتا جب تک اس میں تین خصلتیں نہ پائی جائیں۔ اس میں ایک رب کی سنت ہونی چاہیے اور ایک نبی کی سنت ہونی چاہیے اور ایک اس کے ولی یعنی امام کی سنت ہونی چاہیے۔ اللہ کی سنت راز کا چھپانا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ”وہ عالم الغیب ہے اور اپنے غیب پر کسی کو بھی مطلع نہیں کرتاہے مگر جس رسول کو پسند کرلے اور نبی کی سنت لوگوں سے مدارات سے پیش آنا ہے کیونکہ اللہ نے اپنے نبی کو لوگوں سے مدارات کے ساتھ پیش آنے کا حکم دیاہے اور فرمایا ہے:

”آپ عفو و درگزر اپنائیں اور بھلائی کا حکم دیں اور جاہلوں سے منہ پھیر لیں“۔

امام کی روش جنگ کے ایام اور فقرو تنگدستی میں صبر کرنا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے:

وہ جنگ اور فقر کی سختیوں میں صبر کرنے والے ہیں۔

فرشتے اعمال لکھتے ہیں

عبداللہ بن امام موسیٰ کاظم راوی ہیں کہ میں نے اپنے والد سے پوچھا جب کوئی انسان نیکی یا برائی کا ارادہ کرتا ہے تو کیا اس پر مامور فرشتوں کو پتہ چل جاتا ہے؟

آپ  نے فرمایا: کیا تیرے نزدیک خوشبو اوربدبو دونوں یکساں ہیں؟

میں نے عرض کیا: نہیں۔

پھر آپ  نے فرمایا: جب کوئی شخص نیکی کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس سے خوشبو دار سانس برآمد ہوتی ہے۔ دائیں ہاتھ والا فرشتہ بائیں ہاتھ والے سے کہتا ہے: رک جاؤ۔ اس نے نیکی کرنے کا ارادہ کیا ہے اور جب کوئی شخص نیکی کر لیتا ہے تو فرشتے کی زبان قلم بن جاتی ہے اور اس کا لعابِ دہن سیاہی بن جاتا ہے اور وہ اسے اس کے نامہ اعمال میں لکھ دیتا ہے۔

اور جب کوئی برائی کا ارادہ کرتا ہے تو اس سے بدبو برآمد ہوتی ہے۔ بائیں ہاتھ والا فرشتہ دائیں ہاتھ والے فرشتے سے کہتا ہے: رک جاؤ۔ اس نے برائی کا ارادہ کر لیا ہے اور جب وہ برائی کر لیتا ہے تو فرشتے کی زبان قلم اور اس کا لعابِ دہن سیاہی بن جاتا ہے اور وہ اس کے عمل کو لکھ دیتا ہے۔

تبصرے
Loading...