مغرب اور اسلامی بیداری

 

عالم اسلام اور مغرب میں تعلقات کی ابتداء ، آغاز اسلام سے ہی ہوئی ، سورہٴ روم کی ابتدائی آیتوں کو دیکھتے ہوئے پتہ چلتا ہے کہ مسلمین اس زمانے کے ارتباطی ذرائع کی سست رفتاری کے باوجود پوری توجہ کے ساتھ دنیا کے حوادث پر نظر رکھتے تھے ۔ اس طرف مشرکین بھی ہر چیز پر کڑی نظر رکھے ہوئے تھے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ روم پر ایرانیوں کا غلبہ کوئی معمولی مسئلہ نہیں تھا کہ صرف ان کی خوشی اور غم کو بیان کر کے گزر جا یا جائے ۔ کسی کی کامیابی کفر یا ایمان کی کامیابی کے مترادف تھی

muslim population in west

اس کارزار کی وسعت جغرافیائی حدود سے کہیں زیادہ تھی ، اسی وجہ سے بعض روایتوں میں اس معرکہ کو فیصلہ کن بتا یا گیا ہے ، اس کے ساتھ ساتھ وحی الٰہی کی سچائی بھی آشکار ہوگئی جس کی پیشین گوئی کے مطابق رومی — جو اہل کتاب ہونے کی بناء پر گروہ موٴمنین میں شمار ہوتے تھے — مشرک ایرانیوں سے مغلوب ہونے کے بعد کچھ سالوں میں ان پر غالب آجائیں گے اور پروردگار عالم کی منشاء سے ایسا ہی ہوا لیکن نہ رومیوں کو اور نہ ایرانیوں کو ، کسی کو اطلاع نہ تھی کہ صحرائے عرب کی کوکھ سے کس مولود نے جنم لیا اور پروان چڑھ رہا ہے جو ساری دنیا کو گمراہی اور تباہی سے نجات دلانے آیا ہے ، ہاں ! اس کے بارے میں پہلے سے کچھ سنا تو تھا لیکن کبھی اس پر سنجیدگی سے نہیں سوچا تھا ، یہاں تک کہ صحرا کے اس نو مولود کے بلوغ اور رشد کی خبریں ان کے کانوں سے ٹکرانے لگیں اور پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله وسلم) کے خطوط ان کو ملنے لگے جو انھیں اسلام لانے اور خداوند عالم کے سامنے تسلیم ہونے کی دعوت دے رہے تھے ۔

شاہ ایران خسرو انو شیروان کے نام آنحضرت (صلی الله علیه و آله وسلم) کے خط میں آیا ہے ” تجھے خدائے واحد کی طرف دعوت دیتا ہوں میں تمام لوگوں پر اس کی طرف سے بھیجا ہوا رسول ہوں تا کہ لوگوں کو عذاب الٰہی سے ڈراوٴں اور کافروں پر اتمام حجت کردوں ۔ اسلام لے آوٴ تا کہ امان پاوٴ ، اگر نافرمانی کی تو آتش پرستوں کی لعنتیں تم پر پڑیں “ ۔اس خط کے اور بھی مضمون موجود ہیں ۔

دوسرے بھی خطوط انوشیروان کے عاملوں کے نام بھیجے گئے ۔

قیصر روم کے نام خط میں آیا ہے : ” تجھے اسلام کی طرف دعوت دیتا ہوں ، اسلام لے آ ، امان پالے ۔ خداوند عالم تجھے دوگنا اجر دے گا ، اور اگر نافرمانی کی تو ” ارسیوں “ کے گناہ تیرے سر آئیں گے ۔ اے اہل کتاب !آوٴ اس بات پر جو ہمارے اور تمھارے درمیان مشترک ہیں ، ایک ساتھ ہو جائیں کہ سوائے خدائے واحد کے کسی کی پرستش نہ کریں اور کسی کو اس کا شریک قرار نہ دیں اور ہم میں سے کوئی کسی کو خداوند عالم کے علاوہ اپنی خدائی میں نہ لے اور اگر یہ منظور نہیں تو جان لو ہم مسلمان ہیں ۔

دنیا کی بڑی طاقت ، اس نئی طاقت کے مقابلہ میں شکست کھا گئی ، ابتداء میں اسلام اتنی تیزی سے اور اتنی وسعت میں پھیلا کہ دونوں بڑی طاقتیں حیرت زدہ رہ گئیں یعنی ایک طرف ایرانی شہنشاہیت کا زوال ہوگیا تو دوسری طرف روم بھی یورپ کے اندرونی حصہ تک پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوگیا شام ، مصر اور مرکش کو ہزار سال حکومت کے بعد جو اسکندر مقدونی کے ہاتھوں فتح ہوا تھا ، آخر کار چھوڑنا پڑا ۔ اس پیشرفت نے بہت سے بڑے بڑے مورخوں کو حیرت زدہ کر دیا جن میں ” ثوراستروب “ ، ” گوستاولوبون “ ، ” توین بی “ ، ”تھامس آرنالڈ “ کے اسامی قابل ذکر ہیں ۔

حالانکہ ایرانیوں اور رومیوں نے نہایت بربریت کے ساتھ مقابلہ کیا ۶ لیکن اسلام نے مسلمان عربوں میں ایسا انقلاب پیدا کردیا تھا کہ اب ان کا مقابلہ ناممکن تھا ، ہر میدان میں اسلام کی فتح ہوتی رہی اور اسلام کا اثر مغرب میں گہرا ہوتا گیا ۔ ہر چند یورپیوں نے اس تاثیر کے انکار میں بڑی کوششیں کی ہیں اور روم کی حدود پر اسلام کے غلبہ کو نہیں بلکہ جرمن اقوام کے غلبہ کو یورپ کی تاریخ کا اہم موڑ قرار دیا ہے ۔

استاد انور الجندی کہتے ہیں :

جرمن اقوام کے حملہ اور روم کی حدود پر ان کی فتح کے بعد بھی روم کی حکومت باقی اور رومی تہذیب جاری تھی صرف اتنا ہی فرق پڑا کہ شہر روم کی مرکزیت ختم ہوکے بیزانس میں منتقل ہوگئی اور جنگیں صرف چند مادی مسائل تک محدود تھیں لیکن اسلام کی طوفانی ہواوٴں نے اور سرزمین روم میں مسلمان مجاہدوں کے معرکوں نے وہاں کے ہر آثار اور تمام نشانیوں کو مٹا ڈالا ، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خس و خاشاک کو ہوائیں ادھر ادھر بکھیر رہی ہوں ، ایک نئی حکومت قائم ہوئی ، نئی تہذیب نے جنم لیا جس نے یورپ کو ہر طرف سے گھیر لیا تھا ۔ اگر اسلام کا ظہور نہ ہوتا تو روم کی حکومت اسی طرح باقی ہوتی اور یورپ کو نئے انداز میں نکھارنے والے یہ انقلابات پھر سر نہ اٹھاتے ! بعض مغربی مورخین ”پواتیہ “ کی جنگ کو جس میں کمانڈر شارل مارتل نے ۷۳۲ء ( ۱۱۴ ئہجری ) میں مسلمانوں کے بڑھتے ہوئے قدم کو روک دیا تھا ، بڑے فخر سے یاد کرتے ہیں اور اسے یورپ کی کامیابی قرار دیتے ہیں لیکن بہت سے مورخین جیسے ” کلود فایر “ اسے قرون وسطیٰ کے بد ترین المیہ سے تعبیر کرتے ہیں جس کی وجہ سے یورپ آٹھ صدی پیچھے چلا گیا ۔

اس درمیان صلیبی جنگیں دو صدی تک ( ۱۲۹۵ سے ۱۰۹۹ تک ) جاری رہیں اور اپنے ساتھ ہر خشک و تر جلاتی رہیں حالانکہ یورپ کو ان جنگوں سے بڑے فائدے بھی پہنچے ہیں اور انقلاب رسانس کے آغاز کا سبب بھی یہی ہے ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ آج کے مغربی قلم کاروں اور مصنفین میں بھی بہت سے ایسے ہیں جو اسلام کو پندرہویں صدی کے انقلاب رنیسانس کے بیرونی اسباب میں سے قرار دیتے ہیں اور ساتھ ساتھ مدعی ہیں کہ آج مغرب کو پندرہویں صدی ہجری کے اسلامی بیداری کے بیرونی اسباب میں سے قرار دینا چاہئے ۔

جس زمانے میں مغرب قرون وسطیٰ کے تاریک دور ( پانچویں صدی سے پندرہویں صدی تک ) سے گزر رہا تھا ، مشرق کی سرزمین اسلام کے نور سے روشن تھی ، مشرق اور یہاں تک کہ یورپ کی بھی اندلس جیسی سرزمینوں میں نور اسلام متجلی تھا۔

۱۰۹۹ء میں کلیسا کے اشاروں پر صلیبی جنگیں شروع ہوگئیں اور ایسے ایسے المیہ واقع ہوئے کہ بشریت کی جبینیں شرم سے جھک گئیں جس سے ان کی اسلام دشمنی اور نفرت و کینہ کی شدت کے ساتھ اصل میں اسلامی تہذیب اور مکتب فکر کے شدید خوف و اضطراب کا بھی پتہ چلتا ہے ۔ اس بناء پر محترمہ شیرین ہنٹر کا بیان کہ ۱۳۵۹ ء عیسوی میں ترکوں کے ہاتھوں گالیپولی کی شکست کے بعد مغرب میں یہ خوف بیٹھ گیا ، سراسر نا درست ہے اور حقیقت یہ ہے کہ یہ خوف و اضطراب صلیبی جنگوں سے پہلے بھی پایا جاتا تھا ۔

۹۵ ۔ ۹۲ء ہجری ( ۷۱۴ ۔ ۷۱۱ عیسوی ) میں سرزمین اندلس میں اسلام کے آنے سے اسلام کا سورج نہ صرف اندلس میں بلکہ سارے یورپ میں چمکنے لگا جو کہ آٹھ صدیوں تک جاری رہا ( یعنی ۱۴۹۲ ءء میں غرناطہ کی شکست اور انقلاب رسانس کی ابتداء تک ) اس دور میں حالانکہ عالم اسلام سے اندلس جدا ہوگیا لیکن اسی دور میں افریقہ کی دو عظیم حکومتیں ” مالی “ اور ” کادا “ عالم اسلام کا حصہ بن گئیں اور اس طرح حکومتیں عالم اسلام اور مغرب کے درمیان رد و بدل ہوتی رہیں ۔ استاد سمیر سلیمان کے بیان کے مطابق مغرب کی دوسری یلغار ۷۹۲ ۱ ء میں اسکندریہ پر نیپولین کے حملے سے شروع ہوئی ۱۰ اور پھر پے در پے بہت سی یلغاریں واقع ہوئیں جس میں اہم یہ ہیں :

۱۸۰۰ ء میں انڈونیشیا پر ہالنڈیوں کا قبضہ ۔

۱۸۲۰ء میں الجزائر پر فرانسیسیوں کا قبضہ ۔

انیسویں صدی کی آخر میں قفقاز اور ترکستان پر روس کا قبضہ ۔

۱۸۷۵ ء میں ہندوستان پر برطانیہ کا قبضہ ۔

۱۸۶۹ ء میںسوئز کینل کا افتتاح ۔

۱۸۸۲ء میں مصر پر برطانیہ کا قبضہ ۔

۱۸۹۲ء میں سوڈان پر برطانیہ کا قبضہ ۔

۱۹۱۷ء میں بیت المقدس میں متحدہ افواج کا پڑاوٴ اور عثمانی حکومت کے زوال کا آغاز ۔

۱۹۲۴ء میں عثمانی حکومت کا خاتمہ ۔

۱۹۴۸ ء میں اسرائیلی حکومت کی بنیاد ۔

ہر طرف سے اور وسیع پیمانے پر ان چڑھائیوں نے عالم اسلام کو شکست اور مایوسی کا شکار بنا دیا لیکن کچھ عرصہ بعد قوت کے ساتھ رد عمل کا سلسلہ شروع ہو گیا جس میں سے خاص خاص یہ ہیں:

۱۹۳۰ء میں الجزائر میں انقلاب کا آغاز ہوا ۔

۱۸۳۹ء ۔ ۱۸۹۷ء میں سید جمال الدین ، محمد عبدہ اور الکواکبی کی سر براہی میں اصلاحی تحریکیں شروع ہوئیں ۔

۱۸۳۱ء میں لیبیا میں سنوسیوں کی تحریک کا آغاز ہوا ۔

۱۸۵۷ ء میں ہندوستان میں مسلمانوں کی تحریک آزادی کا آغاز ہوا ۔

۱۸۸۲ ء میں مصر میں انقلاب غرابی کا آغاز ہوا ۔

۱۸۹۵ء میں ایران میں آئینی انقلاب ۔

۱۸۸۹ ء میں سوڈان میں انقلاب ۔

۱۹۱۹ء میں مصر میں انقلاب ۔

۱۹۲۰ء میں عراق میں انقلاب ۔ ” العشرین “

۱۹۲۴ ء میں شام اور سوڈان میں مختلف انقلاب نیز خطابیہ اور بستیوں کے انقلابات ۔

۱۹۳۰ء میں لیبیا میں عمر مختار کا انقلاب ۔

مشرقی ہندوستان میں اسلامی انقلاب ، ترکستان اور قفقاز میں شیخ شامل کا انقلاب ، نیز عمانیوں اور سواحیلیوں کا انقلاب․․․ ۔

بیسویں صدی کے آغاز سے ایران میں حملہ آوروں اور ان کے اہل کاروں کے خلاف مختلف تحریکوں کا سلسلہ شروع ہو گیا جیسے جنوب میں تحریک تنگستانی اور شمال میں تحریک جنگل ۔

۱۹۳۵ء میں فلسطین میں بھی انقلاب کا آغاز ہوگیا ۔

ان تحریکوں کی باوجود جو اہداف و مقاصد اور طریقہٴ کار کے لحاظ سے بہت مختلف تھیں ۱۹۲۴ ء میں کچھ حوادث کے بناء پر جسے عظیم المیہ کہنا چاہیے ، عثمانی حکومت کا خاتمہ کرکے ، مغرب کو موقع مل گیا کہ دنیا سے اسلام کے سیاسی وجود کو مٹادے ۔

اسی کے ساتھ ساتھ مغرب کی ثقافتی یلغار بھی تیز ہوگئی اور اسلام پر صلیبیوں کی طرف سے نئے حملے ہونے لگے اور آج بھی یہ معاندانہ سلسلہ جاری ہے اور ممکن ہے بہت سی سازشیں ابھی پوشیدہ ہوں ۔

۱۹۰۸ء میں لارڈ کرومر کی کتاب نے بہت سی سازشوں کا پردہ فاش کردیا ۔ اس میں صاف لکھا ہے : اسلام مرچکا ہے یا موت کے دہانے پر ہے جسے اصلاحی تحریکوں کے ذریعہ زندہ نہیں کیا جا سکتا ، کیونکہ موت اس کی ذات اور جوہر میں یعنی عورت کی پسماندگی اور اسلامی شریعت کی فرسودگی میں پوشیدہ ہے لہٰذا عالم اسلام کو ترقی یافتہ معاشروں کے ساتھ ساتھ چلنے کے لئے مدرنیزم اسلام کو قبول کرنا ہوگا ۔ محترمہ شیرین ہانتر کے بقول یہ نظریہ جدید ماہرین مشرقیات کا نظریہ ہے ان کا دعوی ہے کہ خود دین اسلام ایسا ہے کہ ماڈرنزم قبول نہیں کرسکتا نتیجہ میں مغرب کا ساتھ نہیں دے سکتا وہ مسلمانوں کو ثقافتی بنیاد پرست قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں : مسلمان لوگ ایک خاص طریقے سے سوچتے اور عمل کرتے ہیں ، اس بناء پر مغرب ، اسلام کا مقابلہ صرف ایک ہی طریقہ سے کرسکتا ہے اور وہ اسلام کو اندر سے کھوکھلا کرکے نیست و نابود کردینا ہے ۔ اسی لئے وہ مغربی حکومتوں کو صلاح و مشورہ دیتے ہیں کہ ان طاقتوں کی حمایت کریں جو اسلام اور مسلمین سے نبرد آزما ہیں تا کہ اسلام کا شیرازہ بکھر جائے یا مسلمان بالکل تسلیم ہوجائیں ۔

عالم اسلام میں فکری ہزیمت کا آغازمحمد عبدہ کے ان صلح پسندانہ اظہار خیالات سے ہوا جو انھوں نے لارڈ کروم کے جواب میں دیئے ۔ ان کے بیانات کو ان کے سکیولریزم ( لا مذہبی ) حلقہ منجملہ لطفی السید ، سعد زغلو ، طہ حسین اور اسماعیل مظہر نے بہت سراہا اور نتیجہ میں دھیرے دھیرے کروم کے نظریہ سے نزدیک ہوگئے ۔

عالم اسلام کے دیگر گوشو ں میں بھی اس نظریہ کے حامی افراد پائے جاتے تھے جنھوں نے اس نظریہ کو پیش کیا ،اس کے بعد بیسویں صدی کے درمیانی حصہ میں نیشنلیزم اور مارکسیزم بھی عالم اسلام میں سرگرم ہو گیا اور ان نظریات کو مزید بڑھنے کا موقع مل گیا ۔

اسلامی بیداری کے سلسلہ میں مغربیوں کے یہ معاندانہ اور توزانہ نظریوں کے علاوہ مغرب میں کچھ دوسرے بھی نظریات پائے جاتے ہیں جسے محترمہ شیرین ہانتر (جدید تیسری دنیا )کے نام سے یاد کرتی ہیں ،اس نظریہ کے مطابق جس کی محترمہ ہنٹر بھی تائید کرتی ہیں ،وہ چیز جو عالم اسلام پر حاکم ہے اسلامی اقدار اور مصالح و منافع دونوںہیں ، نتیجہ میں عالم اسلام اور مغربی دنیا کے بہت سے مشترک مصالح و منافع کو ملحوظ رکھا جا سکتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اسلامی اقدار ، غربی ثقافت کے غیر انسانی پہلوؤں جیسے جنسی بے راہ روی دوسری قوموں کا استحصال ، اخلاق سے دوری ، دوسری ثقافتوں کو مٹانے کی کوشش ، استعمار کے نئے نئے طریقے ، متضاد باتوں ، زبان پر کچھ عمل میں کچھ ․․․ اور اس قسم کے دیگر امور کے مخالف ہے ، ورنہ ان پہلوؤں کو چھوڑ کر بہت سے مشترک پہلو بھی ہیں جن کے بارے میں آپس میں گفتگو کی جا سکتی ہے اس کے علاوہ منافع و مصالح کے سلسلہ میں اسلامی اقدار نہ صرف مخالف نہیں ہے بلکہ انسانی عظیم منافع کے تحقق اور اسے صحیح مفہوم بخشنے میں معاون بھی ہے ۔

بہر حال مغرب ہمیشہ مختلف حربوں سے ، فوجی حملے ، ثقافتی یلغار ، اپنے اہل کاروں یا مغربی چمک دھمک کے فریفتہ لوگوں کے ذریعہ عالم اسلام میں اپنے رسوخ کو جما کر اس کوشش میں رہا ہے کہ امت اسلامیہ کو مرعوب اور مقہور بنا دے مغربی استعمار ، حکومت عثمانیہ پر کاری ضرب لگانے کے بعد اسی کوشش میں لگ گیا کہ قدرت اسلام کا مقابلہ کرکے خود اسلام پر ضرب لگائے جب مغربی استعمار عالم اسلام کے تمام خطوں پر براہ راست حاکمیت حاصل کرنے سے عاجز ہوگیا تو اسلامی ممالک کو ظاہری آزادی دے کر مغرب نواز حکومتوں کو وہاں مسلط کرکے مہار اپنے ہاتھوں میں لے لی ، اس مقصد کو پورا کرنے کے لئے عالم اسلام میں نیشنلیزم اور قومی ، لسانی افکار کی ترویج سے اسے ٹکڑوں میں بانٹ کے چھوٹی چھوٹی حکومتیں بنا ئی گئیں حالانکہ یہ حکومتیں استعماری مقاصد کی تکمیل کے لئے بنائی گئیں لیکن کچھ ہی عرصہ بعد ثابت ہو گیا کہ اس سے بھی مغرب کے مقاصد پورے نہیں ہوتے کیوں کہ دوسری جنگ عظیم کے کچھ ہی عرصہ بعد اسلامی عالمی فکر اور اسلامی عالمی تنظیمیں تیزی سے پھیلنے لگیں، خاص کر مسجد اقصی کے جلائے جانے سے عالم اسلام میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی اور ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی جس نے مغرب کی کٹھپتلی حکومت کا تختہ پلٹ دیا اور افغان مجاہدین کی روس جیسی بڑی طاقت پر کامیابی اور آخر کار دنیا کی سب سے بڑی الحادی طاقت( سویت یونین) کا خاتمہ اور اس کے ہاتھوں اسیر اسلامی قوموں کی رہائی کے بعد بہت شدت سے عالمی سطح پر اسلام کی آفاقی فکر سامنے آئی اور مغرب کو مجبور کر دیا کہ اپنی سیاستوں میں نظر ثانی کرے۔

عالمی سطح پر اسلامی بیداری نے مغرب کو حیرت میں ڈال دیا ، اس بناء پر مغرب نے اپنے طریقہٴ کار اور اپنے زاویہ نظر سے اس کا تجزیہ و تحلیل کیا تاکہ اس کے مثبت اور منفی نقاط کو پہچان کر اس کا مقابلہ کر سکے ۔”اس بناء پر دیکھنا یہ ہوگا کہ اس اسلامی بیداری کے بنیادی محرکات کیا ہیں اور مغرب دشمنی کے عناصر اس میں کیا ہیں تاکہ درست آشنا ئی کے ساتھ اس سے مقابلہ کے لئے مناسب سیاست کا انتخاب کیا جا سکے “ اس مقالہ میں ہماری کوشش یہی ہے کہ اسلامی بیداری کے سلسلہ میں مغربی سیاست کے کچھ گوشے اجاگر کر سکیں ۔

کتاب ”اسلام اور مغرب کا مستقبل “ایک تجزیہ

خ مصنف : شیرین ہانتر

اس کتاب سے آشنائی کے لئے اس کے مضامین اور موضوعات پر ایک سرسری نگاہ کرتے ہیں :

۱)۔ مصنف اپنی کتاب کو ایک انگریز افسر کے ناول سے شروع کرتی ہیں جس میں اس نے ۱۹۱۶ءء میں نظریہ پیش کیا تھا کہ اگر اسلامی انقلاب کا شعلہ بھڑک گیا تو پہلی عالمی جنگ کا رخ بدل جائے گا ، ناول نگار واضح طور پر کہتا ہے کہ مشرق ایک الٰہی اشارے کے انتظار میں ہے ۔

اس کے بعد محترمہ شیرین ہانتر بیان کرتی ہیں کہ مذکورہ افسر کراوثمر ۔ پچہتر سال بعد امریکہ اور اسلامی بنیاد پرستی کے درمیان جنگ کو ایک خطرہ قرار دیتا ہے ۔

۲)۔ شیرین ہانتر کے کہنے کے مطابق یورپ کو ۱۳۵۹ء میں عثمانی ترکوں کے ہاتھوں ” گالیپولی “ کی شکست کے بعد اسلام سے خطرہ محسوس ہوا اور یہ خطرہ امام خمینی ۺکے ظہور سے اور بڑھ گیا ہے ۔

۳)۔ مصنفہ مغرب میں موجود دین اور سکیولریزم کے تنازعہ کے بارے میں رقم طراز ہیں : تہذیب و ثقافت اور عقائد و افکار میں جدائی ، بے مطلب کی جدائی ہے ۔

۴)۔ ان کا کہنا ہے : عالم اسلام ،خود اسلام کی خصوصیتوں کے باعث مغرب کا ہمیشہ دشمن رہا ہے۔

۵)۔ مصنفہ اس تنازعہ کو مزید بڑھاوا دینے میں تیل کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتی ہیں کہ ہندوستان جیسی بنیاد پرستی جس میں تیل کا کردار شامل نہیں ہے ، مغرب کے لئے اتنا پریشان کن نہیں بن سکتی۔

۶)۔ وہ اس بات پر زور دیتی ہیں کہ ممکن نہیں کہ اسلام نازیسم اور سوشلیزم کی طرح شکست سے دوچارہو سکے۔

۷)۔ وہ فردی اسلام میں جو اچھا ہے اور اجتماعی اسلام میں جو برا ہے ،فرق کے قائل ہیں اور مدعی ہیں کہ تمام خطرہ جہادی اسلام سے ہے ۔

۸)۔ وہ اظہار خیال کرتی ہیں : تمام تر کوششیں اسلامی معاشرہ میں سکولرزیم کی ترویج کرنے (دین کو سیاست سے جدا کرنے ) کے لئے صرف کردینی چاہئیں تاکہ ترقی کی راہ ہموار ہو سکے۔

۹)۔ وہ اس بات پر زور دیتی ہیں کہ ایک درمیانی حل یہی ہے کہ مغرب ، زندگی میں دین کے کردار کو اور عالم اسلام ، سکولرزم ( دین اور سیاست میں جدائی) کو تسلیم کر لے۔

۱۰)۔ پھر کہتی ہیں : اس تنازعہ کی بنیادی وجہ طاقت کا توازن ہے ، مسلمان اپنے آپ کو مغرب کے قبضہ قدرت میں نہیں دیکھ سکتا اور مغرب دوسروں کو اپنے سے بر تر نہیں مان سکتا۔

۱۱)۔ شیرین ہنٹر معاشرہ میں عقائد و افکار کے کردار کو جو ایک طاقت کے طور پر حکومت کے کام آسکتے ہیں،بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں: ہمیشہ بڑی قربانیاں ایک بنیادی عقائد و افکار کے تحت ہوتی ہیں ، اس بناء پر اگر مغربی اقدار اپنے منافع کے حصول میں استعمال نہ ہوں تو کوئی خاص اہمیت کے حامل نہ ہوںگے۔

۱۲)۔ مصنفہ کے مطابق : اسلام کا سیاسی نظام ، قرآن اورسنت میں کوئی خاص واضح نہیں ہے ، وہ دین اور سیاست میں وحدت اور مسیحیت و یہودیت میں امت کے مفہوم کو نشانہ بناتے ہوئے کوشش کرتی ہیں کہ عالم اسلام کی طرف سے سکولرزم ( دین و سیاست میں جدائی ) کو تسلیم کئے جانے کی صورت میں یک گونہ قربت ان میں ایجاد کر سکیں حالانکہ یہ بھی مانتی ہیں کہ الٰہی نظام سکولاریزم کے ساتھ جمع نہیں ہو سکتا اور یہی وجہ ہے کہ اسلام اور مغرب میں جنگ نا گزیر ہے ۔

۱۳)۔ وہ کہتی ہیں کہ اسلام میں بین الاقوامی سطح پر تعلقات و روابط کے لئے کوئی جامع اور عالمی نظریہ نہیں پایا جاتا پھر بھی انھیں شدید تنقید کا نشانہ بناتی ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام کا نقطہٴ نظر سطحی ہے ! وہ وضاحت کرتی ہیں کہ اسلام چوں کہ ساری دنیا پر حکومت کرنا چاہتا ہے ، اس بناء پر توسیع پسند طلب اور دوسروں کا رقیب ہے ، اس بناء پر سیمئل ہنٹگٹن کے نظریہ پر شدید نکتہ چینی کرتی ہیں جو کہتا ہے : مسلمان برا بری اور مفاہمت کی منطق سے نا آشنا ہیں ۔

۱۴)۔ مصنفہ اسی طرح جہاد کے حکم کو نشانہ بناتے ہوئے کہتی ہیں کہ یہ حکم ” لا اکراہ فی الدین “ کے منافی ہے ، اس کے باوجود وہ مانتی ہیں کہ یہ حکم ایک دفاعی اصول میں سے ہے اور پھر مسلمانوں کو مشورہ دیتی ہیں کہ اسلام کے عالمی ہدف ( پوری دنیا پر حکمرانی ) کو فی الحال بھول جائیں ۔

۱۵)۔ وہ اسلام کے سلسلہ میں مغربی نظریہ اور ان کے نظریات پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ جب تک مسلمان ایک عام معاشرہ کے انداز میں رہیں تو مغرب کو بھی چاہئے کہ ان کے ساتھ ویسا ہی برتاؤ رکھے۔

۱۶)۔ وہ پیغمبر اسلام کے دشمنوں سے مقابلہ کی مہارتوں کا ذکر کرنے کے بعدصدر اسلام کے مسلمانوں پر الزام لگاتی ہیں کہ ان کے مقاصد۔ جیسا کہ صلیبی جنگوں میں ہم نے دیکھا خالص دینی نہیں تھے۔

۱۷)۔ وہ اس بات پر زور دیتی ہیں کہ آج مسلمانوں میں تفرقہ اور انتشار کی وجہ سے دار السلام کا مفہوم ،سیاسی ہونے کے بجائے صرف دینی مفہوم میں بدل گیا ہے اسی لئے آج وحدت اسلام کی کسی بھی دعوت کو کوئی سننے والا نہیں ہے۔

۱۸)۔ وہ کہتی ہیں کہ مسلمانوں کے خلاف ِ انسانیت کے اعمال کااسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

۱۹)۔ شیرین ہنٹر، احیائے اسلام کی تحریکوں کو تہذیبوں کے تصادم کی اصل وجہ بتاتے ہوئے کہتی ہیں کہ یہ تحریکیں بھی خود اسلام کی خصوصیتوں کا نتیجہ ہیں ۔

۲۰)۔ وہ دین اور سیاست میں وحدت اور امت اسلامی کی متحدہ حکومت کے تصور کو دو افسانے قرار دیتے ہوئی دعویٰ کرتی ہیںکہ پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله وسلم) کی وفات کے بعد سے امت اسلامی کا وجود ہی نہیں رہا، اس کے باوجود اس بات پر زور دیتی ہیںکہ اس دو تصور نے اسلامی بیداری میں ان دو تصورون یعنی فکری عنصر اور مصلحتی عناصر جیسے اقوام کی تقسیم،اسلامی عناصر کی ہزیمت اور بنیاد پرستوں کی قدرت حاصل کرنے کی مسلسل کوششوں نے دیگر اسباب کی طرح اہم کردار ادا کیاہے۔

۲۱)۔ مصنفہ اپنے فرضیہ کے مطابق نظریہ دیتی ہیں کہ اسلام اور مغرب میں جنگ لازمی نہیں ہے، کیونکہ ان کے کہنے کے مطابق (جدید ماہرین مشرقیات کے دعویٰ کے بر خلاف )یہ تنازعہ صرف مکتب فکر اور اقدار کے عنصر پر منحصر نہیں ہے وہ لوگ اس مدعی کے تحت عالم اسلام کا صفایا چاہتے چنانچہ کرامر جیسے لوگ صدر جمی کارٹر پر شدید نکتہ چینی کرتے ہیں کہ کیوں انھوں نے ایران میں علماء کو پنپنے کا موقع دیا،برلمونز بھی انھیںنکتہ چینوں میں ہے لیکن اس نظریہ کے مقابلہ میں دوسرے گروہ بھی ہیں جنھیں مصنفہ ”جدید تیسری دنیا“ سے تعبیر کرتی ہیں جس میں بورگات جیسے لوگ شامل ہیں ،ان کے کہنے کے مطابق بین الاقوامی روابط کو برقرار رکھنے میںقدریں اور مصلحت دونوں عنصر موٴثر ہیں، نتیجہ میں ایک گونہ مصلحت پسندی سے کام لینے کی دعوت دیتے ہیں،محترمہ شیرین ہنٹر بھی اسی نظریہ کی تائید کرتی ہیں ۔

۲۲)۔ شیرین ہنٹر کے نزدیک اسلامی بیداری کے اسباب یہ ہیں:

اٹھارہویں صدی میں امت کے اتحاد میں دراڑ اور تعادل ومساوات پر استوار روابط کے بجائے فوقیت پسند تعلقات کا حاکم ہوجانا جس کے نتیجہ میں مخالفتوں کا بازار گرم ہوگیا(اسلام طلب تحریکوں کا آغاز چاہے خشک اور شدت پسندانہ صورت میں جیسے سلفیوں کی تحریک کی شکل میں اور چاہے اعتدال پسندانہ صورت میں جیسے اقبال ،سر سید احمد خان اور مرجانی جیسوں کے مکاتب فکر)

۲۳)۔ مصنفہ ،سید جمال الدین اسد آبادی اور محمد عبدہ کے بارے میں تجزیہ کرتے ہوئے کہ یہ لوگ مصلح تھے یا منافق ،جمال الدین اسد آبادی کے سخت جواب کو نشانہ بناکر جو انھوں نے ”رینان“کے اسلام کے خلاف، حملوں کے جواب میں دیاتھا ،دونوں پر سابقہ تہذیب کو خراب کرنے کا الزام لگایا ہے اور زیادہ تر ان کے منفی پہلووٴں کو اجاگر کرتی ہیں، البتہ خود کہتی ہیں کہ اسد آبادی نے اس سلسلہ میں ”تقیہ“ سے کام لیا ہے۔

۲۴)۔ شیرین ہنٹر رقم طراز ہیں:انیسویں صدی کے نصف کے بعد سے سیاسی نقطہ نظر سے رہنماوٴں نے جدیدیت اور ماڈرنزم کی طرف رخ کیا جیسے ایران میں امیر کبیر ،ترکی میں عثمانی ،مصر میں محمد علی پاشا،نیز ۱۹۰۵ء میں ایران کے شرطہ انقلاب اور پھر ترکی میں جدیدیت کے انقلاب ۔وہ کہتی ہیں کہ اس زمانہ میں مسلم اصلاح پسند ایک طرف لا مذہب لوگوں سے تو دوسری طرف بنیاد پرستوں سے مقابلہ کررہے تھے۔

۲۵)۔ ۱۹۲۰ئسے ۱۹۷۰ ئتک لامذہب لوگ مکمل طور پر حاوی رہے اور لامذہبیت مسلمانوں پر تھوپ دی گئی جس کے نتیجہ میں ثقافتی امور میں انتشار اور متحدہ محاذ میں خلفشار پیدا ہوگیا۔وہ کہتی ہیں کہ کبھی قومی محاذ اسلام پسندوں کے ساتھ بائیں محاذ کے خلاف متحد ہوگئے۔ تو کبھی اسلام پسند بائیں محاذ کے ساتھ بنیاد پرستوں کے خلاف متحد ہو گئے اور کبھی مغربی یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ اور عربی مدارس کے طالب علموں میں تنازعہ شدت اختیار کرگیا۔ اس خلفشار اور گہماگہمی میں ماڈرنزم بھی اپنی کوششوں میں ناکام رہا اور ہمیشہ دین اسلام پر پابندی سے عمل ہی راہ حل کے طور پر معتبر مانا گیا۔

۲۶)۔ وہ کہتی ہیں کہ ایران کے اسلامی انقلاب نے عوام میں تحرک پیدا کرنے کے لئے دینی امور کو استعمال کیا لیکن عوام کی خواہشوں کو پورا کرنے میں ناکام رہا،اور یہیں سے وہ ایک اہم حقیقت یعنی دین اور سیاست میں جدائی سے روبرو ہوگیا۔

 

تبصرے
Loading...