مشہد الرضا

خراسان ایران کا ایک اہم اور قدیم صوبہ تھا۔ اس میں پہلے وہ علاقے شامل تھے جو اب شمال مغربی افغانستان میں شامل ہیں۔ یہ صوبہ مشرق میں بدخشاں تک پھیلا ہوا تھا اور اس کی شمالی سرحد دریائے جیحون اور خوارزم تھے۔ نیشابور، مرو، ہرات اور بلخ اس صوبے کے دارالحکومت رہے ہیں۔ اس کا ایک شہر طوس تھا جس کے قریب ایک چھوٹا سا گاؤں مشہد واقع تھا لیکن اب مشہد کی آبادی اتنی بڑھ گئی ہے کہ مشہد اور طوس تقریبا ایک ہی شہر بن گئے ہیں۔ 

مشہد کی تاریخ

سناباد یا نوغان اس گاؤں کا نام ہے جو اب مشہد بن گیا ہے اور یہ مشہد کے ایک محلے کا نام بھی ہے۔ بڑھتے بڑھتے اس میں کئی اور گاؤں بھی شامل ہو گئے۔ عباسی دور میں صوبہ خراسان کے اسی گاؤں میں فرزند رسول حضرت امام رضا علیہ السلام کی شہادت ہوئی۔ اسی شہادت کی مناسبت سے طوس کا یہ علاقہ مشہد کے نام سے مشہور ہوگیا۔ مشہد یعنی شہید کا مدفن اور اسی مناسبت سے اسے مشہد الرضا کہا جاتا ہے۔ 

مشہد مقدس محبان اہل بیت کے لیے ایک نہایت ہی متبرک شہر ہے۔ یہ صدیوں سے زائرین کی توجہ کا مرکز ہے پورا سال یہاں دنیا بھر سے زائرین کی آمد کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ ایک سرکاری اندازے کے مطابق ہر سال دو کروڑ سے زائد زائرین مشہد مقدس آتے ہیں۔ ایران میں طاہریوں ، صفاریوں ، سامانیوں ، سلجوقیوں اور خوارزم شاہیوں کے ادوار میں مشہد کو بہت اہمیت حاصل ہوئی۔ 

خوارزم شاہیوں کے دور میں چنگیز کے حملوں کا آغاز ہوا۔ چنگیز خان اور ہلاکو خان کے حملوں کے بعد خراسان کے شہروں میں بری طرح ویرانی پھیل گئی۔ سنہ 737 ہجری قمری میں ایران کے صوبۂ خراسان میں منگول حکمرانوں کے خلاف سربداران تحریک کامیاب ہوئی اور اسی نام سے ایران میں پہلی بار ایک شیعہ حکومت کی بنیاد رکھی گئی اور یہ تقریبا پچاس سال تک قائم رہی۔ اس عرصے میں مشہد اور سبزوار میں کافی رونق آ گئی۔ آخرکار تیمور گورگانی نے سنہ 788 ہجری قمری میں ان کی حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ تیموریوں کے بعد صفوی سلطنت قائم ہوئی۔ ایران میں اسلامی فتوحات کے بعد جو سب سے بڑی حکومت قائم ہوئی وہ 1501ء سے لےکر 1722ء تک قائم رہنے والی صفوی حکومت تھی۔ اس حکومت کا بانی شاہ اسماعیل صفوی ایک بزرگ شیخ اسحاق صفی الدین (متوفی 1334ء) کی اولاد میں سے تھا۔ چنانچہ اسی بزرگ کی نسبت سے یہ خاندان صفوی کہلایا۔ شاہ اسماعیل نے شیعیت کو ایران کا سرکاری مذہب قرار دیا اور عباس اعظم نے ایران کے وسطی شہر اصفہان کو دارالسلطنت بنایا۔ عباس نے اصفہان کو اتنی ترقی دی کہ لوگ اس کو” اصفہان نصف جہان ” کہنے لگے۔ اس دور میں مشہد بڑی تیزی پھیلنے اور ترقی کرنے لگا۔ 

مشہد میں امام رضا علیہ السلام کے روضے کی تاریخ صدیوں پرانی ہے۔ نوے ایکڑ سے زائد رقبے پر پھیلا ہوا یہ ایک وسیع و عریض کمپلیکس ہے۔ جس کی توسیع اور آرائش کا کام ہر دور حکومت میں ہوتا رہا ہے اور یہ اب بھی جاری ہے۔ 

غربت اور سختی کے سال

امام علیہ السلام کی شہادت اور تدفین کے بعد ابتدائی برسوں میں آپ کی قبر مطہر کے اوپر اس دور کے تعمیراتی سامان سے ایک سادہ سی عمارت بنائی گئی جس کا ایک سادہ سا دروازہ تھا۔ 

اس دور میں حرم مطہر کے اطراف کی زمین غیرآباد تھی اور نوغان جو طوس کا ایک مشہور قصبہ تھا، اس علاقے کی واحد آبادی تھی۔ اس زمانے میں ظالم حکمران محبان اہل بیت اور امام علیہ السلام کے ساتھ انتہائی سختی سے پیش آتے تھے اور انہیں امام کی قبر مطہر کی زیارت کرنے سے بھی روکتے تھے اور ان کی کڑی نگرانی کرتے تھے اس وجہ سے برسوں تک وہاں آپ کے شایان شان مزار تعمیر نہ ہو سکا۔ آخرکار آہستہ آہستہ سختیوں کے یہ سال گزر گئے اور اہل بیت علیہم السلام سے محبت کرنے والے حکمرانوں اور لوگوں نے اپنی اپنی حیثیت کے مطابق امام علیہ السلام کے حرم مطہر کی عمارت کو بنانے کے لیے کوششیں کی۔ اس عمارت میں استعمال ہونے والی ہر اینٹ اور ٹائل اس سرزمین کے باسیوں کی اپنے آقا و مولا سے عشق و محبت کی عکاسی کرتی ہے۔ حرم میں موجود کتبے سامانی دور سے لے کر قاجاری دور تک کو ظاہر کرتے ہیں۔ 

تاریخی روایت کے مطابق نوح بن منصور سامانی کے ایک عہدیدار بوبکر شہمرد نے امام علی بن موسی الرضا کی شہادت گاہ کو آباد کیا۔ ابن بابویہ کے بقول سامانی دور کے امراء محمد بن عبدالرزاق طوسی اور امیر محمدیہ نے اپنے دور حکومت میں امام علیہ السلام کے مزار اقدس پر خاص توجہ دی اور حرم میں تزئین و آرائش کا کام کرایا۔ 

چوتھی ہجری قمری کے اوائل میں عضدالدولہ دیلمی کے حکم سے امام علیہ السلام کے مزار کی اس زمانے کے اسلوب کے مطابق تعمیر و آرائش کی گئی۔ 

یمین الدولہ سلطان محمود غزنوی نے امام رضا علیہ السلام کے مزار کی عمارت کہ جسے اس کے باپ سبکتگین نے نقصان پہنچایا تھا، دوبارہ تعمیر کروائی۔ 

اس کے علاوہ ابوالحسن عراقی المعروف دبیر نے پانچویں صدی کے اوائل میں مزار کی تعمیر کے ساتھ ساتھ مسجد بالاسر بھی تعمیر کرائي۔ 

سلجوقی حکمران امیر عمادالدولہ نے چھٹی صدی ہجری کے اوائل میں حرم کی تعمیرنو کی اور سلطان سنجر کے وزیر شرف الدین ابو طاہر قمی نے قبر مطہر کے اوپر گنبد تعمیر کرایا۔ 

خوارزم شاہیوں کے دور میں حرم کے اندر ٹائلوں کا خوبصورت کام انجام دیا گيا اور اس وقت بھی 612 کی تاریخ کے ساتھ یہ ٹائلیں حرم میں موجود ہیں۔ 

تیموری دور میں حرم مطہر میں تعمیر کے لحاظ سے بہت زیادہ کام کیا گیا۔ شاہ رخ بن امیر تیمور گورگانی کی بیوی گوہر شاد خاتون نے حرم مطہر میں مشہور مسجد گوہر شاد تعمیر کروائی۔ تیموری دور میں ہی دوسری عمارتوں کے ساتھ ساتھ صحن انقلاب بنایا گيا۔ جو آخری تیمور بادشاہ سلطان حسین بایقرا کے وزیر امیر علی شیر نوائی نے تعمیر کروایا۔ 

صفوی دور بھی حرم کی تعمیرات کی تاریخ میں ایک اہم دور سمجھا جاتا ہے۔ گنبد اور گلدستے پر سونے کا کام، قبر مطہر کی پہلی ضریح کی تعمیر، اللہ وردی خان گنبد ااور حاتم خانی گنبد وغیرہ اسی دور سے تعلق رکھتے ہیں۔ 

افشاری اور قاجاری دور میں ایک بار پھر طلاکاری کا کام کیا گيا اور مختلف عمارتیں اور صحن بنائے گئے اور آئینہ کاری بھی کی گئی۔

اسلامی انقلاب کے بعد 

اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے گزشتہ بارہ صدیوں کے دوران حرم مطہر تقریبا بارہ ایکڑ پر محیط تھا لیکن اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد زائرین کی تعداد میں بےپناہ اضافہ ہو گیا جس دیکھتے ہوئے آستان قدس رضوی نے اس کی توسیع کا منصوبہ بنایا اور اس پربڑی تیزی سے عمل درآمد جاری ہے۔ اس وقت حرم مطہر نوے ایکڑ سے زائد رقبے پر پھیلا ہوا ہے اس میں جہاں رواق کے ناموں سے چھبیس نئے ہال تعمیر کیے گئے ہیں وہیں نو بڑے صحن بھی بنائے گئے ہیں اور حرم میں داخلے کے لیے چار بڑے صدر دروازے بنائے گئے ہیں جن کو بست کا نام دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ امام رضا علیہ السلام کے زائرین کو ایک وقت کا کھانا تبرک کے طور پر دیا جاتا ہے۔ مشہد میں زائرین کی سہولت کے لیے بڑی تعداد میں ہوٹل اور مسافر خانے بھی تعمیر کیے گئے ہیں۔ زائرین کی ایک بڑی تعداد کے پیش نظر تہران سے ہر روز درجنوں ٹرینیں اور ہوائي جہاز ہر روز مشہد آتے ہیں۔  

تبصرے
Loading...