مذہب یھود اور حجاب

یھودی خواتین کے حجاب کا مسالہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ جسے آسانی سے انکار کیا جا سکے، تاریخ نگاروں نےصرف ان کے رسم ورواج پر ہی نہیں بلکہ حجاب میں کی جانے والی انتہائی سخت گیری اور افراط (یعنی حد سے گذرجانے) کو نیز وضاحت سے بیان کیا ہے،حجاب کے بارے میں ان کے قوانین اسلام سے ذیادہ سخت تہے، اورجواس کتاب ” حجاب در اسلام ” میں واضح طور پربیان ھوا ہے :

” اگرچہ حجاب عربوں کی رسم نہ تھی اور اس کی بنیاد اسلام ہی نے رکھی تھی، لیکن غیر عرب قوموں کی تاریخ میں حجاب پر زیادہ پابندیاں عائد نہ تہیں، بلکہ ایران، یھود، اور وہ قومیں جوان کی پیروی کرتی ہیں، حجاب کے بارے میں بہت سختی کے قائل تہے حتی اسلام نےجن چیزوں کی اجازت دی ہے، ان کے رسم و رواج میں{ چہرہ اور دونوں ھاتھوں کو} چھپانا واجب قرار پایاہے ،اوربعض قوموں نے تو حد ہی کردی ، کہ حجاب تو دور کی بات انھوں نے اپنی عورتوں کو ہی چھپانا شروع کر دیا اوراس بری عادت کو ایک رسم کے طور پر اپناۓ بیٹہے ہیں”۔ 6

Welldorant”” جنھوں نےمعمولاعریانی اورہرقوم کی خواتین کے بنا و سنگھار کو بہت آب و تاب سے بیان کیا ہے تاکہ انہیں قدرتی عمل قرار دے سکے ۔ اس بارے میں اس کا کہنا ہے:

” قرن وسطی میں یھودی اپنی خواتین کو {البسہ فاخر } یعنی عالی ملبوسات زیب تن کرواتے تہے اور کبھی بھی انہیں ننگے سر لوگوں کے درمیان جانے کی اجازت نہیں دیتے تہے اور بے حجابی ایسا جرم تھا جو طلاق کا باعث بنتا اور ان کی شریعت کےمطابق ایک یھوی مرد بے حجاب عورت کے سامنےاپنے ھاتھوں کودعا کے لیۓ نہیں اٹھا سکتا” ۔7

وہ یھودی خواتین کی تعریف اسطرح کرتا ہے :

“کہ انکی زندگی بہت شایان شان اور خطا سے منزہ تھی ،انکی لڑکیاں با حجاب، بیویاںفرمابردار، مائیں عقلمند اور امانت دار تہیں اور چونکہ ان کی چھوٹی عمروں میں شادی کرا دی جاتی تھی اس لیۓ بے حیائی اور فحاشی میںحدالامکان کمی رہتی تھی”۔ 8

یھودیوں کی مقدس کتاب میں بہت سی جگہوں پر واضح طور پر حجاب اور پردے کی تاکید کی گی ہے اور بعض مقامات پر تو چادر اور برقعے جیسے الفاظ استعمال ھوۓ ہیں جس سے اس زمانے کے حجاب کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے ۔اب ان میں سے چند موارد کی طرف اشارہ کرتے ہیں :

نا محرموں کے سامنے مکمل حجاب:

تورات کی (سفر پیدائش ) میں لکھا ہے؛کہ ” جب رفقہ کی نگاہ اسحاق پر پڑی تو اپےاونٹ سے نیچےاترآئی اوراپنےغلام سے پوچھا کہ یہ آدمی کون ہےجو صحرا میں ہمارے استقبال کو آیا ہے، غلام نے جواب دیا ‘میرا مالک ہے’ لہذا فورا برقعے کے ذریعے خود کو ڈھانپا” ۔ 9

مرد اور عورت کے درمیان شباھت نہیں ھونی چاھیۓ:

تورات کے مطابق ؛ مرد اور عورت کا لباس ایکدوسرے پر روا نہیں اور جو ایسا کرے گا خدا کے نزدیک یہ کام مکروہ ہے ۔ 10

یھودی خواتین کا نا محرموں کے لیے بننا سنورنا باعث عذاب ہے:

تورات میں پڑھتے ہیں ” خدا کہتا ہے کیونکہ صھیونی لڑکیاں متکبر ہیں اور دوسروں کی توجہ اپنی طرف مبذول کروانے کے لیے پیروں میں پازیب پہن کر بہت غرور سے چلتی ہیں ، کہ سب سبب بنتا ہے کہ خداوندانہیں عذاب دے اوروہ انکی جھوٹی عزت خاک میں ملا دے گا ،انہیں برھنہ کردے گا یہ عریان ھو جائیں گے اور اس دن (قیامت) خداوند تمام زیورات کو ان سے دور کر دے گا ۔ یہ پازیب ،چوڑیاں، انگوٹھی اور خوشبووں کےبدلے انہیں عذاب دیا جاۓگا،ان کی گردنوں میں طو‍ق اور زنجیریں ھونگی ،سر پر خاک اور جھلسے ھوۓ چہرے ھونگے حتی ہر درودیوار سےخون ٹپک رہا ھوگا اور سب تباہوبربادھوجائیں گے”۔11

تورات میں صریح طور چادر ،برقعےاورنقاب کا ذکر ھوا ہے کہ جس کے وسیلے سے انکی خواتین حجاب کرتی تہیں اور اس زمانے کے حجاب کو سمجھنے کے لیے کافی ہے ۔

جیسا کہ ایک کتاب””Root میں لکھا ہے :

بوعز کہتا ہے کہ زنہار کسی کو پتہ ہی نہ چلتا کہ کوئی عورت خرمن میں آئی ہے ، پھرکہتا ہے ؛ کہ جو چادراوڑھی تھی اسی کو پھیلایا، تقریبا 6 کلوجواسکی چادر میں ڈالی اور وہ شھر کی جانب چل پڑی ۔12

اوریھودی دلہن کے بارے میں پڑھتےہیں:

“لہذا اس نے بیوگی کے لباس کو اپنے بدن سےاتار کربرقعے اور چادرسے خود کو چھپایا، اور تمنا کی راہ تکنے لگی” ۔13

نامحرموں کےروبرو سرکا چھپانا ضروری ہے:

Welldorant لکھتے ہیں :

اگرکوئی عورت یھودی قوانین کی مخالفت کرے مثلا؛ ننگے سرنا محرموں کےسامنے جاۓ، یا غیر مردوں سے ھمکلام ھو، یا پھر اس کی آوازاسقدر بلند ھو کہ ھمسایوں کو سنائی دے ، ایسی صورت میں مرد حق رکھتا ہےکہ اس عورت کو مھریہ ادا کیے بغیر طلاق دے۔14

مزید لکھتےہیں:

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سرمے وغیرہ کےاستعمال کو برا سمجھتے تہےان کا کہنا تھا۔ مرد کا فرض ہےوہ عورت کے لیۓ سخاوت مندی سے خرچ کر ے، لیکن عورت کوبھی چاھیےکہ وہ صرف اپنےشوھرکے لیے بنے سنورے نا غیر مردوں کے لیۓ ۔15

ایک کتاب {حکمۃ الحجاب و ادلۃ وجوب النقاب }میں اس بات پر تاکید ھوئی ہے،؛کہ یھودی خواتین کے حجاب کی بنیاد شریعت موسی(علیه السلام) سے رکھی گئی ہے اور حضرت موسی (علیه السلام) اور حضرت شعیب(علیه السلام) کی بیٹیوں کی داستان کی طرف اشارہ ھوا ہے ؛کہ حضرت موسی نے کہا اس کے پیچہے حرکت کریں اوراپنے گھر کا پتہ بتائیں۔16

مذہب زرتشت اورحجاب

{ آشوزرتشت }اپنی نصیحتوں اورمشوروں کے ذریعے حجاب کی اھمیت کو اجاگر کرتے ھوۓ کہتے ہیں :

ایرانی خواتین حجاب کو ظاھری طور پر ایک قومی ثقافت کی حیثیت سے اپناۓ ھوۓ ہیں ، جو ان کی روح کے اندر تک قدم جماۓھوۓ ہے ۔ اس ذریعے سے حجاب کے قوانین کوآئیندہ نسلوںتک محفوظ کیا جا سکتا ہے، اور جو معاشرے کو بے راہے جانے اور اخلاقی برائیوں سے بچا سکتا ہے ۔

اب آشو زرتشت کے کلام کو بہتر طور پرسمجھنے کے لیۓ مزید نقل کرتے ہیں ؛ تاکہ جو زحمتیں انھوں نے حجاب کی حفاظت کے لیۓ اٹھائیں بیان کی جا سکیں ، کیونکہ ظاھری حجاب باطنی عفت کا آئینہ دار ہے ،واضح ھو سکے ۔وہ کہتے ہیں :

₪ اے نئی زندگی کا آغاز کرنے والو! ( دلھا اور دلہن ) میری باتیں غور سے سنو ، اوران پر عمل کرو،غیرت اور پا کیزگی سے زندگی گذارو، تم سے ہر ایک، محبت ، صداقت اور نیک کردارمیں دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرے،تاکہ یہ مقدس ازدواجی زندگی ہنسی خوشی بسرھوسکے

 اے خواتین وحضرات! سیدہے رستےکو تلاش کرو، اور اسی کواپناو، کبھی جھوٹ اور وقتی خوشی کی خاطراپنی زندگیوں کو برباد مت کرو، کیونکہ جو لذت گناہ اور بد نامی کے ھمراہ ھو، وہ دراصل میٹہے میں ملا ھوا جان لیوا زھر ہے جو خود دوزخ ہے،لہذا ایسے کاموں کے ذریعے اپنی زندگیوں کو تباہ مت کر بیٹھنا ۔

 نیک رستے پرچلنے والوں کا اجراسے ملتا ہےجوخواھشات نفسانی ، خود پسندی اور باطل آرزوں کوخود سے اورکرےاور اپنی نفس پرغلبہ پالے وگرنہ غفلت اورلا پرواھی کا انجام افسوس اور ہاتھوں کو ملنے کے سوا توہے ہی نہیں۔

دھوکہ کھانے والے افراد ، جو برائی میں دھنس جاتےہیں ، بد بختی اور نابودی کا شکار ھونے کےعلاوہ ان کا سرانجام آہ و زاری اورچیخ و پکار ہے، لیکن جوافراد میری باتوں کوغور سے سنتے،اور ان پرعمل کرتےہیں ، ھمیشہ خوش وخرم زندگی بسر کرتےہیں، رنج وغم ان سےدورھوجاتےہیں اورھمیشہ کے لیۓنیکی ان کی قسمت میں لکھدی جاتی ہے۔ 3

اور” windy dad ” کی کتاب میں بارھا یہ جملہ تکرارھوا ہے :

” کلام ایزدی ہے کہ وہ برائی کو نابود کر دے گا ،اے مرد ! تم سےمیری یہ خواھش ہے کہ راہ حلال کے ذریعے اپنی نسل بڑھاو اور پاک و پاکیزہ رھو، اے عورت ! میری تم سے یہ خواھش ہے کہ اپنے تن کی حفاظت کرواور پاک و پاکیزہ رھو،میری تمناہےکہ صاحب اولاد ھوجاو اور کامیاب زندگی گذارو”۔ 4

ایک اور کتاب ایرانیوں کی باستانی پوشاک میں مندرجہ ذیل عنوان ” ہمارے ملک کی غیر معروف پوشاک ” کے تحت لکھا گیا ہے جس میں زرتشتی عورت کے حجاب کے بارے میں پڑھتے ہیں :

( یہ لباس جو زرتشتی عورت پہنتی ہے ، دوسرے ممالک کے ملبوسات سے بہت شباھت رکھتا ہے ، جیسا کہ ان کے اسکارف پہننےکا طریقہ بختیاری خواتین، قمیض لر کی خواتین ، شلوار کا انداز غربی آذربایجان کی کرد خواتین اور ٹوپی بندر عباس کی خواتین کی طرح ہے ۔)

لہذا “زرتشتیوں کا دین” تین چیزوں پر استوار ہے: ( نیک اندیشہ وفکر) ( نیک گفتار ) ( نیک کردار) ۔ انکے پیشوایان نیک اندیشے وفکر اور نیک کردار کے بارے میں کہتے ہیں :”ایک مومن زرتشتی ، ہرگز دوسروں کی عورتوں پر ناپاک اور آلودہ نگاہ نہیں کرتا ۔”

اور پیشواوں کے پیشوا {آزرباد مارا سپند } کی نصیحتوں میں آیا ہے: “آلودہ نگاہ رکھنے والے مرد کو اپناھمکار قبول مت کرنا”5

حجاب فطری امر ہے

حجاب اور پردہ تمام ادیان اور مذاھب میں ایک خاص مقام کا حامل ہے ۔جس پر دلیل یہ ہے کہ حجاب اورعفاف ایک امر فطری ہے ۔

حضرت آدم اور حواکی داستان نیزحجاب کے فطری ھونے کا منہ بولتا ثبوت ہے تورات { یھودیوں کی مقدس کتاب ہے جو مسیحیوں کے لیۓ نیز مقدس ہے} میں پڑھتے ہیں :” اور جب عورت نے دیکھا کہ یہ درخت نیک ثمررکھتا ہے ،پرکشش اور پر ثمرہے، لہذا اس درخت کے میوے کو کھایا اور اپنے شوھر کو بھی دیا ، میوہ کھاتے ہی دونوں نے خود کوعریان پایا، فورا انجیر کےپتوں کو اکٹھا کرکے اپنے لیۓ ستر بنائی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔”

پھر مزید لکھتے ہیں :”اورآدم نےاپنی بیوی کا نام حوا رکھا، کیونکہ وہ بنی نوع انسانوں کی ماں ہیں ،اور خداوند نےآدم اوراسکی زوجہ کے لیۓ کھال کے کپڑے بنواۓ اور انھیں ستر دیا۔ “1

اس متن کے مطابق ،آدم اور حوا بے لباس تہے اور شجر ممنوعہ کو کھانے کے بعد انھیں عریانی کا احساس ھوا،اس لیۓ فورا پتوںسےاپنے بدن کوچھپایا، پھرخدانےکھال کی پوشاک سے انھیں نواز۔

قران کریم میں حضرت آدم اور حوا کی داستان اسطرح بیان ھوئی ہے :” فلما ذاقا الشجرۃ بد ت لھما سواتھما و طفقا یخصفا علیھما من ورق الجنۃ،”2   جب حضرت آدم اور حوا نےدرخت ممنوعہ سے چکھا، اپنا حجاب کھو بیٹہے (عریان ھوگۓ ) فورا درخت کے پتوں سےاپنے حجاب کا انتظام کیا ۔

بہرحال ان دواقوال کے مطابق ، جب برھنہ ھونےکا احساس ھوا، (خواہ تورات کے مطابق ، کہ پہلےسے بے لباس تہے، یا قران کے مطابق ، کہ پہلےلباس رکھتےتہے ) فورا بہشتی درخت کے پتوں سےخود کوچھپایا،اب برھنےھونے پر یہ احساس شرمندگی ، جبکہ کوئی اجنبی بھی موجود نا تھا،فوراخود کو پتوں سے چھپا لینا (حتی وقتی طور پر ہی سہی ) اس لیۓتھا کیونکہ حجاب ایک امرفطری ہے جوبغیرکسی تعلیم یاحکم یا خدا کی جانب سےوحی یا کسی اور ذریعےسے بھیجا گیاھو،یہ حجاب کےفطری ھونےکا منہ بولتا ثبوت ہے۔ لہذا ثابت ھوا کہ لباس اور حجاب تہذیب یا ثقا فت کی ایجاد نہیں ، بلکہ شروع ہی سے انسانوں کا حجاب اور لباس کی طرف فطری جھکاو رہا ہے ۔ تاریخ گواہ ہے، کہ دنیا کے بہت سے ممالک اور مختلف مذاھب کی خواتین میں حجاب ھمیشہ سےعام تھا ، اس کے باوجود کہ مختلف تاریخی ادوار میں بہت سے نشیب وفرازکے مراحل عبور کرتےھوۓ حاکموں کے ذوق اور سلیقے کے مطابق کبھی کم اورکبھی زیادہ ھوتا رھا ہےلیکن کبھی مکمل طور پر ختم نہ ھوا۔

اور اگر دنیا کے تمام ممالک کے قومی لباس پر غور کریں تو با خوبی وہاں کی خواتین کے حجاب اور پردے کودیکھا جا سکتا ہے اس طرح تاریخ کے اوراق پلٹنے کی بھی ضرورت نہیں پڑتی اور با آسانی ثابت ھوجاتا ہےکہ دنیا کے مختلف اقوام کی خواتین میں حجاب عام تھا ۔ اورجو کسی خاص مذھب یا قوم کے لیۓ مخصوص نہ تھا ۔

تمام ادیان آسمانی میں حجاب واجب اور لازم قرار پایا ہے، اسی لیۓتمام جامعہ بشری کو اس کی جانب دعوت دی گئ ہے، کیونکہ حجاب ایک فطری عمل ہے، اور تمام خواتین میں فطری طور پر موجود ہے، لہذا شریعت کےتمام احکام اور دستورات کو انسانی فطرت کے مطابق خلق کیا گیا ہے، پس معلوم ھوا کہ تمام ادیان الہی میں عورت کے لیۓ حجاب اور پردہ واجب قرار پایاہے ۔

تمام ادیان مثال کے طور پر زرتشت (آتش پرست) یھودیت،مسیحت اور اسلام میں خواتین کے لیۓ حجاب ایک لازمی امر ہے ، یہ مقدس مذہبی کتابیں ، دینی احکام اور دستور ، مختلف آداب اور رسوم ،اور ادیان الہی کے پیروانوں کی روش ، اس بات کے اثبات کے لیۓ بہترین گواہ ھیں

پردہ

اقبال عورت کے لئے پردہ کے حامی ہیں کیونکہ شرعی پردہ عورت کے کسی سرگرمی میں حائل نہیں ہوتا۔ بلکہ اس میں ایک عورت زندگی کی ہر سرگرمی میں حصہ لے سکتی ہے اور لیتی رہی ہے اسلام میں پردہ کا معیار مروجہ برقعہ ہر گز نہیں ہے اسی برقعہ کے بارے میں کسی شاعر نے بڑ ا اچھا شعر کہا ہے۔

بے حجابی یہ کہ ہر شے سے ہےجلوہ آشکار    اس پہ پردہ یہ کہ صورت آج تک نادید ہے

بلکہ اصل پردہ وہ بے حجابی اور نمود و نمائش سے پرہیز اور شرم و حیا کے مکمل احساس کا نام ہے اور یہ پردہ عورت کے لئے اپنے دائرہ کا ر میں کسی سرگرمی کی رکاوٹ نہیں بنتا ۔ اقبال کی نظر میں اصل بات یہ ہے کہ آدمی کی شخصیت اور حقیقت ذات پر پردہ نہ پڑا ہو اور اس کی خودی آشکار ہو چکی ہو۔

بہت رنگ بدلے سپہر بریں نے                        خُدایا یہ دنیا جہاں تھی وہیں ہے

تفاوت نہ دیکھا زن و شو میں ، میں نے             وہ خلوت نشیں ہے! یہ خلوت نشیں ہے!

ابھی تک ہے پردے میں اولاد آدم                       کسی کی خودی آشکارا نہیں ہے

اس بارے میں پروفیسر عزیز احمد اپنی کتاب ”اقبال نئی تشکیل “ میں لکھتے ہیں۔ ” اقبال کے نزدیک عورت اور مرد دونوں مل کر کائنات عشق کی تخلیق کرتے ہیں عورت زندگی کی آگ کی خازن ہے وہ انسانیت کی آگ میں اپنے آپ کو جھونکتی ہے۔ اور اس آگ کی تپش سے ارتقاءپزیر انسان پیدا ہوتے ہیں۔۔۔۔ اقبال کے نزدیک عورت کو خلوت کی ضرورت ہے اور مرد کو جلوت کی۔”

یہی وجہ ہے کہ اقبال ، عورت کی بے پردگی کے خلاف ہیں ان کے خیال میں پرد ہ میں رہ کر ہی عورت کو اپنی ذات کے امکانات کو سمجھنے کا موقعہ ملتا ہے۔ گھر کے ماحول میں وہ سماجی خرابیوں سے محفوظ رہ کر خاندان کی تعمیر کا فرض ادا کرتی ہے ۔ جو معاشرہ کی بنیادی اکائی ہے۔ اور سب سے بڑی بات یہ کہ اپنے گھر میں وہ یکسوئی کے ساتھ آئند ہ نسل کی تربیت کا اہم فریضہ انجام دیتی ہے اس کے برخلاف جب پردے سے باہر آجاتی ہے تو زیب و زینت ، نمائش ، بے باکی، بے حیائی اور ذہنی پراگندگی کا شکار ہو جاتی ہے چنانچہ یہ فطری اصول ہے کہ عورت کے ذاتی جوہر خلوت میں کھلتے ہیں جلوت میں نہیں۔ ”خلوت“ کے عنوان سے ایک نظم میں اقبال نے کہا ہے۔

رسوا کیا اس دور کو جلوت کی ہوس نے                   روشن ہے نگہ آئنہ دل ہے مکدر

بڑھ جاتا ہے جب ذوق نظر اپنی حدوں سے                ہو جاتے ہیں افکار پراگندہ و ابتر

آغوش صدف جس کے نصیبوں میں نہیں ہے              وہ قطرہ نیساں کبھی بنتا نہیں گوہر

خلوت میں خودی ہوتی ہے خود گیر و لیکن               خلوت نہیں اب دیر و حرم میں بھی میسر!

تبصرے
Loading...