محرم الحرام – پہلی مجلس

 

«مسلم» عقیل بن ابیطالب علیہ السلام کے فرزند، بنو ہاشم کی اہم شخصیات میں سے تھے اور حضرت سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کے چچازاد بھائی تھے۔ ایک نکتہ: یہاں یہ نکتہ قابل ذکر ہے کہ کوفی عہدشکنی کے بعد ارتداد کا شکار ہوئے تھے اور ان کی بی وفائی مذہب کی عدم پیروی کی وجہ سے نمودار ہوئی تھی۔ وہ مزید شیعہ نہیں رہے تھے بلکہ یزیدی حاکمیت کے تابع بن گئے تھے۔ اور اگر وہ شیعہ رہتے تو ہرگز اس گناہ کا ارتکاب نہ کرتے۔ منابع اصلی:مسلم رمضان کے وسط میں مکہ سے خارج ہوئے اور مدینہ پھنچے۔ مسجد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں نماز ادا کی اور اپنے خاندان سے وداع کیا اور چند راہنماؤن سمیت دیگر افراد کے ہمراہ کوفہ کی جانب روانہ ہوئے۔ سفر نہایت دشوار تھا اور مسلم اور ان کے ساتھی راستہ کھوگئے اور دو راہنما تو پیاس کی شدت سے جان تک کھوبیٹھے۔ بہرحال 5 شوال سنہ 60 ہجری کو مسلم بن عقیل کوفہ پھنچے۔ کوفہ کے عوام جوق در جوق مسلم کے پاس حاضر ہونے لگے اور جب انہوں نے امام حسین علیہ السلام کا خط ان کے لئے پڑھا تو رونے لگے۔ اس کے بعد اٹھارہ ہزار افراد نے مسلم کے ہاتھوں پر بیعت کی۔ چنانچہ انہوں نے امام حسین علیہ السلام کو خط لکھا اور ان لوگوں کی بیعت کی اطلاع امام حسین علیہ السلام کو دی اور آپ علیہ السلام کو کوفہ آنے کی ترغیب دلائی۔جب اس بیعت کی خبر یزید بن معاویہ کو ملی تو اس نے عبیداللہ بن زیاد کو – جو بصرہ کا والی تھا – کوفہ کی ولایت کا عہدہ سنبھالنے کی بھی ہدایت کی۔ عبیداللہ ایک حیلہ کرکے کوفہ میں وارد ہوا اور حکومت اپنے ہاتھ میں لی اور لوگوں کو دھمکیاں دیں۔ اس کے بعد اس نے کوفہ کے نہایت اہم راہنما اور مسلم بن عقیل کے میزبان «ہانی بن عروہ» کو گرفتار کیا اور انہیں اذیتیں دیں۔ جب ہانی بن عروہ کی گرفتاری اور شکنجے کی خبر حضرت مسلم کو ملی تو انہوں نے کوفیوں سے کہا کہ ان کی مدد کے لئے اقدام کریں۔ لوگ مسلم کے ہمراہ ہوئے اور کوفہ کی مسجد، بازار اور دارالامارہ کے ارد گرد بڑی تعداد میں عوام اکٹھے ہوئے۔ اس وقت عبیداللہ بن زیاد کے حامیوں کی تعداد 50 افراد سے زیادہ نہ تھے۔ ابن زیاد نے کچھ افراد کوفہ کے قبائل کے پاس روانہ کئے تا کہ وہ انہیں ڈرائیں دھمکائیں اور انہیں لالچ دلائیں۔ اور اپنے قصر میں موجود بعض کوفی اشراف سے کہا کہ دارالامارہ کی چھت پر پھنچ کر لوگوں کو ڈرائیں یا انہیں فریب دیں۔اہل کوفہ نے جب اپنے زعماء اور رؤساء کی باتیں سنیں تو سست پڑگئے اور رفتہ رفتہ خناسوں کے وسوسوں میں اضافہ ہوا اور ہرایک دوسرے سے کہنے لگا: «ہمیں بس واپس جانا چاہئے دوسرے یہاں موجود ہیں اور ان کی موجودگی کافی ہے»۔رفتہ رفتہ کوفیوں کا اجتماع منتشر ہونے لگا اور مسلم بن عقیل کے گرد حامیوں کی تعداد گھٹ کر صرف 30 افراد مسجد میں باقی رہ گئے۔ کوفیوں نے پیمان شکنی کی تھی چنانچہ مسلم بن عقیل ان تیس افراد کے ہمراہ «ابواب کندہ» کی طرف چلے گئے ابواب کندہ پھنچتے پھنچتے مزید 20 افراد بھی کھسک گئے اور 10 افراد باقی رہ گئے اور جب اس علاقے سے گذر گئے تو تنہا ہی تنہا رہ گئے تھے۔ مسلم نے غریبانہ انداز سے ادھر ادھر نظر دوڑائی مگر کوئی بھی نہیں تھا بلکہ کوئی ان کو راستہ دکھانے کا روادار بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ کوئی انہیں اپنے گھر میں پناہ دینے کے لئے تیار نہیں تھا۔ حسین بن علی کے سفیر کوفہ کی اندھیری گلیوں میں سرگردان تھے اور نامعلوم منزل کی طرف روان دوان تھے۔ ایک گھر کے سامنے پھنچے تو دیکھا کہ ایک بوڑھی خاتون اپنے گھر کی چھت پر کھڑی ہیں۔ اس خاتون کا نام «طوعہ» تھا۔ وہ اپنے بیٹے کا انتظار کررہی تھیں۔ مسلم نے خاتون کو سلام کیا اور ان سے پانی مانگا۔ طوعہ نے انہیں پانی دیا اور اور گھر میں واپس چلی گئیں۔ دوبارہ گھر سے باہر آئیں تو انہوں نے مسلم کو دیکھا جو ان کے گھر کے دروازے کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں۔ کہنے لگیں: اے بندہ خدا اگر آپ نے پانی پی لیا ہے تو اپنے گھر کو چلے جائیں۔ مسلم نے جواب نہیں دیا۔ خاتون نے دوبارہ اور سہ بارہ اپنی بات دہرائی۔ مسلم اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا: « میرا اس شہر میں کوئی گھر یا خاندان نہیں ہے۔ میں مسلم بن عقیل ہوں۔ اس قوم نے مجھ سے جھوت بولا، مجھے دھوکہ دیا یہ قوم مجھے اپنی پناہگاہ (مدینہ) سے نکال کر یہاں لائی۔» بڑھیا انہیں اپنے گھر بلایا، ان کے لئے قالین بچھائی اور کھانا تیار کرکے دیا۔ مگر مسلم نے کھانا کھانے سے اجتناب کیا اور لیٹ کر سوگئے۔ مسلم نے عالم خواب میں اپنے چچا حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی زیارت کی۔ امام علی علیہ السلام نے انہیں فرمایا: «جلدی کرو کہ تم کل ہمارے پاس ہوگے۔» دوسری طرف سے عبیداللہ کی شیطانی چالیں کامیاب ہوئیں اور عوامی اجتماع حضرت مسلم کے گرد سے منتشر ہؤا تو اس کو جرأت ملی اور اپنے محل سے نکل آیا اور مسجد میں داخل ہوا۔ اور اس نے مسلم کا سراغ لگانے کے لئے ایک ہزار دینار کا انعام مقرر کیا۔ بوڑھی خاتون «طوعہ» کا بیٹا گھر واپس آیا تو اسے معلوم ہوا کہ مسلم ان ہی کے گھر میں مہمان ہیں۔ فجر طلوع ہوتے ہی دشمنوں کے پاس پھنچا اور انہیں مسلم کی پناہگاہ سے آگاہ کیا۔ عبید اللہ نے دسیوں سپاہیوں پر مشتمل ایک گروہ ان کی گرفتاری کے لئے روانہ کیا۔ مسلم عبادت الہی میں مصروف تھے کہ ابن زیاد کے گماشتے طوعہ کے گھر پھنچ آئے۔ جب انہوں نے گھوڑوں کے ہنہنانے کی آواز سنی تو اپنی دعا کو تیزی سے مکمل کیا، زرہ پہن لی، طوعہ کا شکریہ ادا کیا اور یزیدی لشکر کے مقابلے کے لئے باہر نکل آئے۔ کیوں کہ انہیں خوف تھا کہ وہ ستمگر کہیں اس بوڑھے خاتون کا گھر ہی نہ جلادیں۔ مسلم ایک جنگ آزمودہ انسان تھے اور پہلے مرحلے میں چالسیس نامرد کوفیوں کو واصل جہنم کیا۔ تا آنکہ یزیدی فوجیوں نے ان پر یکبارگی سے حملہ کیا اور چھت کے اوپر سے بھی ان پر پتھر برسائے گئے اور شدید پیاس اور تھکاوٹ کے ساتھ ساتھ پشت کی جانب سے بھی ایک نیزے کا وار ان پر وارد ھوا جس کی وجہ سے وہ نقش زمین ہوئے اور ابن زیاد کی گماشتوں نے انہیں گرفتار کیا۔ (ایک روایت یہ بھی ہے کہ جب سپاہیوں نے دیکھا کہ انہیں گرفتار نہیں کیا جاسکے گا اور اس طرح وہ ساری واصل جہنم ہوجائیں گے تو انہوں نے جھوٹے یزیدی گورنر کی جانب سے انہیں جھوٹا امان نامہ دیا مگر امان نامے پر عملدرآمد کی بجائے انہیں دھوکے سے گرفتار کیا اور اپنے ساتھ دارالامارہ لے گئے۔) مسلم بن عقیل نے گرفتار ہوتے ہوئے کہا: «انا للہ و انا الیہ راجعون» اور رونے لگے۔ ابن زیاد کے لشکر کے ایک فرد نے ان کی جنگ آزمائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان کے رونے سے اظہار حیرت کیا اورسبب پوچھا تو انہوں نے کہا: خدا کی قسم میں موت سے ہرگز خائف نہیں ہوں اور اپنی ذات کے لئے نہیں رورہا ہوں بلکہ خاندان پیغمبر (ص) اور امام حسین اور آپ (ع) کے خاندان کے لئے رورہا ہوں جو اس طرف آرہے ہیں۔»یزید کے گورنر ابن زیاد کے حکم کے مطابق مسلم بن عقیل علیہ السلام کو دارالامارہ کی چھت پر لے جایا گیا، جب کہ مسلم خداوند متعال کی تسبیح و تقدیس اور استغفار میں مصروف تھے اسی حال میں ان کا سر بدن سے جدا کیا گیا اور ابتداء میں ان کا سر اور پھر بدن دارالامارہ کی چھت سے نیچے پھینکا گیا تا کہ لوگ یہ سب کچھ دیکھ لیں اور اس کے بعد مسلم بن عقیل کے بدن مبارک کو کوفی عہدشکنوں کی آنکھوں کے سامنے لٹکادیا گیا۔ ہانی بن عروہ جو اس وقت نواسی سال کے معمر شخص تھے، بازار کوفہ لے جائے گئے اور نہایت وحشیانہ انداز سے شہید کئے گئے اور سولی پر لٹکادئے گئے۔ جب انہیں شہید کیا جارہا تھا تو انہوں نے اپنے حامیوں کو مدد کے لئے بلایا مگر کسی نے بھی ان کی مدد نہیں کی۔ یہ دو شہید کربلا کے واقعے کے پہلے شہید تھے جن کے سروں کو ابن زیاد نے اپنے سلطان – یزید بن معاویہ- کے پاس بھجوادئے۔ مسلم کا بدن پہلے ہاشمی کا بدن تھا جو لٹکایا گیا اور ان کاسر پہلا ہاشمی سر تھا جو یزید کے پاس دمشق روانہ کیا گیا۔  الا لعنة اللہ علی القوم الظالمین و سیعلم الذین ظلموا ایّ منقلب ینقلبونامام حسین علیہ السلام مدینہ سے خارج ہوکر مکہ تشریف لے گئے اور مکہ ہی میں مقیم تھے کہ بڑی تعداد میں اہل کوفہ کے خطوط موصول ہونا شروع ہوئے۔ ان خطوط میں امام علیہ السلام کو کوفہ آنے کی دعوت دی گئی تھی۔ آخری خط بھی موصول ہوا اور اہل کوفہ کے خطوط کے تعداد کئی ہزار ہوئی تو امام علیہ السلام مسجد الحرام میں رکن و مقام کے مابین کھڑے ہوئے اور دو رکعت نماز ادا کی اور خداوند متعال سے خیر کی طلب کی اور اس کے بعد حضرت مسلم کو بلایا اور خطوط کا جواب تحریر فرمایا اور اہل کوفہ سے مخاطب ہوکر لکھا: «تمہاری بات یہی ہے کہ: “ہمارا کوئی امام نہیں ہے، ہماری طرف آجائیں شاید خدا آپ کی وجہ سے ہمیں ہدایت فرمائے اور ہمیں متحد کرے” میں اپنے بھائی اور ابن عم مسلم بن عقیل کو تمہاری طرف روانہ کررہا ہوں جو میرے معتمد ہیں۔ پس اگر انہوں نے مجھے لکھا کہ تمہارے عقلاء، فضلاء کی رائے اور تمہارا مشورہ وہی ہے جو تم نے خطوط میں لکھ بھیجا تھا تو میں بہت جلد تمہاری طرف آؤں گا…»…………..مآخذ:- اللہوف فی قتلی الطفوف – سید بن طاووس- نفس المہموم – شیخ عباس قمی

تبصرے
Loading...