محبتِ رسول اور اِصلاحِ اَعمال کا پیغام

نعمت الہی : خداوند عز و جل نے انسانوں پر ہر قسم کے مادی و معنوی نعمتوں کو بے حساب نازل کیا اور کرتا رہے گا وہ بے نیاز، ہر شی کا خالق، ہر شی پر قادر، رحیم اور کریم ہے اس نے انسان کو جو نعمتیں عطا فرمائیں انکا شمار ممکن نہیں، انسان کو احسن تقویم کے سانچے میں خلق کیا ایسا مقام جہاں ملائکہ رشک کرتے ہیں، ماں، باپ، بہن ،بھائی، غرض یہ کہ ہر قسم کی مادی او معنوی نعمتیں پکار پکار کر یہ کہہ رہی ہیں کہ تم خدا کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟

لیکن ایک اہم نکتہ یہ کہ اس نے کسی بھی نعمت کے سلسلے میں احسان نہیں جتلایا، لیکن ایک نعمت عظمیٰ ایسی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے جب حریم کبریائی سے اسے بنی نوع انسان کی طرف بھیجا اور امت مسلمہ کو اس نعمت سے سرفراز کیا تو اس پر احسان جتلاتے ہوئے فرمایا:

لَقَدْ مَنَّ اللّهُ عَلَى الْمُؤمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُواْ عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُواْ مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍo (سورۃ آل عمران 3 : 164)ترجمہ: ”بے شک اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہیں میں سے عظمت والا رسول بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے اور انھیں پاک کرتا ہے اور انھیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتا ہے اگرچہ وہ لوگ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے“۔

درج بالا آیہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ :

امت مسلمہ پر میرا یہ احسان، انعام اور لطف وکرم ہے کہ میں نے اپنے محبوب کو تمہاری ہی جانوں میں سے تمہارے لئے پیدا کیا۔ تمہاری تقدیریں بدلنے، بگڑے ہوئے حالات سنوارنے اور شرف وتکریم سے نوازنے کیلئے تاکہ تمہیں ذلت وگمراہی کے گڑھے سے اٹھا کر عظمت وشرفِ انسانیت سے ہمکنار کر دیا جائے۔ لوگو! آگاہ ہو جاؤ کہ میرے کارخانہ قدرت میں اس سے بڑھ کر کوئی نعمت تھی ہی نہیں۔ جب میں نے وہی محبوب تمہیں دے دیا جس کی خاطر میں کائنات کو عدم سے وجود میں لایا اور اس کو انواع واقسام کی نعمتوں سے مالا مال کر دیا تو ضروری تھا کہ میں رب العالمین ہوتے ہوئے بھی اس عظیم نعمت کا احسان جتلاؤں ایسا نہ ہو کہ امت مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے بھی عام نعمت سمجھتے ہوئے اس کی قدرومنزلت سے بے نیازی کا مظاہرہ کرنے لگے۔

اب یہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کا فرض ہے کہ وہ ساری عمر اس نعمت کے حصول پر اللہ تعالیٰ کا شکرادا کرے اور خوشی منائے جیسا کہ اللہ رب العزت نے حکم دیا ہے۔

قُلْ بِفَضْلِ اللّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُواْ هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَo (يونس 10 : 5

ترجمہ: ”آپ فرما دیں کہ اللہ کے فضل سے اس کی رحمت سے (جواُن پر نازل ہوئی) اس پر ان کو خوش ہونا چاہئے یہ تو ان چیزوں سے جو وہ جمع کر رہے ہیں کہیں بڑھ کر ہے“۔

جب ہم اپنی زندگی میں حاصل ہونے والی چھوٹی چھوٹی خوشیوں پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں اور خوشی مناتے ہیں تو وجود محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعمت عطا ہونے پر سب سے بڑھ کر خوشی منائی جائے اور اس خوشی کے اظہار کا بہترین موقع ماہ ربیع الاوّل ہے۔ اگر دقت سے ذکر کی گئی آیت کا مطالعہ فرمائیں تو ہمیں یہ معلوم ہوجائے گا کہ عید میلاد النبی کا منانا اس آیت قرآنی کےعین مطابق ہے، لہذا بعض نا فھم اعتراض کرنے والے اپنے علم میں اضافہ فرمائیں اور اس عظیم نعمت کے حصول پر کھل کر خوشیاں منائیں۔

میں القلم کے تمام اراکین کو تہہ دل سے عید میلاد النبی کی مبارکباد پیش کرتا ہوں خداوند ہمیں نبی پاک کی معصوم سیرت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم بھی اس رحمۃ للعالمین کے نور سے فیضیاب ہوکر مخلوق خدا سے سیرت النبی (ص) کے مطابق رابطہ قائم کرسکیں

ماہِ ربیع الاوّل کی تیاریاں

ماہِ ربیع الاوّل کو ایسے منایا جائے کہ دیکھنے والا ہمارے وجود اور کردار میں خوشی محسوس کرے۔ میرے ذھن میں کچھ کام ایسے آتے ہیں جو خوشی کا اظہار ہوسکتے ہیں، آپ بھی اپنے خیالات کا اظہار فرمائیں:

 گھر کو اس طرح سنواریں جس طرح دو عیدوں پر اہتمام کرتے ہیں

 گھروں میں چراغاں اور جھنڈیاں لگا کرخوشی کا اظہار کریں۔

 میلاد النبی کی مبارکباد سب کو پیش کریں

بچوں کے لیئے خصوصی لباس کا اہتمام کیا جائے اور انہیں اس دن کی اہمیت سے آگاہ کیا جائے۔

 اس نعمت عظمی کا شکرانہ مختلف طریقوں سے ادا کریں:

نیاز کے ذریعے

غریبوں کی مدد کے ذریعے

عبادت اور نوافل کے ذریعے

میلاد کے انعقاد کے ذریعے

 عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مہندی اور چوڑیوں کا اہتمام کریں۔ جو ہمارے رسم و رواج کے مطابق خوشی کا جائز اظہار ہے (البتہ اس کی نمائش نامحرم کے سامنے کرکے گناہکار نہ ہوجائیں)

 آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کی خوشی میں بچوں میں شیرینی بانٹیں تاکہ شعوری طور پر بچوں میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی کا احساس پیدا ہو۔

 دوسری عیدوں کی طرح اس عید پر دوستوں اور رشتے داروں کوکارڈز بھیجیں۔

ٹیلی فون ،ای میل اور SMS کے ذریعے دوسروں کو مبارک باد دیں۔

 ایک دوسرے کو تحائف دیں ۔

ارشادات نبویصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عام کریں، آپ بھی کچھ اقوال لکھ کر ہم سب کو سیرت النبی پر عمل کرنے کی ترغیب دے سکتے ہیں، کچھ اقوال آپکی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت کی جارہی ہے:

 ہمیں دکھاوے اور نام و نمود کے تباہ کن صفت سے بہت ہوشیار اور چوکنا رہنا ہوگا ورنہ ساری محنت برباد ہوجائے گی ۔

بہترین کلام اللہ کی کتاب اور بہترین سیرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیر ت ہے ۔ جس کی پیروی کی جانی چاہیے۔

 میں نے جہنم کی آگ سے زیادہ خطرناک چیز نہیں دیکھی کہ جس سے بھاگنے والا سو رہا ہے اور جنت سے زیادہ عمدہ چیزنہیں دیکھی کہ جس کا چاہنے والا سو رہا ہے ۔

سچائی کے ساتھ معاملہ کرنے والا امانت دار تاجر قیامت کے دن نبیوں، صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہوگا۔

 اپنے مال کو بیچنے میں کثرت سے قسمیں کھانے سے بچو۔ یہ وقتی طور پر تو تجارت کو فروغ دیتی ہیں لیکن آخرکار برکت کو ختم کر دیتی ہے۔

وہ شخص جو اشیاء ضرورت کو نہیں روکتا بلکہ وقت پر بازار میں لاتا ہے تو وہ اللہ کی رحمت کا مستحق ہے اور اسے اللہ رزق دے گا اور وہ شخص جو ذخیرہ اندوزی کرتا ہے وہ لعنت کا مستحق ہے ۔

 مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کی مزدوری دے دو ۔

اللہ کی لعنت ہو رشوت دینے والے پر اور رشوت لینے والے پر ۔

 باپ اپنی اولاد کو جو کچھ دیتا ہے اس میں سے سب سے بہتر عطیہ اس کی اچھی تعلیم و تربیت ہے ۔

جب انسان مرجاتا ہے تو اس کا عمل ختم ہوجاتا ہے مگر تین قسم کے اعمال ایسے ہیں کہ ان کا ثواب مرنے کے بعد بھی ملتا رہتا ہے ۔

(۱) صدقہ جاریہ

(۲) ایسا علم چھوڑ جائے جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں ۔

(۳) نیک لڑکا جو اس کے لئے دعا کرتا ہے ۔

 مسلمانوں کے گھروں میں سب سے بہتر گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم ہو ، اور اس کے ساتھ اچھا سلوک کیاجاتا ہو ۔

 بے زبان جانوروں کے بارے میں اللہ سے ڈرو ۔ ان پر اچھی حالت میں سوار ہو اور اچھی حالت میں ان کو چھوڑو ۔ ان کو بھوکا رکھنا اور زیادہ کام لینا خدا کے غضب کا باعث ہے ۔

 دوسروں کی مصیبت پر خوشی کا اظہار نہ کرو ۔ ورنہ اللہ اس پر رحم فرمائے گا اور مصیبت ہٹا دے گا اور تجھے مصیبت میں مبتلا کردے گا۔

جھوٹ بولنا کسی حال میں بھی جائز نہیں ۔ نہ تو سنجیدگی کے ساتھ اور نہ ہی مذاق کے طور پر اور یہ بھی جائز نہیں کہ تم میں سے کوئی اپنے بچے سے کسی چیز کے دینے کا وعدہ کرے اور پھر پورا نہ کرے ۔

 دلوں کے زنگ کو دور کرنے کے لئے آدمی موت کو بہت یاد کرے اور دوسرا یہ کہ قرآن کی تلاوت کرے۔

خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جب میرا بندہ مجھے یاد کرتا ہے اور میری یاد میں جب اس کے دونوں ہونٹ ہلتے ہیں تو اس وقت میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں ۔ 

 

تبصرے
Loading...