ماہ صیام کے چھٹے دن کی دعا:تشریح و تفسیر

حوزہ نیوز ایجنسیl 
چھٹے دن کی دعا:اَللّهُمَّ لا تَخْذُلني فيہ لِتَعَرُّضِ مَعصِيَتِكَ وَلاتَضرِبني بِسِياطِ نَقِمَتِكَ وَزَحْزِحني فيہ مِن موُجِبات سَخَطِكَ بِمَنِّكَ وَاَياديكَ يا مُنتَهى رَغْبَة الرّاغِبينَ؛اے معبود! مجھے اس مہینے میں تیری نافرمانی کی وجہ سے ذلیل نہ فرما اور مجھے اپنے انتقام کا تازیانہ نہ مار، اور اپنے غضب کے اسباب و موجبات سے دور رکھ،اپنے فضل و عطا اور احسان کے واسطے اے رغبت کرنے والوں کی آخری امید’
حل لغات :- سیاط یا سواط سوط کی جمع کوڑا چابکخزلان :- یعنی کسی کی مدد کرنے سے ہاتھ کا اٹھا لینا۔
تین لفظیں آئی ہیں آج کی دعا میں ایک معصیت ‘ ایک سخط ‘ اور ایک نقم اور ان تینوں کا نتیجہ ہے خذلان ‘ لاتخذلنی کا ترجمہ مترجمین نے مجھے ذلیل نہ کر ‘ کیا ہے حالانکہ یہ ترجمہ درست نہیں ہے لا تفضحنی نہیں کہاگیا ہے یہاں لاتخذلنی ہے  یہ اور بات ہے کہ بسا اوقات کچھ زبان کی مجبوریاں ہوتی ہیں کبھی ترسیل معنی کی دشواریاں ہوتی ہیں’۔
خذلان ذلت و رسوائی کی آخری حد کو کہتے ہیں خذلان کسی کی مدد سے ہاتھ کو اٹھا لینا ہے کسی کو اس کے حال پر چھوڑ دینا ہے لا تخذلنی یعنی اے اللہ نافرمانی کی وجہ سے مجھے میرے حال پر نہ چھوڑدینا یہ کتنی بڑی ذلت ہے کہ خدا کسی کو اسکے حال پر چھوڑ دے۔
مجموعی طور پر اس دعا میں گناہ کے نتائج و اثرات سے پناہ مانگی گئی ہے۔ جی ہاں
گناہ نفس کو ذلیل ‘نجس ‘ تنگ اور تاریک کردیتا ہے گناہ کا ایک اثر یہ بھی ہے کہ گنہگار کو لوگوں سے وحشت ہوجاتی ہے اور جیسے جیسے یہ وحشت اس کے اندرترقی کرتی جاتی ہے ویسے ویسے وہ لوگوں سے دور بھاگتا جاتا ہے اللہ اسے تنہا نہیں چھوڑتا وہ خود تنہائی کو لپیٹ لیتا ہے وہ خود لوگوں سے کٹ جاتا ہے وہ خود لوگوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے گریز کرنے لگتا ہے وہ اچھے لوگوں سے استفادہ کرنے سے محروم ہوجاتا ہے وہ آہستہ آہستہ رحمانی گروہ سے دور ہوتا جاتا ہے اور شیطانی گروہ سے نزدیک تر ہوجاتا ہے بندہ جلدی توبہ نہ کرے تو یہ وحشت اتنا ترقی کرجاتی ہے کہ وہ خود اپنی بیوی اور بچوں سے وحشت کرنے لگتا ہے اور ایک منزل وہ بھی آتی ہے کہ اسے اپنے آپ سے وحشت ہونے لگتی ہے آپ نے دیکھا ہوگا گنہگار آدمی ہمیشہ خوف زدہ رہتا ہے کہتے ہیں نا کہ گنہگار کا دل رگوں سے نہیں پرندے کے پروں سے بندھا ہوا ہوتا ہے کہ دروازہ کھٹکا سمجھا شکاری آگیا جی ہاں اطاعت امن کا قلعہ ہے جو اس قلعہ سے نکلے گا وہ خوف و ہراس کا شکار ہوجائے گا۔
گناہ اور نافرمانی کا وائرس:- گناہ اور نافرمانی کی وجہ سے زمین شق ہوجاتی ہے آبادیاں زمین کے اندر دھنس جاتی ہیں زمین کی برکتیں اور اسکی روئیدگی ختم ہوجاتی ہے کہتے ہیں قوم ثمود کے گناہوں کا وائرس پانی میں بھی سرایت کرگیا تھا پھلوں اور سبزیوں میں بھی درآیا تھا پچھلی امتوں کا جو نقشہ قرآن مجید نے کھینچا ہے وہ رونگٹے کھڑا کردینے والا ہے گناہ کے وائرس نے شہروں ابادیوں باغوں کھیتوں اور جانوروں کو تک برباد کردیا ہے اللہ نے قوم لوط کی زمین کو بیخ و بن سے اکھاڑدیا تھا۔
فَلَمَّا جَاءَ أَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِيَهَا سَافِلَهَا وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهَا حِجَارَةً مِنْ سِجِّيلٍ؛جب ہمارا عذاب آپہنچا تو ہم نے اس بستی کو زیر و زبر کردیا اور کنکریلے پتھر ہم نے تہہ بہ تہہ برسائے۔
جس طرح علم انبیاء کی میراث ہے اسی طرح گناہ بھی گنہگاروں کی میراث ہے یہ وائرس منتقل ہوتا رہتا ہے لواطت قوم لوط کا ترکہ ہے کیا آج نہیں ہے ؟ مدرسوں میں ہے ‘ ناپ تول میں کمی قوم شعیب کی میراث ہے کیا آج نہیں ہے؟ مشہد اور کربلا کے بازاروں میں ہے’ زمین پر فساد برپا کرنا فرعون اور قوم فرعون کی میراث ہے کیا آج نہیں ہے؟ ہماری مسجدوں اور امام بارگاہوں میں ہے ‘ زمین پر اکڑ کر چلنا قوم ہود کا ترکہ ہے کیا آج نہیں ہے؟ ہمارے مالداروں میں ہے ‘ سیدھے سادے لوگوں کو دھوکہ دینا شامیوں اور کوفیوں کا ترکہ ہے کیا آج نہیں ہے؟ تمام چوکھٹوں چبوتروں اور مذہب کے ٹھیکیداروں میں ہے اور اللہ کے انتقام اور اس کے قہر کا تازیانہ انہی گناہوں پر آیا ہے جس سے ہم بے خبر ہیں جب گناہ معاشرے کے ریشہ ریشہ میں ہے تو کیا ” کورونا ” نہیں آئے گا ؟ یہ اس کا من و احسان ہے کہ اسکی رحمت اسکے قہر پر غالب ہے امیرالمومنین نے امام حسن(ع)کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا:وَ لَمْ یُعَاجِلْکَ بِالنِّقْمَهِ؛بیٹا اس نے سزا میں جلدی نہیں کی ہے،وَ لَمْ یَفْضَحْکَ حَیْثُ الْفَضِیحَهُ بِکَ أَوْلَى؛جہاں تمہیں رسوا کرنا چاہئیے تھا وہاں بھی اسنے رسوا نہیں کیا ہے۔
اللہ اس عظیم مہینہ میں ہمیں گناہ کے نتائج و اثرات کی شناخت اور اس سے بچنے کی توفیق کرامت فرمائے۔آمین

تحریر: سلمان عابدی

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے
Loading...