” قرآن کریم میں قَسَموں (OATHS)کی أنواع ”

سید عقیل حیدر زیدی المشہدی

 

قرآن کریم میں قَسَموں کی أنواع کے حوالے سے گذشتہ مقالات میں ہم نے بیان کیا کہ قَسَم کی ایک نوع ” صریح و ظاہر قَسَم ” اور دوسری ” غیرصریح و مُضمَر قَسَم ”ہوتی ہے، ان دونوں أنواع کی مختلف صورتوں کی وضاحت بھی بیان کی، لیکن قَسَم کی یہ تقسیم اسلوب اور روشِ قَسَم کے لحاظ سے ہوتی ہے، جبکہ قَسَم کو ہم قسم کھائی جانے والی چیز اور اس کے جواب کے لحاظ سے بھی تقسیم کرسکتے ہیں، زیر نظر مقالے میں ہم انہی دو تقسیموں کے بارے میں بحث کریں گے۔

”مُقْسَم بِہ” (وہ چیزیں جن کے ساتھ قسم کھائی جاتی ہیں)

عربی زبان میں قَسَم ایک مکمل جملہ ہوتی ہے اور جملۂ قَسَم میں بنیادی و اساسی رکن وہ چیز ہوتی ہے کہ جس کے ساتھ قسم کھائی جاتی ہے، اوراُسے اصطلاحاً ”مُقْسَم بِہ” کہتے ہیں، اور قرآن کریم کے یہ”مُقْسَم بِہ” بہت زیادہ اہمیت اور توجّہ کے حامل ہیں، کیونکہ یہ ہر پڑھنے اور سننے والوں کی توجّہ اپنی جانب مبذول کرتے ہیں، تاکہ خود اِن کے ثبوت، استحکام اور ارزشمند ہونے کو جوابِ قَسَم (مُقْسَم عَلَیْہِ) کے ثابت اور استوار ہونے کیلئے معیار قرار دیا جاسکے، البتہ قرآن کریم نے اِن قَسَم کی چیزوں، یعنی”مُقْسَم بِہ” اور ان کے موارد میں بنیادی تبدیلی پیدا کی ہے، اور ایسے اُمور کی قسم کھائی ہے جو حقیقی اور واقعی ارزش رکھتے ہیں، قرآن کریم میں دیکھے جانے والے اور محسوس امور کی بھی قسم کھائی گئی ہے، جیسے: چاند، سورج، ستارے، زمین، آسمان، شب و روز، پیغمبر اکرم ۖ اور مکّہ مکرّمہ وغیرہ، اور نہ دیکھائی دینے والے، نامحسوس اور معنوی امور کی بھی قسم کھائی گئی ہے، جیسے:فرشتے، روز قیامت، ملامت کرنے والا نفس اور وہ چیزیں جو ہم نہیں دیکھ سکتے۔ ١

قرآن کریم میں ”مُقْسَم بِہ” کی أنواع

قرآن کریم کی متعدد قسمیں پروردگار عالم کی ذاتِ اقدس، یعنی اس عالم کے مبداء ہستی سے تعلُّق رکھتی ہیں، اور یہ قسمیں ”اللہ” اور ”ربّ” کے عنوان سے کھائی گئی ہیں، اسم جلالہ ”اللہ” سے قرآن کریم میں کل نو قسمیں واقع ہوئی ہیں، ٢ لیکن اِن میں سے فقط دو مورد میں قسم کھانے کی نسبت خود اللہ کی ذات کی طرف ہے، ٣ اور باقی سات موارد میں قسم کھانے والے انسان ہیں، اسی طرح لفظِ ”ربّ” سے قسم کھانا بھی تقریباً 10 مقامات پر نظر آتا ہے، اِن میں سے پانچ موارد میں قسم کھانے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے، ٤ اور تین مورد میں قسم کھانے کی نسبت پیغمبر اکرم ۖ کی ذاتِ گرامی کی طرف ہے، ٥ اور لفظِ ”ربّ” سے دو مورد میں قسم بندگانِ خدا کی جانب سے کھائی گئی ہے۔٦

نیز چار موارد میں بطور کنایہ بھی اللہ تعالیٰ کی قسم واقع ہوئی ہے، ٧ لیکن مفسِّرین کے درمیان اِن چار موارد کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے اور یہ قسمیں اس جگہ ہیں جہاں قسم حرف ”ما” سے شروع ہوئی ہیں، جو مفسِّرین اس ”ما” کو ”مائے موصولہ” جانتے ہیں، وہ ان قسموں کو ذاتِ پروردگار عالم کیلئے قرار دیتے ہیں، لیکن جو مفسِّرین اِس ”ما” کو ”مائے مصدریہ” سمجھتے ہیں، اُنکے نزدیک یہ قسم، پروردگار عالم کے فعل اور اُسکی صنعت کے بارے میں ہے، نہ کہ خود اُسکی ذاتِ مقدَّس کے بارے میں۔

اِس مذکورہ نوع کی قسمیں، قرآن کریم میں سب سے اعلیٰ و ارفع مرتبہ کی قسموں”مُقْسَم بِہ” کو تشکیل دیتی ہیں، کیونکہ ” اللہ ” ہر چیز اور ہر شخص کے لئے، ہر حالت میں مرجع و پناہ گاہ ہے، اور ایسی ذات ہے جو تمام ملّتوں اور تمام قوموں کے درمیان موردِ قبول رہی ہے، اور اِس طرح کی قسموں سے حاصل ہونے والا اطمینان، دوسری چیزوں کی قسم کی نسبت، کہیں زیادہ ہے، اسلئے قسم میں اصل ” اللہ کی قسم ” ہی ہے، حتیٰ کہ بعض کا عقیدہ یہ ہے کہ بندگانِ خدا کے لئے غیر خدا کی قسم کھانا جائز ہی نہیں ہے، کیونکہ یہ ایک طرح کا شرک ہے، لیکن اللہ تعالیٰ جس چیز کی چاہے قسم کھا سکتا ہے، اسلئے کہ یہ تمام چیزیں اُسکی مخلوقات اور پیدا کی ہوئی ہیں، اور یہ سب چیزیں اپنے خالق اور بنانے والے صانع پر دلالت کرتی ہیں، اور دوسری جانب یہ کہ اللہ تعالیٰ کا اپنی اِن مخلوقات کی قسم کھانے کا مقصد انسانوں کو اِنکی ارزش و عظمت اور اُس منفعت کی طرف توجّہ دلانے کی خاطر ہے، جو خود انسانوں ہی کو اِن مخلوقات سے پہنچتی ہے۔٨

قرآن کریم میں دو مورد میں پیغمبر اکرم ۖ کی ذات اور آپکی پُر برکت زندگی، قسم کا موضوع قرار پائے ہیں،سورۂ حجر میں خدا وند عالم آنحضرت ۖ کی زندگی کی با لصراحت قسم کھاتا ہے، جبکہ سورہ ٔ بروج میں آپ ۖ کے تمام انسانوں حتیٰ کہ گذشتہ اُمتوں کے اعمال و کردار پر شاہد ہونے کو قسم کے ذریعے بیان فرماتا ہے اور یہ قسمیں آپۖ کی بارگاہ خدا وندی میں شرافت اور عظمت کو ظاہر کرتی ہیں۔ ”ابن ِ مَردویہ” ابن ِعباس سے نقل کرتا ہے کہ ” اللہ تعالیٰ نے کسی کو، جو حضرت محمّدۖ سے زیادہ اُس کے نزدیک قابل احترام ہو، پیدا ہی نہیں کیا ہے اور ہم نے کبھی نہیں سنا کہ اللہ نے آپ ۖ کے علاوہ کسی اور کی زندگی کی قسم کھائی ہو۔”٩

قرآن کریم میں قسم کا ایک اور موضوع، خود ”قرآن مجید ” یعنی کتابِ شریعت دین مقدّس اسلام بھی ہے، پانچ سورتوں کے آغاز میں ”حروفِ مقطَّعات” کے بعد، اللہ تعالیٰ نے اِس کتاب مقدّس کی قسم کھائی ہے،حروفِ مقطَّعات وہ حروف ہیں جو خود اس کتابِ الٰہی کی بلند و بالا عظمت پر دلالت کرتے ہیں، تین مورد میں قرآن کریم کی کسی ایک اعلیٰ صفت کے ساتھ قسم کھائی گئی ہے،١٠ اور دو مورد میں ”کتاب مبین” کے عنوان سے قسم کھائی ہے،١١ لیکن خود اِن آیات کا ذیل اور جواب ِ قسم اس مطلب کو ظاہر کرتے ہیں کہ ”کتاب مبین” سے مراد قرآن کریم ہی ہے۔

”فرشتے ” جو اس جہان ہستی کے چلانے اور اس کا نظم و نسق برقرار رکھنے میں انتہائی کارآمد اور مطیعِ فرمان طاقت سمجھے جاسکتے ہیں، ارشاد رب العزت ہوتا ہے: (لٰا یَعْصُوْنَ اللّٰہَ مٰآ أَمَرَھُمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مٰا یُؤْمَرُوْنَ )”وہ (فرشتے) ہرگز خدا کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے ہیں اور جو ان کو حکم دیا جاتا ہے اسی پر عمل کرتے ہیں۔”١٢ چند سورتوں میںیہ فرشتے بھی قسم کا عنوان بنے ہیں، لیکن فرشتوں کے نام اور عنوان سے نہیں، بلکہ اس دیکھائی نہ دینے والی اور نامحسوس مخلوق کے مختلف اوصاف کے ذکر کرنے کے ساتھ۔ اللہ تعالیٰ اس عالم طبیعت کے تمام امور کو اِن ہی فرشتوں کے توسُّط سے انجام دیتا ہے، سورۂ صافّات، سورۂ مرسلات اور سورۂ نازعات کی تمام شروع کی قسمیں فرشتوں سے مربوط ہیں، لیکن سورۂ ذاریات کی چوتھی قسم (فَالْمُقَسِّمٰاتِ أَمْرًا) میں مفسِّرین کے درمیان اختلاف ہے، بعض اس قسم کو فرشتوں کیلئے تفسیر کرتے ہیں، جبکہ دوسرے بعض مفسِّرین اس قسم کو ہواؤں کا وصف قرار دیتے ہیں۔

قرآن کریم کی قسموں کے موضوعات میں سے ایک اور جالب نظر موضوع، جس نے ہمیشہ انسانی فکروں کو اپنی جانب مبذول رکھاہے، اور اس خوبصورت و حیرت انگیز جہان کے بارے میں زیادہ سے زیادہ تفکُّر اور تدبُّر کرنے کی دعوت دیتا ہے، وہ اس جہان ہستی کے موجودات کی قسمیں ہیں، جیسے: چاند، سورج، ستارے، زمین و آسمان، دن اور اسکی روشنی، رات اور اسکی تاریکی نیز ہر وہ چیز جو انسان دیکھ سکتا ہے اور وہ جو نہیں دیکھ سکتا۔١٣
اِن با عظمت موجودات کی قسمیں، جو قرآن کریم کی سب سے زیادہ قسمیں شمار ہوتی ہیں ایک جانب اِن موجودات کی عظمت اور اِنکی محکم و پائیدار خلقت کو بیان کرنے کی خاطر ہیں، کہ انسان جس قدر بھی اس کتاب تکوین عالم میں دقّت اور غور و فکر کرے، اس عالم ہستی کے اسرار اُس پر زیادہ سے زیادہ کھلتے اور آشکارا ہوتے چلے جاتے ہیں، اور کسی بھی طرح کا کوئی نقص و عیب یا انحراف اِن موجودات میں مشاہدہ نہیں کرتا اور دوسری طرف یہ قسمیں اِن موجودات کے مخلوقِ خدا ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ اور اس طرح سے اللہ تعالیٰ، اُن لوگوں کی سوچ کو، جو اِن موجودات میں سے بعض کو مورد پرستش و عبادت سمجھتے تھے یا سمجھتے ہیں، مردود شمار کرتا ہے۔

بعض مقدّس مکانوں اور کچھ خاص زمانوں کی قسمیں بھی قرآن کریم میں آئی ہیں،کیونکہ زمان و مکان میں سے ہر ایک، انسان کی ہدایت اور تربیت میں بنیادی أثر رکھتے ہیں، مقدّس مکانات، جیسے: کوہ ِطور (حضرت موسیٰ کے مناجات کرنے کا مقام)، اللہ کا شہر أمن (مکّہ مکرّمہ )، اور طواف کرنے والوں کا آباد گھر یعنی خانہ کعبہ،١٤ اور اسی طرح عبادت و دعا کے مخصوص اوقات، جیسے: وقت ِفجر، صبح، ضحی (چاشت کا وقت)، عصر، شب و روز وغیرہ کی بھی قسم کھائی گئی ہے، کیونکہ یہ تمام قسمیں انسان کی توجّہ اپنی طرف مبذول کرتی ہیں، اور جاذبِ نظر یہ ہے کہ اِن میں سے اکثر قسمیں کسی ایسی قید کے ساتھ ہیں، جو اِن قسموں کی تأثیر کو مزید بڑھا دیتی ہے اور زیادہ دقّت و توجّہ چاہتی ہے۔

بعض محقّقین نے قرآن کریم کی اِن تمام قسموں کو تین چیزوں میں منحصر کیا ہے،١٧ یعنی اللہ تعالیٰ نے قرآن میں یا اپنی ذات اقدس کی قسم کھائی ہے، یا اپنے فعل کی قسم کھائی ہے، جیسے : (۔۔۔ ومٰا بَنَا ھٰا۔۔۔وَمٰا طَحٰاھٰا۔۔۔وَ مٰا سَوّٰاھٰا)١٦ اور یا اپنے مفعول کی قسم کھائی ہے، جیسے 🙁 وَالطُّوْرِ وَکِتٰابٍ مَسْطُورٍ)١٨

شیخ طوسی ، ابو علی جبائی (جو یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ قرآن کریم میں اللہ کی مخلوقات کی ہر قسم، حقیقت میں اُسکے خالق اور صانع کی قسم ہے) کی بات کو ردّ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ” اس طرح کی تأویلات قرآن مجید کے ظاہر کو بغیر کسی دلیل کے چھوڑنے کا موجب بنتی ہیں، کیونکہ ممکن ہے کہ اس طرح کی قسمیں انسانوں کو اس عبرت اور منفعت کی جانب آگاہ کرنے کیلئے، جو اللہ تعالیٰ نے اِن مخلوقات میں رکھی ہے، کھائی گئی ہوں۔ ”١٩

بعض اِس عقیدے کی بناء پر کہ اللہ کے غیر کی قسم کھانا جائز نہیں ہے، قرآن کریم کی تمام اُن قسموں میں، جو مخلوقات کی کھائی گئی ہیں، لفظ ”ربّ” کو مقدّر جانتے ہیں، یعنی تقدیراً اِس طرح قرار دیتے ہے: (وَرَبِّ النّٰازِعٰاتِ، وَرَبِّ السَّمٰائِ، وَرَبِّ الأرْضِ ۔۔۔)اس کے نتیجے میں قرآن کریم کی تمام قسمیں فقط اللہ یا اسکی صفات کی کھائی گئی ہیں۔٢٠

لیکن یہ عقیدہ بھی صحیح نہیں ہے اور محقّقین نے اسکے تین جواب دیئے ہیں، جو ہم بطور خلاصہ بیان کرتے ہیں:

اوّل:

تمام قسم کے موارد میں لفظ ”ربّ” کا مقدّر ہونا ممکن نہیں ہے، کیونکہ سورۂ حآقہ کی قسم ”مجھے قسم ہے اُسکی جو تم دیکھتے ہو اور اُسکی جو تم نہیں دیکھتے ہو۔” ٢١ میں قسم کا دوسرا حصّہ خود پروردگار عالم کو بھی شامل ہے، اور یہ دونوں قسم کے حصّے تمام عالم ہستی کو شامل ہیں، یعنی خالق و مخلوق ہر دو اس میں موجود ہیں، پس ”ربّ” کے مقدّر ماننے کا کوئی فائدہ نہیں ہے، نیز مائے موصولہ سے شروع ہونے والی قسموں میں بھی لفظ ِ”ربّ ” کا مقدّر ہونا ممکن نہیں ہے، کیونکہ اس مائے موصولہ سے مقصود بھی اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے۔ ٢٢

دوم:

اگر قرآن کریم کی تمام قسموں میں لفظ ِ” ربّ ” تقدیراً موجود ہو، تو قرآن کی قسموں کی تمام جذابیّت اور خوبصورتی، جو اس کتاب آسمانی کے اعجاز علمی کو تشکیل دیتی ہے، بے اہمیت اور بے أثر ہوجائے گی، اللہ تعالیٰ نے اِن مختلف اور طرح طرح کی چیزوں کی قسم کھائی ہے، تاکہ انسان کو انکی عظیم اور پائیدار خلقت کی طرف توجّہ دلائے اور اسطرح سے اُس مطلب کو، جس کے ثابت کرنے اور تاکید کی خاطر یہ قسمیں کھائی گئی ہیں،تحقُّق بخشے، کیونکہ قرآن کی قسموں کا اپنے جواب کے ساتھ قریبی تعلُّق اور ارتباط ہوتا ہے۔

سوم:

قرآن کریم کی سورتوں میں قسموں کی تعداد مختلف ہے، ایک قسم سے لیکر پانچ قسمیں تک پے در پے کھائی گئی ہیں،٢٣ حتی کہ سورۂ شمس میں گیارہ قسمیں واقع ہوئی ہیں، یہ متعدّد قسمیں خود اس مطلب کی طرف اشارہ ہیں کہ”مُقْسَم بِہ” ایک چیز نہیں ہے، بلکہ اللہ نے یہ چاہا ہے کہ اپنی مخلوقات کی مختلف انواع کی طرف انسان کو متوجّہ کرے، تاکہ اِن مخلوقات کی خلقت میں جو استحکام اور پائیداری ہے، انسان اس میں دقّت اور غور و فکر کرکے خالق عالم ہستی تک پہنچ سکے۔

”مُقْسَم بِہ” کا کلام سے حذف ہونا

جملۂ قسم میں اصل یہ ہے کہ اُس کے تمام ارکان (فعل قسم، حرف قسم اور مُقْسَم بِہ) ذکر ہوں، جیسے: (فَلٰا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشٰارِقِ وَالْمَغٰارِبِ) ”مجھے قسم ہے تمام مشرق زمین اور مغرب زمین کے پروردگار کی۔” ٢٤ لیکن کبھی جملۂ قسم کے ارکان میں سے کوئی ایک حذف ہوجاتا ہے، اور جیسا کہ پہلے بیان ہوا کہ کلام عرب میں قسم کی کثرت کی وجہ سے فعل قسم ہی زیادہ تر بطور تخفیف حذف ہوتا ہے، اور قرآن کریم کی اکثر قسمیں اسی طرح ہیں کہ ان میں فعل قسم حذف ہوا ہے، اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ”مُقْسَم بِہ” یعنی خود قسم کلام سے حذف ہوجاتی ہے اور فقط فعل قسم کے ذکر کرنے پر اکتفاء کی جاتی ہے، کیونکہ یہ فعل قسم کلام میں قسم کے موجود ہونے پر دلالت کرتا ہے، جیسے: (وَقٰاسَمَھُمٰا اِنِّی لَکُمٰا لَمِنَ النّٰاصِحِیْنَ)”اور (شیطان نے ) اُن دونوں سے قَسم کھائی کہ میں تمہیں نصیحت کرنے والوں میں سے ہوں۔ ”٢٥

قرآن کریم میں جوابِ قسم ”مُقْسَم عَلَیْہِ” کی أنواع

قرآن کریم میں بہت سے مطالب، اِس کتابِ مقدَّس کی قسموں کے جواب کو تشکیل دیتے ہیں اور یہ اس کتاب آسمانی کی خصوصیت ہے کہ انتہائی پیچیدہ اور دقیق مطالب کو، مختلف اور حیرت انگیز قسموں کے ذریعے ثابت کیا ہے، اور ان قسموں کے اسلوب اور روش کو، اِس کتاب کے علمی و بیانی اعجاز کے صورتوں سے شمار کیا جاسکتا ہے، کہ جس نے ہمیشہ اسلامی دانشمندوں اور محقِّقین کی توجّہ اپنی جانب مبذول رکھی ہے۔

فخر رازی اِن جوابِ قسم کے بارے میں لکھتا ہے: ”وہ سورتیں جن کا آغاز حروف مقطِّعہ سے نہیں ہوا، اُن سورتوں کا جوابِ قسم، اسلام کے تین اصول میں سے کوئی ایک چیز ہے، یعنی وحدانیت خداوند متعال، نبوّت و رسالت ِ پیغبر اکرم ۖ اور روز قیامت اور اس دن انسانوں کا محشور ہونا، اور وہ دوسرے موضوعات جو جوابِ قسم واقع ہوئے ہیں، وہ اِن تین اصولوں کی فروعات ہیں اور اِن تین کی طرف لوٹ جانے والے امور ہیں۔” ٢٦

لیکن ابنِ قیَّم جوزی قرآن کریم کی اِن قسموں کے جوابِ قسم کو پانچ أنواع کے طور پر بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے: ”کبھی خداوند عالم نے اپنی وحدانیت و قدرت پر قسم کھائی ہے اور کبھی اس بات پر کہ قرآن حق ہے اور مطالب حقّہ کو بیان کرتا ہے اور کبھی یہ کہ خدا کا نمائندہ (پیغمبر اکرم ۖ) حق ہے (اور وہ سیدھے اور حق راستے پر ہے، اور اُسکی گفتگو سرچشمہ وحی سے لبریز ہے ) اور کبھی اس بات پر قسم کھائی ہے کہ روز جزاء و حساب حتماً واقع ہونے والا ہے اور قیامت کا وعدہ سچّا ہے، اور کبھی انسان کے حالات پر قسم کھائی ہے۔” ٢٧

اگرچہ بعض محقِّقین نے اِن جوابِ قسم کو آٹھ اور دوسرے بعض نے دس انواع تک بھی وسعت دی ہے،٢٨ لیکن ہم اِن متعدّد انواع کو اسلام کے تین بنیادی اصولوں کی طرف پلٹا سکتے ہیں، جیسا کہ فخر رازی نے بیان کیا ہے، حتّیٰ کہ یہ بھی ممکن ہے کہ تمام اِن قسموں کو جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کھائی ہیں، مبعوث و محشور ہونے اور قیامت کے برپا ہونے کے لئے قرار دیں، اور تمام جوابِ قسم کو اِس مہم مسئلے سے کسی طرح ربط دیں،کیونکہ پروردگار عالم کی وحدانیت اور اُسکی لامحدود قدرت ہو یا پیغمبر اکرم ۖ اور قرآن کے صدقِ گفتار اور سچّے ہونے کا معاملہ، سب کے سب حقیقت میں مبعوث و محشور ہونے اور روز قیامت کے برپا ہونے کا یقین دلانے کے لئے ہیں، اسلئے کہ جو کوئی بھی روز قیامت کو قبول کرتا ہے، وہ خدا وند عالم کی وحدانیت و قدرت، پیغمبر اکرم ۖ کی نبوت و رسالت اور قرآن کے وحی الٰہی ہونے کو بھی قبول کرتا ہے، لیکن جوروز قیامت کا منکِر ہے، حقیقت میں وہ پروردگار عالم کے علم و قدرت اور وحدانیت، پیغمبر اکرم ۖ کی نبوّت و رسالت اور قرآن کے وحی الٰہی ہونے اور اس کے وعدوں کو بھی قبول نہیں کرتا ہے، اور اِن سب امور کا بھی منکِر ہے۔

جملہ جوابِ قسم ”مُقْسَم عَلَیْہِ” کا کلام سے حذف ہونا

کبھی جملۂ جوابِ قسم کلام سے حذف ہوجاتا ہے، لیکن تقدیراً موجود ہوتا ہے، اور ”ڈاکٹر عایشہ” جو اس طرح کے موارد میں یہ عقیدہ رکھتی ہیں کہ قسم، اپنے جواب سے بے نیاز ہے اور اصلی ہدف و مقصد خود قسم کا بیان کرنا ہی ہے، تاکہ انسانوں کو قسم کے موارد کی بزرگی و عظمت کی طرف متنبّہ اور آگاہ کیا جا سکے۔ ٢٩ اُنکا یہ عقیدہ درست نہیں ہے، کیونکہ حقیقت میں مقصود ِ اصلی خود جوابِ قسم ہی ہوتا ہے، اور جملۂ قسم، جوابِ قسم کے بغیر ناقص ہے، اور قرآن کریم کی صریح و ظاہر قسموں میں فقط چھ موارد میں جوابِ قسم محذوف ہے۔ ٣٠ اور باقی تمام موارد میں جوابِ قسم ذکر ہوا ہے ،مزید یہ کہ قرآن کریم کی قسمیں، تمام ہی موارد میں عظمت و اہمیت کی حامل ہیں، کیونکہ پروردگار عالم کی مورد عنایت قرار پائی ہیں، اسلئے ہم فقط اِ ن چھ موارد میں جہاں جوابِ قسم حذف ہوا ہے، قسموں کو با عظمت قرار نہیں دے سکتے۔

جلال الدین سیوطی جوابِ قسم کے حذف ہونے کے بارے میں لکھتا ہے: ”جوابِ قسم اکثر اُس جگہ حذف ہوتا ہے، جہاں خود قسم ” مُقْسَم بِہ”اُس جواب پر دلالت کرے، اور غرض خود قسم کے ذکر کرنے سے حاصل ہو جائے، پس جوابِ قسم ”مُقْسَم علیہ” کا حذف ہونا، اس کے ذکر سے زیادہ بلیغ تر اور مختصر تر ہے، جیسے: ( ص وَ القُرْآنِ ذِی الذِّکْرِ) ٣١ اِس قسم میں خود قرآن کی عظمت بیان ہوئی ہے اور قرآن کا ذکر اور یادآوری والا ہونا ایسا وصف ہے، جو اس بات کو متضمِّن ہے کہ قرآن بندوں کی جو بھی نیاز اور ضرورت ہے اُسے بیان کرتا ہے اور یہ وہی چیز ہے جس پر قسم کھائی گئی ہے، یعنی یہ کہ قرآن حق ہے اور اللہ کی طرف سے نازل ہوا ہے۔ ٣٢

ابن قیّم جوزیہ بھی یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ قرآنی قسموں اور انکے جواب کے درمیان خاص طرح کا تناسب قائم ہے، اور خدا وند عالم نے ایسی قسموں کو اختیار کیا ہے کہ جو جوابِ قسم کے ساتھ شدید اور گہرا تعلُّق رکھتی ہیں ، لہٰذا جس جگہ قرآن کریم کی قسم کھائی ہے اور اُسکا جوابِ قَسم حذف ہوا ہے، ضروری ہے کہ وہ جواب خود قرآن کا سچا اور حقّ ہونا ہو۔٣٣

لیکن ”ابن قیّم” کی یہ بات درست نظر نہیں آتی، کیونکہ قسم اور جوابِ قسم کے درمیان تناسب اور تعلُّق ہونا ایک چیز ہے، اور ان دونوں کا ایک ہی چیز ہونا، دوسری چیز ہے، اسلئے کہ لازم اور ضروری نہیں ہے کہ قسم اور جوابِ قسم ایک ہی چیز ہوں، جیسا کہ سورۂ یٰسین میں اللہ تعالیٰ نے پیغمبر اکرمۖ کے رسول اور منذِر (ڈرانے والا)ہونے پر قرآن کی قسم کھائی ہے، اور بہت واضح ہے کہ قرآن اور آنحضرت ۖ کے درمیان نزدیک کا تعلُّق و ارتباط موجود ہے، لیکن یہ دونوں ایک چیز نہیں ہیں۔

وہ چھ مقامات جہاں جوابِ قسم محذوف ہے، اُن میں سے سورۂ صاد اور سورۂ قاف میں، وہ جوابِ قسم جو محذوف ہے، خود اِن دونوں سورتوں کے سیاق اور سورۂ یٰسین کی مدد سے حاصل کیا جا سکتا ہے، اور وہ پیغمبر اکرم ۖ کا منذِر ہونا ہے، قرآن کریم آنحضرت ۖ کی حقانیت و صداقت کی سند ہے، اور آپکیۖ رسالت کی تائید کرتا ہے، اور حقیقت میں آپ ۖکی رسالت کا ایک آلہ ہے، کہ آپ ۖ اِس کی آیات کی تلاوت فرماکر لوگوں کو انذار فرماتے تھے۔ باقی چار سورتوں (قیامت، نازعات، بروج اور فجر) میں وہ محذوف جوابِ قسم، تمام انسانوں کا دوبارہ زندہ ہونا، روز قیامت کا احوال اور نیز کافروں کا عذاب دیا جانا ہے، جو انہی سورتوں کے سیاق اور بعد کی آیات سے معلوم ہوجاتا ہے، کیونکہ اِن سورتوں کا محور اصلی اور موضوع قیامت اور اس روز کے حالات کے گرد چکر لگاتا ہے۔

(وَالسَّلٰامُ عَلیٰ مَنِ اتَّبَعَ الْھُدیٰ)

seydaqeel@yahoo.com

حوالہ جات

١۔ فَلٰآ أُقْسِمُ بِمَا تُبْصِرُوْنَ * وَمَا لٰا تُبْصِرُونَ (سورۂ حآقہ ، آیت 38 اور 39) ”مجھے قسم ہے اُس کی جسے تم دیکھ رہے ہو اور اُس کی بھی جس کو تم نہیں دیکھ رہے ہو۔”
٢۔ سورۂ انعام، آیت 23 ؛ سورۂ یوسف، آیت 73، 85، 91 اور95 ؛ سورۂ نحل، آیت 56، 63 ؛ سورۂ انبیائ، آیت 57 ؛ سورۂ شعرائ، آیت 97
٣۔ سورۂ نحل، آیت 56 اور 63
٤۔ سورۂ نسائ، آیت 65 ؛ سورۂ حجر، آیت 92 ؛ سورۂ مریم، آیت 67 ؛ سورۂ ذاریات، آیت 23 ؛ سورہ ٔمعارج، آیت 40
٥۔ سورۂ یونس، آیت 53 ؛ سورۂ سبائ، آیت 3 ؛ سورۂ تغابن، آیت 7
٦۔ سورۂ انعام، آیت 23 اور 30
٧۔ سورۂ شمس، آیت 5،6 اور 7 ؛ سورۂ لیل، آیت 3
٨۔ جلال الدین عبد الرحمٰن ا لسیوطی ، اَلْاِتْقٰانُ فی عُلُوْمِ الْقُرْآنِ ، ج 4 ، تحقیق : محمد ابو الفضل ابراھیم ، منشورات الشریف الرضی ، بیدار عزیزی ،ص 55 ؛ بدر الدین الزرکشی ، اَلْبُرْھٰانُ فی عُلُوْمِ الْقُرْآنِ، ج 3 ، تعلیق : مصطفی عبد القادر عطا ، الطبعة الاُولیٰ ، بیروت ، دار الفکر ، 1408 ق (1988م) ، ص 47
٩۔ ابو علی الفضل ابن الحسن الطبرسی، مَجْمَعُ الْبَیٰانِ فی تَفْسِیْرِ الْقُرْآنِ، ج 6 ، گذشتہ ، ص 526؛ جلال الدین السیوطی، اَلْاِتْقٰانُ فی عُلُوْمِ الْقُرْآنِ، ج 4 ، گزشتہ ، ص 55
١٠۔ سورۂ یٰسین، آیت 2 ؛ سورۂ ص، آیت 1 ؛ سورۂ ق، آیت 1
١١۔ سورۂ زخرف، آیت 2 ؛ سورۂ دخان، آیت 2
١٢۔ سورۂ تحریم، آیت 6
١٣۔ رجوع کریں : سورۂ حآقہ ، آیت 38 اور 39، گزشتہ
١٤۔ رجوع کریں : سورۂ طور، آیت 1 اور 4 ؛ سورۂ تین ، آیت 2 اور 3 ؛ سورۂ بلد ، آیت 1
١٥۔ رجوع کریں : سورۂ فجر، آیت 1 تا 4 ؛ سورۂ شمس ، آیت 3 اور 4 ؛ سورۂ لیل ، آیت 1 اور 2 ؛ سورۂ ضحی ، آیت 1 اور 2 ؛ سورۂ عصر ، آیت 1 ؛ سورۂ انشقاق ، آیت 17 ؛ سورۂ تکویر ، آیت 17 اور 18
١٦۔ سورۂ شمس ، آیت 5 تا 7
١٧۔ جلال الدین السیوطی، اَلْاِتْقٰانُ فی عُلُوْمِ الْقُرْآنِ، ج4 ،گزشتہ ، ص 55 ؛ بدرالدین الزرکشی،اَلْبُرْھٰانُ فی عُلُوْمِ الْقُرْآنِ، ج 3 ،گزشتہ ، ص 47
١٨۔ سورۂ طور، آیت 1و2
١٩۔ محمد ابن الحسن الطوسی، اَلتِّبْیٰانُ فی تَفْسِیْرِ الْقُرْآنِ، ج 9 ، تحقیق و تصحیح : احمد قصیر العاملی ، الطبعة الاُولیٰ ، مکتبة الاعلام الاسلامی ، 1409 ق، ص 509
٢٠۔ محمد ابن عمر ابن حسین القرشی ، المعروف بہ فخر رازی، اَلتَّفْسِیْرُ الْکَبِیْرِ أَوْ مَفٰاتِیْحُ الْغَیْبِ ، ج 26 ، الطبعة الثالثة ، بیروت ، دار احیاء التراث العربی ، بدون ِتاریخ ، ص 117
٢١۔ سورۂ حاقہ ، آیت 38 اور 39
٢٢۔ رجوع کریں : سورۂ شمس ، آیت 5 ،6اور 7 ؛ سورۂ لیل ، آیت 3
٢٣۔ رجوع کریں: سورۂ طور ، آیت 1 تا 6 ؛ سورۂ مرسلات ، آیت 1 تا 5؛ سورۂ نازعات ، آیت 1 تا 5
٢٤۔ سورۂ معارج، آیت 40؛ نیز رجوع کریں: سورۂ قیامت ، آیت 1 اور 2 ؛ سورۂ حآقہ ، آیت 38 اور 39 ؛ سورۂ مائدہ ، آیت 108
٢٥۔ سورۂ اعراف ، آیت 21 ؛ نیز رجوع کریں: سورۂ مجادلہ ، آیت 18 ؛ سورۂ اعراف ، آیت 49
٢٦۔ محمد ابن عمر ابن حسین القرشی ، المعروف بہ فخر رازی ،اَلتَّفْسِیْرُ الْکَبِیْرُأَوْ مَفٰاتِیْحُ الْغَیْبِ ، ج 26 ،گزشتہ ، ص 627
٢٧۔ شمس الدین محمد ابن ابی بکر ( المعروف بابن ِ قیِّم الجوزیّة)،اَلتِّبْیٰانُ فی أَقْسٰامِ الْقُرْآنِ، تصحیح و تعلیق : طہٰ یوسف شاھین ، بیروت ، دار الکتب العلمیة ، ١٤٠٢ ق ، ص 7
٢٨۔ رجوع کریں: محمد المختار السلامی، اَلْقَسَمُ فی اللُّغَةِ وَ فی الْقُرْآنِ، الطبعة الاُولیٰ ، بیروت ، دار الغرب الاسلامی ، 1999 م ، ص 94 تا 99 ؛ علی العامر فارس، ظٰاھِرَةُ الْقَسَمِ فی الْقُرْآنِ الْکَرِیْمِ، قم مقدّس ، دار انوار الھُدیٰ ، ١٤١٤ق ، ص 83 تا 85
٢٩۔ رجوع کریں: عایشہ عبدالرحمٰن بنت الشاطی ، اِعجاز بیانی قرآن، حسین صابری ، تہران ، شرکت انتشارات علمی و فرہنگی ، 1376 ش ، ص 149
٣٠۔ رجوع کریں : سورۂ ص ؛ سورۂ ق ؛ سورۂ قیامت؛ سورۂ نازعات ؛ سورۂ بروج ؛ سورۂ فجر
٣١۔ سورۂ ص ، آیت 1
٣٢۔ جلال الدین السیوطی ،اَلْاِتْقٰانُ فی عُلُوْمِ الْقُرْآن ، ج4 ،گزشتہ ، ص 58
٣٣۔شمس الدین محمد ابن ابی بکر ( المعروف بابن ِ قیِّم الجوزیّة)،اَلتِّبْیٰانُ فی أَقْسٰامِ الْقُرْآن، گزشتہ ،
ص 11 ،12 اور 267

 

تبصرے
Loading...