قرآن ميں قلب

قلب كى لفظ قرآن اور احاديث ميں بہت زيادہ استعمال ہوئي ہے اور اسے ايك خاص اہميت قرار دى گئي ہے_ ليكن يہ خيال نہ كيا جائے كہ قلب سے مراد وہ دل ہے جو انسان كے دائيں جانب واقع ہوا ہے اور اپنى حركت سے خون كو انسان كے تمام بدن ميں پہچاتا ہے اور حيوانى زندگى كو باقى ركھتا ہے يہ اس لئے كہ قرآن مجيد ميں قلب كى لفظ كى طرف ايسى چيزيں منسوب كى گئي ہيں كہ جو اس قلب كے جس صنوبرى سے مناسبت نہيں ركھتيں مثلاً

فہم اور عقل:

قرآن فرماتا ہے كہ ”كيوں زمين كى سير نہيں كرتے تا كہ ايسا دل ركھتے ہوں كہ جس سے تعلق كريں_

عدم تعقل و فہم:

قرآن فرماتا ہے كہ ”ان كے دلوں پر مہر لگادى گئي ہے اور وہ نہيں سمجھتے_”

قرآن فرماتا ہے كہ ”انكے پاس دل موجود ہيں ليكن وہ نہيں سمجھتے اور آنكھيں موجود ہيں

ليكن وہ نہيں ديكھتے _

ايمان:

قرآن فرماتا ہے كہ ”خداوند عالم نے ان كے دلوں ميں ايمان قرار ديا ہے اور اپنى خاص روح سے ان كى تائيد كى ہے_ 

كفر و ايمان:

قرآن فرماتا ہے_ ” جو لوگ آخرت پر ايمان نہيں ركھتے ان كے دل انكار كرتے ہيں اور تكبر بجالاتے ہيں”_

نيز فرماتا ہے_ ”كافر وہ لوگ ہيں كہ خدا نے ان كے دلوں اور كانوں اور آنكھوں پر مہر ڈال دى ہے اور وہ غافل ہيں _(

نفاق:

قرآن فرماتا ہے كہ ” منافق اس سے ڈرتے ہيں كہ كوئي سورہ خدا كى طرف سے نازل ہوجائے اور جو كچھ وہ دل ميں چھپائے ہوئے ہيں وہ ظاہر ہوجائے _

ہدايت پانا:

قرآن ميں ہے كہ ”جو شخص اللہ پر ايمان لے آئے وہ اس كے دل كو ہدايت كرتا ہے اور خدا تمام چيزوں سے آگاہ ہے _

نيز خدا فرماتا ہے كہ ”گذرے ہوئے لوگوں كے ہلاك كردينے ميں اس شخص كے لئے نصيحت اور تذكرہ ہے جو دل ركھتا ہو يا حقائق كو سنتا ہو اور ان كا شاہد ہو _

اطمينان اور سكون:

قرآن ميں ہے كہ ”متوجہ رہو كہ اللہ كے ذكر اور ياد سے دل آرام حاصل كرتے

ہيں_اور نيز فرماتاہے _ خدا ہے جس نے سكون كو دل پر نازل كيا ہے تا كہ ان كا ايمان زيادہ ہو_

اضطراب و تحير:

خدا قرآن ميں فرماتا ہے ”فقط وہ لوگ جو اللہ اور قيامت پر ايمان نہيں ركھتے اور انكے دلوں ميں شك اور ترديد ہے وہ تم سے جہاد ميں نہ حاضر ہونے كى اجازت ليتے ہيں اور وہ ہميشہ شك اور ترديد ميں رہيں گے_

مہربانى اور ترحم:

قرآن ميں ہے ” ہم نے ان كے دلوں ميں جو عيسى عليہ السلام كى پيروى كرتے ہيں مہربانى اور ترحم قرار ديا ہے_ 

نيز خدا فرماتا ہے كہ ”اے پيغمبر خدا ہے جس نے اپنى مدد اور مومنين كے وسيلے سے تيرى تائيد كى ہے اور ان كے دلوں ميں الفت قرار دى ہے _

سخت دل:

قرآن ميں خدا فرماتا ہے ” اے پيغمبر اگر تو سخت دل اور تند خو ہوتا تو لوگ تيرے ارد گرد سے پراگندہ ہوجاتے _

خلاصہ دل قرآن مجيد ميں ايك ممتاز مقام ركھتا ہے او راكثر كام اس كى طرف منسوب كئے جاتے ہيں جيسے ايمان، كفر، نفاق، تعقل، فہم، عدم تعقل، قبول حق، حق كا قبول نہ كرنا_ ہدايت، گمراہى خطاء عہد طہارت_ آلودگي_ رافت و محبت غلظت_ رعب غصہ شك ترديد_ ترحم_ قساوت_ حسرت آرام_ تكبر، حسد، عصيان و نافرماني، لغزش اور دوسرے اس طرح كے كام بھى دل كى طرف منسوب كئے گئے ہيں جب كہ دل جو گوشت كا بنا ہوا ہے اور بائيں جانب واقع ہے وہ ان كاموں كو بجا نہيں لاتا بلكہ يہ كام انسان كے نفس اور روح كے ہوا كرتے ہيں_ لہذا يہ كہنا ہوگا كہ قلب اور دل سے

مراد وہ مجرد ملكوتى جوہر ہے كہ جس سے انسان كى انسانيت مربوط ہے _ قلب كا مقام قرآن ميں ا تنا عالى اور بلند ہے كہ جب اللہ تعالى سے ارتباط جو وحى كے ذريعے سے انسان كو حاصل ہوتا ہے وہاں قلب كا ذكر كيا جاتا ہے_ خداوند قرآن مجيد ميں پيغمبر عليہ السلام سے فرماتا ہے كہ ”روح الامين (جبرئيل) نے قرآن كو تيرے قلب پر نازل كيا ہے تا كہ تو لوگوں كو ڈرائے_ نيز خدا فرماتا ہے اے پيغمبر(ص) كہہ دے كہ جو جبرائيل (ع) كا دشمن ہے وہ خدا سے دشمنى كرتا ہے كيونكہ جبرائيل (ع) نے تو قرآن اللہ كے اذن سے تيرے قلب پر نازل كيا ہے_( 72) قلب كا مرتبہ اتنا بلند ہے كہ وہ وحى كے فرشتے كو ديكھتا اور اس كى گفتگو كو سنتا ہے خدا قرآن ميں فرماتا ہے كہ ”خدا نے اپنے بندے (محمد(ص) ) پر وحى كى ہے اور جو پيغمبر (ص) كے قلب نے مشاہدہ كيا ہے اسے فرشتے نے جھوٹ نہيں بولا_ 

قلب كى صحت و بيماري

ہمارى زندگى قلب اور روح سے مربوط ہے روح بدن كو كنٹرول كرتى ہے_

جسم كے تمام اعضاء اور جوارح اس كے تابع فرمان ہيں تمام كام اور حركات روح سے صادر ہوتے ہيں_ ہمارى سعادت اور بدبختى روح سے مربوط ہے_ قرآن اور احاديث سے مستفاد ہوتا ہے كہ انسان كا جسم كبھى سالم ہوتا ہے اور كبھى بيمار اور اس كى روح بھى كبھى سالم ہوتى ہے اور كبھى بيمار_ خداوند عالم قرآن ميں فرماتا ہے كہ ”جس دن (قيامت) انسان كے لئے مال اور اولاد فائدہ مند نہ ہونگے مگر وہ انسان كہ جو سالم روح كے ساتھ اللہ تعالى كى طرف لوٹے گا_

نيز ارشاد فرماتا ہے كہ ”اس ہلاكت اور تباہ كارى ميں تذكرہ ہے جو سالم روح ركھتا ہوگا_ اور فرماتا ہے كہ ” بہشت كو نزديك لائينگے جو دور نہ ہوگى يہ بہشت وہى ہے جو تمام ان بندوں كے لئے ہے جو خدا كى طرف اس حالت ميں لوٹ آئے ہيں كہ جنہوں نے اپنے آپ كو گناہوں سے محفوظ ركھا اور خدا نے ان كے لئے اس كا وعدہ كيا ہے

كہ جو خدا مہربان سے ڈرتا رہا اور خشوع كرنے والى روح كے ساتھ اللہ كى طرف لوٹ آيا ہے_ 

جيسے كہ آپ نے ملاحظہ كيا ہے كہ ان آيات ميں روح كى سلامت كو دل كى طرف منسوب كيا گيا ہے اور انسان كى اخروى سعادت كو روح سے مربوط قرار ديا ہے كہ جو سالم قلب اور خشوع كرنے والے دل كے ساتھ اللہ تعالى كى طرف لوٹ آيا ہو اور دوسرى جانب خداوند عالم نے بعض والوں يعنى روح كو بيمار بتلايا ہے جيسے خداوند عالم فرماتا ہے كہ ”منافقين كے دلوں ميں بيمارى ہے كہ خدا ان كى بيمارى كو زيادہ كرتا ہے_ نيز فرماتا ہے كہ ”وہ لوگ كہ جن كے دلوں ميں بيمارى ہے وہ يہود اور نصارى كى دوستى كرنے ميں جلدى كرتے ہيں اور كہتے ہيں كہ ہم ڈرتے ہيں كہ ايمان لانے كيوجہ سے مصيبت او گرفتارى موجود نہ ہوجائے _ ان آيات ميں كفر نفاق كفار سے دوستى كو قلب كى بيمارى قرار ديا گيا ہے_ اس طرح كى آيات اور سينكڑوں روايات سے جو پيغمبر (ع) اورائمہ عليہم السلام سے وارد ہوئي ہيں يوں مستفاد ہوتا ہے كہ انسان كى روح اور قلب بھى جسم كى طرح _ سالم اور بيمار ہوا كرتى ہے لہذا كوئي وجہ نظر نہيں آتى كہ دل كى بيمارى كو مجازى معنى پر محمول كيا جائے_

خداوند عالم جو روح اور دل كا خالق ہے اور پيغمبر (ص) اور آئمہ عليہم السلام كہ جو انسان شناس ہيں دل او رروح كى بعض بيماريوں كى اطلاع دے رہے ہيں ہم كيوں نہ اس بيمارى كو اس كے حقيقى معنى پر محمول كريں_ وہ حضرات جو واقعى انسان شناس ہيں كفر نفاق حق كو قبول نہ كرنا_ تكبر كينہ پرورى غصہ چغل خورى خيانت خودپسندى خوف برا چاہنا تہمت بدگوئي، غيبت، تندخوئي، ظلم، تباہ كاري، بخل، حرص، عيب جوئي، دروغ گوئي حب مقام رياكارى حيلہ بازي، بدظني، قساوت، ضعف نفس اور دوسرى برى صفات كو انسان كى روح اور قلب كى بيمارى بتلا رہے ہيں پس جو لوگ ان بيماريوں كے ساتھ اس دنيا سے جائيں گے وہ ايك سالم روح و دل خدا كے پاس نہيں جا رہے ہونگے

تا كہ اس آيت مصداق قرار پاسكيں يوم لاينفع مال و لا بنون الا من اتى اللہ بقلب سليم_

دل اور روح كى بيماريوں كو معمولى شمار نہيں كرنا چاہئے بلكہ يہ جسم كى بيماريوں سے كئي گناہ خطرناك ہيں اور ان كا علاج ان سے زيادہ سخت اور مشكل ہے_ جسم كى بيماريوں ميں جسم كے نظام تعادل ميں گڑبڑ ہوا كرتى ہے كہ جس سے درد اور بے چينى اور بسا اوقات كسى عضو ميں نقص آجاتا ہے ليكن پھر بھى وہ محدود ہوتى ہيں اور زيادہ سے زيادہ آخرى عمر تك باقى رہتى ہيں_ ليكن روح كى بيمارى بدبختى اور عذاب اخروى كو بھى ساتھ لاتى ہے اور ايسا عذاب اسے ديا جائيگا جو دل كى گہرائيوں تك جائيگا اور اسے جلا كرركھ دے گا_ جو روح اس دنيا ميں خدا سے غافل ہے اور اللہ تعالى كى نشانيوں كا مشاہدہ نہيں كرتى اور اپنى تمام عمر كو گمراہى اور كفر اور گناہ ميں گذار ديتى ہے در حقيقت وہ روح اندھى اور تاريك ہے وہ اسى اندھے پن اور بے نورى سے قيامت ميں مبعوث ہوگا اور اس كا انجام سوائے دردناك اور سخت زندگى كے اور كچھ نہ ہوگا_

خدا قرآن ميں فرماتا ہے كہ ” جو ہمارى ياد سے روگردانى كرتے ہيں ان كى زندگى سخت ہوگى اور قيامت كے دن ا ندھے محشور ہونگے وہ قيامت كے دن كہے گا خدايا مجھے كيوں اندھا محشور كيا ہے؟ حالانكہ ميں دنيا ميں تو بينا تھا خداوند عالم اس كے جواب ميں فرمائے گا كہ ميرى نشانياں تيرے سامنے موجود تھيں ليكن تو نے انہيں بھلا ديا اسى لئے آج تمہيں فراموش كرديا گيا ہے _

خدا فرماتا ہے ” تم زمين ميں كيوں سير نہيں كرتے تا كہ تم ايسے دل ركھتے ہوگے كہ ان سے سمجھتے اور سننے والے كان ركھتے ہوتے يقينا كافروں كى آنكھيں اندھى نہيں بلكہ انكے دل كى آنكھيں اندھى ہيں_ 

پھر فرماتا ہے ” جو شخص اس دنيا ميں اندھى آنكھ ركھتا ہوگا آخرت ميں بھى وہ نابينا اور زيادہ گمراہ ہوگا_ 

خدا فرماتا ہے كہ ”جس شخص كو خدا ہدايت كرتا ہے وہى ہدايت يافتہ ہے اور جو شخص اپنے (اعمال كى وجہ) سے گمراہ ہوگا اس كے لئے كوئي دوست اور اولياء نہ ہونگے اور قيامت كے دن جب وہ اندھے اور بہرے اور گونگے ان كو ايسے چہروں سے ہم محشور كريں گے_ 

ممكن ہے كہ اس گفتگو سے تعجب كيا جائے اور كہا جائے كہ اس كا كيا مطلب ہے كہ قيامت كے دن انسان كى باطنى آنكھ آندھى ہوگي؟ كيا ہم اس آنكھ او ركان ظاہرى سے كوئي اور آنكھ كان ركھتے ہيں؟ جواب ميں عرض كيا جائيگا كہ ہاں جس نے انسان كو خلق فرمايا ہے اور جو اللہ كے بندے انسان شناس ہيں انہوں نے خبر دى ہے كہ انسان كى روح اور دل بھى آنكھ كان زبان ركھتى ہے گرچہ يہ آنكھ اور كان اور زبان اس كى روح سے سنخيت ركھتى ہے_ انسان ايك پيچيدہ موجود ہے كہ جو اپنى باطنى ذات ميں ايك مخصوص زندگى ركھتا ہے_ انسان كى روح ايك تنہا مخصوص جہان ہے_ اس كے لئے اسى جہان ميں نور بھى ہے اور صفا اور پاكيزگى بھى اس ميں پليدى اور كدورت بھى اس ميں اس كے لئے بينائي اور شنوائي اور نابينائي بھى ہے ليكن اس جہاں كا نور اور ظلمت عالم دنيا كے نور اور ظلمت كا ہم سنخ نہيں ہے بلكہ اللہ اور قيامت اور نبوت اور قرآن پر ايمان روح انسانى كے لئے نور ہے_

خدا قرآن ميں فرماتا ہے كہ ” جو لوگ محمد(ص) پر ايمان لے آئے ہيں اور اس كى عزت كرتے ہيں اور اس كى مدد كرتے ہيں انہوں نے اس نور كى جو ان كى ہمراہ ہے پيروى كى ہے يہى لوگ نجات يافتہ اور سعادتمند ہونگے_ 

خدا فرماتا ہے_ ”يقينا تمہارى طرف خداوند عالم سے ايك نور اور كتاب مبين نازل كى گئي ہے_نيز خدا فرماتا ہے كہ ” كيا وہ شخص كہ جس كے دل كو خدا نے اسلام كے قبول كرلينے كے لئے كھول ديا ہے اور اس نے اللہ تعالى كى طر ف سے نور كو پاليا ہے وہ دوسروں كے برابر ہے؟ افسوس اور عذاب ہے اس كے لئے كہ جس كا دل اللہ تعالى كے ذكر سے قسى ہوگيا ہے_ ايسے لوگ ايك واضح گمراہى ميں ہونگے_خداوند عالم نے ہميں خبردى ہے كہ قرآن ايمان، اسلام كے احكام اور قوانين تمام كے تمام نور ہيں_ انكى اطاعت اور پيروى كرنا قلب اور روح كو نورانى كرديتے ہيں يقينا يہ اسى دنيا ميں روح كو نورانى كرتے ہيں ليكن اس كا نتيجہ آخرت كے جہان ميں جا ظاہر ہوگا_

خداوند عالم نے خبردى ہے كہ كفر نفاق گناہ حق سے روگردانى تاريكى روح كو كثيف كرديتے ہيں ليكن اس كا نتيجہ آخرت كے جہان ميں جا ظاہر ہوگا_ پيغمبروں كو اسى غرض كے لئے مبعوث كيا گيا ہے تا كہ وہ لوگوں كو كفر كى تاريكى سے نكاليں اور ايمان اور نور كے محيط ميں وارد كريں_

خداوند عالم فرماتا ہے كہ ” ہم نے قرآن كو تم پر نازل كيا ہے تا كہ لوگوں كو تاريكيوں سے نكالے اور نور ميں وارد كرے_

مومنين اسى جہان ميں نور ايمان تزكيہ نفس مكارم اخلاق ياد خدا اور عمل صالح كے ذريعے اپنى روح اور دل كو نورانى كرليتے ہيں اور باطنى آنكھ اور كان سے حقائق كا مشاہدہ كرتے ہيں اور سنتے ہيں_ اس طرح كے لوگ جب اس جہان سے جاتے ہيں تو وہ سراسر نور اور سرور اور زيبا اور خوشنما ہونگے اور آخرت كے جہان ميں اسى نور سے كہ جسے دنيا ميں مہيا كيا ہوگا فائدہ حاصل كريں گے_ خداوند عالم قرآن مجيد ميں فرماتا ہے كہ ” اس دن كو ياد كرو جب مومن مرد عورت كا نور انكے آگے اور دائيں جانب كو روشن كئے ہوگا (اور ان سے كہا جائيگا) كہ آج تمہارے لئے خوشخبرى ايسى بہشت ہے كہ جس كى نہريں درختوں كے نيچے سے جارى ہيں اور تم ہميشہ كے لئے يہاں رہوگے اور يہ ايك بہت بڑى سعادت اور خوشبختى ہے_ 

درست ہے كہ آخرت كے جہان كے نور كو اسى دنيا سے حاصل كيا جانا ہوتا ہے اسى لئے تو كافر اور منافق آخرت كے جہان ميں نور نہيں ركھتے ہونگے_

قرآن ميں آيا ہے كہ ”اس دن كو ياد كرو جب منافق مرد اور عورت مومنين سے كہيں گے كہ تھوڑى سے مہلت دو تا كہ ہم تمہارے نور سے استفادہ كرليں ان سے

كہا جائيگا كہ اگر ہوسكتا ہے تو دنيا ميں واپس چلے جاؤ اور اپنے لئے نور كو حاصل كرو _

قلب روح احاديث ميں

دين كے رہبروں اور حقيقى انسان كو پہچاننے والوں نے انسان كى روح اور قلب كے بارے بہت عمدہ اور مفيد مطالب بتلائے ہيں كہ ان ميں سے بعض كى طرف يہاں اشارہ كيا جاتا ہے كہ بعض احاديث كى بناپر قلب اور روح كو تين گروہ ميں تقسيم كيا گيا ہے_ امام محمد باقر عليہ السلام فرماتے ہيں كہ ”ہم تين طرح كے قلب ركھتے ہيں_ پہلى نوع_ ٹيڑھا قلب جو كسى خير اور نيكى كے كاموں كو درك نہيں كرتا اور يہ كافر كا قلب ہے_ دوسرى نوع وہ قلب ہے كہ جس ميں ايك سياہ نقطہ موجود ہے يہ وہ قلب ہے كہ جس ميں نيكى اور برائي كے درميان ہميشہ جنگ و جدال ہوتى ہے ان دو ميں سے جو زيادہ قوى ہوگا وہ اس قلب پر غلبہ حاصل كريگا_ تيسرى نوع قلب مفتوح ہے اس قلب ميں چراغ جل رہا ہے جو كبھى نہيں بجھتا اور يہ مومن كا قلب ہے_ (89)

امام جعفر صادق عليہ السلام اپنے پدر بزرگوار سے نقل كيا ہے كہ ”آپ نے فرمايا كہ قلب كے لئے گناہ سے كوئي چيز بدتر نہيں ہے_ قلب گناہ كا سامنا كرتا ہے اور اس سے مقابلہ كرتا ہے يہاں تك كہ گناہ قلب پر غالب آجاتا ہے اور وہ قلب كو ان اور ٹيڑہا كرديتا ہے _ 

اور امام سجاد عليہ السلام نے ايك حديث ميں فرمايا ہے كہ ” انسان كى چار آنكھيں ہيں اپنى دو ظاہرى آنكھوں سے دين اور دنيا كے امور كو ديكھتا ہے اور اپنى دو باطنى آنكھوں سے ان امور كو ديكھتا ہے جو آخرت سے مربوط ہيں جب اللہ كسى بندے كى بھلائي چاہتا ہے تو اس كے قلب كى دو باطنى آنكھوں كو كھول ديتا ہے تا كہ اس كے ذريعے غيب كے جہان اور آخرت كے امر كا مشاہدہ كرسكے اور اگر خدا اس كى خير كا

ارادہ نہ كرے تو اس كے قلب كو اس كى اپنى حالت پر چھوڑ ديتا ہے _ 

امام صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ” قلب كے دو كان ہيں ايمان كى روح آہستہ سے اسے كار خير كى دعوت ديتى ہے اور شيطن آہستہ سے اسے برے كاموں كى دعوت ديتا ہے جو بھى ان ميں سے دوسرے پر غالب آجائے وہ قلب كو اپنے لئے مخصوص كرليتا ہے_ 

امام صادق عليہ السلام نے رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے نقل كيا ہے كہ ”آپ (ص) نے فرمايا كہ سب سے بدترين اندھاپن قلب كا اندھا پن ہے_ 

امام محمد باقر عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ” انسان كے قلب ميں ايك سفيد واضح نقطہ ہوتا ہے اگر گناہ كا ارتكاب كرلے تو اس كے قلب ميں سياہ نقطہ پيدا ہوجاتا ہے اگر اس كے بعد توبہ كرلے تو وہ سياہ نقطہ مٹ جاتا ہے اور اگر گناہ كرنے پر اصرار كرے تو وہ سياہ نقطہ آہستہ سے بڑھنے لگ جاتا ہے يہاں تك كہ وہ اس سفيد نقطے كو گھير ليتا ہے اس حالت ميں پھر اس قلب كا مالك انسان نيكيوں كى طرف رجوع نہيں كرتا اور اس پر يہ آيت صادق آجاتى ہے كہ ان كے اعمال نے ان كے قلوب پرغلبہ حاصل كرليا ہے اور انہيں تاريك كرديا ہے_ 

اميرالمومنين عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ” جس ميں تقوى اور خوف خدا كم ہو اس كا قلب او ردل مرجاتا ہے اور جس كا دل مرجائے وہ جہنم ميں داخل ہوگا _ 

حضرت اميرعليہ السلام نے اپنے فرزند كو وصيت ميں فرمايا كہ ”اے فرزند فقر اور نادارى ايك مصيبت اور بيمارى ہے اور اس سے سخت بيمارى جسم كى بيمارى ہے اور دل كى بيمارى جسم كى بيمارى سے بھى زيادہ سخت ہے_ مال كى وسعت اللہ تعالى كى ايك نعمت ہے اس سے افضل بدن كا سالم رہنا ہے اور اس سے افضل دل كا تقوى ہے_ 

رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا ہے_ كہ ” حضرت داود پيغمبر (ع) نے اللہ تعالى كى درگاہ ميں عرض كيا خدايا تمام بادشاہوں كے خزانے ميں تيرا خزانہ كہاں ہے؟

اللہ تعالى نے جواب ميں فرمايا كہ ميرا ايك خزانہ ہے جو عرش سے بڑا اور كرسى سے وسيع تر اور بہشت سے زيادہ خوشبودار اور تمام ملكوت سے زيادہ خوبصورت ہے اس خزانہ كى زمين معرفت اور اس كا آسمان ايمان_

اس كا سورج شوق اور اس كا چاند محبت اور اس كے ستارے خدا كى طرف توجہات اس كا بادل عقل اس كى بارش رحمت اس كا ميوہ اطاعت اور ثمرہ حكمت ہے_ ميرے خزانے كے چار دروازے ہيں پہلا علم، دوسرا عقل، تيسرا صبر، چوتھا رضايت، جان لے كہ ميرا خزانہ ميرے مومن بندوں كا قلب اور دل ہے_

اللہ تعالى كے ان بندوں كے جو قلب اور دل اور روح كو پہنچانتے ہيں ان احاديث ميں بہت مفيد مطالب بيان فرمائے ہيں كہ كچھ كى طرف ہم يہاں اشارہ كرتے ہيں_

قلب كافر

كافر كے دل كے متعلق كہا گيا ہے كہ وہ الٹا اور ٹيڑہا ہے اس ميں كوئي بھلائي نہيں ہے_ اس طرح كا دل اپنى اصلى فطرت سے ہٹ چكا ہے اور عالم بالا كى طرف نگاہ نہيں كرتا وہ صرف دنياوى امور كو ديكھتا ہے اسى لئے وہ خدا اور آخرت كے جہاں كا مشاہدہ نہيں كرتا اس كے بارے نيكى اور خوبى كا تصور نہيں كيا جاسكتا كيونكہ نيك كام اس صورت ميں درجہ كمال اور قرب الہى تك پہنچتے ہيں جب وہ رضا الہى كے لئے انجام ديئےائيں ليكن كافر نے اپنے دل كو الٹا كرديا ہے تا كہ وہ خدا كو نہ ديكھ سكے وہ اپنے تمام كاموں سے سوائے دنيا كے اور كوئي غرض نہيں ركھتا وہ صرف دنيا تك رسائي چاہتا ہے نہ خدا كا قرب_ اس طرح كا دل گرچہ اصلى فطرت والى آنكھ ركھتا تھا ليكن اس نے اپنى آنكھ كو اندھا كر ركھا ہے_ كيونكہ وہ واضح ترين حقيقت وجود خدا جو تمام جہاں كا خالق ہے كا مشاہدہ نہيں كرتا وہ اس دنيا ميں اندھا ہے اور آخرت ميں بھى اندھا ہوگا_ اس نے اس دنيا ميں امور دنيا سے دل لگا ركھا ہے اور آخرت ميں بھى اس كے لئے

امور دنيا سے ہى وابستگى باقى رہے گى ليكن وہ اسے وہاں حاصل نہ ہوں گے اور وہ اس كے فراق كى آگ ميں جلتا رہے گا_ اس قسم كے دل ميں ايمان كا نور نہيں چمكتا اور وہ بالكل ہى تاريك رہتا ہے_

2_ كافر كے دل مقابل مومن كامل كا دل ہے_ مومن كے دل كا دروازہ عالم بالا اور عالم غيب كى طرف كھلا ہوا ہوتا ہے ايمان كا چراغ اس ميں جلتا ہوا ہوتا ہے اور كبھى نہيں بجھتا_ اس كے دل كى دونوں آنكھيں ديكھ رہى ہوتى ہيں اور عالم غيب اور اخروى امور كو ان سے مشاہدہ كرتا ہے_ اس طرح كا دل ہميشہ ہميشہ كمال اور جمال اور خير محض يعنى خداوند تعالى كى طرف متوجہ رہتا ہے اور اس كا تقرب چاہتا ہے وہ خدا كو چاہتا ہے اور مكارم اخلاق اور اعمال صالح كے ذريعے ذات الہى كى طرف حركت كرتا رہتا ہے_ اس قسم كا دل عرش اور كرسى سے زيادہ وسيع اور بہشت سے زيادہ خوبصورت ہوتا ہے اور يہ قدرت ركھتا ہے كہ اللہ تعالى كا مركز انوار الہى اور خزانہ الہى قرار پائے_ اس طرح كے دل كى زمين اللہ كى معرفت اور اس كا آسمان اللہ پر ايمان اور اس كا سورج لقاء الہى كا شوق اور اس كا چاند اللہ كى محبت_ مومن كے دل ميں عقل كى حكومت ہوتى ہے اور رحمت الہى كى بارش كو اپنى طرف جذب كرليتا ہے كہ جس كا ميوہ عبادت ہے اس طرح كے دل ميں خدا اور اس كے فرشتوں كے سوا اور كوئي چيز موجود نہيں ہوتي_

ايسا دل تمام كا تمام نور ا ور سرور اور شوق اور رونق اور صفا والا ہوتا ہے اور آخرت كے جہان ميں بھى اسى حالت ميں محشور ہوگا_ (ايسے دل والے كو مبارك ہو)

3_ مومن كا دل جب كبھى گناہ سے آلودہ ہوجاتا ہے تو ايسے مومن كا دل بالكل تاريك اور بند نہيں رہتا بلكہ ايمان كے نور سے روشن ہوجاتا ہے اور كمال الہى اور تابش رحمت كے لئے كھل جاتا ہے ليكن گناہ كے بجالانے سے اس كے دل پر ايك سياہ نقطہ موجود ہوجاتا ہے اور اسى طريق سے شيطن اس ميں راستہ پاليتا ہے_ اس كے دل

كى آنكھ اندھى نہيں ہوتى ليكن گناہ كى وجہ سے بيمار ہوگئي ہے اور اندھے پن كى طرف آگئي ہے_ اس طرح كے دل ميں فرشتے بھى راستے پاليتے ہيں اور شيطن بھي_ فرشتے ايمان كے دروازے سے اس ميں وارد ہوتے ہيں اور اسے نيكى كى طرف دعوت ديتے ہيں شيطن اس سياہ نقطہ كے ذريعے سے نفوذ پيدا كرتا ہے اور اسے برائي كى دعوت ديتا ہے_ شيطن اور فرشتے اس طرح كے دل ميں ہميشہ جنگ اور جدال ميں ہوتے ہيں_ فرشتے چاہتے ہيں كہ تمام دل پر نيك اعمال كے ذريعے چھاجائيں اور شيطن كو وہاں سے خارج كرديں اور شيطن بھى كوشش كرتا ہے كہ گناہ كے بجالانے سے دل كو تاريك بلكہ تاريك تر كردے اور فرشتوں كو وہاں سے باہر نكال دے اور پورے دل كو اپنے قبضے ميں لے لے اور ايمان كے دروازے كو بالكل بند كردے_ يہ دونوں ہميشہ ايك دوسرے كو دكھيلنے پر لگے رہتے ہيں اور پھر ان ميں كون كامياب ہوتا ہے اور اس كى كاميابى كتنى مقدار ہوتى ہے_ انسان كى باطنى زندگى اور اخروى زندگى كا انجام اسى سے وابستہ ہوتا ہے يہ وہ مقام ہے كہ جہاں نفس كيساتھ جہاد كرنا ضرورى ہوجاتا ہے كہ جس كى تفصيل بيان كى جائيگي_

قسى القلب

انسان كى روح اور دل ابتداء ميں نورانيت اور صفاء اور مہربانى اور ترحم ركھتے ہيں_ انسان كا دل دوسروں كے دكھ اور درد يہاں تك كہ حيوانات كے دكھ اور درد سے بھى رنج كا احساس كرتا ہے اسے بہت پسند ہوتا ہے كہ دوسرے آرام اور اچھى زندگى بسر كريں اور دوسروں پر احسان كرنے سے لذت حاصل كرتا ہے اور اپنى پاك فطرت سے خدا كى طرف متوجہ ہوتا ہے اور عبادت اور دعا راز و نياز اور نيك اعمال كے بجالانے سے لذت حاصل كرتا ہے اور گناہوں كے ارتكاب سے فوراً متاثر اور پشيمان ہوجاتا ہے_ اگر اس نے فطرت كے تقاضے كو قبول كرليا اور اس كے مطابق عمل كيا تو

دن بدن اس كے صفا قلب اورنورانيت اور مہربان ہونے ميں اضافہ ہوتا جاتا ہے_

عبادت اور دعا كے نتيجے ميں دن بدن عبادت اور دعا اور خدا سے انس و محبت ميں زيادہ علاقمند ہوتا جاتا ہے_ اور اگر اس نے اپنے اندرونى اور باطنى خواہشات كو نظرانداز كيا اور اس كے مخالف عمل كيا تو آہستہ آہستہ وہ پاك احساسات نقصان كى طرف جانا شروع كرديتے ہيں يہاں تك كہ ممكن ہے وہ بالكل ختم اور نابود ہوجائيں_ اگر اس نے دوسروں كے درد كے موارد كو ديكھا اور ان كے خلاف اپنے رد عمل كا مظاہرہ نہ كيا تو آہستہ آہستہ ان سے مانوس ہوجاتا ہے اور ان كے ديكھنے سے معمولى سا اثر بھى نہيں ليتا بلكہ ہوسكتا ہے كہ ايسے مقام تك پہنچ جائے كہ دوسروں كے فقر اور فاقہ اور ذلت و خوارى بلكہ ان كے قيد و بند اور مصائب سے لذت حاصل كرنا شروع كردے_ انسان ابتداء ميں گناہ كرنے پر پشيمان اور ناخوش ہوتا ہے ليكن اگر ايك دفعہ گناہ كا ارتكاب كرليا تو دوسرى دفعہ گناہ كرنے پر تيار ہوجاتا ہے اور اسى طرح دوسرى دفعہ گناہ كے بعد تيسرى دفعہ گناہ كرنے كے لئے حاضر ہوجاتا ہے اور گناہ كرنے كے اصرار پر ايك ايسے مقام تك پہنچ جاتا ہے كہ پھر گناہ كرنے سے پيشمانى كا احساس تو بجائے خود بلكہ گناہ كرنے كو اپنى كاميابى اور خوشى قرار ديتا ہے_ ايسے انسانوں كے اس طرح كے دل سياہ اور الٹے ہوچكے ہوتے ہيں اور قرآن اور احاديث كى زبان ميں انہيں قسى القلب كہا جاتا ہے شيطين نے ايسے دلوں پر قبضہ كرليا ہوتا ہے اور اللہ تعالى كے مقرب فرشتوں كو وہاں سے نكال ديا ہوتا ہے_ اس كے نجات كے دروازے اس طرح بند ہوجاتے ہيں كہ اس كے لئے توبہ كرنے كى اميد بھى نہيں كى جاسكتي_

خدا قرآن ميں فرماتا ہے كہ ”جب ہمارى مصيبت ان پر وارد ہوتى ہے تو توبہ اور زارى كيوں نہيں كرتے؟ ان كے دلوں پر قساوت طارى ہوچكى ہے اور شيطان نے ان كے برے كردار كو ان كى آنكھوں ميں خوشنما بناديا ہے_ 

نيز خدا فرماتا ہے_ ” افسوس ہے ان دلوں پر كہ جنہيں ياد خدا سے قساوت نے گھير ركھا ہے ايسے لوگ ايك واضح گمراہى ہيں پڑے ہوئے ہيں_

امام محمد باقر عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ”ہر مومن كے دل ميں ايك سفيد نقطہ ہوتا ہے اگر اس نے گناہ كا ارتكاب كيا اور دوبارہ اس گناہ كو بجالايا تو ايك سياہ نقطہ اس ميں پيدا ہوجاتا ہے اور اگر اس نے گناہ كرنے پر اصرار كيا تو وہ سياہ نقطہ آہستہ سے بڑھنا شروع ہوجاتا ہے يہاں تك كہ اس دل كے سفيد نقطہ كو بالكل ختم كرديتا ہے اس وقت ايسے دل والا آدمى كبھى بھى اللہ تعالى كى طرف متوجہ نہيں ہوتا اور يہى خداوند عالم كے اس فرمان سے كہ ان كے كردار نے ان كے دلوں كو چھپا ركھا ہے مراد ہے_ 

اميرالمومنين عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ” انسان كے آنسو قساوت قلب كى وجہ سے خشك ہوجاتے ہيں اور قلب ميں قساوت گناہون كے اثر كيوجہ سے ہوتى ہے_ 

رسول خدا نے فرمايا ہے ” چار چيزيں انسان ميں قساوت قلب كى علامتيں ہيں_ آنسوں كا خشك ہوجانا_ قساوت قلب_ روزى كے طلب كرنے ميں زيادہ حريص ہونا_

اور گناہوں پر اصرار كرنا_ 

امام سجاد عليہ السلام فرماتے ہيں_ ” اے ميرے خدا ميں دل كے سخت ہوجانے سے آپ سے شكايت كرتا ہوں ايسا دل جو وسواس سے ہميشہ تغيرپذير ہے اور آلودگى اور خشم سے جڑا ہوا ہے_ ميں آپ سے ايسى آنكھ سے شكايت كرتا ہوں جو تيرے خوف سے نہيں روتى اور اس كى طرف متوجہ ہے جو اسے خوش ركھتى ہے_ 

پس جو انسان قلب كى سلامتى اور اپنى سعادت سے علاقمند ہے اس كو گناہ كے ارتكاب سے خواہ گناہ صفيرہ ہى كيوں نہ ہو بہت زيادہ پرہيز كرنى چاہئے_ اور ہميشہ اپنى روح كو نيك كاموں عبادت دعا اور خدا سے راز و نياز مہربانى احسان اور دوسروں كى مدد مظلوموں اور محروموں كى حمايت اور خيرخواہى نيك كاموں ميں مدد عدالت خواہى اور عدالت برپا كرنے ميں مشغول ركھے تا كہ آہستہ آہستہ نيك اعمال بجالانے كى عادت پيدا كرے اور باطنى صفا اور نورانيت كو حاصل كرلے تا كہ اس كى روح ملائكہ كا مركز قرار پائے_

قلب كے طبيب اور معالج

پہلے بيان ہوچكا ہے كہ دل اور روح بھى جسم كى طرح سالم ہوا كرتا ہے اور بيمار_ انسان كى اخروى سعادت اس سے مربوط ہے كہ انسان سالم روح كے ساتھ اس دنيا سے جائے_ ہمارے لئے ضرورى ہے كہ روح كى سلامتى اور بيماريوں سے واقف ہوں_

ان بيماريوں كى علامات كو پہچانيں تا كہ روح كى مختلف بيماريوں سے مطلع ہوں ان بيماريوں كے اسباب اور علل كو پہچانيں تا كہ ان بيماريوں كو روك سكيں كيا ان بيماريوں كى پہچان ميں ہم خود كافى معلومات ركھتے ہيں يا ان كى پہچان ميں پيغمبروں كے محتاج ہيں_ اس ميں كسى شك كى گنجائشے نہيں كہ ہم روح كى خلقت اور اس كے اسرار اور رموز سے جو اس موجود ملكوتى ميںركھے گئے كافى معلومات نہيں ركھتے_

قاعدتا ہم اپنى روحانى اور باطنى زندگى سے بے خبر ہيں_ نفسانى بيماريوں كے اسباب كو اچھى طرح نہيں جانتے اور ان بيماريوں كى علامتوں كى بھى اچھى طرح تشخيص نہيں كرسكتے اور ان مختلف بيماريوں كا علاج اور توڑ بھى نہيں جانتے اسى لئے پيغمبروں كے وجود كى طرف محتاج ہيں تا كہ وہ ہميں اس كے طريق كار كى ہدايت اور رہبرى كريں_ پيغمبر روح كے معالج اور ان بيماريوں كے علاج كے جاننے والے ہوتے ہيں_ اور اللہ تعالى كى تائيد اور الہامات سے روح كے درد اور اس كے علاج كو خوب جانتے ہيں وہ انسان شناسى كى درسگاہ ميں بذريعہ وحى انسان شناس بنے ہيں اور اس ملكوتى وجود كے اسرار اور رموز سے اچھى طرح مطلع اور آگاہ ہيں_ وہ صراط مستقيم اور اللہ كى طرف سير و سلوك كو خوب پہچانتے ہيں اور انحراف كے اسباب اور عوامل سے واقف ہيں اسى لئے وہ انسان كى اس سخت راستے كو طے كرنے ميں مدد كرتے ہيں اور انحراف اور كجروى سے روكتے ہيں_ جى ہاں پيغمبر اللہ كى طرف سے معالج ہيں كہ تاريخ انساني

ميں انہوں نے انسان كى خدمت انجام دى ہے اور ان كى ايسى خدمات كئي درجہ زيادہ بدن كے معالجين سے بڑھ كر كى ہے پيغمبروں نے جوہر ملكوتى ورح كو كشف كرتے ہوئے انسانوں كو اس كى پہچان كرائي ہے اور ان كى انسانى شخصيت كو زندہ كيا ہے_ پيغمبر(ص) تھے كہ جنہوں نے انسانوں كا مكارم اخلاق اور معارف اور معنويات سے روشناس كيا ہے اور قرب الہى كے راستے اور سيرو سلوك كى نشاندہى كى ہے_ پيغمبر تھے كہ جنہوں نے انسان كو خدا اور جہان غيب سے آشنا اور واقف كيا ہے اور انسان كے تزكيہ نفس اور تہذيب كے پرورش كرنے ميں كوشش اور تلاش كى ہے_ اگر انسان ميں معنويت محبت اور عطوفت اور مكارم اخلاق اور اچھى صفات موجود ہيں تو يہ اللہ كے بھيجے ہوئے معالجين كى دائمى اور متصل كوشش بالخصوص خاتم پيغمبر عليہ السلام كى دائمى كوشش كى بركت سے ہيں واقعا پيغمبر اللہ تعالى كے صحيح اور ممتاز بشريت كے معالج ہيں اسى لئے احاديث ميں ان كى عنوان طبيب اور معالج كے عنوان سے پہچان كرائي گئي ہے_

امير المومنين عليہ السلام پيغمبر گرامى كے بارے ميں فرماتے ہيں كہ ” محمد(ص) چلتا پھر تا طبيب ہے كہ ہميشہ انسانى روحوں كى طبابت كرنے ميں كوشان تھا اور بيماريوں كے علاج كے لئے مرہم فراہم كر ركھى تھى اور اسے مناسب مورد ميں كام ميں لاتا تھا_ اندھى روح اور بہرے كان گنگى زبان كو شفا ديتے تھے_ اور داؤوں كو انسانوں پر استعمال كرتے تھے جو حيرت اور غفلت ميں غرق اور تھے ان انسانوں كو جو حكمت اور علم كے نور سے استفادہ نہيں كرتے تھے اور حقائق اور معارف الہى كے ناشناس تھے اسى لئے تو ايسے انسان حيوانات سے بھى بدتر زندگى بسر كرتے تھے_

قرآن كو روح كے لئے شفاء دينى والى دواء بيان كيا گيا ہے_

خدا ارشاد فرماتا ہے كہ ” اللہ كى طرف سے موعظہ نازل ہوا ہے اور وہ قلب يعنى روح كے درد كے لئے شفا ہے_

نيز خدا فرماتا ہے كہ ” قرآن ميں ہم نے بعض ايسى چيزيں نازل كى ہيں جو مومنين

كے لئے شفاء اور رحمت ہيں_

امير المومنين عليہ السلام قرآن كے بارے ميں فرماتے ہيں كہ ”قرآن كو سيكھو كہ وہ بہترين كلام ہے اس كى بات ميں خوب غور كرو كہ عقل كى بارش روح كو زندہ كرتى ہے اور قرآن كے نور سے شفاء حاصل كرو كہ وہ دلوں كو يعنى روحوں كو شفا بخشتا ہے_

ايك اور جگہ فرماتے ہيں كہ ” جو شخص قرآن ركھتا ہو وہ كسى دوسرى چيز كا محتاج نہ ہوگاہ اور جو شخص قرآن سے محروم ہوگاہ كبھى غنى نہ ہوگا_ قرآن كے واسطے سے اپنے روح كى بيماريوں كا علاج كرو اور مصائب كے ساتھے مٹھ بھيڑ ميں اس سے مدد لو كيونكہ قرآن بزرگترين بيمارى كفر اور نفاق اور گمراہى سے شفا ديتا ہے_

جى ہاں قرآن ميں آيا ہے كہ پيغمبر اسلام نفوس كے طبيب ہيں_ ہمارے درد اور اس كے علاج كو خوب جانتا ہے اور ايسے قرآن كو لايا ہے جو ہمارے باطنى درد كے لئے شفا ديتے كا ضابطہ ہے اور ہميں ايسا قرآن ديا ہے_ اس كے علاوہ كئي اقسام كى باطنى بيماريوں اور ان كے علاج پيغمبر عليہ السلام اور ائمہ اطہار نے واضح كيا ہے اور وہ حديث كى شكل ميں ہمارے لئے باقى موجود ہيں لہذا اگر ہميں اپنے آپ كے لئے روح كى سعادت اور سلامتى مطلوب ہے تو ہميں قرآن اور احاديث سے استفادہ كرنا چاہئے اور اپنى روح كى سعادت اور سلامتى مطلوب ہے تو ہميں قرآن اور احاديث سے استفادہ كرنا چاہئے اور اپنى روح كى سعادت اور سلامتى كے طريق علاج كى مراعات كرنى چاہئے اور قرآن اور پيغمبر(ص) اور ائمہ اطہارعليہم السلام كى راہنمايى ميں اپنى روح كى بيماريوں كو پہچاننا چاہئے اور ان كى علاج كے لئے كوشش اور سعى كرنى چاہئے اور اگر ہم اس امر حياتى اور انسان ساز ميں كوتاہى كريں گے تو ايك بہت بڑے نقصان كے متحمل ہونگے كہ جس كا نتيجہ ہميں آخرت كے جہان ميں واضح اور روشن ہوگا_

تكميل اور تہذيب نفس

پہلے بتاتا جا چكا ہے كہ روح كى پرورش اور تربيت ہمارے لئے سب سے زيادہ

ضرورى ہے كيونكہ دنيا اور آخرت كى سعادت اسى سے مربوط ہے اور پيغمبر عليہم السلام بھى اسى غرض كى تكميل كے لئے مبعوث ہوئے ہيں_ روح كى تربيت اور خودسازى دو مرحلوں ميں انجام دينى ہوگي_

پہلا مرحلہ: روح كى برائيوں سے پاك كرنا يعنى روح كو برے اخلاق سے صاف كرنا اور گناہوں سے پرہيز كرنا اس مرحلہ كا نام تصفيہ اور تخليہ ركھنا گيا ہے_

دوسرا مرحلہ: روح كى تحصيل علم اور معارف حقہ فضائل اور مكارم اخلاق اور اعمال صالحہ كے ذريعے تبريت اور تكميل كرنا اس مرحلہ كا نام تحليہ ركھا گيا ہے يعنى روح كى پرورش اور تكميل اور اسے زينت دينا_

انسان كو انسان بنانے كے لئے دونوں مرحلوں كى ضرورت ہوتى ہے اس واسطے كہ اگر روح كى زمين برائيوں سے پاك اور منزہ نہ ہوئي تو وہ علوم اور معارف حقہ مكارم اخلاق اعمال صالح تربيت كى قابليت پيدا نہيں كرے گاہ وہ روح جو ناپاك اور شيطان كا مركز ہو كس طرح انوار الہى كى تابش كا مركز بن سكے گا؟ اللہ تعالى كے مقرب فرشتے كس طرح ايسى روح كى طرف آسكيں گے؟ اور پھر اگر ايمان اور معرفت اور فضائل اخلاق اور اعمال صالح نہ ہوئے تو روح كس ذريعے سے تربيت پا كر تكامل حاصل كرسكے گي_ لہذا انسان كو انسان بنانے كے لئے دونوں مرحلوں كو انجام ديا جائے ايك طرف روح كو پاك كيا جائے تو دوسرى طرف نيك اعمال كو اس ميں كاشت كيا جائے _ شيطن كو اس سے نكالا جائے اور فرشتے كو داخل كيا جائے غير خدا كو اس سے نكالا جائے اور اشراقات الہى اور افاضات كو اس كے لئے جذب كيا جائے يہ دونوں مرحلے لازم اور ملزم ہيں يوں نہيں ہو سكتا كہ روح كے تصفيہ كے لئے كوشش كى جائے اور نيك اعمال كو بجا لانے كو بعد ميں ڈالا جائے جس طرح يہ نہيں ہو سكتا كہ باطنى امور كى اہميت كو نظر انداز كيا جائے اور نيك اعمال بجالانے ميں مشغول ہوا جائے بلكہ يہ دونوں ايك ہى زمانے ميں بجا لائے جانے چاہئيں برائيوں اور برے اخلاق كو ترك كر

دينا انسان كو اچھائيوں كے بجالانے كى طرف بلاتا ہے اور نيك اعمال كا بالانا بھى گناہوں اور برے اخلاق كے ترك كر دينے كا موجب ہوتا ہے لہذا اس بحث ميں ہم مجبور ہيں كہ ان دونوں مرحلوں كو ايك دوسرے سے جدا كرديں لہذا پہلے ہم تہذيب نفس اور روح كى پاكى بحث كرتے ہيں_

پہلا حصہ

تخليہ يا تہذيب نفس

تہذيب نفس

اس مرحلے ميں ہميں تين كام انجام دينے ہونگے_

1_ باطل عقائد اور غلط افكار اور خرافات سے نفس كو پاك كرنا_

2_ برے اخلاق اور رذائل سے نفس كو پاك كرنا_

3_ گناہوں اور معاصى كا ترك كرنا_

خرافات اور عقائد باطل عين جہالت اور نادانى ہوتے ہيں اور انسان كى رو ح كو تاريك كر ديتے ہيں اور صراط مستقيم اور قرب الہى اور تكامل سے منحرف كر ديتے ہيں باطل عقائد ركھنے والے تكامل كے راستے كو نہيں بچانتے اسى واسطے گمراہى اور ضلالت كى وادى ميں قدم ركھتے ہيں اور يقينا مقصد تك نہيں پہنچتے جو روح تاريك ہو كس طرح وہ انوار الہى كى تابش كا مركز قرار پا سكتى ہے؟ اسى طرح برے اخلاق اور ان كے ملكات حيوانى عادات كو تقويت پہچانتے ہيں اور انسانى روح كو آہستہ آہستہ خاموش اور تنہا ہو جانے كى طرف لے جاتے ہيں ايسا انسان انسانى غرض خلقت جو قرب الہى اور كمال تك پہنچنا ہوتا ہے كبھى نہيں پہنچے گا اسى طرح گناہوں اور معصيت كو بجالانا انسان كى روح كو تاريك اور آلودہ كر ديتا ہے كہ جس كى وجہ سے وہ تكامل اور قرب الہى سے دور ہو جاتا ہے اور اس طرح انسان آخرى غرض اور غايت تك نہيں پہنچنے پاتا_ اسي

واسطے نفس كا پاك و پاكيزہ كرنا ہمارے لئے انتہائي اہم اور ضرورى كام شمار ہوتا ہے لہذا ضرورى ہے كہ پہلے برے اخلاق اور گناہوں كو پہچانيں اور پھر عمل كے مرحلے ميں قدم ركھيں اور اپنى روح كو پاك و پاكيزہ بنائيں_ اتفاق سے ہميں پہلے مرحلے ميں كوئي مشكل پيش نہيں آتى اس واسطے كہ ارواح كے اطباء اور خدا كے بھيجے ہوئے انسان شناسى يعنى پيغمبروں اور ائمہ اطہار عليہم السلام نے برے اخلاق كو بطور كامل ہمارے لئے بيان كر ديا ہے اور ان كا علاج كرنا بھى بتلا ديا ہے_ معصيت اور نافرمانيوں كو ہمارے لئے شمار كر كے انكا علاج بھى بيان كر ديا ہے ہم تمام برے اخلاق كو جانتے اور پہچانتے ہيں اور ان كى برائيوں سے آگاہ ہيں _ ہم جانتے ہيں كہ نفاق ،تكبر ،حسد ،كينہ پروري، غضب چغلخورى خيانت ،خودپسندى ،برا چاہنا، شكايت كرنا، تہمت لگانا، برا بھلا كہنا، بد زبان ہونا، تندخوئي_ ظلم بے اعتمادى خوف، بخل، حرص، عيب جوئي، جھوٹ بولنا، حب دنيا اور مقام اور رياست كى محبت رياكاري، دھوكا دينا، حيلہ باز ہونا، براگمان، قسى القلب ہونا، ضعف نفس اور اس طرح كى دوسرى صفات برى اور زشت ہيں_ اس كے علاوہ ہم فطرت كى رو سے ان كى برائيوں كو سمجھ پاتے ہيں_ سينكڑوں روايات اور آيات ان كى برائيوں اور قبيح ہونے كى گوہى دے رہى ہيں ہمارى احاديث اس كے متعلق اتنى زيادہ ہيں كہ ان ميں كسى كمى كا احساس نہيں ہوتا_ اسى طرح تمام محرمات اور گناہوں كى وضاحت قرآن مجيد اور انكى تشريح اور ان كا عذاب اور سزا احاديث ميں موجود ہے_ غالبا ہم تمام كو جانتے ہيں لہذا برے اخلاق اور صغيرہ اور كبيرہ گناہوں كى پہچان ميں ہميں كوئي مشكل نہيں آتى اس كے باوجود ہم غالبا شيطن اور نفس امارہ كے قيدى ہيں اور توفيق حاصل نہيںكرتے كہ اپنى نفس گناہوں اور برے اخلاق سے پاك كريں اور يہى اساسى مشكل ہے كہ جس كا علاج ہميں سوچنا چاہئے_ ميرى نگاہ ميں اس كا مہم ترين سبب دو چيزيں ہيں_ پہلى كہ ہم اپنى اخلاقى بيماريوں كو نہيں پہچانتے اور اپنے بيمار ہونے كا اقرار نہيں كرتے اور دوسرے اخلاقى بيمارى كو معمولى قرار ديتے ہيں اور اس كے برے اور دردناك انجام سے غافل ہيں اسى لئے تو اس كے علاج كرنے ميں

كو شش نہيں كرتے يہى وہ دو مہم سبب ہيں كہ جنہوں نے ہميں اپنى اصلاح اور تہذيب نفس سے غافل كر ركھا ہے ہمارے لئے ضرورى ہے كہ اس ميں بحث كريں اور اس كا علاج بتلائيں_

بيمارى سے غفلت

ہم غالبا اخلاقى بيماريوں كو پہچانتے ہيں اور ان كے برے ہونے كو بھى جانتے ہيں ليكن يہ صرف دوسروں ميں نہ اپنے وجود ميں_ اگر ہم كسى دوسرے ميں برے اخلاق اور برے رفتار كو ديكھيں تو اس كى برائي كو اچھى طرح جان ليتے ہيں ہو سكتا ہے كہ وہى برى صفت بلكہ اس سے بدتر ہم ميں موجود ہو تو اس كى طرف ہم بالكل متوجہ نہيں ہوتے مثلا دوسرے كے حقوق كو ضائع كرنا برا سمجھتے ہيں اور اس كے بجا لانے والے سے نفرت كرتے ہيں ہو سكتا ہے كہ ہم خود دوسروں كے حقوق ضائع كر رہے ہوں ليكن اسے بالكل نہيں سمجھتے بلكہ اپنے كام كو تو دوسرے كے حقوق كو ضائع كرنا ہى نہيں جانتے بلكہ ہو سكتا ہے كہ اپنے ايسے كام كو ايك اپنى نگاہ ميں بہت عمدہ اور اخلاقى قدر والا گر دانتا ہو اسى طريقے سے اپنے نفس كو مطمئن كر ديتے ہيں يہى حال دوسرے برى صفات كا بھى ہو سكتا ہے يہى تو وجہ ہوتى ہے كہ ہم اپنى كبھى اصلاح كرنے كى فكر ميں نہيں جاتے كيونكہ اگر بيمار اپنے آپ كو بيمار نہ سمجھے تو وہ علاج كرنے كى فكر ميں نہيں جاتا اور چونكہ ہم اپنے آپ كو بيمار نہيں سمجھتے لہذا اس كے علاج كرنے كے درپے بھى نہيں ہوتے ہمارى سب سے بڑے مصيبت اور مشكل يہى ہے_ لہذا اگر ہم اپنى سعادت كى فكر ميں جائيں تو اس مشكل كا حل ہميں تلاش كرنا ہوگا اور جس ذريعے سے بھى ممكن ہو ہميں اپنى نفسانى بيماريوں كے پہچاننے ميں كوشش كرنى چاہئے_

نفس كى بيماريوں كے تشخيص كے راستے

بہتر ہوگا كہ نفس كى مختلف بيماريوں كى پہچان ميں ان وسائل سے كہ جن سے ممكن ہے استفادہ كيا جائے يہاں چند ايك كى طرف اشارہ كيا جاتا ہے_

1_ تقويت عقل: ملكوتى انسان كا اعلى مرتبہ اور اس كے وجود كا كاملترين امتياز جو انسان كے لئے تمام مخلوقات سے امتياز دينے كا منشا اور مبدا ہے اسے قرآن اور احاديث ميں مختلف ناموں سے ياد كيا گيا ہے روح نفس قلب عقل يہ تمام نام ايك حقيقت كو ظاہر كرتے ہيں ليكن اس حقيقت كو مختلف جہات كيوجہ سے مختلف نام ديئے گئے ہيں_

اس لحاظ سے كہ وہ حقيقت موجب فكر اور سوچ اور سمجھنا اور تعقل ہے اسے عقل كا نام ديا گيا ہے احاديث كى كتابوں ميں عقل كو ايك ممتاز مقام ديا گيا ہے يہاں تك كہ اس كے لئے ايك عليحدہ فصل احاديث كے كتابوں ميں مخصوص كى گئي ہے_ احاديث ميں عقل كو موجودات سے شريف ترين موجود اور احكام اور ثواب اور عقاب كا منشاء بتلايا گيا ہے جيسے امام محمد باقر عليہ السلام فرماتے ہيں كہ ” جب اللہ تعالى نے عقل كو پيدا كيا تو اسے بولنے پر قدرت دى اور پھر اسے كہا كہ اے عقل آگے آ؟ عقل نے اطاعت كى اور آگے آئي_ پھر اللہ تعالى نے فرمايا كہ لوٹ جا_ عقل نے پھر اطاعت كى اور لوٹ گئي اس وقت خداوند عالم نے فرمايا كہ” مجھے اپنى عزت و جلال كى قسم كہ ميں نے تجھ سے بہتر اور محبوب ترين مخلوق خلق نہيں كى تجھے كامل نہيں كرونگا مگر اس ميں كہ جسے ميں دوست ركھتا ہونگا_ جان لو كہ ميرے اوامر اور نواہى تيرى طرف متوجہ ہونگے اور تجھى ہى سے ثواب اور عقاب دونگا_

انسان عقل كے ذريعے فكر كرتا ہے اور حقائق كو معلوم كرتا ہے اچھائي اور برائي فائدہ مند اور ضرر رساں ذمہ داريوں كى تشخيص كرتا ہے اگر انسان كے پاس عقل نہ

ہوتى تواس كے اور حيوانات كے درميان كوئي فرق نہ ہوتا اسى لئے خداوند عالم نے قرآن كريم ميں تعقل اور تفكر اور تامل اور تفقہ پر اعتماد كيا ہے اور انسان سے چاہتا ہے كہ اپنى عقل كو اپنے آپ ميں كام ميں لائے_

قرآن مجيد ميں آيا ہے كہ خداوند ايسى نشانياں تمہارے لئے بيان كرتا ہے_ شايد تم تعقل كرو اور تفكر كرو_” نيز خدا فرماتا ہے ” وہ زمين ميں كيوں سير نہيں كرتے تا كہ ان كے لئے دل ہو كہ فكر و غور كريں_ 

نيز خدا فرماتا ہے كہ ” سب سے بدتر حركت كرنے والے وہ لوگ ہيں جو بہرے گونگے اور سوچ نہيں كرتے_

خداوند عالم ان لوگوں كو جوعقل كان اور زبان ركھتے ہيں ليكن حقائق كى پہچان ميں ان سے كام نہيں ليتے انہيں حيوانات كے زمرے ميں شمار كرتا ہے بلكہ حيوانات سے بھى بدتر قرار ديتا ہے كيونكہ وہ عقل سے كام نہيں ليتے_

خدا فرماتا ہے ” خدا پليدى كو ان پر قرار ديتا ہے جو تعقل نہيں كرتے_

انسان ميں جتنى اچھائي ہے وہ عقل سے ہے، عقل سے خدا كو پہچانتا ہے اور اس كى عبادت كرتا ہے اور قيامت كو قبول كرتا ہے اور اس كے لئے مہيا ہوتا ہے_ پيغمبروں كو قبول كرتا ہے اور ان كى اطاعت كرتا ہے_ اچھے اخلاق كو پہچانتا ہے اور اپنے آپ كو ان ميں ڈھالتا ہے برائيوں كو پہچانتا ہے اور ان سے پرہيز كرتا ہے_ اسى درجہ سے قرآن اور احاديث ميں عقل كى عظمت اور جلالت بيان كى گئي ہے_

امام صادق عليہ السلام ايك سوال كرنے والے كے جواب ميں فرماتے ہيں كہ ” عقل وہ چيز ہے كہ جس وجہ سے خدا كى عبادت كى جاتى ہے اور اس كے ذريعے سے بہشت حاصل كى جاتى ہے_

نيز امام صادق عليہ السلام فرماتے ہيں كہ ” جو شخص عاقل ہوگا دين ركھتا ہوگا اور جو شخص دين ركھتا ہوگا وہ بہشت ميں داخل ہوگا_

امام موسى كاظم عليہ السلام نے ہشام سے فرمايا كہ ” خدا كى لوگوں پر حجت اور

دليليں دو ہيں ايك ظاہرى اور دورسرى باطني_ ظاہرى حجت انبياء اور ائمہ عليہم السلام ہيں اور باطنى عقل ہے_

امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرماتا ہے _ ” عقل كے لحاظ سے كامل تر لوگ وہ ہيں جن كے اخلاق تمام سے بہتر ہوں_

امام صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ” مومن كا راہنما عقل ہے_

امام رضا عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ” ہر انسان كا دوست عقل ہے اور اس كا دشمن جہالت_

امير المومنين عليہ السلام نے فرمايا ہے ” انسان كا خودپسند ہونا اس كے عقل كے ضعيف ہونے كى دليل ہے_

امام موسى بن جعفر عليہ السلام نے ہشام سے فرمايا كہ ” جو شخص بغير مال كے بے نيازى اور روح كو حسد سے آرام اور اطمينان ميں ركھے اور دين ميں سالم رہے اسے تضرع اور زارى سے خدا سے دعا مانگى چاہئے كہ خدا اس كى عقل كو كامل كردے _ جو شخص عاقل ہوگا وہ قدر كفايت پر قناعت كرے گا اور جو شخص كفايت كى مقدر ارپر قناعت كرے گا وہ غنى اور بے نياز ہوگا اور جس نے مقدار كفايت پر قناعت نہ كى وہ ہرگز بے نياز نہ ہوگا_

امام موسى كاظم عليہ السلام فرماتے ہيں ” عقلمند انسان دنيا كے زائد امور كو ترك كرتے ہيں چہ جائيكہ گناہوں كو جب كہ ترك دينيا افضال ہے تو گناہوں كا ترك كرنا تو واجب ہے_ 

آپ نے فرمايا كہ ” عقلمند انسان جھوٹ نہيں بولتا گر چہ اس كى روح اس كى طرف مائل ہى كيوں نہ ہو_

آپ نے فرمايا كہ ” جو شخص مروت نہيںركھتا اور جو شخص عقل نہيں ركھتا وہ دين نہيں ركھتا وہ مروت نہيں ركھتا سب سے قيمتى انسان وہ ہے جو دنيا كو اپنے نفس كي

قيمت قرار نہ دے اور جان لو كہ تمہارے جسم كى قيمت سوائے بہشت كے اور كوئي نہيں ہے لہذا اسے بہشت كے عوض كسى اور چيز كے مقابلے فروخت نہ كرو_

ان تمام احاديث سے عقل كے پردازش اور قيمتى ہونے كو سمجھا جا سكتا ہے اور اس سے معارف اور علوم اور ايمان كا لانا عبادت خدا اور اس كى شناخت مكارم اخلاق سے استفادہ كرنا اور رذائل اور گناہوں سے اجتناب كرنا حاصل كيا جا سكتا ہے ليكن اس نقطہ كى طرف متوجہہ ہونا چاہئے اور اس سے استفادہ كيا جانا چاہئے_ عقل انسان كے بدن ميں ايك عادل قاضى ہے اور حاكم ہے ليكن يہ اس صورت ميں اچھا فيصلہ ديتا ہے جب اس كے لئے امن كا ماحول ميسر ہو اور اس كے فيصلے كو مورد قبول قرار ديا جائے يہ اس دانا اور قدرت مند اور مدبر اور خير انديش حاكم كے قائم ہے ليكن بشرطيكہ اس كے فيصلے اور حكومت كى تائيد كى جائے يہ ايك دانا مشورہ دينے والے اور مورد اعتماد اور خير انديش كے قائم ہے ليكن بشرطيكہ اس سے مشورہ طلب كيا جائے اور اس كے فرمان كو درست سنا جائے_

اگر بدن پر عقل كى حكومت ہو اور خواہشات اور غرائز نفسانى پر اس كا تسلط ہو تو وہ بدن كى مملكت پر بہترين طريقہ سے حكومت كرے گا_ غرائز اور قومى ميں تعادل برقرار كرے گا_ اور تمام كو تكامل اور سير و صعود الى اللہ پر برقرار ركھے گا ليكن اس سادگى سے حيوانى خواہشات اور تمايلات عقل كى حكومت كو قبول كرليں گے اور اس كے حكم كے سامنے سر تسليم خم كرديں گے نہ بلكہ يہ اتنى فتنہ انگيزى اور خرابكارى كريں گے_ تا كہ وہ عقل كو ميدان سے باہر نكال ديں اس كا علاج يہ ہے كہ عقل كو قوى كيا جاے كيونكہ عقل جتنا طاقت ور اور نافذ ہوگا وہ داخلى دشمنوں كو بہتر پہچانے گا اور ان پر تسلط حاصل كرنے اور انہيں دبانے پر زيادہ قادر ہوگا_ يہ ہمارى ذمہ دارى ہے كہ ہم عقل كو مضبوط بنانے كى كوشش اور جہاد كريں_

2_ عمل سے پہلے فكر كرنا: عقل كے قوى كرنے ميں ہميں كوشش كرنى چاہئے كہ

كسى كام كے انجام دينے سے پہلے سوچنا چاہئے اور اس كام كے نتائج اور آثار اور دنياوى اخروى اثرات كو خوب ديكھناچاہئے اور يہ عہد كرليں كہ كسى كام كو بھى اس كى عاقبت انديشى سے پہلے انجام نہ ديں تا كہ آہستہ آہستہ سوچنے اور تفكر كے ذريعے اپنى روح كو آگاہ كيا كريں_

حضرت على عليہ السلام فرماتے ہيں كہ ” تفكر انسان كو اچھے كاموں اور ان پر عمل كرنے كى دعوت ديتا ہے_

نيز حضرت على عليہ السلام فرماتے ہيں كہ ” كام كرنے سے پہلے انجام كو سوچنا تجھے پشيمانى سے محفوظ كردے گا_

ايك شخص رسول خدا كى خدمت ميں حاضر ہوا اور عرض كى ” يا رسول اللہ صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم مجھے كسى كام كى فرمائشے كريں”_ آپ(ص) نے فرماياكہ ” كيا تم ميرے كہنے پر عمل گروگے؟” اس نے كہا” ہاں يا رسول اللہ (ص) ”_ اس سے يہ سوال اور آپ كا يہ جواب تين دفعہ رد و بدل ہوا_ اس وقت رسول خدا نے فرمايا كہ ” ميرى فرمائشے يہ ہے كہ جب تم كسى كام كو انجام دينا چاہو تو اس كے انجام كے بارے ميں پہلے خوب غور و فكر كرلو اگر اچھا ہوا تو اسے بجالائو اور اگر شك اور اشتباہ ہو تو اسے بجانہ لائو_

رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا ہے كہ ” جلد بازى لوگوں كو ہلاكت ميں ڈال ديتى ہے اگر لوگ اپنے كاموں ميں تدبر كرتے تو كبھى ہلاك نہ ہوتے_

پيغمبر اسلام نے فرمايا ہے كہ ” انجام كو سوچنا اور جلد بازى نہ كرنا خدا كى طرف سے ہوتا ہے اور جلد بازى كرنا شيطن كى طرف سے _

معصوم كى حديث ميں يوں آيا ہے كہ ” غور و فكر شيشہ كى طرح ہے جو تمہيں اچھائي اور برائي ظاہر كردے گا_

حيوانات اپنے كاموں ميں غرائز اور حيوانى خواہشات كى پيروى كرتے ہيں اور غور اور فكر نہيں ركھتے ليكن انسان چونكہ اس كے پاس عقل ہے لہذا اسے پہلے كاموں ميں غور و فكر كرنا چاہئے اور اسے عاقبت انديش ہونا چاہئے گرچہ انسان بھى وہى حيوانى غرائز

اور خواہشات ركھتا ہے اسى وجہ سے جب كسى حيوانى خواہش كا طالب ہوتا ہے تو فورا اس كے بجالانے ميں دوڑتا ہے اور اس كى حيوانى خواہش اور غريزہ اسے غور و فكر كى مہلت نہيں ديتا كہ كہيں عقل اس ميدان ميں نہ آجائے اور اس كى حيوانى خواہش كے لئے سد راہ نہ بن جائے لہذا اگر ہم سے ہو سكے كہ ہم اپنے آپ كو يوں عادت ديں كہ ہر قدم اٹھانے سے پہلے اس ميں خوب غور اور فكر كريں كے راستے كو كھول ديں اور اسے اس ميدان ميں كام كرنے ديں اور جب عقل اس ميدان ميں وارد ہوگا تو وہ اس اقدام كے واقعى مصالح اور مفاسد كو درك كرے گا اور حيوانى خواہش اور تمايلات ميں اعتدال پيدا كرے گا اور ہميں تكامل انسانى كے صراط مستقيم كى راہنمائي كرے گا اور جب عقل طاقت ور ہوگا اور جسم كى مملكت ميں حاكم ہوجائے گا تو پھر وہ انسانيت كے داخلى دشمنوں اور نفسانى بيماريوں سے ہميں آگاہ كردے گا اور اس كے علاج اور روكنے كى طرف متوجہ ہو جائيگا اسى لئے قرآن اور احاديث ميں غور و فكر اور تعقل و تدبر كى بہت زيادہ تاكيد اور سفارش كى گئي ہے_

3_ نفس كے بارے ميں بدبيني: اگر انسان اپنے اندر كو ديكھے اور اپنى نفسانى صفات كو انصاف كى نگاہ سے تو لے تو پھر وہ اپنى نفسانى بيماريوں اور عيوب سے آگاہ ہوجائے گا كيونكہ انسان سب سے زيادہ سے زيادہ آگاہ ہے (يعنى اپنے اندر نيكى اور بدى كے وجود كو سب سے زيادہ سمجھتا ہے ليكن عذر لانے كے پردے اپنى بصيرت كى آنكھ پر ڈالنا رہتا ہے_

ليكن ہم ميں سب سے مشكل اور مصيبت يہ ہے كہ ہم فيصلے اور حكم دينے ميں غير جانبدار نہيں رہتے بلكہ اكثر اوقات ہم اپنے بارے ميں خوش بين اور خودپسند ہوتے ہيں ہم اپنے آپ كو اور اپنے افعال اور صفات اور گفتار كو اچھا اور بلا عيب سمجھتے ہيں_ انسانى نفس امارہ ہمارے حيوانى كاموں كو ہمارے سامنے ايسا خوشنما بناتا ہے كہ ہم اپنے برے كاموں كو بھى اچھا سمجھنے لگ جاتے ہيں_ قرآن ارشاد فرماتا ہے كہ وہ شخص كہ جس كے كام اس كے سامنے خوشنما بنائے گئے ہيں اور انہيں نيك سمجھتا ہے ( آيا تونے نہيں ديكھا؟)

” پس خدا جسے چاہتا ہے گمراہ كر ديتا ہے اور جسے چاہتا ہے اسے ہدايت ديتا ہے_

اسى لئے ہم اپنے عيبوں كو نہيں ديكھ پاتے تا كہ ان كى اصلاح كى كوشش كريں_ اس مشكل كا حل يہ ہے كہ ہم ہميشہ اپنے نفس پر بد گمان اور بدبين رہيں اور يہ احتمال ديں بلكہ يقين كريں ہم بہت سى برائيوں اور بيماريوں ميں گرفتار ہيں ايسى حالت ميں ہم اپنے نفس كے بارے ميں سوچيں_

امير ا لمومنين عليہ السلام نے متقيوں كے صفات ميں فرمايا ہے كہ ” انكا نفس ان كے نزديك مورد تہمت اور بدگمانى ميں قرار پايا ہے اور وہ اپنے كاموں ميں خوف كھاتے ہيں جب بھى ان ميں سے كوئي كسى كى تعريف كا مورد قرار پاتا ہے تو وہ اپنى تعريف كئے جانے ميں ڈرتے ہيں اور كہتے ہيں كہ ہم اپنے نفس سے زيادہ واقف ہيں اور خدا ہم سے بہت زيادہ آگاہ ہے_

بزرگ موانع ميں سے ايك مانع جو اجازت نہيں ديتا كہ انسان اپنى نفسانى بيماريوں سے آگاہ ہو اور اس كى اصلاح كرے يہى اپنے آپ كو اچھا سمجھتا اور اپنے بارے ميں حسن ظن ركھتا ہوتا ہے اگر يہ مانع دور كرديا جائے اور بطور انصاف اور يہ احتمال ديتے ہوئے كہ ہم ميں عيب موجود ہيں اپنے آپ كو پايا جائے تو اس وقت ہم اپنى بيماريوں كو بھى پہچان ليں گے اور ان كى اصلاح بھى كريں گے_

4_ روحانى طبيب كى طرف رجوع: انسان كا اپنے عيبوں كو پہچاننے كے لئے ايك ايسا اخلاق كے عالم كى طرف كہ جس نے اپنے نفس كى تہذيب كر ركھى ہو اور اچھے اخلاق سے متصف ہوچكا ہو رجوع كرنا چاہئے اپنے اندرونى صفات اور احوال كو بطور كامل اس كے سامنے بيان كرنا چاہئے اور اس عالم سے خواہش كرے كہ وہ اس كے نفسانى عيوب اور برے صفات سے اسے آگاہ كرے_

ايك روحانى طبيب جو اسلامي، اخلاقى اور نفسيات كو جانتا ہو اور خودعامل اور مكارم

اخلاق كا پابند ہو وہ تہذيب نفس اور سير و سلوك كے راستے بتلانے كے لئے بہت ہى اہميت ركھتا ہے اور موثر ہوا كرتا ہے اگر انسان اس قسم كا آدمى پيدا كرلے تو اسے خداوند عالم كا اس بزرگ نعمت پر شكريہ ادا كرنا چاہئے ليكن صد افسوس كہ اس قسم كے ادمى بہت كمياب ہيں_ قابل توجہ يہ بات ہے كہ روح كى بيماريوں كى تشخيص كرنا بہت مشكل ہے لہذا بيمار پر فرض ہے كہ اپنى اندرونى صفات اور افعال كو بغير چھپائے روحانى طبيب كے سامنے وضاحت سے بيان كردے تا كہ وہ اس كى بيمارى كى تشخيص كر سكے اور اگر بيمار نے اس بارے ميں روحانى طبيب كى مدد نہ كى اور واقعات كے اظہار ميں پس و پيش كيا تو وہ اس مطلوبہ نتيجہ تك نہيں پہنچ سكے گا_

5_ دانا دوست كى طرف رجوع كرنا: اچھا اور دانا اور خير خواہ ادوست اللہ تعالى كى ايك بہت بڑى نعمت ہوتا ہے جو تہذيب نفس اور برى صفات كے پہچان كے راستے ميں انسان كى مدد كر سكتا ہے_ بشرطيكہ وہ دانا ہو اور برى اور اچھى صفات كو پہچانتا ہو اس كے علاوہ وہ خير خواہ اور مورد اعتماد بھى ہو اس واسطے كہ اگر وہ اچھى اور برى صفات كو نہ پہچانتا ہو تو وہ اس كے متعلق اس كى مدد نہيں كر سكے گا اور اگر وہ مورد اعتماد اور خير خواہ نہ ہوا تو ممكن ہے كہ وہ دوستى كى حفاظت اور ناراضگى كے مول نہ لينے كيوجہ سے اپنے دوست كے عيب كو چھپا لے بلكہ ممكن ہے كہ وہ خوشامد كرتے ہوئے اس كے عيب كو اس كے سامنے اچھا بيان كرے اور اس عيب پر اس كى تعريف اور تمجيد شروع كردے اگر كوئي اس قسم كا دوست پيدا كرے اور اس سے خواہش كرے كہ جو نقص اور عيب اس ميں ديكھے اسے اس كا تذكرہ كردے تو اسے اس كى ياد دھانى اور تذكر پر اس كى عزت اور قدردانى كرنى چاہئے_

اپنے نفس كى اصلاح كے لئے ايسے دوست سے استفادہ كرنا چاہئے اس كے تذكرات سے استفادہ اور اس كى عزت اور قدردانى پر اسے يہ باور كرائے كہ اس كے عيب بيان كرنے پر نہ صرف اسے برا معلوم نہيں ہوتا بلكہ اس سے وہ خوشحال بھى ہو جاتا ہے_ اس دوست پر كہ جسے خيرخواہ قرار ديا گيا ہے ضرورى ہے كہ وہ بھى اپنےاخلاص اور صداقت كو عملى طور پر ثابت كرے_ بطور انصاف اور بغير محبت اور بغض كے دوست كے صفات كو پر كھے اور دقت كرے اور اس بارے جو اس كا نظريہ ہوا سے وہ خيرخواہى اور دوستانہ زبان ميں اسے بتلائے اور جہاں تك ہو سكے يہ اسے تنہائي اور مخفى طور سے بتلائے اور اس كے عيب كو لوگوں كے سامنے اظہار كرنے سے پرہيز كرے اس كى غرض واقع كا بتلانا ہو اور مبالغہ آميزى سے پرہيز كرے كيونكہ وہ اپنے مومن بھائي كے لئے بطور آئينہ ہوتا ہے جو خوبيوں اور اچھائيوں كو بغير كم اور زيادہ كے ظاہر كرتا ہے_ البتہ ايسے مہربان اور اصلاح طلب دوست جو انسان كے عيوب كو اصلاح كے لئے بيان كرديں بہت ہى كمياب ہوتے ہيں_ ليكن اگر كسى كو ايسا دوست مل جائے تو وہ ايك بہت بڑى سعادت پر فائز ہوتا جائيگا اسے اس كى قدر پہچاننى چاہئے اور اس كى ياد دھانيوں پر خوشحال ہونا چاہئے اس كے شكريہ كا اظہار كرے اور اسے متوجہ ہونا چاہئے كہ جو دوست اصلاح كى غرض سے انسان كے عيب كى ياد دھانى كرا رہا ہے اور ياد دھانى سے رنجيدہ خاطر ہو اور اس كے دفاع يا انتقام لينے پر اتر آئے_ اگر كسى نے تجھے بتلايا كہ كئي ايك بچھو تيرے لباس پر موجود ہيں كيا اس كے اس بتلانے سے تو رنجيدہ خاطرہ ہوگا اور اس سے انتقام لينے پر اتر آئے گا اس كے اس كہنے سے خوشحال ہوگا اور اس كى قدردانى كرے گا؟

برے صفات بھى بچھو كى طرح ہوا كرتے ہيں بلكہ اس سے بدتر ہوتے ہيں اور انسان كے جسم پر ڈيگ مارتے ہيں اور ہميشہ اس كے اندر چھپے رہتے ہيں جو ايسے بچھو سے بچانے ميں ہمارى مدد كرے اس نے ہمارى بہت بڑى خدمت انجام دى ہے_

امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا كہ ” ميرا بہترين بھائي وہ ہے جو ميرے عيب كو ميرے لئے بيان كرے_

6_ دوسروں كے عيب سے نصيحت لينا: انسان غالبا اپنے عيب سے غافل ہوتا ہے

ليكن دوسروں كے عيب كو ديكھتا ہے اور اس كى برائي كو خوب سمجھتا ہے اور مثال مشہور ہے كہ دوسروں كى آنكھ ميں تنكا ديكھتا ہے اور اسے پہاڑ سمجھتا ہے ليكن پہاڑ كو اپنى آنكھ ميں نہيں ديكھتا لہذا ايك راستہ اپنے نفسانى عيوب كى پہچان كا دوسروں كے عيوب كو ديكھتا ہے_ جب كسى عيب كو دوسروں ميں ديكھے تو اس پر اعتراض كرنے سے پہلے اسے اپنے ميں ڈھونڈے اور اپنے آپ ميں اسے مورد تفتيش قرار دے اور اپنے آپ ميں رجوع كرے اگر وہى عيب اس ميں موجود ہو تو اس كى اصلاح كرنے كى سعى اور كوشش كرے_ لہذا ہو سكتا ہے كہ دوسروں كے عيب سے نصيحت حاصل كرے اور اپنے نفس كو اس سے پاك كرلے رسول خدا(ص) نے فرمايا كہ” وہ سعادتمند انسان ہے جو دوسروں سے نصيحت حاصل كرے_

7_ اعتراض كئے جانے سے نصيحت حاصل كرے: دوست اكثر عيب كے ذكر كرنے سے اجتناب كرتے ہيں اس كے بر عكس دشمن اكثر عيب پر اعتراض اور تنقيد كرتے ہيں گرچہ وہ اعتراض كرنے ميں مخلص نہيں ہوتے بلكہ حسد بغض انتقام لينے كى غرض انہيں تنقيد كرنے پر ابھارتى ہے بہر حال انسان اپنے دشمنوں كے اعتراض اور تنقيد اور عيب جوئي سے استفادہ كر سكتا ہے انسان اپنے دشمنوں كے اعتراض سے دو طريق ميں سے كسى ايك سے روبرو ہو سكتا ہے پہلے يا تو وہ اپنے آپ كو ان اعتراضات سے دفاع كرنے پر آمادہ ہوجاتا ہے كيونكہ وہ عيب جوئي دشمن سے ظاہر ہوتى ہے اور وہ اس كے بيان كرنے ميں اچھائي كى نيت نہيں ركھتا لہذا جس طرح سے بھى ہو وہ اپنے لئے دفاع كى حالت پر آمادہ ہوجاتا ہے اور اس كى اس طرح كى آواز كو خاموش كرنے كے در پے ہوتا ہے اس طرح كا انسان نہ فقط اپنے عيب كى اصلاح نہيں كرتا بلكہ اس سے بڑھ كر دوسرى غلطى اور خطا اور اشتباہ ميں اپنے آپ كو گرفتار كر ليتا ہے دوسرے وہ دشمنوں كے اعتراضات كو اچھى طرح سے سنتا ہے اور پھر حقيقت شناسى كى نيت سے اپنے آپ ميں رجوع كرتا ہے اور بطور انصاف اس اعتراض كى تحقيق كرتا

ہے اگر اس نے ديكھا كہ دشمن كا اعتراض درست ہے اور اس كا نفس معيوب ہے تو فورا اس كى اصلاح كرنے كى كوشش كرتا ہے بلكہ اگر مصلحت كا تقاضا ہو كہ ايسے دشمن سے كہ جس نے اس كا عيب بيان كيا ہے اور وہ اس كے نفس كے پاك كرنے كا وسيلہ بنا ہے شكريہ ادا كرے ايسا دشمن اس لحاظ كرنے والے دوست سے كہ جو اس كے عيب كو چھپاتا ہے اور اس كى اس عيب پر تعريف كرتے ہوئے چاپلوسى كر كے اسے جہالت اور نادانى ميں ركھے رہتا ہے بہت زيادہ بہتر اور مفيد ہوگا اور اگر اس نے سوچ و بچار كے بعد ديكھا كہ دشمن كا بيان كردہ عيب اس ميں موجود نہيں ہے تو پھر خدا كا شكريہ ادا كرے اور اپنے نفس كى حفاظت كرے كہ كہيں اس برے عيب ميں بعد ميں مبتلا نہ ہوجائے اس صورت ميں انسان ايسے دشمن سے فائدہ اٹھايا ہے ليكن اس كا اس طرح كرنا اس سے مانع نہيں ہوگا كہ وہ عقلدئي اور شرعى طريقے سے دشمن كى سازش اور خيانت كے نقشے كو ناكام بنادے_

8_ روح كى بيماريوں كى علامتيں: بيمارى كى پہچان كا ايك بہترين طريقہ اس كى علامتوں سے ہوا كرتا ہے_ جسم كى بيمارى دو ميں سے ايك طريقے سے پہچانى جاتى ہے يا تو درد كے محسوس كرنے سے اور يا كسى عضو كے اس كام كے انجام دينے سے كمزور پڑ جانے سے جو اس كے ذمہ قرار پايا ہے كيونكہ بدن كے نظام كے برقرار رہنے ميں اس كے ہر عضو كا مخصوص عمل ہوا كرتا ہے اگر كوئي عضو اس كام كے انجام دينے ميں كمزور ہو جائے تو معلوم ہوجائيگا كہ وہ عضو مريض ہوگيا ہے مثلا آنكھ اگر سالم ہو تو وہ خاص شرائط كے ساتھ ديكھتى ہے پس اگر شرائط كے ہوتے ہوئے يا تو بالكل نہ ديكھے يا اچھى طرح نہ ديكھے تو معلوم ہو جائے گا كہ وہ بيمار ہے اسى طرح بدن كے بقيہ تمام اعضاء اور جوارح مثل كان ، زبان، ہاتھ، پائوں، دل ، جگر، گردے و غيرہ ان ميں سے ہر ايك كا ايك مخصوص كام ہوا كرتا ہے كہ جسے وہ سلامتى كى حالت ميں انجام ديتے ہيں اگر انہوں نے وہ مخصوص كام انجام نہ ديئے تو معلوم ہوجائيگا كہ وہ بيمار ہيں انسان كى روح اور نفس

بھى اسى طرح ہے كہ اس كے لئے فطرت اور خلقت كے لحاظ سے مخصوص كام قرار ديئے گئے ہيں جنہيں اس كو بجالانے ہوتے ہيں_ روح عالم ملكوت سے آئي ہے علم اور رحمت قوت احسان انصاف پسندى محبت معرفت نورانيت اور دوسرے كمالات اور مكارم اخلاق سے اسے سنخيت حاصل ہے اور ان سے مربوط ہے يہ فطرت كے لحاظ سے علت كو معلوم كرتى ہے اور خدا طلب ہے ايمان اور خدا كى طرف توجہ اور اس ذات سے محبت اور علاقمندى اس كى عبادت اور اس سے دعا اور راز و نياز روح كى سلامتى اور صحت كى علامتيں ہيں_ اسى طرح علم و دانش اور اللہ كے بندوں كى رضا الہى كے لئے خدمت_ قربانى اور ايثار، عدالت خواہى اور دوسرے مكارم اخلاق روح كى صحت اور سلامتى كى علامتيں شمار ہوتى ہيں اگر انسان اس قسم كى صفات اپنے ميں موجود پائے تو معلوم ہوجائيگا كہ اس كى روح سالم اور صحيح ہے اور اگر اسے حاصل ہو كہ وہ خدا كى طرف توجہہ نہيں ركھتا اور عبادت اور دعا اور مناجات سے لذت حاصل نہيں كرتا اور اس سے بھاگتا ہے خدا كو دوست نہيں ركھتا اور صرف مقام اور مرتبہ جاہ و جلال دولت اور ثروت اور اولاد اور بيوى شہوترانى اور لذات حيوانى كو اللہ كى رضا پر ترجيح ديتا ہے اور زندگى سے صرف منافع شخصى كا ہدف ركھتا ہے اور فداكارى اور قربانى اور ايثار اور احسان اور خدمت خلق سے لذت حاصل نہيں كرتا اور دوسروں كے درد اور مصيبت سے دردناك نہيں ہوتا_ ايسے شخص كو جان لينا چاہئے كہ اس كى روح واقعا بيمار ہے اگر وہ اپنى سعادت كو چاہتا ہے تو اسے بہت جلدى اپنى روح كى اصلاح اور علاج كرنا چاہئے_

علاج كرنے كا عزم

جب ہم نے نفس اور روح كى بيماريوں كو پہچان ليا اور يقين كرليا كہ ہم بيمار ہيں تو ہميں فورا علاج شروع كرنا چاہئے اور سب سے اہم اس مرحلہ ميں انسان كا ارادہ اور عزم ہے اگر واقعا ہم چاہئيں اور حتمى ارادہ كرليں كہ ہم اپنے آپ كو برائيوں اور برے اخلاق سے اپنى روح كو پاك كريں گے تو يسا كر سكتے ہيں ليكن اگر اس كو معمولى شمار كريں اور ارادہ اور عزم نہ كريں تو پھر روح كى سلامتى اور اس كام صحيح ہوجانا غير ممكن ہوگا يہ وہ وقت ہے كہ شيطن اور نفس امارہ اپنا كام كرنا شروع كر ديتا ہے اور مختلف بہانوں كو سامنے لاتا ہو تا كہ ہميں روح كى اصلاح كرنے سے روكے ركھے ليكن ہميں بہت زيادہ ہوشيار ہونا چاہئے تا كہ اس كے حيلے اور بہانوں كا فريب نہ كھائيں_ ممكن ہے كہ ہمارى برى عادت كو يوں بتلايا جائے كہ تم نے لوگوں كے ساتھ زندگى بسر كرنى ہے دوسرے بھى ايسى صفت ركھتے ہيں_ فلان فلان فلان كو ديكھو اسى صفت بلكہ اس سے بدتر صفت ركھتا ہے كيا تم تنہا زندگى گذار سكتے ہو؟ اگر تو چاہتا ہے كہ رسوائے زمانہ نہ ہو تو زمانے كى طرح چال چلو_ ليكن انسان كو اس فريب اور دھوكے كے سامنے ڈٹ جانا ہوگا_ اگر دوسرے اس مرض ميں مبتلا ہيں تو ان كا مجھ سے كيا ربط ہے كسى دوسروں كا اس بيمارى ميں گرفتار ہوجانا ميرے اس كے ارتكاب كا جواز نہيں بنتا_ اسے يوں كہنا ہوگا كہ يہ عيب اور بيمارى تو مجھ ميں موجود ہے اگر ميں اس بيمارى كے ساتھ مرگيا تو ہميشہ بدبختى اور شقاوت ميں جا پڑوں گا_ لہذا مجھے اس كا علاج كرنا چاہئے اور اپنے نفس كو اس سے پاك كرنا ہوگا_

ممكن ہے كبھى اور حيلے كے ذريعے سے كہ جس سے وقت گذرتا جائے اور تاخير ہوجائے شيطن ميدان ميں آجائے اور ہمارے ارادہ كو منصرف كردے اور يوں خيال ميں لائے كہ يہ تو ٹھيك ہے كہ يہ عيب تو تجھ ميں موجود ہے اور اس كى اصلاح بھى كرنى چاہئے ليكن اتنى جلدى كيا ہے اور كيا دير ہوگئي ہے؟ رہنے دو ميں فلان كام انجام دے لوں_ اس وقت فارغ البال ہو كر نفس كے پاك كرنے ميں مشغول ہو جائونگا_ ابھى تو ميں جوان ہوں اور عيش كرنے كا زمانہ ہے جب بوڑھا پے ميں جائونگا تو پھر توبہ كر لونگا اور نفس كے پاك كرنے ميں مشغول ہوجائونگا_ انسان كو متوجہ رہنا چاہئے

كہ يہ بھى شيطن كا ايك فريب اور حيلہ ہے_ كيا معلوم كہ اس وقت تك انسان زندہ رہے گا؟ شايد اس سے پہلے مرجائے اور انہيں نفسانى بيماريوں ميں فوت ہوجائے اس وقت ہمارا انجام كيا ہوگا؟ اور بالغرض اس وقت تك ز ندہ بھى رہ جائے تو كيا اس وقت شيطن اپنى حيلہ گرى اور فريب دينے كو چھوڑ دے گا_ اور ہميں آزاد چھوڑ دے گا تا كہ اپنے نفس كو پاك كر سكيں اس وقت شيطن كوئي اور فريب دے كر نفس كے پاك كرنے سے ہميں روك دے گا لہذا كتنا ہى اچھا ہے كہ ابھى سے نفس كے پاك كرنے ميں شروع ہوا جائے اور نفس امارہ پر قابو پايا جائے_ ممكن ہے كہ نفس امارہ ہميں كہے كہ تم نے فلاں صفت كى عادت كر ركھى ہے اور عادت كا چھوڑنا تيرے لئے ممكن نہيں ہو گا تو خواہشات نفس كا قيدى ہے كس طرح تو اپنے آپ كو اس قيد سے رہائي دلا سكتا ہے؟ تيرى روح گناہ اور معصيت كى وجہ سے تاريك ہوچكى ہے ابھى اسے گلو خلاصى ممكن نہيں ہے معلوم ہونا چاہيے كہ يہ بھى شيطن كى ايك فريب كارى اور دھوكا دہى ہے تجھے اپنے نفس كو كہہ دينا چاہئے كہ عادت كا چھوڑنا غير ممكن نہيں ہوتا بلكہ يہ ممكن ہے گرچہ يہ مشكل تو ہے ليكن اصلاح كرنے كے عمل ميں شروع ہو جانا چاہئے اور اپنے نفس كو پاك كرنے ميں كوشش كرنے چاہئے اگر گناہ اور برى عادت كا چھوڑنا ممكن نہ ہوتاتو يہ سارے حكم جو پيغمبر عليہ السلام اور ائمہ اطہار كے اس بارے ميں آئے ہيں تو ان سے صادر نہ ہوتے اور توبہ كے دروازے كسى وقت بند نہ ہوتے توبہ كا دروازہ ہميشہ كے لئے كھلا ہوا ہے لہذا حتمى ارادہ كر لينا چاہئے اور روح كے پاك كرنے ميں مشغول ہو جانا چاہئے_ ہو سكتا ہے كہ شيطان نفسانى بيماريوں اور برى صفات كو معمولى اور كم بتلائے اور كہے كہ تم واجبات كے بجالانے كے تو پابند ہو اور فلان فلان مستحب كام بھى بجالاتے ہو خدا تمہيں بخش دے گا اور تيرى جگہ بہشت ہے اور يہ كئي ايك برى صفات جو تم ميں موجود ہيں يہ اتنى اہم نہيں ہيں تيرے مستحبات كے بجالانے كى وجہ سے ان كا تدارك ہو جائيگا اور وہ بخش دى جائيں گى اس صورت ميں بھى ملتفت رہنا چاہئے كہ اس قسم كے خيالات اور اميديں دلانا بھى شيطن كا ايك مكر اور فريب ہوتا ہے

اور ہميں اپنے نفس ا مارہ سے كہنا چاہئے كہ نيك اعمال تو صرف متقيوں سے قبول ہوتے ہيں اور تقوى كا حاصل كرنا نفس كو پاك كئے بغير حاصل نہيں ہوتا اگر ہمارا نفس برائيوں سے پاك نہ ہوا تو نفس ميں اچھائيوں كى نشو و نما نہيں ہو سكے گى اور اگر نفس سے شيطن باہر نہ گيا تو فرشتہ رحمت اس ميں داخل نہيں ہو سكے گا اگر گناہ اور برے اخلاق سے نفس آلودہ ہوا تو آخرت كے جہان ميں اس كے لئے نور نہ ہوگا_

ہميں ہميشہ ان بيماريوں كے انجام كى طرف جو پہلے بيان كى جاچكى ہيں متوجہ رہنا چاہئے اس كے ساتھ احاديث اور اخلاق كى كتابوں كے مطالعہ سے ان نفسانى بيماريوں اور ان كى اخروى سزا اور عقاب كو مورد توجہ قرار دينا چاہئے اس ذريعے سے ہميں نفس امارہ كے حيلے اور بہانے اور نفس امارہ كے توہمات كا مقابلہ كرنا چاہئے اور نفس كى اصلاح اور اسے پاك كرنے ميں حتمى اور جزمى ارادہ كر لينا چاہئے اگر ہم نے ارادے كا مرحلہ طے كر ليا تو پھر عمل كرنے كا مرحلہ قريب تر ہوجائيگا_

نفس پس غلبہ كرنا

تمام اعمال اور افعال اور برائياں اور اچھائيوں كو بجالانے والى در حقيقت روح ہوا كرتى ہے اگر روح سالم اور صحيح ہو تو انسان كى دنيا اور آخرت آباد ہوگى اور اگر روح فاسد ہوئي تو پھر وہ برائيوں كے بجالانے كا موجب ہوگى اور دنيا اور آخرت كى ہلاكت اسے لاحق ہوجائيگى اگر انسان نے انسانيت كے راستے پر قدم ركھا تو اللہ كے مقرب فرشتوں سے بھى بالاتر ہوجائيگا اور اگر اسے نے انسانى شرافت كو نظر انداز كيا اور حيوانيت كے راستے پر گامزن ہوا تو حيوانات سے بھى بدتر ہوجائيگا بلكہ وہ شيطنت كے مقام تك پہنچ جائيگا ان دونوں راستوں كے طے كرنے كے اسباب اور عوامل انسان كى فطرت ميں ركھ ديئے گئے ہيں_

وہ عقل بھى ركھتا ہے اور فطرت كے ما تحت انسانى فضائل اور كمالات كا چاہنے والا بھى ہوتا ہے اور يہ حيوان بھى ہے اور حيوانى غرائز اور خواہشات بھى ركھتا ہے اور يوں بھى نہيں كہا جا سكتا كہ حيوانى خواہشات اور غرائز بالكل اور نقصان وہ ہوتى ہيں اور انسان كو پستى كى طرف دكھيل ديتى ہيں نہ بلكہ ان كا ہونا بھى انسان كى زندگى كے لئے ضرورى ہے_ اگر ان سے صحيح اور تھيك استفادہ كيا جائے تو انہيں انسانى تكامل اور اللہ كى طرف سير و سلوك كے لئے كام ميں لايا جا سكتا ہے ليكن اصل مشكل يہ ہے كہ حيوانى خواہشات اور تمنيك ايك معين حد تك نہيں تھہر تيں اور دوسروں كا لحاظ نہيں كرتيں اور نہ ہى انسانى خصوصيات كى طرف متوجہ ہوتى ہيں اور نہ ہى دوسرے غرائز كا لحاظ كرتى ہيں بلكہ ان كى غرض اور غايت صرف اپنے آپ كو آخر تك پہچانا ہوتا ہے_

حيوانى غريزہ كى غرض صرف اسى غريزہ كو بطور كامل حاصل كرنا ہوتا ہے اور اس كے علاوہ اس كى كوئي غرض نہيں ہوتى تمام حيوانى خواہشات اور غرائز جيسے كھانے پينے كى چيزوں سے لذت حاصل كرنا مقام اور منصب كى محبت حكومت اور شہرت مال اور دولت سے وابستگى زندگى كے تجملات اسى طرح غصہ انتقام لينا اور تمام وہ صفات جو ان سے پھوٹتى ہيں يہ تمام كى تمام كسى ايك معين حد تك نہيں تھہرتيں بلكہ ان ميں سے ہر ايك كو آخر تك حاصل كرنا مقصود ہوجاتا ہے_

اسى وجہ سے انسان كا نفس اور روح مختلف خواہشات اور غرائز كے لئے ميدان جنگ اور شكست و ريخت كا ميدان بنا رہتا ہے اور كبھى آرام اور سكون ميں نہيں رہتا جو بھى اس جنگ ميں كامياب ہو جاتا ہے وہى روح اور نفس كو پورى طرح اپنا اسير اور قيدى بنا ليتا ہے ليكن ان كے درميان عقل بہت قدرت اور بہت زيادہ اہميت ركھتى ہے_ عقل شرعيت كى راہنمائي ميں حيوان خواہشات اور تمينات پر كنتڑل كر سكتى ہے اور انہيں اعتدال كى حالت ميں قرار دے سكتى ہے اور افراط اور تفريط سے مانع بن سكتى ہے عقل اپنى حكومت كو كام ميں لا سكتى ہے_ خواہشات كے درميان اعتدال برقرار كر

سكتى ہے_ عقل اس وسيلے سے نفس اور روح كى مملكت كو گڑ بڑ اور نا آرامى اور زيادہ طلبى سے نجات دلا سكتى ہے اور انسانيت كے سيدھے راستے اور سير اور سلوك كى راہ نمائي كر سكتى ہے_

ليكن عقل كا اسپر حاكم اور مسلط ہوجانا كوئي آسان كام نہيں ہے كيونكہ وہ باقى طاقت ور قوتوں اور خواہشات كے روبرو ہوتى ہے اور دھوكے باز دشمن كہ جس كا نام نفس امارہ ہے اور اس كے بہت زيادہ مددگار اور ساتھى ہيں جو اس كى حمايت كرتے ہيں_ اسے اس كا سامنا كرنا پڑتا ہے_

خداوند عالم قرآن ميں فرماتا ہے كہ” نفس ہميشہ برے كاموں كا حكم ديتا ہے مگر خدا رحم كردےں_

رسول خدا(ص) نے فرمايا ہے كہ ” تيرا سب سے بڑا دشمن تيرا نفس ہے جو تيرے دو پہلو ميں موجود دہے_

اميرالمومنين عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ” عقل اور شہوت ايك دوسرے كى ضد ہيں علم عقل كى مدد كرتا ہے اور ہوى اور ہوس شہوت كى تائيد كرتے ہيں_ انسانى نفس دو قوتوں كى لڑائي كا ميدان ہوتا ہے ان ميں سے جو دوسرى قوت پر غلبہ حاصل كر لے انسانى نفس كو اپنى گرفت ميں لے ليتا ہے_

حضرت على عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ” برائي اور شر ہر ايك نفس ميں موجود ہيں اگر نفس كے مالك نے اس پر غلبہ حاصل كر ليا تو وہ مخفى ہوجاتا ہے اور اگر اس پر غلبہ نہ كيا تو وہ ظاہر ہوجاتا ہے_ 

لہذا عقل بہت اچھا حاكم ہے ليكن مدد كئے جانے كا محتاج ہے اگر اس جنگ ميں عقل كى مدد كريں اور نفسانى خواہشات اور شہوات اور ہوى و ہوس پر شورش كريں اور جسم كى مملكت كے انتظام كا كاكم عقل كے سپرد كرديں تو ايك بہت بڑى فتح اور كامرانى كو حاصل كر ليں گے_

يہى دو چيز ہے كہ جو دين كے پيشوائوں اور رہبروں اور شريعت اور طريقت پر

چلنے والوں نے ہم سے طلب كى ہوئي ہے اور اس كے متعلق بہت زيادہ تاكيد كر ركھى ہے_

حضرت على عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ” ہوشيار رہنا كہ كہيں شہوات تمہارے دلوں پر غالب نہ آجائيں كيونكہ پہلے وہ تمہيں اپنى ملكيت ميں ليں گى اور آخر ميں تجھے ہلاك كرديں گي_(

امير المومنين عليہ السلام نے فرمايا كہ ” جس نے اپنى خواہشات كو اپنى ملكيت ميں قرار نہ ديا تو وہ اپنى عقل كا مالك بھى نہيں رہے گا_

امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا كہ ” جو شخص خوف اور رغبت اور شہوت اور غضب كے وقت اپنے نفس پر مسلط ہوا تو خدا اس كے بدن كو جہنم كى آگ پر حرام قرار دے دے گا_

حضرت على عليہ السلام نے فرماياہے كہ” تم اپنے نفس پر مسلط ہوجائو اور اسے گناہوں سے روكو تا كہ تم اسے اللہ كى اطاعت كى طرف آسان كردو_

روح انسانى كو پاكيز بنانے كے لئے نفس اور اس كى خواہشات اور ھوى اور ہوس پر كنتڑل كرنا ايك ضرورى اور زندگى ساز كام ہے_ انسان كا نفس اور روح مثل ايك سركش گھوڑے كى طرح ہے اگر وہ رياضت كے ذريعے مطيع اور آرام ميں ہوا اور اس كى لگام اپنے ہاتھ ميں ركھى اور اس كى پشت پر سوار ہوا تو پھر اس سے فائدہ حاصل كر سكے گا اور اگر وہ مطيع اور فرمانبردار نہ ہوا اور جس طرف چاہے وہ جانے لگا تو وہ تجھے اپنى پشت سے تہہ غار ميں گرا دے گا ليكن سركش نفس كو مطيع اور فرمانبردار بنانا كوئي آسان كام نہيں ہے وہ ابتداء ہى ميں تجھ سے مقابلہ كرے گا_ ليكن اگر تو مقاومت كرے اور مضبوط بنے تو وہ تيرا مطيع اور فرمانبردار ہوجائے گا_

امير المومنين عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ” اگر تيرا نفس تيرے سامنے سختى سے پيش ائے اور مطيع اور فرمانبردار نہ ہو تو بھى اس پر سختى كر تا كہ وہ تيرا مطيع اور فرمانبردار ہوجائے تو اس كے ساتھ حيلے اور بہانے سے پيش آتا كہ وہ تيرى اطاعت ميں آ

جائے _ 

نيز حضرت على عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ” انسان خواہشات اور شہوات مار دينے والى بيمارياں ہيں اور انكا بہترين علاج اور دوا، صبر اور استقامت اور اس كے مقابلے ميں ڈٹ جانا ہے_ 

نفس كے ساتھ جہاد

انسان كا سب سے بڑا دشمن اس كا نفس ہے اور وہ برابر عقل كے ساتھ جنگ اور تجاوز كى حالت ميں رہتا ہے_ شيطان كے وسوسوں سے الہام ليتا ہے اور لاو لشكر كے ساتھ عقل پر حملہ آور ہوتا ہے تا كہ اسے جدا اور خاموش كردے اور وہ تن تنہا ميدان پر قابو پائے ركھے اس كى غرض يہ ہے كہ فرشتوں كو نفس كى دنيا سے باہر نكال دے اور اسے پورى طرح شيطن كے قبضے ميں دے ے ايسے غدار دشمن كو سرنگوں كرنا كوئي آسان كام نہيں ہے_ اراہ حتمى اور مقابلہ بلكہ جہاد كرنا اس كے لئے ضرورى ہو جاتا ہے اور وہ بھى ايك دفعہ اور دو دفعہ يا ايك دن يا دو دن ايك سال يا دو سال نہيں بلكہ تمام عمر پے در پے جہاد كرنا ضرورى ہے _ اس سے سخت مقابلہ اور متصل جہاد چاہئے اور نفس اور روح كو رام كرنے اور اس كى خواہشات پر قابو پانے كے لئے بہت سخت جنگ كرنى پڑتى ہے_

پيغمبر عليہ السلام اور ائمہ طاہرين سے الہام لے كر عقل كى مدد سے اس كے لائو لشكر سے جنگ كريں اور نفس كے تجاوزات اور زيادتيوں كو روكے ركھيں اور اس كى فوج كو گھيرا ڈال كر ختم كرديں تا كہ عقل جسم كى مملكت پر حكومت كر سكے اور شرعيت سے الہام لے كر كمال انسانى اور سير و سلوك تك پہنچ سكے _ نفس كے ساتھ صلح اور آشتى نہيں كى جا سكتى بلكہ اس سے جنگ كرنى چاہئے تا كہ اسے زير كيا جائے اور وہ اپني

حد تك رہے اور شازش كرنے سے باز رہے سعادت تك پہنچنے كے لئے اس كے سوا اور كوئي راستہ موجود نہيں ہے _ اسى وجہ سے نفس كے ساتھ جنگ كرںے كو احادى ميں جہاد كہا گيا ہے_

حضرت على عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ” اپنے نفس پر پے در پے جہاد كرنے سے تسلط پيدا كرو_

آپ نے فرمايا ” نفس خواہشات اور ھوى اور ہوس پر غلبہ حاصل كرو اور ان سے جنگ كرو اگر يہ تمہيں جكڑ ليں اور اپنى قيد و بند ميں قرار دے ديں تو تمہيں بدترين درجہ ميں جاڈاليں گے_

آپ نے فرمايا كہ ” نفس كے ساتھ جہاد ايك ايسا سرمايہ ہے كہ جس كے ذريعے بہشت خريدى جا سكتى ہے_ پس جو آدمى اپنے نفس كے ساتھ جہاد كرے وہ اس پر مسلط ہوجائيگا_ اور بہشت اس كے لئے جو اس كى قدر پہچان لے بہترين جزا ہوگي.

آپ نے فرمايا ” جہاد كر كے نفس كو اللہ كى اطاعت پر آمادہ كرو_ اس كے ساتھ يہ جہاد ويسا ہو جيسے دشمن كے ساتھ كيا جاتا ہے اور اس پر ايسا غلبہ كرو جو ايك ضد دوسرى ضد پر غلبہ كرتى ہے لوگوں سے قوى ترين آدمى وہ ہے جو اپنے نفس پر فتح حاصل كرے_

آپ نے فرمايا كہ ” عقلمند انسان وہ ہے جو اپنے آپ كو نفس كے ساتھ جہاد ميں مشغول ركھے اور اس كى اصلاح كرے اور اسے ھوى اور ہوس اور خواہشات سے روكے ركھے اور اس طرح سے اس كو لگام دے اور اپنے كنتڑل ميں لے آئے_ عقلمند انسان اس طرح اپنے نفس كى اصلاح ميں مشغول رہتا ہے كہ وہ دنيا اور جو كچھ دنيا اور اہل دنيا ميں ہے اس ميں اتنا مشغول نہيں رہتا_

نفس كے ساتھ جہاد ايك بہت بڑى اہم جنگ اور نتيجہ خيز ہے ايسى جنگ كہ ہميں كس طرح دنيا اور آخرت كے لئے زندگى بسر كرنى اور ہميں كس طرح ہونا اور كيا كرنا ہے سے مربوط ہے اگر ہم جہاد كے ذريعے اپنے نفس كو كنتڑل كر كے نہ ركھيں

اور اس كى لگام اپنے ہاتھ ميں نہ ركھين وہ ہم پر غلبہ كر لے گا اور جس طرف چاہئے گا لے جائيگا اگر ہم اسے قيد ميں نہ ركھيں وہ ہميں اسير اور اپنا غلام قرار دے ديگا اگر ہم اسے كردار اور اچھے اخلاق اپنا نے پر مجبور نہ كريں تو وہ ہميں برے اخلاق اور برے كردار كى طرف لے جائيگا_ لہذا كہا جا سكتا ہے كہ نفس كے ساتھ جہاد بہت اہم كام اور سخت ترين راستہ ہے جو اللہ كى طرف سير و سلوك كرنے والے كے ذمہ قرار ديا جا سكتا ہے _ جتنى اس راستے ميں طاقت خرچ كى جائے وہ قيمتى ہوگي_

جہاد اكبر

نفس كے ساتھ جہاد اس قدر مہم ہے كہ اسے پيغمبر اكبر نے جہاد اكبر سے تعبير فرمايا ہے اتنا اہم جہاد ہے كہ جنگ والے جہاد سے بھى اسے بڑا قرار ديا ہے_

حضرت على عليہ السلام نے نقل فرمايا ہے كہ” رسول خدا(ص) نے ايك لشكر دشمن سے لڑنے كے لئے روانے كيا اور جب وہ جنگ سے واپس آيا آپ نے ان سے فرمايا مبارك ہو ان لوگوں كو كہ جو چھوٹے جہاد كو انجام دے آئے ہيں ليكن ابھى ايك بڑا جہاد ان پر واجب ہے آپ سے عرض كى گئي يا رسول اللہ(ص) بڑا جہاد كونسا ہے؟ آپ(ص) نے فرمايا اپنے نفس سے جہاد كرنا_

حضرت على عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ” بہترين جہاد اس شخص كا جہاد ہے كہ جو اپنے نفس سے جو اس كے دو پہلو ميں موجود ہے جہاد كرے_

پيغمبر اكرم(ص) نے اس وصيت ميں جو حضرت علي(ع) سے كى تھى فرمايا كہ ” جہاد ميں سے بہترين جہاد اس شخص كا ہے جب وہ صبح كرے تو اس كا مقصد يہ ہو كہ ميں كسى پر ظلم نہيں كرونگا_

ان احاديث ميں نفس كے ساتھ جہاد كرنے كو جہاد اكبر اور افضل جہاد كے نام

سے پہنچوانا گيا ہے يہ ايسا جہاد ہے كہ جو اللہ تعالى كے راستے ميں جہاد كرنے سے فضيلت اور برترى ركھتا ہے حالانكہ اللہ تعالى كے راستے ميں جہاد بہت ہى پر ارزش اور بہترين عبادت شمار ہوتا ہے اس سے جہاد نفس كا پر ارزش اور بااہميت ہونا واضح ہوجاتا ہے نفس كے جہاد كا برتر ہونا تين طريقوں سے درست كيا جا سكتا ہے_

1_ ہر ايك عبادت يہاں تك كہ اللہ تعالى كے راستے ميں جہاد كرنا بھى نفس كے جہاد كرنے كا محتاج ہے_ ايك عبادت كو كامل اور تمام شرائط كے ساتھ بجالانا نفس كے ساتھ جہاد كرنے پر موقوف ہے كيا نماز كا حضور قلب كے ساٹھ جالانا اور پھر اسكے تمام شرائط كى رعايت كرنا جو معراج مومن قرار پاتى ہے اور فحشا اور منكر سے روكتى ہے بغير جہاد اور كوشش كرنے كے انجام پذير ہو سكتا ہے؟ آيا روزہ كا ركھنا جو جہنم كى آگ كے لئے ڈھال ہے بغير جہاد كے ميسر ہو سكتا ہے_ كيا نفس كے جہاد كے بغير كوئي جہاد كرنے والا انسان اپنى جان كو ہتھيلى پر ركھ كر جنگ كے ميدان ميں حاضر ہو سكتا ہے اور اسلام كے دشمنوں سے اچھى طرح جنگ كر سكتا ہے؟ اسى طرح باقى تمام عبادات بغير نفس كے ساتھ جہاد كرنے كے بجالائي جا سكتى ہيں؟

2_ ہر ايك عبادت اس صورت ميں قبول كى جاتى ہے اور موجب قرب الہى واقع ہوتى ہے جب وہ صرف اللہ تعالى كى رضا كے لئے انجام دى جائے اور ہر قسم كے شرك اور رياء خودپسندى اور نفسانى اغراض سے پاك اور خالص ہو اس طرح كے كام بغير نفس كے ساتھ جہاد كئے واقع ہونا ممكن نہيں ہوسكتے يہاں تك كہ جنگ كرنے والا جہاد اور شہادت بھى اس صورت ميں قيمت ركھتى ہے اور تقرب اور تكامل كا سبب بنتى ہے جب خالص اور صرف اللہ كى رضاء اور كلمہ توحيد كى سربلندى كے لئے واقع ہو اگر يہ اتنى بڑى عبادت اور جہاد صرف نفس كى شہرت يا دشمن سے انتقام لينے يا نام كے باقى رہ جانے يا خودنمائي اور رياكارى يا مقام اور منصب كے حصول يا زندگى كى مصيبتوں سے فرار يا دوسرى نفسانى خواہشات كے لئے واقع ہو تو يہ كوئي معنوى ارزش اور قيمت نہيں ركھتى اور اللہ تعالى كے پاس تقرب كا موجب نہيں بن سكتى اسى وجہ سے نفس كے

ساتھ جہاد تمام عبادات اور امور خيريہ يہاں تك كہ اللہ تعالى كے راستے والے جہاد پر فضيلت اور برترى اور تقدم ركھتا ہے س واسطے كہ ان تمام كا صحيح ہونا اور باكمال ہونا نفس كے جہاد پر موقوف ہے يہى وجہ ہے كہ نفس كے جہاد كو جہاد اكبر كہا گيا ہے_

3_ جنگ والا جہاد ايك خاص زمانے اور خاص شرائط سے واجب ہوتا ہے اور پھر وہ واجب عينى بھى نہيں ہے بلكہ واجب كفائي ہے اور بعض افراد سے ساقط ہے اور بعض زمانوں ميں تو وہ بالكل واجب ہى نہيں ہوتا اور پھر واجب ہونے كى صورت ميں بھى واجب كفائي ہوتا ہے يعنى بقدر ضرورت لوگ شريك ہوگئے تو دوسروں سے ساقط ہو جاتا ہے اور پھر بھى عورتوں اور بوڑھوں اور عاجز انسانوں اور بيمار لوگوں پر واجب نہيں ہوتا ليكن اس كى برعكس نفس كا جہاد كہ جو تم پر تمام زمانوں اور تمام حالات ميں اور شرائط ميں واجب عينى ہوا كرتا ہے اور زندگى كے آخر لمحہ تك واجب ہوتاہے اور سوائے معصومين عليہم السلام كے كوئي بھى شخص اس سے بے نياز نہيں ہوتا_

4_ نفس سے جہاد كرنا تمام عبادات سے يہاں تك كہ جنگ والے جہاد سے كہ جس ميں انسان اپنى جان سے صرفنظر كرتى ہوئے اپنے آپ كو شہادت كے لئے حاضر كرديتا ہے_ مشكل تر ہے اور دشوار اور سخت تر ہے اس واسطے كہ محض اللہ كے لئے تسليم ہو جانا اور تمام عمر نفسانى خواہشات سے مقابلہ كرنا اور تكامل كے راستے طے كرنا اس سے زيادہ دشوار اور مشكل ہے كہ انسان جنگ ميں جہاد كرنے والا تھوڑے دن دشمن سے جنگ كے ميدان ميں جنگ كرے اور مقام شہادت پر فيض ياب ہوجائے_ نفس كے ساتھ مقابلہ كرنا اتنا سخت ہے كہ سواے پے در پے نفس كے ساتھ جہاد كرنے اور بہت زيادہ تكاليف كو برداشت كرنے كے حاصل نہيں ہو سكتا اور سوائے اللہ تعالى كى تائيد كے ايسا كرنا ممكن نہيں ہے_ اسى لئے نماز ميں ہميشہ اھدنا الصراط المستقيم بڑھنے ہيں_ صراط مستقيم پر چلنا اتنا دشوار اور سخت ہے كہ رسول گرامى اللہ تعالى سے كہتا ہے _الہى لا تكلنى الى نفسى طرفة عين ابدا_

جہاد اور تائيد الہي

يہ ٹھيك ہے كہ نفس كے ساتھ جہاد بہت سخت اور مشكل ہے اور نفس كے ساتھ جہاد كرنا استقامت اور پائيدارى اور ہوشيارى اور حفاظت كا محتاج ہے ليكن پھر بھى ايك ممكن كام ہے اور انسان كو تكامل كے لئے يہ ضرورى ہے اگر انسان ارادہ كرلے اور نفس كے جہاد ميں شروع ہوجائے تو خداوند عالم بھى اس كى تائيد كرتا ہے_ خداوند عالم قرآن مجيد ميں فرماتا ہے كہ ” جو شخص اللہ تعالى كى راہ ميں جہاد كرتے ہيں ہم انہيں اپنے راستے كى ہدايت كرتے ہيں_

حضرت صادق عليہ السلام فرماتے ہيں كہ مبارك ہو اس انسان كے لئے جو اللہ تعالى كى رضا كى خاطر اپنے نفس اور خواہشات نفس كے ساتھ جہاد كرے _ جو شخص خواہشات نفس كے لئے لشكر پر غلبہ حاصل كر لے تو وہ اللہ تعالى كى رضايت حاصل كر ليگا_ جو شخص اللہ تعالى كے سامنے عاجزى اور فروتنى سے پيش آئے اور اپنى عقل كو نفس كا ہمسايہ قرار دے تو وہ ايك بہت بڑى سعادت حاصل كرليگا_

انسان اور پروردگار كے درميان نفس امارہ اور اس كى خواہشات كے تاريك اور وحشت ناك پردے ہوا كرتے ان پردوں كے ختم كرنے كيلئے خدا كى طرف احتياج خضوع اور خشوع بھوك اور روزہ ركھنا اور شب بيدارى سے بہتر كوئي اسلحہ نہيں ہوا كرتا اس طرح كرنے والا انسان اگر مرجائے تو دنيا سے شہيد ہو كر جاتا ہے اور اگر زندہ رہ جائے تو اللہ تعالى كے رضوان اكبر كو جا پہنچتا ہے خداوند عالم فرماتا ہے جو لوگ ہمارے راستے ميں جہاد كرتے ہيں ہم ان كو اپنے راستوں كى راہنمائي كرديتے ہيں_ اور خدا نيك كام كرنے والوں كے ساتھ ہے_ اگر كسى كو تو اپنے نفس كو ملامت اور سرزنش اور اسے اپنے نفس كى حفاظت كرنے ميں زيادہ شوق دلا_ اللہ تعالى كے اوامر او رنواہى كو

اس كے لئے لگام بنا كر اسے نيكيوں كى طرف لے جا جس طرح كہ كوئي اپنے ناپختہ غلام كى تربيت كرتا ہے اور اس كے كان پكڑ كر اسے ٹھيك كرتا ہے_

رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم اتنى نماز پڑھتے كہ آپ(ص) كے پائوں مبارك ورم كر جاتے تھے اور لوگوں كے اعتراض كرنے پر انہيں يوں جواب ديتے تھے كہ كيا ميں شكر ادا كرنے والا بندہ نہ بنوں؟ پيغمبر اكرم عبادت كركے اپنى امت كو درس دے رہے تھے_ اے انسان تو بھى كبھى عبادت اور اس كى بركات كے مٹھاس كو محسوس كر ليا اور اپنے نفس كو اللہ تعالى كے انوار سے نورانى كر ليا تو پھر تو ايسا ہوجائيگا كہ ايك گھڑى بھى عبادت سے نہيں رك سكے گا گرچہ تجھے تكڑے ٹكڑے ہى كيوں نہ كرديا جائے_

عبادت سے روگردانى اور اعراض كى وجہ سے انسان عبادت كے فوائد اور گناہ اور معصيت سے محفوظ رہنے اور توفيقات الہى سے محروم ہوجاتا ہے_

نفس كى ساتھ جہاد بالكل جنگ والے جہاد كى طرح ہوتا ہے جو وار دشمن پر كريگا اور جو مورچہ دشمنوں سے فتح كرے گا اسى مقدار اس كا دشمن كمزور اور ضعيف ہوتا جائيگا اور فتح كرنے والى فوج طاقت ور ہوتى جائيگي_

اور دوبارہ حملہ كرنے اور فتح حاصل كرنے كے لئے آمادہ ہوجائيگي_ اللہ تعالى كا طريق كار اور سنت يوں ہى ہے اللہ تعالى فرماتا ہے كہ ان تنصر و اللہ ينصركم و يثبت اقدامكم_

نفس كے ساتھ جہاد كرنا بھى اسى طرح ہوتا ہے_ جتنا وار نفس آمادہ پر وارد ہوگا اور اس كى غير شرعى خواہشات اور ھوى و ہوس كى مخالفت كى جائيگى اتنى ہى مقدار نفس كمزور ہوجائيگا اور تم قوى ہوجائو گے اور دوسرى فتح حاصل كرنے كے لئے آمادہ ہوجائو گے برعكس جتنى سستى كرو گے اور نفس كے مطيع اور تسليم ہوتے جائوگے تم ضعيف ہوتے جائو گے اور نفس قوى ہوتا جاے گا اور تمہيں فتح كرنے كے لئے نفس آمادہ تر ہوتا جائيگا اگر ہم نفس كے پاك كرنے ميں اقدام كريں تو خداوند عالم كى طرف سے تائيد

كئے جائيں گے اور ہر روز زيادہ اور بہتر نفس امارہ پر مسلط ہوتے جائيں گے ليكن اگر خواہشات نفس اور اس كى فوج كے لئے ميدان خالى كرديں تو وہ قوى ہوتا جائيگا اور ہم پر زيادہ مسلط ہوجائيگا_

اپنا طبيب خود انسان

يہ كسى حد تك ٹھيك ہے كہ پيغمبر اور ائمہ اطہار انسانى نفوس كے طبيب اور معالج ہيں ليكن علاج كرانے اور نفس كے پاك بنانے اور اس كى اصلاح كرنے كى ذمہ دار ى خود انسان پر ہے_ پيغمبر عليہ السلام اور ائمہ اطہار انسان كو علاج كرنے كا درس ديتے ہيں اور نفس كى بيماريوں اور ان كى علامتيں اور برے نتائيج اور علاج كرنے كا طريقہ اور دواء سے آگاہى پيدا كرے اور اپنے نفس كى اصلاح كى ذمہ دارى سنبھال لے كيونكہ خود انسان سے كوئي بھى بيمارى كى تشخيص بہتر طريقے سے نہيں كر سكتا اور اس كے علاج كرنے كے درپے نہيں ہو سكتا_ انسان نفسانى بيماريوں اور اس كے علاج كو واعظين سے سنتا يا كتابوں ميں پڑھتا ہے ليكن بالاخر جو اپنى بيمارى كو آخرى پہچاننے والا ہوگا اور اس كا علاج كرے گا وہ خود انسان ہى ہوگا_ انسان دوسروں كى نسبت درد كا بہتر احساس كرتا ہے اور اپنى مخفى صفات سے آگاہ اور عالم ہے اگر انسان اپنے نفس كى خود حفاظت نہ كرے تو دوسروں كے وعظ اور نصيحت اس ميں كس طرح اثر انداز اور مفيد واقع ہو سكتے ہيں؟ اسلام كا يہ نظريہ ہے كہ اصلاح نفس انسان داخلى حالت سے شروع كرے اور اپنے نفس كو پاك كرنے اور بيماريوں سے محفوظ ركھنے كے رعايت كرتے ہوئے اسے اس كے لئے آمادہ كرے اور اسلام نے انسان كو حكم ديا ہے كہ وہ اپنے آپ كى خود حفاظت كرئے اور يہى بہت بڑا تربيتى قاعدہ اور ضابطہ ہے_ خدا قرآن ميں فرماتا ہے كہ ہر انسان اپنى نيكى اور برائي سے خود آگاہ اور عالم ہے گرچہ وہ عذر گھڑتا

رہتا ہے_

حضرت صادق عليہ السلام نے ايك آدمى سے فرمايا كہ ”تمہيں اپنے نفس كا طبيب اور معالج قرار ديا گيا ہے تجھے درد بتلايا جا چكا ہے اور صحت و سلامتى كى علامت بھى بتلائي گئي ہے اور تجھے دواء بھى بيان كردى گئي ہے پس خوب فكر كر كہ تو اپنے نفس كا كس طرح علاج كرتا ہے_

امام صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ” شخص كو وعظ كرنے والا خود اس كا اپنا نفس نہ ہو تو دوسروں كى نصيحت اور وعظ اس كے لئے كوئي فائدہ نہيں دے گا_

امام سجاد عليہ السلام نے فرمايا ” اے آدم كے بيٹے تو ہميشہ خوبى اور اچھائي پر ہوگا جب تك تو اپنے نفس كو اپنا واعظ اور نصيحت كرنے والا بنائے ركھے گا_

امير المومنين عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ” كمزور ترين وہ انسان ہے جو اپنے نفس كى اصلاح كرنے سے عاجز اور ناتواں ہو_

نيز اميرالمومنين عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ” انسان كے لئے لائق يہ ہے كہ وہ اپنے نفس كى سرپرستى كو اپنے ذمہ قرار دے _ ہميشہ اپنى روح كى اور زبان كى حفاظت كرتا رہے_

 

تبصرے
Loading...