قرآن فهمی (۳)

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

…اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ

اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَۃ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْالَھُمْ عَذَابٌُ اَلِیْمٌْ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لاَ تََعْلَمُوْنَ۔ وَلَوْ لاَ فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُہ وَاَنَّ اللّٰہَ رَ ءُو فٌ رَّحِیْمٌ۔ یٰاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَّبِعُوْا خُطُوَاتِ الشَّیْطَانِ وَمَنْ یَّتَّبِعْ خُطُوَاتِ الشَّیْطَانِ فَاِنَّیَاْمُرُ بِالْفَحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِ وَلَولاَ فَضلُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُہ مَا زَکیٰ مِنْکُمْ مِّنْ اَحَدٍ اَبَدًا وَّلٰکِنَّ اللّٰہَ یُزَکِیْ مَنْ یَّشَآ ءُ وَاللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ۔ (سُورۂ نُور، آیت ۱۹ تا ۲۱) گزشتہ تقریر میں ہم نے کہا تھا کہ قرآنِ کریم نے اس بات پر بہت زور دیا ہے کہ اسلامی معاشرے میں سرے سے ہی تہمت، بہتان، افتراء اور بد گوئی کا وجود تک نہیں ہونا چاہئے۔ مسلمان جب بھی اپنے مسلمان بہن بھائیوں کے متعلق کوئی ناروا بات سنیں تو جب تک ان کو اس کا (گمان و ظن نہیں بلکہ) قطعی یقین نہ ہو جائے اور کوئی شک باقی نہ رہے، یا وہ بات شرعی طور پر ثابت نہ ہو جائے ان پر لازم ہے کہ اسے ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیں۔ بالفاظ دیگر اس پر مٹی ڈال دیں۔ یہاں تک کہ اس بات کا ذکر کسی دوسرے شخص سے یہ کہہ کر بھی نہ کریں (’’میں نے سنا ہے‘‘ کہ…) نہ صرف یہ کہ اس غلط نسبت کو پورے وثوق کے ساتھ بیان نہ کریں بلکہ یہ بھی نہیں کہیں کہ ’’میں نے ایسی بات سنی ہے۔‘‘ کیونکہ ’’ میں نے سنا ہے‘‘ کہنے سے بھی اس بات کی تشہیر ہوتی ہے۔ اسلام ایسی بری، غلیظ اور ناپاک خبروں کی تشہیر کو ناپسند کرتا ہے۔ خصوصاً اس آیت کے ذیل میں ایک جملہ ہے جس میں خدا ارشاد فرماتا ہے۔ ’’وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ۔‘‘ وہ بتانا چاہتا ہے کہ تم نہیں جانتے کہ یہ کتنا بڑا ظلم ہے اور اس کے ساتھ ساتھ تم یہ بھی نہیں جانتے کہ اس ظلم کی سزا کتنی زیادہ ہے۔ اسلام چاہتا ہے کہ اسلامی معاشرے میں ایک دوسرے پر اعتماد کرنے اور ایک دوسرے کے متعلق اچھا گمان رکھنے کا ماحول قائم کرے، نہ یہ کہ اس میں بے اعتمادی، بدگمانی اور بد گوئی کا ماحول پایا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے غیبت کو گناہ کبیرہ قرار دیا ہے۔ اس کے بارے میں قرآن نے یہ الفاظ استعمال کئے ہیں: ’’وَلاَ یَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضاً اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّا کُلَ لَحْمَ اَخِیْہِ مَیْتًا۔‘‘ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کسی کی غیبت کرنے والا شخص درحقیقت اپنے اس مردہ بھائی کا گوشت کھاتا ہے۔

اسی بناء پر قرآنِ کریم نے مختلف الفاظ کی صورت میں اس مطلب پر بہت زور دیا ہے۔ ایک آیت یہ ہے کہ:

اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَۃ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ۔ (سُورۂ نور، آیت ۱۹) اس آیت کا ترجمہ کرنے کے بعد بیان کروں گا کہ اس کی تفسیر دو طریقوں سے کی جا سکتی ہے اور مفسرین نے دونوں طرح سے اس کی تفسیر کی ہے۔ دونوں تفسیریں ایک دوسری کے بہت قریب ہیں۔ آیت کہتی ہے کہ بے شک جو لوگ چاہتے ہیں کہ مؤمنین کے درمیان فحشاء کا رواج ہو ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔

یہ آیت ان آیات میں سے ہے جو اپنے دامن میں دو دو معانی سمیٹے ہوئے ہیں اور دونوں معانی درست ہیں۔

جن بڑے گناہوں کے ارتکاب پر خدا نے ’’عذابِ الیم‘‘ کی وعید کی ہے ان میں لوگوں کے درمیان فحشاء کو عام کرنے کا گناہ بھی ہے۔ بعض لوگ عملی طور پر فحشاء کی ترویج میں مصروف ہیں۔ وہ یا تو دولت کی خاطر یا دوسرے مقاصد کے حصول کے لئے اس کی ترویج کر رہے ہیں۔ البتہ دورِ حاضر میں یہ مقاصد عموماً سامراجی ہوتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ اشخاص فحشاء کو عام کیوں کرنا چاہتے ہیں؟ جواب یہ ہے کہ لوگوں کی مردانگی کو فحشاء کا رواج جتنا زیادہ متزلزل کرتا ہے دوسری کوئی چیز نہیں کر سکتی۔ اگر آپ کسی ملک کے نوجوانوں کی توجہ اہم مسائل (ایسے اہم مسائل جو سامراج کے مفاد کو خطرے میں ڈالتے ہیں) سے ہٹا کر انہیں عیش و نوش جیسے امور میں مشغول کرنا چاہیں تاکہ وہ کبھی بھی ان اہم مسائل کے متعلق غور و فکر نہ کریں اور نہ ہی ان کی جانب متوجہ ہوں، تو اس کا حربہ یہ ہے کہ جس حد تک ممکن ہو شراب فروشی میں اضافہ کیجئے، میخانوں کی تعداد بڑھائیے، بازاری عورتوں میں اضافہ کیجئے، لڑکے لڑکیوں کی ملاقاتوں کے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کیجئے۔ جس قدر ہیروئن اور تریاک نوجوان طبقے کی جسمانی و روحانی قوت کو تباہ کرتے ہیں، لوگوں سے قوت ارادی چھین لیتے ہیں، ان کے ارادے کو متزلزل کر دیتے ہیں، عزتِ نفس اور شرافت کے احساس اور مردانگی کو تباہ کرتے ہیں، اسی قدر فحشاء کا کردار بھی ہے۔ امریکی حکمران جو پوری دنیا کو برائیوں میں مبتلا کرنے کا پروگرام بنائے بیٹھے ہیں، ان کا منصوبہ یہی ہے کہ فحشاء پھیلائیں تاکہ عوام کی جانب سے انہیں کسی مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

کہا جاتا ہے کہ ایک رسالہ کے مدیر نے اس ہفتے کے شمارے میں کہا ہے کہ ’’میں ایسا حربہ اختیار کروں گا کہ تہران میں آئندہ دس سالوں تک دس سال اور اس سے زیادہ عمر کی لڑکی کی بکارت محفوظ نہیں رہے گی۔‘‘

اسلام پاکدامنی پر اتنا زیادہ زور کیوں دیتا ہے؟ ایک رات میں نے پاکدامنی کے فلسفہ پر تقریر کی تھی۔ پاکدامنی کا ایک فلسفہ یہ ہے کہ انسانی قوتیں جسموں میں جمع ہوں۔ شاید آپ کو یقین نہ آئے لیکن یہ حقیقت ہے کہ انسانی جسم کے ’’اوپری حصے کی نچلی جانب‘‘ سے انسان کی قوت ارادی بھی خارج ہوتی ہے۔

اسلام یہ نہیں کہتا کہ جنسی عمل بالکل انجام نہ دیا جائے۔ وہ بیوی کے ساتھ جنسی عمل انجام دینے کی اجازت دیتا ہے۔ وہ کلیسا اور کتھولک عیسائیوں کی رائے سے متفق نہیں ہے۔ البتہ دائرۂ ازدواج سے باہر رہ کر جنسی عمل انجام دینے کی اجازت ہرگز نہیں دیتا۔ اور یہ تدبیر اسلام نے زن و مرد کی شرافت، انسیت، مروت اور مردانگی کو محفوظ کرنے کے لئے اختیار کی ہے۔

پردہ کے متعلق بعد میں چند آیات آئیں گی۔ ان کے ضمن میں ہم اسی موضوع پر مزید گفتگو کریں گے۔

جو لوگ روح کو تباہ کرنے کے لئے فحشاء کی ترویج کرتے ہیں، قرآن ان کے متعلق فرماتا ہے ’’اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَۃ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ جو لوگ مؤمنین کے درمیان فحشاء کو زیادہ کرنا چاہتے ہیں ان کے لئے خدا نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔ یہاں یہ سوال ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ خدا نے اس (عذابِ الیم) کو قرآن کی آیت میں کیوں بیان کیا ہے؟ یہ سمجھانے کے لئے کہ یہ مسئلہ اسلام کی نظر میں بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے!

پس اس آیت کی ایک تفسیر یہی ہے کہ قرآن مؤمنین کے درمیان فحشاء پھیلائے جانے کا سختی سے نوٹس لیتا ہے۔ آیت کے دوسرے معنی کی وضاحت کی خاطر میں اس جگہ لفظ ’’فی‘‘ کے متعلق ایک ادبی نکتہ ذکر کرنے پر مجبور ہوں۔ فارسی میں ’’فی‘‘ کی جگہ ’’در‘‘ کا لفظ بولا جاتا ہے۔ مثلاً ہم کہتے ہیں ’’درخانہ‘‘ جس کو عرب ’’فی الدار‘‘ کہتے ہیں۔ بعض اوقات عربی زبان میں لفظ ’’فی‘‘ لفظ ’’در‘‘ کے لئے استعمال ہوتا ہے اور بعض اوقات لفظ ’’دربارہ‘‘ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اس مقام پر اس آیت کی تفسیر اس طرح بھی کی جا سکتی ہے اور بعض مفسرین نے اسی طرح کی ہے۔ اور دونوں تفسیریں درست ہیں۔ یہ دونوں معانی آیاتِ اِفک سے مربوط ہیں۔ آیت کا دوسرا معنی یہ ہے۔ ’’وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مومنین کے بارے میں فحشاء عام ہو‘‘ یعنی اب اس کا ترجمہ یہ نہیں ہے کہ ’’مومنین کے درمیان فحشاء عام ہو‘‘ بلکہ اس صورت میں اس کے معنی یہ ہوں گے کہ مؤمنین کے متعلق فحشاء عام ہو، یعنی جو لوگ ایمان والوں سے بری باتیں منسوب کرنا چاہتے ہیں۔ بعض لوگ حاسد ہوتے ہیں۔ جب یہ دیکھتے کہ کسی شخص کو معاشرے میں ایک اچھا مقام حاصل ہے تو چونکہ اس سے حسد کرتے ہیں اور دوسری جانب ان میں آگے بڑھنے اور اچھا مقام حاصل کرنے کی اہلیت و ہمت نہیں پائی جاتی، اس لئے فوراً اس پر کوئی تہمت لگانے کے بارے میں سوچنا شروع کر دیتے ہیں۔ اپنے دل میں کہتے ہیں کہ ہم تو اس مقام پر نہیں پہنچ سکتے، لہٰذا اب اس کو لوگوں کی نظروں سے گرائیں گے۔ (وہ یہ کام کس طرح انجام دیتے ہیں؟) یہ کام بہت مشہور کر دیتے ہیں، اس پر کوئی تہمت لگا دیتے ہیں جبکہ خدا جانتا ہے کہ یہ بہت بڑا گناہ ہے ۔ ایک مرتبہ نبی اکرم نے اپنے اصحاب سے فرمایا ’’ اَلَآ اُخْبِرُکُمْ بِشَرٍّ النَّاسِ‘‘ کیا میں تمہیں بتاؤں کہ سب سے زیادہ برا کون ہے؟ اصحاب نے عرض کیا ’’بلیٰ یا رسول اللہ‘‘ جی ہاں یا رسول اللہ۔ تو آپ نے فرمایا کہ ایسا شخص سب سے زیادہ برا ہے جس سے دوسروں کو بھلائی نہ پہنچے۔ اس کے پاس جو کچھ بھی ہو اسے فقط اپنی ذات تک محدود رکھے۔ جو اصحاب نبی اکرم کے ہمراہ تھے انہوں نے گمان کیا کہ ایسے شخص سے زیادہ برا اور کوئی نہیں ہو گا۔ مگر آپ نے فرمایا: ’’کیا تم چاہتے ہو کہ میں تمہیں بتاؤں کہ اس شخص سے بھی زیادہ برا کون ہے؟‘‘ تب آپ نے دوسرے گروہ کا نام لیا۔ اصحاب نے کہا ہمارا خیال تھا کہ اس دوسرے گروہ سے زیادہ برا کوئی نہیں ہو گا۔ لیکن نبی اکرم نے فرمایا ’’کیا میں تمہیں بتاؤں کہ ان سے زیادہ برا کون ہے؟‘‘ اصحاب نے عرض کیا ’’کیا ان سے زیادہ برا بھی کوئی ہے؟‘‘ تو اس وقت آپ نے تیسرے گروہ کا نام لیا۔ اور وہ گالیاں بکنے، تہمت لگانے، دوسروں کو بے آبرو کرنے والے اور بدزبان لوگوں کا گروہ ہے۔ اس کے بعد آپ خاموش ہو گئے۔ یعنی ان سے زیادہ برا اور کوئی نہیں۔

پس آیت کا دوسرا معنی یہ ہوا کہ ’’ جو لوگ چاہتے ہیں کہ اہلِ ایمان سے ناروا باتیں منسوب ہوں اور ان کا چرچا ہو وہ جان لیں کہ ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔‘‘

اس کے بعد خدا فرماتا ہے ’’فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃ ’’دنیا اور آخرت دونوں جہانوں میں‘‘ ان پر دردناک عذاب نازل ہوگا۔ یعنی اللہ تعالیٰ فقط آخرت میں ہی عذاب نازل نہیں کرے گا بلکہ دنیا میں بھی ان کو عذاب سے دوچار کرے گا۔

مجازات کا مسئلہ بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ ہمیں یہ تعلیم نہیں دی گئی کہ ہر گناہ کی سزا اسی دنیا میں ملے گی۔ بہت سے گناہوں کی سزا اس دنیا میں نہیں دی جاتی جبکہ آخرت میں ہر گناہ کی سزا دی جائے گی۔ البتہ بعض گناہ ایسے بھی ہیں جن کی سزا خدا اسی دنیا میں بھی دیتا ہے۔ ان گناہوں کا عکس العمل اسی دنیا میں ظاہر ہو کر رہتا ہے۔ (آپ تجربہ کر کے بھی دیکھ سکتے ہیں) ۔ ان میں سے کسی پر تہمت لگانے اور بے آبرو کرنے کا ایک گناہ ہے۔ جو شخص کسی پر جھوٹی تہمت لگاتا ہے ایک نہ ایک دن وہ اپنے کئے کی سزا پا لیتا ہے۔ یا تو کوئی دوسرا شخص اس جیسی تہمت اس پر لگا دیتا ہے۔ یا پھر وہ کسی اور طرح سے ذلیل و رسوا ہو جاتا ہے۔ 

وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ اور خدا جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ہو۔ قرآن بتانا چاہتا ہے کہ یہ بہت بڑی بات ہے۔ خدا جانتا ہے کہ یہ کتنا بڑا گناہ ہے اور تم نہیں جانتے ہو۔

’’وَلَوْ لاَ فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُہٌ وَاَنَّ اللّٰہَ رَ ءُ وْ فٌُ رَّحِیْمٌ ‘‘

اور اگر تم پر خدا کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی، اگر خدا مہربان اور رؤف نہ ہوتا تو اس غفلت کے سبب تم پر بڑا عذاب نازل ہوتا۔ لیکن خدا کے فضل نے تمہیں بچا لیا۔ یعنی تم اپنی اس غفلت اور منافقین کی گھڑی ہوئی باتوں کا چرچا کرنے کی وجہ سے دنیا میں ہی اتنے بڑے عذاب کے مستحق ہو گئے تھے کہ تمہارے پورے معاشرے کو نیست و نابود ہو جانا چاہئے تھا۔ مگر خدا کے فضل اور اس کی رحمت نے تمہیں بچا لیا۔

اس کے بعد قرآن مزید تاکید کرتا ہے۔

یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَّبِعُوْا خُطُوَاتِ الشَّیْطَانِ وَمَنْ یَّتَّبِعَ خُطُوَاتِ الشَّیْطَانِ فَاِنَّ یَاْمُرُ بِالْفَحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِ۔‘‘

اے ایمان والو! شیطان کے قدم بقدم نہ چلو۔ اور جو شخص شیطان کے قدم بقدم چلے گا تو وہ ضرور اس کو بے حیائی اور بدی کی باتوں کا حکم دے گا۔‘‘

اگر آپ کہیں کہ ہم تو شیطان کو نہیں پہچانتے، وہ ہمیں نظر نہیں آتا، لہٰذا ہمیں کیسے پتہ چلے گا کہ ہم اس کے نقشِ قدم پر چل رہے ہیں یا نہیں؟ تو اسے دیکھنے کی ضرورت نہیں۔ شیطان کو اس کے وسوسوں سے پہچانو۔ جب آپ محسوس کریں کہ آپ کے دل میں ایک ایسے خیال نے جنم لیا ہے جو آپ کو برائی کی دعوت دے رہا ہے تو جان لو کہ اسی جگہ شیطان کا قدم ہے۔ شیطان آگے بڑھ کر آپ سے کہہ رہا ہے ’’آجاؤ۔‘‘ وہ خیال شیطان کا ’’آ جاؤ‘‘ ہے۔ اس کی ضرورت نہیں ہے کہ آپ شیطان کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔ بلکہ اسے اپنے دل سے دیکھئے وَمَنْ یَّتَّبِعْ خُطُوَاتِ الشَّیْطَانِ۔‘‘ شیطان کے نقش قدم پر چلنے والے کو جان لینا چاہئے کہ ’’فَاِنَّہ یَاْمُرُ بِالْفَحْشآءِ والْمُنْکَرِ شیطان بے حیائی اور بدی کی باتوں کا حکم دیتا ہے۔‘‘

’’وَلَوْلاَ فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُہ۔‘‘ دوبارہ ارشاد ہوتا ہے: اے مسلمانو! تم نبی اکرم کے زمانے میں ہی تباہی کے کنارے پر جا کھڑے ہوئے تھے کہ اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت (اور وہ بھی فقط پیغمبر کی وجہ سے) تمہیں اپنے دامن میں نہ لے لیتی تو تمہارا معاشرہ تباہ ہو کر رہ جاتا اور تمہاری نجات کی کوئی صورت باقی نہ رہتی۔ اور جان لو کہ اگر آئندہ کسی زمانے میں ایسا واقعہ پیش آئے اور مسلمانوں کے خلاف کثرت سے افواہیں اڑائی جانے لگیں تو سمجھ لو کہ تم تباہ و برباد ہو جاؤ گے جیسا کہ آج کل ہم تباہ ہو چکے ہیں۔ ’’ وَلَوْلاَ فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُہ مَا زَکٰی مِنْکُمْ مِّنْ اَحَدٍ اَبَدًا۔‘‘ اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم میں سے کوئی کبھی پاک ہی نہ ہوتا۔ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یُزَکِّیْ مَنْ یَّشَآ ءُ وَاللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ لیکن اللہ جسے چاہتا ہے اور جس کو مستحق سمجھتا ہے گناہ سے پاک کر دیتا ہے۔ اللہ سننے اور جاننے والا ہے۔ دوسری آیت بھی اسی واقعہ کے بارے میں ہے۔ البتہ اس واقعہ کے ذیل میں ایک اور مطلب پایا جاتا ہے۔

وَلاَ یَاتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْکُمْ وَالسَّعَۃ اَنْ یُّؤتُوْٓا اُولِی الْقُرْبیٰ وَالْمَسَاکِیْنَ وَالْمُھَاجِرِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْاطاَلاَتُحِ بُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَاللّٰہُ لَکُمْ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔ ‘‘ (سُورۂ نُور، آیت ۲۲)

یہ ایک واقعہ کو بیان کر رہی ہے۔ وہ واقعہ یہ ہے کہ بعض مسلمان قرآن کے الفاظ میں ’’اُولُواالْفَضْلِ‘‘ تھے (جو انفاق نہیں کرتے تھے) اس فضل سے مراد مال و دولت ہے۔ یہ لوگ اہلِ فضل تھے یعنی مال دار تھے۔

دورِ حاضر میں لفظ ’’فضل‘‘ علمی فضلیت کے اظہار کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اب اگر ہم کہیں کہ فلاں شخص فاضل ہے تو مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ عالم ہے، ’’وہ فضلاء میں سے ہے‘‘ ، یعنی علماء میں سے ہے۔ لیکن قرآن مجید میں لفظ ’’فضل‘‘ کا اطلاق اس مال و دولت پر بھی کیا گیا ہے جسے جائز ذریعہ سے حاصل کیا گیا ہو۔ مثلاً سورہ جمعہ میں ارشاد ہے کہ جب تم نماز جمعہ سے فارغ ہو جاؤ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ ’’فضلِ الٰہی کی تلاش میں نکل پڑو‘‘ یعنی محنت مزدوری، کام اور تجارت کرو اور پیسہ کماؤ۔ قرآن فرماتا ہے کہ جو مسلمان جائز ذرائع سے مالدار بنے ہیں اور انفاق کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں وہ دوسروں کی مالی امداد روک لینے کی قسم نہ کھائیں۔ صاحبِ توفیق اور دولتمند مسلمان مہاجرین، مساکین اور اپنے قرابت داروں کی مالی امداد کیا کرتے تھے۔ لیکن پھر ایک واقعہ (بظاہر یہی افک والا واقعہ) پیش آیا جس کے باعث ان دولتمند مسلمانوں کو ان کی جانب سے دلی صدمہ پہنچا۔ وہ ان سے ناراض ہو گئے اور تعجب کے ساتھ کہنے لگے۔ ’’ہم تو خدا کی خوشنودی کی خاطر ان کی مالی امداد کیا کرتے تھے جبکہ یہ لوگ اس سے سوء استفادہ کر کے گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں۔ ہم ان کی امداد کرتے ہیں جبکہ یہ افواہیں اڑاتے ہیں، جھوٹی خبروں کی تشہیر کرتے ہیں۔ انہوں نے واقعہ افک میں حصہ لینے والے ان فقراء و مساکین کی مالی امداد روک لینے کا فیصلہ کر لیا اور ان کی امداد نہ کرنے کی قسم کھا لی۔ قرآن اتحاد بین المسلمین کے مسئلے کو بہت زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ اس کے باوجود کہ اس مقام پر افک و تہمت کا واقعہ پیش آیا تھا اور عام مسلمانوں سے غلطی سرزد ہوئی تھی مگر پھر قرآن یہاں مسلمانوں کی اس غلطی کی فقط اصلاح کرنا چاہتا ہے۔ وہ عامۃ المسلمین سے کہہ رہا ہے کہ تم نے ایک منظم گروہ کی افواہ کا چرچا کر کے بہت بڑی غلطی کی ہے۔ لیکن جب مالدار مسلمانوں نے ان کی مالی امداد روک لینے کا فیصلہ کیا، اور اگر وہ اپنے اس فیصلے کو عملی جامہ پہناتے تو جو لوگ جدا ہوئے تھے وہ ہمیشہ کے لئے ان سے جدا ہو جاتے۔ اس لئے قرآن نے فرمایا کہ تمہیں درگزر سے کام لینا چاہئے۔ اب ان کی غلطی سے چشم پوشی کرو اور انہیں معاف کر دو۔ وَلاَ یَاْ تَلِ اُولُو الْفَضْلِ مِنْکُمْ وَالسَّعَۃ۔‘‘ اور تم میں سے مالدار اور صاحب مقدور لوگ یہ قسم نہ کھا بیٹھیں کہ وہ رشتہ داروں، مساکین اور راہِ خدا میں ہجرت کرنے والوں کو کچھ نہ دیں گے، بلکہ اب بھی ان کی امداد کریں۔ وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْاطاَلاَ تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَاللّٰہُ لَکُمْ ’’ انہیں معاف کریں، درگزر سے کام لیں۔ کیا تم پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہارے گناہوں کو معاف کر دے‘‘؟ یہ آیت نازل ہوئی تو انہوں نے اپنا فیصلہ بدل دیا اور مالی امداد بحال کر دی۔

اس جگہ ایک نکتہ کو بیان کرنا ضروری ہے۔ جو اشخاص اسلام کی منطق سے آگاہ نہیں اور پورے طور پر اس سے آشنا نہیں ہیں وہ اس بات سے غافل ہیں کہ اسلام نے محبت کو اس کا جائز مقام عطا کیا ہے۔ عیسائیوں نے مشہور کیا ہے اور اب بھی وہ یہی مشہور کر رہے ہیں کہ عیسائیت ’’محبت کا دین‘‘ ہے، بھلائی کرنے اور درگزر کرنے کا دین ہے۔ کیوں؟ ان کا کہنا ہے کہ حضرت عیسیٰ نے فرمایا ہے کہ اگر کوئی شخص تمہارے ایک رخسار پر تھپڑ مارے تو اپنا دوسرا رخسار اس کے سامنے کر دو اور کہو کہ اب اس پر بھی مار جبکہ اسلام سخت گیری کا قائل ہے، اسلام تلوار کا دین ہے، اس میں درگزر کرنے کا ذکر تک نہیں، محبت کا نام و نشان تک نہیں عیسائیوں نے اس کا بہت زیادہ پروپیگنڈہ کیا ہے اور مسلسل کر رہے ہیں، درحالانکہ یہ ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ اسلام دینِ شمشیر بھی ہے اور دینِ محبت بھی۔ وہ سختی سے بھی کام لیتا ہے اور نرمی سے بھی جہاں سختی برتنے کا مقام ہو وہاں سختی برتنے کا حکم دیتا ہے اور نرمی برتنے کے مقام پر نرمی کو جائز قرار دیتا ہے۔ اسلام کی عظمت و اہمیت کا راز بھی اسی میں پوشیدہ ہے۔ اگر اسلام ایسا نہ ہوتا یعنی اگر وہ نہ کہتا ’’طاقت کا جواب طاقت سے دو، منطق کا جواب منطق کے ذریعے دو، محبت کے مقام پر محبت کرو، حتیٰ کہ بعض ایسے مقامات پر کہ جہاں تمہارے حق میں بدی کی گئی ہو وہاں تم اس کا جواب نیکی کے ساتھ دو تو ہم اس دین کو تسلیم ہی نہ کرتے۔

اسلام ہرگز یہ نہیں کہتا کہ اگر کوئی ستمگر تمہارے ایک رخسار پر تھپڑ مارے تو دوسرا رخسار اس کے سامنے کر دو۔ وہ کہتا ہے فَمَنِ اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتدٰی عَلَیْکُمْ‘‘ (بقرہ۔ ۱۹۴)

جو شخص تم پر زیادتی کرے تو ویسی ہی زیادتی تم بھی اس پر کرو جیسی اس نے تم پر کی ہے۔ اگر اسلام نے اس طرح نہ کہا ہوتا تو یہ ایک ناقص دین ہوتا۔

عیسائیت کے غیر قابلِ عمل ہونے کی ایک دلیل یہی ہے کہ اس کے پیروکار پوری دنیا کے لوگوں سے زیادہ خونخوار ثابت ہوئے ہیں۔ وہ لوگ جو کبھی اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ کیا کرتے تھے اور انجیل ہاتھ میں لے کر کہا کرتے تھے کہ یہ ’’محبت کی کتاب‘‘ ہے آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہی لوگ بیسیوں ٹن ’’محبت‘‘ ویٹ نام پر برسا رہے ہیں۔ اسی محبت کا حکم ان کو انجیل نے دیا ہے؟ اس محبت نے بم حتیٰ کہ نیپام بم کی شکل اختیار کر لی ہے۔ جس کے زمین پر پڑتے ہی بچے، بوڑھے اور عورتیں جل کر راکھ کا ڈھیر بن جاتے ہیں۔ اسلام ابتداء میں محبت سے کام لیتا ہے۔ جہاں محبت کارگر نہ ہو وہاں خاموش نہیں رہتا۔ وہ کہتا ہے ’’چون پند دھند نشنوی بند نہند۔‘‘ علی نے نبی اکرم کے متعلق فرمایا ’’طَبِیْبٌ دَوَّارٌ بِطِبِّہ قَدْ اَحْکَمَ مَرَاھِمَہ وَاَحْمٰی مَوَاسِمَہ۔ آپ چلتے پھرتے طبیب ہیں۔ آپ کے ایک ہاتھ میں مرہم ہے اور دوسرے میں آپریشن کے آلات۔ جہاں مرہم پٹی کے ساتھ معالجہ ہو سکتا ہو وہاں آپ مرہم پٹی کرتے ہیں اور جہاں مرہم کارگر ثابت نہ ہو وہاں آپ نشتر استعمال کرتے ہیں، وہاں داغنے کے آلات سے استفادہ کرتے ہیں۔ آپ دونوں سے استفادہ کرتے ہیں، سختی سے بھی اور نرمی سے بھی۔

سعدی نے کیا خوب کہا ہے۔

درشتی و نرمی بہ ہم در بہ است

چور گزن کہ جراح و مرہم نہ است

اور یہ بالکل وہی بات ہے کہ جو امیر المؤمنین نے بیان فرمائی ہے… یہ اللہ کی طرف دعوت دینے کی بات ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔ ’’اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ فَاِذَاالَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہ عَدَوَۃ کَاَنَّہ وَلِیّ حَمِیْمٌ ۔‘‘ اے پیغمبر (آپ کا فریضہ لوگوں کو خدا کی طرف بلانا ہے) جان لو کہ نیکی اور بدی ہم وزن نہیں ہیں، حتیٰ کہ برائیاں بھی ایک جیسی نہیں ہیں اور نہ ہی تمام نیکیاں ایک ہی درجے کی ہیں۔ تم برائیوں کو بہترین نیکیوں کے ذریعے دور کر دو۔ ’’اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ۔‘‘ دوسرے لوگ تمہارے حق میں بدی کرتے ہیں مگر تم نیکی سے پیش آؤ۔ اس کے بعد قرآن نفسیاتی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے کہہ رہا ہے کہ اگر تمہارا دشمن تمہارے ساتھ برائی سے پیش آئے اور تم اس کا جواب بھلائی سے دو تو تم دیکھ لو گے کہ برائی کا جواب نیکی کے ساتھ دینے میں کیمیا کا اثر ہے، یعنی یہ نیکی ماہیت کو تبدیل کر دیتی ہے۔ ایک وقت ایسا آئے گا جب تم دیکھو گے کہ جو تمہارا جانی دشمن تھا اس کی ماہیت بدل چکی ہے اور وہ تمہارا مہربان دوست بن چکا ہے۔

کون کہتا ہے کہ اسلام محبت کرنے کا حکم نہیں دیتا؟ کون کہتا ہے کہ اسلام محبت کا دین نہیں ہے؟ اسلام محبت کا دین ہے۔ لیکن جہاں محبت موثر نہ ہو اس جگہ اسلام خاموشی نہیں سادھ لیتا بلکہ سخت گیری کرتا ہے، تلوار استعمال کرتا ہے۔ آپ ’’اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ فَاِذَاالَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہ عَدَاوَۃ کَاَنَّہ وَلِیّ حَمِیْمٌ ‘‘ کے حوالہ سے نبی اکرم، امیرالمومنینؓ اور دوسرے ائمّہ طاہرین کی سوانح حیات میں بہت سے واقعات پڑھتے ہیں۔ اگر آپ بدی کا جواب نیکی سے دیں گے تو اس کا اچھا نتیجہ بھی دیکھ لیں گے۔ اس عمل کا اثر یہ ہے کہ یہ دشمن کو دوست بنا دیتا ہے۔

دعائے ’’مکارمِ اخلاق‘‘ میں بہت عمدہ مضامین پائے جاتے ہیں۔ ’’ اے خدا مجھے اس بات کی توفیق عطا کر کہ جو شخص مجھے گالی بکے میں اس سے اچھی بات سے پیش آؤں۔ جو شخص مجھ سے اپنا رشتہ توڑ ڈالے میں اس کے ساتھ ناطہ جوڑ لوں۔ جو میری غیر موجودگی میں میری غیبت کرے میں اس کی عدم موجودگی میں اس کی خوبیاں بیان کرو۔‘‘ اس دعا میں اس قسم کے بہت زیادہ جملے پائے جاتے ہیں۔

خواجہ عبداللہ انصاری نے بھی اس مطلب کو بہت اچھے پیرائے میں بیان کیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ بدی کا جواب بدی سے دینا کتوں کا شیوہ ہے۔ کتے بھی یہی کام کرتے ہیں۔ جب ایک کتا دوسرے کتے کو کاٹتا ہے تو دوسرا کتا پہلے کتے کو کاٹ لیتا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی سے برا سلوک کرے اور وہ بھی جواب میں برا سلوک کرے تو اس دوسرے شخص نے کتے کی مانند عمل انجام دیا ہے۔ اگر انسان کتے کو مارے تو وہ فوراً پلٹ کر اس کی ٹانگ پر کاٹ لیتا ہے۔ اور بھلائی کا جواب بھلائی سے دینا گدھوں کا شیوا ہے، یعنی اگر کوئی شخص کسی دوسرے سے اچھا سلوک کرے اور وہ بھی اس کا جواب نیکی سے دے تو اس نے کوئی قابل تحسین کام نہیں کیا۔ جب ایک گدھا دوسرے گدھے کے کندھے کو اپنے دانتوں سے کھجاتا ہے تو دوسرا گدھا بھی اس کے کندھے کو اپنے دانتوں سے کھجلاتا ہے۔ اتنی سی بات تو گدھا بھی جانتا ہے کہ نیکی کا جواب نیکی سے دینا چاہئے اور احسان کے بدلہ میں احسان کرنا چاہئے اور برائی کا جواب بھلائی سے دینا، برائی کے مقابلہ میں نیکی سے پیش آنا خواجہ عبداللہ انصاری کا کام ہے۔ قرآن فرماتا ہے۔ وَلاَ یَاْ تَلِ اُواالْفَضْلِ مِنْکُمْ وَالسَّعۃ اَنْ یُّؤتُوْٓا اُولی الْقُرْبیٰ وَالْمَسَاکِیْنَ وَالْمُھَاجِرِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ’’دولتمند مسلمان قسم نہ کھالیں۔‘‘ اس مقام پر ان کی دینی غیرت جوش میں نہ آئے۔ تہمت کا چرچا کرنے والوں نے گناہ کا ارتکاب کیا ہے۔ انہوں نے برا کام کیا ہے لیکن تم ان کے ساتھ اچھے سلوک سے پیش آؤ۔ تم قسم نہ کھاؤ کہ اپنے قرابت داروں، مساکین اور راہِ خدا کے مہاجرین کی مالی امداد اس وجہ سے روک لو کہ انہوں نے تہمت کا چرچا کرنے جیسے برے فعل کا ارتکاب کیا ہے وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْا انہیں معاف کر دیجئے، درگزر سے کام لیجئے۔ اَلاَ تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَاللّٰہُ لَکُمْ کیا تم نہیں چاہتے کہ خدا تمہارے گناہ معاف کر دے؟ (کِس قدر عمدہ تعبیر ہے!) اے انسانو! تم ایک دوسرے کے گناہوں سے درگزر کیا کرو کیونکہ تم خود بھی گناہ گار ہو اور یہ آس لگائے بیٹھے ہو کہ خدا تمہارے گناہوں کو نظرانداز کر دے گا تو جس سلوک کی امید تمہیں خدا سے ہے تم بھی ویسا ہی سلوک لوگوں سے روا رکھو۔ ان کے ساتھ سختی سے پیش نہ آؤ۔ جہاں تک بھی ممکن ہو بھلائی کے ذریعے گناہ گاروں کو راہِ راست پر لانے کی کوشش کرو اور اگر ایسا ممکن نہ ہو، یعنی اگر بھلائی مؤثر نہ ہو تب سخت گیری سے کام لو۔

اَئمہ طاہرین کے پسندیدہ خصائل میں ایک یہ ہے کہ وہ بہت سے غلام خرید کر ان کو کچھ عرصے تک اپنے گھروں میں رکھتے۔ اس کی وجہ یہ ہوتی تھی کہ چونکہ اسلام میں غلامی کا فلسفہ یہ ہے کہ غلاموں کے لئے ایک ایسا عرصہ (کفر کے زمانہ سے لے کر آزاد ہونے تک کا عرصہ) ہونا چاہئے جس میں وہ مسلمان افراد سے اسلامی تربیت حاصل کر سکیں۔ اور اسلام کے اس عمل کے بہت اچھے نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ یہ کام بھی اَئمہ طاہرین کے مختصات میں سے ایک تھا، (چونکہ زکوٰۃ کا ایک مصرف یہ ہے کہ غلام خرید کر آزاد کئے جائیں لیکن جس غلام نے اسلامی تربیت حاصل نہ کی ہو اسے خریدتے ہی آزاد کر دینا درست نہیں ہے۔ اگر کوئی غلام ایسا ہو جس نے پہلے سے اسلامی تربیت حاصل کر لی ہو تو اس کو آزاد کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر کسی غلام نے پہلے سے تربیت نہ پائی ہو تو ضروری ہے کہ اسے کچھ مدت تک حقیقی مسلمانوں میں سے کسی کے گھر میں رکھا جائے تاکہ وہ اسلامی آداب و رسوم سے آگاہ ہو جائے اور اس کے بعد اسے آزاد کیا جائے۔ ائمہ طاہرین یہ کام بہت زیادہ انجام دیتے تھے۔ جو غلام کچھ مدت تک ان کے گھر میں رہتے وہ اسلام کی حقیقت و ماہیت سے آشنا ہو جاتے اور اسلام ان کی روح کی گہرائیوں میں اتر جاتا۔ امام زین العابدین کے گھر میں بہت سے غلام تھے۔ سال کے دوران اگر کسی غلام سے کوئی غلطی سرزد ہو جاتی تو امام سجادؓ اسے ایک کاپی میں تحریر کر لیتے اور ماہِ رمضان کے آخری دن (یا آخری رات) میں تمام غلاموں کو جمع کر کے ان کے درمیان کھڑے ہو جاتے۔ کاپی منگواتے اور ان کو مخاطب کر کے فرماتے اے فلاں…تم کو یاد ہے کہ فلاں وقت تم نے نافرمانی کی تھی؟ وہ جواب دیتا جی ہاں (آپ باری باری ہر ایک کو اس کی خطائیں یاد دلاتے اور) آپ فرماتے: ’’خدایا! یہ میرے ماتحت ہیں انہوں نے میرے حق میں بدی کی ہے۔ میں تیرا بندہ ہوں۔ میں ان سب کو معاف کرتا ہوں۔ اے میرے مالک میں بڑا گناہگار ہوں۔ اے خدا اس گناہ گار بندے کو معاف کر دے۔‘‘ پھر آپ ان تمام غلاموں کو راہِ خدا میں آزاد کر دیتے۔

آپ نے توجہ فرمائی کہ اسلام میں ’’درگزر کرنے‘‘ کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ البتہ اسلام اجتماعی مسائل میں درگزر سے کام لینے کو روا نہیں رکھتا کیونکہ اس درگزر کا تعلق کسی ایک شخص کی ذات سے نہیں، کسی ایک فرد سے نہیں، بلکہ معاشرے سے ہوتا ہے۔ مثلاً چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے۔ اب جس کا مال چوری ہوا ہو وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں اس کو معاف کرتا ہوں، لہٰذا معاشرہ بھی اسے معاف کر دے۔ معاشرہ اس کو معاف نہیں کرتا۔ یہ تیرا (یعنی جس کا مال چوری ہوا ہے اس کا) حق نہیں ہے بلکہ معاشرے کا حق ہے۔

روایت میں ہے کہ ایک دفعہ امیرالمومنین علیہ اسلام (جیسا کہ آپ کا ظاہری خلافت کے زمانے میں معمول تھا کہ ہر جگہ اکیلے ہی جاتے تھے، حتیٰ کہ خلوت کی جگہوں پر بذاتِ خود جاتے اور حالات کا جائزہ لیتے) کوفہ کے ایک باغ میں سے گزر رہے تھے کہ آپ کو ایک آواز سنائی دی۔ ’’الغوث!‘‘ یعنی کوئی شخص مدد طلب کر رہا تھا۔ صرف ظاہر ہو رہا تھا کہ لڑائی ہو رہی ہے۔ آپ تیز تیز قد اٹھاتے ہوئے آواز کی طرف بڑھے۔ آپ نے دیکھا کہ دو آدمی ہاتھا پائی میں مصروف ہیں اور ایک شخص دوسرے کو پیٹ رہا ہے۔ آپ کے پہنچنے پر ان کا جھگڑا ختم ہو گیا۔ (شاید امام نے ان میں صلح کرائی ہو) پتہ چلا کہ وہ دونوں آپس میں دوست ہیں۔ آپ جب مارنے والے کو سزا کی خاطر اپنے ساتھ لے کر جانے لگے تو پٹنے والے نے کہا میں اسے معاف کئے دیتا ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ تم نے اپنی جانب سے اسے معاف کر دیا تو یہ تمہارا حق تھا۔ لیکن ایک حق سلطان کا بھی ہے یعنی حکومت کا بھی ایک حق ہے۔ حکومت پر لازم ہے کہ اسے سزا دے اس حق کو تم معاف نہیں کر سکتے کیونکہ اس کا تعلق تمہارے ساتھ نہیں ہے۔

میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جس حق کا تعلق معاشرے کے ساتھ ہو اس کو معاف نہیں کیا جا سکتا، اسے اسلام معاف نہیں کرتا۔ کسی شخص کا ذاتی حق معاف کیا جا سکتا ہے۔ اور یہ کہ اگر کوئی شخص کسی مجرم و گناہ گار کی مالی امداد کیا کرتا تھا، اب اس کی امداد روکنا چاہے تو یہ ایک ذاتی مسئلہ ہے۔ اس کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ اسے معاف کر دو۔ امداد بحال کر دو۔ یہی وجہ ہے قرآن بارِ دیگر عفو و چشم پوشی کا حکم دے رہا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ جہاں تک ممکن ہو محبت اور بھلائی کے ذریعہ تدارک کرے۔

اب ہم اس سے اگلی آیت پر گفتگو کا آغاز کرتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ قرآن میں تہمت (خصوصاً عورتوں پر تہمت) لگانے کے موضوع پر جتنا زور دیا گیا ہے کسی اور موضوع پر نہیں دیا گیا ’’اِنَّ الَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنَاتِ الْغَافِلاَتِ الْمُؤمِنَاتِ لُعِنُوْا فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃ وَلَھُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ ۔‘‘ جو لوگ پاکدامن غافل عورتوں (غافل عورت سے مراد وہ عورت ہے جو ہر بات سے بے خبر ہو کر اپنے گھر میں رہتی ہے) پر تہمت لگاتے ہیں ان پر دنیا و آخرت میں لعنت ہے اور ان کے لئے بہت بڑا عذاب ہے۔ ’’یَومَ تَشْھَدُ عَلَیْھِمْ اَلْسِنَتُھُم وَاَیْدِیْھِمْ وَاَرْجُلُھُمْ بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُون۔‘‘ جس دن ان کی زبانیں، ہاتھ اور پاؤں ان کے خلاف ان اعمال کی گواہی دیں گے جن کا انہوں نے ارتکاب کیا ہے۔

یہ قرآن کی منطق ہے البتہ یہاں اس کے متعلق تفصیلی بحث کی گنجائش نہیں ہے۔ قرآن بڑی صراحت کے ساتھ بتا رہا ہے کہ جہانِ آخرت زندہ ہے، اس جہان کی ہر چیز زندہ ہے اور اس جہان میں تمام اشیاء اور اعضاء ان اعمال کی گواہی دیں گے جن کا انہوں نے ارتکاب کیا ہو گا۔ ہاتھ گواہی دے گا کہ میں نے فلاں کام کیا تھا۔ اسی طرح پاؤں، آنکھ اور کان بھی اپنے اپنے افعال کی گواہی دیں گے۔ بدن کی جلد (حدیث میں آیا ہے کہ اس سے مراد شرمگاہ ہے) بھی اپنے فعل کی اطلاع دے گی۔ اس دن زبان پر مہر لگا دی جائے گی۔ (اس سے کہا جائے گا) اے زبان تو خاموش رہ، اعضاء و جوارح کو بولنے دے۔ زبان بولے گی تو فقط ان گناہوں کی گواہی دے گی جن کا اس نے ارتکاب کیا ہو گا۔ قرآن فرماتا ہے کہ جس دن اشخاص کی زبانیں، (چونکہ انہوں نے زبان سے گناہ کئے تھے) ہاتھ اور پاؤں ان کے خلاف ان اعمال کی گواہی دیں گے جن اعمال کو وہ انجام دے چکے ہوں گے۔ ’’یَوْمَئِذٍ یُّوَفِیْھِمُ اللّٰہُ دِیْنَھُمُ الْحَقَّ ‘‘ اس دن خداان کو پورا پورا بدلہ دے گا۔

اگر کوئی عورت۔ ’’نَعُوْذُ بِاللّٰہِ‘‘ بری ہو جائے اور اپنے دامنِ عفت کو داغدار کر لے تو مرد کی شرافت بھی داغدار ہو جاتی ہے۔ اور آپ جانتے ہیں کہ اگر کوئی مرد بدفعلی سے آلودہ ہو تو اس کی بیوی کی شرافت پر زیادہ حرف نہیں آتا بلکہ اس کی شرافت پر تو بالکل ہی حرف نہیں آتا۔ اس میں ایک نفسیاتی راز ہے۔ میں نے چند سال قبل خواتین کے مجلے میں ’’عورت‘‘ کے متعلق مقالات تحریر کئے۔ (جو اس مجلے میں بیان شدہ مقالات کے خلاف تھے) ۔ ان مقالات میں میں نے اس راز کو بیان کیا تھا۔ اسلام کے بہت سے احکامات کی بنیاد بھی اسی مطلب پر استوار ہے۔ اگر کوئی عورت بدکار ہو تو اس کا شوہر اپنی شرافت کا دعویٰ نہیں کر سکتا جبکہ ایسی نیک خواتین بکثرت معاشرے میں پائی جاتی ہیں جن کے شوہر بدکار ہیں لیکن لوگ ان خواتین کو بدکار شمار نہیں کرتے۔ لوگ کہتے ہیں کہ شوہر بدکار ہے تو اس کا بیوی سے کیا تعلق۔ اگر شوہر کثیف ہے تو بیوی کا کیا قصور؟ یہ رہی ایک بات۔ دوسری بات یہ ہے کہ عورت پاکدامنی جیسے امور میں مرد کی ناموس ہے۔ اس کے ذاتی و شخصی امور کا تعلق اس کے شوہر سے نہیں ہوتا۔ یعنی اگر کوئی عورت (نعوذ باللہ) بدکار ہو جائے تو شوہر کی آبرو پر حرف آتا ہے۔ لیکن اگر عورت میں کوئی دوسرا عیب ہو تو یہ مرد کا عیب نہیں ہے۔ مثلاً اگر کوئی عورت مومنہ نہ ہو بلکہ حقیقت میں کافرہ یا منافقہ ہو، تو اس بات سے شوہر کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اسی لئے قرآن کریم نے ’’حضرت نوح اور حضرت لوط کی بیویوں کی مثال بیان کی ہے۔ وہ دونوں پیغمبر تھے جبکہ ان کی بیویوں کے دل نورِ ایمان سے منور نہیں تھے۔ عقیدہ کے اعتبار سے وہ ان کے مخالفین کی صف میں تھیں۔ اس جگہ قرآن کریم فرماتا ہے: ’’خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لئے ہیں، ناپاک عورتیں ناپاک مردوں کے لئے ہیں اور پاک عورتیں پاک مردوں کے لئے ہیں۔‘‘ اس ’’پاکیزگی‘‘ سے مراد ناموس کی پاکیزگی ہے۔

ناپاک مرد غیرت سے محروم ہو جاتا ہے۔ وہ ناپاک عورت کو قبول کرتا ہے اور یوں ایک طرح کا انتخاب جنم لیتا ہے۔ پاک اشخاص ان اشخاص کو ڈھونڈتے ہیں جو پاک ہوں اور ناپاک اشخاص اپنے جیسوں کو تلاش کرتے ہیں۔ اس جگہ خدا نے شرعی قانون بیان نہیں کیا ہے بلکہ قرآن ایک فطری قانون بیان کر رہا ہے۔ آپ ملاحظہ فرماتے ہیں کہ پاک نوجوان لڑکا شادی کے لئے ایسی لڑکی کو تلاش کرتا ہے جو پاکدامن ہو اور پاک لڑکی بھی پاک شوہر کو پسند کرتی ہے جبکہ آلودہ اور کثیف نوجوان اس لڑکی سے بھی شادی کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا جو کئی لڑکوں سے ناجائز تعلقات قائم کر چکی ہو۔

کثیف مرد کی کثیف روح کثیف عورت کو پسند کرتی ہے اور کثیف عورت کی کثیف روح کثیف مرد کو پسند کرتی ہے جبکہ پاک مرد کی پاک روح پاک عورت کا انتخاب کرتی ہے اور پاک عورت کی پاک روح پاک مرد کا انتخاب کرتی ہے۔

آپ لوگ نبی اکرم اور ان کی ناموس کے متعلق کیسی باتیں کر رہے ہیں؟ کسی بھی پیغمبر کے خاندان میں ایسی برائیوں کا پایا جانا محال ہے۔ یہ تو ہو سکتا ہے کہ کسی پیغمبر کے گھر والے کافر ہوں، کسی نبی کا بیٹا کافر ہو، لیکن نبی کے گھر والوں کا فاسق ہونا محال ہے۔

تبصرے
Loading...