قافلہ آل محمّد کا شام میں ورود

لکھنے والے آیت اللہ انصاریان

اسیران آل محمّد  کے شام میں داخلے کے بارے میں سیّد ابن طاووس   مرحوم علامہ مجلسی اس طرح تحریر  فرماتے  ہیں :  جب یزید بن معاویہ کے کارندے اہل بیت رسول کو شام کے قریب لے آئےتو جناب امّ کلثوم  نے شمر لعین  کو طلب کیا اور  فرمایا:  ہماری ایک خواہش ہے اس نے کہا  :بتاؤ کیاکام ہے ؟ شہزادی نے فرمایا:معلوم ہوتا ہے کہ  یہ شہر، دمشق ہے،لہذا ہمارے قافلے  کو ایسے دروازے سے شہر میں لے جانا  جس سے لوگوں  کی آمد و رفت کم ہو،اور تماشابین افراد کاہجوم   کم  ہو ،دوسرے ان کٹے ہوئے سروں کو قافلہ کے آگے آگےرکھناتاکہ تماشائی ہمارے کھلے سروں کو دیکھنے کے بجائے ان نورانی سروں کو دیکھنے میں مشغول رہیں  

 لیکن شمرنے حضرت امّ کلثوم کی خواہش کے بر خلاف حکم دیاکہ اسیروں کے قافلے کو باب ساعات ( جو اس زمانہ میں اہل شام کی سب سے بڑی گذر گاہ تھا)سے گذارا جائے اور شہداء کےسروں کومحملوں کے بلکل قریب رکھا جائے، اس کے حکم کو بجالایاگیااور اہل بیت  کایہ قافلہ اسی طریقے سے مسجد جامع دمشق تک لایاگیاکہ جہاں پر ان  کو ٹہرایاگیا  

ایک بوڑھے شامی نے جب ان اسیروں کو دیکھا اور اپنے زعم ناقص میں یہ خیال کیاکہ(نعوذ باللہ من ذٰلک ) یہ سب کے سب کافر ہیں قریب آیااور کہا:”الحمد للّلہ الذی قتلکم و اھلککم “خداکاشکر  کہ اس نے تمہیں قتل  اور ہلاک کیا،  “و اراح البلادعن رجالکم “، اور مملکت اسلامی کو تمہارے مردوں کے شر سے محفوظ رکھا ،۔جب وہ اپنی بات کہہ چکا تو امام زین العابدین نے اس سے پوچھا؛”ھل قرات القرآن ؟”اے مرد عرب کیاتونے کبھی قرآن مجید پڑھا ہے ؟اس نے عرض کی کہ ہاں !پڑھا ہے ،آپ نے فرمایاکیا تونے اس آیہ کریمہ کی تلاوت کی ہے ؟”قل لااسئلکم علیہ اجراًالّا المودۃ فی القربیٰ ” 

اس نے جواب دیاکہ ہاں !پڑھاہے پھر آپ نے سوال کیاکہ کیا تونے  کبھی اس آیت قرآنی کو پڑھا ہے ؟  ؛”واعلموا انّما غنمتم من شئی ” اس نے پھر مثبت جواب دیا ۔ آپ (ع)نے ایک اور سوال کیاکہ کیاتونےیہ آیہ مبارکہ پڑھی ہے ؟؛”و آت ذاالقربیٰ حقّہ ”   اس نے جواب دیا ہاں پڑھا ے آپ نے پھر سوال کیا : کیا تونے اس آیت کو بھی پڑھا ہے ؟ انّمایرید اللہ لیذھب عنکم الرّجس اھل البیت و یطھر کم تطھیراً”؟ اس عرب  نے جواب دیاکہ ہاں میں نے ان سب آیات کو پڑھا ہے۔ حضرت امام سجّاد (ع) نے  فرمایا:کہ اے بوڑھے عرب !یہ آیات ہماری شان میں نازل ہوئی ہیں،وہ  ذوی القربیٰ ہم ہی  ہیں کہ جن کی محبت  کو اللہ نے واجب قرار دیاہے ،اوراہل بیت رسول (ص)بھی ہم ہیں کہ  اللہ نے ہم کو ہر نجاست سے پاک رکھاہے جب بوڑھے عرب نے امام کی زبان  سے یہ سنا دل ہی دل میں اپنے آپ کو بڑی ملامت کی اور اپنے کہے پر پشیمان ہوا ،ہاتھوں کو آسمان کی طرف بلندکرکےبارگاہ خداوندی میں معافی کا طلبگار ہوا،عرض کی :”اللہم انی اتوب الیک “خدایا تیری بارگاہ میں اپنے گناہوں پر توبہ کی عرضی لایاہوں  “اللہم انی ابرء الیک من عدوّ آل محمد و من قتلۃ اھل بیت محمد”خدایا!میں آل محمد کے دشمنوں  اور ان کے قاتلین سے بیزار ہوں ‘پھر اس کے بعد خدمت امام سجّاد  میں آیااور گذارش کی فرزند رسول کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے ؟ امام(ع) نےفرمایا؛”ان تبت  تاب اللہ علیک و انت معنا”اگر تم صدق دل سے توبہ کرو گے تو اللہ ضرور تمہاری توبہ کو قبول کرے گا اور تمہاراشمار ہمارے نقش قدم پر چلنے والو ں میں ہوگا۔ جیسے ہی یہ خبر یزید تک پہہونچی اس نے حکم دیاکہ اس بوڑھے کاسر تن سے جداکر دیا جائے  

 پیغمبر اسلام  کے  مشہور صحابی سہل ساعدی کہتے ہیں  :میں نے ایک ضروری کام  کی وجہ سے بیت المقدس کاسفر کیاواپسی میں شام پہونچا میں نے دیکھا کہ تمام شہر کی آئینہ بندی کی گئی ہے اور درو دیوار وں پر رنگ برنگی جھنڈیاں آویزاں کی ہوئی  ہیں اور کچھ گانے بجانے  والی عورتیں ناچ  ،گا رہی ہیں مجھے بڑا تعجب ہواکہ یہ کون سی خوشی کا موقعہ ہے ؟ میں نے ایک شامی سے پوچھا : کیا اہل شام ان ایّام میں کسی عید کا جشن مناتے ہیں  جس کی مجھے خبر نہیں ؟اس شامی نے جواب دیا  ایسا لگتاہے کہ تم اس شہر میں اجنبی ہو؟میں نے کہا نہیں  میں صحابی پیغمبر سہل ساعدی ہوں اور میں اس شہر میں بارہا آیاہوں ؛اس نے جواب دیا:”یاسھل مااعجبک”اے سہل ساعدی  تمہیں تعجب نہیں ہو رہاہے ؟”السمآء لاتمطر دماًو الارض لاتنخسف باھلھا”  یہ آسمان خون کیوں نہیں برسا  رہا ہے ؟ اوریہ زمین اپنے اہل سمیت غرق کیوں نہیں ہوئی ؟ میں نے کہا: آخر ایسا کیوں ہوناچاہئے ؟تو اس نے جواب دیا:کہ آج حسین ابن علی کے کٹے ہوئے سر کو ” جو عراق سے آیاہے” یزید کے سامنے لے جایاجارہاہے ،میں نے کہا : مجھے تعجب ہے کہ حسین کاسر یزید کے دربار میں لے جایاجارہاہے اور یہ لوگ خوشیاں منا رہے ہیں ؟ اچھا یہ بتاؤ کہ کون سے دروازے سے لے جارہے ہیں ؟  اس نے جواب دیا: دروازہ ساعات سے لے جارہے ہیں   

سہل ساعدی بیان کرتے ہیں کہ میں باب ساعات کے قریب پہونچا میں نے دیکھاکہ شہداء کے سروں کونیزوں پر اٹھا کر لایا جارہاہے پھر اس کے بعدسر سرکار سیّد الشہداء کو دیکھا  جو  ایک پرچم کے اوپر لٹکاہوا ہے ۔پھر  اس کےبعد  ایک برہنہ پشت اونٹ پر نظر پڑی کہ جس پر ایک بچّی سوار تھی ۔ میں اس کے قریب گیا اور اس سے پوچھابیٹی تم کون ہو ؟ اس نے نہایت افسردگی سے جواب دیا: میرانام سکینہ ہے، اور میں حسین کی یتیمہ ہوں ، میں نے بچی سے اپنا تعرّف کرایاکہ بیٹی !میں تیرے جد کاصحابی سہل ساعدی ہوں اگر کوئی کام تمہارے لئے کر پاؤں تو یہ میری خوش قسمتی ہوگی  ، بچی نے کہا :اے میرے ناناکے صحابی اگر  ہو سکے تو ایک کام کر دو! ان نیزہ برداروں سے کہو!کہ ان سروں کو محملوں سے دور لے جائیں تاکہ یہ لوگ ان سروں کو دیکھنے میں مشغول ہوجائیں   اور حرم رسول خدا کی طرف زیادہ متوجہ  نہ ہوں  سہل کہتے ہیں  میں اس شخص کے پاس گیاکہ جو سر امام حسین  کو اٹھائے ہوئے تھااور اس سے کہاکہ یہ چالیس دینار لے لو اور اس سر کو لے کر محملوں سے دور چلے  جاؤ  

منہال بن عمر کہتے ہیں کہ : ایک روز زندان شام میں حضرت امام سجّاد  سے ملاقات کرنے کے لئے پہونچااور میں نے عرض کی فرزند رسول اس قید خانے میں آپ کی زندگی کیسے گذر رہی ہے ؟ 

آپ نے فرمایا:ہم ان لوگوں کے درمیان اسی طرح زندگی گذار رہے ہیں جیسے بنی اسرائیل فرعونیوں کے درمیان، جس طرح ان کے مردوں  کو قتل کر دیاجاتاتھااور عورتوں کو کنیزی کے لئے زندہ رکھا جاتاتھا  ہم، رسول زادے ہیں، انہوں نے ہمارے  مردوں کو قتل کر دیااور ہمیں قیدی بناکر لائے ہیں  

  الملہوف علی قتلی الطفوف ،سیّد ابن طاووس ،ص۲۱۰ اور اس کے بعد 

  بحار الانوار،ج۴۵ ص۱۲۷،باب۳۹

تبصرے
Loading...