فلسفہ عزاداري امام حسين

ايک اور پہلو جو ماہِ محرم کي مناسبت سے قابل توجہ ہے اور جس پر بہت کم گفتگو کي گئي ہے وہ امام حسين کي عزاداري اورواقعہ کربلا کو زندہ رکھنے کي برکتيں ہيں۔حقيقت تو يہ ہے کہ تمام مسلمانوں پر مکتب ِ تشيع کي اہم ترين برتري اور امتيازيہ ہے کہ مکتب تشيع کا دامن’’واقعہ کربلا‘‘جيسے گوہر گرانقدر سے مالا مال ہے۔

مجالس عزا کي تين اہم خصوصيات!

پہلي خصوصيت:مخاطبين کے قلوب ميںمحبت اہل بيت کوزيادہ کرنادوسري خصوصيت يہ ہو ني چاہئے کہ عوام ’’واقعہ کربلا ‘‘کے حقيقي ماجرا کي نسبت ’’ آگاہي و شعور اور معرفت ‘‘حاصل کريں۔تيسري خصوصيت:مجلس عزائ ايمان و معرفت ميں اضافے کا سبب ہو

 

متن:

 

 

عاشورا اور محرم کے مصائب کو بيان کرنے کي فضيلت

ايک اور پہلو جو ماہِ محرم کي مناسبت سے قابل توجہ ہے اور جس پر بہت کم گفتگو کي گئي ہے وہ امام حسين کي عزاداري اورواقعہ کربلا کو زندہ رکھنے کي برکتيں ہيں۔حقيقت تو يہ ہے کہ تمام مسلمانوں پر مکتب ِ تشيع کي اہم ترين برتري اور امتيازيہ ہے کہ مکتب تشيع کا دامن’’واقعہ کربلا‘‘جيسے گوہر گرانقدر سے مالا مال ہے۔

مجالس عزا کي تين اہم خصوصيات!

پہلي خصوصيت:مخاطبين کے قلوب ميںمحبت اہل بيت کوزيادہ کرنا

مجالس عزا کي پہلي خصوصيت يہ ہو ني چاہئے کہ وہ اپنے مخاطبين کے قلوب ميں محبت ِ اہل بيت کو زيادہ کریں،چونکہ جذبات و احساسات کا رابطہ ايک مضبوط و مستحکم رابطہ ہوتا ہے ۔آپ علما اور مبلغين کو ہر صورت ميں يہ کام کرنا چاہئے کہ مجالس عزا ميں شرکت کرنے والے افراد کي امام حسين ،خاندان رسالت اور معرفت الٰہي کو نشو نما دينے والي اِن مجالس سے اُن کي محبت روز بروز زيادہ ہو۔اگر خدا نخواستہ آپ نے اِن مجالس ميں ايسا کو ئي کا م انجام ديا کہ جس سے مجلس ميں شرکت کرنے والا يا مجلس سے باہر کي فضا ميں موجود شخص اہل بيت سے اپنا قلبي رشتہ مضبوط نہ بنا سکے بلکہ اُن سے دوري اور بيزاري کا احساس کرے تو نہ صرف يہ کہ ايسي مجلس ايک بہت بڑي خصوصيت سے خالي ہو گي بلکہ ايک طرح سے اِن افراد کيلئے نقصاندہ بھي ثابت ہو گي۔

آپ مجلس عزا کے باني و ميز بان ہيں يا مجلس سے خطاب کرنے والے، دونوں صورتوں ميں آپ يہ ديکھئے کہ آپ کيا کام انجام دے سکتے ہيں کہ اِس مجلس کي برکت سے اِس ميں شرکت کرنے والے افرادکا قلبي رشتہ سيد الشہدا مام حسين اور اہل بيت رسالت ۰ سے روز بروز زيادہ ہوتاجائے۔

دوسري خصوصيت:واقعہ کربلا کي نسبت عوام ميں معرفت اور شعوروآگاہي کا پيدا ہو نا

مجالس عزا کي دوسري خصوصيت يہ ہو ني چاہئے کہ عوام ’’واقعہ کربلا ‘‘کے حقيقي ماجرا کي نسبت ’’ آگاہي و شعور اور معرفت ‘‘حاصل کريں۔ايسا نہ ہو کہ ہم مجلس ميں منبر پر جا کر مجلس پڑھيں يا کسي اور جگہ تقرير کريںليکن ہمارا موضوع مجلس ميں شرکت کرنے والے پير وجوان،زن و مرد اور اہل فکر و عقل کو اِس سمت لے جائے کہ ’’ہم نے مجلس ميںبھي شرکت کي اور امام حسين پر گريہ بھي کيا ليکن کس لئے؟!اصل ماجرا آخر کيا تھا؟!امام حسين پر گريہ کرنے کا کيا مقصد ہے؟! امام حسين آخر کربلا کيوں تشريف لائے تھے اوريہ واقعہ کيوں رونما ہوا‘‘؟!چنانچہ منبر پر ايک خطيب يا مقرر کي حيثيت سے آپ کو اپنے مخاطب کے اذہان ميں اٹھنے والے اِن تمام سوالات و شبہات کا جواب دينا چاہئے۔يہ آپ کي ذمہ داري ہے کہ واقعہ کربلا کے حقيقي ماجرا اور حقائق کي نسبت لوگوں ميں معرفت پيدا کريںاوراُن ميں آگاہي و شعور بيدار ہو ۔اگر آپ کي جانب سے مجلس عزا اورتقريرميں يا بيا ن کردہ کسي اور مطلب ميںاِس جانب کوئي روشن و واضح نکتہ يا کم ازکم کو ئي ايک اشارہ موجود نہ ہو تو آپ کي مجلس ،مکمل مجلس نہيں کہلائے گي۔ ممکن ہے کہ آپ کي مجلس اپنے لازمي فائدے کو اپنے ہاتھ سے کھو بيٹھے اور يہ بھي ممکن ہے کہ بعض افراد کيلئے بعض فرضيوں کي بنا پر نقصاندہ بھي ثابت ہو۔

تيسري خصوصيت:مجلس عزائ ايمان و معرفت ميں اضافے کا سبب ہو

مجالس عزا کي تيسري خصوصيت يہ ہو ني چاہئے کہ وہ مجلس ميں شرکت کرنے والے افراد کے ايمان اور معرفت ميں اضافے کا سبب بنیں۔ايسي مجالس ميں ضروري ہے کہ دين سے ايسے نکا ت کو موضو ع بنا کر پيش کيا جا ئے جو سامعين کے ايمان ومعرفت ميں اضافہ کا سبب بنیں ۔مقررين اور خطبائ حضرات کو چاہئے کہ وہ اپني تقارير ميں انساني قلب کو متوجہ کرنے والي وعظ و نصيحت،ايک مستند وصحيح حديث اور اُس کي تشريح،تاريخ کا ايک عبرت اور درس آموز واقعہ اور موجودہ زمانے کے حالات پر اُ س کي تطبيق ،ايک قرآني آيت کي تفسير اور اُس کے انفرادي ،اجتماعي،سياسي ،اقتصادي،ثقافتي اور مادي ومعنوي پہلووں کي وضاحت يا ايک اسلامي مفکر اور بلند پا يہ عالم دين کي کسي با ت کواپنے سامعين کيلئے بيان کریں۔ايسا نہ ہو کہ کوئي منبر پر جائے ،لفاظي کرے،مختلف قسم کي با تيں کرے اور اگر کوئي نکتہ بھي بيا ن کرے تو وہ ضعيف و کمزور نکتہ ہوکہ جو نہ صرف ايمان ميں زيادتي کا سبب نہ بنے بلکہ اُلٹا اُن کے ايمان کو کمزور بنا دے،اگر ايسا ہو تو ہم اِن مجالس سے مطلوب فوائد کو حاصل نہيں کر سکتے۔

واقعہ کربلا اوراہل بيت سے محبت کي معراج

يہ محبت کا عنصر ہے جو ايمان کو اہميت،قدرو قيمت اور رعنائي عطا کرتا ہے۔جب تک ايمان ،گہرے عشق ومحبت کے ساتھ ايک احساساتي اور جذباتي رشتہ نہ جوڑے وہ کسي کام نہيں آسکتا۔يہ محبت ہي ہے جومقام عمل ميں ايمان کو استحکام بخشتي ہے،اِسي طرح محبت کے بغير کسي بھي تحريک کو کاميابي سے ہمکنار نہيں کياجا سکتاہے۔دين ومذہب کے دائرے ميں سب سے بالا ترين محبت يعني ’’محبت اہل بيت ‘‘ہمارے پاس موجود ہے ۔اِس محبت کي معراج ہميں واقعہ کربلاميں نظر آتي ہے کہ جو ايک تاريخ اور ثقافت و تہذيب کي شکل ميںہمارے پاس ايک يا د گار واقعہ کي صورت ميں موجو د ہے۔

قديمي روش ا ور اسلاف کي روايات کي بنيادوں پر عزا داري کي اہميت

ميںحقيقتاً اِ س با ت سے بہت خوف زدہ ہوں کہ ہم اسلامي حاکميت اور اسلام اور اہل بيت کي فکر کے وسعت پانے والے اِس دور ميں کہيں اپني ذمہ داريوں پر عمل پيرانہ ہوں سکيں ۔بہت سے ايسے کام ہيں کہ جن کي انجام دہي لوگوں کو خدا اور دين سے نزديک کرتي ہے کہ اُس ميں سے ايک کام قديمي روش اور اسلاف کي روايات کي بنيادوں پر قائم عزا داري ہے کہ جولوگوں کو دين سے قريب لا نے کا با عث بنتي ہے۔يہ جو امام خميني نے فرمايا کہ’’آپ کو چاہئے کہ قديم روش اور اسلاف کي روايات پر قائم عزاداري کو جاري رکھيں‘‘اِسي وجہ سے ہے کہ اِس کے ذريعہ لوگوں کو دين خدا کے نزديک لا جا سکتا ہے۔مجالس عزا ميں شرکت کرنا ،مصائب پڑھنا اور سننا،گريہ کرناسر و سينہ پيٹنا (ما تم کرنا)اورانجمنوں کي منظم شکل ميں ماتم کرتے ہوئے غم و اندوہ کي شکل ميںجلوس نکالنا اورسينہ زني کرتے ہوئے چلنااُن اُمور سے تعلق رکھتا ہے کہ جوعوامي احساسات اور قلبي رشتوں کو خاندان رسالت کي نسبت زيادہ پُر جوش اور مستحکم کرتے ہيں۔اِس کے مقابلے ميںعزاداري ميںاور عزاداري کے علاوہ بہت سے ايسے کام ہيں کہ جن کي انجام دہي لوگوں کو دين سے دور کر ديتي ہے۔(خصوصاًپاکستاني معاشرے ميں کہ جہاں ہم ايک سني معاشرے ميں رہتے ہيں اورہمارے معاشرے ميں اہل سنت برادران کي تعداد ہم سے کہيں زيادہ ہے لہذا وہاں عزاداري اور عزاداري کے علاوہ ايسا کو ئي کام انجام نہيں دينا چاہئے کہ جو اہل سنت برادران کے نزديک مذہب تشيع کي توہين وتحقير کا سبب قرار پائے، نيز اِس بات کي طرف بھي توجہ رہے کہ تقسيم پا کستان سے قبل ہم ايک ہندو معاشرے ميں رہتے تھے تو اُس ماحول ميں ہو نے والي عزاداري کا رنگ اورمزاج اُس ہندو مسلم معاشرے کے مطابق تھا،اب تقسيم کے بعد الحمد للہ ہم آزاد ہيں اور ايک آزادمسلم معاشر ے ميں سانس لے رہے ہيں لھذا آج کي ہمار عزاداري کو ہمارے آج کے آزاد مسلم معاشر ے کے مزاج اورثقافت کے عين مطابق ہونا چاہئے۔دوسري با ت يہ کہ يہاں اسلاف کي روايات پر قائم عزاداري سے مراد ’’ريا وتصنع اور بناوٹ ‘‘سے دور عزاداري ہے کہ جو آج کي موجودہ عزا داري ميں ہميں جا بجا نظر آتي ہے۔ مرثيہ ہو يا سلام وسوز خواني، خطا بت يا پھر نوحہ خواني کا وسيع و اہم ميدان ،سب ميں’’غلواور ريا و تصنع‘‘ کا عنصر بڑھتا جا رہا ہے اور’’ خلوص اور غم واندوہ‘‘ کا عنصر جو گذشتہ زمانے ميں ہماري مجالس اور جلوسوں کي شان اور ہماري عزاداري کا خاصہ تھا،کم ہوتا نظر آرہا ہے ۔ اب امام حسين کے ہدف اورکربلا کے مقصد کے بجائے ذاتي شہرت اورنام ونمودہمارا مطمح نگاہ ہو گيا ہے۔اب پيغام کربلا کي ترويج و اشاعت کے بجائے ذاتي سياست کي دکانوں کو چمکانے اوربلند پا يہ عالم دين کے معتبر اور قابل اہميت باتوں اور نکات کے بجائے شہرت کے سمندر کي سطح پر تيرنے والے کھو کھلے مقرروں اور خطبائ کي چرب زباني نے جگہ لے کي ہے ۔شب بيداريوں ميں انجمنوں کي ايک دوسرے پر سبقت لينے کي جنگ ،نوحہ جا ت کي کيسٹوں اور سي ڈيوں کي فروخت کيلئے نوحہ خوانوں کي ماڈلنگ کے با زار کا گرم ہونا،يہ سب وہ آفات ہيں کہ جو ہمارے اسلاف کي روايات پر قائم عزاداري کو لاحق ہيں،اِسي لئے علما خصوصاً امام خميني اور رہبر عاليقدر اِس با ت پر زار ديتے ہيں کہ قديم روش اور اسلاف کي روايا ت پر قائم عزاداري کو زندہ رکھا جائے۔يہاں قديم روش سے مغالطہ نہ ہو جائے کہ اِس جانب بھي توجہ ضروري ہے کہ ہمارا ملک کثير القوميتي ملک ہے کہ جہاں بيک وقت کئي ثقافتيں ،زبانيں اور رسم ورواج ايک ماحول ميں زندگي بسر کرہي ر ہيںلہذا ہميں دوسري اقوام کي تہذيب و ثقافت اور رسم ورواج کو اپني تبليغ اور عزاداري ميں ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے ۔ مترجم)

عزاداري کو لا حق خطرات

مطالب کو بيان کرنے ميں اہل منبر اور خطبائ کي سنگين ذمہ داري

مجھے افسوس کے ساتھ يہ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہم مجالس ميں اِس با ت کا مشاہدہ کرتے ہيں کہ بعض اہل منبر اور خطبائ اپني مجالس ميں ايسے مطالب نقل کرتے ہيں کہ جو نہ صرف دليل و برہان اور سند و معتبر ہو نے کے لحاظ سے ناقص ،کمزور اور غير معتبر ہو تے ہيں بلکہ ايک ذہين اور اہل منطق و استدلالي(عقلمند) سامع کے ذہن ميں اپني تاثير کے لحاظ سے بھي خراب پيدا کرنے والے ہو تے ہیں۔مثلاًکسي کتاب ميں کچھ باتوں کو نقل کيا گيا ہے اور آپ کے پاس اِس بات کے جھوٹے ہو نے کي کو ئي دليل نہيں ہے،ممکن ہے صحيح ہو اور ممکن ہے کہ جھوٹ ہو ۔ليکن اگر آپ اُن مطالب کو نقل کريں تووہ آپ کے سامع يا کسي طالبعلم کے ذہن ميںدين کے متعلق کوئي شبہہ،اعتراض اور سوال پيدا کرنے کا باعث بنے اور اُس کا ذہن الجھن کا شکا ر ہو جائے۔حتيٰ آپ کا بيان کردہ مطلب اگر اپني سند کے اعتبار سے مستند ہي کيوں نہ ہو ،چونکہ(وہ آپ کے مخاطب کي ذہني سطح کے مطابق نہيں ہے اور) اُس کي گمراہي اور انحراف کا موجب ہے ،آپ کو اُسے نقل نہيں کرناچاہئے ؛غير مستند وغير معتبر اور عقلي ومنطقي اُصولوںسے متصادم مطالب کي با ت تو چھوڑ ديجئے!

آپ کابيان ،نوجوان نسل کے ذہن سے شکوک شبہات کو دور کرے نہ کہ ايجاد !

آج ہمارے ملک پر دشمن کي ثقافتي يلغار کے نتيجے ميںہميں جو سب سے بڑا خطرہ لا حق ہے ہو يہ ہے کہ يہ ثقافتي يلغار ہماري نوجوان نسل کے اذہا ن ميںشکوک و شبہات اديجا د کرتي ہے،يہ کام صرف دشمن ہي انجام نہيں ديتا بلکہ وہ افراد بھي يہ کام انجام ديتے ہيں کہ جو ہماري فکر کو قبو ل نہيں کرتے۔مگر کيا يہ ہو سکتا ہے کہ جو بھي ہمارے افکار خيالات کو قبول نہ کرے ،وہ بہرہ ہو جا ئے ،ہمارے خلاف کوئي بھي بات اپني زبان سے نہ نکالے اور کوئي بھي شبہہ ايجاد نہ کرے؟!کيا اِس با ت کو قبول کيا جا سکتا ہے؟بہر حال وہ بھي بات کرتے ہيں،شکوک وشبہات ايجاد کرتے ہيںاور نوجوان نسل کے ذہن ميں سوالات اور اعتراضات پيدا کرتے ہيں۔ليکن سب سے اہم بات اور قابل غور نکتہ يہ ہے کہ آپ علما،خطبا اور اہم منبر ايسي با ت کہيں کہ جو اُن کے اذہان سے شکوک و شبہا ت کو نہ صرف يہ کہ دور کرے بلکہ اُن ميں زيادتي کا سبب نہ بنے۔

بعض افراد اپني اِس سنگين ذمہ داري پر توجہ ديئے بغير منبر پر جا کر ايسي با تيں کرتے ہيں کہ جو نہ صرف سامعين کے اذہان ميں موجود گھتيوں کو نہيں کھولتيں بلکہ مزيد اُن ميں اضافے اور پيچيد گيوں کا سبب بنتي ہيں اگرايسي صورتحال سامنے آئے کہ کوئي منبر پر جا کر ايسي بات کہے کہ جس سے ايک نوجوان يا نوجوانوں کا ايک گروہ ’’دين‘‘ميں شک کرنے لگے اور وہ آپ کي کہي ہو ئي با ت کو سننے کے بعد چلا جائے اور آپ اُسے نہ جانتے ہوں تو آپ اپني اِس غلطي کا کس طرح ازالہ کر سکتے ہيں؟کيا آپ کي يہ اجتماعي غلطي قابل جبران ہے؟کيا خدا وندعالم ہماري اِس غلطي کو معاف فر کرے گا؟واقعاً يہ ايک بہت مشکل مسئلہ ہے اور ايک بہت سنگين ذمہ داري ہے!(خدا وند عالم سورہ يا سين ميں ارشاد فر ماتا ہے کہ : ’’ونکتب ما قدّموا و آثارھم‘‘۔ہم اُن کے اعمال کو بھي لکھتے ہيں اور اُن کے اعمال کے اثرات کو بھي تحرير کرتے ہيں‘‘۔انسان کا ايک عمل ہو تا ہے اور ايک اُس کا نتيجہ؛آپ کي منبر سے بيان کي ہو ئي بات آپ کا عمل ہے کہ اگر صحيح اور درست ہو تو اچھا نتيجہ ملے گا اور اگر خدا نخواستہ صحيح نہ ہو تو آپ کو بہر حال اُس کا جواب دينا ہو گا۔آپ کي اُسي با ت کا ايک نتيجہ بھي ہو گا اور وہ يہ ہے کہ آپ کے منبر سے آپ کي با ت سننے کے بعد ايک نوجوان گمراہ ہو جا ئے يا دين کي نسبت اُس کے ذہن ميں شکوک و شبہات پيدا ہو جائيں اور آپ اُس کي دوبارہ اصلاح نہيں کر سکيں ۔نيز وہ نوجوان آپ کي بات سے گمراہ ہو کر کئي دورے نوجوانوں کي گمراہي کا سبب بنے تو وہ بھي آپ ہي کے حساب ميں لکھي جا ئے گي۔مترجم)

بدعت اور عزاداري؛

ائمہ معصومين کي قبور کي زيارت ميں پيدا ہونے والي بدعت!

ابھي کچھ عرصہ قبل ائمہ طاہرين کي زيارت کيلئے جانے والے افراد ميں ايک عجيب وغريب بدعت کا مشاہدہ کيا گيا ہے کہ جب وہ حرم کے صحن ميں داخل ہونا چاہتے ہيں توخود کو سينے کے بل گرا ديتے ہيں اور گھسيٹ گھسيٹ کر خود کو حرم تک پہنچاتے ہيں!آپ جانتے ہيں کہ لوگ پيغمبر اسلام ۰ ،امام حسين ،امام موسيٰ کا ظم اور اما م

رضا کي قبور کي زيارت کرتے ہيں،اِسي طرح علما ،فقہا او مجتہدين بھي زيارت سے شرفياب ہو تے ہيںتو کيا آپ نے کبھي سنا ہے کہ کو ئي ايک انسان یا کوئي عالم دين اور فقيہہ و مجتہد جب کسي امام معصوم کي زيارت کا قصد کرتا تھا تو حرم کے صحن کے دروازے سے خود کوسينے کے بل گرا کر گھسيٹتا ہوا حرم تک جا تا تھا؟!(اِسي نوعيت کي بدعتيں ہميں امام بارگاہوں اور علم حضرت عباس کي زيارت کے وقت نظر آتي ہيں کہ جب مومنين اِن کي زيارت کيلئے جاتے ہيں تودروازے کي چوکھٹ یا سيڑھيوں کو چومتے ہيں۔مترجم)

اگر يہ کام مستحب اور مستحسن ہوتا تو ہمارے بزرگان اور علما و فقہا اِسے انجام ديتے اور اِس کا م ميں دوسرو ں پر سبقت ليتے،ليکن اُنہوں نے ايسا نہيں کيا۔حتيٰ آيت اللہ العظميٰ بروجردي سے نقل کيا گيا ہے کہ با وجود يہ کہ وہ ايک بڑے فقيہہ ،بزرگ عالم دين اور روشن فکر مجتہد تھے ،ائمہ معصومين کے حرموں کي چوکھٹ کے بوسے کو کہ شايد مستحب ہو،منع فر ما تے تھے۔وہ فر ما تے تھے کہ ’’يہ کام انجام نہ ديجئے ،ايسا نہ ہو کہ آپ کادشمن يہ خيال نہ کرے کہ آپ غير خدا کو سجدہ کر رہے ہيں اور نتيجہ ميں وہ آپ کو اور آپ کے مذہب کو دشنام ديں‘‘!بہت سے لوگ امام حسين اور امام رضا کي زيارت (اور جلوس عزا اور امام بارگاہوں ميں داخل ہو تے ) وقت (حرم يا امام بارگاہ کے دروازت يا چوکھٹ کو چومنے کا)يہ کام انجام ديتے ہيں،آيا يہ کا م صحيح ہے؟!يہ کام صحيح نہيں ہے اور يہ کام دين اور امام معصوم کي زيارت کي توہين ہے!کون ہے جو لوگوں ميں اِس قسم کي بد عتوں کو رائج کر رہا ہے؟!ايسا نہ ہو کہ يہ کام دشمن کا ہو ،يہ آپ کي ذمہ داري ہے کہ اِس عوام کيکئے بيان کريں اور اُنہيں حقائق سے آگاہ اور اُن کے اذہان کو روشن کريں۔(يہ کام علمائ،خطبائ،اہل منبر اور مقررين حضرات کا ہے کہ وہ اِن بدعتوں کا راستہ روکنے کيلئے اپنے فن خطابت کو بروئے کا ر لائيں،عوام کو اِس کے خطرات سے آگاہ وہوشيار کريںاور اُنہيں دشمن یا دشمن کے ايجنٹوںکے مذموم مقاصد سے با خبر کريں۔مترجم)

مکتب تشيع کي حقانيت کے اثبات کيلئے منطق اور دليل و بر ہان سے استفادہ

دين اسلام ،دين منطق و دليل ہے اور اسلام کا سب سے منطقي ترين حصہ ’’مکتب تشيع‘‘ہے۔شيعہ علما ئ ہر زمانے ميں روشن و درخشاں خورشيد کي مانند اُفق تاريخ پر فروزاں رہے ہيں اور اُن کے مقابلے ميں آنے والوں ميں کسي ايک ميں بھي يہ جرآت نہيں تھي کہ ہو يہ کہے کہ آپ کي منطق و دليل کمزور اور ضعيف ہے۔يہ علماو فقہائ خواہ ائمہ معصومين کے زمانے ميں ہوں مثلاً’’مومن طاق اور ہشام ابن حکم‘‘يا عصر ائمہ طاہرين کے بعد آنے والے علما ئ ہوں مثلاً’’بني نوبخت،شيخ مفيد‘‘يا اُس کے بعد آنے والے زمانے ميں مثلاً’’علامہ حلي ‘‘۔ہم اہل منطق و استدلال ہيںلہذا آپ عصر حاضر ميںشيعہ عقائد و نظريات سے متعلق لکھي جانے والي کتابوںکو ديکھے کہ اُن ميں کس مستحکم استدلال سے استفادہ کيا گيا ہے،علامہ شرف الدين عاملي کي کتابوں کو ملا حظہ کيجئے ،اِسي طرح علامہ اميني کي کتاب’’الغدير‘‘کا اٹھايئے ،تو آپ پر وجد کي کيفيت چاري ہو جا ئے گي!کہ کتب سر اپا استدلال اور منطق کے مضبوط قلعے ہيں ۔ليکن بعض اہل منبر اور شعرائ کرام کي جانب سے آج جو کچھ منبروں پراورشاعري ميں بيان کيا جا رہا ہے وہ نہ صرف يہ کہ استدلال و منطق سے کو سوں دور ہے بلکہ ’’اَشبَہُ شَيئٍ بِالخَرَافَۃِ‘‘،’’يہ خرافات کا مجموعہ يا اُس سے ملتي جلتي کوئي چيز ہے‘‘۔ آخر يہ سب منبر امام حسين سے کيوںبيا ن کيا جا رہا ہے ؟!(امام رضا فرماتے ہيں کہ ’’لَوعَلِمُوا النَّاسُ مَحَاسِنَ کَلَامِنَا لَاتَّبَعُونَا‘‘،’’اگر لوگ ہمارے کلام کي خوبصورتيوںکو جانتے تو ہماري ضرورپيروي کرتے‘‘! اے کاش ہمارے منبروں اور مجالس سے کلام اہل بيت کے خوبصورت نکات کو بيان کيا جا تا تا کہ لوگ اُن کے گرويدہ اورعاشق ہو جاتے،ليکن بعض اہل منبروں کي خود خواہي ،نام ونمود،شہرت طلبي اورمال دنيا کي ہوس نے منبر امام حسين کو اُن کے ہا تھوں کا با زيچہ بنا ديا ہے کہ وہ جو چاہيں ،جيسا چاہيں اور جب چاہيں بيان کريںاور کوئي اُن کو روکنے والا نہ ہو!آج جو کچھ مجالس کے نام پر منبروں سے بيان کيا جا رہا ہے وہ مکتب تشيع کي حقيقي صورت کو مسخ کرنے کيلئے کا في ہے،وہ انجمن مافيا ہو يا علامہ مافيا يا پھر شاعروں کا گروہ ، يہ سب جان بوجھ کر يہ کام انجام دے رہے ہيں،ايک طرف غلو اور امير المومنين کو خدا بنانے کا پر چار کيا جا رہاہے تو دوري طرف بغير عمل کے عقيدہ رکھنے کا۔البتہ اِس نکتے کي طرف بھي توجہ ضروري ہے کہ ہمارے يہاںخطبائ اور شعرائ اکرام ہماري عوام کي اکثريت اِس با ت کو پسند نہيں کرتي

تبصرے
Loading...