فلسفه خلقت

انسان اور دوسری كوئی بھی باشعور مخلوق اپنے ارادہ و اختیار سے جن كاموں كو بھی انجام دیتی ہے ان كا كوئی نہ كوئی مقصد اور ہدف ہوتا۔انسان غذا كھاتا ہے تاكہ سیر ہوجائے ۔ پانی پیتا ہے تاكہ اس كی پیاس دور ہو ۔

وہ لباس پہنتا ہے تاكہ گرمی اور سردی كے برے اثرات سےخود كو محفوظ ركھے ۔

علم حاصل كرتا ہے تا كہ دانش مند بن جائے ۔

مصیبت زدہ لوگوں كی مدد كرتا ہے تا كہ اس كا نام نیكی سے لیا جائے یا اس كے عمل كے بدلے آخرت میں اللہ تعالی اجرو ثواب سے نوازے یا پھرمحتاجوں اور غریبوں كی امداد وہ اس لئے كرتا ہے كہ كہیں غریب لوگ متحد ہو كر اس كے مقابل انقلاب و شورش نہ برپا كریں ۔

حتی كہ اگر كوئی شخص اپنی میز پر كام كرتے ہوئے قلم وكاغذ ہاتھ میں لے كر ان سے كھلینے لگتا ہے تو اس كا یہ بظاہر بے سود مشغلہ بھی اپنے بھی اپنے پیچھے ایك مقصد ركھتا ہے ۔ اگر ہم ذرا غور كریں تو ہمیں معلوم ہوگا كہ وہ اس طرح اپنے پریشان كن خیالات سے اپنے ذہن كو بچانا چاہتا ہے ۔

یا پھراسے اس بے سود مشغلے كی عادت ہوگئی ہے اور وہ ایسا نہ كرے تو اسے تكلیف ہوتی ہے ۔ اس تكلیف سے بچنے كے لئے وہ عادت كے مطابق قلم، كاغذ یا كوئی اور چیز ہاتھ میں لے كر اس سے كھیلنے لگتا ہے ۔

اللہ تعالی نے یہ كائنات كس لئے بنائی؟

انسان اور دوسری كوئی بھی باشعور مخلوق اپنے ارادہ و اختیار سے جن كاموں كو بھی انجام دیتی ہے ان كا كوئی نہ كوئی مقصد اور ہدف ہوتا۔انسان غذا كھاتا ہے تاكہ سیر ہوجائے ۔ پانی پیتا ہے تاكہ اس كی پیاس دور ہو ۔

وہ لباس پہنتا ہے تاكہ گرمی اور سردی كے برے اثرات سےخود كو محفوظ ركھے ۔

علم حاصل كرتا ہے تا كہ دانش مند بن جائے ۔

مصیبت زدہ لوگوں كی مدد كرتا ہے تا كہ اس كا نام نیكی سے لیا جائے یا اس كے عمل كے بدلے آخرت میں اللہ تعالی اجرو ثواب سے نوازے یا پھر

محتاجوں اور غریبوں كی امداد وہ اس لئے كرتا ہے كہ كہیں غریب لوگ متحد ہو كر اس كے مقابل انقلاب و شورش نہ برپا كریں ۔

حتی كہ اگر كوئی شخص اپنی میز پر كام كرتے ہوئے قلم وكاغذ ہاتھ میں لے كر ان سے كھلینے لگتا ہے تو اس كا یہ بظاہر بے سود مشغلہ بھی اپنے بھی اپنے پیچھے ایك مقصد ركھتا ہے ۔ اگر ہم ذرا غور كریں تو ہمیں معلوم ہوگا كہ وہ اس طرح اپنے پریشان كن خیالات سے اپنے ذہن كو بچانا چاہتا ہے ۔

یا پھراسے اس بے سود مشغلے كی عادت ہوگئی ہے اور وہ ایسا نہ كرے تو اسے تكلیف ہوتی ہے ۔ اس تكلیف سے بچنے كے لئے وہ عادت كے مطابق قلم، كاغذ یا كوئی اور چیز ہاتھ میں لے كر اس سے كھیلنے لگتا ہے ۔

مختصر یہ كوئی بھی باشعور بغیر كسی مقصد كے كوئی كام انجام نہیں دیتا ۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے كہ اس دنیا اور انسان كو اللہ تعالی نے كس مقصد كی خاطر پیدا كیا ہے ؟

كیا اللہ تعالے بھی ہماری طرح اپنے كسی فائدے یا كسی نقصان و خطرے سے بچنے كے لئے كام انجام دیتا ہے ۔؟

جب ہم یہ كہتے كہ كوئی علقلمند كسی كو بے مقصد انجام نہیں دیتا، اس كا كوئی نہ كوئی ہدف ضرور ہوتا ہے تو ہمیں یہ معلوم كرنا چاہیئے كہ ہدف كے معنی كیا ہیں ؟

جب ہم غور كریں گے تو ہدف كے تین قابل تصور معانی ہمارے سامنے آئیں گے:

1) فائدہ حاصل كرنا اور نقصان كا سد باب ۔ انسان كی كچھ حاجات اور ضروریات ہوتی ہیں، اس كی یہی ضروریات اور كمزوریاں مختلف كام انجام دینے كی محرك بنتی ہیں ۔ وہ خطرات سے دور رہنے كے لئے كچھ اقدامات پر مجبور ہوتا ہے ۔ یہ وہ بہت سے محرمات اور ہدف ہیں جو عام طور پر انسانی زندگی كا احاطہ كیے رہتے ہیں ۔

2) ممكن ہے كسی كام كے انجام دینے كی پہلی غرض دوسروں كو نفع پہنچانا ہو، لیكن در حقیقت اس كام كا مقصد خود انسان كی اپنی معنوی تكمیل اور اپنا روحانی سكون ہو ۔

اس صورت میں بھی اصل مقصد اپنی ذات كے لئے نفع حاصل كرنا اور نقصان و ضرر سے خود كو محفوظ كرنا ہوتا ہے دوسروں كو فائدہ پہنچانا در اصل اس مقصد اور ہدف كے حصول كا ایك ذریعہ ہوتا ہے ۔

بہت سے كام جو انسان بظاہر دوسروں كے نفع كے لئے اور اپنا فائدہ پیش نظر ركھے بغیر انجام دیتا ہے وہ در اصل اسی قسم كے كام ہوتے ہیں ۔ ایك دولت مند آدمی، محتاجوں كی مدد كرتا ہے اور بظاہر اس میں اس كا اپنا كوئی فائدہ نظر نہیں آتا ۔ لیكن فی الواقع وہ اپنے اس رنج كو دور كرتا ہے ۔ جو محتاجوں كی تكلیف كو دیكھ كر اسے پہنچتاہے ۔ اس طرح وہ ایك طرح كا روحانی سكون حاصل كرتا ہے ۔ اس طرح وہ ایك طرح كا روحانی سكون حاصل كرتا ہے یا اپنی باطنی تكمیل كے لئے یا پھر اللہ تعالی سے اجر وثواب حاصل كرنے كے لئے وہ محتاجوں كی مدد كرتا ہے 

اسی طرح ایك باپ اپنے فرزندوں كی پرورش اور تعلیم و تربیت كے لئے تكلیفیں برداشت كرتا ہے اور كہتا ہے كہ یہ كام میں اپنے كسی نفع كے لئے نہیں كررہا ہوں ۔ حقیقت میں اس ہدف ایك مثالی فرزند كا باپ كہلانا ہوتا ہے كیونكہ وہ جانتا ہے كہ اچھے اور نیك فرزند كا باپ ہونا ایك اعزاز اور اعلی افتخار ہے ۔

ظاہر ہے كہ انسان كا ہدف اپنی ذات كی تكمیل ہوتا ہے لیكن اس ہدف كو حاصل كرنے كے لئے وہ دوسروں كی تكمیل كے لئے كام كرتا ہے ۔

یہ خیال نہیں كرنا چاہیئے كہ ہر شخص اچھے كام كسی مقصد كے پیش نظر انجام دیتا ہے اور یہ امید ركھتا ہے كہ اس كے اچھے كاموں كا كچھ نہ كچھ فائدہ لوٹ كر اس كی ذات كو پہنچے گا، اس لئے اچھے كاموں كی كوئی قدرو قیمت نہیں ہے ہمیں اس اندازسے نہیں سوچنا چاہیئے ۔ ہر چند كہ انسان اپنے شخصی فائدے كے لئے نیكی اور بھلائی كی راہ اختیار كرتا ہے اور برے و ناپسندیدہ كاموں سےاحتراز كرتا ہے اور دوسروں كے فائدے میں اپنا نفع تلاش كرتا ہے ۔ یہ بات خود بڑی اچھی اور قابل قدر ہے كیونكہ اس طرح وہ اپنی تكمیل كی راہ اختیار كرتا ہے ۔

3) بعض كام كرنے ولے ایسے ہوتے ہیں جن كے پیش نظر اپنا كوئی مفاد نہیں ہوتا ہو صرف اور صرف دوسروں كی خاطر اور انھیں نفع پہنچانے كے لئے كام كرتے ہیں ۔

جیسے ایك ماں جسے اپنی پرواہ نہیں ہوتی، وہ ایك پروانے كی طرح شمع كے گرد چكر لگاتی رہتی ہے ۔ اور خود كو جلادیتی ہے ۔ وہ اپنے فائدے كو نہیں دیكھتی ۔ یہ بھی ایك كیفیت ہوتی ہے ۔ جو بندہ اللہ تعالی كا فریفتہ و شیفتہ ہوتا ہے وہ اپنے معبود كی بندگی اور عبادت میں ایسا مصروف ہوتا ہے كہ اسے اپنا ہوش نہیں رہتا ۔ جیسے كہ امیرالمومنین حضرت علی (ع) اللہ تعالی كی پرستش اس لئے نہیں كرتے تھے كہ اس میں ان كا فائدہ تھا بلكہ اس لئے كرتے تھے كہ اللہ تعالی عبادت و پرستش كا سزاوار ہے ۔ اسی لئے وہ اس كی عبادت و پرستش كرتے تھے ۔ ہدف اس طرح كے بھی ہوتے ہیں ۔

اب ہم زیر بحث سوال كا جواب دیتے ہیں

جب ہم نے اللہ تعالی كو اس طرح پہچان لیا اور جان لیا كہ وہ ایك ایسا وجود ہے جو ہر پہلو سے بے نہایت ہے اور غیر محدود ہے اور اس كی ذات میں كسی طرح كا نقص اور كمی نہیں ہے ۔

اس سے یہ بات از خود ظاہر ہوجاتی ہے كہ اللہ تعالی كے كاموں كا ہدف صرف وہی ہے جس كا ذكر ہم نے معانی نمبر 3 كے ضمن میں كیا ہے ۔ جس سے مراد اپنی مخلوق كو فائدہ پہنچانا اور ان كو ہر اعتبار سے (روحانی، جسمانی، مادی اور معنوی) كامل بنانا ہے، ان كی خامیوں كو دور كرنا اور ان كی حاجتوں كو پورا كرنا ہے ۔

دوسرے الفاظ میں یہ خدا ہے جو ہر وقت كہتا ہے :

من نہ كردم خلق تا سودی كنم

بلكہ تا بربندگان جودی كنم

“میں نے اس لئے خلق نہیں كیا كہ فائدہ حاصل كروں میرا مقصد بندوں پر كرم كرتا ہے ۔”

اللہ تعالی نے دینا كو اور انسان كو اس لئے پیدا نہیں كیا كہ براہ راست یا بالواسطہ طور پر اپنی حاجتوں میں سے كسی حاجت كو پورا كرے ۔ اس لئے كہ اس كی ذات بے نیاز ہے ۔ اسے كوی چیز كی حاجت نہیں ۔

اس نے كائنات كو اس لئے پیدا نہیں كیا كہ اس طرح اپنی كسی خامی كو دور كرے، اس لئے كہ وہ بے عیب اور بے نقص ہے ۔ ہمیں ہرگز اس كی ذات كو اپنے جیسا نہیں سمجھنا چاہیئے كیونكہ ہم سراپا محدود اور حاجت مند ہیں ۔

اللہ تعالی نے دنیا كو پیدا كیا تاكہ وہ منزل كمال كی طرف گامزن رہے اور ہر لمحے اپنی پوشیدہ صلاحیتوں اور قوتوں كو روبكار لائے اور ترقی و كمال كی آخری حد تك پہنچنے كی جدو جہد كرے ۔

اس كائنات كو اللہ تعالی نے اس لئے وجود بخشا كہ انسان اپنی ضروریات اور حاجتوں كو پورا كرنے اور ترقی و تكمیل كی منزلیں طے كرنے كے لئے اس كے وسائل سے فائدہ اٹھائے ۔

اللہ تعالی نے انسان كو پیدا كیا ۔ اسے قوت ارادہ عطا فرمائی تا كہ وہ اپنی پسند اور اپنے اختیار سے راہ كمال طے كرنے كی كوشش كرے اور اپنی خامیوں نجات حاصل كرے ۔

یہ كہا جساكتا ہے كہ دنیا اور انسانی كی تخلیق كا ہدف، كائنات كی غیر شعوری اور جبری تكمیل اور انسان كی ارادی اور اس كی خود پسند تكمیل ہے !

خالق كائنات كا ہدف اس كی اس تخلیق سے بجز اس كے اور كچھ نہیں ہے كہ وہ انسان كی خاطر تمام موجودات كی تكمیل چاہتا ہے ۔

قرآن كریم اور اسلامی روایات نے اس حقیقت كو مختلف طریقوں سے بیان كیا ہے ۔

“افحسبتم انما خلقناكم عبثاً و انكم الینا لاترجعون” (سورہ مومنون آیت 115 )

“كیا تم نے یہ سمجھ ركھا ہے كہ ہم نے تمہیں عبث اور بے ہودہ پیدا كیا ہے اور یہ كہ تم ہماری طرف نہیں لوٹائے جاؤگے ۔ (كیا تم یہ خیال كرتے ہو كہ اپنی تكمیل كے سفر كو ایك حقیقت مطلقہ كی طرف جاری نہیں ركھو گے اور اللہ توالی كی طرف لوٹائے نہیں جاؤگے ۔)”

نیز ارشاد ہوا :

” وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون ۔ ” ( سورہ ذاریات آیت 54)

” جن اور انس كو ہم نے سوائے بندگی كے كسی اور مقصد كے لئے پیدا نہیں كیا ۔ (تا كہ وہ خدا شناسی كے راستوں پر چلیں اور كمال انسانیت كی منزل پر پہنچیں)

یہ بات توجہ طلب ہے كہ اس آیت اور دوسری آیات قرآنی اور روایات میں عبادت كا جو ذكر آیا ہے اس كا مقصد كچھ مخصوص قسم كے مذہنی مراسم اور طریقے نہیں ہیں ۔ عبادت اور بندگی سے مراد خدا كا مطیع اور فرمانبردار ہو جانا اور خود كو بالكل اس كے سپرد كردینا ہے اور ان احكام كی اطاعت كرنا ہے جو فرد اور اجتماع كی روحانی اور جسمانی تكمیل كے لئے اللہ تعالی نے دیے ہیں ۔

ایك اور روایت میں آیا ہے :

” ماخلق العباد الا لیعرفوہ ۔ ” 1

” بندوں كی تخلیق اس لئے ہوئی ہے كہ وہ خدا كو پہچانیں ۔ “

یہ اور ایسی ہی دوسری اسلامی روایات اسی معنی اور مفہوم كی حامل ہیں كہ تخلیق كائنات كا ہدف اس دنیا اور بعد كی دنیا میں انسان كی ہمہ پہلو تكمیل ہے ۔

ایك حدیث كے مطابق :

” ما خلقتم للفناء بل خلقتم للبقاء ” (رسول گرامی اسلام (ص)) 2

” تمہیں نیست و نابود كرنے كے لئے نہیں پیدا كیا گیا بلكہ تمہیں پیدا كرنے كا مقصد ایك ہمیشہ كی زندگی عطا كرنا ہے ۔”

تخلیق كا ہدف انسان كو كمال كے انتہائی درجے پر پہنچانا اور ایك حیات جاوداں بخشنا ہے ۔

اگر فلاسفہ اسلام نے یہ كہا ہے: ” اللہ تعالی كے كام كسی غرض اور ہدف كے بغیر انجام پاتے ہیں یا ایك دوسری تعبیر كے مطابق خدا كی غرض اور ہدف خود خدا ہی ہوتا ہے ۔ “

تو اس بیان سے ان كا مقصد یہ ہے كہ كائنات اور انسان كی تخلیق سے اللہ تعالی كا مقصد كوئی نفع حاصل كرنا یا كسی نقصان اور ضرر سے خود كو محفوظ كرنا نہیں رہا ہے اور نہ ہے ۔ بلكہ دنیا اور انسان كی خلقت كا نتیجہ جیسا كہ ہم نے كہا ہے، كائنات كی جبری تكمیل ہے لیكن انسان كی ارادی و اختیاری تكمیل ہے ۔

كبھی لوگ پوچھتے ہیں كہ :

كیا اللہ تعالی انسان كی عبادت كا محتاج ہے كہ اس نے اسے عبادت كے لئے پیدا كیا ہے ؟

ہم نے اب تك جو كچھ كہا ہے اس میں اس سوال كا جواب بھی موجود ہے ۔ ہم یہ جان چكے ہیں كہ اللہ توالی نے دنیا كو اور انسان كو منزل كمال تك پہنچنے كے لئے پیدا كیا ہے ۔

اور اس منزل كا راستہ بندگی و اطاعت كا راستہ ہے ۔ اس لئے یہ كہنا درست ہوگا كہ

اللہ تعالی نے انسان كو عبادت اور ہمہ پہلو ارتقاء اور تكمیل كے لئے پیدا كیا ہے ۔ یہ بات ظاہر ہے كہ انسان كی عبادت كا نفع اور فائدہ خود اسی كو پہنچتا ہے اور اللہ تعالی انسان كی عبادت كا محتاج نہیں ہے ۔

” ان اللہ لغنی عن العالمین ” (سورہ عنكبوت آیت 6)

” اللہ تعالی تمام موجودات سے بے نیاز ہے ۔ ” لوگ یہ بھی سوال كرتے ہیں كہ :

” اللہ تعالی نے انسان كو پوری طرح كامل كیوں نہیں پیدا كیا ۔

اس كا جواب یہ ہے :

كمال حقیقت میں اسی كمال كو كہا جاسكتا ہے اور وہی كمال جزا كا اور تعریف كا مستحق ہوسكتا ہے جسے انسان نے اپنے ارادے سے اور اپنی آزادی اور اختیار كو كام میں لاكر حاصل كیا ہو ۔

اگر كسی شخص كو بغیر اس كے مانگے كوئی دولت دے دی جائے اور پھر اس كی خواہش كے بغیر اس سے واپس لے لی جائے اور اس دولت سے شفا خانے اور مسافر خانے تعمیر كئے جائیں تو یہ سارا كام اس كے فضل و كمال كا حصہ نہیں بنے گا اگر چہ یہ كام معاشرہ كے لئے سود مند ثابت ہوا ہے ۔

اس اعتبار سے دیكھیئے اگر انسان كو اللہ تعالی ایك كامل انسان كے طور پر پیدا كرتا تو انسان ہرگز اجر و تعریف كا مستحق قرار نہ پاتا ۔

قرآن كہتا ہے :” انا ھدیناہ السبیل اما شاكراً و اما كفوراً ” ( سورہ دہر ۔ آیت 3)

” ہم نے انسان كو نیكی اور بدی كی راہیں دكھادیں تا كہ وہ شكر گزار بنے اور فضیلت روحانی اور كمال انسانی حاصل كرے یا پھر یہ كہ وہ ناشكرا بن جائے اور درجہ كمال سے دور رہے ۔

مجلس مصنفين اداره در راه حق (قم) ايران؛ ترجمه: محمد خالد فاروقى

1. تفسیر نور الثقلین، ج 5، ص 132

2. تفسیر نور الثقلین، ج6 ص 249

تبصرے
Loading...