فزت برب الکعبۃ

رب کعبہ کی قسم میں فلاح پا گیا میں کامیاب ہوگیا۔

اے لسان اللہ کیا خوبصورت کلام ہے آپ کا نماز کے وقت پیغمبر اسلام کے نام سے اور مقدس مقام پر اللہ کے نام سے

فلاح پاگیا میں

کیا خوبصورت اذان تھی انیسویں کے روز وقت فجر، ایک مرد الہی کی زبان سے جو مثال و بے نظیر ہے و بے بدیل ہے دونوں جہانوں میں

کیا خوبصورت نماز تھی جس کا سلام سجدے میں کہا بجا لایا گیا 

اس شب علی کا حال کچھ اور طرح کا تھا انیسویں کی رات کی بات کررہا ہوں

مسلسل کمرے سے باہر نکلتے، آسمان پر نگاہ ڈالتے؛ 

کہا: خدا کی قسم میں جھوٹ نہیں کہتا اور مجھ سے جھوٹ نہیں کہا گیا، یہی ہے وہ رات جس میں مجھے شہادت کا وعدہ دیا گیا ہے۔

علی صبح کا انتظار کررہے تھے؛ تھکے ہوئے تھے اکتا گئے تھے زمانے کے جور و ستم سے؛ کنویں میں بھی مزید علی کے دکھ سننے کی طاقت نہ رہی تھی؛ کنواں بھی شاید اپنی برداشت کھو بیٹھا تھا علی کی مظلومیت کی داستانیں سن سن کر

نماز کا وقت آن پہنچا، علی نکلنے کے لئے تیار ہوئے 

کمر بستہ ہوکر نکلنا علی کی پرانی روایت تھی؛ اس رات کمر مضبوطی سے باندھ کر استقبال شہادت کے لئے نکلے 

مرغابیوں نے راستہ روکا بے زیانی کی زبان سے، آنکھیں علی کی آنکھوں میں ڈال کر اشک بھری آنکھوں کے ساتھ علی کے سامنے صف باندھ کر مسجد نہ جانے کی التجا کی 

مگر علی نے آنکھوں ہی آنکھوں میں کہا: تم کیا چاہتے ہو علی کو اب جانا چاہئے کہ زہراء منتظر ہے

عبا کا پلو چھڑایا مرغابیوں سے اور دروازہ کھول دیا 

اب دروازے کی باری تھی اس کو بھی گویا روکنے کی کوشش کرنی تھی

دروازے نے علی کے دامن میں ہاتھ ڈالا کہ مولا اپنا ارادے سے چشم پوشی کریں مجھ سے نہ گذریں

لیکن علی کو اب جانا تھا

کوفہ کا بھی حال عجیب تھا وہ علی کی آخری اذان سن رہا تھا؛ علی نے اس اذان کے ذریعے ایک بشارت بھی تھی کہ اے زہراء آپ کے انتظار کے دن پورے ہوگئے ہیں 

نماز کے لئے کھڑے ہوگئے

سجدے کے لئے سر جھکایا اپنے معبود کی بارگاہ میں؛ کیا سجدہ تھا یہ کہ زمین و آسمان دگرگونی کا شکار ہوئے

ہوا کیا ہے؛ علی کے خیبر گشا ہاتھ آسمان کی طرف اٹھ گئے

فرمایا: فزت برب الکعبۃ

اے ابن ملجم؛ اے اخلاق سے عاری قوتوں کی مراد

کیا تو سمجھتا ہے کہ علی کو تو زمان و زمین کی سطح سے مٹا سکا ہے!!!

قیام قیامت تک ماہ و خورشید و فلک ذکر علی کے ساتھ اپنے مداروں میں گھومتے ہیں اور تجھ پر اور تیرے ہمفکروں پر لعنت بھیجتے ہیں 

آج رات کوفہ کے یتیم دودھ کے پیالے لے کر علی کے گھر کے سامنے جمع ہوئے ہیں یہ سن کر کہ علی کے لئے دودھ پینا اچھا ہے

یتیم اللہ کی بارگاہ میں التجا کررہے ہیں کہ ایک بار پھر یتیم نہ ہوں

دوسری طرف سے علی نے دودھ کا پیالہ اپنے قاتل کی جانب بڑھا کر مردانگی کی نئی روایت رقم کی اور آنے والوں کو جوانمردی کا سبق سکھایا

میسّر نگردد بہ كَس این سعادت : بہ كعبہ ولادت، بہ مسجد شہادت

علی سجدے میں جام شہادت نوش فرماگئے وہی علی جن کی ٹانگ کو لگے تیر کو سجدے میں ہی نکالا جاسکا تھا جب وہ محو دیدار رب تھے اور  احساس تک نہ ہوا اس دنیاوی درد و تکلیف کا 

احساس ہوتا بھی کیسے کہ کعبہ میں آنکھ کھولی تھی علی نے اور مسجد میں شہادت پائی تھی 

مگر معاویہ اور اس کے وزیروں کی غیر اخلاقی، غیر انسانی اور غیر اسلامی تشہیراتی مہم کے کا نتیجے میں پھیلی ہوئی جہل و نادانی کا بھی کیا علاج ہے! کہ اہل شام کو مسجد میں علی کی شہادت کی خبر ملی تو ایک دوسرے سے پوچھنے لگے:

کیا علی نماز بھی پڑھتے تھے؛ کیا علی مسجد بھی جاتے تھے؟!!

تبصرے
Loading...